Pages

Tuesday, November 29, 2011

محرم الحرام کے فضائل ومسائل اور صومِ عاشوراء

محرم الحرام ہجری تقویم کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے واقعہ ہجرت پر ہے۔ گویا مسلمانوں کے نئے سال کی ابتداء محرم کے ساتھ ہوتی ہے۔
1۔محرم، حرمت و تعظیم والامہینہ ہے
قرآن مجید میں ہے کہ
﴿إنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰهِ يوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَا أرْبَعَةٌ حُرُمٍ ذٰلِکَ الدِّينُ الْقَيمُ فَلاَ تَظْلِمُوْا فِيهِنَّ أنْفُسَکُمْ﴾(التوبہ:۳۶)
”اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار مہینے ادب و احترام کے لائق ہیں، یہی درست دین ہے لہٰذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔“

یعنی ابتدائے آفرینش ہی سے اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرما رکھے ہیں۔ جن میں چار کو خصوصی ادب و احترام اورعزت و تکریم سے نوازا گیا۔ یہ چار مہینے کون سے ہیں، ان کی تفصیل صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے

کہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”زمانہ اپنی اسی حالت پر واپس لوٹ آیا ہے کہ جس پر وہ اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی۔ سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں، تین تو لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا مضر قبیلے کا ماہِ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔“ (بخاری:کتاب التفسیر، سورة التوبہ ؛۴۶۶۲/ مسلم: کتاب القسامہ، باب تغلیظ تحریم الدماء ؛ ۱۶۷۹)

مذکورہ حدیث میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: ایک تو یہ کہ محرم بھی حرمت والے مہینوں میں شامل ہے اور دوسری یہ کہ زمانہ اپنی سابقہ حالت و ہیئت پر واپس لوٹ آیا ہے۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ دورِ جاہلیت میں بھی لوگ حرمت والے مہینوں کا احترام کرتے اور جنگ و جدل، قتل و غارت گری اور خون ریزی وغیرہ سے اجتناب کرتے تھے۔ البتہ اگر کبھی حرمت والے مہینے میں انہیں جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ اپنے طور پر مہینوں کی تقدیم و تاخیر کرلیتے۔ اگر بالفرض محرم کا مہینہ ہے تو اسے صفر قرار دے لیتے اور (محرم میں اپنے مقصد پورے کرنے کے بعد) اگلے ماہ یعنی صفر کو محرم قرار دے کر لڑائی جھگڑے موقوف کردیتے۔ قرآن مجید نے اس عمل کو نسیئ قرار دے کر زیادتِ کفر سے تعبیر فرمایا۔ (التوبہ:۳۷)

جس سال نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حج فرمایا، اس سال ذوالحجہ کا مہینہ قدرتی طور پراپنی اصلی حالت پر تھا۔ اس لئے آپ نے مہینوں کے اَدل بدل کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت پر واپس لوٹ آیا ہے۔ یعنی اب اس کے بعد مہینوں کی وہی ترتیب جاری رہے گی جسے اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے جاری فرما رکھا ہے۔

دونوں باتوں کا حاصل یہی ہے کہ محرم ادب و احترام والامہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ادب و احترام والا بنایا جبکہ اس کے آخری رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت کو جاری رکھا اور عرب کے جاہل بھی اس کا اس قدر احترام کرتے کہ احترام کے منافی کسی عمل کے جواز کے لئے کم از کم اتنا حیلہ ضرور کرلیتے کہ فرضی طور پر حرمت والے مہینے کو کسی دوسرے غیر حرمت والے مہینے سے بدل لیتے۔

حجة الوداع کے موقع پر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے یہ بات از خود سمجھ آجاتی ہے کہ ماہِ محرم کی حرمت و تعظیم کا حضرت حسین کے واقعہ شہادت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں جو اس مہینے کی حرمت کی کڑیاں واقعہ کربلا اور شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ سے ملاتے ہیں۔ اس لئے کہ ماہِ محرم کی حرمت تو اس دن سے قائم ہے جس دن سے یہ کائنات بنی ہے۔

جیسا کہ سورئہ توبہ کی گذشتہ آیت﴿يوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ…﴾ سے واضح ہے۔

علاوہ ازیں سانحہ کربلاء، قطع نظر اس سے کہ اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت ہوئی، کا دین اسلام سے اس معنی میں کوئی تعلق نہیں کہ اس میں دین کی حفاظت کا کوئی مسئلہ درپیش تھا بلکہ اوّل تو دین اسلام حضرت حسین  رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت سے کئی عشروں پہلے ہی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی میں مکمل ہوچکا تھا،

جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:
  ﴿اَلْيوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِيتُ لَکُمُ الإسْلَامَ دِينًا﴾ ( المائدة:۲)

اور دوم یہ کہ دین کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اُٹھا رکھا ہے، 
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ﴾ 

معلوم ہوا کہ یہ تصور جہالت ولاعلمی پر مبنی ہے کہ ماہِ محرم کا ادب و احترام شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کا مرہونِ منت سمجھا جائے بلکہ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ سے پہلے اسی ماہ کی یکم تاریخ کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسے خلیفہ راشد کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آچکا تھا۔ مگر اس وقت سے آج تک کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ شہادت اس انداز سے پیش نہیں کیا گیا۔

حالانکہ اگر کسی بڑے آدمی کی موت یا شہادت کسی مہینے کے ادب و احترام کی علامت ہوتی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ ایسے صحابی ٴرسول  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے علمی، دینی، روحانی اور خلیفہ ثانی ہونے کے حوالے سے اس بات کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی زیادہ مستحق ہوتے کہ ان کی شہادت پر وہ سب کچھ کیا جاتا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پرکیا جاتا ہے۔ مزید برآں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابر و جلیل القدر صحابہ کرام کی شہادتیں بدرجہ اولیٰ یہ استحقاق رکھتی ہیں مگر اہل ِسنت ان تمام شہادتوں پر نوحہ وماتم اور مجالس عزا وغیرہ کا اہتمام اس لئے نہیں کرتے کہ اسلام ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا اور جو ایسا کرتا ہے اس کا دین و ایمان خطرے میں ہے اور اسلام کا نوحہ وماتم سے کوئی تعلق نہیں۔
محرم کی بے حرمتی
ویسے تو جنگ و جدل، قتل و غارت گری، خونریزی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی مہینے، ہفتے اور دن میں اجازت نہیں تاہم حرمت والے مہینوں میں فتنہ و فساد کی ہرممکنہ شکل سے اجتناب کرنے کا تاکیدی حکم ہے۔ لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ ماہِ محرم کی حرمت کو اتنا ہی پامال کرتے ہیں جتنا کہ اس کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی گئی۔
ماہ محرم کی حرمت کی پامالی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت پر نالہ و شیون اور نوحہ و ماتم کیا جاتا ہے۔ اپنے جسم کو از خود سخت تکلیفیں دی جاتی ہیں۔ تیز دھاری آلات سے جسم کو زخمی کیا جاتا ہے۔ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کے رنج و غم میں آہ و بکا کا ایسا عجیب وحشیانہ اور خوفناک منظر برپا کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ! اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ کسی کی وفات یا شہادت پر رنج و غم اور افسوس کا اظہار نہ کیا جائے لیکن یہ اظہار شرعی حدو د میں رہتے ہوئے ہونا چاہئے

جبکہ نوحہ و ماتم کرنے والے کے بارے میں
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوٰی الجاهلية
” وہ شخص ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کئے اور دورِ جاہلیت کے بین کئے۔“ (بخاری: کتاب الجنائز، باب لیس منامن ضرب الخدود؛۱۲۹۷)

ماہِ محرم کی حرمت کی پامالی کی ایک صورت یہ ہے کہ
مسلمانوں کے مختلف گروہ آپس میں نہ صرف یہ کہ دست و گریبان ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہیں۔ تقریباً ہر سال ماہ محرم میں کسی نہ کسی ’مسجد‘ یا ’امام بارگاہ‘ میں معصوم لوگ دہشت گردی کی کارروائی کا شکار ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ اسلام تو عام دنوں میں بھی خونریزی، دہشت گردی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی شکل کو پسند نہیں کرتا پھر بھلا ماہِ محرم میں اسے کیسے پسند کرسکتا ہے؟ اس لئے اسلام سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی کسی بھی دہشت گردی کی کاروائی سے کلی اجتناب کیا جائے۔ ویسے بھی یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر کوئی شخص فی الواقع کفروشرک اور ارتداد کا مرتکب ہو رہا ہو اور واقعی وہ قتل کی سزا کا مستحق ہوچکا ہو تو تب بھی ایسے شخص یا گروہ کو سزائے قتل دینے کی مجاز صرف حکومت ِوقت ہے۔ ہر کہ ومہ کو اسلام یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کرنا شروع کردے!

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بعض دفعہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں دشمن عناصر قوتوں کا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ مسلمانوں کے مسلکی و گروہی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی فرقے کے لوگوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنا کر دوسرے فرقے پر اس کا الزام لگا دیتے ہیں۔ پھر دوسرا فرقہ تحقیق کئے بغیر محض جوشِ انتقام میں مخالف فرقے کو نشانہ بناتا ہے اور اس طرح تخریب کاری کا ایک غیر متناہی سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اس لئے امن و امان کے قیام کے لئے ہمیں ان تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کی نگاہ میں خونِ مسلم کی حرمت انتہائی اہم حیثیت رکھتی ہے۔
2-محرم کے روزوں کی فضیلت
رمضان المبارک کے روزے سال بھر کے دیگر تمام روزوں سے افضل ہیں۔ البتہ رمضان کے ماسوا محرم کے روزوں کی فضیلت سب سے بڑھ کر ہے جیسا کہ درج ذیل صحیح احادیث سے ثابت ہے :

1- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
”أفضل الصيام بعد رمضان: شهر الله المحرم وافضل الصلاة بعد الفريضة:صلاة الليل“ (مسلم: کتاب الصيام: باب فضل صوم المحرم؛۱۱۶۳)

”رمضان المبارک کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے روزے سب روزوں سے افضل ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز آدھی رات (یعنی تہجد) کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے۔“

2- صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   سے سوال کیا گیا کہ
”أي الصلاة افضل بعد المکتوبة وأي الصيام أفضل بعد شهر رمضان؟“
”فرض نمازوں کے بعد کون سی نما زسب سے افضل ہے اور رمضان المبارک کے بعد کون سے روزے سب سے افضل ہیں؟ تو آپ نے وہی جواب دیا جو پہلی حدیث (مسلم؛ ۱۱۶۳) میں مذکور ہے۔“

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک آدمی نے عرض کیا:

” اے اللہ کے رسول! اگر رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں، میں روزے رکھنا چاہوں تو آپ کس مہینے کے روزے میرے لئے تجویز فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تو رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں روزے رکھنا چاہے تو محرم کے مہینے میں روزے رکھنا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور ایک قوم کی توبہ (آئندہ بھی) قبول فرمائیں گے۔“ (ترمذی: کتاب الصوم، باب ماجاء فی صوم المحرم ؛ ۷۴۱)

واضح رہے کہ امام ترمذی نے اس روایت کو ’حسن‘ قرار دیا ہے جبکہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحق نامی راوی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرا ردیاہے۔ لہٰذا سنداً یہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم محرم کا ’شہراللہ‘ ہونا اور اس کے روزوں کا رمضان کے سوا دیگر مہینوں کے روزوں سے افضل ہونا دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے۔
3- یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت
1- حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
”وصيام يوم عاشوراء احتسب علی الله أن يکفر السنة التي قبله“
” مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔“   (مسلم : کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثة ایام؛ ۱۱۶۲)

واضح رہے کہ ’عاشوراء‘ عشر سے ہے جس کا معنی ہے دس ۱۰ ؛ اور محرم کی دسویں تاریخ کو عاشوراء کہا جاتا ہے۔ البتہ مذکورہ فضیلت دسویں تاریخ کے روزے کی ہے یا نویں کی، اس میں اہل علم کا شروع سے اختلاف چلا آتا ہے۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے…

2- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ
”قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔“     (بخاری: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشورا ؛۲۰۰۳/ مسلم: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء ؛۱۱۲۵)

3- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں لوگ یومِ عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بھی اس دن روزہ رکھتے۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
”إن عاشورأ يوم من أيام الله فمن شاء صامه ومن شاء ترکه“
”عاشورا اللہ تعالیٰ کے دنوں میں سے ایک (معزز) دن ہے لہٰذا جو اس دن روزہ رکھنا چاہے، وہ روزہ رکھے اور جونہ رکھنا چاہے وہ نہ رکھے۔“ (مسلم:ایضاً؛ ۱۱۲۶)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دورِ جاہلیت میں قریش دسویں محرم کا روزہ کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ہر سال ماہِ محرم کی اس تاریخ کو بیت اللہ کو غلاف پہنایا کرتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ایک حدیث میں ہے (بخاری؛۱۵۸۲) لیکن اس پر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قریش غلافِ کعبہ کے لئے یہی دن کیوں خاص کرتے تھے؟ تو اس کا جواب (اور پہلے سوال ہی کا دوسرا جواب) یہ ہوسکتا ہے جو حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

”دورِ جاہلیت میں قریش نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جو ان پر بڑا گراں گزرا تو ان سے کہا گیا کہ تم لوگ عاشورا ءکا روزہ رکھو یہ تمہارے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ پھر اس وقت سے قریش عاشوراء کا روزہ رکھنے لگے۔“ (فتح الباری: ۴/۷۷۳، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء)

4- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
”جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرئہ قلزم میں غرقاب کیا) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔“        (بخاری: ایضاً ؛ ۲۰۰۴/مسلم؛۱۱۳۰)

5- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
”میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  دنوں میں سے دسویں محرم (یوم عاشوراء) کے اور مہینوں میں سے ماہِ رمضان کے روزوں کے سوا کسی اور روزے کو افضل سمجھ کر اس کا اہتمام کرتے ہوں۔“     (بخاری، ایضاً؛۲۰۰۶/ مسلم ایضاً؛۱۱۳۲)

6- حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”عاشورا کے روز یہودی عید مناتے مگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھا کرو۔“ (بخاری ؛۲۰۰۵/ مسلم ؛۱۱۳۱)

7- ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ ”اہل خیبر عاشوراء کے روز، روزہ رکھتے اور ا س دن عید مناتے اور اپنی عورتوں کو اچھے اچھے لباس اور زیورات پہناتے مگر اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھو۔“ (مسلم؛۲۶۶۱)

8- حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبیلہ بنواسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں جاکر یہ اعلان کرے کہ
”جس نے کچھ پی لیا ہے، وہ اب باقی دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے کچھ نہیں کھایا، وہ روزہ رکھے کیونکہ آج عاشوراء کا دن ہے۔“ (بخاری؛۲۰۰۷/ مسلم؛۱۱۳۵)

9- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ

”اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی موافقت ہورہی ہے۔) تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ”فاذا کان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع“ آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسول انتقال فرما گئے۔“  (مسلم؛۱۱۳۴)

10- مسلم کی ایک روایت کے لفظ یہ ہیں کہ ”لئن بقيت إلی قابل لأصومن التاسع“
”اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا۔“ (مسلم: ایضاً)
روزہ نو محرم کو یا دس کو؟
عاشورا ءکے روزے کے بارے میں اہل علم کا شروع سے اختلاف چلا آتا ہے کہ یہ روزہ نو تاریخ کو رکھا جائے یا دس کو ؛ یا نو اور دس دونوں کے روزے رکھے جائیں؟ وجہ ِاختلاف صحیح مسلم کی مندرجہ بالا حدیث (نمبر۹) ہے جس میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے پیش نظر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ”آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو تاریخ کا روزہ رکھوں گا۔“

بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اگرچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کو عملی طور پر نو کا روزہ رکھنے کا موقع نصیب نہ ہوسکا تاہم آپ کا یہ فرمان دسویں محرم کے روزے کے لئے بطورِ ناسخ ہے اور اب صرف اور صرف نو ہی کا روزہ رکھنا چاہئے۔ جبکہ بعض اہل علم اس کے برعکس اس موقف کے حامل ہیں کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھنا چاہئے۔ کیونکہ اصل فضیلت والا دن تو دسویں محرم کا ہے۔ جبکہ یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی شامل ہوجائے گا اور اس طرح دونوں صورتوں یعنی فضیلت ِعاشوراء اور مخالفت ِیہود و نصاریٰ پر عمل ہوجائے گا۔ لہٰذا نو اور دس دونوں تاریخوں کے روزے از بس فضیلت کے لئے ضروری ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مسئلہ میں وسعت پائی جاتی ہے، اس لئے مندرجہ دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صو رت کے ساتھ ہی اسے خاص کردینا اور اس کے برعکس دوسری کو غلط قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ ان دونوں صورتوں کے الگ الگ مضبوط دلائل موجود ہیں ، مثلاً:

صرف نو کا روزہ رکھنے کی دلیل صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے کہ آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو کا روزہ رکھوں گا۔ اب حدیث کے ظاہری الفاظ کا یہی تقاضا ہے کہ نو ہی کا روزہ رکھا جائے باقی رہی یہ بات کہ اصل فضیلت تو دسویں محرم کی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فضیلت کا معیار شریعت ہے۔ اگر شریعت دس کی بجائے نو کو باعث ِفضیلت قرار دے دے تو پھر نو ہی کی فضیلت سمجھی جائے گی اور یہی وجہ ہے کہ جب حکم بن اَعرج نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یومِ عاشورا ءکے روزے کا سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ”جب محرم کا چاند دیکھ لو تو دن گننا شروع کردو اور نویں تاریخ کو روزہ کے ساتھ صبح کرو۔“ سائل نے پوچھا:” کیا اللہ کے رسول اسی دن روزہ رکھتے تھے؟“ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہاں!“  (مسلم: کتاب الصیام، باب اَی یوم الصیام فی عاشوراء؛۱۱۳۳)

اگرچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  دسویں محرم کو روزہ رکھتے رہے مگر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نویں محرم کے روزے کی نسبت اللہ کے رسول کی طرف اس لئے کردی کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ فرما چکے تھے کہ آئندہ سال میں نو کا روزہ رکھوں گا۔ گویا اب نویں کو ہی کو سنت سمجھا جائے گا، اگرچہ عملی طور پر حضور کو یہ موقع نہیں مل سکا کہ آپ نو کا روزہ رکھتے۔

دس کا روزہ رکھنے والوں کی پہلی دلیل تو یہی ہے کہ اصل فضیلت والا دن دس محرم ہے اور اسی دن آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ روزہ رکھتے رہے۔تاہم اللہ کے رسول کا یہ فرمان کہ آئندہ سال میں نو کا روزہ رکھوں گا، اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ میں دس کا روزہ چھوڑ دوں گا۔ بلکہ آپ کی مراد یہ تھی کہ دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھوں گا تاکہ یہود و نصاریٰ کی بھی مخالفت ہوسکے۔
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

”صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود“ (السنن الکبری للبیہقی : ص۲۷۸/ ج۴)
   ”نو اور دس (دونوں کا) روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ “

شیخ احمد عبدالرحمن البناء رحمتہ اللہ علیہ نے اس موقوف روایت کی سند کو صحیح قرار دیاہے۔ (الفتح الربانی :۱/۱۸۹، مصنف عبدالرزاق؛۷۸۳۹، طحاوی:۲/۷۸)

اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی ذکرکی جاتی ہے کہ

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
”لئن بقيت لآمرن بصيام يوم قبله أو يوم بعد يوم عاشوراء“
” اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو میں یہ حکم ضرور دوں گا کہ دسویں محرم سے پہلے یا اس کے بعد (یعنی گیارہویں محرم) کا ایک روزہ (مزید) رکھو۔“

یہ روایت مسندحمیدی (۴۸۵) اور سنن کبریٰ از بیہقی (۴/۲۸۷) میں موجود ہے مگر اس کی سند میں ابن ابی لیلی (جن کا نام محمد بن عبدالرحمن ہے) ضعیف راوی ہے۔ جبکہ امام ابن عدی نے یہ روایت ’الکامل‘ (۳/۹۵۶) میں درج کی ہے اور اس کی سند میں داود بن علی نامی راوی کو ضعیف قرار دیاہے۔
ایک تیسری صورت
بعض اہل علم مندرجہ بالا اختلاف سے بچتے ہوئے ایک تیسری صورت یہ پیش کرتے ہیں کہ نو، دس اور گیارہ تینوں تاریخوں کے پے در پے روزے رکھ لئے جائیں۔ بطورِ دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

”صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود وصوموا قبله يوما أو بعدہ يوما“ 
 ”یومِ عاشورا ءکا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ (اس مخالفت کا طریقہ یہ ہے کہ) یوم عاشورا ء(دس محرم) کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو۔“

یہ روایت مسنداحمد (۱/۲۴۱)، ابن خزیمہ (۲۰۹۵) ، الکامل (۳/۹۵۶)، السنن الکبریٰ للبیہقی (۴/۲۸۷) وغیرہ میں موجود ہے مگر اس کی سند میں بھی ابن ابی لیلیٰ اور داود بن علی نامی دو راوی ضعیف ہیں لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ روایت میں ’أو‘ (قبله يوما ’أو‘ بعدہ يوما) بمعنی ’یا‘ ہے۔ جبکہ بعض طرق میں یہاں ’و‘ بمعنی ’اور‘ ہے۔جس کے پیش نظر بعض اہل علم نے تین دن (۹،۱۰،۱۱) کے روزے رکھنے کا رجحان ظاہر کیا ہے۔ (دیکھئے فتح الباری:۴/۷۷۳) مگر محل استشہاد روایت ہی ضعیف ہے، اس لئے یہ موقف کمزور ہے۔
احتیاط کا تقاضا
مذکورہ اختلافی مسئلہ میں اگر احتیاط کا پہلو مدنظر رکھا جائے تو پھر یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھا جائے کیونکہ اگر شریعت کی منشا نو اور دس دونوں کا روزہ رکھنے میں ہوئی تو اس پر عمل ہوجائے گا اور اگر نو کا روزہ رکھنے میں ہوئی تو تب بھی نو کا روزہ رکھا جائے گا اور دس کا روزہ اضافی نیکی قرار پائے گا۔ علاوہ ازیں اس طرح یوم عاشوراء کی فضیلت اور یہود و نصاریٰ کی مخالفت دونوں ہی پر عمل بھی ہوجائے گا جیسا کہ حافظ ابن حجررحمتہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ

”وقال بعض أهل العلم: قوله فی صحيح مسلم لئن عشت إلی قابل لأصومن التاسع، يحتمل أمرين أحدهما أنه أراد نقل العاشر إلی التاسع والثاني أراد أن يضيفه إليه فی الصوم فلما توفي ا قبل بيان ذلک کان الاحتياط صوم اليومين“    (فتح الباری: ايضاً)

”بعض اہل علم کے بقول صحیح مسلم میں مروی اس حدیث نبوی کہ ”اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو کا ضرور روزہ رکھوں گا۔“ کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں: ایک تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی مراد یہ تھی کہ یوم عاشوراء کے روزہ کے لئے دس کی بجائے نو کا روزہ مقرر کردیا جائے اور دوسرا یہ کہ آپ دس کے ساتھ نو کا روزہ بھی مقرر فرمانا چاہتے تھے۔ (اب اگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے بعد اگلے محرم تک زندہ رہتے تو آپ کے عمل سے مذکورہ دونوں صورتوں میں سے ایک صورت ضرور متعین ہوجاتی) مگر آپ کسی صورت کو متعین کرنے سے پہلے وفات پاگئے تھے، اس لئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھا جائے۔“

واضح رہے کہ بغرضِ احتیاط نو اور دس دونوں کا روزہ رکھنے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ صرف نو کا روزہ رکھنے والوں کے خلاف فتویٰ بازی کی جائے بلکہ صرف نو کے روزہ کی گنجائش بھی بہرحال موجود ہے۔ (واللہ اعلم)
محرم میں روزوں کے منافی اُمور
گذشتہ احادیث سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ماہِ محرم میں روزے رکھنا مسنون اور افضل ترین عمل ہے حتیٰ کہ رمضان المبارک کے بعد ماہِ محرم کے روزوں کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے اور محرم میں بھی نویں اور دسویں کا روزہ دیگر دنوں کے روزوں سے افضل ہے، لیکن افسوس کہ جیسے ہی محرم کا مہینہ شروع ہوتا ہے، روزوں کے منافی اُمور کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ شہادتِ حسین کی یاد میں دودھ، پانی یا مشروبات کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں، دیگیں پکا کر لوگوں میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے، خوش ذائقہ ماکولات و مشروبات کا اہتمام کرکے فاتحہ خوانی کی محفلیں قائم کی جاتی ہیں اور جوں جوں دسویں محرم کا دن قریب آتا ہے، توں توں ان امور کے دائرہ میں وسعت اور تیزی آتی چلی جاتی ہے۔ گویا محرم اور یوم عاشوراء کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  جتنا اہتمام روزے کا فرمایا کرتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلاتے، دورِ حاضر کے مسلمان ماہِ محرم میں اتنا ہی اس کے منافی دعوتوں اور ضیافتوں کا اہتمام کرنے لگے ہیں اور پھر اسے یقینی بنانے اور مسلسل قائم رکھنے کے لئے سرکاری طور پر ملک بھر میں چھٹی بھی منائی جاتی ہے۔

چنانچہ ایک طرف تو بعض لوگ مذکورہ اُمور کی شرعی حیثیت کی چھان پھٹک کئے بغیر ہر اس رسم، رواج اور طریقے کی اتباع شروع کردیتے ہیں جسے کسی قوم، قبیلے یا فرقے میں خاصا مقام اور شہرت حاصل ہو جبکہ دوسری طرف بعض لوگ مذکورہ اُمور کے ثبوت کے لئے شرعی و عقلی دلائل بھی پیش کرنے لگتے ہیں مثلاً یہ کہ

1- یزید کے لشکروں نے شہدائے کربلاء کا پانی بند کردیا تھا، اس لئے شہدائےکربلاء سے اظہارِ محبت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے نام پر پانی ہی نہیں بلکہ اچھے اچھے مشروبات کی بھی سبیلیں لگائی جائیں۔

2- شہدائے کربلاء کی اَرواح کے ایصالِ ثواب کے لئے ماکولات و مشروبات کا اہتمام کرکے فاتحہ خوانی کی محفلیں قائم کرنی چاہئیں۔

3- یہ (من گھڑت) روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ
”جس شخص نے عاشوراء کے روز اپنے اہل و عیال (کے رزق کے معاملہ) پر فراخی وکشادگی کی، اللہ تعالیٰ سال بھر اس پر کشادگی فرماتے رہیں گے۔“
اگر قرآن و سنت کی تعلیمات کا غیر جانبدرانہ جائزہ لیا جائے تو مذکورہ اُمور کے جواز کی نہ کوئی گنجائش ملے گی اور نہ ہی کوئی معقول وجہ…!

1- اوّل تو اس لئے کہ ماہِ محرم میں روزے رکھنا مسنون ہے جبکہ ماکولات و مشروبات کے اہتمام سے نہ صرف روزوں کی مسنون حیثیت مجروح ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک بدعت بھی رواج پاتی ہے۔

2- دوم اس لئے کہ شہدائے کربلا ءیا دیگر فوت شدگان کی ارواح کو ثواب پہنچانے کے لئے فاتحہ خوانی کی یہ صورتیں قرآن و سنت اورعمل صحابہ سے ثابت ہی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان صو رتوں کو دین کا حصہ اور اجروثواب کا ذریعہ سمجھ کر قائم کرنا بدعت نہیں تو پھر کیا ہے؟

3- رہی یہ بات کہ شہدائے کربلاء کا پانی بند کیا گیا تھا تو یہ قصہ ہی جھوٹا اور بے سند ہے جبکہ خود شیعہ ہی کی بعض کتابوں سے اس کے برعکس یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جب قافلے کے لئے پانی کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ زمین کھودتے اور فوراً میٹھے پانی کا چشمہ بہہ نکلتا۔(تفصیل کے لئے دیکھئے: جلاء العیون باب ۵ ص۴۵۹، ناسخ التواریخ ص۳۲۶ ج۲، تصویر کربلا از سید آلِ محمد، ص۳۱)

اگر بالفرض بندشِ آب کے قصہ کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے اظہارِ محبت کے لئے ماہ محرم میں اتنے دن پیاسا رہنے کا مظاہرہ کیا جاتا جتنے دن ان سے پانی روکے رکھا گیاتھا !

4- ماکولات و مشروبات کے خصوصی اہتمام کی جو روایت بطورِ دلیل پیش کی جاتی ہے وہ محدثین کے ہاں بالاتفاق جھوٹی (موضوع) روایت ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
”عاشورا کے روز فضائل کے سلسلہ میں اہل و عیال پر فراخی و کشادگی اور مصافحہ و خضاب وغسل کی برکت وغیرہ کے متعلق جو روایتیں بیان کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس دن ایک خاص نماز پڑھنی چاہئے … یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کذب و افترا ءہے۔ محرم میں عاشوراء کے روزے کے سوا کوئی عمل پسند صحیح ثابت نہیں۔“ (منہاج السنة: ۴/۱۱)

مذکورہ مسئلہ کی مزید تفصیل اور من گھڑت روایات کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو الموضوعات لابن جوزی (۲/۲۰۳)، اللآئی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعة (۲/۹۴) الموضوعات الکبریٰ (ص۳۴۱) اور مجموع الفتاویٰ (۲/۳۵۴)

5- یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سانحہٴ کربلاء کے رنج و غم میں رافضی وغیرہ اس انتہا ءکو پہنچ گئے کہ نوحہ و ماتم سے دور جہالت کی ان قبیح رسومات کو زندہ کرنے لگے کہ جن سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔جبکہ ناصبی اور خارجی قسم کے لوگ رافضیوں کی عداوت میں سانحہٴ کربلاء پر خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ایام میں ماکولات و مشروبات کا انتظام کرنے لگے۔ پھر ایصالِ ثواب اور سوگ کے نام پر یہ دونوں باتیں دیگر مسلمانوں میں بھی بڑی تیزی سے سرایت کرگئیں۔

حالانکہ راہِ اعتدال یہی ہے کہ ان تمام بدعات و خرافات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے واقعہ کربلاء کو مسلمانوں کے لئے عظیم سانحہ اور حادثہ فاجعہ قرار دیا جائے۔اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے سیاسی اختلافات اللہ کے سپرد کرکے دونوں کے بارے میں خاموشی کی راہ اختیار کی جائے۔

 ۔حافظ مبشر حسین

Sunday, November 27, 2011

تین افضل ترین عورتیں

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ 
003:042
جالندھری
اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم خدا نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا ہے


 تفسیر ابن كثیر



یہاں بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالٰی کے حکم سے مریم علیہما السلام کو فرشتوں نے خبر پہنچائی کہ اللہ نے انہیں ان کی کثرت عبادت ان کی دنیا کی بےرغبتی کی شرافت اور شیطانی وسواس سے دوری کی وجہ سے اپنے قرب خاص عنایت فرمادیا ہے، اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں خاص فضیلت دے رکھی ہے،


صحیح مسلم شریف وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی عورتیں اونٹ پر سوار ہونے والیاں ہیں ان میں سے بہتر عورتیں قریش کی ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں پر بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والی اور اپنے خاوند کی چیزوں کی پوری حفاظت کرنے والی ہیں، حضرت مریم بنت عمران اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئی،


بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت مریم بنت عمران ہیں اور عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں (رضی اللہ تعالٰی عنہما)


ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے ساری دنیا کی عورتوں میں سے تجھے مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، آسیہ فرعون کی بیوی ہیں (رضی اللہ تعالٰی عنہما) اور حدیث میں ہے یہ چاروں عورتیں تمام عالم کی عورتوں سے افضل اور بہتر ہیں


اور حدیث میں ہے مردوں میں سے کامل مرد بہت سے ہیں لیکن عورتوں میں کمال والی عورتیں صرف تین ہیں، مریم بنت عمران ، آسیہ فرعون کی بیوی اور خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید یعنی گوشت کے شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹی کی تمام کھانوں پر یہ حدیث ابو داؤد کے علاوہ اور سب کتابوں میں ہے،


صحیح بخاری شریف کی اس حدیث میں حضرت خدیجہ کا ذکر نہیں، میں نے اس حدیث کی تمام سندیں اور ہر سند کے الفاظ اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں حضرت عیسیٰ کے ذکر میں جمع کر دئیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ


پھر فرشتے فرماتے ہیں کہ اے مریم تو خشوع و خضوع رکوع و سجود میں رہا کر اللہ تبارک وتعالیٰ تجھے اپنی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان بنانے والا ہے اس لئے تجھے رب کی طرف پوری رغبت رکھنی چاہئے، قنوت کے معنی اطاعت کے ہیں جو عاجزی اور دل کی حاضری کے ساتھ ہو،


جیسے
ارشاد(آیت ولہ من فی السموات والارض کل لہ قانتون) یعنی اس کی ماتحتی اور ملکیت میں زمین و آسمان کی ہرچیز ہے سب کے سب اس کے محکوم اور تابع فرمان ہیں،


ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں قنوت کا لفظ ہے اس سے مراد اطاعت گذاری ہے، یہی حدیث ابن جریر میں بھی ہے لیکن سند میں نکارت ہے،


حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت مریم علیہما السلام نماز میں اتنا لمبا قیام کرتی تھیں کہ دونوں ٹخنوں پر ورم آجاتا تھا، قنوت سے مراد نماز میں لمبے لمبے رکوع کرنا ہے، حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہ اور رکوع سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا،


حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ مریم صدیقہ اپنے عبادت خانے میں اس قدر بکثرت باخشوع اور لمبی نمازیں پڑھا کرتی تھیں کہ دونوں پیروں میں زرد پانی اتر آیا، رضی اللہ عنہما و رضاہا۔ یہ اہم خبریں بیان کر کے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کا علم تمہیں صرف میری وحی سے ہوا ورنہ تمہیں کیا خبر؟ تم کچھ اس وقت ان کے پاس تھوڑے ہی موجود تھے جو ان واقعات کی خبر لوگوں کو پہنچاتے؟ لیکن اپنی وحی سے ہم نے ان واقعات کو اس طرح آپ پر کھول دیا گویا آپ اس وقت خود موجود تھے


جبکہ حضرت مریم کی پرورش کے بارے میں ہر ایک دوسرے پر سبقت کرتا تھا سب کی چاہت تھی کہ اس دولت سے مالا مال ہو جاؤں اور یہ اجر مجھے مل جائے، جب آپ کی والدہ صاحبہ آپ کو لے کر بیت المقدس کی مسجد سلیمانی میں تشریف لائیں اور وہاں کے خادموں سے جو حضرت موسیٰ کے بھائی اور حضرت ہارون کی نسل میں سے تھے کہا کہ میں انہیں اپنی نذر کے مطابق نام اللہ پر آزاد کر چکی ہوں تم اسے سنبھالو، یہ ظاہر ہے کہ لڑکی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حیض کی حالت میں عورتیں مسجد میں نہیں آسکتیں اب تم جانو تمہارا کام، میں تو اسے گھر واپس نہیں لے جا سکتی کیونکہ نام اللہ اسے نذر کر چکی ہوں،


حضرت عمران یہاں کے امام نماز تھے اور قربانیوں کے مہتمم تھے اور یہ ان کی صاحبزادی تھیں تو ہر ایک نے بڑی چاہت سے ان کے لئے ہاتھ پھیلا دئیے ادھر سے حضرت زکریا نے اپنا ایک حق اور جتایا کہ میں رشتہ میں بھی ان کا خالو ہوتا ہوں تو یہ لڑکی مجھ ہی کو ملنی چاہیے اور لوگ راضی نہ ہوئے آخر قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ میں ان سب نے اپنی وہ قلمیں ڈالیں جن سے توراۃ لکھتے تھے، تو قرعہ حضرت زکریا کے نام نکلا اور یہی اس سعادت سے مشرف ہوئے


دوسری مفصل روایتوں میں یہ بھی ہے کہ نہر اردن پر جا کر یہ قلمیں ڈالی گئیں کہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ جو قلم نکل جائے وہ نہیں اور جس کا قلم ٹھہر جائے وہ حضرت مریم کا کفیل بنے، چنانچہ سب کی قلمیں تو پانی بہا کر لے گیا صرف حضرت زکریا کا قلم ٹھہر گیا بلکہ الٹا اوپر کو چڑھنے لگا تو ایک تو قرعے میں ان کا نام نکلا دوسرے قریب کے رشتہ داری تھے پھر یہ خود ان تمام کے سردار امام مالک نبی تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ پس انہی کو حضرت مریم سونپ دی گئیں۔

Tuesday, November 22, 2011

قرآن میں ریاضیاتی معجزہ

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جس چیز کو جس کے برابر کہا ہے اُن الفاظ کو بھی اتنی ہی دفعہ دُہرایاہے اورجس کو جس سے کم کہا ہے اسی نسبت سے ان الفاظ کو بھی قرآ ن مجید میں استعمال کیا گیاہے۔ اس دعوٰی کی بنیاد نہ تو اللہ تعالیٰ کے فرمان یعنی قرآن مجید میں موجودہے اورنہ ہی کسی حدیث یا صحابہ کے اقوال میں پائی جاتی ہے۔ بلکہ حال ہی میں جب کچھ مسلم اسکالرز نے اس جانب توجہ دی اور تحقیق فرمائی تو ان کو حیرت انگیز نتائج کا سامنا کرناپڑا اور ان کے سامنے قرآن مجید کا ایک اورمعجزانہ پہلو نکھر کر سامنے آگیا کہ جس کی مثال دنیا کی کسی دوسری کتاب میںملنا ناممکن ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات برملاکہی جاسکتی ہے کہ کوئی اگر کمپیوٹر کی مددسے بھی ایسا لکھناچاہے تو نہیں لکھ سکتا۔اوریہی قران مجید کا امتیا ز اورکمال ہے۔


٭مثلاً قرآن مجید میں حضرت عیسی کی مثال حضرت آدم سے دی گئی ہے:
(اِنَ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ)
''اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیداکیا اورحکم دیا کہ ہو جااوروہ ہوگیا''(1)
 
معنی کے لحاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے مگر اگر آپ قرآن مجید میں عیسیٰ کا لفظ تلاش کریں تو وہ 25مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ اوراسی طرح آدم کا نام بھی 25دفعہ ہی قرآن میں موجودہے۔ یعنی معنی کے ساتھ ساتھ دونوں پیغمبروں کے ناموں کو بھی یکساں طور پر درج کیا گیا ہے۔
 
٭        اسی طرح سورة الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
''اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں سے اس (کے درجات)کو بلند کردیتے مگر وہ تو پستی کی طرف جھک گیااوراپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ایسے شخص کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تواس پر حملہ کرے تو بھی ہانپتا ہے اور نہ کرے تو بھی ہانپتا ہے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلادیا ''(2) 
 
یہ کلمہ ''اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یٰتِنَا'' یعنی جو ہماری نشانیوںکو جھٹلاتے ہیں''قرآن مجید میں 5دفعہ آیا ہے جبکہ ''کَلْب''یعنی کتے کانام بھی پورے قرآن میں 5دفعہ ہی دہرایا گیا ہے۔
 
٭        اسی طرح سورة ''فاطر''میں فرمایا کہ
''اندھیرا اورروشنی ایک جیسے نہیں ہیں ''(3)
 
اب اندھیرے کو عربی میں ''ظلمت''کہتے ہیں اورقرآن میں یہ لفظ 23مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ جبکہ لفظ روشنی یعنی ''نور'' ،کو 24مرتبہ دہرا یا گیا ہے۔ (4)
 
٭        قرآن مجید میں''سَبْعَ سَمٰوٰت''یعنی سات آسمانوں کا ذکر 7مرتبہ ہی ہوا ہے۔ نیز آسمانوں کے بنائے جانے کے لیے لفظ ''خَلَقَ''بھی 7مرتبہ ہی دہرایا گیاہے۔
 
٭        لفظ ''یَوْم''یعنی دن 365مرتبہ ،جبکہ جمع کے طورپر ''یَوْمَیْن یا اَیَّام''30مرتبہ اورلفظ ''شَھْر''یعنی مہینہ 12دفعہ دہرایا گیاہے۔
 
٭        لفظ ''شَجَرَہْ''یعنی درخت اورلفظ ''نَبَّات''یعنی پودے ،دونوں یکساں طورپر 26مرتبہ ہی دہرائے گئے ہیں۔
 
٭        لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق ''انعام ''دینے کالفظ 117مرتبہ استعمال ہوا ہے جبکہ معاف کرنے کا لفظ ''مَغْفِرَہ'' 234مرتبہ یعنی دگنی تعداد میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو معاف کرنا زیادہ پسند کرتاہے۔ 
 
٭       جب لفظ ''قُل''یعنی کہو ،کو گنا گیا تو وہ 332دفعہ شمارہوا۔ جبکہ لفظ ''قَالُوا''یعنی وہ کہتے ہیں یا پوچھتے ہیں؟کو شمار کیا گیا تو وہ بھی 332مرتبہ ہی قرآن میں دہرایا گیاہے۔
 
٭        لفظ ''دُنْیا''اور''آخِرَتْ''،دونوں مساوی طورپر 115دفعہ ہی دہرائے گئے ہیں۔
 
٭        لفظ ''شَیْطَان''88مرتبہ جبکہ لفظ''مَلَائِکَہ''یعنی فرشتے کو بھی 88دفعہ ہی دہرایا گیا ہے۔
 
٭        لفظ ''اِیْمَان''25دفعہ اورلفظ ''کُفْر''بھی اتنی مرتبہ ہی استعمال ہوا ہے۔
 
٭        لفظ ''جَنَّتْ''اورلفظ ''جَھَنَّم''یکساں تعداد میں یعنی 77مرتبہ دہرائے گئے ہیں۔
 
٭        لفظ ''زَکَوٰة''یعنی پاک کرنا،کو قرآن مجید میں 32دفعہ دہرایاگیا ہے جبکہ لفظ ''بَرَکَاة''یعنی برکت کو بھی 32دفعہ ہی استعمال کیا گیا ہے۔
 
٭        لفظ ''اَلْاَبْرَار''یعنی نیک لوگ کو 6دفعہ دہرایا گیا ہے اس کے مقابلہ میں لفظ ''اَلْفُجَّار''یعنی برے لوگ یا گنہگارلوگ،کو صرف 3مرتبہ دہرایا گیاہے۔
 
٭       لفظ ''خَمَرْ''یعنی شراب قرآن میں 6مرتبہ استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ ''سَکَارٰی''یعنی نشہ یا شراب پینے والا،بھی 6مرتبہ ہی دہرایا گیا ہے۔
         لفظ ''لِسَان''یعنی زبان کو 25دفعہ لکھا گیا ہے اورلفظ ''خِطَاب''یعنی بات یا کلام ،کوبھی 25مرتبہ ہی دہرا یا گیا ہے۔
 
٭        لفظ ''مَنْفَعْہ''یعنی فائدہ ،اوراس کے متضادلفظ ''خُسْرَان''یعنی خسارہ ،نقصان'کو بھی یکساں طورپر 50,50مرتبہ ہی دہرایاگیا ہے۔
 
٭        لفظ ''مَحَبَّہ''یعنی دوستی اورلفظ ''طَاعَہ''یعنی فرمانبرداری''دونوں مساوی طورپر 83مرتبہ ہی دہرائے گئے ہیں۔
 
٭        لفظ ''مُصِیْبَة''یعنی تکلیف یا غم ،75مرتبہ استعمال ہواہے اورلفظ ''شُکْر''یعنی شکر گزارہونا ' حق بات کو ماننا،بھی 75مرتبہ ہی دہرایا گیا ہے۔
 
٭        لفظ''اِمْرَأة''یعنی عورت اورلفظ ''رَجُل''یعنی مرد یا آدمی ،دونوں یکساں طورپر 23,23مرتبہ ہی دہرائے گئے ہیں۔قرآن مجید میں ان الفاظ کا اتنی مرتبہ دہرانا بڑا دلچسپ اورحیران کُن ہے۔ کیونکہ جدید سائنس کے مطابق انسانی جنین کی تشکیل میں بھی 46کروموسومز حصہ لیتے ہیں اوران میں 23کروموسومز ماں کے اور23ہی باپ کے ہوتے ہیں اوریہ مرد کے جرثومے اورعورت کے بیضے میں موجودہوتے ہیں۔چنانچہ قرآن مجیدمیں دہرائے گئے ان الفا ظ کی جدید سائنس کے ساتھ مطابقت بڑی معنی خیز ہے۔
 
٭        لفظ ''صَلَوَات'' یعنی نمازیں ،5دفعہ دہرایا گیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دن رات میں کُل پانچ نمازیں ہی پڑھنے کا حکم دیا ہے
 
٭        اللہ تعالیٰ نے لفظ ''اَلْاِنْسَان''یعنی آدمی ،بشرکا لفظ 65مرتبہ دہرایا ہے۔ جبکہ انسان کی تشکیل کے سب مراحل کو بھی اتنی ہی دفعہ دہرایا ہے۔ 

 ٭        لفظ ''اَرْض''یعنی زمین کو قرآن مجیدمیں 13دفعہ دہرایا گیا ہے۔ جبکہ لفظ ''بَحْر''یعنی سمندریاد ریا ،کو 32دفعہ دہرایا گیاہے۔ان دونوں کا مجموعہ 45بنتاہے۔


چنانچہ ان کی نسبت کومعلوم کرنے کے لیے زمین اورسمندرکے انفرادی عدد کو ان دونوں کے مجموعے سے تقسیم کرتے ہیں تو درج ذیل نتیجہ سامنے آتاہے۔
زمین کے لیے        100 = 28.888888889% 13/45
 سمندر کے لیے        100 = 71.111111111% 32/45
درج بالا حاصل ہونے والا نتیجہ جدید سائنس کے عین مطابق ہے۔ جس کے مطابق بھی زمین پر 71%پانی جبکہ 29%خشکی پائی جاتی ہے۔(5)
 
 
 
 

مذکورہ بالا تفصیل پر غوروخوض کے بعد یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید کا حسابی نظام اتنا پیچیدہ مگر منظم ہے کہ یہ انسانی عقل کے بس کی بات نہیں ،لاریب تمام جن وانس مل کر بھی ایسی بے مثال محیرالعقول کتاب تیارنہیں کرسکتے۔ حالاتِ حاضرہ پر نظر ڈالیں توآپ کو معلوم ہو گا کہ اس وقت شام ،دمشق،مصر اورعراق وغیرہ میں لاکھوں عیسائی اوریہودی ایک اندازے کے مطابق 1کروڑ 40لاکھ کے قریب موجود ہیں،جن کی مادری زبان عربی ہے جو عربی زبان میں نثر لکھنے پر قادرہیںجن کی ادارت میں اخبار اوررسائل اشاعت پذیر ہیں،ان میں ایسے ایسے ادیب اورماہر لسانیات ہیں جنہوں نے لغات ِ عربیہ پر نظرالمحیط،المنجد،اقرب الموارد اورالمحیط جیسی ضخیم کتابیں لکھ ڈالیں مگر وہ تورات،زبوراورانجیل کے بارے میں اس قسم کے کمپیوٹر ائزڈنظام نہ پیش کرسکے۔ یوںمحسوس ہوتاہے کہ قدرت نے یہ نظام ازل ہی سے قرآن مجید کے لیے مختص فرمادیاتھاجس کااظہار اب کمپیوٹر کے زمانے میں ہواہے۔

 اقبال سوہدروی۔

Saturday, November 12, 2011

اللہ تعالی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے

اللہ تعالی کے اس فرمان کا معنی کیا ہے ؟
( اللہ تعالی ہر چیز کو جاننے والا ہے )

اللہ تعالی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے اس پر زمین وآسمان میں حرکات وسکنات اور اقوال وافعال طاعات ومعاصی میں سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ۔


اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :


( کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ آسمان وزمین کی ہر چیز اللہ تعالی کے علم میں ہے یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے بیشک یہ امر تو اللہ تعالی پر بالکل آسان ہے ) الحج / 70
اور اللہ تعالی نے اپنے علم کے ساتھ ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اور اسے لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے جیسا کہ

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :


( اور آپ کسی حال میں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے بھی قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہمیں سب کی خبر ہوتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے آسمان وزمین میں کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ ہی اس سے چھوٹی اور نہ ہی بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے ) یونس / 61
اور اللہ تعالی اکیلا ہی علام الغیوب ہے آسمان وزمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اس کا علم رکھتا ہے ۔


جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :


( بے شک میں آسمان وزمین کے غیب کا علم رکھتا ہوں اور جو تم ظاہر کر رہے ہو اور چھپا رہے ہو وہ بھی میرے علم میں ہے ) البقرہ / 33
اور اللہ تبارک وتعالی ہر چیز کو جاننے والا ہے اور اس کے علاو غیب کی کنجیاں کسی اور کے پاس نہیں جیسا کہ

اللہ تبارک وتعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے :


( اور اللہ تعالی ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ان کو اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا اور وہ جو کچھ سمندروں اور خشکی میں ہے اس کا علم بھی اس کے پاس ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور زمین کے تاریک حصوں میں کوئی دانہ نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے ) الانعام / 59
اور اللہ وحدہ ہی یہ جانتا ہے کہ قیامت کب قائم ہو گی اور بارش کے نزول کا علم بھی اسی کے پاس ہے اور جو کچھ ماں کے رحم میں ہے اور انسان کے عمل وقت اور جگہ اور اس کی موت کا علم بھی اللہ تبارک وتعالی کے پاس ہی ہے ۔



اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد مبارک ہے :


( بےشک اللہ تعالی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش نازل فرماتا ہے اور جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے اسے بھی جانتا ہے اور کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ ہی کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گا بیشک اللہ تعالی علم والا اور خبر رکھنے والا ہے ) القمان / 34
اور اللہ عزوجل ہمارے ساتھ ہے ہمارا کوئی بھی معاملہ اس سے پوشیدہ نہیں ۔


اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :


( اور تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالی اسے دیکھ رہا ہے ) الحدید / 4
اور اللہ تبارک وتعالی ہمارے سارے اعمال پر مطلع ہے ہمارے اچھے اور برے اعمال کو جانتا ہے پھر اس کے بعد وہ ہمیں اس کی خبر بھی دے گا اور قیامت کے دن ان اعمال کا بدلہ بھی ۔


جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے : 

( کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی آسمانوں وزمین کی ہر چیز کو جانتا ہے تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ ہی زیادہ مگر وہ جہاں بھی ہوں وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا بیشک اللہ تعالی ہر چیز کو جاننے والا ہے ) المجادلۃ / 7
اور اللہ وحدہ ہی غیب اور حاضر، سری اور جہری اشیاء کو جانتا ہے ۔


جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے متعلق فرمایا ہے :


 (ظاہر وپوشیدہ کا وہ علم رکھنے والا ہے سب سے بڑا اور بلند وبالا )الرعد / 9


اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :


( اور اگر تو اونچی بات کہ تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ تر چیز کو بھی بخوبی جانتا ہے ) طہ / 7 .
شیخ محمد بن ابراہیم التویجری کی کتاب اصول الدین الاسلامی سے لیا گیا ۔