سورة الأعراف آیات ۵۴ـ۵۸
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۵۴﴾
بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین [۶۴] چھ دن میں [۶۵] پھر قرار پکڑا عرش پر [۶۶] اوڑھاتا ہے رات پر دن کہ وہ اسکے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا اور پیدا کئے سورج اور چاند اور تارے [۶۷] تابعدار اپنے حکم کے [۶۸] سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا [۶۹]
Surely, your Lord is Allah who created the heavens and the earth in six days, then He positioned himself on the Throne. He covers the day with the night that pursues it swiftly. (He created) the sun and the moon and the stars, subjugated to His command. Lo! To Him alone belong the creation and the command. Glorious is Allah, the Lord of all the worlds.
اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾
پکارو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے [۷۰] اس کو خوش نہیں آتے حد سے بڑھنے والے [۷۱]
Supplicate to your Lord humbly and secretly. Surely, He does not like those who cross the limits.
وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾
اور مت خرابی ڈالو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد اور پکارو اس کو ڈر اور توقع سے [۷۲] بیشک اللہ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے
Do not make mischief on the earth after it has been set in order. Supplicate Him in fear and hope. Surely, the mercy of Allah is close to those who are good in their deeds.
وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۵۷﴾
اور وہی ہے کہ چلاتا ہے ہوائیں خوشخبری لانے والی مینہ سے پہلے یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں اٹھا لاتی ہیں بھاری بادلوں کو تو ہانک دیتے ہیں ہم اس بادل کو ایک شہر مردہ کی طرف پھر ہم اتارتے ہیں اس بادل سے پانی پھر اس سے نکالتے ہیں سب طرح کے پھل اسی طرح ہم نکالیں گے مردوں کو تاکہ تم غور کرو
He is the One who sends the winds carrying good news before His blessings, until when they lift up the heavy clouds, We drive them to a dead land. Then, there We pour down water. Then, We bring forth with it all sorts of fruits. In similar way, We will bring forth all the dead. (All this is being explained to you), so that you may learn a lesson.
وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّشۡکُرُوۡنَ ﴿٪۵۸﴾
اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کا سبزہ نکلتا ہے اس کے رب کے حکم سے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر ناقص یوں پھیر پھیر کر بتلاتے ہیں ہم آیتیں حق ماننے والے لوگوں کو [۷۳]
As for a good land, its vegetation comes out with the permission of its Lord. But that which is bad does not grow except what is bad. Thus We alternate the verses in various ways for a people who pay gratitude.
[۶۴]زمین و آسمان کی تخلیق چھ دن میں:
گذشتہ آیت میں معاد کا ذکر تھا اس رکوع میں مبدا کی معرفت کرائی گئ ہے ۔ وہاں قَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ سے بتلایا گیا تھا کہ جو لوگ دنیا میں انبیاء و رسل سے منحرف رہتے تھے ان کو بھی قیامت کے دن پیغمبروں کی سچائی کی ناچار تصدیق کرنی پڑے گی۔ یہاں نہایت لطیف پیرایہ میں خدا کی حکومت یاد دلانے اور انبیاء و رسل کی ضرورت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بعض مشہور پیغمبروں کے احوال و واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ انکی تصدیق یا تکذیب کرنے والوں کا آخرت سے پہلے دنیا ہی میں کیا انجام ہوا گویا یہ رکوع آنے والے کئ رکوعات کی تمہید ہے
۔
[۶۵]یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے برابر تھا پیدا کیا کیونکہ یہ متعارف دن اور رات تو آفتاب کے طلوع و غروب سے وابستہ ہیں جب اس وقت آفتاب ہی پیدا نہ ہوا تھا تو دن رات کہاں سے ہوتا۔ یا یہ کہا جائے کہ عالم شہادت کے دن رات مراد نہیں، عالم غیب کے دن رات مراد ہیں۔ جیسے کسی عارف نے فرمایا ہے غیب را ابرے وآبے دیگر است۔ آسمان و آفتابے دیگر است۔ پہلی صورت میں پھر علماء کا اختلاف ہے کہ یہاں چھ دن سے ہمارےچھ دن کی مقدار مراد ہے۔ یا ہزار برس کا ایک ایک دن جسے فرمایا ہے وَ اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ (الحج۔۴۷) میرے نزدیک یہ آخری قول راجح ہے۔ بہرحال مقصود یہ ہوا کہ آسمان و زمین دفعۃً بنا کر نہیں کھڑے کئےگئے۔ شاید اول ان کا مادہ پیدا فرمایا ہو۔ پھر اس کی استعداد کے موافق بتدریج مختلف اشکال و صور میں منتقل کرتے رہے ہوں۔ حتٰی کہ چھ دن (چھ ہزار سال) میں وہ بجمیع متعلقا تہما موجودہ مرتب شکل میں موجود ہوئے۔ جیسا کہ آج بھی انسان اور کل حیوانات و نباتات وغیرہ کی تولید و تخلیق کا سلسلہ تدریجی طور پر جاری ہے۔ اور یہ اس کی شان "کن فیکون" کے منافی نہیں۔ کیونکہ "کن فیکون" کا مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ خدا جس چیز کو وجود کے جس درجہ میں لانا چاہے اس کا ارادہ ہوتے ہی وہ اس درجہ میں آ جاتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ خدا کسی چیز کو وجود کے مختلف مدارج سے گذارنے کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ ہر شے کو بدون توسط اسباب و علل کے دفعۃً موجود کرتا ہے۔
[۶۶]استویٰ علی العرش کی تفسیر:
خدا تعالیٰ کی صفات و افعال کے متعلق یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ نصوص قرآن و حدیث میں جو الفاظ حق تعالیٰ کی صفات کے بیان کرنے کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ان میں اکثر وہ ہیں جن کا مخلوق کی صفات پر بھی استعمال ہوا ہے مثلًا خدا کو "حی" "سمیع" "بصیر" "متکلم" کہا گیا اور انسان پر بھی یہ الفاظ اطلاق کئے گئے، تو ان دونوں مواقع میں استعمال کی حیثیت بالکل جداگانہ ہے۔ کسی مخلوق کو سمیع و بصیر کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان موجود ہیں۔ اب اس میں دو چیزیں ہوئیں۔ ایک وہ آلہ جسے آنکھ کہتےہیں اور جو دیکھنے کا مبدا اور ذریعہ بنتا ہے۔ دوسرا اس کا نتیجہ اور غرض و غایت (دیکھنا) یعنی وہ خاص علم جو رویت بصری سے حاصل ہوا ۔ مخلوق کو جب "بصیر" کہا تو یہ مبداء اور غایت دونوں چیزیں معتبر ہوئیں۔ اور دونوں کی کیفیات ہم نے معلوم کر لیں۔ لیکن یہ ہی لفط جب خدا کی نسبت استعمال کیا گیا تو یقینًا و مبادی اور کیفیات جسمانیہ مراد نہیں ہو سکتیں جو مخلوق کے خواص میں سے ہیں اور جن سے خداوند قدوس قطعًا منزہ ہے البتہ یہ اعتقاد رکھنا ہو گا کہ ابصار (دیکھنے) کا مبداء اس کی ذات اقدس میں موجود ہے اور اس کا نتیجہ یعنی وہ علم جو رویت بصری سے حاصل ہو سکتا ہے اس کو بدرجہ کمال حاصل ہے۔ آگے یہ کہ وہ مبداء کیسا ہے اور دیکھنے کی کیا کیفیت ہے تو بجز اس بات کے کہ اس کا دیکھنا مخلوق کی طرح نہیں ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (شوریٰ۔۱۱) نہ صرف سمیع و بصیر بلکہ اس کی تمام صفات کو اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ صفت باعتبار اپنے اصل مبداء و غایت کے ثابت ہے مگر اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی اور نہ شرائع سماویہ نے اس کا مکلف بنایا ہے کہ آدمی اس طرح کے ماوراء عقل حقائق میں خوض کر کے پریشان ہو۔ اس کا کچھ حصہ خلاصہ ہم سورہ مائدہ میں زیر فائدہ وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ یَدُ اللّٰہِ مَغۡلُوۡلَۃٌ (المائدہ۔۶۴) بیان کر چکے ہیں۔ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کو بھی اسی قاعدہ سے سمجھ لو۔ "عرش" کے معنی تخت اور بلند مقام کے ہیں۔ "استواء" کا ترجمہ اکثر محققین نے "استقرار و تمکن" سے کیا ہے (جسے مترجمؒ نے قرار پکڑنے سے تعبیر فرمایا) گویا یہ لفظ تخت حکومت پر ایسی طرح قابض ہونے کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کا کوئی حصہ اور گوشہ حیطہ نفوذ و اقتدار سے باہر نہ رہے اور نہ قبضہ و تسلط میں کسی قسم کی مزاحمت اور گڑ بڑی پائی جائے
۔ سب کام اور انتظام برابر ہو۔ اب دنیا میں بادشاہوں کی تخت نشینی کا ایک مبداء اور ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت یا غرض و غایت یعنی ملک پر پورا تسلط و اقتدار اور نفوذ و تصرف کی قدرت حاصل ہونا۔ حق تعالیٰ کے اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ میں یہ حقیقت اور غرض و غایت بدرجہ کمال موجود ہے یعنی آسمان و زمین (کل علویات و سفلیات) کو پیدا کرنے کے بعد ان پر کامل قبضہ و اقتدار اور ہر قسم کے مالکانہ و شہنشاہانہ تصرفات کا حق بے روک ٹوک اسی کو حاصل ہے جیسا کہ دوسری جگہ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کے بعد یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ وغیرہ الفاظ اور یہاں یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ الخ سے اسی مضمون پر متنبہ فرمایا ہے۔ رہا اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کا مبداء اور ظاہری صورت، اس کے متعلق وہ ہی عقیدہ رکھنا چاہئے جو ہم "سمع و بصر" وغیرہ صفات کے متعلق لکھ چکے ہیں کہ اس کی کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی جس میں صفات مخلوقین اور سمات حدوث کا ذرا بھی شائبہ ہو۔ پھر کیسی ہے؟ اس کا جواب وہی ہے کہ اے برتر از خیال و قیاس و گمان و وہم۔ وزہر چہ گفتہ اند شنیدیم و خواندہ ایم۔ منزل تمام گشت و بپایاں رسید عمر۔ ماہمچناں در اول وصف تو ماندہ ایم ۔ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ
[۶۷]چاند سورج اور دن رات کی تخلیق:
یعنی رات کے اندھیرے کو دن کے اجالے سے یا دن کے اجالے کو رات کے اندھیرے سے ڈھانپتا ہے اس طرح کہ ایک دوسرے کا تعاقب کرتا ہوا تیزی سے چلا آتا ہے۔ ادھر رات ختم ہوئی ادھر دن آ موجود ہوا، یا دن تمام ہوا تو فورًا رات آ گئ۔ درمیان میں ایک منٹ کا وقفہ بھی نہیں ہوتا۔ شاید اس پر بھی تنبیہ فرما دی کہ اسی طرح کفر و ضلالت اور ظلم و عدوان کی شب دیجور جب عالم پر محیط ہو جاتی ہے اس وقت خدا تعالیٰ ایمان و عرفان کے آفتاب سے ہر چہار طرف روشنی پھیلا دیتا ہے۔ اور جب تک آفتاب عالمتاب کی روشنی نمودار نہ ہو تو نبوت کے چاند تارے رات کی تاریکی میں اجالا اور رہنمائی کرتے ہیں۔
[۶۸]کوئی سیارہ اس کے حکم کے بدون حرکت نہیں کر سکتا
۔
[۶۹]پیدا کرنا "خلق" ہے اور پیدا کرنے کے بعد تکوینی یا تشریعی احکام دینا یہ "امر" ہے اور دونوں اسی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ اس طرح وہ ہی ساری خوبیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہوا۔
[۷۰]اللہ کو پکارنے کا طریقہ:
جب "عالم خلق و امر" کا مالک اور تمام برکات کا منبع وہ ہی ذات ہے تو اپنی دنیوی و اخروی حوائج میں اسی کو پکارنا چاہئے۔ الحاح و اخلاص اور خشوع کےساتھ بدون ریاکاری کے آہستہ آہستہ اس سے معلوم ہوا کہ دعاء میں اصل اخفاء ہے اور یہی سلف کا معمول تھا۔ بعض مواضع میں جہر و اعلان کسی عارض کی وجہ سے ہوگا۔ جس کی تفصیل روح المعانی وغیرہ میں ہے
۔
[۷۱]یعنی دعاء میں حد ادب سے نہ بڑھے ۔ مثلًا جو چیزیں عادتًا یا شرعًا محال ہیں وہ مانگنے لگے یا معاصی اور لغو چیزوں کی طلب کرے یا ایسا سوال کرے جو اس کی شان و حیثیت کے مناسب نہیں، یہ سب "اعتداء فی الدعاء" میں داخل ہے
۔
[۷۲]پچھلی آیتوں میں ہر حاجت کے لئے خدا کو پکارنے کا طریقہ بتلایا تھا۔ اس آیت میں مخلوق اور خالق دونوں کے حقوق کی رعایت سکھلائی یعنی جب دنیا میں معاملات کی سطح درست ہو تو تم اس میں گڑ بڑی نہ ڈالو اور خوف و رجاء کے ساتھ خدا کی عبادت میں مشغول رہو۔ نہ اس کی رحمت سے مایوس ہو اور نہ اس کےعذاب سے مامون اور بےفکر ہو کر گناہوں پر دلیر بنو۔ میرے نزدیک یہ ہی راجح ہے کہ یہاں وَادْعُوْہُ الخ میں دعاء سے عبادت مراد لی جائے۔ جیسا کہ صلوٰۃ تہجد کے بارہ میں فرمایا۔ تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۔ (السجدہ۔۱۶)
[۷۳]کائنات میں حق تعالیٰ کا تصرف:
پچھلی آیات میں "استواء علی العرش" کے ساتھ فلکیات (چاند سورج وغیرہ) میں جو خدائی تصرفات ہیں ان کا بیان تھا، درمیان میں بندوں کو کچھ مناسب ہدایات کی گئیں اب سفلیات اور "کائنات الجو" کے متعلق اپنے بعض تصرفات کا ذکر فرماتے ہیں تاکہ لوگ معلوم کر لیں کہ آسمان زمین اور ان دونوں کے درمیانی حصہ کی کل حکومت صرف اسی رب العالمین کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ہوائیں چلانا، مینہ برسانا، قسم قسم کے پھول، پھل پیدا کرنا۔ ہر زمین کی استعداد کے موافق کھیتی اور سبزہ اگانا، یہ سب اسی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے نشان ہیں۔ اسی ذیل میں مُردوں کا موت کے بعد جی اٹھنا اور قبروں سے نکلنا بھی سمجھا دیا۔
حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ "ایک تو مُردوں کا نکلنا قیامت میں ہے اور ایک دنیا میں یعنی جاہل ادنیٰ لوگوں میں (جہالت و ذلت کی موت سے مر چکے تھے) عظیم الشان نبی بھیجا اور انہیں علم دیا اور دنیا کا سردار کیا، پھر ستھری استعداد والے کمال کو پہنچے اور جن کی استعداد خراب تھی ان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ناقص سا " گویا اس پورے رکوع میں بتلا دیا گیا کہ جب خدا اپنی رحمت و شفقت سے رات کی تاریکی میں ستارے، چاند، سورج سے روشنی کرتا ہے اور خشکی کے وقت زمین کو سرسبز و شاداب کرنے اور انسان و حیوانات کی زندگی کا سامان مہیا فرمانے کے لئے اوپر سے بارش بھیجتا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسا مہربان خدا اپنی مخلوق کو جہل و ظلم کی اندھیریوں سے نکالنے کے لئے کوئی چاند اور سورج پیدا نہ کرے اور بنی آدم کی روحانی غذا تیار کرنے اور قلوب کی کھیتیوں کو سیراب کرنے کے لئے باران رحمت نازل نہ فرمائے
۔ بلاشبہ اس نے ہر زمانہ کی ضرورت اور اپنی حکمت کے موافق پیغمبروں کو بھیجا جن کے منور سینوں سے دنیا میں روحانی روشنی پھیلی اور وحی الہٰی کی لگاتار بارشیں ہوئیں۔ چنانچہ آیندہ کئ رکوع میں ان ہی پیغمبروں کے بھیجنے کا ذکر کیا گیا ہے اور جیسا کہ بارش اور زمین کی مثال میں اشارہ کیا گیا کہ مختلف زمینیں اپنی اپنی استعداد کے موافق بارش کا اثر قبول کرتی ہیں، اسی طرح سمجھ لو کہ انبیاء علیہم السلام جو خیر و برکت لے کر آتے ہیں، اس سے منتفع ہونا بھی حسن استعداد پر موقوف ہے۔ جو لوگ ان سے انتفاع نہیں کرتے یا پورا انتفاع نہیں کرتے، انہیں اپنی سوء استعداد پر رونا چاہئے باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست۔ درباغ لالہ روید و در شو بوم خس۔
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۵۴﴾
بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین [۶۴] چھ دن میں [۶۵] پھر قرار پکڑا عرش پر [۶۶] اوڑھاتا ہے رات پر دن کہ وہ اسکے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا اور پیدا کئے سورج اور چاند اور تارے [۶۷] تابعدار اپنے حکم کے [۶۸] سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا [۶۹]
Surely, your Lord is Allah who created the heavens and the earth in six days, then He positioned himself on the Throne. He covers the day with the night that pursues it swiftly. (He created) the sun and the moon and the stars, subjugated to His command. Lo! To Him alone belong the creation and the command. Glorious is Allah, the Lord of all the worlds.
اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾
پکارو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے [۷۰] اس کو خوش نہیں آتے حد سے بڑھنے والے [۷۱]
Supplicate to your Lord humbly and secretly. Surely, He does not like those who cross the limits.
وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾
اور مت خرابی ڈالو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد اور پکارو اس کو ڈر اور توقع سے [۷۲] بیشک اللہ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے
Do not make mischief on the earth after it has been set in order. Supplicate Him in fear and hope. Surely, the mercy of Allah is close to those who are good in their deeds.
وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۵۷﴾
اور وہی ہے کہ چلاتا ہے ہوائیں خوشخبری لانے والی مینہ سے پہلے یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں اٹھا لاتی ہیں بھاری بادلوں کو تو ہانک دیتے ہیں ہم اس بادل کو ایک شہر مردہ کی طرف پھر ہم اتارتے ہیں اس بادل سے پانی پھر اس سے نکالتے ہیں سب طرح کے پھل اسی طرح ہم نکالیں گے مردوں کو تاکہ تم غور کرو
He is the One who sends the winds carrying good news before His blessings, until when they lift up the heavy clouds, We drive them to a dead land. Then, there We pour down water. Then, We bring forth with it all sorts of fruits. In similar way, We will bring forth all the dead. (All this is being explained to you), so that you may learn a lesson.
وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّشۡکُرُوۡنَ ﴿٪۵۸﴾
اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کا سبزہ نکلتا ہے اس کے رب کے حکم سے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر ناقص یوں پھیر پھیر کر بتلاتے ہیں ہم آیتیں حق ماننے والے لوگوں کو [۷۳]
As for a good land, its vegetation comes out with the permission of its Lord. But that which is bad does not grow except what is bad. Thus We alternate the verses in various ways for a people who pay gratitude.
[۶۴]زمین و آسمان کی تخلیق چھ دن میں:
گذشتہ آیت میں معاد کا ذکر تھا اس رکوع میں مبدا کی معرفت کرائی گئ ہے ۔ وہاں قَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ سے بتلایا گیا تھا کہ جو لوگ دنیا میں انبیاء و رسل سے منحرف رہتے تھے ان کو بھی قیامت کے دن پیغمبروں کی سچائی کی ناچار تصدیق کرنی پڑے گی۔ یہاں نہایت لطیف پیرایہ میں خدا کی حکومت یاد دلانے اور انبیاء و رسل کی ضرورت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بعض مشہور پیغمبروں کے احوال و واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ انکی تصدیق یا تکذیب کرنے والوں کا آخرت سے پہلے دنیا ہی میں کیا انجام ہوا گویا یہ رکوع آنے والے کئ رکوعات کی تمہید ہے
۔
[۶۵]یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے برابر تھا پیدا کیا کیونکہ یہ متعارف دن اور رات تو آفتاب کے طلوع و غروب سے وابستہ ہیں جب اس وقت آفتاب ہی پیدا نہ ہوا تھا تو دن رات کہاں سے ہوتا۔ یا یہ کہا جائے کہ عالم شہادت کے دن رات مراد نہیں، عالم غیب کے دن رات مراد ہیں۔ جیسے کسی عارف نے فرمایا ہے غیب را ابرے وآبے دیگر است۔ آسمان و آفتابے دیگر است۔ پہلی صورت میں پھر علماء کا اختلاف ہے کہ یہاں چھ دن سے ہمارےچھ دن کی مقدار مراد ہے۔ یا ہزار برس کا ایک ایک دن جسے فرمایا ہے وَ اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ (الحج۔۴۷) میرے نزدیک یہ آخری قول راجح ہے۔ بہرحال مقصود یہ ہوا کہ آسمان و زمین دفعۃً بنا کر نہیں کھڑے کئےگئے۔ شاید اول ان کا مادہ پیدا فرمایا ہو۔ پھر اس کی استعداد کے موافق بتدریج مختلف اشکال و صور میں منتقل کرتے رہے ہوں۔ حتٰی کہ چھ دن (چھ ہزار سال) میں وہ بجمیع متعلقا تہما موجودہ مرتب شکل میں موجود ہوئے۔ جیسا کہ آج بھی انسان اور کل حیوانات و نباتات وغیرہ کی تولید و تخلیق کا سلسلہ تدریجی طور پر جاری ہے۔ اور یہ اس کی شان "کن فیکون" کے منافی نہیں۔ کیونکہ "کن فیکون" کا مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ خدا جس چیز کو وجود کے جس درجہ میں لانا چاہے اس کا ارادہ ہوتے ہی وہ اس درجہ میں آ جاتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ خدا کسی چیز کو وجود کے مختلف مدارج سے گذارنے کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ ہر شے کو بدون توسط اسباب و علل کے دفعۃً موجود کرتا ہے۔
[۶۶]استویٰ علی العرش کی تفسیر:
خدا تعالیٰ کی صفات و افعال کے متعلق یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ نصوص قرآن و حدیث میں جو الفاظ حق تعالیٰ کی صفات کے بیان کرنے کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ان میں اکثر وہ ہیں جن کا مخلوق کی صفات پر بھی استعمال ہوا ہے مثلًا خدا کو "حی" "سمیع" "بصیر" "متکلم" کہا گیا اور انسان پر بھی یہ الفاظ اطلاق کئے گئے، تو ان دونوں مواقع میں استعمال کی حیثیت بالکل جداگانہ ہے۔ کسی مخلوق کو سمیع و بصیر کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان موجود ہیں۔ اب اس میں دو چیزیں ہوئیں۔ ایک وہ آلہ جسے آنکھ کہتےہیں اور جو دیکھنے کا مبدا اور ذریعہ بنتا ہے۔ دوسرا اس کا نتیجہ اور غرض و غایت (دیکھنا) یعنی وہ خاص علم جو رویت بصری سے حاصل ہوا ۔ مخلوق کو جب "بصیر" کہا تو یہ مبداء اور غایت دونوں چیزیں معتبر ہوئیں۔ اور دونوں کی کیفیات ہم نے معلوم کر لیں۔ لیکن یہ ہی لفط جب خدا کی نسبت استعمال کیا گیا تو یقینًا و مبادی اور کیفیات جسمانیہ مراد نہیں ہو سکتیں جو مخلوق کے خواص میں سے ہیں اور جن سے خداوند قدوس قطعًا منزہ ہے البتہ یہ اعتقاد رکھنا ہو گا کہ ابصار (دیکھنے) کا مبداء اس کی ذات اقدس میں موجود ہے اور اس کا نتیجہ یعنی وہ علم جو رویت بصری سے حاصل ہو سکتا ہے اس کو بدرجہ کمال حاصل ہے۔ آگے یہ کہ وہ مبداء کیسا ہے اور دیکھنے کی کیا کیفیت ہے تو بجز اس بات کے کہ اس کا دیکھنا مخلوق کی طرح نہیں ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (شوریٰ۔۱۱) نہ صرف سمیع و بصیر بلکہ اس کی تمام صفات کو اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ صفت باعتبار اپنے اصل مبداء و غایت کے ثابت ہے مگر اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی اور نہ شرائع سماویہ نے اس کا مکلف بنایا ہے کہ آدمی اس طرح کے ماوراء عقل حقائق میں خوض کر کے پریشان ہو۔ اس کا کچھ حصہ خلاصہ ہم سورہ مائدہ میں زیر فائدہ وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ یَدُ اللّٰہِ مَغۡلُوۡلَۃٌ (المائدہ۔۶۴) بیان کر چکے ہیں۔ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کو بھی اسی قاعدہ سے سمجھ لو۔ "عرش" کے معنی تخت اور بلند مقام کے ہیں۔ "استواء" کا ترجمہ اکثر محققین نے "استقرار و تمکن" سے کیا ہے (جسے مترجمؒ نے قرار پکڑنے سے تعبیر فرمایا) گویا یہ لفظ تخت حکومت پر ایسی طرح قابض ہونے کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کا کوئی حصہ اور گوشہ حیطہ نفوذ و اقتدار سے باہر نہ رہے اور نہ قبضہ و تسلط میں کسی قسم کی مزاحمت اور گڑ بڑی پائی جائے
۔ سب کام اور انتظام برابر ہو۔ اب دنیا میں بادشاہوں کی تخت نشینی کا ایک مبداء اور ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت یا غرض و غایت یعنی ملک پر پورا تسلط و اقتدار اور نفوذ و تصرف کی قدرت حاصل ہونا۔ حق تعالیٰ کے اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ میں یہ حقیقت اور غرض و غایت بدرجہ کمال موجود ہے یعنی آسمان و زمین (کل علویات و سفلیات) کو پیدا کرنے کے بعد ان پر کامل قبضہ و اقتدار اور ہر قسم کے مالکانہ و شہنشاہانہ تصرفات کا حق بے روک ٹوک اسی کو حاصل ہے جیسا کہ دوسری جگہ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کے بعد یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ وغیرہ الفاظ اور یہاں یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ الخ سے اسی مضمون پر متنبہ فرمایا ہے۔ رہا اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کا مبداء اور ظاہری صورت، اس کے متعلق وہ ہی عقیدہ رکھنا چاہئے جو ہم "سمع و بصر" وغیرہ صفات کے متعلق لکھ چکے ہیں کہ اس کی کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی جس میں صفات مخلوقین اور سمات حدوث کا ذرا بھی شائبہ ہو۔ پھر کیسی ہے؟ اس کا جواب وہی ہے کہ اے برتر از خیال و قیاس و گمان و وہم۔ وزہر چہ گفتہ اند شنیدیم و خواندہ ایم۔ منزل تمام گشت و بپایاں رسید عمر۔ ماہمچناں در اول وصف تو ماندہ ایم ۔ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ
[۶۷]چاند سورج اور دن رات کی تخلیق:
یعنی رات کے اندھیرے کو دن کے اجالے سے یا دن کے اجالے کو رات کے اندھیرے سے ڈھانپتا ہے اس طرح کہ ایک دوسرے کا تعاقب کرتا ہوا تیزی سے چلا آتا ہے۔ ادھر رات ختم ہوئی ادھر دن آ موجود ہوا، یا دن تمام ہوا تو فورًا رات آ گئ۔ درمیان میں ایک منٹ کا وقفہ بھی نہیں ہوتا۔ شاید اس پر بھی تنبیہ فرما دی کہ اسی طرح کفر و ضلالت اور ظلم و عدوان کی شب دیجور جب عالم پر محیط ہو جاتی ہے اس وقت خدا تعالیٰ ایمان و عرفان کے آفتاب سے ہر چہار طرف روشنی پھیلا دیتا ہے۔ اور جب تک آفتاب عالمتاب کی روشنی نمودار نہ ہو تو نبوت کے چاند تارے رات کی تاریکی میں اجالا اور رہنمائی کرتے ہیں۔
[۶۸]کوئی سیارہ اس کے حکم کے بدون حرکت نہیں کر سکتا
۔
[۶۹]پیدا کرنا "خلق" ہے اور پیدا کرنے کے بعد تکوینی یا تشریعی احکام دینا یہ "امر" ہے اور دونوں اسی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ اس طرح وہ ہی ساری خوبیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہوا۔
[۷۰]اللہ کو پکارنے کا طریقہ:
جب "عالم خلق و امر" کا مالک اور تمام برکات کا منبع وہ ہی ذات ہے تو اپنی دنیوی و اخروی حوائج میں اسی کو پکارنا چاہئے۔ الحاح و اخلاص اور خشوع کےساتھ بدون ریاکاری کے آہستہ آہستہ اس سے معلوم ہوا کہ دعاء میں اصل اخفاء ہے اور یہی سلف کا معمول تھا۔ بعض مواضع میں جہر و اعلان کسی عارض کی وجہ سے ہوگا۔ جس کی تفصیل روح المعانی وغیرہ میں ہے
۔
[۷۱]یعنی دعاء میں حد ادب سے نہ بڑھے ۔ مثلًا جو چیزیں عادتًا یا شرعًا محال ہیں وہ مانگنے لگے یا معاصی اور لغو چیزوں کی طلب کرے یا ایسا سوال کرے جو اس کی شان و حیثیت کے مناسب نہیں، یہ سب "اعتداء فی الدعاء" میں داخل ہے
۔
[۷۲]پچھلی آیتوں میں ہر حاجت کے لئے خدا کو پکارنے کا طریقہ بتلایا تھا۔ اس آیت میں مخلوق اور خالق دونوں کے حقوق کی رعایت سکھلائی یعنی جب دنیا میں معاملات کی سطح درست ہو تو تم اس میں گڑ بڑی نہ ڈالو اور خوف و رجاء کے ساتھ خدا کی عبادت میں مشغول رہو۔ نہ اس کی رحمت سے مایوس ہو اور نہ اس کےعذاب سے مامون اور بےفکر ہو کر گناہوں پر دلیر بنو۔ میرے نزدیک یہ ہی راجح ہے کہ یہاں وَادْعُوْہُ الخ میں دعاء سے عبادت مراد لی جائے۔ جیسا کہ صلوٰۃ تہجد کے بارہ میں فرمایا۔ تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۔ (السجدہ۔۱۶)
[۷۳]کائنات میں حق تعالیٰ کا تصرف:
پچھلی آیات میں "استواء علی العرش" کے ساتھ فلکیات (چاند سورج وغیرہ) میں جو خدائی تصرفات ہیں ان کا بیان تھا، درمیان میں بندوں کو کچھ مناسب ہدایات کی گئیں اب سفلیات اور "کائنات الجو" کے متعلق اپنے بعض تصرفات کا ذکر فرماتے ہیں تاکہ لوگ معلوم کر لیں کہ آسمان زمین اور ان دونوں کے درمیانی حصہ کی کل حکومت صرف اسی رب العالمین کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ہوائیں چلانا، مینہ برسانا، قسم قسم کے پھول، پھل پیدا کرنا۔ ہر زمین کی استعداد کے موافق کھیتی اور سبزہ اگانا، یہ سب اسی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے نشان ہیں۔ اسی ذیل میں مُردوں کا موت کے بعد جی اٹھنا اور قبروں سے نکلنا بھی سمجھا دیا۔
حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ "ایک تو مُردوں کا نکلنا قیامت میں ہے اور ایک دنیا میں یعنی جاہل ادنیٰ لوگوں میں (جہالت و ذلت کی موت سے مر چکے تھے) عظیم الشان نبی بھیجا اور انہیں علم دیا اور دنیا کا سردار کیا، پھر ستھری استعداد والے کمال کو پہنچے اور جن کی استعداد خراب تھی ان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ناقص سا " گویا اس پورے رکوع میں بتلا دیا گیا کہ جب خدا اپنی رحمت و شفقت سے رات کی تاریکی میں ستارے، چاند، سورج سے روشنی کرتا ہے اور خشکی کے وقت زمین کو سرسبز و شاداب کرنے اور انسان و حیوانات کی زندگی کا سامان مہیا فرمانے کے لئے اوپر سے بارش بھیجتا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسا مہربان خدا اپنی مخلوق کو جہل و ظلم کی اندھیریوں سے نکالنے کے لئے کوئی چاند اور سورج پیدا نہ کرے اور بنی آدم کی روحانی غذا تیار کرنے اور قلوب کی کھیتیوں کو سیراب کرنے کے لئے باران رحمت نازل نہ فرمائے
۔ بلاشبہ اس نے ہر زمانہ کی ضرورت اور اپنی حکمت کے موافق پیغمبروں کو بھیجا جن کے منور سینوں سے دنیا میں روحانی روشنی پھیلی اور وحی الہٰی کی لگاتار بارشیں ہوئیں۔ چنانچہ آیندہ کئ رکوع میں ان ہی پیغمبروں کے بھیجنے کا ذکر کیا گیا ہے اور جیسا کہ بارش اور زمین کی مثال میں اشارہ کیا گیا کہ مختلف زمینیں اپنی اپنی استعداد کے موافق بارش کا اثر قبول کرتی ہیں، اسی طرح سمجھ لو کہ انبیاء علیہم السلام جو خیر و برکت لے کر آتے ہیں، اس سے منتفع ہونا بھی حسن استعداد پر موقوف ہے۔ جو لوگ ان سے انتفاع نہیں کرتے یا پورا انتفاع نہیں کرتے، انہیں اپنی سوء استعداد پر رونا چاہئے باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست۔ درباغ لالہ روید و در شو بوم خس۔