٭مثلاً قرآن مجید میں حضرت عیسی کی مثال حضرت آدم سے دی گئی ہے:
(اِنَ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ)
''اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیداکیا اورحکم دیا کہ ہو جااوروہ ہوگیا''(1)
معنی کے لحاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے مگر اگر آپ قرآن مجید میں عیسیٰ کا لفظ تلاش کریں تو وہ 25مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ اوراسی طرح آدم کا نام بھی 25دفعہ ہی قرآن میں موجودہے۔ یعنی معنی کے ساتھ ساتھ دونوں پیغمبروں کے ناموں کو بھی یکساں طور پر درج کیا گیا ہے۔
٭ اسی طرح سورة الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
''اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں سے اس (کے درجات)کو بلند کردیتے مگر وہ تو پستی کی طرف جھک گیااوراپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ایسے شخص کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تواس پر حملہ کرے تو بھی ہانپتا ہے اور نہ کرے تو بھی ہانپتا ہے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلادیا ''(2)
یہ کلمہ ''اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یٰتِنَا'' یعنی جو ہماری نشانیوںکو جھٹلاتے ہیں''قرآن مجید میں 5دفعہ آیا ہے جبکہ ''کَلْب''یعنی کتے کانام بھی پورے قرآن میں 5دفعہ ہی دہرایا گیا ہے۔
٭ اسی طرح سورة ''فاطر''میں فرمایا کہ
''اندھیرا اورروشنی ایک جیسے نہیں ہیں ''(3)
اب اندھیرے کو عربی میں ''ظلمت''کہتے ہیں اورقرآن میں یہ لفظ 23مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ جبکہ لفظ روشنی یعنی ''نور'' ،کو 24مرتبہ دہرا یا گیا ہے۔ (4)
٭ قرآن مجید میں''سَبْعَ سَمٰوٰت''یعنی سات آسمانوں کا ذکر 7مرتبہ ہی ہوا ہے۔ نیز آسمانوں کے بنائے جانے کے لیے لفظ ''خَلَقَ''بھی 7مرتبہ ہی دہرایا گیاہے۔
٭ لفظ ''یَوْم''یعنی دن 365مرتبہ ،جبکہ جمع کے طورپر ''یَوْمَیْن یا اَیَّام''30مرتبہ اورلفظ ''شَھْر''یعنی مہینہ 12دفعہ دہرایا گیاہے۔
٭ لفظ ''شَجَرَہْ''یعنی درخت اورلفظ ''نَبَّات''یعنی پودے ،دونوں یکساں طورپر 26مرتبہ ہی دہرائے گئے ہیں۔
٭ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق ''انعام ''دینے کالفظ 117مرتبہ استعمال ہوا ہے جبکہ معاف کرنے کا لفظ ''مَغْفِرَہ'' 234مرتبہ یعنی دگنی تعداد میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو معاف کرنا زیادہ پسند کرتاہے۔
٭ جب لفظ ''قُل''یعنی کہو ،کو گنا گیا تو وہ 332دفعہ شمارہوا۔ جبکہ لفظ ''قَالُوا''یعنی وہ کہتے ہیں یا پوچھتے ہیں؟کو شمار کیا گیا تو وہ بھی 332مرتبہ ہی قرآن میں دہرایا گیاہے۔
٭ لفظ ''دُنْیا''اور''آخِرَتْ''،دونوں مساوی طورپر 115دفعہ ہی دہرائے گئے ہیں۔
٭ لفظ ''شَیْطَان''88مرتبہ جبکہ لفظ''مَلَائِکَہ''یعنی فرشتے کو بھی 88دفعہ ہی دہرایا گیا ہے۔
٭ لفظ ''اِیْمَان''25دفعہ اورلفظ ''کُفْر''بھی اتنی مرتبہ ہی استعمال ہوا ہے۔
٭ لفظ ''جَنَّتْ''اورلفظ ''جَھَنَّم''یکساں تعداد میں یعنی 77مرتبہ دہرائے گئے ہیں۔
٭ لفظ ''زَکَوٰة''یعنی پاک کرنا،کو قرآن مجید میں 32دفعہ دہرایاگیا ہے جبکہ لفظ ''بَرَکَاة''یعنی برکت کو بھی 32دفعہ ہی استعمال کیا گیا ہے۔
٭ لفظ ''اَلْاَبْرَار''یعنی نیک لوگ کو 6دفعہ دہرایا گیا ہے اس کے مقابلہ میں لفظ ''اَلْفُجَّار''یعنی برے لوگ یا گنہگارلوگ،کو صرف 3مرتبہ دہرایا گیاہے۔
٭ لفظ ''خَمَرْ''یعنی شراب قرآن میں 6مرتبہ استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ ''سَکَارٰی''یعنی نشہ یا شراب پینے والا،بھی 6مرتبہ ہی دہرایا گیا ہے۔
لفظ ''لِسَان''یعنی زبان کو 25دفعہ لکھا گیا ہے اورلفظ ''خِطَاب''یعنی بات یا کلام ،کوبھی 25مرتبہ ہی دہرا یا گیا ہے۔
٭ لفظ ''مَنْفَعْہ''یعنی فائدہ ،اوراس کے متضادلفظ ''خُسْرَان''یعنی خسارہ ،نقصان'کو بھی یکساں طورپر 50,50مرتبہ ہی دہرایاگیا ہے۔
٭ لفظ ''مَحَبَّہ''یعنی دوستی اورلفظ ''طَاعَہ''یعنی فرمانبرداری''دونوں مساوی طورپر 83مرتبہ ہی دہرائے گئے ہیں۔
٭ لفظ ''مُصِیْبَة''یعنی تکلیف یا غم ،75مرتبہ استعمال ہواہے اورلفظ ''شُکْر''یعنی شکر گزارہونا ' حق بات کو ماننا،بھی 75مرتبہ ہی دہرایا گیا ہے۔
٭ لفظ''اِمْرَأة''یعنی عورت اورلفظ ''رَجُل''یعنی مرد یا آدمی ،دونوں یکساں طورپر 23,23مرتبہ ہی دہرائے گئے ہیں۔قرآن مجید میں ان الفاظ کا اتنی مرتبہ دہرانا بڑا دلچسپ اورحیران کُن ہے۔ کیونکہ جدید سائنس کے مطابق انسانی جنین کی تشکیل میں بھی 46کروموسومز حصہ لیتے ہیں اوران میں 23کروموسومز ماں کے اور23ہی باپ کے ہوتے ہیں اوریہ مرد کے جرثومے اورعورت کے بیضے میں موجودہوتے ہیں۔چنانچہ قرآن مجیدمیں دہرائے گئے ان الفا ظ کی جدید سائنس کے ساتھ مطابقت بڑی معنی خیز ہے۔
٭ لفظ ''صَلَوَات'' یعنی نمازیں ،5دفعہ دہرایا گیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دن رات میں کُل پانچ نمازیں ہی پڑھنے کا حکم دیا ہے
٭ لفظ ''اَرْض''یعنی زمین کو قرآن مجیدمیں 13دفعہ دہرایا گیا ہے۔ جبکہ لفظ ''بَحْر''یعنی سمندریاد ریا ،کو 32دفعہ دہرایا گیاہے۔ان دونوں کا مجموعہ 45بنتاہے۔
چنانچہ ان کی نسبت کومعلوم کرنے کے لیے زمین اورسمندرکے انفرادی عدد کو ان دونوں کے مجموعے سے تقسیم کرتے ہیں تو درج ذیل نتیجہ سامنے آتاہے۔
زمین کے لیے 100 = 28.888888889% 13/45
سمندر کے لیے 100 = 71.111111111% 32/45
درج بالا حاصل ہونے والا نتیجہ جدید سائنس کے عین مطابق ہے۔ جس کے مطابق بھی زمین پر 71%پانی جبکہ 29%خشکی پائی جاتی ہے۔(5)
مذکورہ بالا تفصیل پر غوروخوض کے بعد یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید کا حسابی نظام اتنا پیچیدہ مگر منظم ہے کہ یہ انسانی عقل کے بس کی بات نہیں ،لاریب تمام جن وانس مل کر بھی ایسی بے مثال محیرالعقول کتاب تیارنہیں کرسکتے۔ حالاتِ حاضرہ پر نظر ڈالیں توآپ کو معلوم ہو گا کہ اس وقت شام ،دمشق،مصر اورعراق وغیرہ میں لاکھوں عیسائی اوریہودی ایک اندازے کے مطابق 1کروڑ 40لاکھ کے قریب موجود ہیں،جن کی مادری زبان عربی ہے جو عربی زبان میں نثر لکھنے پر قادرہیںجن کی ادارت میں اخبار اوررسائل اشاعت پذیر ہیں،ان میں ایسے ایسے ادیب اورماہر لسانیات ہیں جنہوں نے لغات ِ عربیہ پر نظرالمحیط،المنجد،اقرب الموارد اورالمحیط جیسی ضخیم کتابیں لکھ ڈالیں مگر وہ تورات،زبوراورانجیل کے بارے میں اس قسم کے کمپیوٹر ائزڈنظام نہ پیش کرسکے۔ یوںمحسوس ہوتاہے کہ قدرت نے یہ نظام ازل ہی سے قرآن مجید کے لیے مختص فرمادیاتھاجس کااظہار اب کمپیوٹر کے زمانے میں ہواہے۔
اقبال سوہدروی۔