ذکر سے خالی دل مردہ ہے
جو شخص ذکر کے مفہوم کو سمجھنے سے محروم رہا وہ آرام دہ اور اطمئنان بخش
زندگی سے محروم رہا، یہی وجہ ہے کہ مومن کو ہمہ وقت ذکر الٰہی سے رطب
اللسان رہنا چاہیے۔ امام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: "دل کے لیے ذکر اتنا ہی
ضروری ہے جتنا ایک مچھلی کے لیے پانی، "۔ حضرت ابودرداء ؓ کہتے ہیں: "ہر
چیز کو (پالش) کیا جاتا ہے، اور دلوں کی پالش اللہ رب العزت کا ذکر ہے"۔
ذکر کے بدلے ۔۔۔جنت کے مکانات
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: لقيت
ليلة أسري بي إبراهيم الخليل عليه السلام، فقال: يا محمد أقرئ أمتك
السلام، وأخبرهم أن الجنة طيبة التربة، عذبة الماء، وأنها قيعان، وأن غرسها
سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر»
[حسن
جس رات مجھے معراج لے جایا گیا، حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے میری ملاقات
ہوئی، انھوں نے کہا: اے محمد : اپنی امت کو سلام کہیے اور انہیں یہ بتایئے
کہ جنت بہترین مٹی اورمیٹھے پانی والی ہے، اور یہ (درخت وغیرہ سے خالی) دو
چٹیل زمینیں ہیں، البتہ ان میں شجرکاری کے ذرائع سبحان اللہ، الحمدللہ،
لاالہ الا اللہ اور اللہ اکبر ہیں۔
(حسن)
جنت کے گھرذکر کے ذریعے تعمیر کیئے جاتے ہیں، جب ذاکر(ذکرکرنے والا)اللہ
کے ذکر سے رک جاتا ہے، تو فرشتے بھی جنت میں گھر کی تعمیر سے رک جاتے ہیں،
پھر جب ذاکر ذکر الٰہی شروع کرتا ہے تو فرشتے بھی اپنے کام
یعنی گھر کی تعمیر میں لگ جاتے ہیں۔
ذکر الٰہی۔۔۔۔۔۔ذریعۂ نجات
ذکر کرنے والا بندۂ مومن ، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہوجاتا ہے، اور
اس کا دل اللہ تعالیٰ کی معیت ورحمت کے سبب مطمئن رہتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکا
ارشاد ہے: ما عمل
ابن آدم عمل أنجى له من عذاب الله من ذكر الله عز وجل قالوا: يا رسول الله
ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: ولا الجهاد في سبيل الله، إلا أن تضرب بسيفك
حتى ينقطع، ثم تضرب به حتى ينقطع
ترجمہ: آدم کے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ کوئی عمل نجات نہیں دے
سکتا، صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول، اللہ کے راستے میں جہاد بھی
نہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے میں جھاد بھی نہیں، مگر یہ کہ تم
اپنی تلوار سے (اتنا لڑو کہ) وہ ٹوٹ جائے ، پھر اتنا لڑو کہ وہ ٹوٹ جائے۔
فضیل بن عیاض کہتے ہیں: ہمیں یہ روایت پہنچی کہ
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے
میری بندے تو مجھے صبح کے بعد کچھ دیر یاد کر، اسی طرح عصر کے بعد ، میں
تیرے لیے ان اوقات کے درمیان کے لیے کافی ہوجاؤں گا۔
(بروایت حضرت ابوہریرہ )
حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں: اہل جنت کو جنت میں کسی چیز پر اتنا افسوس
نہیں ہوگا سوائے اس گھڑی کے جو انھوں نے ذکر الٰہی کے بغیر گذاری تھی
لہٰذا۔۔۔۔
اپنے لیے ہر روز صبح وشام تک ذکر الٰہی کے لیے ایک وقت متعین کیجئے
تاکہ اس کے ذریعہ تم آسمان وزمین کے برابر کشادگی والی جنت حاصل کرسکو۔
ذکر اور دعا کے آداب
۱ دعا کے لیے مندرجہ ذیل اوقات کے منتظر رہے
سال میں عرفہ کا دن، مہینوں میں ماہ رمضان، ہفتے میں جمعہ کا دن، اور اوقات میں سحر کا وقت
۲ ان مبارک حالات سے فائدہ اٹھائے
اللہ کے راستے میں لشکروں کے باہم مڈبھیڑ کے وقت، بارش کے نزول کے وقت اور نماز کے قائم ہونے کے وقت
۳ قبلہ رخ ہوکر دونوں ہاتھوں کو اٹھاکر دعا کرے۔
۴ دھیمی اور بلند یعنی درمیانی آواز میں دعا کرے۔
۵ دعا میں تکلف کے طور پر الفاظ کا استعمال نہ کرے بلکہ تضرع اور عاجزی ہو۔
۶ اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع، عاجزی ، انکساری اور تضرع کا مظاہرہ کرے۔
۷ دعا ،قبولیت کے یقین کے ساتھ کرے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔
۸ دعا اصرار سے مانگے اور تین تین بار دہرائے۔
۹ دعا کا آغاز اللہ تعالیٰ کے ذکر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر دورود وسلام کے ذریعے کرے۔
۱۰ سچی توبہ ، اپنے باطن کی اصلاح ، حلال کھانے اور ظلم کا خاتمہ پر توجہ دے
جنت میں لیجانے والے اذکار
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: من قال في يوم وليلة سبحان الله وبحمده مائة مرة حُطت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر» [صحيح
ترجمہ: جس نے دن ورات میں سبحان الله وبحمده سو مرتبہ پڑھا ، اس کے سمندر کے جھاگ کے برابر بھی گناہ ہو تو معاف کردیئے جائیں گے۔
نیز آپ کا ارشاد ہے: من قال سبحان الله العظيم وبحمده غرست له نخلة في الجنة»
[صحيح].
ترجمہ: جس نے سبحان الله العظيم وبحمده کہا اس کے لیے جنت میں ایک کھجور کا درخت لگادیا جاتا ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے
من
قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء
قدير في يوم مائة مرة كانت له عدل عشر رقاب وكتبت له مائة حسنة، ومحيت عنه
مائة سيئة، وكانت له حرزاً من الشيطان يومه ذلك حتى يمسي، ولم يأت أحد
بأفضل مما جاء به إلا رجل عمل أكثر منه» [صحيح
ترجمہ: جس نے لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير
دن میں سو مرتبہ پڑھا ، اس کے لیے دس غلاموں کو آزاد کرنے اور سو نیکیوں
کا ثواب لکھا جاتا ہے، اور سو گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے، اور شام تک
شیطان سے اس کو محفوظ کردیا جاتا ہے، اور اس عمل کرنے والے سے زیادہ افضل
کوئی شخص نہیں آتا مگر وہ جس نے اس سے زیادہ عمل کیا ہو۔
دل کو اللہ کے ذکر سے کیسے زندہ رکھیں؟
جب ذکر کی اتنی اہمیت ہے تو دل کو ذکر الٰہی سے زندہ رکھنے کے بارے میں ہمارا کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟
ابن قیم کہتے ہیں: کبھی کبھی ذکر دل اور زبان دونوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے،
اور یہ ذکر کا افضل طریقہ ہے، لیکن کبھی ذکر صرف دل میں کیا جاتا ہے، یہ
طریقہ دوسرے درجہ پر ہے، اسی طرح کبھی کبھی صرف زبان سے ذکر کیا جاتا ہے
اور دل غیر حاضر ہوتا ہے، تو یہ ذکر کا تیسرا درجہ ہے۔
افضل ذکر یہ ہے کہ زبان اور دل حاضر ہو،اور صرف دل کا ذکر زبان کے ذکر سے
افضل ہے اس لیے کہ دل میں ذکر کرنے کی وجہ سے معرفت الٰہی عطا ہوتی ہے اور
معرفت مراقبہ کو دعوت دیتی ہے۔
یقینا آپ کہیں گے کہ ذکر کے دوران دل اور زبان کے اجتماع پر کون قادر ہے۔ ہم سب کمزور ہیں، لیکن زبان کے ساتھ دل کا ذکر ایمان کا معیار ہے
ذکر کا طریقہ
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں فکر کرنا، دائمی محاسبہ اور مراقبہ کرنا، اللہ
تعالیٰ کی قدرت اورصنعت کو پہچاننا۔ جب یہ عمل کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ
اس کے نتیجے میں ہمارا دل اللہ کی یاد سے زندہ رہیں گے۔
ذکر کے فوائد
ذکر کے بہت سارے فوائد ہیں جن میں سے چند ہم یہاں بیان کررہے ہیں
۱ شیطان دور بھاگتا ہے، اور رحمن راضی ہوتا ہے۔
۲ دل اور بدن قوی ہوتا ہے، اور چہرہ اور دل منور ہوتا ہے۔
۳ ذکر کرنے والے کا چہرہ رعب، حلاوت اور تازگی سے لبریز ہوتا ہے۔
۴ ذکر سے مراقبہ حاصل ہوتا ہے یہاں تک کہ بندہ احسان کے باب میں داخل
ہوجاتا ہے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرتا ہے گویا اسے دیکھ رہا
ہے۔
۵۔ بندے کے حق میں ذکر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول حاصل ہوتا ہے: : {فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ}
[البقرة: 152].
۶۔ ذکر سے گناہ مٹتے ہیں، اس لیے کہ ذکر سب سے بڑی نیکی ہے۔
۷ ذکر ،رحمت الٰہی،سکینت الٰہی اور مغفرت الٰہی کے نرول کا ذریعہ ہے۔
۸۔ کثرت سے ذکر کرنا نفاق سے حفاظت کا ذریعہ ہے: وَلاَ يَذْكُرُونَ اللّهَ إِلاَّ قَلِيلاً}
[النساء: 142]
ترجمہ: اور وہ (منافقین) اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔
۹۔ذکر، دل کی سنگدلی اور سختی کے لیے باعث شفا ہے۔
۱۰ ذکر الٰہی رزق کے عظیم دروازوں میں سے ایک ہے
ذکر کے بارے میں علماء کے اقوال
حضرت حسن کے پاس ایک آدمی آیا، اور ان سے کہا: او! ابوسعید۔۔ میں اپنے دل
کی سختی کی شکایت کرتا ہوں، انھوں نے ارشاد فرمایا: اپنے دل کی سنگدلی
کو ذکر الٰہی سے پگھلادو۔
مکحول کہتے ہیں: اللہ کا ذکر کرنا شفا ہے،اور بندوں کا ذکر کرنا بیماری ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنا مجھے
زیادہ پسند ہے کہ میں اتنی ہی تعداد میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں دنانیر
خرچ کروں۔
حضرت مالک بن دینار کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرح مزہ لینے والوں نے کسی اور چیز کا مزہ نہیں اٹھایا۔
’’بہترین کلام اللہ کا کلام ( قرآن کریم ) ہے اور بہترین ھدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ھوا دین ہے ۔،،
Tuesday, November 27, 2012
Wednesday, November 21, 2012
تکبر و خودپسندی
یوں تو دنیا میں فسادات کی بہت سی وجوہات موجود ہیں لیکن علماء اخلاق نے
غرور و تکبر، خودپسندى اور خودخواہی كى صفت كو " ام الفساد" يعنى فساد كى
ماں قرار ديا ہے۔ غرور اور خودپسندی کو تمام گناہوں اور برى صفات كا سبب
بتلايا ہے۔ " ولیم لا" ایک مشہور انگریز مصنف ہے۔ اس نے اخلاقیات کے موضوع
پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے۔ برائی جب بھی شروع ہوتی ہے غرور سے شروع
ہوتی ہے۔ برائی کاجب بھی خاتمہ ہوتا ہے تو انکساری کے ذریعہ ہوتا ہے۔
Evil can have no beginning, but from pride, nor any end but from (humility William Law)
یوں تو" ولیم لا " نے یہ بات اخلاقی اعتبار سے کہی ہے، لیکن اگر ہم صرف اسلامی نقطعہ نظر کے مطابق اس بات پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آسمانی شریعت کی بات بھی یہی ہے۔ خدا کے نزدیک کسی آدمی کا سب سے بڑا جرم "شرک" ہے۔ اسی لئے شرک کی معافی نہیں اور شرک غرور کی سب سے اعلی سطح ہے یعنی اپنی ذات کو اتنی اہمیت دینا کہ اللہ اور اس کے احکامات کو فراموش کر دینا غرور ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے کیونکہ تکبر صرف واحد اللہ تعالی کی ذات کے لئے مخصوص ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلے میں جو بھی ظلم یا فساد کرتا ہے ان سب کی جڑ میں کھلا یا چھپا ہوا غرور شامل رہتا ہے۔ غرور کی وجہ سے آدمی حق کا اعتراف نہیں کرتا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ حق کا اعتراف کر کے اس کی بڑائی ختم ہو جائے گی۔ وہ بھول جاتا ہے کہ حق کو نہ مان کر وہ حق کے مقابلہ میں خود اپنی ذات کو برتر قرار دے رہا ہے۔ اور یہاں سے ہی خودپسند متکبر لوگوں کے ہاتھوں اللہ کی مخلوق کو نہ صرف اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے بلکہ معاشرے میں تباہی شروع ہو جاتی ہے۔ فضائل اخلاقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ اپنی ذات کی محبت اور خودپسندی ہے۔ کیونکہ اپنی ذات کی چاہت میں اضافے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر ایسے شخص کے دل میں دوسرے افراد سے محبت کرنے کی جگہ ہی باقی نہیں رہتی اور اپنی ذات کا غرور انسان کو اپنی غلطیوں کے اعتراف سے روکتا ہے اور ان حقائق کے قبول کرنے پر تیار نہیں ہونے دیتا، جن سے اس کے تکبر کا شیشہ چور ہو جانے کا اندیشہ ہو ۔
پروفیسر " روبنیسون" کہتا ہے ہم کو بارہا یہ اتفاق ہوتا ہے کہ خود بخود بغیر کسی زحمت و پریشانی کے اپنا نظریہ بدل دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی دوسرا ہمارے نظریہ کی غلطی یا اشتباہ پر ہم کو مطلع کرے تو پھر دفعةً ہم میں ایک انقلاب پیدا ہو جاتا ھے اور ہم اس غلطی کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں ہم کسی بھی نظریہ کو خود بڑی آسانی سے قبول کر لیتے ہیں لیکن اگر کوئی دوسرا ہم سے ہمارا نظریہ چھیننا چاہے تو ہم دیوانہ وار اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں، ظاہری سی بات ہے ہمارے عقیدہ و نظریہ میں کوئی مخصوص رابطہ نہیں ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ہماری خود خواہی و تکبر کی حس مجروح ہوتی ہے ۔ اس لئے ہم تسلیم نہیں کرتے اور اسی لئے اگر کوئی ہم سے کہے کہ تمہاری گھڑی پیچھے ہے یا تمہاری گاڑی بہت پرانے زمانہ کی ہے تو ممکن ہے کہ ہم کو اتنا ہی غصہ آ جائے جتنا یہ کہنے پر آتا ہے کہ تم مریخ کے بارے میں جاہل ہو یا فراعنہ مصر کے بارے میں تمہاری معلومات صفر کے برابر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ غصہ کیوں آتا ہے صرف اس لئے کہ ہمارے تکبر اور ہماری انانیت کو ٹھیس نہ لگ جائے۔
خودپسند اور غرور میں ڈوبا ہوا انسان خود اپنا سب سے بڑا دُشمن ہوتا ہے۔ ایسا شخص صرف حيوانیت كو چاہتا ہے۔ اس كے تمام افعال اور حركات كردار اور گفتار كا مركز حيوانى خواہشات كا چاہنا اور حاصل كرنا ہوتا ہے اور اسی لئے ایسا انسان مقام عمل ميں اپنے آپ كو حيوان سمجھتا ہے اور زندگى ميں سوائے حيوانى خواہشات اور ہوس كے اور كسى ہدف اور غرض كو نہيں پہچانتا۔ حيوانى پست خواہشات كے حاصل كرنے ميں اپنے آپ كو آزاد جانتا ہے اور ہر كام كو جائز سمجھتا ہے اس كے نزديك صرف ايك چيز مقدس اور اصلى ہے اور وہ ہے اس كا حيوانى نفس اور وجود، تمام چيزوں كو يہاں تك كہ حق عدالت صرف اپنے لئے چاہتا ہے اور مخصوص قرار ديتا ہے۔ حق اور عدالت جو اسے فائدہ پہنچائے اور اس كى خواہشات كو پورا كرے اسی عدالت اور ضابطوں کو مانتا ہے اور اگر عدالت یا سمجھانے والا کوئی بھی اسے صیح راستے کی طرف دعوت دے تو وہ ايسے کسی قانون دوست یا عدالت كو نہيں مانتا، بلكہ اپنے غرور اور خودپسندی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اپنے لئے صحيح سمجھتا ہے كہ اپنے دوستوں یا عدالتوں كا مقابلہ كرے يہاں تك كہ قوانين اور احكام كى اپنى پسند كے مطابق تاويل كرتا ہے يعنى اس كے نزديك اپنے افكار اور نظريات اور حقيقت ركھتے ہيں اور باقی کسی شے کی کوئی حثیت نہیں۔
انسانی نیک بختی اور بشری سعادت کی سب سے بڑی دشمن "خود پسندی" ہے۔ لوگوں کی نظروں میں تکبر و خودپسندی جتنی مذموم صفت ہے کوئی بھی اخلاقی برائی اتنی ناپسند نہیں ہے۔ خودپسندی الفت و محبت کے رشتہ کو ختم کر دیتی ہے۔ یگانگت و اتحاد کو دشمنی سے بدل دیتی ہے اور انسان کے لئے عمومی نفرت کا دروازہ کھول دیتی ہے اسلئے انسان کو چاہیئے کہ وہ جتنا دوسروں سے اپنے لئے احترام و محبت کا خواہشمند ہو، اتنا ہی دوسروں کی حیثیت و عزت و وقار کا لحاظ کرے اور ان تمام باتوں سے پرہیز کرے جن سے حسن معاشرت کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا رشتہ محبت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ لوگوں کے جذبات کا احترام نہ کرنے سے اس کے خلاف عمومی نفرت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور خود وہ شخص مورد اہانت بن جاتا ہے۔ کبر کا لازمہ بدبینی ہے، متکبر انسان سب ہی کو اپنا بدخواہ اور خود غرض سمجھتا ہے اس کے ساتھ مسلسل ہونے والی بے اعتنائیوں اور اس کے غرور کو چکنا چور کر دینے والے واقعات کی یادیں اس کے دل سے کبھی محو نہیں ہوتیں اور بےاختیار و نادانستہ اس کے افکار اس طرح متاثر ہو جاتے ہیں کہ جب بھی اس کو موقع ملتا ہے وہ پورے معاشرے سے کینہ توزی کے ساتھ انتقام پر اتر آتا ہے اور جب تک اس کے قلب کو آرام نہ مل جائے اس کو سکون نہیں ملتا۔
اگر آپ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ہو جائے گی اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ جو لوگ انبیائے الٰہی کی مخالفت کرتے رہتے تھے اور حق و حقیقت کے قبول کرنے سے اعراض کرتے رہے تھے وہ ہمیشہ دنیا کی خونیں جنگوں میں اس بات پر راضی رہتے تھے کہ ہستی بشر سرحد مرگ تک پہنچ جائے اور یہ جذبہ ہمیشہ حاکمانِ وقت کے غرور و خودپرستی ہی کی بنا پر پیدا ہوتا تھا۔ پست اقوام و پست خاندان میں پرورش پانے والے افراد جب معاشرہ میں کسی اچھی پوسٹ پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ متکبر ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی شخصیت کو دوسروں کی شخصیت سے ماوراء سمجھتے ہیں اور ان کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی شرافت کا ڈھنڈھورا پیٹیں لیکن ایسے افراد بھول جاتے ہیں کہ غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و سر بلندی کی چوٹی پر پہنچایا ہے۔
ایک دانشمند کہتا ہے " امیدوں کے دامن کو کوتاہ کرو اور سطحِ توقعات کو نیچے لے آؤ اپنے آپ کو خواہشات کے جال سے آزاد کراؤ، غرور و خودبینی سے دوری اختیار کرو قید و بند کی زنجیروں کو توڑ دو۔ تاکہ روحانی سلامتی سے ہم آغوش ہو سکو ۔ حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو سود مند نصائح کرتے ھوئے فرمایا تھا "نخوت و تکبر سے پرہیز کرنا" اسی طرح قرآن مجید کہتا ہے اور لوگوں کے سامنے (غرور سے ) اپنا منہ نہ پھلانا، اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کیونکہ خدا کسی اکڑنے والے اور اترانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، اگر خدا کسی بندے کو تکبر کی اجازت دیتا تو ( سب سے پہلے ) اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء کو اجازت دیتا لیکن خدا نے اپنے انبیاء و اولیاء کے لئے بھی تکبر پسند نہیں فرمایا، بلکہ تواضع و فروتنی کو پسند فرمایا ( اسی لئے ) انبیاء و اولیاء نے ( خدا کے سامنے ) اپنے رخساروں کو زمین پر رکھ دیا اور اپنے چہروں کو زمین پر ملا اور ایمانداروں کے سامنے تواضع و فروتنی برتا۔ تکبر کرنے والے قطع نظر اس بات کے کہ پورا معاشرہ ان کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے ان کے لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، " تکبر سے بچو کیونکہ جب کسی بندے کی عادت تکبر ہو جاتی ھے تو خدا حکم دیتا ہے کہ میرے اس بندے کا نام جباروں میں لکھ لو، ہم میں سے ہر وہ شخص جو متکبر خودپسند واقعی اپنی سعادت و خوش بختی کا خواہاں ہے تو اس کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیئے اور اس نفرت انگیز صفت سے اپنی شخصیت کو الگ کرنا چاہیئے کیونکہ اگر اس نے اس کی سرکوبی کی کوشش نہ کی تو ہمیشہ ناکامی کا شکار رہے گا۔
Evil can have no beginning, but from pride, nor any end but from (humility William Law)
یوں تو" ولیم لا " نے یہ بات اخلاقی اعتبار سے کہی ہے، لیکن اگر ہم صرف اسلامی نقطعہ نظر کے مطابق اس بات پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آسمانی شریعت کی بات بھی یہی ہے۔ خدا کے نزدیک کسی آدمی کا سب سے بڑا جرم "شرک" ہے۔ اسی لئے شرک کی معافی نہیں اور شرک غرور کی سب سے اعلی سطح ہے یعنی اپنی ذات کو اتنی اہمیت دینا کہ اللہ اور اس کے احکامات کو فراموش کر دینا غرور ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے کیونکہ تکبر صرف واحد اللہ تعالی کی ذات کے لئے مخصوص ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلے میں جو بھی ظلم یا فساد کرتا ہے ان سب کی جڑ میں کھلا یا چھپا ہوا غرور شامل رہتا ہے۔ غرور کی وجہ سے آدمی حق کا اعتراف نہیں کرتا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ حق کا اعتراف کر کے اس کی بڑائی ختم ہو جائے گی۔ وہ بھول جاتا ہے کہ حق کو نہ مان کر وہ حق کے مقابلہ میں خود اپنی ذات کو برتر قرار دے رہا ہے۔ اور یہاں سے ہی خودپسند متکبر لوگوں کے ہاتھوں اللہ کی مخلوق کو نہ صرف اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے بلکہ معاشرے میں تباہی شروع ہو جاتی ہے۔ فضائل اخلاقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ اپنی ذات کی محبت اور خودپسندی ہے۔ کیونکہ اپنی ذات کی چاہت میں اضافے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر ایسے شخص کے دل میں دوسرے افراد سے محبت کرنے کی جگہ ہی باقی نہیں رہتی اور اپنی ذات کا غرور انسان کو اپنی غلطیوں کے اعتراف سے روکتا ہے اور ان حقائق کے قبول کرنے پر تیار نہیں ہونے دیتا، جن سے اس کے تکبر کا شیشہ چور ہو جانے کا اندیشہ ہو ۔
پروفیسر " روبنیسون" کہتا ہے ہم کو بارہا یہ اتفاق ہوتا ہے کہ خود بخود بغیر کسی زحمت و پریشانی کے اپنا نظریہ بدل دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی دوسرا ہمارے نظریہ کی غلطی یا اشتباہ پر ہم کو مطلع کرے تو پھر دفعةً ہم میں ایک انقلاب پیدا ہو جاتا ھے اور ہم اس غلطی کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں ہم کسی بھی نظریہ کو خود بڑی آسانی سے قبول کر لیتے ہیں لیکن اگر کوئی دوسرا ہم سے ہمارا نظریہ چھیننا چاہے تو ہم دیوانہ وار اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں، ظاہری سی بات ہے ہمارے عقیدہ و نظریہ میں کوئی مخصوص رابطہ نہیں ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ہماری خود خواہی و تکبر کی حس مجروح ہوتی ہے ۔ اس لئے ہم تسلیم نہیں کرتے اور اسی لئے اگر کوئی ہم سے کہے کہ تمہاری گھڑی پیچھے ہے یا تمہاری گاڑی بہت پرانے زمانہ کی ہے تو ممکن ہے کہ ہم کو اتنا ہی غصہ آ جائے جتنا یہ کہنے پر آتا ہے کہ تم مریخ کے بارے میں جاہل ہو یا فراعنہ مصر کے بارے میں تمہاری معلومات صفر کے برابر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ غصہ کیوں آتا ہے صرف اس لئے کہ ہمارے تکبر اور ہماری انانیت کو ٹھیس نہ لگ جائے۔
خودپسند اور غرور میں ڈوبا ہوا انسان خود اپنا سب سے بڑا دُشمن ہوتا ہے۔ ایسا شخص صرف حيوانیت كو چاہتا ہے۔ اس كے تمام افعال اور حركات كردار اور گفتار كا مركز حيوانى خواہشات كا چاہنا اور حاصل كرنا ہوتا ہے اور اسی لئے ایسا انسان مقام عمل ميں اپنے آپ كو حيوان سمجھتا ہے اور زندگى ميں سوائے حيوانى خواہشات اور ہوس كے اور كسى ہدف اور غرض كو نہيں پہچانتا۔ حيوانى پست خواہشات كے حاصل كرنے ميں اپنے آپ كو آزاد جانتا ہے اور ہر كام كو جائز سمجھتا ہے اس كے نزديك صرف ايك چيز مقدس اور اصلى ہے اور وہ ہے اس كا حيوانى نفس اور وجود، تمام چيزوں كو يہاں تك كہ حق عدالت صرف اپنے لئے چاہتا ہے اور مخصوص قرار ديتا ہے۔ حق اور عدالت جو اسے فائدہ پہنچائے اور اس كى خواہشات كو پورا كرے اسی عدالت اور ضابطوں کو مانتا ہے اور اگر عدالت یا سمجھانے والا کوئی بھی اسے صیح راستے کی طرف دعوت دے تو وہ ايسے کسی قانون دوست یا عدالت كو نہيں مانتا، بلكہ اپنے غرور اور خودپسندی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اپنے لئے صحيح سمجھتا ہے كہ اپنے دوستوں یا عدالتوں كا مقابلہ كرے يہاں تك كہ قوانين اور احكام كى اپنى پسند كے مطابق تاويل كرتا ہے يعنى اس كے نزديك اپنے افكار اور نظريات اور حقيقت ركھتے ہيں اور باقی کسی شے کی کوئی حثیت نہیں۔
انسانی نیک بختی اور بشری سعادت کی سب سے بڑی دشمن "خود پسندی" ہے۔ لوگوں کی نظروں میں تکبر و خودپسندی جتنی مذموم صفت ہے کوئی بھی اخلاقی برائی اتنی ناپسند نہیں ہے۔ خودپسندی الفت و محبت کے رشتہ کو ختم کر دیتی ہے۔ یگانگت و اتحاد کو دشمنی سے بدل دیتی ہے اور انسان کے لئے عمومی نفرت کا دروازہ کھول دیتی ہے اسلئے انسان کو چاہیئے کہ وہ جتنا دوسروں سے اپنے لئے احترام و محبت کا خواہشمند ہو، اتنا ہی دوسروں کی حیثیت و عزت و وقار کا لحاظ کرے اور ان تمام باتوں سے پرہیز کرے جن سے حسن معاشرت کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا رشتہ محبت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ لوگوں کے جذبات کا احترام نہ کرنے سے اس کے خلاف عمومی نفرت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور خود وہ شخص مورد اہانت بن جاتا ہے۔ کبر کا لازمہ بدبینی ہے، متکبر انسان سب ہی کو اپنا بدخواہ اور خود غرض سمجھتا ہے اس کے ساتھ مسلسل ہونے والی بے اعتنائیوں اور اس کے غرور کو چکنا چور کر دینے والے واقعات کی یادیں اس کے دل سے کبھی محو نہیں ہوتیں اور بےاختیار و نادانستہ اس کے افکار اس طرح متاثر ہو جاتے ہیں کہ جب بھی اس کو موقع ملتا ہے وہ پورے معاشرے سے کینہ توزی کے ساتھ انتقام پر اتر آتا ہے اور جب تک اس کے قلب کو آرام نہ مل جائے اس کو سکون نہیں ملتا۔
اگر آپ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ہو جائے گی اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ جو لوگ انبیائے الٰہی کی مخالفت کرتے رہتے تھے اور حق و حقیقت کے قبول کرنے سے اعراض کرتے رہے تھے وہ ہمیشہ دنیا کی خونیں جنگوں میں اس بات پر راضی رہتے تھے کہ ہستی بشر سرحد مرگ تک پہنچ جائے اور یہ جذبہ ہمیشہ حاکمانِ وقت کے غرور و خودپرستی ہی کی بنا پر پیدا ہوتا تھا۔ پست اقوام و پست خاندان میں پرورش پانے والے افراد جب معاشرہ میں کسی اچھی پوسٹ پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ متکبر ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی شخصیت کو دوسروں کی شخصیت سے ماوراء سمجھتے ہیں اور ان کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی شرافت کا ڈھنڈھورا پیٹیں لیکن ایسے افراد بھول جاتے ہیں کہ غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و سر بلندی کی چوٹی پر پہنچایا ہے۔
ایک دانشمند کہتا ہے " امیدوں کے دامن کو کوتاہ کرو اور سطحِ توقعات کو نیچے لے آؤ اپنے آپ کو خواہشات کے جال سے آزاد کراؤ، غرور و خودبینی سے دوری اختیار کرو قید و بند کی زنجیروں کو توڑ دو۔ تاکہ روحانی سلامتی سے ہم آغوش ہو سکو ۔ حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو سود مند نصائح کرتے ھوئے فرمایا تھا "نخوت و تکبر سے پرہیز کرنا" اسی طرح قرآن مجید کہتا ہے اور لوگوں کے سامنے (غرور سے ) اپنا منہ نہ پھلانا، اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کیونکہ خدا کسی اکڑنے والے اور اترانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، اگر خدا کسی بندے کو تکبر کی اجازت دیتا تو ( سب سے پہلے ) اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء کو اجازت دیتا لیکن خدا نے اپنے انبیاء و اولیاء کے لئے بھی تکبر پسند نہیں فرمایا، بلکہ تواضع و فروتنی کو پسند فرمایا ( اسی لئے ) انبیاء و اولیاء نے ( خدا کے سامنے ) اپنے رخساروں کو زمین پر رکھ دیا اور اپنے چہروں کو زمین پر ملا اور ایمانداروں کے سامنے تواضع و فروتنی برتا۔ تکبر کرنے والے قطع نظر اس بات کے کہ پورا معاشرہ ان کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے ان کے لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، " تکبر سے بچو کیونکہ جب کسی بندے کی عادت تکبر ہو جاتی ھے تو خدا حکم دیتا ہے کہ میرے اس بندے کا نام جباروں میں لکھ لو، ہم میں سے ہر وہ شخص جو متکبر خودپسند واقعی اپنی سعادت و خوش بختی کا خواہاں ہے تو اس کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیئے اور اس نفرت انگیز صفت سے اپنی شخصیت کو الگ کرنا چاہیئے کیونکہ اگر اس نے اس کی سرکوبی کی کوشش نہ کی تو ہمیشہ ناکامی کا شکار رہے گا۔
Friday, November 16, 2012
ماہ محرم اور مروجہ بدعات و رسومات
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثنَا عَشَرَ شَہراً فِی کِتَابِ
اللّہِ یَومَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالارضَ مِنہَا اَربَعَةٌ حُرُم ذَلِکَ
الدِّینُ القَیِّمُ فَلاَ تَظلِمُوا فِیہِنَّ اَنفُسَکُم﴿ (سورة التوبة
آیت36 )
مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہے۔ اسی دن سے جب سے اس
نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ ان میں چار مہینے ادب و احترام والے ہیں ۔
یہی سیدھا و درست دین ہے ۔ تم ان مہینوں میں اپنی جانوںپر ظلم نہ کرو “۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد
بارہ ہے۔ جن میں سے چار حرمت والے ہیں اس بات کی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی :
”زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے زمانہ گردش میں ہے ۔ سال بارہ مہینوں کا
ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ تین مسلسل ہیں ۔ ذوالقعدة،ذوالحجة اور
محرم جبکہ ایک مہینہ رجب ہے“۔ ( صحیح البخاری (3197) صحیح مسلم ( 4383)
ان
مہینوں کو حرمت والا اس ليے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام سے جو فتنہ و
فساد اور امن عامہ کی خرابی کا باعث ہو ، بالخصوص منع فرمادیاہے۔ مثلا آپس
میں لڑائی جھگڑا اور ظلم و زیادتی وغیرہ نافرمانی کے کام کرکے اپنی جانوں
پر ظلم کرنے سے منع کیا گیاہے ۔ ان حرمت والے مہینوں میں قتال کرکے ان کی
حرمت پامال کرکے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرو۔ ہاں اگر کفار ان
مہینوں میں بھی تمہیں لڑنے پر مجبور کردیں تو لڑائی کرنا درست ہی نہیں بلکہ
فرض بھی ہے ۔
محرم الحرام کی فضیلت
ماہ محرم الحرام اسلامی سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ ہجرت پر ہے ۔ اس اسلامی سن کا تقرر اور آغاز استعمال 18ہجری
میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا ۔ اس لحاظ سے یہ مہینہ
تاریخی اہمیت کا حامل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شھادت حسین رضی اللہ عنہ
کا اس مہینے کی حرمت سے کوئی تعلق ہے ؟ خیال رہے کہ اس مہینے کی حرمت کا
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بعض لوگ
سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اس لئے قابل احترام ہے کہ اس میں سیدنا حسین رضی
اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ دلگداز پیش آیا۔ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ یہ
واقعہ شہادت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی وفات سے پچاس سال بعد پیش آیا جبکہ اس بات سے ہر مسلمان بخوبی واقف ہے کہ دین اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مکمل ہوگیا تھا۔ فرمان الہی ہے :
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم ا لاسلام دینا ( المائدہ : 3 )
آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیااور تم پر اپنا انعام کامل کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا ہوں “۔
تکمیل دین کے بعد کوئی ایسا کام کرنا جس کا نہ تو شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق ہو اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
سے کوئی نسبت ہو ، سراسر غلط اور ناجائز ہے۔ اس لئے یہ تصور اس آیتِ
قرآنی کے سراسر خلاف ہے ۔ پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور
واقعہ شہادت پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ
عنہ کی شہادت کا واقعہ، اگر بعد میں ہونے والی شہادتوں کی شرعاً کوئی
حیثیت ہوتی تو شہادتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لائق تھی کہ اہل اسلام ا س
کا اعتبارکرتے۔
سیدنا
عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یاد منائی جاتی جبکہ یہ
تمام واقعات تکمیلِ دین کے بعد پیش آئے ہیں ۔ نہ تو نبی ا کا یومِ وفات
صحابہ نے کبھی منایا اور نہ باقی خلفاءو صحابہ کا یومِ شہادت منایاگیا۔ اس
لئے ان شخصیات کی یاد میں مجالس عزا مخصوص کرنادین میں اضافہ کرنا ہے جس کی
قطعاً اجازت نہیں۔
محرم الحرام میں مسنون عمل
ماہ محرم میں مسنون عمل بالخصوص روزے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
ماہِ محرم میں بکثرت روزے رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی
اس مہینے میں روزے رکھنے کی ترغیب دلاتے جیسا کہ حدیث نبوی میں رمضان کے
علاوہ نفلی روزوں میں محرم کے روزوں کو افضل قرار دیا گیاہے فرمان نبوی ہے
افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم
ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔ ( صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل صوم المحرم ( حدیث : 1163 ۔ (3755)
عاشوراءمحرم کے روزے کی فضیلت
ان رسول اللہ ا قدم المدینة فوجد الیھود صیاما یوم عاشوراءفقال لھم رسول
اللہ ا ما ھذا الیوم الذی تصومونہ؟ فقالوا ھذا یوم عظیم انجی اللہ فیہ موسی
و قومہ و غرق فرعون و قومہ فصامہ موسی شکرا فنحن نصومہ فقال رسول اللہ ا
فنحن احق و اولی بموسی منکم، فصامہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وأمر
بصیامہ۔
عبد اللہ بن عباس ص روایت کرتے ہیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود کو عاشورا ء (دس محرم ) کا روزہ رکھتے ہوئے
پایا۔ آپ نے ان سے کہا :یہ کونسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو۔ انہوں نے
کہا: یہ بڑا عظیم دن ہے۔ اللہ نے اس دن موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو
نجات دی۔ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیاتو موسی علیہ السلام نے شکرانے کے
طورپر روزہ رکھا ۔ اس لئے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور موسی عليه السلام کے زیادہ قریب ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم فرمایا“۔( صحیح مسلم) بالخصوص یوم عاشوراءکی فضیلت بتلاتے ہوئے فرمایا : یکفر السنة الماضیة پچھلے ایک سال صغیرہ کے گناہوں کو مٹادیتاہے۔ (مسلم)
لیکن بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوخبر ملی کہ یہود اب بھی اس دن
کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : لئن بقیت الی قابل لأصومن التاسع ”اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو میں ضرور 9 تاریخ کاروزہ رکھوںگا“(صحیح مسلم 1134) لیکن آئندہ محرم سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
حدیث لئن بقیت الی قابل کے راوی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول مصنف عبد الرزاق اور بیہقی میں موجود ہے جس سے یہی مفہوم بنتا ہے کہ 9اور 10 محرم دون روزہ رکھناچاہئے۔
(1) 10 محرم
کا روزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا موسی علیہ السلام کے نجات پانے
کی خوشی میں رکھاتھا اور صحیح حدیث میں واضح طورپر اعلان کیا فنحن أحق و أولی بموسی منکم اور اس امر سے آپ کی دستبرداری مروی نہیں لہذا اس اعتبار سے10محرم کا روزہ بہر حال مسنون ہے۔
(2) کسی دن کی تاریخی حیثیت کو بدلا نہیں جاسکتا بصورت دیگر اس کی مقررہ فضیلت و ثواب سے محروم ہونا لازم آتاہے ۔
قابل عمل صورت :
عاشوراءمحرم کے روزے سے فیضیاب ہونے والے کے ليے درج ذیل صورت قابل عمل ہے ۔ عاشوراء( دس محرم کے روزے سے پہلے 9 محرم کا روزہ ۔ یہ افضل صورت ہے یا 10 محرم کے ساتھ 11 محرم کا روزہ یا 9۔ 10 اور 11 محرم پے در پے تین روزے رکھ ليے جائیں۔
ماہ محرم میں مروجہ بدعات و رسومات
واقعہ کربلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور دین محمدی کی تکمیل کے تقریباً 50 سال
بعد پیش آیا۔ یہ ایک تاریخی سانحہ ہے لیکن واقعہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ
کی وجہ سے شیطان کو بدعتوں اور ضلالتوں کے پھیلانے کا موقع مل گیا، چنانچہ
کچھ لوگ ماہ محرم کا چاند نظر آتے ہی اور بالخصوص دس محرم میں نام نہاد
محبت کی بنیاد پر سیاہ کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ سیاہ جھنڈے بلند کرتے ہیں۔
نوحہ و ماتم کرتے ہیں ۔ تعزیے اور تابوت بناتے ہیں۔ منہ پیٹتے اور روتے
چلاتے ہیں۔ بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔ ننگے پاؤں پھرتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی،
جوتا نہیں پہنتے۔ نوحے اور مرثیے پڑھتے ہیں۔ عورتیں بدن سے زیورات اتاردیتی
ہیں۔ ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں ۔ زنجیروں اور چھریوں سے خود کو زخمی کیا
جاتاہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شہداءکی نیاز کا شربت بنایا
جاتاہے۔ پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ ( حالانکہ اس دن روزہ رکھنانبی کا
مسنون اور افضل عمل ہے ) عاشوراءمحرم کے دوران شادی و خوشی کی تقاریب نہ
کرنا(جبکہ شریعت محمدی میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ورنہ باقی سارا سال بھی
دیگر جید صحابہ کی شہادت کے سوگ مناتے گزرجائے گا)، شہادت کا سوگ ہر سال
منانا، یہی نہیں بلکہ عظیم صحابہ و اسلاف کو گالیاں دینا، طعن و تشنیع کا
نشانہ بنانا اور دیگر مختلف قسم کی خود ساختہ خرافات، ان صحابہ واسلاف کی
طرف منسوب کرنا اور ان بے گناہ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لینا جو دین
اسلام کے اولین راوی ہیں، جن کے بغیر دین اسلام کا کوئی شعبہ مکمل نہیں
ہوتا، جنہیں واقعات کربلاسے دور و نزدیک کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔پھر
واقعہ کربلا کی جو کتابیں پڑھی جاتیں ہیں ، وہ زیادہ تر اکاذیب و اباطیل
کامجموعہ ہیں جن کا مقصد فتنہ و فساد کے نئے دروازے کھولنا اور امت میں
پھوٹ ڈالناہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام بدعات و خرافات ایک خاص مذہب
کی ترویج و تبلیغ اور اس کو سہارا دینے کے لئے ایک سوچی سمجھی پلاننگ کا
نتیجہ ہیں جن کی ادائیگی میں امن عامہ قائم نہیں رہ سکتا جیسا کہ سب جانتے
ہیں ، اسلام امن و آشتی کا دین ہے ۔ دیکھا دیکھی، ہمارے اہل سنت بھائیوں نے
بھی اس نسبت سے ایسے کام شروع کردئیے جن کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود
نہیں ، جو سراسر بدعات و ضلالت پر مبنی امور ہیں، جن کی دین اسلام قطعاً
اجازت نہیں دیتا۔ یہ حضرات اپنے زعم میں اس مہینے کا احترام کرتے ہوئے اس
کے تقدس و احترام کو پامال کر دیتے ہیں اور ثواب حاصل کرنے کے بجائے گناہوں
کا بوجھ اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں اور گنہگار بن کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمانوں کی لسٹ میں اپنا نام درج کروالیتے ہیں ۔
ماہ محرم الحرام میں عام دستور و رواج کے مطابق شہادت حسین رضی اللہ عنہ
اور واقعات کربلا کے حوالہ سے ، بازاروں دوکانوں ، ریڈیو، ٹی وی اور دیگر
مجالس میں لوگوں کے سامنے مکذوبہ، موضوعہ اور ضعیف من گھڑت خود ساختہ
داستانیں اور قصے بڑی رنگ آمیزی سے بیان کئے جاتے ہیں جس میں وہ خود بھی
روتے ہیں اور سننے والوں کو بھی رلاتے ہیں۔سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے
کہ جو لوگ کربلا کا فسانہ اور شہید مظلوم کی خود ساختہ داستانیں اور ان پر
پانی بند ہونے کے جھوٹے قصے لوگوںکو سنتے سناتے ہیں، وہی محرم کے مہینے
شربت کے مٹکے اور قسم قسم کے گانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ شہادت تو ایک
انمول اعزاز کو کہتے ہیں جس پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فائز ہوئے۔ شہید
زندہ ہوتا ہے نہ کہ مردہ ۔
ہمارے بہت سے سنی بھائی ،بہن رافضی حضرات کی دیکھا دیکھی بھی اور کچھ ان
کے وسیع پروپیگنڈے کے شکار ہوکر بھی درج ذیل بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
1۔ مجالس شہادت:جن میں سنی عوام گریہ وزاری کا وہی منظر پیش کرتے ہیں جو مجالس روافض سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا ۔
2۔ ویڈیو،ٹی وی اور دیگر مجالس میں سنے گئے نوحے اور مرثیے پڑھتے ہیں ۔
3۔ محرم کی دس تاریخ کو چولہے اوندھے کردئیے جاتے ہیں ۔
4۔ نو بیاہی عورتیں یوم عاشوراءاپنے اپنے میکے میں گزارتی ہیں۔
5 ۔ زیورات کا پہننا شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں ترک کردیتی ہیں ۔
اس کے علاوہ توہم پرست لوگوں نے اور بھی بہت سے باطل خیال قائم کر لئے ہیں
۔ مثلا مہینہ کے پہلے دس دنوں میں اگر کوئی اپنی بیوی سے ہم بستری کرے گا
تو اولاد منحوس ہوگی یا ناقص العقل ہوگی ۔ شادی ہوتو مبارک نہ ہوگی ۔ کچھ
اس قسم کا خیا ل عرب کے جاہل لوگوں کا تھا۔ ماہ شوال کو منحوس سمجھتے اور
اس میں شادی نہیں کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان کے اس خیال باطل کو توڑنے کے لئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی
ماہ شوال میں کی اور رخصتی بھی اسی مہینے میں ہوئی ۔ اسلام میں اس قسم کی
مشقتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ دوسری طرف ایسے حضرات کو عاشوراءمحرم کے
دوران شادیاں بھی کرنی چاہئیں اسلام میں کسی بھی شخص کی موت یا شہادت پر
تین دن سے زیادہ کا سوگ نہیں ‘ما سوائے بیوہ عورتوں کے ‘ وہ اپنے خاوندوںکی
اموات و شہادت پر چار ماہ دس دن سوگ کے لئے زیب و زینت کو ترک کرتی ہیں
لیکن اس سوگ کا ہر سال اعادہ نہیں کرتیں ۔
ماہ محرم کے حوالہ سے ایک اور کام جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں
ہے ، کجیاں ، ٹھوٹھیاں بھرناہے، معلوم نہیں اس چیز کا شہادت حسین رضی اللہ
عنہ سے کیا تعلق و رشتہ ہے ۔ دس محرم کا سورج طلوع ہوتے ہی عورتیں اور مرد
ان کجیوں میں لسی یا دودھ ڈالتے ہیں۔ ٹھوٹھیوں میں حلوہ یا کھیر بھرتے ہیں
اور بچوں میں بانٹنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ حضرات مٹی کے کچے پیالے لے کر
ان میں کھیر ڈال کر بانٹتے ہیں۔ کچھ حلیم کی دیگیں پکا کر تقسیم کرتے ہیں۔
ماہ محرم میں ایک اور خلاف شرع کام یہ کیا جاتا ہے کہ محرم کے آغاز سے ہی قبروں کی لیپا پوتی کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ جوں جوں10 محرم قریب آتا جاتا ہے قبرستانوں کی رونق میں اضافہ ہوجاتاہے۔ 10محرم
کا سورج طلوع ہوتے ہی لوگ جوان بہو، بیٹیوں کو لے کر قبرستانوں کی جانب
نکل پڑتے ہیں۔ پھولوں اور اگربتیوں کے سٹال لگائے جاتے ہیں۔ قبروں کی لیپا
پوتی کی جاتی ہے۔ ان پر مرد و زن اکٹھے مٹی ڈالتے ہیں جس سے کئی ایک غیر
شرعی قباحتیں لازم آتی ہیں مثلاً بے پردگی،محرم کے بغیر گھر سے نکلنا
وغیرہ۔ پھر مٹی ڈالنے کے بعد قبر پر کھڑے ہوکر شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔
اور کہا جاتا ہے اگر کوئی مٹی ڈالنے کے بعد شیرینی تقسیم نہ کرے تو قبر
والے پر بوجھ رہتاہے ۔
یہ سب من گھڑت اور بدعات و خرافات پر مبنی افعال ہیں ۔ قبروں کی زیارت کا
حکم تو نبی صلى الله عليه وسلم نے اس ليے دیا ہے کہ اس سے آخرت کی یاد
تازہ ہوتی رہے،اگر وہاں پر اس قدر پر رونق سما ں پیدا کیا جائے تو بلا شبہ یہ
شرعی مقصد فوت ہوجاتاہے ۔اور شریعت اسلامیہ نے قبروں کی زیارت کے ليے کوئی
خاص دن بھی مقرر نہیں کیا لہذا کسی خاص دن زیارت کو مقید کردینا بھی شریعت
اسلامیہ کے منافی عمل ہے ۔ خستہ قبر کو درست تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے
لئے کوئی دن مقرر کرنا یا انہیں پختہ کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں ۔ دنیا
میں جنت البقیع بہترین قبرستان ہے ۔ دور نبوی یا دور صحابہ رضی اللہ عنہم
میں کبھی وہاں دس محرم کو اس طرح میلہ نہیں لگایا گیا اور نہ مٹی اور پھول
ڈالنے کا اہتمام کیا گیا۔
رسومات محرم پر علمائے سلف کا تبصرہ :
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں :
”
اے بنی آدم تم نے اسلام کو بدل ڈالنے والی بہت سی رسمیں اپنا رکھی ہیں
مثلا تم دسویں محرم کو باطل قسم کے اجتماع کرتے ہو ۔ کئی لوگوں نے اس دن کو
نوحہ و ماتم کا دن بنالیا ہے حالانکہ اللہ تعالی کی مشیت سے حادثے ہمیشہ
رونما ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اس دن ( مظلوم شہید کے
طورپر ) قتل کئے گئے تو وہ کونسا دن ہے جس میں کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک
بندہ فوت نہیں ہوا ( لیکن تعجب کی بات ہے کہ ) انہوں نے اس سانحہ شہادت
مظلومانہ کو کھیل کود کی چیز بنالیا ۔ تم نے ماتم کو عید کے تہوار کی طرح
بنالیا ۔ گویا اس دن زیادہ کھانا پینا فرض ہے اور نمازوں کا تمہیں کوئی
خیال نہیں جو فرض عین ہے ۔ ان کو تم نے ضائع کردیا ۔ یہ لوگ انہی من گھڑت
کاموں میں مشغول رہتے ہیں ۔ نمازوں کی توفیق ان کو ملتی ہی نہیں“ ۔
( بحوالہ تفہیمات الالہیہ ۱تفہیم ۹۶ ۸۸۲ طبع حیدر آباد سندھ 1970ء)
2 ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ۴۵۳ھ کے واقعات میں ماتمی جلوسوں کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
”یہ ( ماتمی مجالس وغیرہ) کی رسمیں اسلام میں ان کی کوئی ضرورت نہیں واقعة
اگریہ اچھی چیز ہوتی تو خیر القرون اور اس امت کے ابتدائی اور بہتر لوگ اس
کو ضرور کرتے ۔ وہ اس کے سب سے زیادہ اہل تھے ۔ ( بات یہ ہے ) کہ اہل سنت (
سنت نبوی کی ) اقتداءکرتے ہیں ۔ اپنی طرف سے بدعتیں نہیں گھڑتے ۔ “(
البدایہ والنہایہ ۱۱ ۱۷۲ )
شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صراط مستقیم صفحہ ۹۵ پر تحریر فرمایا ہے:
”( فارسی عبارت کا خلاصہ یہ ہے ) پاک و ہند میں تعزیہ سازی کی جو بدعت
رائج ہے یہ شرک تک پہنچادیتی ہے کیونکہ تعزیہ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ
کی قبر کی شبیہ بنائی جاتی ہے اور پھر اس کو سجدہ کیا جاتا ہے اور وہ سب
کچھ کیا جاتا ہے جو بت پرست اپنے بتوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اور ان معانی میں
یہ پورے طورپر بت پرستی ہے ۔ ( اعاذنا اللہ منہ ) “
3۔ امام احمد رضا خان صاحب بریلوی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و خلفائے مرسلین مسئلہ ذیل کے بارے میں 1۔
بعض اہل سنت و جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ
جھاڑو دیتے ہیں اور کہتے ہیں بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ 2۔ ان دس دنوں میں کپڑے نہیں بدلتے ۔ 3۔ ماہ محرم میں کوئی شادی بیاہ نہیں کرتے 4۔ ان ایام میں سوائے امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے کسی کی نیاز فاتحہ نہیں دلاتے ۔ یہ جائز ہے یا ناجائز۔
( بینوا توجروا )
جواب : پہلی تینوں باتیں سوگ ہیں سوگ حرام ہے اور چوتھی بات جہالت ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ( حوالہ احکام شریعت مسئلہ نمبر150۔ محرم الحرام
( 1328ھ)
دعوتِ فکر:
مکرم و محترم قارئین ! یہ قانون فطرت ہے کہ ہر ایک چیز کو فنا ہونا ہے اور
ہر ایک متنفس کو موت کا منظر دیکھنا ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں خواہ
کوئی نبی ہو یا ولی ۔
لیکن
بعض اموات ایسی ہولناک اور پریشان کن ہوتی ہیں کہ جن کے حزن و ملال کی
داستان الفاظ سے نہیں بیان کی جاسکتی اور ایسے اندوہناک حادثات کے احساس و
شعور کو تعبیر کرنے سے زبان و قلم عاجز ہوتے ہیں ۔ صرف ایک ہی حکم ہے جس سے
ان احساسات کی تعبیر ممکن ہے اور وہ یہ کلمہ ہے جسے مسلمان اپنے رب کے حکم
کی تعمیل میں ایسے موقعوں پر بار بار دہراتے ہیں ۔ اور وہ یہ ہے۔اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
یعنی اس صدمہ کے احساسات کو تعبیر کرنے اور اس کے اثرات کو زائل کرنے کے
لئے جل شانہ نے ایک نسخہ کیمیا بتایا ہے جس میں انسانی زندگی کی حقیقت مضمر
ہے کہ انسان کی آمد و رفت تمام کچھ اللہ ہی کے لئے ہے ۔ لیکن افسوس! بعض
نفس پرست لوگوں نے اللہ کے اس بتائے ہوے نسخے کو چھوڑکر اپنے زخموں کی مرہم
کرنے کے لئے نئے نئے طریقے ایجاد کرلئے ہیں ۔ ان متفرق طریقوں سے ایک
طریقہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ محبت اور غلو عقیدت یا مکر و فریب اور دھوکہ
دہی کی وجہ سے سینہ کوبی اور ماتم وغیرہ شروع کردیتے ہیں او راپنے جسم اور
جسم کے بالو ں کو نوچنا اور اپنے گریبانوں کو چاک کرنا اپنا علاج سمجھتے
ہیں اور بآواز بلند نوحہ کرنے اور آوازکسنے واویلا کرنے میں اپنی شفا
تصور کرتے ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام میں ممنوع اور حرام ہیں لیکن اس
کے باوجود بھی بعض لوگ انہی میں اپنی شفا سمجھتے ہیں ۔ اور اس کو اپنے ليے
باعث افتخار اور خاص شعار سمجھتے ہیں ۔در حقیقت یہ سب کچھ اسلام سے دوری
اور پہلوتہی کا نتیجہ ہے اور پھر اس انسان پر جس کی موت بھی شہادت کی موت
ہو اور اس پر متزاد یہ کہ اس کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت مل چکی ہو اور
بشارت بھی اس درجہ کی کہ کسی اور کے نصیب بھی نہ ہو اور پھر اس انسان پر جس
نے اپنی تمام زندگی خرافات کے قلع قمع کرنے میں گزاری ہو اور مرتے دم بھی
زبان پر ان کے خلاف ہی الفاظ ہوں اس کی موت پر ایسا کرنا کسی منصف مزاج
انسان کے نزدیک اس کے ساتھ محبت والفت کا طریقہ نہیں ہوسکتا بلکہ عدل و
انصاف کے منافی اور اس پر زیادتی ہے ۔ جبکہ ان سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے
ہم وہ کام کریں جو وہ کرتے تھے ۔ بقول شاعر
لو کنت صادقا فی حبہ لاطعتہ ان المحب لمن یحب مطیع
اگر تجھے اپنے محبوب سے سچی محبت ہوتی تو اس کی باتیں مانتا کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا اطاعت گزار ہوتاہے ۔
محترم قارئین ! اگر ہماری محبت واقعی سچی اور مبنی بر خلوص ہے تو چاہئیے
کہ ان کی باتیں مانی جائیں ۔ وہ کام کئیے جائیں جو وہ پسند کرتے تھے۔ نماز
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی محبوب ترین چیز تھی ۔ انہوں نے ساری زندگی
باقاعدگی سے نماز ادا کی ۔ نماز ترک کرنا تو در کنار کبھی نماز کی ادائیگی
میں ذرا سی سستی و کاہلی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا نہ کسی سے دھوکہ کیا
،انہوں نے داڑھی بھی سنت کے مطابق رکھی ہوئی تھی۔سیدنا حسین رضی اللہ عنہ
تقوی کے اعلی معیار پر فائز تھے ۔ خشیت الہی ان میں کوٹ کوٹ کر بھر ی ہوئی
تھی غرض یہ کہ انہوں نے زندگی بھر اللہ اور اس کے رسول ا کی اطاعت کی کبھی
خلاف ورزی اور نافرمانی کا سوچا بھی نہیں لیکن ہم تمام کاموں سے عاری ہیں
ہماری زندگیاں روز مرہ کے معمولات بالکل ان کی زندگی کے بر عکس ہیں اور
یہاں ہم ایک دوسرے پر فتوے لگاتے ہیں اور ان کی محبت کے کھوکھلے دعوے کرتے
ہیں ۔ ان کی محبت میں بڑے بڑے عظیم و بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی طعن و
تشنیع کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے حالانکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ
نے بذات خود اپنی پوری زندگی صحابہ رضی اللہ عنہم تو درکنار ،کسی عام آدمی
سے بھی ہتک آمیز سلوک نہیں کیا ۔ ایک طرف تو اتنے بڑے بڑے دعوے اور دوسری
طرف زندگیوں میں اتنا تفاوت ‘یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ ہم ہیں کہ اس قسم کی
رسومات ، بدعات خرافات و اختراعات میں اپنا وقت مال اور وسائل برباد کر رہے
ہیں جبکہ دین اسلام کے دشمن تو ہر وقت اسلام اور اس کے ماننے والوں کو
صفحہ ہستی سے مٹادینے کے لئے طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔ ہوناتو یہ
چاہئیے کہ ہم سب اتحاد و یگانگت کی ایسی مثال پیش کریں کہ دشمن پر ہماری
دھاک بیٹھ جائے لیکن ہم میں ان جذبات کا تا حال فقدان ہے ۔
آج ہم سب کو مل کر یہ ثابت کر دینے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اللہ ا ور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، تمام صحابہ ، تمام خلفائے راشدین اور اہل بیت سے سچی محبت ہے ۔
آخر
میں اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مہینے کا حقیقی احترام کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور فضول رسومات اور بدعات و خرافات سے ہماری حفاظت
فرمائے ۔ آمین
Friday, November 9, 2012
دنیائے فانی کی حقیقت
بلا شبہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ خوش بخت وہ ہے جو اس دنیا میں زہد اختیار
کرتا ہے اور اپنے تمام اعضا کو اللہ کی طرف متوجہ رکھتا ہے، اپنے نفس کے
لیے وعظ و نصیحت لازم کر لیتا ہے، اوامر کی پیروی کرنا اپنی عادت بنا لیتا
ہےاورحالات چاہے کچھ بھی ہوں یہ اس پر قائم رہتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
[آل عمران: 102]
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ‘‘
اے مسلمان بھائی
اپنے نفس سے سوال کر! کیا تو نے اپنی موت کے لیے اعمال صالحہ تیار کر لیے ہیں؟ یا دنیا نے تجھے موت اور آخرت کی تیاری سے غافل کر دیا ہے؟
اے اپنے نفس کی محبت میں مبتلا انسان! اس وقت کو تصور کر جب تو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا اور تجھ سے تیرے تمام مظالم کے متعلق دریافت کیا جائے گا۔ اور جب یہ پوچھا جائے گا کہ تو نے خدائے بزرگ و برتر کے اوامر پر کس حد تک عمل کیا۔
اے مسلمانو
یہ دنیا حقیقی ٹھکانہ نہیں بلکہ عارضی جائے پناہ ہے۔
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا
[النساء: 77]
’’ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا ‘‘
بامراد وہ ہے جو اپنے رب کی اطاعت اور اپنے رسول کے احکامات کی پیروی کرنے میں جلدی کرتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ
[الأنفال: 24]
’’ اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے ‘‘
عقلمند وہ ہے جس کو اس حقیقت کا ادراک ہو جائے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے لگے اور اپنی خواہشات کو اللہ کے تابع بنا لے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ
[فاطر: 5]
’’ لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً برحق ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے ‘‘
وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
[العنكبوت: 64]
’’ اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔‘‘
سمجھدار وہ ہے جو اپنے رب کی توفیق سے فائدہ اٹھائے ۔ فلہٰذا اے مسلمان بھائی ! بیماری میں مبتلا ہونے سے قبل اٹھ کھڑا ہو! فراغت کے لمحات کو قیمتی بنا لے! اور دار آخرت کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لے! اور فنا ہو جانے والے گھر میں گم نہ ہو جا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (9) وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ
[المنافقون: 9، 10]
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں (9) جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور اُس وقت وہ کہے کہ "اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا‘‘
، حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
[المؤمنون: 99، 100]
’’یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ "اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں (99) امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا" ہرگز نہیں، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے اب اِن سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم حساب کو پس پشت ڈالنے سے ڈرایا ہے۔ صحیح بخاری میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
«نِعمتانِ مغبونٌ فيهما كثيرٌ من الناسِ: الصحةُ والفراغُ».
’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر لوگ ناقدری کرتے ہیں : 1۔صحت اور 2۔فراغت۔‘‘
ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’سات اعمال کی طرف جلدی کرو۔ کیا تم ایسے فقر کے منتظر ہو جو تمھیں مٹا دے؟ یا ایسی غنا کے جو تمہیں سرکش بنا دے؟ یا ایسے مرض کے جو تم کو برباد کر دے؟ یا ایسے بڑھاپے کے جو تمھیں لاغر کر دے؟ یا اس دجال کے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ یا اس قیامت کے جو مشکل اور حتمی ہے؟‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک ایسی نصیحت فرمائی جو پوری امت کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«كُن في الدنيا كأنَّك غريبٌ أو عابِرُ سبيلٍ»
’’تو دنیا میں اس طرح زندگی گزار جس طرح کوئی اجنبی ہو یا مسافر ہو۔‘‘
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے
"إذا أمسيتَ فلا تنتظر الصباحَ، وإذا أصبحتَ فلا تنتظر المساءَ، وخُذ من صحَّتك لمرضك، ومن حياتِك لموتِك"؛ رواه البخاري.
’’جب تو شام کر لے تو صبح کا انتظار نہ کر، اور جب صبح کر لے تو شام کا انتظار نہ کر۔ اپنی صحت کو مرض سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جان۔‘‘
مسلمانان گرامی
دنیاایک ایسا گھر ہے جس کو ان چیزوں کے ساتھ مزین کرنا ضروری ہے جو اللہ کی قربت کا باعث ہوں۔ بحیثیت مسلمان ضروری ہے کہ ہر مسلمان رضائے الٰہی کے حصول کو یقینی بنائے۔ اسی کے باوصف کامل بھلائی کا حصول ممکن ہے اور اسی کے ذریعہ شر سے بچاؤ ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
[العصر: 1- 3]
’’ زمانے کی قسم (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
«خيرُ الناسِ من طالَ عُمره وحسُنَ عملُه، وشرُّ الناسِ من طالَ عُمرُه وساءَ عملُه»
’’لوگوں میں سے بہترین وہ ہے جس کی عمر لمبی اور اعمال اچھے ہوں اور برا وہ ہے جس کی عمر لمبی اور اعمال برے ہوں۔‘‘
مسلمان بھائیو
اپنے اوقات کار کو خواہشات نفس کے تابع کرلینا اور حیات اخروی کے لیے سامان نہ کرنا زندگی کے خسارے کا باعث ہے۔ اس زندگی کی کامیابی حقیقی کامیابی اور اس سے اعراض کامل ناکامی ہے۔
أَفَرَأَيْتَ إِنْ مَتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ (205) ثُمَّ جَاءَهُمْ مَا كَانُوا يُوعَدُونَ (206) مَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يُمَتَّعُونَ
[الشعراء: 205- 207]
’’ تم نے کچھ غور کیا، اگر ہم انہیں برسوں تک عیش کرنے کی مُہلت بھی دے دیں (205) اور پھر وہی چیز ان پر آ جائے جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے ‘‘
اے مسلمان! تیرا دین کتنا زبردست ہے کہ اس کے ساتھ تمسک اختیار کرنا کامیابی کی کنجی ہے۔
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
[الأحزاب: 71]
’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
’’میری امت کا ہر فرد جنت میں جائے گا مگر جس نے انکار کر دیا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جنت میں جانے سے کون انکار کرے گا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«من أطاعني دخلَ الجنةَ، ومن عصاني فقد أبَى»؛ رواه البخاري.
’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری فرمانی کی اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔‘‘
یاد رکھیے آپ کی حرکات و سکنات نوٹ کی جا رہی ہیں۔ روز قیامت انسان ان سے متعلق جوابدہ ہوگا ۔ حقیقی سعادت ان سوالات کے جوابات تیار کرنے میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (92) عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
[الحجر: 92، 93]
’’تیرے رب کی قسم عنقریب ہم ان سب سے ان کے اعمال سے متعلق سوال کریں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’روز قیامت انسان جب تک چار سوالات کے جوابات نہیں دے دے گا تب تک اپنے قدم نہیں ہلا سکے گا۔ اپنی عمر کے بارے میں کہ وہ کیسے گزاری۔ اپنے علم سے متعلق کہ اس پر کتنا عمل کیا۔ اپنے مال سے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اپنے جسم سے متعلق کہ اس کو کس کام میں لگایا۔‘‘
اے مسلمان! تو اس وقت تک ایک پاکیزہ زندگی نہیں گزار سکتا اور اس وقت تک آخرت کی رسوائی سے بچاؤ ممکن نہیں ہے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت سے التزام نہ کر لیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«اتقِ اللهَ حيثُما كنتَ»
’’تو جہاں بھی ہو اللہ سے ڈر جا!‘‘
کسی بھی شخص کی کامیابی کا راز اللہ تعالیٰ کا خوف دامن گیر ہونے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا
[النبأ: 31]
’’بے شک متقین کامیاب ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
’’جو ڈر گیا اور رات کے ابتدائی حصے میں سفر شروع کر دیا وہ منزل پر پہنچ گیا ۔ خبردار! اللہ تعالیٰ کا سامان مہنگا ہے اور اللہ کا سامان جنت ہے۔‘‘
اے وہ شخص جس کو دنیا نے آخرت سے غافل کردیا ہے۔ اے وہ انسان! جو غفلت میں مبتلا ہو کر لہو و لعب میں مبتلا ہوگیا ہے اور خواہشات کا غلام بن کر اوامر الٰہی کو ماننے سے انکاری ہو گیا ہے۔ یاد رکھ تو بہت بڑے خطرے میں مبتلا ہے۔ آج اپنے رب کے سامنے اپنی جبین نیاز کو جھکا دے۔
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (53) وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ
[الزمر: 53، 54]
’’ (اے نبیؐ)
کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے (53) پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ اُس کے قبل اِس کے کہ تم پر عذاب آ جائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے ‘‘
اے مسلمانو
مومن صرف دنیا ہی کا ہوکر نہیں رہ جاتا اور نہ ہی اس کی مشغولیتوں کا شکار ہوتا ہے۔ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو کر اٹھے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشانات ثبت تھے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا ہم آپ کے لیے کسی نرم چیز کا اہتمام نہ کریں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«مالي وللدنيا، إنما أنا كراكبٍ استظلَّ تحت دَوحةٍ ثم راحَ وتركَها».
’’میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی طرح ہے جو کچھ دیر سائے میں سستائے اور پھر سفر کو چل دے۔ ‘‘
اے مسلمان! کیا یہ قرین عقل ہے کہ تو اس دنیا کے لیے خلق خدا پر ظلم کا ہاتھ دراز کرے؟ کیا یہ ایک صائب رائے ہو سکتی ہے کہ تو حرام مال جمع کرنے میں مگن رہے؟ کیا کسی مسلمان کے لائق ہے کہ وہ دھوکہ دہی کرے؟ چوری میں ملوث ہو؟ خیانت کا مرتکب ہو؟ رشوت ستانی میں مبتلا ہو؟ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ دنیا فانی اور اس کے فوری بعد نہ ختم ہونے والی زندگی کا آغاز ہو جانا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے اور اس کے جو ذکر اللہ سے متعلق رہتا ہے۔‘‘
بارك الله لي ولكم في القرآن، ونفعنا بما فيه من الآياتِ والهُدى والفُرقان، أقولُ هذا القولَ، وأستغفرُ الله لي ولكم ولسائرِ المسلمين من كل ذنبٍ، فاستغفِروه، إنه هو الغفور الرحيم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
[آل عمران: 102]
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ‘‘
اے مسلمان بھائی
اپنے نفس سے سوال کر! کیا تو نے اپنی موت کے لیے اعمال صالحہ تیار کر لیے ہیں؟ یا دنیا نے تجھے موت اور آخرت کی تیاری سے غافل کر دیا ہے؟
اے اپنے نفس کی محبت میں مبتلا انسان! اس وقت کو تصور کر جب تو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا اور تجھ سے تیرے تمام مظالم کے متعلق دریافت کیا جائے گا۔ اور جب یہ پوچھا جائے گا کہ تو نے خدائے بزرگ و برتر کے اوامر پر کس حد تک عمل کیا۔
اے مسلمانو
یہ دنیا حقیقی ٹھکانہ نہیں بلکہ عارضی جائے پناہ ہے۔
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا
[النساء: 77]
’’ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا ‘‘
بامراد وہ ہے جو اپنے رب کی اطاعت اور اپنے رسول کے احکامات کی پیروی کرنے میں جلدی کرتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ
[الأنفال: 24]
’’ اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے ‘‘
عقلمند وہ ہے جس کو اس حقیقت کا ادراک ہو جائے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے لگے اور اپنی خواہشات کو اللہ کے تابع بنا لے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ
[فاطر: 5]
’’ لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً برحق ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے ‘‘
وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
[العنكبوت: 64]
’’ اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔‘‘
سمجھدار وہ ہے جو اپنے رب کی توفیق سے فائدہ اٹھائے ۔ فلہٰذا اے مسلمان بھائی ! بیماری میں مبتلا ہونے سے قبل اٹھ کھڑا ہو! فراغت کے لمحات کو قیمتی بنا لے! اور دار آخرت کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لے! اور فنا ہو جانے والے گھر میں گم نہ ہو جا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (9) وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ
[المنافقون: 9، 10]
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں (9) جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور اُس وقت وہ کہے کہ "اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا‘‘
، حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
[المؤمنون: 99، 100]
’’یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ "اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں (99) امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا" ہرگز نہیں، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے اب اِن سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم حساب کو پس پشت ڈالنے سے ڈرایا ہے۔ صحیح بخاری میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
«نِعمتانِ مغبونٌ فيهما كثيرٌ من الناسِ: الصحةُ والفراغُ».
’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر لوگ ناقدری کرتے ہیں : 1۔صحت اور 2۔فراغت۔‘‘
ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’سات اعمال کی طرف جلدی کرو۔ کیا تم ایسے فقر کے منتظر ہو جو تمھیں مٹا دے؟ یا ایسی غنا کے جو تمہیں سرکش بنا دے؟ یا ایسے مرض کے جو تم کو برباد کر دے؟ یا ایسے بڑھاپے کے جو تمھیں لاغر کر دے؟ یا اس دجال کے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ یا اس قیامت کے جو مشکل اور حتمی ہے؟‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک ایسی نصیحت فرمائی جو پوری امت کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«كُن في الدنيا كأنَّك غريبٌ أو عابِرُ سبيلٍ»
’’تو دنیا میں اس طرح زندگی گزار جس طرح کوئی اجنبی ہو یا مسافر ہو۔‘‘
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے
"إذا أمسيتَ فلا تنتظر الصباحَ، وإذا أصبحتَ فلا تنتظر المساءَ، وخُذ من صحَّتك لمرضك، ومن حياتِك لموتِك"؛ رواه البخاري.
’’جب تو شام کر لے تو صبح کا انتظار نہ کر، اور جب صبح کر لے تو شام کا انتظار نہ کر۔ اپنی صحت کو مرض سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جان۔‘‘
مسلمانان گرامی
دنیاایک ایسا گھر ہے جس کو ان چیزوں کے ساتھ مزین کرنا ضروری ہے جو اللہ کی قربت کا باعث ہوں۔ بحیثیت مسلمان ضروری ہے کہ ہر مسلمان رضائے الٰہی کے حصول کو یقینی بنائے۔ اسی کے باوصف کامل بھلائی کا حصول ممکن ہے اور اسی کے ذریعہ شر سے بچاؤ ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
[العصر: 1- 3]
’’ زمانے کی قسم (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
«خيرُ الناسِ من طالَ عُمره وحسُنَ عملُه، وشرُّ الناسِ من طالَ عُمرُه وساءَ عملُه»
’’لوگوں میں سے بہترین وہ ہے جس کی عمر لمبی اور اعمال اچھے ہوں اور برا وہ ہے جس کی عمر لمبی اور اعمال برے ہوں۔‘‘
مسلمان بھائیو
اپنے اوقات کار کو خواہشات نفس کے تابع کرلینا اور حیات اخروی کے لیے سامان نہ کرنا زندگی کے خسارے کا باعث ہے۔ اس زندگی کی کامیابی حقیقی کامیابی اور اس سے اعراض کامل ناکامی ہے۔
أَفَرَأَيْتَ إِنْ مَتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ (205) ثُمَّ جَاءَهُمْ مَا كَانُوا يُوعَدُونَ (206) مَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يُمَتَّعُونَ
[الشعراء: 205- 207]
’’ تم نے کچھ غور کیا، اگر ہم انہیں برسوں تک عیش کرنے کی مُہلت بھی دے دیں (205) اور پھر وہی چیز ان پر آ جائے جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے ‘‘
اے مسلمان! تیرا دین کتنا زبردست ہے کہ اس کے ساتھ تمسک اختیار کرنا کامیابی کی کنجی ہے۔
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
[الأحزاب: 71]
’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
’’میری امت کا ہر فرد جنت میں جائے گا مگر جس نے انکار کر دیا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جنت میں جانے سے کون انکار کرے گا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«من أطاعني دخلَ الجنةَ، ومن عصاني فقد أبَى»؛ رواه البخاري.
’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری فرمانی کی اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔‘‘
یاد رکھیے آپ کی حرکات و سکنات نوٹ کی جا رہی ہیں۔ روز قیامت انسان ان سے متعلق جوابدہ ہوگا ۔ حقیقی سعادت ان سوالات کے جوابات تیار کرنے میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (92) عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
[الحجر: 92، 93]
’’تیرے رب کی قسم عنقریب ہم ان سب سے ان کے اعمال سے متعلق سوال کریں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’روز قیامت انسان جب تک چار سوالات کے جوابات نہیں دے دے گا تب تک اپنے قدم نہیں ہلا سکے گا۔ اپنی عمر کے بارے میں کہ وہ کیسے گزاری۔ اپنے علم سے متعلق کہ اس پر کتنا عمل کیا۔ اپنے مال سے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اپنے جسم سے متعلق کہ اس کو کس کام میں لگایا۔‘‘
اے مسلمان! تو اس وقت تک ایک پاکیزہ زندگی نہیں گزار سکتا اور اس وقت تک آخرت کی رسوائی سے بچاؤ ممکن نہیں ہے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت سے التزام نہ کر لیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«اتقِ اللهَ حيثُما كنتَ»
’’تو جہاں بھی ہو اللہ سے ڈر جا!‘‘
کسی بھی شخص کی کامیابی کا راز اللہ تعالیٰ کا خوف دامن گیر ہونے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا
[النبأ: 31]
’’بے شک متقین کامیاب ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
’’جو ڈر گیا اور رات کے ابتدائی حصے میں سفر شروع کر دیا وہ منزل پر پہنچ گیا ۔ خبردار! اللہ تعالیٰ کا سامان مہنگا ہے اور اللہ کا سامان جنت ہے۔‘‘
اے وہ شخص جس کو دنیا نے آخرت سے غافل کردیا ہے۔ اے وہ انسان! جو غفلت میں مبتلا ہو کر لہو و لعب میں مبتلا ہوگیا ہے اور خواہشات کا غلام بن کر اوامر الٰہی کو ماننے سے انکاری ہو گیا ہے۔ یاد رکھ تو بہت بڑے خطرے میں مبتلا ہے۔ آج اپنے رب کے سامنے اپنی جبین نیاز کو جھکا دے۔
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (53) وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ
[الزمر: 53، 54]
’’ (اے نبیؐ)
کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے (53) پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ اُس کے قبل اِس کے کہ تم پر عذاب آ جائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے ‘‘
اے مسلمانو
مومن صرف دنیا ہی کا ہوکر نہیں رہ جاتا اور نہ ہی اس کی مشغولیتوں کا شکار ہوتا ہے۔ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو کر اٹھے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشانات ثبت تھے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا ہم آپ کے لیے کسی نرم چیز کا اہتمام نہ کریں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«مالي وللدنيا، إنما أنا كراكبٍ استظلَّ تحت دَوحةٍ ثم راحَ وتركَها».
’’میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی طرح ہے جو کچھ دیر سائے میں سستائے اور پھر سفر کو چل دے۔ ‘‘
اے مسلمان! کیا یہ قرین عقل ہے کہ تو اس دنیا کے لیے خلق خدا پر ظلم کا ہاتھ دراز کرے؟ کیا یہ ایک صائب رائے ہو سکتی ہے کہ تو حرام مال جمع کرنے میں مگن رہے؟ کیا کسی مسلمان کے لائق ہے کہ وہ دھوکہ دہی کرے؟ چوری میں ملوث ہو؟ خیانت کا مرتکب ہو؟ رشوت ستانی میں مبتلا ہو؟ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ دنیا فانی اور اس کے فوری بعد نہ ختم ہونے والی زندگی کا آغاز ہو جانا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے اور اس کے جو ذکر اللہ سے متعلق رہتا ہے۔‘‘
بارك الله لي ولكم في القرآن، ونفعنا بما فيه من الآياتِ والهُدى والفُرقان، أقولُ هذا القولَ، وأستغفرُ الله لي ولكم ولسائرِ المسلمين من كل ذنبٍ، فاستغفِروه، إنه هو الغفور الرحيم
Monday, November 5, 2012
اور نماز قائم (کیا) کرو
نمازسے متعلق کچھ آیات ۔
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:3 جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:43 اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:45 اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو، اور بیشک یہ گراں ہے مگر (ان) عاجزوں پر (ہرگز) نہیں (جن کے دل محبتِ الٰہی سے خستہ اور خشیتِ الٰہی سے شکستہ ہیں
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:83 اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے چند لوگوں کے سوا سارے (اس عہد سے) رُوگرداں ہو گئے اور تم (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہو
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:110 اور نماز قائم (کیا) کرو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو، اور تم اپنے لئے جو نیکی بھی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے حضور پا لو گے، جو کچھ تم کر رہے ہو یقینا اللہ اسے دیکھ رہا ہے
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:153 اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:157 یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:177 نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:238 سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:277 بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، اور ان پر (آخرت میں) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے
سورۃ النسآء:3 , آیت:43 اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں (نماز کے قریب جاؤ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے
سورۃ النسآء:3 , آیت:77 کیا آپ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جنہیں یہ کہا گیا کہ اپنے ہاتھ (قتال سے) روکے رکھو اور نماز قائم کئے رہواور زکوٰۃ دیتے رہو، پھر جب ان پر جہاد (یعنی کفر اور ظلم سے ٹکرانا) فرض کر دیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ (مخالف) لوگوں سے (یوں) ڈرنے لگا جیسے اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر۔ اور کہنے لگے: اے ہمارے رب! تو نے ہم پر (اس قدر جلدی) جہاد کیوں فرض کر دیا؟ تو نے ہمیں مزید تھوڑی مدت تک مہلت کیوں نہ دی؟ آپ (انہیں) فرما دیجئے کہ دنیا کا مفاد بہت تھوڑا (یعنی معمولی شے) ہے، اور آخرت بہت اچھی (نعمت) ہے اس کے لئے جو پرہیزگار بن جائے، وہاں ایک دھاگے کے برابر بھی تمہاری حق تلفی نہیں کی جائے گی
سورۃ النسآء:3 , آیت:101 اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں
سورۃ النسآء:3 , آیت:102 اور (اے محبوب!) جب آپ ان (مجاہدوں) میں (تشریف فرما) ہوں تو ان کے لئے نماز (کی جماعت) قائم کریں پس ان میں سے ایک جماعت کو (پہلے) آپ کے ساتھ (اقتداءً) کھڑا ہونا چاہئے اور انہیں اپنے ہتھیار بھی لئے رہنا چاہئیں، پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو (ہٹ کر) تم لوگوں کے پیچھے ہو جائیں اور (اب) دوسری جماعت کو جنہوں نے (ابھی) نماز نہیں پڑھی آجانا چاہیے پھر وہ آپ کے ساتھ (مقتدی بن کر) نماز پڑھیں اور چاہئے کہ وہ (بھی بدستور) اپنے اسبابِ حفاظت اور اپنے ہتھیار لئے رہیں، کافر چاہتے ہیں کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر دفعۃً حملہ کر دیں، اور تم پر کچھ مضائقہ نہیں کہ اگر تمہیں بارش کی وجہ سے کوئی تکلیف ہو یا بیمار ہو تو اپنے ہتھیار (اُتار کر) رکھ دو، اوراپنا سامانِ حفاظت لئے رہو۔ بیشک اللہ نے کافروں کے لئے ذلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے
سورۃ النسآء:3 , آیت:103 پھر (اے مسلمانو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو نماز کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بیشک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے
سورۃ النسآء:3 , آیت:142 بیشک منافق (بزعمِ خویش) اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ انہیں (اپنے ہی) دھوکے کی سزا دینے والا ہے، اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ (محض) لوگوں کو دکھانے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کویاد (بھی) نہیں کرتے مگر تھوڑا
سورۃ النسآء:3 , آیت:162 لیکن ان میں سے پختہ علم والے اور مومن لوگ اس (وحی) پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور اس (وحی) پر جو آپ سے پہلے نازل کی گئی (برابر) ایمان لاتے ہیں، اور وہ (کتنے اچھے ہیں کہ) نماز قائم کرنے والے (ہیں) اور زکوٰۃ دینے والے (ہیں) اور اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے (ہیں)۔ ایسے ہی لوگوں کو ہم عنقریب بڑا اجر عطا فرمائیں گے
سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:6 اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ
سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:12 اور بیشک اﷲ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور (اس کی تعمیل، تنفیذ اور نگہبانی کے لئے) ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کئے، اور اﷲ نے (بنی اسرائیل سے) فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں (یعنی میری خصوصی مدد و نصرت تمہارے ساتھ رہے گی)، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور تم زکوٰۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر (ہمیشہ) ایمان لاتے رہے اور ان (کے پیغمبرانہ مشن) کی مدد کرتے رہے اور اﷲ کو (اس کے دین کی حمایت و نصرت میں مال خرچ کرکے) قرضِ حسن دیتے رہے تو میں تم سے تمہارے گناہوں کو ضرور مٹا دوں گا اور تمہیں یقیناً ایسی جنتوں میں داخل کر دوں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ پھر اس کے بعد تم میں سے جس نے (بھی) کفر (یعنی عہد سے انحراف) کیا تو بیشک وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا
سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:55 بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں
سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:58 اور جب تم نماز کے لئے (لوگوں کو بصورتِ اذان) پکارتے ہو تو یہ (لوگ) اسے ہنسی اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو (بالکل) عقل ہی نہیں رکھتے
سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:91 شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آؤ گے
سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:106 اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کی موت آئے تو وصیت کرتے وقت تمہارے درمیان گواہی (کے لئے) تم میں سے دو عادل شخص ہوں یا تمہارے غیروں میں سے (کوئی) دوسرے دو شخص ہوں اگر تم ملک میں سفر کر رہے ہو پھر (اسی حال میں) تمہیں موت کی مصیبت آپہنچے تو تم ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو، اگر تمہیں (ان پر) شک گزرے تو وہ دونوں اللہ کی قَسمیں کھائیں کہ ہم اس کے عوض کوئی قیمت حاصل نہیں کریں گے خواہ کوئی (کتنا ہی) قرابت دار ہو اور نہ ہم اللہ کی (مقرر کردہ) گواہی کو چھپائیں گے (اگر چھپائیں تو) ہم اسی وقت گناہگاروں میں ہو جائیں گے
سورۃ الانعام:5 , آیت:72 اور یہ (بھی حکم ہوا ہے) کہ تم نماز قائم رکھو اور اس سے ڈرتے رہو اور وہی اﷲ ہے جس کی طرف تم (سب) جمع کئے جاؤ گے
سورۃ الانعام:5 , آیت:92 اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔ اور (یہ) اس لئے (نازل کی گئی ہے) کہ آپ (اولاً) سب (انسانی) بستیوں کے مرکز (مکّہ) والوں کو اور (ثانیاً ساری دنیا میں) اس کے ارد گرد والوں کو ڈر سنائیں، اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اس پر وہی ایمان لاتے ہیں اور وہی لوگ اپنی نماز کی پوری حفاظت کرتے ہیں
سورۃ الانعام:5 , آیت:162 فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے
سورۃ الاعراف:6 , آیت:170 اور جو لوگ کتابِ (الٰہی) کو مضبوط پکڑے رہتے ہیں او ر نماز (پابندی سے) قائم رکھتے ہیں (تو) بیشک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے
سورۃ الانفال:7 , آیت:3 (یہ) وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں
سورۃ التوبۃ:8 , آیت:5 پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسبِ اعلان) مشرکوں کو قتل کر دو جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ اور انہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور انہیں (پکڑنے اور گھیرنے کے لئے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
سورۃ التوبۃ:8 , آیت:11 پھر (بھی) اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں، اور ہم (اپنی) آیتیں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو علم و دانش رکھتے ہیں
سورۃ التوبۃ:8 , آیت:18 اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا (کسی سے) نہ ڈرا۔ سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہو جائیں گے
سورۃ التوبۃ:8 , آیت:54 اور ان سے ان کے نفقات (یعنی صدقات) کے قبول کئے جانے میں کوئی (اور) چیز انہیں مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منکر ہیں اور وہ نماز کی ادائیگی کے لئے نہیں آتے مگر کاہلی و بے رغبتی کے ساتھ اور وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ (بھی) نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ وہ ناخوش ہوتے ہیں
سورۃ التوبۃ:8 , آیت:71 اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے
سورۃ التوبۃ:8 , آیت:99 اور بادیہ نشینوں میں (ہی) وہ شخص (بھی) ہے جو اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرتاہے اسے اﷲ کے حضور تقرب اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (رحمت بھری) دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتا ہے، سن لو! بیشک وہ ان کے لئے باعثِ قربِ الٰہی ہے، جلد ہی اﷲ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
سورۃ التوبۃ:8 , آیت:103 آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے
سورۃ يونـس:9 , آیت:87 اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ تم دونوں مصر (کے شہر) میں اپنی قوم کے لئے چند مکانات تیار کرو اور اپنے (ان) گھروں کو (نماز کی ادائیگی کے لئے) قبلہ رخ بناؤ اور (پھر) نماز قائم کرو، اور ایمان والوں کو (فتح و نصرت کی) خوشخبری سنا دو
سورۃ هود:10 , آیت:114 اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے
سورۃ الرعد:12 , آیت:21 اور جو لوگ ان سب (حقوق اﷲ، حقوق الرسول، حقوق العباد اور اپنے حقوقِ قرابت) کو جوڑے رکھتے ہیں، جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم فرمایا ہے اور اپنے رب کی خشیّت میں رہتے ہیں اور برے حساب سے خائف رہتے ہیں
سورۃ الرعد:12 , آیت:22 اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی کے لئے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (دونوں طرح) خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا (حسین) گھر ہے
سورۃ إبراهيم:13 , آیت:31 آپ میرے مومن بندوں سے فرما دیں کہ وہ نماز قائم رکھیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے رہیں اس دن کے آنے سے پہلے جس دن میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ ہی کوئی (دنیاوی) دوستی (کام آئے گی)
سورۃ إبراهيم:13 , آیت:37 اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں
سورۃ إبراهيم:13 , آیت:40 اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لے
سورۃ الاسراء / بني إسرآءيل:16 , آیت:78 آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے
سورۃ الاسراء / بني إسرآءيل:16 , آیت:110 فرما دیجئے کہ اﷲ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں، اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں
سورۃ مريم:18 , آیت:31 اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے اور میں جب تک (بھی) زندہ ہوں اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم فرمایا ہے
سورۃ مريم:18 , آیت:55 اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے، اور وہ اپنے رب کے حضور مقام مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا
سورۃ مريم:18 , آیت:59 پھر ان کے بعد وہ ناخلف جانشین ہوئے جنہوں نے نمازیں ضائع کردیں اور خواہشاتِ (نفسانی) کے پیرو ہوگئے تو عنقریب وہ آخرت کے عذاب (دوزخ کی وادئ غی) سے دوچار ہوں گے
سورۃ طہٰ:19 , آیت:14 بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو
سورۃ طہٰ:19 , آیت:132 اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے رزق طلب نہیں کرتے (بلکہ) ہم آپ کو رزق دیتے ہیں، اور بہتر انجام پرہیزگاری کا ہی ہے
سورۃ الانبيآء:20 , آیت:73 اور ہم نے انہیں (انسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اَعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے
سورۃ الحج:21 , آیت:35 (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب اﷲ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جو مصیبتیں انہیں پہنچتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
سورۃ الحج:21 , آیت:40 (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے
سورۃ الحج:21 , آیت:41 (یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے
سورۃ الحج:21 , آیت:78 اور اﷲ (کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے۔ اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ، پس (اس مرتبہ پر فائز رہنے کے لئے) تم نماز قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اﷲ (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مددگار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مددگار ہے
سورۃ المؤمنون:22 , آیت:2 جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں
سورۃ المؤمنون:22 , آیت:9 اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں
سورۃ النور:23 , آیت:37 (اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی
سورۃ النور:23 , آیت:41 کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے (بھی فضاؤں میں) پر پھیلائے ہوئے (اسی کی تسبیح کرتے ہیں)، ہر ایک (اللہ کے حضور) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیں
سورۃ النور:23 , آیت:56 اور تم نماز (کے نظام) کو قائم رکھو اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کرتے رہو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مکمل) اطاعت بجا لاؤ تاکہ تم پر رحم فرمایا جائے (یعنی غلبہ و اقتدار، استحکام اور امن و حفاظت کی نعمتوں کو برقرار رکھا جائے
سورۃ النور:23 , آیت:58 اے ایمان والو! چاہئے کہ تمہارے زیردست اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے
سورۃ النمل:26 , آیت:3 جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہی ہیں جو آخرت پر (بھی) یقین رکھتے ہیں
سورۃ العنکبوت:28 , آیت:45 (اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو
سورۃ الروم:29 , آیت:31 اسی کی طرف رجوع و اِنابت کا حال رکھو اور اس کا تقوٰی اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ
سورۃ لقمان:30 , آیت:4 جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ لوگ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں
سورۃ لقمان:30 , آیت:17 اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں
سورۃ الاحزاب:32 , آیت:33 اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا اور پرانی جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا، اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت گزاری میں رہنا، بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے
سورۃ فاطر:34 , آیت:18 اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بارِ (گناہ) نہ اٹھا سکے گا، اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا (دوسرے کو) اپنا بوجھ بٹانے کے لئے بلائے گا تو اس سے کچھ بھی بوجھ نہ اٹھایا جا سکے گا خواہ قریبی رشتہ دار ہی ہو، (اے حبیب!) آپ ان ہی لوگوں کو ڈر سناتے ہیں جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کوئی پاکیزگی حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے پاک ہوتا ہے، اور اﷲ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے
سورۃ فاطر:34 , آیت:29 بیشک جو لوگ اﷲ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، پوشیدہ بھی اور ظاہر بھی، اور ایسی (اُخروی) تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارے میں نہیں ہوگی
سورۃ الشورٰی:41 , آیت:38 اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں
سورۃ ق:49 , آیت:40 اور رات کے بعض اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور نمازوں کے بعد بھی
سورۃ المجادلۃ:57 , آیت:13 کیا (بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) تنہائی و رازداری کے ساتھ بات کرنے سے قبل صدقات و خیرات دینے سے تم گھبرا گئے؟ پھر جب تم نے (ایسا) نہ کیا اور اللہ نے تم سے باز پرس اٹھا لی (یعنی یہ پابندی اٹھا دی) تو (اب) نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے رہو، اور اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب آگاہ ہے
سورۃ الجمعۃ:61 , آیت:9 اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو
سورۃ الجمعۃ:61 , آیت:10 پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ
سورۃ المعارج:69 , آیت:22 مگر وہ نماز ادا کرنے والے
سورۃ المعارج:69 , آیت:23 جو اپنی نماز پر ہمیشگی قائم رکھنے والے ہیں
سورۃ المعارج:69 , آیت:34 اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں
سورۃ المزمل:72 , آیت:20 بے شک آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ (کبھی) دو تہائی شب کے قریب اور (کبھی) نصف شب اور (کبھی) ایک تہائی شب (نماز میں) قیام کرتے ہیں، اور اُن لوگوں کی ایک جماعت (بھی) جو آپ کے ساتھ ہیں (قیام میں شریک ہوتی ہے)، اور اﷲ ہی رات اور دن (کے گھٹنے اور بڑھنے) کا صحیح اندازہ رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ تم ہرگز اُس کے اِحاطہ کی طاقت نہیں رکھتے، سو اُس نے تم پر (مشقت میں تخفیف کر کے) معافی دے دی، پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو، وہ جانتا ہے کہ تم میں سے (بعض لوگ) بیمار ہوں گے اور (بعض) دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے تاکہ اﷲ کا فضل تلاش کریں اور (بعض) دیگر اﷲ کی راہ میں جنگ کریں گے، سو جتنا آسانی سے ہو سکے اُتنا (ہی) پڑھ لیا کرو، اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اﷲ کو قرضِ حسن دیا کرو، اور جو بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اُسے اﷲ کے حضور بہتر اور اَجر میں بزرگ تر پا لوگے، اور اﷲ سے بخشش طلب کرتے رہو، اﷲ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے
سورۃ القيامۃ:74 , آیت:31 تو (کتنی بد نصیبی ہے کہ) اس نے نہ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں کی) تصدیق کی نہ
نماز پڑھی
سورۃ العلق:95 , آیت:10 (اﷲ کے) بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔ (یا:- (اللہ کے محبوب و برگزیدہ) بندے (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب وہ نماز پڑھتے ہیں
سورۃ البـيـنۃ:97 , آیت:5 حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں، (ہر باطل سے جدا ہو کر) حق کی طرف یک سُوئی پیدا کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے
سورۃ الماعون:106 , آیت:4 پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لئے
سورۃ الماعون:106 , آیت:5 جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اﷲ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)
Subscribe to:
Posts (Atom)