Pages

Monday, January 31, 2011

ماں جی کی یاد میں

ماں …. زبان سے نکلا ہوا لفظِ ماں‘ایک ایسے احساس کا اظہار ہے کہ جس سے دل اور دماغ کو سکون ملتا ہے۔ماں…. جس کا ذکر لبوں پر آتے ہی خوشی چھا جاتی ہے۔ماں….جسے جنت کی کنجی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ جنت تو جنت ہے لیکن جنت میں خوشبو دار پھول نہ ہو، تو جنت کیسا ….؟ جنت کا پھول ماں ہے۔ اسی لیے ماں کے قدموں تلے جنت قرار دیا گیا ہے۔
یہ لفظ اندر کائنات کی تمام تر مٹھاس ، شیرینی اور نرماہٹ لئے ہوئے ہے ، یہ دنیا کا سب سے پرخلوص اور چاہنے والا رشتہ ہے ۔۔۔ ماں ٹھنڈک ہے ۔۔۔ سکون ہے ۔۔۔ محبت ہے ۔۔۔ چاہت ہے
ماں‌ٹھنڈی چھائوں ہے ، کعبہ ہے ، بخشش کی راہ ہے ،
میں دنیا میں کہیں بھی ھوں
سب سے دور
مگر ایک ھستی ھے
جو میرے آس پاس ھوتی ھے
میری خوشیوں میں خوش ھوتی
میرے دکھ میں تڑپتی
جس کے سجدے میرے لیے
جس کی دعائیں میرے لیے
جس کے آ نسو
سب منتیں مرادیں
جس کی ھر آرزو ھے میرے لیے
ھر پریشانی میں اس کی دعائیں
میرے سر پہ سایا کرتی ھیں
کبھی ستارہ کبھی جگنو بن کر چکمتی ھیں
محبتوں کا خزانہ ھے
میری ماں

ماں،جنت کو پانے کا ایک آسان راستہ۔ماں،جس کا احساس انسان کی آخری سانس تک چلتا رہتا ہے۔ماں،ایک پھول کہ جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ماں،ایک سمندر جس کا پانی اپنی سطح سے بڑھ تو سلتا ہے مگر کبھی کم نہین ہو سکتا۔ماں،ایک ایسی دولت جس کو پانے کے بعد انسان مغرور ہو جاتا ہے۔ماں،ایک ایسی دوست جو کبھی بیوفا نہیں ہوتی۔ماں،ایک ایسا وعدہ جو کبھی ٹوٹتا نہیں۔ماں،ایک ایسا خواب جو ایک تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ماں،ایک ایسی محبت جو کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ وقت وقت کے ساتھ ساتھ یہ اور بڑھتی رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی پرچھائی جو ہر مصیبت سے ہمیں بچانے کے لیے ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ماں،ایک ایسی محافظ جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے
سے بچاتی ہے۔ماں ایک دُعا جو ہر کسی کی لب پر ہر وقت رہتی ہے۔

ماں،ایک ایسی خوشی جو کبھی غم نہیں دیتی۔
صبر کرتی تو ہوں صبر آتا نہیں
سامنے تیری صورت کوئی بھاتا نہیں
تیرا پیغام اب کوئی لاتا نہیں
درد دل ہائے رے میرا جاتا نہیں
یہ تو ممکن نہیں بھول جاؤں تجھے رات دن
فکر ہے کیسے پاؤں تجھے
دل میں کیا ہے تمنا بتاؤں تجھے
اپنے اللہ سے مانگ لاؤں تجھے

حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کی وفات ھوگی اور جب اپ علیہ السلام اللہ تعالی سے کلام کرنے طور پر چڑھے تو اللہ تعالی نے کھا ؛اے موسی اب تم سنبھل کر انا تمھارہ ماں کا انتقال ھوگیا ھے جب تم ھمارے پاس اتے تھے تو تمھاری ماں سجدہ میں جاکر ھم سے دعا کرتی تھی ؛اے سب جھانھوں کے رب میرے بیٹے سے کوی چوک ھوجاے تو اسے معاف کردینا.
ماں ھی وہ ھستی ھے جس کو رب ذولجلال نے تخلیق کا اعجاز عطا کرکے اپنی صفات سے بھرہ مند فرمایا۔ اس کا وجود محبت کا وہ بیکراں سمندر ھے کہ جس کی وسعت کا اندازہ نھیں کیا جاسکتا۔ اسکا دل اتنا وسیع ھے کہ سارے زمانے کے
دکھ آلام بھی سمٹ لیں تو اس کی وسعت میں فرق نہیںایک ایسا سابیان عافیت
جس کی چھاوں میں کوی دکھ پریشانی ھمیں چھو نھیں سکتی۔
ثابت ھوا کہ ماں وہ عظیم ھستی ھے جس کی دعاوں کی ھم جیسے گنھگاروں کو ھی نھیں پیغبروں، انبیا اکرام، اولیا علہہ رحمہ کو بھی ضرورت ھوتی ھے۔ جس کے لبوں سے نکلی دعا بارگاہ الھی میں شرف قبولیت حاصل کرتی ھے۔
٭ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ (حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

محبت کی ترجمانی کرنے والی کوئی چیز ہے تووہ پیاری ماں ہے۔

ماں کیسے بنی ؟
ایک دن آسمانوں کے فرشتوں نے رب سے کہا ۔۔۔ زمینی مخلوق سےکچھ ہمیں دکھلایے ۔۔۔ رب نے حجاب اُٹھایا ۔۔ فرشتوں کو بلایا ۔۔۔ رب نے ایک مجسمہ دکھایا ۔۔۔ ایک مجسمہ ۔۔۔ خوبصورت روشن مجسمہ ۔۔۔ جسے کلیوں کی معصومیت ۔۔۔ چاندنی سے ٹھنڈک ۔۔۔گلاب سے رنگت ۔۔۔ قمری سے نغمہ ۔۔۔ غاروں سے خاموشی ۔۔۔ آبشاروں سے موسیقی ۔۔۔ پھول کی پتی سے نزاکت ۔۔۔ کوئل سے راگنی۔۔۔ بلبل سے چہچہاہٹ ۔۔۔ چکوری سے بے چینی ۔۔۔ لاجونتی سے حیا ۔۔۔ پہاڑوں سے استقامت ۔۔۔ آفتاب سے تمازت ۔۔۔ صحرا سے تشنگی ۔۔۔ شفق سے سرخی ۔۔۔ شہد سے حلاوت ۔۔۔ شب سے گیسو کے لئے سیاہی ۔۔۔ سرو سے بلند قامتی لےکر بنایا ۔ اس کی آنکھوں میں دو دیئے روشن تھے ، اس کے قدموں تلے گھنے باغات تھے ، اس کے ہاتھوں میں دعائوں کی لکیریں تھیں ۔۔۔ اس کے جسم سے رحمت و برکت کی بو آتی تھی ۔۔۔ اس کے دم میں رحم کا دریا موجزن تھا ۔۔۔ اللہ تعالٰی نے اسے ایک گوشت کا لوتھڑا عطا کیا ( یعنی بچہ )‌اس مجسمے نے اسے غور سے دیکھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے اور خود اندھا ہوگیا۔
اپنی بہار کے سب پھول اسے دے دیے ۔
اپنے ہاتھوں کی دعائوں کو اس کے سر پر سایہ بنایا ۔
اپنے قدموں‌کے گھنے باغات اُٹھاکر اسے دے دیے ۔
اپنا سکون اسے دے کر خود کو بے سکون ہوگیا۔
اپنی ہنسی اس کے نام کردی ، خود خاموشی لے لی ۔
سُکھ اسے دے دیا اور خود آنسو لے لئے ۔
فرشتوں نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔ یا اللہ یہ کیا ہے ؟
اللہ نے فرمایا یہ ماں‌ ہے ۔

اللہ نے فرمایا یہ ماں‌ ہے ۔

قدرت کے اس حسین تحفے کی آج تعریف کرنے کی کوشش کر رھی ھوں
مگر مجھے وہ الفاظ نہیں ملتے کہ جن میں اظہار کروں، ہر لفظ اسکی عظمت کے سامنے چھوٹا لگ رہا ہے ،رشتوں کو پیار کی ڈوری میں پروئے ہوئے ہر لحظہ خیرکی طلبگار وہ ہستی میری ماں ہے جس کے احسانات کا بدلہ کبھی بھی نہ چکا سکوں
گی ماں اگر ایک طرف سچائی کے جذبے کا نام ہے تو دوسری طرف محبت کی باز گشت بھی یہیں سے آتی ہے
بڑا محروم موسم ہے تمہاری یاد کا اے ماں
نجانے کس نگر کو چھوڑ کر چل دی ہو مجھ کو ماں!
شفق چہروں میں اکثر ڈھونڈتی رہتی ہوں ، میں تم کو
کسی کا ہاتھ سر پہ ہو ،تو لگتا ہے تم آئی ہو
کوئی تو ہو ، جو پوچھے ،کیوں ترے اندر اداسی ہے
مرے دل کے گھروندے کی صراحی کتنی پیاسی ہے
مجھے جادوئی لگتی ہیں تمہاری، قربتیں اب تو
مری یادوں میں رہتی ہیں تمہاری شفقتیں اب تو
کبھی لگتا ہے ،خوشبو کی طرح مجھ سے لپٹتی ہو
کبھی لگتا ہے یوں، ماتھے پہ بوسے ثبت کر تی ہو
کوئی لہجہ، ترے جیسا، مرے من میں اتر جائے
کوئی آواز، میری تشنگی کی گود ،بھر جائے
کوئی ایسے دعائیں دے کہ جیسے تان لہرائے
کسی کی آنکھ میں ، آنسو لرزتے ہوں ، مری خاطر
مگر جب لوٹتی ہوں ساری یادیں لے کے آنچل میں
تو سایہ تک نہیں ملتا کسی گنجان بادل میں
کوئی لوری نہیں سنتی ہوں میں اب دل کی ہلچل میں
تمہاری فرقتوں کا درد بھر لیتی ہوں کاجل میں
کہیں سے بھی دعاؤں کی نہیں آتی مجھے خوشبو
مری خاطر کسی کی آنکھ میں، اترے نہیں آنسو
محبت پاش نظروں سے مجھے تم بھی تکا کرتیں
کوئی موہوم سا بھی سلسلہ، باقی کہاں باہم
کہ اب برسیں مرے نیناں تمہاری دید کو چھم چھم
دلاؤں ایک ٹوٹے دل سے چاہت کا یقیں کیسے
مری ماں آسمانوں سے تجھے لاؤں یہاں کیسے
نجانے کون سی دنیا میں جا کے بس گئی ہو ماں
بڑا محروم موسم ہے تمہاری یاد کا،
اے ماں۔۔۔!!

دکھ ھے ایسا کہ لگتا ھے دل پھٹ جائے گا
غم ھے ایسا کہ سہا نہیں جا رہا
زندگی سے دل اچاٹ ھو گیا ھے
وہ پرنور محبت سے بھرا شفیق مہربان چہرہ آنکھوں سے اوجھل ھو گیا ھے
جس کی طرف میں دیکھتے ہی سارے دکھ درد بھول جایا کرتی تھی
جس کی طرف اک نگاہ کرنے سےدل
خوشی سے کھل جایا کرتا
ماں میں تجھے کہاں سے ڈھونڈکے لاؤں
میرے سر پہ جو تیری دعاؤں کی چادر تھی
وہ چھن گی مجھ سے
میں اکیلی رہ گی ھوں ماں
ہر پل اداس تیرے بغیر
زخم ابھی بالکل تازہ ھے۔دکھ کا ایک پہاڑ ھے
سہنے کوساری عمر ھے لیکن برداشت کی طاقت نھیں۔۔
کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ زخم مندمل ھو جاتے ہیں
مگر یہ دکھ تو عمر کے ساتھ ہی ھے
آج نجانے کتنا وقت گزر گیا اپنی جنت سے دور ھوۓ
وہ پیارا حسین پرنور چہرہ اپنی پوری جزہیات کے ساتھ آنکھوں کے سامنے رھتا ھے۔
جاگتے سوتے میں بھی اور معمولی تکلیف پر بھی ہاۓ ماں جی ہی کیوں منہ سے نکالتا ھے

میں جدھر گیا میں جہاں رہا
میرے ساتھ تھا
وہی ایک سایہ مہرباں
وہ جو ایک پارہ ابر تھا سر آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرف یقین تھا
میرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، میرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
میرے غم کو جڑ سے اُکھاڑھتا
وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا
کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا ، وہ نہیں رہا
وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی ، میرے نام پر
وہ سو گئی
وہ جو اک دعاِ سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی
اے خدُائےِ واحد و لم یزل
تیرے ایک حرف کے صید ہیں
یہ زماں مکاں
تیرے فیصلوں کے حضور میں
نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے
یہ جو زندگی کی متاء ہے
تیری دین ہے تیرا مال ہے
مجھے ہے تو اتنا ملال ہے
کہ جب اُسکی ساعت آخری سرِ راہ تھی
میں وہاں نہ تھا
میرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جاہِ پناہ تھی
میں وہاں نہ تھا
سرِ شام غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بجھتی نگاہ تھی
میں وہاں نہ تھا
میرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
میرے خواب سے میری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
تیرے رحم کی نہیں حد کوئی
تیرے عفو کی نہیں انتہا
کے تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کے جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ ازیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
تیرے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں
میری التجا ہے تو بس یہی
میری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تیری بخشِشوں کے دِیار میں
میری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں

آخر میں اس شعر کے ساتھ کہ
اے دوست! ماں باپ کے سایے کی ناقدری نہ کر
دھوپ کاٹے گی بہت جب یہ شجر کٹ جائے گا