Pages

Thursday, March 10, 2016

استخارہ


کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تائیدِ غیبی سے حاصل کرنے کے لئے ادا کی جانے والی دو رکعت نماز کو نماز استخارہ کہتے ہیں۔

  قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے؛

  وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ
 اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔ اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسا رکھو۔

Al-i-Imran [3:165]

استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعا نبی صلى الله عليه وسلم سے احادیث میں منقول ہے ،حضور اکرم صلى الله عليه وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے 
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔ 
استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
 سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے، یہ بڑی عجیب دعا ہے ،اللہ جل شانہ کے نبی ہی یہ دعا مانگ سکتے ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ، کوئی گوشہ زندگی کا اس دعاء میں نبی صلى الله عليه وسلم نے چھوڑا نہیں ، اگر انسان ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا تو بھی ایسی دعا کبھی نہ کرسکتا جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ،اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں کتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے ،اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں ، وہ الفاظ یہ ہیں :
استخارہ کی مسنون دعا

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ
اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ
وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ(بخاری،ترمذی)

دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے (جس کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔

استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں ۔
اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں ۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے ۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے ۔           (اصلاحی خطبات)

استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
حضرت انس رضى الله تعالى عنه ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاء کی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔(مظاہر حق)
بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، اس موقع پر اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی مدت متعین نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ایک ماہ تک استخارہ کیا تھا تو ایک ماہ بعد آپ کو شرح صدر ہوگیا تھا اگر شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔(رحمة اللہ الواسعة)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
 ”دعائے استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے دعائے خیر کرتا رہے ، استخارہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی اور یہ مشورہ کرنا نہیں ہے، کیونکہ مشورہ تو دوستوں سے ہوتا ہے ، استخارہ سنت عمل ہے ، اس کی دعا مشہور ہے ،اس کے پڑھ لینے سے سات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خواب میں کچھ نظرآنا ،یا یہ قلبی رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا کرناہی پڑے گا ، اور یہ جو دوسروں سے استخارہ کرایا کرتے ہیں ،یہ کچھ نہیں ہے ، بعض لوگوں نے عملیات مقرر کرلیے ہیں دائیں طرف یا بائیں طرف گردن پھیرنا یہ سب غلط ہیں ، ہاں دوسروں سے کرالینا گناہ تو نہیں لیکن اس دعا کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خود کرنا چاہیے“۔(مجالس مفتی اعظم )

Tuesday, March 1, 2016

آیۃ الکرسی

 
 بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔


آیۃ الکرسی


اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ، اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ، لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ، لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ، یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ، وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ٍٔ مِّنْ عِلْمَہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ، وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ، وَلَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا، وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔ (البقرۃ ۲۵۵)


اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، زندہ ہے (جس کو کبھی موت نہیں آسکتی) (ساری کائنات کو) سنبھالنے والاہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین وآسمان کی تمام چیزیں ہیں، کون شخص ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے سامنے شفاعت کرسکے، وہ جانتا ہے ان (کائنات) کے تمام حاضر وغائب حالات کو ، وہ (کائنات) اُس کی منشا کے بغیرکسی چیز کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے، اُس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھا ہے، اﷲ تعالیٰ کو ان (زمین وآسمان) کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی، وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔


یہ سورۂ البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ ہے جو بڑی عظمت والی آیت ہے، اس آیت میں اﷲ تعالیٰ کی توحید اور بعض اہم صفات کا ذکر ہے۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ کی کرسی کا بھی ذکر آیا ہے جس کی وجہ سے اس آیت کو آیت الکرسی کہا جاتا ہے۔ آیت الکرسی کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں وارد ہیں لیکن اختصار کے مدنظر یہاں صرف چند اہم فضیلتیں..جن کے صحیح ہونے پر جمہور علماء امت متفق ہیں۔

سب سے زیادہ عظمت والی آیت
حضرت ابی بن کعب ؓسے رسول اﷲ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتاب اﷲ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے؟ حضرت ابی بن کعبؓ نے جواب میں فرمایا: اﷲ اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی سوال کیا۔ بار بار سوال کرنے پر حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا: آیت الکرسی۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ کے سینے پر ہاتھ مارکر فرمایا: ابو المنذر! اﷲ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے۔ (مسلم، باب فضل سورۃ الکہف وآیۃ الکرسی،ح۸۱۰) مسند احمد میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اُس اﷲ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اِس (آیت الکرسی) کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہوگی۔ (مسند احمد ۱۴۱/۵۔۱۴۲)

حضرت ابو ذر غفاریؓ کے سوال پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ عظمت والی آیت‘ آیت الکرسی اَللّٰہُ لَا اِلٰہ اِلَّا ہُو الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ الخ .ہے۔ (مسند احمد ۱۷۸/۵، نسائی ح ۵۵۰۹)

دخول جنت کا سبب

حضرت ابو امامہ الباہلی ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے‘ اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے۔ (ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے، اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے)

شیاطین وجنات سے حفاظت
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رمضان میں وصول کی گئی زکاۃ کے مال پر پہرا دے رہا تھا، ایک آنے والا آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے اس کو ایسا کرنے سے بار بار منع فرمایا۔ اس آنے والے نے کہا کہ مجھے یہ کرنے دو، میں تجھے ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ اگر تو رات کو بستر میں جاکر ان کو پڑھ لے گا تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آسکے گا اور وہ آیت الکرسی ہے۔ جب حضرت ابوہریرہؓ نے حضور اکرم ﷺ کو یہ واقعہ سنایا تو آپ ﷺنے فرمایاکہ اس نے سچ کہا مگر وہ خود جھوٹا ہے اور وہ شیطان ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوکالہ، باب اذا وکل رجلا فترک الوکیل شیئا،،، ح ۲۳۱۱، ۳۲۷۵، ۵۰۱۰)

حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاس کچھ کھجوریں تھیں جو روزانہ گھٹ رہی تھیں، ایک رات میں نے پہرا دیا۔ میں نے دیکھاکہ ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا،میں نے اس کو سلام کیا، اس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو انسان ہے یا جن؟ اس نے کہا میں جن ہوں۔ میں نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ دو۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھادیا ۔ میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے بال بھی تھے۔ میں نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو؟ اس نے کہا کہ تم صدقہ کو پسند کرتے ہو اور میں تمہارے مال کو لینے آیا ہوں تاکہ تم صدقہ نہ کرسکو۔ میں نے پوچھا کہ تمہارے شر سے بچنے کی کوئی تدبیر ہے؟ اس نے کہا: آیت الکرسی ، جو شخص شام کو پڑھ لے وہ صبح تک اور جو صبح کو پڑھ لے وہ شام تک محفوظ ہوجاتا ہے۔ صبح ہونے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ خبیث نے یہ بات بالکل سچی کہی ہے۔ (نسائی، طبرانی۔۔ الترغیب والترہیب ۶۶۲)

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا بھی احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ غرض آیت الکرسی کے ذریعہ جنات وشیاطین سے حفاظت کے متعدد واقعات صحابہ کے درمیان پیش آئے۔ (تفسیر ابن کثیر)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص سورۂ المؤمن کو حٰمٓسے الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا‘ وہ شام تک اﷲ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہوگی۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی سورہ البقرہ وآیہ الکرسی ج ۲۸۷۹)

آیت الکرسی اسم اعظم پر مشتمل

حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اِن دونوں آیتوں میں اﷲ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ایک تو آیت الکرسی اور دوسری آیت الٓمّ ٓ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ (مسند احمد۴۶۱/۶، ابوداؤد، کتاب الوتر، باب الدعاء ح ۱۴۹۶، ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی ایجاب الدعاء بتقدیم الحمد ح ۳۴۷۸، ابن ماجہ، کتاب الدعاء، باب اسم اﷲ الاعظم ج ۳۸۵۵)

حضرت ابوامامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسم اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اﷲ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے، وہ تین سورتوں میں ہے سورۂ البقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ طہ۔ (ابن ماجہ، کتاب الدعا،، باب اسم اﷲ الاعظم ح ۳۸۵۵)
وضاحت: سورۂ البقرہ میں آیت نمبر ۲۵۵، سورۂ آل عمران میں آیت نمبر ۲ اور سورۂ طہ میں آیت نمبر ۱۱۱ہے۔

آیت الکرسی چوتھائی قرآن

حضور اکرم ﷺ نے آیت الکرسی کو چوتھائی قرآن کہا ہے۔ (مسند احمد ۲۲۱/۳، ترمذی کتاب فضائل القرآن،باب ما جاء فی اذا زلزلت، ح ۲۸۹۵)


مفہوم آیۃ الکرسی: اس توحید کی اہم آیت میں ۱۰ جملے ہیں


اَللّٰہُ لَآ اِلٰہ اِلَّا ہُوَ: یہی وہ پیغام ہے جس کی دعوت تمام انبیاء ورسل نے دی کہ معبود حقیقی صرف اور صرف اﷲ تبارک وتعالیٰ ہے، وہی پیدا کرنے والا، وہی رزق دینے والا اور وہی اس پوری دنیا کے نظام کو تنہے تنہا چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ وہی مشکل کشا، حاجت روا اور ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اس نے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے انبیاء ورسل بھیجے۔ آخر میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت للعالمین بناکر بھیجا۔

اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ: لفظ حَیُّ کے معنی ہیں زندہ یعنی اﷲ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور وہ موت سے بالا تر ہے۔ کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ،،، کُلُّ مَنْ عَلیْہَا فَانٍ، وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاکْرَامِ اﷲ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہوجانے والی ہے۔ قَیُّوْمُ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کے قیام وبقا کا واسطہ اور ذریعہ ہو۔

نوٹ: قیوم اﷲ تعالیٰ کی خاص صفت ہے، جس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی، کیونکہ جو چیزیں خود اپنے وجود وبقا میں کسی دوسرے کی محتاج ہوں وہ کسی دوسری چیز کو کیا سنبھال سکتی ہیں۔ اس لئے کسی انسان کو قیوم کہنا جائز نہیں ہے۔ لہذا عبدالقیوم نامی شخص کو صرف قیوم کہہ کر پکارنا غلط ہے۔

لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ: سِنَۃٌکے معنی اونگھ اور نَوْمٌ کے معنی نیند کے ہیں۔ ان دونوں کی نفی سے نیند کی ابتدا اور انتہا دونوں کی نفی ہوگئی یعنی اﷲ تعالیٰ غفلت کے تمام اثرات سے کمال درجہ پاک ہے۔

لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ: تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں وہ سب اﷲ تعالیٰ کی مملوک ہیں، وہ مختار ہے جس طرح چاہے ان میں تصرف کرے۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ: جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اﷲ تعالیٰ ہی کائنات کا مالک ہے ، کوئی اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں ہے تو کوئی اس سے کسی کام کے بارے میں بازپرس کرنے کابھی حق دار نہیں ہے ، وہ جو حکم جاری فرمائے اس میں کسی کو چون وچرا کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اﷲ تبارک وتعالیٰ سے کسی کی سفارش یا شفاعت کرے، سو اس کو بھی واضح کردیا کہ اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اﷲ تعالیٰ کے نیک ومقبول بندے بھی کسی کے لئے شفاعت نہیں کرسکتے ہیں۔

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محشر میں سب سے پہلے میں ساری امتوں کی شفاعت کروں گا،یہ حضور اکرم ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ اسی کا نام مقام محمود ہے، جس کا ذکر سورۂ الاسراء ۷۹ میں آیا ہے عَسَی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً ۔ نبی اکرم ﷺ کی عام امتیوں کی شفاعت کے علاوہ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کو بھی تین شرطیں پائی جانے پر دوسروں کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی۔


۱) جسکے لئے شفاعت کی جارہی ہے اس سے اﷲ تعالیٰ کی رضامندی ہو، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَہُمْ مِّنْ خَشیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ (سورۂ الانبیاء ۲۸) وہ کسی کی بھی شفاعت نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اﷲ خوش ہو اور وہ اسکی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔


۲) شفاعت کرنے والے سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَن یَّاْذَنَ اللّٰہُ لِمَن یَّشَاءُ وَےَرْضَی


(سورۂ النجم ۲۶) 

۳) اﷲ تعالیٰ شفاعت کرنے والے کو شفاعت کی اجازت دے۔ سورہ النجم کی آیت میں اَن ےَّاْذَنَ اللّٰہُ اور آیت الکرسی میں اِلَّا بِاِذْنِہٖ سے یہ شرط واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح سورۂ یونس آیت ۳ میں ہے : مَا مِنْ شَفِیْع ٍالَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِہٖاس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں۔

یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ: اﷲ تعالیٰ لوگوں کے آگے پیچھے کے تمام حالات وواقعات سے واقف ہے۔ آگے اور پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد کے تمام حالات وواقعات اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ آگے سے مراد وہ حالات ہیں جو انسان کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور پیچھے سے مراد اس سے مخفی واقعات وحالات ہوں تو معنی یہ ہوں گے انسان کا علم تو بعض چیزوں پر ہے اور بعض چیزوں پر نہیں، کچھ چیزیں اس کے سامنے کھلی ہوئی ہیں اور کچھ چھپی ہوئی ، مگر اﷲ تبارک وتعالیٰ کے سامنے یہ سب چیزیں برابر ہیں، اس کا علم ان سب چیزوں کو یکساں محیط ہے ۔

وَلَا یُحِیطُوْنَ بِشَیٍٔ مِّنْ عِلْمَہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآء: انسان اور تمام مخلوقات اﷲ تعالیٰ کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے، مگر اﷲ تعالیٰ ہی خود جس کو جتنا حصہ علم عطا کرنا چاہیں صرف اتنا ہی اس کو علم ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں بتلادیا گیا کہ تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم محیط صرف اﷲ تبارک وتعالیٰ کی خصوصی صفت ہے، انسان یا کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔

وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ: یعنی اس کی کرسی اتنی بڑی ہے کہ جس کی وسعت کے اندرساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نشست وبرخاست اور حیزومکان سے بالا تر ہے، اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے، اس کی کیفیت وحقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ البتہ صحیح احادیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام آسمان اور زمین سے بدرجہا بڑے ہیں۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے بروایت حضرت ابو ذر غفاریؓ نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ڈال دیا جائے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ عرش کے سامنے کرسی کی مثال بھی ایسی ہے کہ جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ۔

کرسی سے مراد حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے علم منقول ہے، بعض حضرات سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک حدیث میں یہ بھی مروی ہے کہ اس کا اندازہ بجز باری تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں۔ ابو مالکؒ فرماتے ہیں کہ کرسی عرش کے نیچے ہے۔ سدیؒ کہتے ہیں کہ آسمان وزمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلادئے جائیں تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ (چھلّہ) کسی چٹیل میدان میں۔ ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں۔ (تفسیر بن کثیر) بعض مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اﷲ کا اقتدار آسمانوں اور زمین کے تمام اطراف واکناف پر حاوی ہے، کوئی گوشہ اور کونہ بھی اس کے دائرہ اقتدار سے الگ نہیں ہے۔

وَلَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا:اﷲ تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات یعنی آسمان وزمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں۔ یَئُودکے معنی ہیں کسی چیز کا ایسا بھاری اور گراں ہونا کہ اس کا سنبھالنا مشکل ہوجائے۔

وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ: گزشتہ نو جملوں میں اﷲ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات کے کمالات بیان کئے گئے، ان کو سمجھنے کے بعد ہر عقل مند شخص یہی کہنے پر مجبور ہے کہ ہر عزت وعظمت اور بلندی وبرتری کا مستحق وہی پاک ذات ہے۔

ان دس جملوں میں اﷲ جل شانہ کی صفات کمال اور اس کی توحید کا مضمون وضاحت اور تفصیل کے ساتھ آگیا۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم سمجھ کر پڑھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو شرک کی تمام شکلوں سے محفوظ فرمائے، آمین، ثم آمین۔