کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تائیدِ غیبی سے حاصل کرنے کے لئے ادا کی جانے والی دو رکعت نماز کو نماز استخارہ کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے؛
وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ
اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔ اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسا رکھو۔
Al-i-Imran [3:165]
استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعا نبی صلى الله عليه وسلم سے احادیث میں منقول ہے ،حضور اکرم صلى الله عليه وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے
اذا ھم
احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص
کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ
دو رکعت نفل پڑھے ۔
استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ
اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت
(بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت
نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے
سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں
بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی
وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی
ہے، یہ بڑی عجیب دعا ہے ،اللہ جل شانہ کے نبی ہی یہ
دعا مانگ سکتے ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ، کوئی گوشہ
زندگی کا اس دعاء میں نبی صلى الله عليه وسلم نے چھوڑا نہیں
، اگر انسان ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا تو بھی ایسی
دعا کبھی نہ کرسکتا جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تلقین
فرمائی ،اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں
کتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے ،اگر عربی میں دعا مانگنے
میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا
مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں
، وہ الفاظ یہ ہیں :
استخارہ کی مسنون دعا
اَللّٰہُمَّ
اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ،
وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ
أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ․
اَللّٰہُمَّ
اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ
دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ
وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ،
ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․
وَ اِنْ
کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ
وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ،
فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ
الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ․(بخاری،ترمذی)
دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے (جس
کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی
حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے،
مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا
البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی
کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے
لیے استخارہ کررہا ہے۔
استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے
کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ
دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے
ہیں ۔
اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں
علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں
بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت
رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں ۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں
ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس
کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین
کے لیے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار
سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے
فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس
کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے
آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا
فرمادیجیے ۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات
ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس
کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین
کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں
برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا
نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے
اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر
مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ
معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے
اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے
، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی
کردیجیے ۔ (اصلاحی
خطبات)
استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
حضرت انس رضى الله تعالى عنه ایک روایت
میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے فرمایا
کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی
سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو،
تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے
میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاء کی جائے اسی
کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔(مظاہر حق)
بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے
سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی
تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی
ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، اس موقع پر
اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی
مدت متعین نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ایک ماہ تک
استخارہ کیا تھا تو ایک ماہ بعد آپ کو شرح صدر ہوگیا تھا اگر
شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔(رحمة اللہ
الواسعة)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع
صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”دعائے استخارہ کا مطلب یہ
ہے کہ اللہ تعالی سے دعائے خیر کرتا رہے ، استخارہ کرنے کے بعد ندامت
نہیں ہوتی اور یہ مشورہ کرنا نہیں ہے، کیونکہ مشورہ
تو دوستوں سے ہوتا ہے ، استخارہ سنت عمل ہے ، اس کی دعا مشہور ہے ،اس کے پڑھ
لینے سے سات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا
ہوجاتا ہے اور یہ خواب میں کچھ نظرآنا ،یا یہ قلبی
رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا کرناہی پڑے
گا ، اور یہ جو دوسروں سے استخارہ کرایا کرتے ہیں ،یہ کچھ
نہیں ہے ، بعض لوگوں نے عملیات مقرر کرلیے ہیں دائیں
طرف یا بائیں طرف گردن پھیرنا یہ سب غلط ہیں ، ہاں
دوسروں سے کرالینا گناہ تو نہیں لیکن اس دعا کے الفاظ ہی
ایسے ہیں کہ خود کرنا چاہیے“۔(مجالس مفتی اعظم )