’’بہترین کلام اللہ کا کلام ( قرآن کریم ) ہے اور بہترین ھدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ھوا دین ہے ۔،،
Monday, June 20, 2016
سحری کھانا باعث برکت
قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : تسحروا فان في السحور بركة (متفق عليه)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ سحری کھاو کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘ ۔ (بخاری و مسلم)
اس برکت کے بارے میں کئی اقوال مراد ہیں :جیسے اجر و ثواب پانا ، سویرے اٹھنا اور دعائیں کرنا ، اس وقت مانگنے والے مسکین کو صدقہ دینا یا کسی کو اپنے ساتھ ملا کر سحری کھلانا ،اس بد شکلی سے اپنے آپ کو بچانا جو شدت کی بھوک سے پیدا ہو جاتی ہے .
[فتح الباري 4/ 179/ تصرف کے ساتھ۔
حافظ ابن حجر نے کہا ابن دقیق العید نے کہا کہ:اس برکت میں یہ جائز ہے کہ یہ برکت اخروی امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ دنیوی امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہو
[فتح الباري 4/ 179]
چناچہ جب انسان سحری کھائے گا تو وہ دن بھر چست رہے گااور اسے بھوک یا پیاس پریشان نہیں کرے گی اور اسے اللہ کی عبادت میں دل لگے گا ، اس کے بجائے اگر وہ سحری نہ کھائے اور دن بھر بھوک یا پیاس اسے پریشان کرتی رہے تو وہ روزہ کے وقت کے ختم ہو جانے کی تمنا کرے گا اور وہ اسی فکر میں لگا رہے گا کہ افطاری کا وقت کب آئے گا تاکہ میں اپنی پیاس بجھا سکوں اور اس طرح سے انسان اس عظیم عبادت کے ساتھ نفرت کرنے لگے لگا۔
اوریہ کہ سحری کھانا مسلمانوں اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق ہے : جیسا کہ عمرو بن العاص رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( فَصْلُ مَا بَیْنَ صِیَامِنَا وَ بَیْنَ صِیَامِ أَھْلِ الْکِتَابِ أَکْلَۃُ السَّحْرِ ))
[صحیح مسلم/حدیث نمبر :1096 ]
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں جو چیز فرق کرتی ہے وہ سحری کھانا ہے ‘‘
انس بن مالک رضي اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضي اللہ عنہ سے روایت کی اس نے کہا
(( تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلاۃِ قُلْتُ کَمْ کَانَ بَیْنَ الْأَذَانِ وَ السَّحُوْرِ ؟ قَالَ قَدْرُ خَمْسِیْنَ آیَۃً ))
[صحیح البخاري/حدیث نمبر : 1921]
’’ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی تو پھر وہ نماز کے لئے اٹھے (تیار ہوئے ) میں (انس) نے (زید سے) پوچھا کہ اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا ؟ کہا (اتنا جس میں انسان)پچاس آیات(تلاوت کرسکے اس )کے برابر ‘‘۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل آخری وقت میں سحری تناول فرماتے تھے اور ان کے صحابہ بھی ایسا ہی کرتے تھے، جیسا کہ سہل بن سعد رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہا
(( کُنْتُ أَتَسَحَّرُ فِيْ أَھْلِيْ ثُمَّ تَکُوْنُ سُرْعَتِيْ أَنْ أُدْرِکَ السُّجُوْدَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ))
[صحیح البخاري/حدیث نمبر : 1920]
میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سحری کھاتا تھا پھر میں اس لئے جلدی کرتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت) نماز ادا کر سکوں ‘‘ اس حدیث پر امام بخاری نے ((بَابُ تَأْخِیْرِ السَّحُوْرِ)) ’’ باب سحری کی تأخیر ‘‘ کے الفاظ میں باب باندھا ہے ، یعنی سحری میں تأخیر کرنی چاہئے،اور تب تک سحری بند نہیں کی جانی چاہئے جب تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے صاف واضح نہ ہو جائے
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
( وَکُلُوْا وَ اشْرَبُواحَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ)
[البقرۃ: 187]
’’ اور تب تک کھاؤ اور پیو جب تک کہ تمہیں صبح کاسفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے صاف ظاہر نہ ہو جائے ‘‘
تأخیر سے سحری تناول کرنا افضل ہے.
لہذا مسلمان کو اگر موقعہ ملے تو وہ بطور سحری کچھ نہ کچھ کھالے یا پی لے خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو ۔
Monday, June 13, 2016
روزہ اور صلوۃ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ
الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ
002:183
[جالندھری] مومنو! تم
پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم
پرہیزگار بنو۔
تفسیر ابن كثیر
روزہ اور صلوۃ
اللہ تعالٰی اس امت کے ایمان داروں کو
مخاطب کر کے انہیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو روزے کے معنی اللہ تعالٰی کے فرمان
کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینےسے رک جانے کے ہیں اس سے
فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتا ہے ردی اخلاط اور بےہودہ
اخلاق سے انسان کا تنقیہ ہو جاتا ہے، اس حکم کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ اس حکم کے
ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم تھا، اس بیان سے یہ
بھی مقصد ہے کہ یہ امت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے
جیسے اور جگہ ہےآیت ( لکل جعلنا منکم شرعتہ ومنھاجا) الخ یعنی ہر ایک کے لئے ایک
طریقہ اور راستہ اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کر دیتا لیکن وہ
تمہیں آزما رہا ہے تمہیں چاہئے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو، یہی یہاں بھی فرمایا
کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرنے والوں پر تھے، روزے سے
بدن کو پاکیزگی ملتی ہے اور عمل شیطانی راہ پر چلنے سے رک جاتا ہے، بخاری ومسلم میں
ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے جوانو تم میں سے جسے نکاح کی طاقت
ہو وہ نکاح کرلے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے اس کے لئے یہ جوش کو سرد کر دیتے
ہیں پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ
پڑے اور ادائیگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس الٰہی فریضہ کو بجا لائے ،
پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا
حکم منسوخ ہوا اس کا مفصل بیان آ رہا ہے ان شاءاللہ تعالیٰ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ عطاء قتادہ ضحاک کا فرمان
ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔
ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھے، حضرت
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی
نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو
جاتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔
پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو
وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ
عذر ہٹ جائیں قضا کر لیں، ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ
ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو
کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے
زیادہ بہتر تھا ، ابن مسعود ابن عباس مجاہد طاؤس مقاتل وغیرہ یہی فرماتے ہیں مسند
احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز کی اور روزے کی تین
حالتیں بدلی گئیں پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آکر حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر "قدنری" والی آیت آئی اور مکہ شریف کی
طرف آپ نے منہ پھیرا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ نماز کے لئے ایک دوسرے کو پکارتا تھا
اور جمع ہو جاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آگئے پھر ایک انصاری حضرت عبداللہ بن زید
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ
ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے آیت
اللہ اکبر اللہ اکبرا شھدان لا الہ الا اللہ دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی
دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں آیت قدقامت الصلوۃ بھی دو مرتبہ کہا۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے
چنانچہ سب سے پہلے حضرت بلال نے اذان کہی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے بھی آ
کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا۔ لیکن ان سے پہلے حضرت زید آچکے تھے ۔ تیسری تبدیلی
یہ ہوئی کہ پہلے یہ دستور تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے ہیں کوئی
آیا کچھ رکعتیں ہو چکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ
جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور کے ساتھ مل
جاتا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کو جس حال میں
پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور کے سلام پھیرنے کے
بعد ادا کروں گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام
پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ نے تمہارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم
بھی اب یونہی کیا کرو، یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں، روزوں کی تبدیلیاں سنئے
اول جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے
اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالٰی نے آیت (کتب علیکم الصیام) الخ
نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے۔ دوسرا ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ
رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے پھر یہ آیت (فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) تم
میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے پس جو شخص
مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا ہاں
بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ
رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں
کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا
پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کر
کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی دوسرے دن کچھ کھائے
پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہوگئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ
یہ کیا بات؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کر لی اور حضور
کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پر آیت (احل لکم
لیلتہ الصیام الرفث الی نسائکم) سے (ثم اتموا الصیام الی الیل) تک نازل ہوئی اور
مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور
مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی، بخاری مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی
عنہا سے مروی ہے کہ پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو
اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا، حضرت ابن مسعود رضی اللہ
عنہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ آیت (وعلی الذین یطیقونہ) کا مطلب حضرت معاذ بیان فرماتے
ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے
ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا۔ حضرت سلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت
آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا
یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی، حضرت ابن عمر بھی اسے منسوخ
کہتے ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا
عورت ہے جسے روزے کی طاقت نہ ہو، ابن ابی لیلیٰ، کہتے ہیں عطار رحمۃ اللہ علیہ کے
پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ حضرت
ابن عباس کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کر دیا، اب یہ حکم صرف بہت
زیادہ بےطاقت بوڑھے بڑے کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست
ہو اس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہو گا ہاں ایسے بوڑھے، بڑے معمر
اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضا ضروری
ہے لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ہمیں اختلاف
ہے امام شافعی کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہذا یہ بھی
مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضا کیونکہ اللہ تعالٰی کسی کو اس کی
طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، دوسرا قول حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ہے
کہ کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہ وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا
پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی
طاقت نہ ہو تو فدیہ دے دے جیسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بڑی عمر میں
بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین
کو روٹی گوشت کھلا دیا کرے، مسند ابولیلیٰ میں ہے کہ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ روزہ
رکھنے سے عاجز ہو گئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا
کرتے، اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا
یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ
نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضا بھی کر لیں بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے
قضا نہ کریں، بعض کہتے ہیں قضا کرلیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں
نہ فدیہ نہ قضا کریں امام ابن کثیر نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے
ساتھ لکھاہے فلحمد للہ (بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں
ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضا کریں۔ نہ فدیہ دیں۔)
Subscribe to:
Posts (Atom)