Pages

Monday, June 20, 2016

سحری کھانا باعث برکت


قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : تسحروا فان في السحور بركة (متفق عليه)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ سحری کھاو کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘ ۔ (بخاری و مسلم)
اس برکت کے بارے میں کئی اقوال مراد ہیں :جیسے اجر و ثواب پانا ، سویرے اٹھنا اور دعائیں کرنا ، اس وقت مانگنے والے مسکین کو صدقہ دینا یا کسی کو اپنے ساتھ ملا کر سحری کھلانا ،اس بد شکلی سے اپنے آپ کو بچانا جو شدت کی بھوک سے پیدا ہو جاتی ہے .
[فتح الباري 4/ 179/ تصرف کے ساتھ۔
حافظ ابن حجر نے کہا ابن دقیق العید نے کہا کہ:اس برکت میں یہ جائز ہے کہ یہ برکت اخروی امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ دنیوی امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہو
[فتح الباري 4/ 179]
چناچہ جب انسان سحری کھائے گا تو وہ دن بھر چست رہے گااور اسے بھوک یا پیاس پریشان نہیں کرے گی اور اسے اللہ کی عبادت میں دل لگے گا ، اس کے بجائے اگر وہ سحری نہ کھائے اور دن بھر بھوک یا پیاس اسے پریشان کرتی رہے تو وہ روزہ کے وقت کے ختم ہو جانے کی تمنا کرے گا اور وہ اسی فکر میں لگا رہے گا کہ افطاری کا وقت کب آئے گا تاکہ میں اپنی پیاس بجھا سکوں اور اس طرح سے انسان اس عظیم عبادت کے ساتھ نفرت کرنے لگے لگا۔
اوریہ کہ سحری کھانا مسلمانوں اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق ہے : جیسا کہ عمرو بن العاص رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( فَصْلُ مَا بَیْنَ صِیَامِنَا وَ بَیْنَ صِیَامِ أَھْلِ الْکِتَابِ أَکْلَۃُ السَّحْرِ ))
[صحیح مسلم/حدیث نمبر :1096 ]
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں جو چیز فرق کرتی ہے وہ سحری کھانا ہے ‘‘
انس بن مالک رضي اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضي اللہ عنہ سے روایت کی اس نے کہا
(( تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلاۃِ قُلْتُ کَمْ کَانَ بَیْنَ الْأَذَانِ وَ السَّحُوْرِ ؟ قَالَ قَدْرُ خَمْسِیْنَ آیَۃً ))
[صحیح البخاري/حدیث نمبر : 1921]
’’ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی تو پھر وہ نماز کے لئے اٹھے (تیار ہوئے ) میں (انس) نے (زید سے) پوچھا کہ اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا ؟ کہا (اتنا جس میں انسان)پچاس آیات(تلاوت کرسکے اس )کے برابر ‘‘۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل آخری وقت میں سحری تناول فرماتے تھے اور ان کے صحابہ بھی ایسا ہی کرتے تھے، جیسا کہ سہل بن سعد رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہا
(( کُنْتُ أَتَسَحَّرُ فِيْ أَھْلِيْ ثُمَّ تَکُوْنُ سُرْعَتِيْ أَنْ أُدْرِکَ السُّجُوْدَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)) 
[صحیح البخاري/حدیث نمبر : 1920]
میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سحری کھاتا تھا پھر میں اس لئے جلدی کرتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت) نماز ادا کر سکوں ‘‘ اس حدیث پر امام بخاری نے ((بَابُ تَأْخِیْرِ السَّحُوْرِ)) ’’ باب سحری کی تأخیر ‘‘ کے الفاظ میں باب باندھا ہے ، یعنی سحری میں تأخیر کرنی چاہئے،اور تب تک سحری بند نہیں کی جانی چاہئے جب تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے صاف واضح نہ ہو جائے
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
( وَکُلُوْا وَ اشْرَبُواحَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ)
[البقرۃ: 187]
’’ اور تب تک کھاؤ اور پیو جب تک کہ تمہیں صبح کاسفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے صاف ظاہر نہ ہو جائے ‘‘
تأخیر سے سحری تناول کرنا افضل ہے.
لہذا مسلمان کو اگر موقعہ ملے تو وہ بطور سحری کچھ نہ کچھ کھالے یا پی لے خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو ۔