’’بہترین کلام اللہ کا کلام ( قرآن کریم ) ہے اور بہترین ھدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ھوا دین ہے ۔،،
Monday, July 17, 2017
ماہ شوال کي خصوصيات اور فضائل
آپ سب کو معلوم ہے کہ سال کے بارہ مہينے ہيں اور ہر مہينہ کي کچھ نہ کچھ خصوصيات ہيں ، جن کي بنا پر اللہ تعالي نے انہيں دوسرے مہينے سے ممتاز کيا ہے ، يہ مہينہ شوال کا ہے ، شوال ہجر ي سال کا دسواں مہينہ ہے ، اس ماہ کي بہت سي خصوصيات اور فضائل ہيں،
ان ميں سے ايک اہم خصوصيت يہ ہے کہ اس کي پہلي تاريخ يعني يکم شوال کو مسلمانوں کي دو شرعي عيدوں ميں پہلي عيد يعني عيد الفطر کا دن ہونے کا شرف حاصل ہے ، يہي وہ دن ہے جس ميں مسلمان مرد ، عورتيں اور بچے غسل کر کے اچھے کپڑے پہن کر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر اللہ کبر وللہ الحمد کي صدائے دلنواز بلند کرتے اور اللہ جل شانہ کي کبريائي کے گيت گاتے ہوئے عيد گاہ جاتے ہيں ، وہاں دو رکعت عيد کي نماز ادا کرتے اور امام سے خطبہ سنتے ہيں ، پھر ايک دوسرے کو عيد کي مبارک بادياں ديتے اور ”تقبل اللہ منا ومنکم“کہتے دعوتيں کھاتے اورکھلاتے اور ہر طرح سے خوشياں مناتے ہيں۔
يہ دن در حقيقت روزہ دار کے انعام و بخشش کا دن ہے ، رمضان المبارک کا مہينہ در حقيقت ٹرينگ ، تربيت اور امتحان کا مہينہ تھا ، اور عيد کا دن اسي امتحان ميں کاميابي پر انعام لينے اور خوشي و جشن منانے کا دن ہے ، اور آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ طلبہ کو تعليم ، ٹريننگ اور امتحان کے ايام ميں زيادہ خوشي تقسيم انعام اور جشن کا دن ہوتا ہے ، اور يہ دن انہيں بڑا ہي محبوب اور پيارا ہوتا ہے ، امتحان اور تعليم و تربيت کے ايام ميں انہيں کوئي خوشي نہيں ہوتي ، کيونکہ ان ايام ميں انہيں زيادہ سے زيادہ محنت کرني ہوتي ہے ، اور نہيں يہ فکر ہوتي ہے زيادہ سے زيادہ محنت اور جد جہد کر کے اپنے اعلي مقصد کو حاصل کر ليں ، اور منزل مقصود تک پہونچ جائيں ، ليکن کاميابي کے بعد انعام و جشن کے دن تو وہ مارے خوشي کے پھولے نہيں سماتے ، حالانکہ اگر آپ ذرا گہرائي ميں جائيں اور ٹھنڈے دل سے غور کريں تو اس نتيجہ پر پہونچيں گے کہ افاديت اور معنويت کے اعتبار سے تعليم و تربيت اور ٹريننگ و مشق کے ايام کي ہميت انعام و جشن والے دن کي بہ نسبت زيادہ ہے ، اس واسطے کہ خوشي اور جشن تو ايک دن کے لئے ہے ، اگر تربيت و تعليم کے ايام ميں خوب محنت کي ہے اور واقعي اس کي تربيت اور ٹريننگ صحيح طريقے پر ہوئي ہے تو اس کے اثرات دير پا ہوں گے ، اور ان کے ثمرات سے وہ ہميشہ ہوتا رہے گا۔
ہم نے عيد کي خوشياں مناليں اور رمضان کے روزے مکمل کر کے ہم نے يہ سمجھا کہ امتحان بھي کامياب ہوگئے
مگر آئيے !!
ذرا غور کريں۔۔ کہ ايک ماہ کي ٹريننگ کا جو کورس تھا جس ميں ہميں روزوں کا مکلف کيا گيا تھا اور ايمان و اخلاص کے ساتھ روزے کي نيت سے کھانے پینے کو کرنے کو ترک کردينے اور جھوٹ ، غيبت ،گالي گلوج ، جنگ وجدال وغيرہ برائيوں سے اجتناب کرنے کي تاکيد تھي جس ميں نماز تروايح ، تلاوت کلام پاک ، آخري عشرہ ميں شب قدر کي تلاش و شب بيداري ، اعتکاف ، صدقہ و خيرات وغيرہ عبادتوں کے ذريعہ ہمارے اندر تقوي و پرہيز گاري پيدا کرنے ، نيک و صالح بنانے ، اور ہم ميں سال بھر کے لئے ان عبادتوں کا ذوق و شوق پيدا کرنے اور ان کي اہميت کو ہمارے دلوں ميں جاگريں کرنے کي کوشش کي گئي ، اور بتايا گيا کہ روزوں کي فرضيت کا اصل مقصد يہي تقوي شعاري ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
(البقرہ: 183)
اے لوگوں جو ايمان لائے ہوتمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہيں جيسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم متقي اور پرہيزگار بن جاؤ ،
اور آپ جانتے ہيں کہ کسي بھي کورس ميں اصل کاميابي يہ ہے کہ اس کا جو مقصد ہے اس کي جو غايت ہو وہ حاصل ہوجائے ، صرف کورس مکمل کرنا اور پھر اس کي تکميل پر جشن منا لينا اصل کاميابي نہيں ہے ، اس ناحيے سے آئيے غور کريں کہ ہم نے رمضان کے روزے رکھ کر کورس پورا کر ليا ، اس کے بعد جشن اور عيد بھي منا لي
مگر ۔۔۔۔ !!!
کيا جو روزوں اوررمضان المبارک کي ديگر عبادتوں کا مقصد تھا وہ ہميں حاصل ہوگيا ، ؟
کيا جيسے ہماري مسجديں رمضان المبارک ميں پانچوں وقت نمازيوں سے بھري رہتي تھيں اسي طرح ابھي بھري رہتي ہيں ، ؟
کيا جيسے رمضان ميں ہم اور ہمارے اہل خانہ نے قرآن کي تلاوت کرتے تھے اسي طرح اب بھي قرآن کي تلاوت ہو رہي ہے ؟
کيا آج بھي تہجد اور نفلي نمازوں کا اہتمام جيسے پہلے تھا اسي طرح ہے ؟
کيا صدقہ وہ خيرات کا جو جذبہ ہمارے دلوں ميں رمضان ميں موجزن تھا وہ اب بھي ہے ، ؟
♡اگر ايسا ہے تو يقينا يہ ہماي بڑي خوش نصيبي کي بات ہے ،♡
کيونکہ ہم نے روزوں کا مقصد اصلي کو پاليا ہے اور ماہ رمضان کي عبادتوں کے حقيقي ثمرات سے بہرا مند ہو رہے
اور اگر ۔۔ !!
رمضان المبارک کو الوداع کہنے کے ساتھ ہم نے نماز ، روزہ ، صدقہ و خيرات ، تلاوت قرآن اور سب بيداري وغيرہ کو بھي الودع کہہ ديا تو اس کا مطلب يہ ہوا کہ اس عظيم الشان ماہ کي برکات و فيوض سے ہم محروم رہ گئے ، اور رمضان کے روزوں و ديگر عبادتوں کا اصل مقصد اس سے ابھي ہم دور ہيں ، اور بھوک و پياس ، تھکاوٹ ، اور شب بيداري کي زحمت کے سوا ہميں کچھ نہيں ملا۔
♡ روزے صرف رمضان کے ساتھ خاص نہيں،بلکہ دوسرے مہينوں ميں بھي روزے ہيں ، رسول اللہ پير اور جمعرات کے روزے رکھتے تھے ، اور فرماتے تھے ان دونوں دنوں ميں بندوں کے اعمال کي پيشي ہوتي ہے ، اور ميں چاہتا ہوں کہ جب ميرے اعمال پيش کئے جائيں تو ميں روزہ کي حالت ميں رہوں ، ہر ماہ تين دن کا روزوں کي بڑي فضيلت ہے ، عاشوراء کے روزے ہيں يوم عرفہ کا روزہ ہے ، شعبان کے روزے ہيں ، رمضان کے روزوں کي فرضيت ميں يہ پيغام اور اشارہ ہے کہ يہ ٹريننگ اس واسطے دي جارہي ہے تاکہ سال بھر ہم غفلت ميں نہ گزارديں ، بلکہ روزے کي روحانيت اور فيوض و برکات کو ہميشہ ياد رکھيں ، اور ہر مہينہ سے کچھ دن روزہ رکھ کر ايمان و تقوي اور اجر وثواب ميں اضافہ کريں ۔
♡ اسي طرح قيام الليل جسے رمضان ميں ترويح اور دوسرے ايام ميں تہجد کہتے ہيں رمضان کے ساتھ خاص نہيں ہے ، بلکہ تہجد اور قيام سال بھر کے لئے ہے ، اسي طرح دعائيں ، ذکر واذکار اور توبہ و استغفار کے لئے بھي پورا سال ہے ، قرآن کا نزول اگر چہ رمضان ميں ہوا مگر اس کي تلاوت کا اجر و ثواب ہر ماہ ميں برابر ہے ، اس کے مطالعہ اور درس و تدريس کي اہميت رمضان اور غير رمضان سب ميں ہے ، قرآن اللہ کي نازل کردہ مقدس کتاب بھي ہے ، اور پوري انسانيت کے لئے قيامت تک کے لئے دستور حيات اور قانون الہي بھي ہے ، اس واسطے رمضان کے بعد اسے غلاف ميں لپيٹ کر رکھ دينا قطعا درست نہيں ، اسے سال بھر پڑھنا چاہئے ، اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہئے ، صدقہ وخيرات کا حکم اور فضيلت اور اہميت سال بھر کے لئے ہے ، اس واسطے جيسے رمضان ميں پوري کوشش ہوتي تھي کہ کوئي غريب و مسکين ہمارے پاس سے خالي ہاتھ نہ جائے اسي طرح ہميں سال بھڑ صدقہ و خيرات کرنا چاہئے ۔
ماہ شوال کي ايک دوسري خصوصيت
يہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد اگر کوئي اس ماہ ميں چھ روزے رکھ لے تواسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا ،
حضرت ابو ايوب انصاري سے روايت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا: ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْر ِ“
(صحيح مسلم:3/ 169،كتاب الصيام باب استحباب صوم ستة أيام من شوال اتباعا لرمضان)
جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اس نے گويا ہميشہ روزے رکھے،يعني اس کو پورے سال روزے رکھنے کا ثواب مل جائے گا ،
اس سے معلوم ہوا کہ شوال کے چھ روزے مسنون ہيں ، اور ان کي بڑي فضيلت ہے ۔
شوال کے ان روزوں کو عيد کے بعد ايک ساتھ بھي رکھ سکتے ہيں اور متفرق طريقے پر بھي ، اور عيد کے دن کو چھوڑ کر شروع سے لے کر آخري شوال تک کسي بھي وقت روزہ رکھ سکتے ہيں ، کيونکہ ان احاديث ميں اس طرح کي کوئي قيد نہيں ہے کہ انہيں مسلسل رکھے جائيں يا عيد کے فوارا ان کا اہتمام کيا جائے ،بلکہ
” ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّال " ہے يعني پھر شوال کے چھ روزے رکھے اور يہ ان تمام صورتوں کو عام ہے ، البتہ عيد کا دن مسلمانوں کے تہوار اور خوشي و مسرت کا دن ہے ان کے خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے کا دن ہے اس لئے اس دن روزہ رکھنا حرام ہے ،
حضرت ابو سعيد خدري رضی اللہ عنہ سے روايت ہے:
” نَهَى النَّبِيُّ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَالنَّحْر “
(صحيح البخاري:3/55،كتاب الصوم باب صوم يوم الفطر،صحيح مسلم:3/152،کتاب الصيام باب النهى عن صوم يوم الفطر ويوم الأضحى)
رسول اللہ ﷺنے عيد الفطراور عيدقربان کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمايا
ايک روايت ميں ہے
” وَلاَ صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى “
(صحيح البخاري:3/56،كتاب الصوم باب الصوم يوم النحر ،صحيح مسلم:3/152، کتاب صلاة المسافرىن وقصرها باب الأوقات التى نهى عن الصلاة فىها)
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے فرمايا: دو دن ميں روزہ نہيں ہے ، عيد الفطر کے دن اور عيد الاضحي کے دن ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)