Pages

Saturday, March 5, 2011

اخلاص اور اطاعت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَلِلّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير
وَاللّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون
أَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاء مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلاَّ اللّهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُون
( النحل:16 - آيات:77-78-79 )
آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اللہ تعالٰی ہی کو معلوم ہے اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب۔ بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔ (77)
اللہ تعالٰی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو ۔ (78)
کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو تابع فرمان ہو کر فضا میں ہیں، جنہیں بجز اللہ تعالٰی کے کوئی اور تھامے ہوئے نہیں، بیشک اس میں ایمان لانے والے لوگوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (79)

اللہ تعالٰی اپنے کمال علم اور کمال قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ زمین و آسمان کا غیب وہی جانتا ہے ، کوئی نہیں جو غیب داں ہو۔ اللہ جسے چاہے ، جس چیز پر چاہے ، اطلاع دے دے ۔ ہرچیز اس کی قدرت میں ہے نہ کوئی اس کا خلاف کر سکے ، نہ کوئی اسے روک سکے۔ جس کام کا جب ارادہ کرے ، قادر ہے پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ آنکھ بند کر کے کھو لنے میں تو تمہیں کچھ دیر لگتی ہوگی لیکن حکم الٰہی کے پورا ہو نے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی ۔
قیامت کا آنا بھی اس پر ایسا ہی آ سان ہے ، وہ بھی حکم ہو تے ہی آ جائے گی ۔ ایک کا پیدا کرنا اور سب کا پیدا کرنا اس پر یکساں ہے ۔
اللہ کا احسان دیکھو کہ اس نے لوگوں کو ماؤں کے پیٹوں سے نکالا۔ یہ محض نا دان تھے پھر انہیں کان دئیے جس سے وہ سنیں ، آنکھیں دیں جس سے دیکھیں ، دل دئیے جس سے سوچیں اور سمجھیں ۔
عقل کی جگہ دل ہے اور دماغ بھی کہا گیا ہے۔ عقل سے ہی نفع نقصان معلوم ہوتا ہے۔ یہ قویٰ اور حواس انسان کو بتدریج تھوڑے تھوڑے ہو کر ملتے ہیں ، عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھوتری بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کمال کو پہنچ جائیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسان اپنی ان طا قتوں کو اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگائے رہے ۔

صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے کہ :
جو میرے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے لڑائی کا اعلان کرتا ہے ۔ میرے فرائض کی بجا آوری سے جس قدر بندہ میری قر بت حاصل کر سکتا ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں کر سکتا ۔ نوافل بکثرت پڑھتے پڑھتے بندہ میرے نزدیک اور میرا محبوب ہو جاتا ہے ۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ تھامتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔ وہ اگر مجھ سے مانگے میں دیتا ہوں ، اگر دعا کرے میں قبول کرتا ہوں ، اگر پناہ چاہے ، میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی روح کے قبض کرنے میں موت کو نا پسند کرتا ہے ۔ میں اسے نا راض کرنا نہیں چاہتا۔
(بخاری ، کتاب الرقاق ، باب التواضع ، ح:6502)
اور موت ایسی چیز ہی نہیں جس سے کسی ذی روح کو نجات مل سکے ۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لئے ، دیکھتا ہے اللہ کے لئے ، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے۔ شرع نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے، انہی کو دیکھتا ہے۔ اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھانا ، پاؤں چلا نا بھی اللہ کی رضامندی کے کاموں کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اللہ پر اس کا بھروسہ رہتا ہے۔ اسی سے مدد چاہتا ہے ، اس کے تمام کام اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے ہی ہو تے ہیں ۔ اس لئے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ پھر وہ میرے ہی لئے سنتا ہے اور میرے ہی لئے دیکھتا ہے اور میرے لئے پکڑتا ہے اور میرے لئے ہی چلتا پھرتا ہے ۔
آیت میں بیان ہے کہ ماں کے پیٹ سے وہ نکالتا ہے ، کان ، آنکھ ، دل ، دماغ وہ دیتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔

اور آیت میں فرمان ہے :
قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ الخ (المُلك:23)
یعنی اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کر تے ہو ، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تمہارا حشر کیا جانے والا ہے۔

آیت : 79
پھر اللہ پاک رب العالمین اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ان پرندوں کی طرف دیکھو جو آسمان و زمین کے درمیان کی فضا میں پرواز کر تے پھرتے ہیں ، انہیں پروردگار ہی اپنی قدرت کاملہ سے تھا مے ہوئے ہے۔ یہ قوت پر وازاسی نے انہیں دے رکھی ہے اور ہواؤں کو ان کا مطیع بنا رکھا ہے ۔
سورہ ملک میں بھی یہی فرمان ہے کہ کیا وہ اپنے سروں پر اڑتے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھتے؟ جو پر کھولے ہوئے ہیں اور پر سمیٹے ہوئے بھی ہیں انہیں بجز اللہ رحمان و رحیم کے کون تھامتا ہے ؟
وہ اللہ تمام مخلوق کو بخوبی دیکھ رہا ہے ، یہاں بھی خاتمے پر فرمایا کہ اس میں ایمانداروں کے لئے بہت سے نشان ہیں ۔


بحوالہ :
تفسیر ابن کثیر
مترجم : محمد جوناگڑھی