Pages

Friday, February 25, 2011

ہار جیت کا اصل دن

انسان کو اس دنیا میں عقل اور ارادہ و اختیار کی قوت اس لیے دی گئی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی

جائے۔ ارشادِ بار تعالیٰ ہے

’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘

( الملک ٢:٦٧ )

اُس کے سامنے زندگی گزارنے کے دو راستے ہیں۔

ایک اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری

اور دوسرا نافرمانی کا راستہ ہے۔

اس امتحان میں صراطِ مستقیم کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔

جن میں سے تین اہم ہیں

۱۔
ہر انسان کو عقل و شعور سے نواز اور قرآن حکیم کا یہ دعویٰ ہے کہ ہر انسان کے شعور میں یہ حقیقت اچھی

طرح بٹھا دی گئی ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں بلکہ اس کا پیدا کرنے والا، پالنے والا اور اس کا انتظام چلانے والا موجود ہے۔ اسی لیے

انسان ہمیشہ توحید کے سوال سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ بڑے سے بڑا ملحد بھی کسی نہ کسی موقع پر اپنے دل میں پروردگار کے وجود کی

گواہی ضرور دیتا ہے۔ اسی طرح بڑے سے بڑا مشرک بھی بسا اوقات یہ سمجھ لیتا ہے کہ مسبب الاسباب صرف ایک ہی ذات ہے باقی کسی کی

کوئی حیثیت نہیں۔ پھر اس کے ساتھ اُس کے اردگرد بے شمار ایسی نشانیاں پھیلا دی گئی ہیں جن پر معمولی سا غور و فکر کر کے بھی وہ اس

نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ خود بخود وجود میں نہیں آسکتا۔

۲۔

دوسری حیرت انگیز چیز ہر انسان کے قلب میں موجود ہے۔ جب بھی انسان غلط کام کرتا ہے تو اس کے قلب کے

اندر سے آواز اسی ٹوکتی ہے کہ تم نے یہ اچھا نہیں کیا اور انسان کو ندامت محسوس ہوتی ہے۔ اسے ہم ’ضمیر‘ کہتے ہیں اور قرآن

اسے ’نفسِ لوامہ‘

کہتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اس لیے انسان کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اچھے اور برے میں فرق محسوس کر سکے۔

۳۔
انبیا اور ان کے ذریعے کتب بھیجیں۔ ان میں سے آخری کتاب قرآن حکیم زندہ معجزہ اپنی اصل شکل میں قیامت تک

راہنمائی کے لیے موجود ہے۔

اس دنیا میں صحت بیماری، خوشحالی، غربت تمام چیزیں صرف اور صرف امتحان کے لیے ہیں۔ ہر انسان کو مختلف حالات میں ڈال کر اسے

آزمایا جا رہا ہے۔ لیکن ایک دن آئے گا جب اس امتحان کا وقت ختم ہو جائے گا۔ اس دن زمین اور اس پوری کائنات کے قوانین بدل دیے جائیں

گے۔ وہی دن قیامت کا دن ہو گا۔ اس کے بعد ہر انسان سے حساب کتاب ہو گا۔ اگر وہ دنیا میں شکر گزار بندہ بن کر رہا ہو گا تو اسے جنت کی

صورت میں ابدی انعامات ملیں گے اور اگر اس نے بغاوت کی زندگی بسر کی ہو گی تو اسے سزا دی جائے گی اور جہنم کی شکل میں برا انجام

اس کا منتظر ہو گا۔

موجودہ دنیا کی چیزوں کو جو لوگ ذاتی چیزیں سمجھ کر اس میں بے روک ٹوک تصرف کر رہے ہیں ان کا حال آخرت میں وہی ہو گا جو

کسی بنک کے اُس اکائونٹنٹ کا ہوتا ہے جو بنک کی الماری میں بھرے ہوئے نوٹوں کو اپنی ذاتی چیز سمجھ لے۔

قیامت کے عقلی دلائل


اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جوڑوں کی شکل میں بنائی ہے لیکن یہ ایک ہی حقیقت کے دو اجزا ہوتے ہیں اور

دونوں مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر ایک حصہ میں کوئی کمی یا خلا ہوتا ہے تو دوسرے حصے سے پُر ہو جاتا ہے۔ مثلاً مرد

و عورت، پیاس پانی وغیرہ۔ اگر پیاس نہ ہوتی تو پانی کا وجود بے معنی تھا لیکن اگر پیاس موجود ہے تو اسے محسوس کرنے والا ہر عاقل

پکار اٹھے گا کہ پانی کا وجود بھی ہونا چاہیے۔ یہی معاملہ زندگی کے ان دو اجزا دنیا اور آخرت کا ہے۔ یہ دنیا پکار پکار کر ہمیں متوجہ کر

رہی ہے کہ یہ نامکمل ہے۔ اس دنیا میں انسان کی زندگی پر غور کریں۔ انسان مرنا نہیں چاہتا، ابدی زندگی اس کا سب سے بڑا خواب ہے۔ مگر

موت اس دنیا کی سب سے بڑی اٹل حقیقت ہے۔ گویا پیاس تو موجود ہے مگر پانی نہیں۔


اس دنیا میں انسان سب سے بڑھ کر ظلم سے نفرت کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ظالم کو اس کے کیے کی پوری

سزا ملے۔ یہاں دولت و قوت کے نشے میں فرعون اور ہٹلر جیسے حکمران ہزاروں لاکھوں انسانوں پر ہی ظلم کا باعث نہیں بنتے بلکہ ان کے

اثرات ان کی نسلوں تک جا پہنچتے ہیں۔ مگر یہ بھی اس دنیا کا عجیب سلسلہ ہے کہ اوّل تو بڑے مجرم گرفت میں آتے ہی نہیں اور اگر آ بھی

جائیں تو ان کو جرم کی مناسبت سے سزا ہی نہیں دی جا سکتی۔ گویا اس دنیا کی زندگی کا ہر معاملہ پکار پکار کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ

تمام اور ناقص ہے اس کا ایک ایسا جوڑا ہونا چاہیے جہاں ابدی زندگی ہو۔ جہاں ظلم کا پورا پورا بدلہ دیا جا سکے۔ چنانچہ قرآن کریم ہمیں

بتاتا ہے کہ جس طرح ہر چیز جوڑا جوڑا ہے اسی طرح اس دنیا کا جوڑ آخرت ہے گویا زندگی کے دو رُخ ہیں ایک عارضی اور ایک ابدی۔

عارضی زندگی کی ساری تنمائیں ابدی زندگی میں جا کر پوری ہو جاتی ہیں۔


قیامت کا آنا خدا کی صفت رحمت کا لازمی تقاضہ ہے اگر قیامت نہ آئے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کائنات کا خالق

رحمٰن و رحیم نہیں

ہے۔ اِس کے نزدیک نعوذ باللہ عدل و ظلم، نیکی بدی، خیرو شر دونوں یکساں ہیں بلکہ مجرم نسبتاً اچھے ہیں جن کو من مانیاں کرنے کے

لیے اس نے بالکل آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ یہ باتیں چونکہ بالکل غلط ہیں۔ رحمٰن و رحیم خدا کی شان کے بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بے مقصد

کام کرے اس لیے لازم ہے وہ ایک ایسا دن لائے جس میں اپنے نیک بندوں کو وہ لازوال رحمتوں سے نوازے اور بدکار اپنے برے انجام کو

پہنچیں۔


جس نے انسان کے لیے زندگی اور پرورش کا یہ بہترین نظام قائم قائم کیا ہے کیا محض اس لیے کہ وہ کھائے پئے اور ایک

دن ختم ہو جائے؟ کیا ان صلاحیتوں سے متعلق اس پر کوئی ذمہ داری نہیں عائد ہوتی؟ کیا جس نے اس قدر اہتمام سے اس کو وجود بخشا، اس

کا کوئی حق اس پر قائم نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ ایک دن اس حق کے بارے میں اس سے پوچھ ہو جنھوں نے اس کو پہچانا ہو وہ اس کا انعام

پائیں اور جنھوں نے اس کی ناقدری کی ہو وہ سزا بھگتیں۔


ضمیر کی صورت میں گویا قیامت کی عدالت کا عکس ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اگر قیامت نہ ہو تو پھر ضمیر کا

وجود بے معنی تھا۔ یہی ضمیر انسان کو ہر وقت یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ نیکی و بدی برابر نہیں ہیں اس لیے نتیجے کے اعتبار سے بھی

انھیں برابر نہیں ہونا چاہیے۔


ٹی وی پر کوئی فلم چل رہی ہو اور اچانک سلسلہ منقطع کر کے یہ کہہ دیا جائے کہ فلم ختم ہو گئی تو دیکھنے والوں میں

سے کوئی شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ کہانی کے انجام پذیر ہونے سے پہلے فلم کیوں کر ختم ہو گئی۔ اس لیے کہ مصنف سے یہ

سب توقع رکھتے ہیں کہ وہ کہانی کو اختتام تک پہنچائے اور کہانی کے کرداروں کا حساب بے باق کر دے۔ تو کیا کوئی ذی عقل یہ باور کر

سکتا ہے کہ زندگی کی داستان جس کا خالق اللہ ہے موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے جبکہ ابھی کہانی مکمل نہیں ہوئی اور کسی کا حساب نہیں

چکایا گیا۔


کسی دفتر میں ایک محنتی اور ایک نکمے کارکن کو یکساں ترقی دی جائے تو ہم اس بے انصافی پر چیخ اٹھتے

ہیں۔ تو کیا جس نے انصاف کی یہ خواہش ہمارے اندر ھکی ہے وہ خود ہی انصاف نہ کرے گا؟ یہ ناممکن ہے۔


قیامت کے انکار کی دوسری وجہ اللہ کی قدرتوں کے بارے میں بدگمانی ہے کہ یہ اتنا عظیم الشان واقعہ کیسے ہو سکتا ہے۔

قرآن میں عموماً قیامت کے ذکر کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ انسان کو اس دنیا کی چیزوں میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ اپنے اردگرد

دیکھے کہ کیسے مردہ زمین بے رنگ پانی کے آسمان سے برسنے پر لہلہاتے ہوئے کھیتوں، خوشبو دار پھولوں، لذیذ پھلوں اور آسمان سے

باتیں کرتے درختوں سے بھر جاتی ہے۔ کیسے اللہ نے مویشیوں کے پیٹ میں سے گوبر اور خون کے بیچ میں سے خالص دوھ اس کے لیے

تخلیق کیا ہے۔ کیسے طرح طرح کے ذائقوں کے ساتھ کیسی کیسی نفیس پیکنگ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پھل، سبزیاں، اناج تخلیق کیے

ہیں۔ پھر کیسے خود اس کی ذات ایک عظیم معجزہ ہے۔ دو قطروں سے کیسے نو ماہ ماں کے رحم میں اس کا بننا، گوناگوں صلاحیتوں کے

ساتھ اس دنیا میں آنا پھر مرد و عورت کی شکل میں ایک دوسرے کے لیے بہترین ساتھی کا وجود میں آنا ایک عظیم نشانی ہے۔

کسی جادوگر کی چھڑی سے ایک پتھر کوئی آواز نکالے تو اس کو دیکھ کر لوگ حیران رہ جائیں گے مگر خدا بے شمار انسانوں کی دو قطروں

سے ابتدا کر کے کیسی حسین شکل میں کھڑا کر دیتا ہے اور وہ نہایت بامعنی الفاظ میں بول رہے ہیں مگر اس کو دیکھ کر کسی پر کوئی حیرت

طاری نہیں ہوتی۔ خدا کی ہر تخلیق نہایت عجیب ہے مگر چونکہ انسان ان کو برابر دیکھتا رہتا ہے لہٰذا ان کا عجوبہ پن اس کی نظر میں ختم

ہو جاتا ہے۔ انھیں چیزوں میں سے کسی کو بھی اچانک ایک روز آپ پوری توجہ سے دیکھیں تو آپ ایسی حیرت میں ڈوبیں گے کہ خود ہی

چلا اُٹھیں گے کہ بے شک دوبارہ پیدا کرنا اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ سب سے ضروری چیز سبق لینے کا مزاج ہے جس شخص کے

اندر یہ مزاج پیدا ہو جائے اس کے لیے دنیا ایک زندہ کتاب بن جائے گی جس پر غور و فکر روزانہ اس کے ایمان میں اضافہ، خالق سے قریب

کرنے اور یقین کی بڑھوتری کا باعث بنے گا۔

قیامت کے منکر کسی دلیل سے انکار نہیں کر سکتے وہ صرف اس لیے نہیں ماننا چاہتے کہ اس طرح انھیں اپنی زندگی پر کچھ پابندیاں لگانا

پڑتی ہیں جو انھیں گوارہ نہیں چاہے ابدی جہنم میں جلنے کا خطرہ ہی کیوں نہ مول لینا پڑے۔ حالانکہ مثبت سوچیئے تو ہم ایک لافانی عیش

بھری زندگی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔

بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اگر اسے کہا جائے کہ تیری اس تنگ اور محدود دنیا سے باہر ایک بڑی وسیع

اور خوبصورت دنیا آباد ہے تو وہ کہے گا یہ ناممکن ہے۔ لازم ہے کہ آپ اس کے اس جواب پر ہنس کر کہیں گے کہ یہ ابھی کم عقل ہے، اس

لیے کہ اس کی محدود عقل لامحدود کائنات کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ اس دنیا میں آنے پر اسے خود محسوس ہوتا ہے کہ واقعی وہ اس سے

پہلے قید و بند کی زندگی گزار رہا تھا جس کا اس دنیا سے کوئی مقابلہ نہیں لیکن جب اسے بتلایا جاتا ہے کہ ایک دن یہ جسم بھی فنا ہو کر

مٹی میں مل جائے گا اس کے بعد اخروی زندگی پیش آئے گی۔ اُس دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں یہ دنیا بالکل تنگ و تاریک اور قید و بند

سے بھرپور ہے۔ تو وہ پھر اپنی کم عقلی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ باتیں ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔

لوگ دنیا کو ہار جیت کی جگہ سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا کی ہار جیت بالکل بے معنی ہے، ہار جیت کا اصل مقام آخرت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’جس دن تم سب کو ایک جمع ہونے کے دن جمع کرے گا یہی دن ہے ہار جیت کا۔‘‘

( التغابن ٩:٦٤ )

جو مرا اس کی قیامت آگئی۔ قیامت کے دن اس فاصلہ کا کسی کو احساس نہ ہو گا۔ یعنی ہر شخص کی قیامت میں بس

اتنے ہی دن ہیں جس قدر اس کی زندگی باقی ہے۔ ہو سکتا ہے کسی رات آپ سوئیں یا راہ چلتے ہوئے کوئی حادثہ ہو اور آنکھ حشر کی صبح

کھلے۔

وہ دن جس کی ہولناکی سے تمام انبیا علیہ السلام خبردار کرنے آئے۔ اس دن انسانوں کے انفرادی اعمال کا ہی کا نہیں بلکہ ان کے ذریعے جو

خیر و شر جہاں جہاں پھیلا اس سب کا انھیں بدلہ ملے گا۔ اسی لیے ایک صحابی فرماتے تھے ’بدبخت ہے وہ جس کا گناہ اس کے ساتھ نہ مرے۔


قیامت کی ہولناکی قرآن میں

’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس مہینے کی

حاملہ اونٹیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں

گے اور جب جانیں جسموں سے جوڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی اور

جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے

گی اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔‘‘

( التکویر ١٤:١:٨١ )

’’اور جب صور پھونکا جائے گا سو تمام آسمان اور زمین والوں کے ہوش اُڑ جائیں گے مگر جس کو خدا چاہے پھر دوسری

دفعہ ﴿صور﴾ پھونکا جائے گا تو فوراً سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی اور ﴿سب کا﴾

اعمال نامہ ﴿ہر ایک کے سامنے﴾ رکھ دیا جائے گا۔ اور پیغمبر اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور سب میں ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جائے گا

اور ان پر ذرا ظلم نہ ہو گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ سب کے کاموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘

( الزمر 70- 68:39 )

’’مجرم تمنا کرے گا کہ کاش اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو اور اپنے کنبے کو ﴿جو وقت

پڑنے پر﴾ اس کو پناہ دیا کرتا تھا اور تمام ﴿آدمی﴾ جو زمین میں ہیں ﴿سب کو﴾ فدیے میں دے دے، پھر، ﴿یہ فدیہ﴾ اسے ﴿عذاب سے﴾ نجات دلا

دے۔‘‘

(المعارج 14-11:70)

’’اس دن ظالم انسان ﴿مارے افسوس کے﴾ اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا ﴿اور﴾ کہے گا: ’کاش میں ﴿بھی﴾ رسول صلی اللہ علیہ

وسلم کے ساتھ ﴿دین کی﴾ راہ پکڑ لیتا۔ ہائے میری کم بختی کاش میں نے فلاں ﴿شخص﴾ کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس ﴿کم بخت﴾ نے میرے پاس

آئی ہوئی نصیحت سے مجھے بہکا دیا۔‘ اور شیطان ﴿کا تو قاعدہ ہے کہ وقت پڑے تو﴾ انسان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے اور ﴿اس وقت﴾

رسول کہے گا۔ ’’اے میرے رب میری ﴿اس﴾ قوم نے قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا۔‘‘

( الفرقان 30 27:25)

لوگو﴾ ہم نے تمھیں قیامت ﴿کے عذاب﴾ سے خبردار کر دیا ہے جو قریب ہے۔ اس دن آدمی اس ﴿کمائی﴾ کو دیکھ لے گا جو اس

کے ہاتھوں نے

زاد آخرت بنا کر

آگے بھیجی ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا
۔‘‘
( النبا 40:78 )

قیامت کی ہولناکی احادیث میں

’’اگر کوئی شخص اپنی پیدائش کے دن سے لے کر موت کے دن تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے سجدہ میں پڑا

رہے تو قیامت کے دن اپنے اس عمل کو بھی وہ حقیر سمجھے گا۔‘‘ ﴿مسند احمد﴾ یعنی قیامت کی ہولناکی دیکھنے پر نیک ترین انسان بھی

سمجھے گا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔

’’اگر تم وہ باتیں جانتے ہو جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ اور اللہ سے نالہ و فریاد اور

گریہ و زاری کرتے ہوئے بیابانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔‘‘ ﴿مسند احمد﴾ اس حدیث کو بیان کرنے والے صحابی فرماتے ہیں: ’’کاش

میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔‘‘ یعنی حساب نہ دینا ہوتا۔

’’قیامت کے دن انسان کے قدم اس وقت تک ﴿اپنی جگہ سے﴾ ہٹ نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں

سوال نہ کر لیا جائے۔

:1
عمر کن کاموں میں گزاری؟

:2
جوانی کی توانائیاں کن کاموں میں لگائیں؟

:3
مال کہاں سے کمایا؟

:4
حاصل شدہ مال کہاں اور کیسے خرچ کیا؟

:5
جو علم اسے حاصل ہوا اس پر اس نے کس حد تک عمل کیا؟ ‘‘

( ترمذی )

’’جس آدمی نے مال جمع کیا اور اس کی زکوٰة ادا نہ کی۔ اس کا جمع شدہ مال روزِ قیامت ایک ایسے سانپ کی شکل میں

سامنے آئے گا جس کے سر کے بال کثرتِ زہر کی وجہ سے ختم ہو چکے ہوں گے وہ منہ کھولے مالک کے پیچھے بھاگتا ہوا پہنچے گا۔ مال

والا اسے دیکھتے ہی بھاگ کھڑا ہو گا۔ سانپ پکار کر کہے گا اپنا چھپایا ہوا خزانہ لےلو، مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔ جب مال والے کو

یقین ہو جائے گا کہ اب جان نہیں چھوٹتی تو اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں دے دے گا۔ چنانچہ سانپ بپھرے ہوئے اونٹ کی طرح اس کا ہاتھ کو

چبا جائے گا۔‘‘

( مسلم )

میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکوٰة کے

ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہو گا اور اسی کے ساتھ اس

نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال مار کھایا ہو گا، کسی کو قتل کیا ہو گا، کسی کو ناحق مارا ہو

گا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو ان کی

غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘

( مسلم )

قیامت کے دِن کے گواہ

زمین کی گواہی: ’’﴿زمین﴾ ہر بندہ اور بندی کے متعلق شہادت دے گی کہ اس نے فلاں دن میرے اوپر فلاں کام کیا تھا۔‘‘

( مسند احمد )

جسمانی اعضا کی گواہی: ’’آج ہم ان کے منہ پر مہر لگائے دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے اور ان کے

پائوں بھی گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ﴿دنیا میں﴾ کیا کچھ کرتے رہے۔‘‘

( یس ٦٥:٣٦ )

فرشتوں کی گواہی: ’’دو ضبط کرنے والے ﴿فرشتے اس کے﴾ دائیں اور بائیں بیٹھے ﴿اس کی باتیں﴾ ضبط ﴿تحریر﴾ کرتے

رہتے ہیں۔ وہ کوئی بات منہ سے نکالنے نہیں پاتا مگر اس کے پاس ایک حاضر باش نگران ﴿فرشتہ لکھنے کو تیار رہتا﴾ ہے۔‘‘

( ق 18-17:50 )

اعمال نامہ کی گواہی: اور آدمی اپنے نامہ اعمال کو دیکھ کر خوفزدہ ہو کر کہے گا: ’’یہ کیسی کتاب ہے میرا چھوٹا بڑا کوئی

عمل ایسا نہیں ہے جو اِس نے محفوظ نہ کر لیا ہو۔‘‘

( الکہف 49:18 )

آخری انجام

’’پھر جب ﴿قیامت کا﴾ ہنگامہ عظیم برپا ہو گا اور جو کچھ آدمی نے ﴿دنیا میں﴾ کیا تھا اس دن وہ اس کو یاد کرے گا اور دوزخ

ہر دیکھنے والے کے سامنے بے نقاب کر دی جائے گی۔ تو جس نے ﴿دنیا میں﴾ سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ﴿آخرت پر﴾ ترجیح دی

تھی اس کا ٹھکانہ تو بس دوزخ ﴿ہی ہو گی﴾۔ اور جو اپنے رب کے سامنے پیشی سے ڈرا تھا اور ﴿اپنے﴾ نفس کو ﴿بری﴾ خواہشات سے روکتا

رہا تھا تو بلاشبہ جنت اس کا ٹھکانہ ﴿ہو گی﴾‘‘۔

( النازعات 41-34:79 )

عقیدہ شفاعت

احادیث کے مطابق
قیامت کے دن انبیا، صالحین بلکہ بعض اعمال صالحہ بھی شفاعت کریں گے مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ قیامت میں یہ شفاعت کس اصول پر

ہو گی اور کن کے لیے ہو گی۔ شفاعت کے بارے میں یہ بات اصولی طور پر جان لینی چاہیے کہ اس کی حیثیت دعا، التجا اور درخواست کی

ہے۔ قرآن میں واضح طور پر بیان ہوا ہے:

’’کون ہے جو اس کی بارگاہ میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کی سفارش کر سکے۔‘‘

( البقرة 255:2 )

’’اور وہ نہیں سفارش کر سکیں گے مگر صرف اس کے لیے، جس کے لیے اُس کی رضا ہو۔‘‘

( الانبیا 28:21 )

’’﴿اُس روز﴾ ظالموں کا کوئی دوست نہ ہو گا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔‘‘

( المومن 18:40 )

یعنی کوئی خود آگے بڑھ کر سفارش نہ کر سکے گا اور نہ ایسا ہے کہ خدا ان کی ناز برداری میں لازماً ان کی سفارش

قبول فرمائے گا اور نہ کسی کا زور اثر کام آئے گا۔ شفاعت قرآن کے بیان کردہ قانون کے مطابق اللہ کی مرضی اور رضا مندی سے ہو گی۔ یہ

حق کو باطل اور باطل کو حق نہیں بنا سکے گی۔ یہ دراصل شفاعت کرنے والوں کی عظمت و مقبولیت کے اظہار کے لیے اور ان کے اعزاز

کے لیے ہو گی، ورنہ حق تعالیٰ کے کاموں اور اس کے فیصلوں میں دخل دینے کی کسے مجال ہے۔

اور یہ اُن لوگوں کے بارے میں ہو گی جنھوں نے ایمان کے ساتھ عمل صالح کو مقصد بنا کر تمام عمر گزاری ہو

گی۔ لیکن پھر بھی بعض کمزوریوں ور گناہوں کے باعث وہ جنت کے مطلوب معیار سے کچھ کم رہ گئے ہوں گے۔ انبیا علیہم السلام، صدیقین،

شہدا اور صالحین کی شفاعت سے امید ہے کہ یہ جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔

وَاللہ علم!

شفاعت سے محروم لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت عمدگی سے احادیث میں بیان فرمایا ہے:

’’کچھ لوگ ﴿روز قیامت﴾ میرے پاس آئیں گے میں انھیں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے لیکن انھیں میرے پاس آنے سے روک دیا

جائے گا تو میں کہوں گا یہ میرے امتی ہیں ﴿انھیں مجھ تک آنے دو﴾ تو جواب میں مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں

جانتے کہ انھوں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے دین میں کتنی بدعتیں داخل کر دی تھیں تو میں کہوں گا دوری ہو، دوری ہو ان لوگوں کے

لیے جنھوں نے میرے بعد دین کے نقشہ کو بدل ڈالا۔‘‘

( متفق علیہ)

مالِ غنیمت کی چوری کے مسئلہ کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پائوں کہ اس کی گردن پر اونٹ ہے جو زور سے بلبلا رہا ہے ﴿یہ اس نے دنیا میں

چوری کیا تھا﴾ اور یہ شخص کہہ رہا ہے کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد فرمائیے ﴿یعنی اس گناہ کے وبال سے بچائیے﴾

تو میں کہوں گا میں تیری کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا میں نے تو تجھے دنیا میں یہ بات پہنچا دی تھی۔‘‘

( مسلم )

رہے وہ اہلِ ایمان جن کے اعمال صالحہ کا ذخیرہ اس سے بھی کم ہو گا وہ جہنم میں نامعلوم کتنی مدت عذاب سہہ کر

جنت میں داخل کر دیے جائیں گے۔ وہ جہنم جس میں ایک لمحہ دنیا کی تمام عیش بھلا دینے کے لیے کافی ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اور

حضرت آسیہ کا شوہر قرآنِ مجید کے مطابق جہنمی ہیں۔ باپ بیٹے اور میاں بیوی کے رشتے سب سے زیادہ محبوب رشتے ہیں اور پیغمبروں

سے زیادہ خدا کا کوئی نہیں ہو سکتا لیکن جن کے پاس ایمان و نیکی کا توشتہ موجود نہیں تھا وہ ان رشتوں سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے تو

دوسروں کو کیا نسبت۔

اُخروی زندگی کا دَوام

آخرت کے سلسلہ میں ایک خاص طور پر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ آخرت پر صرف ایمان ہی نہیں رکھنا بلکہ اس

حقیقت کو پوری طرح ذہن نشین کرنا ہے کہ جو زندگی آخرت میں ملے گی وہ پھر کبھی ختم نہ ہو گی۔ بار بار یاد کرنا چاہیے کہ آخرت کی

زندگی انجام سے ناآشنا ہو گی۔ وہاں موت کا کوئی وجود نہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے اس دنیا میں اگر مسرت کا کوئی لمحہ آبھی

جاتا ہے تو بسا اوقات دل میں یہ کانٹا کھٹک رہا ہوتا ہے کہ کل کیا ہو گا لیکن وہاں اگر کامیاب ہو گئے تو نہ ماضی کے پچھتاوے ہوں گے

اور نہ مستقل کے اندیشے۔ اور وہاں کا عذاب خدا محفوظ رکھے ناقابلِ برداشت ہو گا۔ اس حقیقت کو بار بار، بار بار، بار بار دل و دماغ میں

ذہن نشین کرنے کی کوشش جاری رہے تاکہ دنیا کی حقیر نفسانی خواہشات کی بے ثباتی کا احساس اتنا گہرا ہو جائے کہ پھر انسان اللہ کی

نافرمانی سے دور تر ہوتا چلا جائے۔ جس کے شب و روز جنت کے تصور، خواہش اور دعا میں کٹتے ہوں اور جو دن میں کئی بار جہنم سے

پناہ مانگتا ہو وہ اس گھٹیا اور

چند روزہ عیش کی حرص میں گرفتار ہو کر اپنی آخرت خراب نہیں کر سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

’’جس شخص نے تمام فکروں کو چھوڑ کر ایک ہی فکر لگائی یعنی آخرت کی فکر اللہ تعالیٰ اس کی دنیوی فکروں کے معاملے میں اس کے لیے

کافی ہو جائے گا اور جسے طرح طرح کی دنیوی فکروں نے پریشان کر رکھا اور وہ آخرت کی فکر کو بھولا رہا تو اللہ تعالیٰ پرواہ نہیں کرے

گا کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔‘‘

( ابن ماجہ )

مراقبہ موت

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’موت کو کثرت سے یاد کیا کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنیوالی ہے۔‘‘

( ترمذی )

کبھی کبھی رات کو عشا کی نماز کے بعد یا خدا توفیق دے تو تہجد میں اپنی موت کا تصور کیا کیجیے۔

تصور میں لائیے کہ کہیں جاتے ہوئے اچانک حادثہ میں آپ شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ آپ کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر جان بچانے کی

بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ عزیز و اقارب پریشان کھڑے ہیں۔ ڈاکٹربالآخر موت سے ہار جاتے ہیں۔ خود کو مرا ہوا دیکھیں پھر آپ کی لاش

گھر لائی جا رہی ہے۔ نہلانا، کفن دینا، رشتہ داروں اور دوستوں کا رونا، پھر جنازہ اٹھا کر قبرستان کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ پھر نماز

جنازہ پڑھ کر مٹی کے گڑھے میں دفنا کر پتھر کی سلیں رکھی جا رہی ہیں۔ پھر سب مٹی ڈال کر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ گھپ اندھیرا،

تنہائی، کیڑوں کی آوازیں۔ اگر کوئی اور سزا نہ ہو تو کیا یوں لیٹا رہنا ہی کچھ کم سزا ہے۔ اب سوچئے کہ میں کیا اعمال لے کر آیا ہوں۔ کسی کا

کوئی حق تو میرے ذمے نہیں تھا۔ فلاں کا قرض دینا تھا۔ دے سکتا تھا لیکن غفلت کے باعث آگے ڈالتا گیا۔ فلاں سے زیادتی کی تھی۔ احساس

بھی ہوا مگر جھوٹی اکڑ کے باعث معافی نہ مانگی۔ اب کیا ہو گا تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ فلاں دن یہ موقع پیدا ہوا تھا کہ غریب

ہمسائے کی مالی امداد کریں مگر جو رقم اس پر خرچ ہو سکتی تھی وہ ایک قیمتی لباس پر خرچ کر دی۔ آج وہ لباس اُس دنیا ہی میں چھوڑ آئے

ہیں۔ حالانکہ اگر وہ رقم ایک محتاج کی مدد پر خرچ ہوتی۔ تو یہاں قبر میں ہمارے ساتھ آتی اور اب تو اسے لانے کی کوئی صورت نہیں۔ خوب

اپنی کمزوریاں تلاش کیجیے۔ خوب ندامت کے آنسو بہائیے۔ پھر خدا کا شکر ادا کر کے فوراً وہ سب کام کر ڈالئے جو حقیقی موت کی صورت

میں جہنم میں لے جانے والے ہوتے۔

راہِ عمل

اگر دلوں میں یہ خیال جاگزیں رہے کہ یہ زندگی جو آج ہم گزار رہے ہیں صرف راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور منزل مقصود وہی ہے جو موت

کے بعد ملے گی تو پھر اس راہ پر غم کے کانٹے اگے ہوں۔ یا خوشیوں کے پھول کھلے ہوں، عقلمند مسافر راہ کو راہ ہی سمجھے گا اور منزل

مقصود نہیں بنائے گا۔ اگر راستے میں کانٹے اگے ہوں گے تو وہ صبرو استقامت سے ان کی اذیتیں سہتا سفر جاری رکھے گا اور اگر پھول

کھلے ہوں گے تو اس کے لیے اتنی خوشی کافی ہو گی کہ راستہ چلتے ہوئے کانٹوں کی اذیت نہیں سہنی پڑ رہی اور خوشبو سفر کو خوشگوار

بنا رہی ہے لیکن ان پھولوں سے لطف اٹھانے کے لیے وہ بہرحال راہ کو منزل بنا کر وہیں نہ بیٹھ جائے گا بلکہ اصل منزل کی طرف گامزن

رہے گا۔

انسان ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اگر راہیں نامعلوم اور دشوار ہوں تو سفر دن کی روشنی میں کسی قابل اعتماد راہنما کے

ساتھ طے کیا جائے۔ یہ سفر بھی تبھی منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے اگر اس میں اللہ تعالیٰ کو اپنا مولیٰ و مددگار بنا لیا جائے۔ اسے اس راہ

کے تمام پیچ و خم کی پہلے سے خبر ہے اور وہ ہماری کمزوریوں اور صلاحیتوں کو بھی جانتا ہے۔ اس ذات کے ساتھ ایمان و دعا کا رشتہ

استوار کر کے یہ سفر جاری کیا جائے۔ اسی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بھیجی گئی کتاب میں یہ خبر دی ہے:

’’پھر اگر تمھیں ہماری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو لوگ ہماری ہدایت کی پیروی کریں گے ان پر ﴿آخرت میں﴾ نہ تو

( کسی قسم کا )

خوف ﴿طاری﴾ ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ نافرمانی کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہی دوزخی ہوں گے ﴿اور

وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

( البقرة 39- 38:2 )

یہاں قرآن مجید کی پیروی کا حکم ہے اور کسی حکم کی پیروی تب ہی ممکن ہے جب وہ سمجھ میں آیا ہو۔ لہٰذا قرآن کا

ترجمہ جاننا اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں عمل کامیابی کی واحد راہ ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دورانِ سفر

منزل کا ہر لمحہ دھیان رہے۔ قرآن کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جو آخرت کے ذکر سے خالی ہو لہٰذا روزانہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن سمجھ

کر پڑھنا آخرت کی یاد دل میں تازہ رکھنے اور صراطِ مستقیم پر ثابت قدمی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ احادیث کا کوئی اچھا مجموعہ بھی

روزانہ کچھ وقت مطالعہ اور غور و فکر کا موضوع ہونا چاہیے۔ اس سے آپ اُس روشنی میں سفر کریں گے جس کے بار ےمیں ارشادِ باری

تعالیٰ ہے:

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائو تاکہ اللہ اپنی رحمت میں سے تم کو دوہرا حصہ

دے۔ اور تم کو ﴿ایسا﴾ نور عنایت کرے جس ﴿کی روشنی﴾ میں تم چلو اور تمھاری مغفرت فرمائے اور اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘

( الحدید 28:57 )

آخری بات

جس امتحان کو انسان زیادہ اہمیت دیتا ہے اس کی اتنی ہی زیادہ تیاری بھی کرتا ہے۔ ایک ہونہار طالب علم کے لیے

امتحان کی تیاری کے دنوں کا ہر لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے۔ ان دنوں میں تمام غیر ضروری کام چھوڑ دیے جاتے ہیں بسا اوقات غذا اور راتوں

کی نیند بھی کم کر دی جاتی ہے۔

یہ تو ان امتحانوں کا حال ہے جن پر بہرحال زندگی اور موت منحصر نہیں ہوتی اور جن میں ایک بار فیل ہو جانے کے

بعد دوبارہ بیٹھنے کا موقع بھی موجود ہوتا ہے تو پھر کیا صورت ہو گی اس امتحان کی جس پر ابدی نجات منحصر ہے جس میں فیل ہو جانے

کے بعد کوئی دوسرا موقع امتحان دینے کا حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی تھوڑا سا وقت تیاری کے لیے ملا ہے جسے ہم دنیاوی زندگی کہتے ہیں

یہ مختصر سا وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اس کا ایک سیکنڈ بھی دوبارہ نہیں مل سکے گا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’وہ دوزخ میں چلائیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں یہاں سے نکال ﴿اب﴾ ہم نیک عمل کریں گے برخلاف ان اعمال کے

جو ہم ﴿پہلے﴾ کرتے رہے تھے۔ ﴿ارشاد ہو گا﴾ ’’کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں کسی کو سوچنا سمجھنا ہوتا وہ سوچ سمجھ لیتا۔‘‘

( فاطر 37:35 )

اس آیت پر جتنا غور کیجیے کم ہے۔ اب جبکہ ہم زندہ ہیں اور موت سامنےنظر بھی نہیں آرہی یہی وقت ہے نصیحت

پکڑنے کا۔ ورنہ کچھ خبر نہیں کہ کب وہ وقت سر پر آجائے کہ ہم تڑپ تڑپ کر درخواست کریں کہ ہمیں دوبارہ عمل کا موقع دیا جائے مگر

ہمیں وہی جواب دیا جائے گا جو نافرمانوں کو دیا جاتا ہے کہ ’کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہ دی تھی۔‘

اللہ تعالیٰ ہمیں درست راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین ثمہ آمین