Pages

Monday, June 27, 2011

معجزہء معراج اور نظریہء اِضافیت

اﷲ رب العزت کی پیدا کردہ وسیع و عریض کائنات کچھ خاص اُصول و ضوابط کے تحت اپنے نظام کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے۔ یہی وہ اُصول ہیں جن کے بل بوتے پر کارگہ ِہستی رواں دواں ہے۔

 قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے کہ اُس کی سنت (یعنی نظام) نا قابلِ تبدیل ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج لاکھوں نوری سال کی وسعت میں بکھرے کروڑوں ستاروں کی پیدائش، اُن کی موجودہ حالت، اُن کے مقناطیسی دائرہء کشش اور اُن میں پائے جانے والے بنیادی عناصر کے حوالے سے ماہرینِ فلکیات نے جتنی بھی تحقیقات کی ہیں، کائنات کے ہر ہر گوشے میں اُنھوں نے ایک خاص یگانگت پائی ہی،

 اور اس تلاش و جستجو سے اﷲ تعالیٰ کے فرمان ”فَلَن´ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اﷲِ تَبدِیلاً“ (پس تم اﷲ کے نظام میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں پاؤ گے) کی تصدیق فراہم ہوئی ہے۔

اﷲ ربّ العزت نے اِس نظامِ ہستی کو جن قرینوں اور ضابطوں کا پابند ٹھہرایا ہے اُنہیں اِصطلاحاً ”اﷲ کی عادت“ کا نام دیا جاتا ہے۔ خداوند قدّوس نے اِنسانیت کی رُشد و ہدایت اور اِصلاحِ اَحوال کے لئے سلسلہء انبیاء قائم کیا اور ہر نبی کو کسی خاص علاقے یا قوم کی طرف کسی خاص مقصد کی اِنجام دہی کے لئے مبعوث فرمایا۔ پھر جب کسی اُمت نے اپنے پیغمبر کی تکذیب کی تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے اُس برگزیدہ نبی علیہ السلام کی تائید میں اُسی نبی علیہ السلام کے ہاتھ سے کچھ نشانیاں ظاہر فرمائیں۔ انبیاء کے دستِ مبارک سے ظہور پذیر ہونے والی اُن نشانیوں کو ”اﷲ کی قدرت“ کا نام دیا جاتا ہے۔ کسی نبی کی نبوت کی دلیل کے طور پر ”اﷲ کی عادت“ کے مربوط نظام یعنی عالمِ اسباب کے طے شدہ اُصول و ضوابط سے ہٹ کر کسی فعل کے صادر ہونے کو ”معجزہ“ کہاجاتا ہے۔

معجزہء معراج کی دیگر معجزات پر فضیلت:

عالمِ انسانیت کی طرف بھیجے گئے انبیائے کرام کی مجموعی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ ہمارے نبیء معظم جمیع اِنسانیت کی طرف مبعوث کئے جانے کی فضیلت کے علاوہ رُتبے میں بھی باقی تمام انبیاء سے بڑھ کر ہیں۔ اِسی طرح آپ کے معجزاتِ مبارکہ بھی دِیگر انبیائے کرام کے جملہ معجزات سے فضیلت اور مقام و مرتبہ میں کہیں اعلیٰ ہیں۔ نبیء آخر الزماں کے سارے معجزات میں سب سے اعلیٰ و ارفع شان کا مالک معجزہ ”معجزہء معراج“ ہے۔ سرورِ کائنات کے بے شمار معجزات پر معجزہء معراج کو نمایاں فضیلت حاصل ہے۔

تاریخِ انبیاء علیھم السلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی کو اﷲ تعالیٰ نے اُس کی حسبِ شان معجزات کی دولت سے نوازا۔ عقلِ اِنسانی کسی زمانے میں جس خاص فن میں مشّاق ہوتی، اُس قوم کے نبی کو اُس کے مطابق ایسا معجزہ عطا کیا جاتا کہ اُس کے پورے دورِ نبوّت میں کوئی ایسی چیز اِیجاد نہ ہو جو اُس نبی کے معجزے کو پیچھے چھوڑ دی، تاکہ اُمت اپنے نبی کو خود سے برتر جان کر اُس کی نبوت و رسالت پر بآسانی ایمان لا سکے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اُمت جادُو میں کمال رکھتی تھی، اِس لئے آپ علیہ السلام کو جادو کا توڑ کرنے والے اور اُس پر حاوِی ہو جانے والے معجزات عطا کئے گئے۔ یہی سبب ہے کہ فرعون کی شہ پر آپ علیہ السلام کے مقابلے میں آنے والے تمام جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام کی صلاحیتِ معجزہ کو اپنے شیطانی جادُو سے برتر مانتے ہوئے اُن کے آگے سرِتسلیم خم کر دیا تھا۔ اِسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دَور میں جب فنِ طب اپنے عروج پر تھا، اﷲ ربّ العزّت نے اُنہیں اِحیائے موتیٰ جیسے عظیم معجزے سے سرفراز فرمایا۔ آپ کے دور کے عام اَطباء تو پیچیدہ بیماریوں کے علاج میں ماہر تھے مگر مسیح علیہ السلام کی مسیحائی مُردوں کو بھی زِندگی کی دولت سے نوازتی نظر آتی ہے۔ اِن مثالوں سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ نبی علیہ السلام اپنے دورِنبوت کے ہر کمال سے ہمیشہ آگے ہوتا ہے، اُمت جس کمال پر فائز ہوتی ہے نبی اُس کمال پر حاوِی ہوتا ہے۔

تاجدارِ کائنات کے معجزات ابدی ہیں:

گزشتہ تمام انبیاء علیھم السلام کی نبوتیں زمان و مکان کی پابند تھیں لہٰذا اُنہیں دیئے جانے والے معجزات بھی محدُود نوعیت کے تھے۔ نبیء آخرالزّماں پر چونکہ سلسلہء نبوت کا اِختتام ہونا تھا اور تاجدارِ کون و مکاں کو تمام زمانوں کے لئے نبیء رحمت اور ختم المرسلین قرار دیا جا رہا تھا،

 اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایسا معجزہ عطا فرمایا جو تمام معجزات کا سردار کہلایا، اور تا قیامِ قیامت تمام زمانوں کی
اِنسانیت اور جملہ اَقوامِ عالم مل کر بھی اُس معجزہء جلیلہ کی برابری کرنا تو کُجا اُسے مکمل طور پر سمجھ بھی نہیں سکتیں۔

 اﷲ ربّ العزت کو معلوم تھا کہ اُمتِ محمدی پہلی اُمتوں سے ہزارہا گنا زیادہ ترقی کرتے ہوئے چاند پر قدم رکھے گی اور ستاروں پر کمند ڈالے گی لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کو مکان و لامکاں کی وُسعتوں سے نکال کر اپنے قرب کی وہ خاص نعمت عطا فرمائی جس کا گمان بھی عقلِ انسانی نہیں کر سکتی۔

 اِن حقائق سے آگہی کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ دِیگر انبیاء علیھم السلام کے ساتھ ساتھ آنحضور کے باقی تمام معجزات میں سے بھی کوئی معجزہ، آپ کے معجزہء معراج کی عظمت و رِفعت کا ہمسر نہیں ہے کیونکہ یہ ایک دائمی معجزہ ہے جو دِیگر معجزات کے برخلاف تا قیامِ قیامت اُمتِ محمدی کے لئے حجتِ تامّہ ہے۔

معراج کمالِ معجزاتِ مصطفٰی ہے اور یہ معجزہ واقعی اِس شان کے لائق ہے کہ دِیگر تمام معجزات کا سردار قرار پائے۔ جب 27 رجب کی سہانی شب کے اِنتہائی مختصر سے لمحات میں اﷲ ربّ العزت تاجدارِ کائنات کو مسجدِحرام کی معطّر فضاؤں سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ اَجرامِ سماوِی سے پری، کائنات کی وسیع و عریض وُسعتوں کے اُس پار، عالمِ لامکاں کی حدُود کی بھی دُوسری طرف اپنے عرش تک لے گیا اور اُسی قلیل مدّتی ساعت میں آپ دوبارہ اِس زمین پر جلوہ افروز بھی ہو گئے۔

عقلِ اِنسانی کی بساط بھر تگ و دو:

علمِ انسانی کی موجودہ معراج سے قبل اِنسانی اِستعداد کے پروردہ علوم اِس قدر کافی نہ تھے کہ ہم کسی معجزہ کی کسی معمولی سی جزئی کی بھی اپنی کمالِ بصیرت و دانش کی بناء پر کوئی توجیہہ کر سکتے۔ اِس کے باوُجود جمیع مسلمانانِ عالم ایمان بالغیب اور قدرتِ الٰہیہ کے ظہور پر فقط اپنے بے لوث اِیمان کی بدولت کسی عقلی دلیل کے بغیر ہمیشہ سے معجزہء معراج کے قائل رہے ہیں۔

فی زمانہ علومِ انسانی اِس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ خیرالقرون کے بعض معمولی نوعیت کے خرقِ عادت واقعات کی توجیہات اَب کسی قدر اِنسانی عقل کی سمجھ میں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ عقلِ انسانی اپنی گوناگوں ترقی کے باعث آج اس مقام پر فائز ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی عادت یعنی عالمِ اسباب کی بہت سی پیچیدہ گتھیاں سلجھانے کے علاوہ اُس کی قدرت کے اِظہار کو بھی بعض قرینوں کی مدد سے جزواً سمجھنے اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت کی معترف ہونے کے قابل ہو رہی ہے۔ جوں جوں عقل اپنے کمال کی طرف بڑھے گی معجزے کی صحت کے قریب تر ہوتی چلی جائے گی اور وہ دن دُور نہیں جب سراسر مادی عقل کے رسیا محقّقین بھی قدرتِ الٰہیہ کو حق مان کر اُس کی دہلیز پر سربسجود ہو جائیں گے۔

ہوائی سفر کے لوازمات:

آج سے چودہ صدیاں قبل Dark ages میں کہ جب دورِ جاہلیت نہ صرف سرزمینِ عرب بلکہ پوری دنیا میں عروج پر تھا، واقعہء معراج کا تصور بھی ناقابلِ عمل و ناقابلِ یقین محسوس ہوتا تھا۔ اُس زمانہء جاہلیت کی تو بات ہی کیا، آج کے اِس ترقی یافتہ دور کا اِنسان جس کے لئے صبح و مساءفضائے بسیط میں سفر ایک معمول کی چیز بن کر رہ گیا ہے، وہ بھی کرہء ارضی سے باہر ایتھر میں خلائی سفر کے ضروری لوازمات کے بغیرکروڑوں نوری سال کا سفر طے کرنا محال تصور کرتا ہے۔

موجودہ دَور کا اِنسان ہوائی جہاز کی زیادہ بلندی کی صورت میں سلنڈر آکسیجن کے اِستعمال کے ساتھ ساتھ ہوا کا مصنوعی دباؤ بھی بناتا ہے تاکہ اُس کا جسم زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر واقع ہوا کے کم دباؤ کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار ہونے سے بچا رہے۔ اور اگر کبھی Air tight جہاز میں حادثاتی طور پر سوراخ ہو جائے تو جہاز میں موجود ہوا کا مصنوعی دباؤ کم ہو جانے سے مسافروں کے جسم تیزی سے سخت اِضمحلال کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اَیسے میں اگر فوری طور پر دوبارہ مصنوعی دباؤ بنانا ممکن نہ ہو تو پائلٹس جہاز کی بلندی کو تیزی سے گراتے ہوئے اُس خاص سطح تک لے آتے ہیں جہاں اِنسانی زِندگی کے لئے ضروری ہوا کا دباؤ موجود ہوتا ہے۔

خلائی سفر کے لوازمات:

خلاء کا سفر کرہء ہوائی کے بالائی حصوں میں عام جہازوں کے سفر سے بھی کئی گنا زیادہ دُشوار ہوتا ہے۔ اِس کے باوُجود بیسویں صدی کے وسط سے حضرتِ انسان نے خلاء میں بھی چہل قدمی شروع کر رکھی ہے۔ خلائی جہازوں (Probes) کو کرہء ہوائی سے باہر نکلنے کے لئے 40 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد محیّرالعقول رفتار درکار ہوتی ہے۔ اس کے باوُجود پچھلے چند عشروں میں جدید سائنسی تحقیقات کے لئے خلائی سفر خلانوردوں (Astronauts) کا روزمرّہ کا معمول بنتا چلا جا رہا ہے۔ خلانورد آکسیجن اور ہوا کے مصنوعی دباؤ کے علاوہ ایک خاص قسم کا لباس بھی اِستعمال کرتے ہیں، جو اُنہیں، شفّاف ہوا کے غلاف Ozone سے اُوپر واقع دِیگر بہت سی آلائشوں سمیت Electoro Magnetic Radiation سے بھی محفوظ رکھ سکے۔

چاند کا پہلا سفر اور فرمانِ خداوندی:

اِنسان کا خلاء میں زمین سے بعید ترین سفر چاند کا سفر ہے، جو جولائی 1969ء میں عمل میں آیا۔ امریکی Astronauts ”نیل آرمسٹرانگ“ اور ”ایڈون ایلڈرن“ چاند کی سطح پر اُترے جبکہ اُن کا تیسرا ساتھی ”کولنز“ چاند کے گرد محوِ گردش رہا۔کچھ ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چند پتھروں کے نمونے لے کر وہ سائنسدان روانگی سے محض دو دن بعد واپس زمین پر آن پہنچے۔اِس مہم کے دوران اِس مشن کی پل پل کی خبر TV اور ریڈیو ٹرانسمشن کے ذریعے پورے خطہء ارضی کے باسیوں تک پہنچتی رہے۔

عالمِ انسانیت کی اِس برق رفتار ترقی اور تسخیرِ ماہتاب کا ذکر اﷲ ربّ العزت نے آج سے چودہ صدیاں قبل قرآنِ مجید میں کر دیا تھا۔

 ارشادِ ربانی ہے: ”قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہو جائے، تم ضرور بالضرور اِس طبق سے دُوسرے طبق تک جاؤ گے، پھر
(اس کے باوُجود) اُنہیں کیا ہوا کہ اِیمان نہیں لے آتے!“ (الانشقاق، 84 : 18 - 20)

بنی نوعِ انسان کی بالائی کائنات سے متعلقہ یہ ترقی اگرچہ اُس کے خلافتِ ارضی کا مستحق ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے، تاہم اِس تمام تر تگ و دو کے باوُجود اِنسان ہنوز روشنی کی سادہ رفتار کو بھی نہیں پا سکا۔ روشنی کی رفتار 1,86,284 میل (2,99,792 کلومیٹر) فی سیکنڈ ہے، جس تک پہنچنا اِنسان تو کجا کسی بھی مادی جسم کے بس کی بات نہیں۔

سفرِ معراج اور نظریہء اِضافیت:

جرمنی کے شہرہ آفاق یہودی النسل سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے 1905 میں Special Theory of Relativity پیش کی، جس میں اُس نے (اِسلامی تعلیمات کے عین موافق) وقت اور فاصلہ دونوں کو تغیر پذیر قرار دیا۔ اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ زمان و مکان کی گتّھیاں جو ہزاروں سال سے فلسفے کا موضوع ہیں اِس نظریئے کے بغیر نہیں سلجھ سکتیں۔ اُس نے یہ ثابت کیا کہ مادّہ، توانائی، کشش، فاصلہ اور زمان ومکان کی مطلقاً کوئی حیثیت نہیں بلکہ ان میں باہم ایک خاص نسبت ہے۔ اس اِضافی حیثیت کے باعث اُن میں سے کسی ایک کی تبدیلی دُوسرے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ جب ہم کسی فاصلے یا وقت کی پیمائش کرتے ہیں تو وہ اِضافی حیثیت سے کرتے ہیں۔ گویا دُوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ کائنات میں مختلف مقامات پر وقت اور فاصلہ دونوں کی پیمائش میں کمی و بیشی ممکن ہے۔

اِسی نظریہء اضافیت میں آئن سٹائن نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔ اِس کی وضاحت اُس نے کچھ اِس طرح سے دی کہ ایک ہی شے جب دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرتی ہے تو اُس کے حجم میں کمی و بیشی آجاتی ہے، یعنی متحرک جسم کی لمبائی اُس کی حرکت کی سمت میں کم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ روشنی کی رفتار سے قریب قریب رفتار کے ساتھ سفر کرنے والے جسم کی کمیّت حد درجہ بڑھ جائے گی، حجم اِنتہائی کم ہو جائے گا اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس جسم پر گزرنے والے وقت کی رفتار بھی غیرمعمولی طور پر کم ہو جائے گی۔ مثلاً اگر کوئی خلانورد 1,67,000 میل فی سیکنڈ (روشنی کی رفتار کا 90فیصد) کی رفتار سے خلا میں 10 سال تک سفر کرے تو اُس سفر کے اِختتام تک اُس خلانورد کی عمر میں صرف 5 سال کا اِضافہ ہوا ہوگا جبکہ زمین پر موجود اُس کے جڑواں بھائی پر 10 سال گزر چکے ہوں گے۔

روشنی کی رفتار کا 90فیصد رفتار حاصل کرنے سے جہاں وقت کی رفتار نصف رہ جاتی ہے وہاں محوِ سفر جسم کا حجم بھی سکڑ کر آدھا رہ جاتا ہے۔ جُوں جُوں کوئی جسم اِس سے بھی زیادہ رفتار حاصل کرتا چلا جائے گا تُوں تُوں اُس کا حجم سکڑ کر چھوٹا ہوتا چلا جائے گا اور وقت کی رفتار میں بھی اُسی تناسب سے کمی ہوتی چلی جائے گی۔
اِس نظریہ میں سب سے اہم اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر بفرضِ محال کوئی مادّی جسم روشنی کی رفتار حاصل کر لے تو ....اُس پر وقت تھم جائے گا اور اُس کی کمیّت لامحدُود ہونے کے ساتھ ساتھ حجم سکڑ کر بالکل ختم ہو جائے گا، گویا جسم فنا ہو جائے گا۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر آئن سٹائن اِس نتیجے پر پہنچا کہ ”کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے“۔

شبِ معراج برّاق کا سفر:

عقلِ انسانی کی پروردہ سائنس کی دُنیا کی سب سے مصدّقہ اور جدید ترین نظریہء اِضافیت کے مطابق کسی مادّی جسم کے لئے روشنی کی سادہ رفتار کا حصول .... جس سے وقت کے تھم سکنے کی ایک صورت ممکن تھی .... محال ہے۔ جبکہ دُوسری طرف معجزہ یہ ہے کہ اﷲ کی عادت پر مشتمل نظامِ فطرت اُس کی قدرت کے مظہر کے طور پر ڈھل جائے۔ یعنی وقت تو تھم جائے مگر تاجدارِ کائنات کے جسم کی کمیّت لامحدُود نہ ہونے پائے، اور اِس طرح نہ صرف اُس کا حجم برقرار رہے بلکہ وہ فنا ہونے سے بھی محفوظ رہے۔

 اسی طرح خلائی سفر کی لابدّی مقتضیات پوری کئے بغیر برّاق کی رفتار (Multiple speed of light) سے سفر کرے، دورانِ سفر بیت المقدس میں تعدیلِ ارکان کے ساتھ نمازیں بھی ادا کرے، کھائے، پئے، لامکاں کی سیر بھی کرے، اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء علیھم السلام کے علاوہ خود اﷲ ربّ العزت کا بھی اُس کی شان کے مطابق ”قَابَ قَو´سَینِ“ اور ”اَواَدنیٰ“، کے مقامات پر جلوہ کرے اور اُسی قلیل مدّتی ساعت میں جب زمین اور سکّانِ زمین کی طرف واپس پلٹے تو تھما ہوا وقت اُس کی واپسی کا منتظر ہو۔
نظریہء اِضافیت میں روشنی کی سادہ رفتار کا حصول بھی ناممکن قرار دیا گیا ہے، جبکہ تاجدارِ انبیاء کے لئے اشرفُ الملائکہ سیدنا جبرائیل علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے اِذن سے برّاق نامی سواری لے کر حاضر ہوئے اور آپ اُس پر سوار ہو کر ہزارہا روشنیوں کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے معراج پر تشریف لے گئے۔ لفظِ برّاق برق کی جمع ہے، جس کا معنی روشنی ہے۔ یوں موجودہ دور کے سائنسی نظریات تو Single speed of light کا حصول بھی کسی مادّی جسم کے لئے ناممکن قرار دے رہے ہیں مگر اﷲ ربّ العزت نے اپنے محبوب نبی کو Multiple speed of light سے سفرِ معراج کا معجزہ عطا فرمایا، جو چودہ صدیاں گزر جانے کے باوُجود آج تک کسی فردِبشر کے فہم و اِدراک میں نہیں سما سکا۔

ایک قابلِ غور وضاحت:

جدید سائنسی تحقیقات کے دریافت کردہ زمان و مکان (Time & Space) کے جدید نظریات کے مطابق وقت کی رفتار میں کمی و بیشی اور فاصلوں کا سکڑنا اور پھیل جانا اِسلامی تعلیمات کے عین موافق ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں طیء زمانی اور طیء مکانی کی جن صورتوں کا ذکر فرمایا ہے، جدید سائنس اُنہی معلومات کو نئی اِصطلاحات کے پیرائے میں بیان کر رہی ہے۔

Sunday, June 26, 2011

وہ ہم میں سے نہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسا ایسا کام کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں، اس فقرے کی مراد مختلف علماء اور محدثین نے مختلف پیش کی ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہم اہل بیت میں سے نہیں ہیں، بعض نے کہا اس سے مراد مسلمانوں میں سے نہیں ہے، بعض نے کہا کہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے اور بعض نے کہا کہ وہ ہماری جماعت میں سے نہیں ہے، اب ان مفاہیم میں سے کوئی بھی فہم لیا جائے تو بھی بہت خطرناک معاملہ بنتا ہے اس لیئے  اپنی اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ان سبھی برُے کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی ہمارے اعمال میں موجود نہیں رہنا چاہیئے کہ کہیں اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کی زَد میں ہماری ذات نہ آ جائے کہ
وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

ویسے جہاں تک میں اس کو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر موقعہ پر اس کا معنی اور مفہوم بدل جاتا ہے یعنی جہاں معاملہ سنگین ہو وہاں اس کا معنی بھی سنگین ہوگا یعنی وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جہاں معاملہ ہلکی نوعیت کا ہوگا وہاں معنی بھی ہلکا ہوگا یعنی وہ ہماری سنت پر نہیں ہے، باقی صحیح معنی اور مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے
۔
حدیث:۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام کو اس کے آقا سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب:طلاق کا بیان :عورت کو مرد کے خلاف برگشتہ کرنا

تشریح:۔


یہ ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوسکتا تھا اسی لیئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا کہ کوئی بھی اگر کسی عورت کو اس کے شوہر سے بدظن کرئے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسا فرما کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی اُمت کو اس گٹیا فعل سے روکا ہے اب جو کوئی بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے سچی محبت کرتا ہوگا وہ کبھی بھی ایسا عمل نہیں کرئے گا کیونکہ اس کی وعید بہت سخت ہے اور دوسرا آقا کو غلام سے بدظن کرنے والے کے متعلق ہے،الحمدللہ کہ اسلام کی برکت سے آج غلام اور آقا کا نظام ختم ہوچکا ہے، اسلام نے ایسے اچھے اچھے اصول وضع کیئے تھے کہ جن کی وجہ سے غلاموں کی نسل ختم ہوتے ہوتے ایک مہذب شہری کی حیثیت میں بدل گئی ہے مثلاً ان اصولوں میں سے کچھ یہ ہیں
۔
پہلا اصول:۔

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا جو ::ذی رحم::محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ رشتہ دار آزاد ہے۔

سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب:غلام آزاد کرنے کا بیان۔ :جومحرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تو وہ (رشتہ دار) آزاد ہے۔

مثلاً باپ نے اپنے اس بیٹے کو خریدا جو کسی دوسرے شخص کی غلامی میں تھا یا بیٹے نے اپنے غلام باپ کو خریدا یا بھائی نے غلام خریدا تو محض خرید لینے کی وجہ سے وہ غلام آزاد ہو جائے گا ۔
” ذی رحم ” اس قرابت دار کو کہتے ہیں جو ولادت کی قرابت رکھے جس کا تعلق رحم سے ہوتا ہے ذی رحم میں بیٹا ، باپ ، بھائی چچا ، بھتیجا اور اسی قسم کے دوسرے قرابت دار شامل ہیں ” اور محرم ” اس قرابت دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز نہ ہو ۔

دوسرا اصول:

۔حضرت شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مرہ سے درخواست کی کہ بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی کوئی بات سنائیے۔ فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے مسلمان غلام کو آزاد کیا تو وہ غلام اس کے دوزخ سے چھٹکارے کا باعث ہوگا اس کی ہر ہڈی کے بدلہ میں (دوزخ کی آزادی کے لیے) کافی ہے اور جو دو مسلمان لونڈیوں کو آزاد کرے تو وہ دونوں باندیاں دوزخ سے اس کی خلاصی کا باعث ہوں گی ان میں سے ہر ایک کی دوہڈیوں کے بدلہ میں اس کی ایک ہڈی کافی ہوگی
۔
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب: غلام آزاد کرنے کا بیان۔ :غلام کو آزاد کرنا

اس فرمانِ عالی شان میں لوگوں کے لیئے آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور ایک مسلم کے لیئے سب سے پہلی ترجع آخرت ہی ہوتی ہے اس لیئے اس اصول کی وجہ سے بھی بہت سے غلام آزادی کی نعمت حاصل کر گے
۔
تیسرا اصول:۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب کسی شخص کی لونڈی اس کے ( نطفہ ) سے بچہ جنے تو وہ لونڈی اس شخص کے مرنے کے پیچھے ۔ یا یہ فرمایا کہ اس شخص کے مرنے کے بعد آزاد ہو جائے گی ۔ ” ( دارمی )
مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان :ام ولد ، اپنے آقا کی وفات کے بعد آزاد ہو جاتی ہے

یہ ایک ایسا سنہری اصول ہے کہ جس کی وجہ سے ہزاروں باندیاں آزادی حاصل کر گئیں اور آہستہ آہستہ انہی اصولوں کی بدولت غلامی والا سسٹم ختم ہوگیا ہے۔الحمدللہ

حدیث:۔


حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

Narrated ‘Abdullah:
The Prophet said, “Whoever carries arms against us, is not from us.”
صحیح بخاری:جلد سوم:باب:خون بہا کا بیان :اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔

تشریح:۔

بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ جس نے بھی مسلمانوں پر ہتھیار اٹھایا یعنی مسلمانوں کا قتل کیا، آجکل کچھ اس کی وباء کچھ زیادہ ہی پھیلی ہوئی ہے ایک کلمہ گو اپنے کلمہ گو بھائی کو ہی قتل کر رہا ہے اس بارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ::
:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (قاتل تو خیر دوزخ میں ہی ہونا چاہیے) لیکن مقتول کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا صحیح بخاری:جلد سوم::::

 اور یہ وقت شدید ترین فتنوں کا دور ہے ایک عام مسلمان سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ ہو کیا رہا ہے، اس وقت بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے سبھی فرقوں سے لاتعلق ہوجائے اور اپنے آپ کو ان فتنوں سے بچالے ورنہ اگر کسی بھی فرقے میں ہوا تو کل قیامت کے دن اسی فرقے کے ساتھ اس کا حشر ہوگا۔
اور اس وقت کے مطابق جوجامع حدیث ہمیں ملتی ہے اس کو پڑھتے ہیں۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا اس خوف سے کہیں وہ مجھے نہ پالے چنانچہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جاہلیت اور برائی میں تھے، اللہ نے ہمارے پاس یہ خیر بھیجی تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟

 آپ نے فرمایا کہ ہاں، میں نے پوچھا کہ اس شر کے بعد بھی خیر ہوگا، آپ نے فرمایا کہ ہاں اور اس میں کچھ دھواں ہوگا میں نے پوچھا کہ اس کا دھواں کیا ہوگا آپ نے فرمایا کہ وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ میرے طریقے کے خلاف چلیں گے ان کی بعض باتیں تو تمہیں اچھی نظر آئیں گی اور بعض باتیں بری نظر آئیں گی، میں نے پوچھا کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟

 آپ نے فرمایا ہاں، کچھ لوگ جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ اس کو جہنم میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ان لوگوں کی کچھ حالت ہم سے بیان فرمائیں، آپ نے فرمایا کہ وہ ہماری قوم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے میں نے عرض کیا کہ اگر میں وہ زمانہ نہ پالوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کیا حکم دیتے ہیں فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہو،
 میں نے کہا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہو تو فرمایا کہ ان تمام جماعتوں سے علیحدہ ہوجاؤ اگرچہ تجھے درخت کی جڑچبانی پڑے یہاں تک کہ اس حال میں تیری موت آجائے۔

صحیح بخاری:جلد سوم:باب: فتنوں کا بیان :جب جماعت نہ ہو تو کیونکر معاملہ طے ہو؟


حدیث:۔

عبداللہ رضی اللہ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو اپنے گا لوں کو پیٹے اور گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی پکار پکارے
(جاہلیت کی سی بات کرے)

Narrated ‘Abdullah:
The Prophet said, “He who slaps the cheeks, tears the clothes and follows the tradition of the Days of Ignorance is not from us.”
صحیح بخاری:جلد اول:باب:جنازوں کا بیان :وہ شخص ہم میں سے نہیں جو اپنے گا لوں کو پیٹے
۔
تشریح:۔

یعنی غم کے موقعہ پر ماتم کرنا، رخسار پر یا جسم پر ہاتھوں سے پیٹنا اور غم میں گریبان چاک کرنا اور ساتھ ساتھ جاہلیت کی باتیں کرنا مثلاً اکثر سننے میں آتا ہے کہ اگر کسی کا بھائی بیٹا یا کوئی عزیز رشتے دار فوت ہوجاتا ہے تو وہ غم میں بہت غلط باتیں اور بعض اقات کفریہ کلمات بولنا شروع ہو جاتا یا ہوجاتی ہے کہ یااللہ تم کو یہی ملا تھا مارنے کے لیئے، اس سے بھی زیادہ جاہلیت کی پکاریں سننے کو ملتی ہیں، اسی لیئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے ہمیں ایسی جاہلیت کی پکاریں پکارنے سے ہی منع کردیا ہے اور اگر کوئی پھر بھی کرتا ہے تو اس کو ڈر جانا چاہیئے کہ اس کا انجام بہت برُا ہے ایسے شخص کے لیئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔


حدیث:۔

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص لفظ امانت کی قسم کھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

Narrated Buraydah ibn al-Hasib:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: He who swears by Amanah (faithfulness) is not one of our number.
سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب: قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان :لفظ امانت پر قسم کھانے کا بیان

تشریح:۔

یہاں ایک بہت اہم اصول بتانا بھی مقصود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم    ہے اور وہ یہ کہ غیراللہ کی قسم نہ کھائی جائے اس فرمانِ عالی شان میں صرف ایک لفظ کا ذکر ہے باقی اسی موضوع کی احادیث بھی پیش خدمت کرتا ہوں ان شاءاللہ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اس وقت وہ گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنےباپ کی قسم کھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خبردار اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ جس شخص کو قسم کھانا ہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے
۔
صحیح بخاری:جلد سوم:باب:قسموں اور نذروں کا بیان :اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤ

عبداللہ بن دینار حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو جو قسم کھانا چاہے تو اسے اللہ کے سوا کسی کی قسم نہ کھانا چاہئے اور قریش اپنے باپ دادوں کی قسم کھاتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے باپ دادوں کی قسم نہ کھاؤ۔

صحیح بخاری:جلد دوم:باب:انبیاء علیہم السلام کا بیان :زمانہ جاہلیت کا بیان:: متفق علیہ::

حضرت سعید بن ابی عبید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا کہ۔ نہیں۔ قسم ہے کعبہ کی۔ (یعنی وہ کعبہ کی قسم کھا رہا تھا) تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ فرماتے تھے۔ جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا
۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب:قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان :باپ داداکی قسم کھانے کی ممانعت

ان واضح احکامات کے ہوتے ہمیں چاہیے کہ آئندہ ہم اللہ کے سواء کسی اور کی قسم نہ کھائیں مثلاً بعض لوگ انجانے میں قرآن،نبی، ولی،ماں باپ اور اولاد کی قسم کھاتے ہیں تو آئندہ سے پہلے کی معافی مانگیں اور دوبارہ کبھی بھی اللہ کے علاوہ کسی اور کی وؤقسم نہ کھائیں۔جزاک اللہ

حدیث:۔

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کو خوش آواز سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے اور دوسرے لوگوں نے اتنا زیادہ بیان کیا کہ اس کو زور سے نہیں پڑھتا۔

Narrated Abu Salama:
Abu Huraira said, “Allah’s Apostle said, ‘Whoever does not recite Qur’an in a nice voice is not from us,’ and others said extra,” (that means) to recite it aloud.”
صحیح بخاری:جلد سوم:باب:توحید کا بیان :اللہ کا قول کہ تم اپنی بات آہستہ آہستہ کرو یا زور سے بے شک اللہ دل کی باتوں کا جاننے والا ہے۔

تشریح:۔

یعنی کہ قرآن کی تلاوت اچھے لہجے میں نہیں کرتا بس اس کا مقصد ہو کہ کسی طرح قرآن کو ختم کرنا ہے اور جلدی جلدی میں تلاوت کرتے ہوئے الفاظ کی ادائیگی درست اور خوب صورت انداز میں نہیں کرتا ایسے شخص کے لیئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی وعید ہے، اس لیئے جب بھی تلاوت کرنے لگیں تو اچھے انداز میں اس کی تلاوت کریں بےشک چند آیات کی ہی تلاوت کریں مگر وہ ادا کرنا بہترین انداز میں ہو۔تلاوت کا اصل حق یہ ہے کہ ہم قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ اس مقدس کتاب میں اللہ نے ہمیں کیا کیا احکامات دیے ہیں تاکہ ہم ان احکامات پر عمل کر کے ایک بہترین معاشرے کو تشکیل دے سکیں۔

حدیث:۔

ابوہریرہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ایک ایسے آدمی کے پاس گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے اس سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح فروخت کرتے ہو اس نے آپ کو بتلا دیا (لیکن کچھ غلط بیانی سے بیان کیا) اس دوران آپ پر وحی نازل ہوئی کہ اپنا دست مبارک اس غلہ کے اندر داخل کریں جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس غلہ میں داخل کیا تو وہ اندر سے گیلا اور تر نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ملاوٹ اور دھوکہ دہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:خرید وفروخت کا بیان :ملاوٹ کی ممانعت کا بیان

تشریح:۔

اسلام کسی کو بھی دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دیتا ہے اسلام بہترین اصولِ زندگی دیتا ہے مگر افسوس کہ ہم لوگ اسلام کے اصولوں کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں فراڈ، دھوکہ دہی ایک عام رواج بن چکا ہے اب تو حالت یہ ہے کہ جو جتنا دھوکے باز ہوگا اتنا ہی اس کو قابل سمجھا جائے گا، مگر کسی کو دھوکہ دینا کسی مسلم کا کام نہیں ہے ایک سچا مسلم کبھی بھی ایسا کام نہیں کرئے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ اگر میں نے کسی کو دھوکہ دیا تو اس کی سزاء تو مجھے ملے گی ہی اس کے ساتھ مجھ پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ فرمان بھی چسپا ہوجائے گا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے اور کوئی بھی مسلم اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کی ذات پاک سے علیحدہ کرنا کسی بھی قیمت پر گوارہ نہیں
کرسکتا بےشک اس کے بدلے دنیا جہاں کی دولت ہی اس کو مل جائے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز نقص والی ہے تو اس کے نقص کو جان بھوج کر چھپایا جاتا ہے تاکہ کہیں وہ چیز فروخت ہونے سےروک نہ جائے،  اس لیئے  اس ڈر سے کہ ہماری چیز فروخت نہ ہوگی کسی کو بھی دھوکہ نہ دیں۔ ان چھوٹے چھوٹے مگر اپنے اندر لاکھوں بھلائیاں لیئے ہوئے اصولوں کو نہ توڑیں، آج امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی یہ حالت صرف اسی لیئے روباذوال ہے کہ ہم لوگوں نے اسلام کے بہترین اصولوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے نفسہ نفسی کا دور چل نکلا ہے۔
اللہ ہم کو اسلام کے اصولوں کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔

حدیث:۔

حضرت عبدالرحمن بن شماسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔۔۔۔۔۔حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے تیراندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے یا اس نے نافرمانی کی۔

It has been reported by ‘Abd al-Rahman b. Shamasa that Fuqaim al- Lakhmi said to Uqba b. Amir: You frequent between these two targets and you are an old man, so you will be finding it very hard. ‘Uqba said: But for a thing I heard from the Holy Prophet (may peace be upon him), I would not strain myself. Harith (one of the narrators in the chain of transmitters) said: I asked Ibn Shamasa: What was that He said that he (the Holy Prophet) said: Who learnt archery and then gave it up is not from us. or he has been guilty of disobedience (to Allah’s Apostle).
صحیح مسلم:جلد سوم:باب: امارت اور خلافت کا بیان :تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میں

تشریح:۔

اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہمارے لیئے نصیحت ہے کہ اگر کسی نے تیر اندازی سیکھی اور پھر اس کو چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں کیونکہ اس ہنر سے ہم دشمنانِ اسلام کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور تیراندازی میں نشانہ بازی بہت لازمی امر ہے ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ قوت تیراندازی میں ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ) کفار کے خلاف اپنی استطاعت کے مطابق قوت حاصل کرو سنو قوت تیر اندازی ہے سنو قوت تیراندازی ہے سنو قوت تیر اندازی ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:امارت اور خلافت کا بیان :تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میں

اب کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ آج کے دور میں تیر کی کیا اہمیت ہے اصل میں تیراندازی سے مراد نشانہ بازی سیکھنا ہے آج کے دور میں بندوق، توپ، ٹینک ہیں ان سب میں بھی اہمیت ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے ٹھیک نشانے پر وار کرنا اور یہ ایک ہنر ہے جو ہر بندوق چلانے والا نہیں جانتا، اس سارے عمل میں نشانہ بازی بہت اہمیت کی حامل ہے۔

حدیث:۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں تھی تو وہ ہم میں سے نہیں ہےاور وہ دوزخ کو اپنا ٹھکانہ بنالے۔

It was narrated from Abu Dharr that he heard the Messenger of Allah say: “Whoever claims something that does not belong to him; he is not one of us, so let him take his place in Hell.”
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب:فیصلوں کا بیان :پرائی چیز کا دعوی کرنا اور اس میں جھگڑا کرنا

تشریح:۔

یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   بالکل واضح ہے مگر افسوس کہ ہم اس برُے فعل کے بھی مرتکب بن جاتے ہیں آج آپ عدالتوں میں جاکر دیکھیں گے تو آپ کو زیادہ مقدمات ایسے ہی ملیں گے کہ کسی نے کسی کے حق کو دبانے کے لیئے اس کے حق پر دعویٰ کیا ہوا ہے جو شریف النفس لوگ ہوتے ہیں وہ اپنا حق ہوتے ہوئے بھی کھو دیتے ہیں اور جو بدمعاش، بددیانت، وڈیرے، چوہدری، حکومتی افسران ہوتے ہیں وہ لوگوں کا مالِ ناحق کھاتے ہیں ان پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں،  ۔جو ایسے کسی کا حق مارتے ہیں ان کو جان لینا چاہیئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسے لوگ ہم میں سے نہیں ہیں
۔
ایسے لوگوں کا حال ایک اور حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ
حضرت سالم اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بیان کیا کہ جو شخص زمین کا کوئی حصہ بھی ناحق لے گا (یعنی کسی کی زمین کا کوئی بھی قطعہ ازراہ ظلم وزبردستی لے گا) تو قیامت کے دن اسے زمین کے ساتویں طبقہ تک دھنسایا جائے گا ( بخاری)
مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:غصب اور عاریت کا بیان :زمین غصب کرنے کی سزا


حدیث:۔

حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مال لوٹنے (علانیہ زبردستی مال چھیننے یا اچکنے پر) ہاتھ نہیں کٹے گا اور جس شخص نے دھڑ لے سے کوئی چیز چھینی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

Narrated Jabir ibn Abdullah:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Cutting of hand is not to be inflicted on one who plunders, but he who plunders conspicuously does not belong to us.
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:سزاؤں کا بیان :کوئی چیز اچکنے اور امانت میں خیانت کرنے پر ہاتھ کاٹنے کا بیان

تشریح:۔

جیسے آجکل ڈاکوں لوگوں کو لوٹتے ہیں گو کہ ان کا ہاتھ نہ کاٹنے کا حکم ہیں مگر ان لٹیروں کے لیئے اس سے بھی بڑی سزاء رکھی گئی ہے یعنی کہ وہ ہم میں سے نہیں ہیں اگر کوئی صحیح مسلم ہوگا وہ ہرگز ایسا عمل نہیں کرئے گا کیونکہ وہ کسی طور بھی نہیں چاہے گا کہ اس کا ربط نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   سے ٹوٹے۔

حدیث:۔

حضرت عبداللہ بن عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کے حقوق کو نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:ادب کا بیان :رحمت وہمدردی کا بیان

تشریح:۔

اس فرمان میں چھوٹوں اور بڑوں دونوں کے لیئے نصیحت ہے کہ وہ ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں، بڑے چھوٹے بچوں پر ظلم نہ کریں ان کو بلاوجہ نہ ماریں، ان سے رحم کا رویہ اپنائے رکھیں الا یہ کہ بچے کچھ ایسا کریں جس پر مناسب مار جائز ہو مثلاً جب دس۱۰ سال کا بچہ ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو مناسب مار مارنا جائز عمل ہے۔
اور جھوٹوں کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ بڑوں کا ادب کریں ان کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں ان کے جائز احکام کو پورا کریں۔

حدیث:۔


حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت پر لڑائی کی وہ ہم میں سے نہیں جس کی موت عصبیت پر ہوئی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب: ادب کا بیان :عصبیت بالکل حرام ہے

تشریح:۔


یہ حدیث بہت جامع احکام لیئے ہوئے ہے اگر ان احکام پر عمل کیا جائے تو ہمارا ملک پاکستان ہی کیا پوری دنیا میں امن قائم ہوجائے مگر افسوس کہ ہم کلمہ پڑھنے والے اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کا دعویٰ کرنے والے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے احکامات کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں جس کی وجہ سے آپ ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہوچکے ہیں۔

عصبیت، تعصب ایک ایسا مرض ہے جس کو ختم کرنے کے لیئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس کے خلاف کافی ارشادات فرمائے ہیں۔

آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے تعصب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ
تعصب یہ ہے کہ آدمی (ناحق اور) ظلم میں اپنی قوم کا ساتھ دے۔سنن ابو داؤد

“عصبیت” کے معنی ہیں عصبی یا متعصب ہونا یعنی اپنے مذہب یا اپنے خیال کی پچ کرنا اور اپنی قوم کی قوت و سختی کے اظہار کے لیئے جدل و خصومت کرنا چنانچہ عصبہ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی بات یا اپنی قوم کی حمایت کرے اور یا اپنی قوم و جماعت کی بچ کے لیے غصہ ہو تعصب بھی اگر حق کے معاملہ میں ہو اور ظلم و تعدی کے ساتھ نہ ہو تو مستحسن ہے اگر تعصب کا تعلق حق بات کو نہ ماننے ،ظلم و تعدی اختیار کرنے اور اپنی قوت و شان و شوکت کے بیجا اظہار کی خاطر ہو تو مذموم ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خلیفہ کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا جو شخص اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے تلے عصبیت پر غصہ کرتے ہوئے مارا گیا اور وہ جنگ کرتا ہو عصبیت کے لئے تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے اور میری امت میں سے جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک اور برے کو قتل کرے مومن کا لحاظ کرے نہ کسی ذمی کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے تو وہ ہم میں سے نہیں۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب: امارت اور خلافت کا بیان :فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں

حدیث:۔

حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمام سانپوں کو قتل کیا کرو جو ان کے انتقام سے ڈرجائے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

Narrated Abdullah ibn Mas’ud:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Kill all the snakes, and he who fears their revenge does not belong to me.Narrated Abdullah ibn Abbas:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: He who leaves the snakes along through fear of their pursuit, does not belong to us. We have not made peace with them since we have fought with them.
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب: ادب کا بیان :سانپوں کے قتل کا بیان

تشریح:۔

آج کل بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سانپ کو ماریں تو اس کی بیوی سپنی انتقام لیتی ہے، اس حدیث میں اس توہم پرستانہ خیال کو باطل ثابت کرنے کے لیئے سانپوں کو ہلاک کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے اور فرمایا جو کوئی ان کے بدلہ سے خوف کرے گا اس کا تعلق ہم سے نہیں ہے۔


حدیث:۔

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مونچھ کے بال نہ کاٹےوہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن نسائی:جلد اول:باب:پاکی کا بیان :مونچھ کترنا

تشریح:۔

ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کا ارشاد مبارک ہے کہ اپنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم

ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ مشرکوں کی مخالفت کیا کرو مونچھیں کتروا کر اور داڑھی کو بڑھا کر۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم

لہذا ایک مسلم کو چاہیے کہ وہ اس حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی پاسداری کرتے ہوئے اور اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ان احکامات پر عمل کرئے کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن کسی کا دعویٰ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس کے منہ پر دے مارا جائے اور کہا جائے کہ تم تو ہم میں سے نہیں ہو۔


حدیث:۔

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ لے لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ یہ حدیث حضرت انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
جامع ترمذی:جلد اول:باب:جہاد کا بیان :اس بارے میں کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کچھ لینا مکروہ ہے

تشریح:۔

مالِ غنیمت یعنی جہاد کے دوران دشمنانِ اسلام سے ملنے والا مال و متاع، ایک اور حدیث میں اس کی کچھ تفصیل آئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں کھڑے ہو کر مال غنیمت میں خیانت کرنے کا تذکرہ کر کے اس کو بڑا بھاری گناہ ظاہر کر کے اور خیانت بڑا جرم بتا کر

 فرمایا مجھے قیامت کے دن کسی کو اس حالت میں دیکھنا محبوب نہیں کہ اس کی گردن پر میماتی ہوئی بکری سوار ہو اور اس کی گردن پر گھوڑا بیٹھا ہوا ہنہنا رہا ہو اور وہ کہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امداد فرمائیے تو میں کہہ دونگا کہ تیرے لیے مجھے کوئی اختیار نہیں ہے میں نے تجھے حکم الٰہی پہنچا دیا تھا اور اس کی گردن پر لدا ہوا اونٹ بلبلا رہا ہو وہ کہے یا رسول اللہ میری امداد فرمائیے تو میں کہہ دوں گا۔ میرے اختیار میں تیرے لیے کوئی چیز نہیں ہے اور اگر اس کی گردن پر سونا چاندی بلبلا رہے ہوں اور وہ مجھے کہے کہ یا رسول اللہ امداد فرمائیے تو میں کہہ دوں گا تیرے لیے میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے میں تو احکام الٰہی پہنچا چکا یا اس کی گردن پر کیڑے حرکت کر رہے ہوں اور وہ کہے یا رسول اللہ! میری فریاد رسی کیجئے تو میں کہوں گا تیرے لیے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا میں تو تجھے احکام الٰہی پہنچا چکا ہوں ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :مال غنیمت میں خیانت کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان جو شخص خیانت کرے گا تو بروز حشر اس چیز کو لاوے گا جس کی اس نے خیانت کی۔

حدیث:۔

حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ” وتر حق::واجب:: ہے لہٰذا جو آدمی وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے” ۔ (سنن ابوداؤد)
مشکوۃ شریف:جلد اول:باب: وتر کا بیان :وتر پڑھنے کی تاکید

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر
2519


تشریح:۔

ان احادیث میں وتر پڑھنے کی اہمیت ثابت ہوئی اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے وتر کی قضاء ادا کی،بعض لوگ عشاء کی نماز کے ساتھ وتر نہیں پڑھتے کہ انہوں نے تہجد کی نماز پڑھنی ہوتی ہےتو اگر بندے کو جاگ نہ آئے اور فجر کی نماز کا وقت ہوجائے تو بھی پہلے وتر ادا کرئے پھر فجر کی نماز اداکی جائے۔ اور سنت طریقہ بھی یہی ہے کہ وتر تہجد کے ساتھ پڑھے جائیں ایک اور حدیث میں ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہے یعنی کہ وتر پڑھنے کے بعد نفلی نماز بھی نہیں پڑھی جائے گی
،
حدیث:۔

حضرت ابونجیح روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نکاح کی قدرت رکھنے کے باوجود نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے
۔
سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر28

تشریح:۔

نکاح سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی ہے اور نفس کا حق بھی ہے اس سے اجتناب کرنا نفس پر ظلم کرنا ہے، اور بعض اوقات نکاح نہ کرنے کی وجہ سے بندہ فتنے میں پڑ جاتا ہے ، مگر اب ایک فرقہ ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جو نکاح نہ کرنے کو بہت افضیلت کا درجہ سمجھتا ہے مگر شاید وہ اسلام کی تعلیمات سے نابلد ہیں کہ وہ اتنا واضح حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہ جان سکے، نکاح کے فوائد بےشمار ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔

نکاح سنت سمجھ کر کرنے سے نیکی کا ملنا۔

نکاح سے نسلِ انسانی کی بقاء ہوتی ہے۔

نکاح کرنے والا مرد اور عورت بے شمار گناہوں سے بچ جاتے ہیں۔

نکاح کرنے والے اولاد جیسی نعمت پاتے ہیں۔

اولاد کی اچھی تربیت کرنے والے والدین کو اولاد کے ہر اچھے عمل کا برابر ثواب ملتا ہے بےشک وہ خود وفات بھی پا جائیں۔

حدیث:۔

ایک غفاری صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے زیرناف بال نہ کاٹے ناخن نہ تراشے اور مونچھیں نہ کاٹے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر
 3456


تشریح:۔


اسلام صفائی پسند دین ہے اور اسلام میں ایسے بےشمار احکامات ملتے ہیں جن میں صفائی ستھرائی کی طرف توجہ دی گئی ہے، ایک جگہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد مبارک ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، اس حدیث میں بھی جو احکام دیئے گے ہیں وہ انسان کے جسم کی صفائی کے متعلق ہیں لہذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ سنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرئے۔

حدیث:۔

حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قتل شبہ عمد کی دیت مغلظ ہے جیسے قتل عمد کی دیت ہوتی ہے البتہ شبہ عمد میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اور جو ہم پراسلحہ اٹھاتا ہے یا راستہ میں گھات لگاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 2576


حدیث:۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو ہم پر تیر اندازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 1100
INTERESTING FACTS ABOUT THE HOLY QURAN
  • The Holy Quran has 30 parts
  • The Holy Quran has 114 surahs
  • Bismillah Al-Rahman Al-Raheem is repeated 114 times in the Quran.
  • All except for Surat “Al Tawbah” start with Bismillah al-Rahman al-Raheem.
  • Surat “Al Namel, No. 27” has Bismillah Al-Rahman Al-Raheem in its body
  • Al-Baqarah is the longest surah in the Quran  
  • Al-Kawthar is the shortest surah in the Quran
  • Milk is the best drink mentioned in the Quran
  • Honey is the best food thing mentioned in the Quran
  • The best month is Ramadan
  • The best night is the Night of Power in Ramadan (Laylat al Qadr)
  • The most disliked thing by Allah, although being halal, is Divorce
  • Surat Yaseen is the HEART of the Quran
  • Surat Al-Ikhlas is considered 1/3 of the Quran
  • Quran was revealed over 23 years: 13 in Mecca and 10 in Madina
  • Surat Al-Dahr was revealed in respect to Ahlul Bayt (P)
  • Surat Al Nissa speaks about laws of marriage
  • Whoever reads one letter of the Quran gets 10 Rewards
  • Reading 1 verse in Ramadan is equal to reading the entire Quran in other months
  • Ramadan is the Spring of the Holy Quran
  • The Quran will intercede for people who recited it on Judgment Day
  • The Quran will complain of people who didn’t recite it on Judgment Day

The Amazing Facts Of Quran

Check this out, very interesting findings of Dr. Tariq Al Swaidan might
grasp your attention:

Dr.Tarig Al Swaidan discovered some verses in the Holy Qur'an that mention
one thing is equal to another, i.e. men are equal to women.


Although this makes sense grammatically, the astonishing fact is that the
number of times the
word man appears in the Qur'an is 24 and number of times the word woman
appears is also 24, therefore not only is this phrase correct in the
grammatical sense but also true mathematically, i.e. 24 = 24.


Upon further analysis of various verses, he discovered that this is
consistent throughout the whole Qur'an, where it says one thing is like
another. See below for astonishing result of the words mentioned number of
times in Arabic Qur'an:


Dunia (one name for life) 115. Aakhirat (one name for the life after this
world) 115
Malaika (Angels) 88 . Shayteen (Satan) 88
Life 145 .... Death 145
Benefit 50 . Corrupt 50
People 50 .. Messengers 50
Eblees (king of devils) 11 . Seek refuge from Eblees 11
Museebah (calamity) 75 . Thanks 75
Spending (Sadaqah) 73 . Satisfaction 73
People who are mislead 17 . Dead people 17
Muslimeen 41 . Jihad 41
Gold 8 . Easy life 8
Magic 60 . Fitnah (dissuasion, misleading) 60
Zakat (Taxes Muslims pay to the poor) 32 . Barakah (Increasing or blessings
of wealth) 32
Mind 49 . Noor 49
Tongue 25 . Sermon 25
Desite 8 . Fear 8
Speaking publicly 18 . Publicising 18
Hardship 114 .... Patience 114
Muhammed 4 . Sharee'ah (Muhammed's teachings) 4
Man 24. Woman 24

And amazingly enough have a look how many times the following words appear:


Salah 5, Month 12, Day 365,
Sea 32, Land 13


Sea + land = 32+13= 45


Sea = 32/45*100=71.11111111%
Land = 13/45*100 = 28.88888889%
Sea + land =100.00%


Modern science has only recently proven that the water covers 71.111% of the
earth, while the land covers 28.889%.


Is this a coincidence?

Question is that Who taught Prophet Muhammed (PBUH) all this?


Reply automatically comes in mind that ALMIGHTY ALLAH taught him this. As
the Qur'an also tells us this.

Wednesday, June 22, 2011

تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟





سورہ رحمٰن کی آیت نمبر 19،20،21
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ
اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں




بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ
دونوں میں ایک آڑ ہے کہ (اس سے) تجاوز نہیں کرسکتے


فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

Tuesday, June 21, 2011

معجزہ شبِ معراج اور نظریہ زماں و مکاں






شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ایک شب) میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا، پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرے سینہ کو چاک کیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر ایک طشت سونے کا حکم و ایمان سے بھرا ہوا لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، پھر سینے کو بند کر دیا۔ اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے آسمان پر چڑھا لے گئے تو جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ (دروازہ) کھول دو تو اس نے کہا یہ کون ہے؟ وہ بولے کہ یہ جبرائیل ہے۔ پھر اس نے کہا کیا تمہارے ساتھ کوئی (اور بھی) ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں! میرے ہمراہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر اس نے کہا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں پس جب دروازہ کھول دیا گیا تو ہم آسمان دنیا کے اوپر چڑھے، پس یکایک میری ایک ایسے شخص پر (نظر پڑی) جو بیٹھا ہوا تھا، اس کی دائیں جانب کچھ لوگ تھے اور اس کی بائیں جانب (بھی) کچھ لوگ تھے۔ جب وہ اپنے دائیں جانب دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو دیتے۔ پھر انھوں نے (مجھے دیکھ کر) کہا ”مرحبا (خوش آمدید) نیک پیغمبر اور نیک بیٹے ”میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور جو لوگ ان کے داہنے اور بائیں ہیں، ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ دائیں جانب جنت والے ہیں اور بائیں جانب دوزخ والے۔ اسی سبب سے جب وہ اپنی دائیں جانب نظر کرتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رونے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے دوسرے آسمان تک لے گئے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو تو ان سے داروغہ نے اسی قسم کی گفتگو کی جیسے پہلے نے کی تھی۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں میں آدم علیہ السلام، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہ السلام کو پایا اور (اور ان کے ٹھکانے بیان نہیں کیے، صرف اتنا کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا پر اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر پایا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا ”خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی۔“ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھے دیکھ کر کہا ”خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی“ میں نے (جبرائیل سے) پوچھا یہ کون ہیں؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں، پھر میں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا ”خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی“ میں نے پوچھا یہ کہ کون ہیں؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں، پھر میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس گزرا تو انھوں نے کہا ”خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بیٹے“ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ (راوی نے) کہا کہ سیدنا ابن عباس اور ابوحبہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایک ایسے بلند و بالا مقام پر پہنچا جہاں (فرشتوں کے) قلم (چلنے) کی آواز میں سنتا تھا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ پس میں ان کے ساتھ لوٹا یہاں تک کہ جب موسیٰ علیہ السلام پر گزرا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے (یہ سن کر) کہا اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے، اس لیے کہ آپ کی امت (اس قدر عبادت کی) طاقت نہیں رکھتی۔ پس میں لوٹ گیا تو اللہ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا اور کہا کہ اللہ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا ہے، پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اپنے پروردگار سے رجوع کیجئیے، کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی) طاقت نہیں رکھتی۔ پھر میں نے رجوع کیا تو اللہ نے ایک حصہ اس کا (اور) معاف کر دیا پھر میں ان کے پاس لوٹ کر آیا (اور بتایا) تو وہ بولے کہ آپ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی) طاقت نہیں رکھتی، چنانچہ میں نے پھر اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا: ”(اچھا) یہ پانچ (مقرر کی جاتی) ہیں اور یہ (درحقیقت باعتبار ثواب کے) پچاس ہیں اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔“ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا، تو انھوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار سے رجوع کیجئیے۔ میں نے کہا (اب) مجھے اپنے پروردگار سے (باربار کہتے ہوئے) شرم آتی ہے، (پھر جبرائیل مجھے لے کر چلے اور سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچایا) اور اس پر بہت سے رنگ چھا رہے تھے، (میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے)۔ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور وہاں کی مٹی مشک ہے۔
صحیح بخاری

شب معراج دیدار حق تعالیٰ

اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی، جنت و دوزخ کی، سدرۃ المنتہیٰ کی، عرش الٰہی کی سیر کروائی اور اللہ تعالیٰ نے جہاں تک چاہا آپ نے سیر فرمائی، اس کی قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ فرمایا اور دیدار پرانوار کی نعمت لازوال سے مشرف ہوئے۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے تفصیلی روایت منقول ہے روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو: حتی جاء سدرۃ المنتھیٰ ودنا للجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان منہ قاب قوسین او ادنی۔ یہاں تک کہ حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ پر آئے اور جبار رب العزت آپ کے قریب ہوا پھر اور قریب ہو ا یہاں تک کہ دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی زیادہ نزدیک۔ (صحیح بخاری شریف، ج 2، کتاب التوحید، ص 1120 ، حدیث نمبر: 6963

صحیح مسلم شریف میں روایت ہے: عن عبداللہ بن شقیق قال قلت لابی ذر لو رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لسألتہ فقال عن ای شیء کنت تسألہ قال کنت اسالہ ھل رایت ربک قال ابو ذر قد سالت فقال رایت نورا۔ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتا، انہوں نے کہا تم کس چیز کے متعلق سوال کرتے؟ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے آپ سے اس متعلق دریافت کیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا، وہ نور ہی نور تھا۔(صحیح مسلم، ج 2، کتاب الایمان، ص 99 ، حدیث نمبر: 262

جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے : عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رای محمد ربہ قلت الیس اللہ یقول لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار قال و یحک اذا تجلی بنورہ الذی ھو نورہ و قد راٰی محمد ربہ مرتین ھٰذا حدیث حسن غریب۔ عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، میں نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تم پر افسوس ہے، یہ اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اس کا نور ہے، یعنی غیر متناہی نور اور بے شک سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر: 3201

عن ابن عباس فی قول اللہ تعالیٰ و لقد راہ نزلۃ اخری عند سدرۃ المنتہیٰ فاوحی الی عندہ ما اوحیٰ فکان قاب قوسین او ادنی قال ابن عباس قد راہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ھٰذا حدیث حسن۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا: ’’بے شک انہوں نے اس کو دوسری بار ضرور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا تو اللہ نے اپنے خاص بندہ کی طرف وہ وحی نازل کی جو اس نے کی، پھر وہ دو کمانوںکی مقدار نزدیک ہوا یا اس سے زیادہ‘‘ حضرت ابن عباس نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر: 3202 )۔

مسند امام احمد میں یہ الفاظ مذکور ہیں: عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت ربی تبارک و تعالیٰ ۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا۔ یہ حدیث پاک مسند امام احمد میں دو جگہ مذکور ہے۔ (مسند امام احمد، حدیث نمبر: 2449-2502

از: حضرت مولانامفتی سیدضیاء الدین نقشبندی قادری

Sunday, June 19, 2011

دعوت تقویٰ

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيم

022:001


[جالندھری]‏ لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ ایک حادثہ عظیم ہو گا



Sahih International
O mankind, fear your Lord. Indeed, the convulsion of the [final] Hour is a terrible thing.



تفسیر ابن كثیر


دعوت تقویٰ



اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو تقوے کا حکم فرماتا ہے اور آنے والے دہشت ناک امور سے ڈرا رہا ہے خصوصاً قیامت کے زلزلے سے ۔

 اس سے مراد یا تو وہ زلزلہ ہے جو قیامت کے قائم ہونے کے درمیان آئے گا۔

 جیسے فرمان ہے آیت (اذا زلزلت الارض زلزالہا الخ)،زمین خوب اچھی طرح جھنجھوڑ دی جائے گی
۔
 اور فرمایا آیت (وحملت الارض والجبال فدکتا دکتہ واحدۃ الخ) یعنی زمین اور پہاڑ اٹھا کر باہم ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں گے
۔
 اور فرمان ہے آیت (اذا رجعت الارض رجا الخ) یعنی جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے
۔
 صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالٰی جب آسمان و زمین کو پیدا کرچکا تو صور کو پیدا کیا اسے حضرت اسرافیل کو دیا وہ اسے منہ میں لئے ہوئے آنکھیں اوپر کو اٹھائے ہوئے عرش کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم الٰہی ہو اور وہ صور پھونک دیں
۔
 ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صور کیا چیز ہے؟

 آپ نے فرمایا ایک پھونکنے کی چیز ہے بہت بری جس میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا

 پہلا نفخہ گھبراہٹ کا ہوگا

دوسرا بیہوشی کا

 تیسرا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا ۔


 حضرت اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہوگا وہ پھونکیں گے جس سے کل زمین وآسمان والے گھبرا اٹھیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے ۔ بغیر رکے ، بغیر سانس لئے بہت دیرتک برابر اسے پھونکتے رہیں گے
۔
اسی پہلے صور کا ذکر آیت (وما ینظر ہولاء الا صیحتہ واحدۃ مالہا من فواق) میں ہے اس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے زمین کپکپانے لگے گی
۔
 جیسے فرمان ہے آیت ((یوم ترجف الراجفتہ الخ) ، جب کہ زمین لرزنے لگے گی اور یکے بعد دیگرے زبردست جھٹکے لگیں گے

 دل دھڑکنے لگیں گے زمین کی وہ حالت ہوجائے گی جو کشتی کی طوفان میں اور گرداب میں ہوتی ہے یا جیسے کوئی قندیل عرش میں لٹک رہی ہو جسے ہوائیں چاروں طرف جھلارہی ہوں
۔
 آہ ! یہی وقت ہوگا کہ دودھ پلانے والیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی اور حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے اور بچے بوڑھے ہوجائیں گے شیاطین بھاگنے لگیں گے زمین کے کناروں تک پہنچ جائیں گے
 لیکن وہاں سے فرشتوں کی مار کھا کر لوٹ آئیں گے لوگ ادھر ادھر حیران پریشان زمین ایک طرف سے دوسرے کو آوازیں دینے لگیں گے اسی لئے اس دن کا نام قرآن نے یوم التناد رکھا
۔
 اسی وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت کی گھبراہٹ کا انداز نہیں ہوسکتا اب آسمان میں انقلابات ظاہر ہوں گے سورج چاند بےنور ہوجائیں گے ،

 ستارے جھڑنے لگیں گے اور کھال ادھڑنے لگے گی
۔
 زندہ لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ہاں مردہ لوگ اس سے بےخبر ہونگے آیت قرآن (فصعق من فی السموت ومن فی الارض الامن شاء اللہ) میں جن لوگوں کا استثناکیا گیا ہے کہ وہ بیہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں
۔
 یہ گھبراہٹ زندوں پر ہوگی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں
۔
 اللہ تعالٰی انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا ۔

 یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہوگا ۔ اسی کو اللہ تعالٰی اس سورت کی شروع کی آیتوں میں بیان فرماتا ہے
۔
 یہ حدیث طبرانی جریر ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے اور بہت مطول ہے اس حصے کو نقل کرنے سے یہاں مقصود یہ ہے کہ اس آیت میں جس زلزلے کا ذکر ہے یہ قیامت سے پہلے ہوگا۔ اور قیامت کی طرف اس کی اضافت بوجہ قرب اور نزدیکی کے ہے ۔ جیسے کہاجاتا ہے اشراط الساعۃ وغیرہ واللہ اعلم
۔
 یا اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جو قیام قیامت کے بعد میدان محشر میں ہوگا جب کہ لوگ قبروں سے نکل کرمیدان میں جمع ہوں گے
۔
 امام ابن جریر اسے پسند فرماتے ہیں اس کی دلیل میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں

 (١) حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے آپ کے اصحاب تیز تیز چل رہے تھے کہ آپ نے باآواز بلند ان دونوں آیتوں کی تلاوت کی ۔ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کان میں آواز پڑتے ہی وہ سب اپنی سواریاں لے کر آپ کے اردگرد جمع ہوگے کہ شاید آپ کچھ اور فرمائیں گے
۔
 آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کونسا دن ہوگا ؟

 یہ وہ دن ہوگا جس دن اللہ تعالٰی حضرت آدم علیہ السلام کو فرمائے گا کہ اے آدم جہنم کا حصہ نکال۔ وہ کہیں گے اے اللہ کتنوں میں سے کتنے ؟

 فرمائے گا ہرہزار میں سے نو سو نناوے جہنم کے لئے اور ایک جنت کے لئے
۔
 یہ سنتے ہی صحابہ کے دل دہل گئے، چپ لگ گئی آپ نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ غم نہ کرو، خوش ہوجاؤ، عمل کرتے رہو
۔
 اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے تمہارے ساتھ مخلوق کی وہ تعداد ہے کہ جس کے ساتھ ہو اسے بڑھا دے

 یعنی یاجوج ماجوج اور نبی آدم میں سے جو ہلاک ہوگئے اور ابلیس کی اولاد
۔ اب صحابہ کی گھبراہٹ کم ہوئی تو آپ نے فرمایا عمل کرتے رہو اور خوشخبری سنو اس کی قسم جس کے قبضہ میں محمد
( صلی اللہ علیہ وسلم )

 کی جان ہے

 تم تو اور لوگوں کے مقابلے پر ایسے ہی ہو جیسے اونٹ کے پہلوکا یا جانور کے ہاتھ کا داغ
۔
 اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ یہ آیت حالت سفر میں اتری۔ اس میں ہے کہ صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان سن کر رونے لگے آپ نے فرمایا قریب قریب رہو اور ٹھیک ٹھاک رہو ہر نبوت کے پہلے جاہلیت کا زمانہ رہا ہے وہی اس گنتی کو پوری کردے گا ورنہ منافقوں سے وہ گنتی پوری ہوگی
۔
 اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے تو امید ہے کہ اہل جنت کی چوتھائی صرف تم ہی ہوگے یہ سن کر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اللہ اکبر کہا ارشاد ہوا کہ عجب نہیں کہ تم تہائی ہو اس پر انہوں نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ تم ہی نصفا نصف ہوگے انہوں نے پھر تکبیر کہی
۔
 راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ پھر آپ نے دوتہائیاں بھی فرمائیں یانہیں؟

 اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں مدینے کے قریب پہنچ کر آپ نے تلاوت آیت شروع کی
۔
 ایک اور روایت میں ہے کہ جنوں اور انسانوں سے جو ہلاک ہوئے اور روایت میں ہے کہ تم تو ایک ہزار اجزا میں سے ایک جز ہی ہو
۔
 صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالٰی آدم علیہ السلام کو پکارے گا وہ جواب دیں گے


لبیک ربنا وسعدیک پھر آواز آئے گی کہ اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں جہنم کا حصہ نکال پوچھیں گے اللہ کتنا ؟

 حکم ہوگا ہرہزار میں سے نو سو نناوے اس وقت حاملہ کے حمل گرجائیں گے، بچے بوڑھے ہوجائیں گے ، اور لوگ حواس باختہ ہوجائیں گے کسی نشے سے نہیں بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی کی وجہ سے ۔
 یہ سن کر صحابہ کے چہرے متغیر ہوگئے تو آپ نے فرمایا یاجوج ماجوج میں سے نو سو ننانوے اور تم میں سے ایک۔ تم تو ایسے ہو جیسے سفید رنگ بیل کے چند سیاہ بال جو اس کے پہلو میں ہوں ۔ یامثل چند سفید بالوں کے جو سیاہ رنگ بیل کے پہلو میں ہوں

۔
 پھر فرمایا مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی گنتی میں تمہاری گنتی چوتھے حصے کی ہوگی ہم نے اس پر تکبیر کہی پھر فرمایا آدھی تعداد میں باقی سب اور آدھی تعداد صرف تمہاری
۔
 اور روایت میں ہے کہ تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدن بےختنہ حاضر کئے جاؤ گے
 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مرد عورتیں ایک ساتھ ؟

 ایک دوسرے پر نظریں پڑیں گی ؟

 آپ نے فرمایا عائشہ وہ وقت نہایت سخت اور خطرناک ہوگا ( بخاری ومسلم )
 مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا دوست اپنے

 دوست کو قیامت کے دن یاد کرے گا؟

 آپ نے فرمایا عائشہ تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا
۔
 اعمال کے تول کے وقت جب تک کمی زیادتی نہ معلوم ہوجائے
۔
 اعمال ناموں کے اڑائے جانے کے وقت جب تک دائیں بائیں ہاتھ میں نہ آجائیں
۔
 اس وقت جب کہ جہنم میں سے ایک گردن نکلے گی جو گھیرلے گی

 اور سخت غیظ وغضب میں ہوگی اور کہے گی میں تین قسم کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں

 ایک تو وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے رہتے ہیں

 دوسرے وہ جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتے

 اور تیسرے ہرسرکش ضدی متکبر پر پھر تو


 وہ انہیں سمیٹ لے گی اور چن چن کر اپنے پیٹ میں پہنچا دے گی

 جہنم پر پل صراط ہوگی جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہوگی اس پر آنکس اور کانٹے ہوں گے جسے اللہ چاہے پکڑ لے گی

اس پر سے گزرنے والے مثل بجلی کے ہوں گے مثل آنکھ جھپکنے کے مثل ہوا کے مثل تیزرفتار گھوڑوں اور اونٹوں کے فرشتے ہر طرف کھڑے دعائیں کرتے ہوں گے کہ اللہ سلامتی دے اللہ بچا دے پس بعض تو بالکل صحیح سالم گزر جائیں گے
 بعض کچھ چوٹ کھا کر بچ جائیں گے بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے

۔
 قیامت کے آثار میں اور اس کی ہولناکیوں میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ جن کی جگہ اور ہے ۔
 یہاں فرمایا قیامت کا زلزلہ نہایت خطرناک ہے بہت سخت ہے نہایت مہلک ہے دل دہلانے والا اور کلیجہ اڑانے والا ہے زلزلہ رعب وگھبراہٹ کے وقت دل کے ہلنے کو کہتے ہیں جیسے آیت میں ہے کہ اس میدان جنگ میں مومنوں کو مبتلا کیا گیا اور سخت جھنجھوڑ دئے گئے
۔
جب تم اسے دیکھوگے یہ ضمیرشان کی قسم سے ہے اسی لئے اس کے بعد اس کی تفسیر ہے کہ اس سختی کی وجہ سے دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور حاملہ کے حمل ساقط ہوجائیں گے۔ لوگ بدحواس ہوجائیں گے ایسے معلوم ہوں گے جیسے کوئی نشے میں بدمست ہو رہا ہو۔ دراصل وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی نے انہیں بےہوش کررکھاہوگا۔

Friday, June 17, 2011

باطل بےثبات ہے

أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا ۚ وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ ۚ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ
013:017
‏ [جالندھری]‏ اسی نے آسمان سے مینہ برسایا۔ پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے۔ پھر نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا۔ اور جس چیز کو زیور یا کوئی اور سامان بنانے کے لئے آگ میں تپاتے ہیں اس میں بھی ایسا ہی جھاگ ہوتا ہے۔ اس طرح خدا حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے۔ سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہوجاتا ہے اور (پانی) جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔ اس طرح (خدا) صحیح اور غلط کی) مثالیں بیان فرماتا ہے (تاکہ تم سمجھو
)
 
Sahih International
He sends down from the sky, rain, and valleys flow according to their capacity, and the torrent carries a rising foam. And from that [ore] which they heat in the fire, desiring adornments and utensils, is a foam like it. Thus Allah presents [the example of] truth and falsehood. As for the foam, it vanishes, [being] cast off; but as for that which benefits the people, it remains on the earth. Thus does Allah present examples.
 
 ‏
تفسیر ابن كثیر
 
 

حق وباطل کے فرق ، حق کی پائیداری اور باطل کی بےثباتی کی یہ دو مثالیں بیان فرمائیں ۔
 
 ارشاد ہوا کہ اللہ تعالٰی بادلوں سے مینہ برساتا ہے ، چشموں دریاؤں نالیوں وغیرہ کے ذریعے برسات کا پانی بہنے لگتا ہے ۔ کسی میں کم ، کسی میں زیادہ ، کوئی چھوٹی ، کوئی بڑی ۔
 
 یہ دلوں کی مثال ہے اور ان کے تفاوت کی ۔ کوئی آسمانی علم بہت زیادہ حاصل کرتا ہے کوئی کم ۔ پھر پانی کی اس رو پر جھاگ تیرنے لگتا ہے ۔ ایک مثال تو یہ ہوئی ۔
 
 دوسری مثال سونے چاندی لوہے تانبے کی ہے کہ اسے آگ میں تپایا جاتا ہے سونے چاندی زیور کے لئے لوہا تانبا برتن بھانڈے وغیرہ کے لئے ان میں بھی جھاگ ہوتے ہیں تو جیسے ان دونوں چیزوں کے جھاگ مٹ جاتے ہیں ،
 
 اسی طرح باطل جو کبھی حق پر چھا جاتا ہے ، آخر چھٹ جاتا ہے اور حق نتھر آتا ہے جیسے پانی نتھر کر صاف ہو کر رہ جاتا ہے اور جیسے چاندی سونا وغیرہ تپا کر کھوٹ سے الگ کر لئے جاتے ہیں ۔ اب سونے چاندی پانی وغیرہ سے تو دنیا نفع اٹھاتی رہتی ہے اور ان پر جو کھوٹ اور جھاگ آ گیا تھا، اس کا نام ونشان بھی نہیں رہتا ۔
 
 اللہ تعالٰی لوگوں کے سمجھانے کے لئے کتنی صاف صاف مثالیں بیان فرما رہا ہے ۔ کہ سوچیں سمجھیں ۔ جیسے فرمایا ہے کہ ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے بیان فرماتے ہیں لیکن اسے علماء خوب سمجھتے ہیں ۔
 
 بعض سلف کی سمجھ میں جو کوئی مثال نہیں آتی تھی تو وہ رونے لگتے تھے کیونکہ انہیں نہ سمجھنا علم سے خالی لوگوں کا وصف ہے ۔
 
 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلی مثال میں بیان ہے ان لوگوں کا جن کے دل یقین کے ساتھ علم الہٰی کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دل وہ بھی ہیں ، جن میں رشک باقی رہ جاتا ہے پس شک کے ساتھ کا علم بےسود ہوتا ہے ۔
 
 یقین پورا فائدہ دیتا ہے ۔ ابد سے مراد شک ہے جو کمتر چیز ہے ، یقین کار آمد چیز ہے ، جو باقی رہنے والی ہے ۔ جیسے زیور جو آگ میں تپایا جاتا ہے تو کھوٹ جل جاتا ہے اور کھری چیز رہ جاتی ہے ، اسی طرح اللہ کے ہاں یقین مقبول ہے شک مردود ہے ۔
 
 پس جس طرح پانی رہ گیا اور پینے وغیرہ کا کام آیا اور جس طرح سونا چاندی اصلی رہ گیا اور اس کے سازو سامان بنے ، اسی طرح نیک اور خالص اعمال عامل کو نفع دیتے ہیں اور باقی رہتے ہیں ۔ ہدایت وحق پر جو عامل رہے ، وہ نفع پاتا ہے جیسے لوہے کی چھری تلوار بغیر تپائے بن نہیں سکتی ۔ اسی طرح باطل ، شک اور ریاکاری والے اعمال اللہ کے ہاں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔
 
 قیامت کے دن باطل ضائع ہو جائے گا ۔ اور اہل حق کو حق نفع دے گا ۔
 
 سورہ بقرہ کے شروع میں منافقوں کی دو مثالیں اللہ رب العزت نے بیان فرمائیں ۔ ایک پانی کی ایک آگ کی ۔
 
 سورہ نور میں کافروں کی دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ ایک سراب یعنی ریت کی دوسری سمندر کی تہ کے اندھیروں کی ۔
 
 ریت کا میدان موسم گرما میں دور سے بالکل لہریں لیتا ہوا دریا کا پانی معلوم ہوتا ہے ۔
 
 چنانچہ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن یہودیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا مانگتے ہو ؟
 
 کہیں گے پیاسے ہو رہے ہیں ، پانی چاہئے تو ان سے کہا جائے گا کہ پھر جاتے کیوں نہیں ہو؟
 
 چنانچہ جہنم انہیں ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں ریتلے میدان ۔
 
 دوسری آیت میں فرمایا آیت (او کظلمات فی البحر لجی) الخ
 
 بخری ومسلم میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس ہدایت وعلم کے ساتھ اللہ تعالٰی نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی ۔ زمین کے ایک حصہ نے تو پانی کو قبول کیا ، گھاس چارہ بکثرت آ گیا ۔ بعض زمین جاذب تھی ،
 
 اس نے پانی کو روک لیا پس اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا ۔ پانی ان کے پینے کے ، پلانے کے ، کھیت کے کام آیا
 
 اور جو ٹکڑا زمین کا سنگلاخ اور سخت تھا نہ اس میں پانی ٹھیرا نہ وہاں کچھ بیداوار ہوئی ۔
 
 پس یہ اس کی مثال ہے جس نے دین میں سمجھ حاصل کی اور میری بعثت سے اللہ نے اسے فائدہ پہنچایا اس نے خود علم سیکھا دوسروں کو سکھایا
 
 اور مثال ہے اس کی جس نے اس کے لئے سر بھی نہ اٹھایا اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں
 
۔ پس وہ سنگلاخ زمین کی مثل ہے
 
 ایک اور حدیث میں ہے میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی جب آگ نے اپنے آس پاس کی جیزیں روشن کر دیں تو پتنگے اور پروانے وغیرہ کیڑے اس میں گر گر کر جان دینے لگے
 
 وہ انہیں ہر چند روکتا ہے لیکن بس پھر بھی وہ برابر گر رہے ہیں
 
 بالکل یہی مثال میری اور تمہاری ہے کہ میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں روکتا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ آگ سے پرے ہٹو لیکن تم میری نہیں سنتے، نہیں مانتے ، مجھ سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گرے چلے جاتے ہو ۔ پس حدیث میں بھی پانی اور آگ کی دونوں مثالیں آ چکی ہیں ۔

بجلی کر گرج

هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ
013:012
‏ [جالندھری]‏ اور وہی تو ہے جو تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے۔
 
 
 ‏
Sahih International
It is He who shows you lightening, [causing] fear and aspiration, and generates the heavy clouds.
 
 
تفسیر ابن كثیر
 
 
 
بجلی بھی اس کے حکم میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک سائل کے جواب میں کہا تھا کہ برق پانی ہے۔ مسافر اسے دیکھ کر اپنی ایذاء اور مشقت کے خوف سے گھبراتا ہے اور مقیم برکت ونفع کی امید پر رزق کی زیادتی کا لالچ کرتا ہے ، وہی بوجھل بادوں کو پیدا کرتا ہے جو بوجہ پانی کے بوجھ کے زمین کے قریب آ جاتے ہیں ۔ پس ان میں بوجھ پانی کا ہوتا ہے ۔
پھر فرمایا کہ کڑک بھی اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے ۔
 
 ایک اور جگہ ہے کہ ہر چیز اللہ کی تسبیح وحمد کرتی ہے ۔
 
 
 ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالٰی بادل پیدا کرتا ہے جو اچھی طرح بولتے ہیں اور ہنستے ہیں ۔ ممکن ہے بولنے سے مراد گرجنا اور ہنسنے سے مراد بجلی کا ظاہر ہونا ہے۔
 
 سعد بن ابراہیم کہتے ہیں اللہ تعالٰی بارش بھیجتا ہے اس سے اچھی بولی اور اس سے اچھی ہنسی والا کوئی اور نہیں ۔ اس کی ہنسی بجلی ہے اور اس کی گفتگو گرج ہے ۔
 
 محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ برق ایک فرشتہ ہے جس کے چار منہ ہیں ایک انسان جیسا ایک بیل جیسا ایک گدھے جیسا ، ایک شیر جیسا ، وہ جب دم ہلاتا ہے تو بجلی ظاہر ہوتی ہے
 
۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گرج کڑک کو سن کر یہ دعا پڑھتے

دعا(اللہم لا تقتلنا بغضبک ولا تہلکنا بعذابک وعافنا قیل ذالک )
(ترمذی)
 
 اور روایت میں یہ دعا ہے (سبحان من سبح الرعد بحمدہ)
 
 حضرت علی گرج سن کر پڑھتے سبحان من سبحت لہ
 
 ابن ابی زکریا فرماتے ہیں جو شخص گرج کڑک سن کر کہے دعا(سبحان اللہ وبحمدہ) اس پر بجلی نہیں گرے گی ۔
 
 عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ گرج کڑک کی آواز سن کر باتیں چھوڑ دیتے
 
 اور فرماتے دعا(سبحان اللہ الذی یسبح الرعد بحمدہ والملائکتہ من خیفتہ)
 
 اور فرماتے کہ اس آیت میں اور اس آواز میں زمین والوں کے لئے بہت تنزیر وعبرت ہے ۔
 
 مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمہارا رب العزت فرماتا ہے اگر میرے بندے میری پوری اطاعت کرتے تو راتوں کو بارشیں برساتا اور دن کو سورج چڑھاتا اور انہیں گرج کی آواز تک نہ سناتا ۔
 
 طبرانی میں ہے آپ فرماتے ہیں گرج سن کر اللہ کا ذکر کرو ۔ کیونکہ ذکر کرنے والوں پر کڑا کا نہیں گرتا
 
۔ وہ بجلی بھیجتا ہے جس پر چاہے اس پر گراتا ہے ۔ اسی لئے آخر زمانے میں بکثرت بجلیاں گریں گی ۔
 
 مسند کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے قریب بجلی بکثرت گرے گی یہاں تک کہ ایک شخص اپنی قوم سے آ کر پوچھے گا کہ صبح کس پر بجلی گری ؟
 
 وہ کہیں گے فلاں فلاں پر ۔
 
 ابو یعلی راوی ہیں آنحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک مغرور سردار کے بلانے کو بھیجا اس نے کہا کون رسول اللہ ؟
 
 اللہ سونے کا ہے یا چاندی کا ؟ یا پیتل کا ؟
 
 قاصد واپس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا کہ دیکھئے میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ متکبر،مغرور شخص ہے۔آپ اسے نہ بلوائیں آپ نے فرمایا دوبارہ جاؤ اور اس سے یہی کہو
 
 اس نے جا کر پھر بلایا لیکن اس ملعون نے یہی جواب اس مرتبہ بھی دیا۔
 
 قاصد نے واپس آ کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ نے تیسری مرتبہ بھیجا
 
 اب کی مرتبہ بھی اس نے پیغام سن کر وہی جواب دینا شروع کیا
 
 کہ ایک بادل اس کے سر پر آ گیا کڑکا اور اس میں سے بجلی گری اور اس کے سر سے کھوپڑی اڑا لی گئی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری ۔
 
 ایک روایت میں ہے کہ ایک یہودی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالٰی تانبے کا ہے یا موتی کا یا یاقوت کا ابھی اس کا سوال پورا نہ ہوا تھا جو بجلی گری اور وہ تباہ ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔
 
 قتادہ کہتے ہیں مذکور ہے کہ ایک شخص نے قرآن کو جھٹلایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کیا اسی وقت آسمان سے بجلی گری اور وہ ہلاک ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔
 
 اس آیت کے شان نزول میں عامر بن طفیل اور ازبد بن ربیعہ کا قصہ بھی بیان ہوتا ہے ۔ یہ دونوں سرداران عرب مدینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کو مان لیں گے لیکن اس شرط پر کہ ہمیں آدھوں آدھ کا شریک کر لیں ۔ آپ نے انہیں اس سے مایوس کر دیا تو عامر ملعون نے کہا واللہ میں سارے عرب کے میدان کو لشکروں سے بھر دوں گا آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے ،
 
 اللہ تجھے یہ وقت ہی نہیں دے گا پھر یہ دونوں مدینے میں ٹھرے رہے کہ موقعہ پا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غفلت میں قتل کر دیں چنانچہ ایک دن انہیں موقع مل گیا ایک نے تو آپ کو سامنے سے باتوں میں لگا لیا دوسرا تلوار تو لے پیچھے سے آ گیا لیکن اس حافظ حقیقی نے آپ کو ان کی شرارت سے بچا لیا ۔ اب یہاں سے نامراد ہو کر چلے اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے عرب کو آپ کے خلاف ابھارنے لگے اسی حال میں اربد پر آسمان سے بجلی گری اور اس کا کام تو تمام ہو گیا
 
 عامر طاعون کی گلٹی سے پکڑا گیا اور اسی میں بلک بلک کر جان دی اور اسی جیسوں کے بارے میں یہ آیت اتری کہ اللہ تعالٰی جس پر چاہے بجلی گراتا ہے ۔
 
 اربد کے بھائی لیبد نے اپنے بھائی کے اس واقعہ کو اشعار میں خوب بیان کیا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ عامر نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا؟
 
آپ نے فرمایا جو سب مسلمانوں کا حال وہی تیرا حال۔ اس نے کہا پھر تو میں مسلمان نہیں ہوتا ۔ اگر آپ کے بعد اس امر کا والی میں بنوں تو میں دین قبول کرتا ہوں ۔
 
 آپ نے فرمایا یہ امر خلافت نہ تیرے لئے ہے نہ تیری قوم کے لئے ہاں ہمارا لشکر تیری مدد پر ہو گا ۔ اس نے کہا اس کی مجھے ضرورت نہیں اب بھی نجدی لشکر میری پشت پناہی پر ہے مجھے تو کچے پکے کا مالک کر دیں تو میں دین اسلام قبول کر لوں ۔
 
 آپ نے فرمایا نہیں ۔ یہ دونوں آپ کے پاس سے چلے گئے ۔ عامر کہنے لگا واللہ میں مدینے کو چاروں طرف لشکروں سے محصور کر لوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تیرا یہ ارادہ پورا نہیں ہونے دے گا ۔ اب ان دونوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باتوں میں لگائے دوسرا تلوار سے آپ کا کام تمام کر دے ۔ پھر ان میں سے لڑے گا کون ؟
 
 زیادہ سے زیادہ دیت دے کر پیچھا چھٹ جائے گا ۔ اب یہ دونوں پھر آپ کے پاس آئے ۔ عامر نے کہا ذرا آپ اٹھ کر یہاں آئیے ۔ میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ اٹھے ، اس کے ساتھ چلے ، ایک دیوار تلے وہ باتیں کرنے لگا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پشت کی جانب پڑی تو آپ نے یہ حالت دیکھی اور وہاں سے لوٹ کر چلے آئے ۔
 
 اب یہ دونوں مدینے سے چلے حرہ راقم میں آ کر ٹھرے لیکن حضرت سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر رضی اللہ تعالٰی عنہ وہاں پہنچے اور انہیں وہاں سے نکالا ، راقم میں پہنچے ہی تھے جو اربد پر بجلی گری اس کا تو وہیں ڈھیر ہو گیا ۔
 
عامر یہاں سے بھاگ چلا لیکن دریح میں پہنچا تھا جو اسے طاعون کی گلٹی نکلی ۔ بنو سلول قبیلے کی ایک عورت کے ہاں یہ ٹھرا ۔ وہ کبھی کبھی اپنی گردن کی گلٹی کو دباتا اور تعجب سے کہتا یہ تو ایسی ہے جیسے اونٹ کی گلٹی ہوتی ہے ، افسوس میں سلولیہ عورت کے گھر پر مروں گا ۔ کیا اچھا ہوتا کہ میں اپنے گھر ہوتا ۔ آخر اس سے نہ رہا گیا ، گھوڑا منگوایا ، سوار ہوا اور چل دیا لیکن راستے ہی میں ہلاک ہو گیا
 
 پس ان کے بارے میں یہ آیتیں(اللہ یعلم سے من وال) تک نازل ہوئیں
 
 ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ذکر بھی ہے پھر اربد پر بجلی گرنے کا ذکر ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔ اس کی عظمت وتوحید کو نہیں مانتے ۔
 
 حالانکہ اللہ تعالٰی اپنے مخالفوں اور منکروں کو سخت سزا اور ناقابل برداشت عذاب کرنے والا ہے ۔
 
 پس یہ آیت مثل آیت (ومکروا مکرا ومکرنا مکرا وہم لا یشعرون) الخ کے ہے
 
 یعنی انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح کہ انہیں معلوم نہ ہو سکا ۔ اب تو خود دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟
 
 ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو غارت کر دیا ۔ اللہ سخت پکڑ کرنے والا ہے ۔ بہت قوی ہے ، پوری قوت وطاقت والا ہے ۔