بسم اللہ الرحمن الرحیم
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسا ایسا کام کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں، اس فقرے کی مراد مختلف علماء اور محدثین نے مختلف پیش کی ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہم اہل بیت میں سے نہیں ہیں، بعض نے کہا اس سے مراد مسلمانوں میں سے نہیں ہے، بعض نے کہا کہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے اور بعض نے کہا کہ وہ ہماری جماعت میں سے نہیں ہے، اب ان مفاہیم میں سے کوئی بھی فہم لیا جائے تو بھی بہت خطرناک معاملہ بنتا ہے اس لیئے اپنی اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ان سبھی برُے کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی ہمارے اعمال میں موجود نہیں رہنا چاہیئے کہ کہیں اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زَد میں ہماری ذات نہ آ جائے کہ
وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ویسے جہاں تک میں اس کو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر موقعہ پر اس کا معنی اور مفہوم بدل جاتا ہے یعنی جہاں معاملہ سنگین ہو وہاں اس کا معنی بھی سنگین ہوگا یعنی وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جہاں معاملہ ہلکی نوعیت کا ہوگا وہاں معنی بھی ہلکا ہوگا یعنی وہ ہماری سنت پر نہیں ہے، باقی صحیح معنی اور مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے
۔
حدیث:۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام کو اس کے آقا سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب:طلاق کا بیان :عورت کو مرد کے خلاف برگشتہ کرنا
تشریح:۔
یہ ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوسکتا تھا اسی لیئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا کہ کوئی بھی اگر کسی عورت کو اس کے شوہر سے بدظن کرئے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسا فرما کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس گٹیا فعل سے روکا ہے اب جو کوئی بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کرتا ہوگا وہ کبھی بھی ایسا عمل نہیں کرئے گا کیونکہ اس کی وعید بہت سخت ہے اور دوسرا آقا کو غلام سے بدظن کرنے والے کے متعلق ہے،الحمدللہ کہ اسلام کی برکت سے آج غلام اور آقا کا نظام ختم ہوچکا ہے، اسلام نے ایسے اچھے اچھے اصول وضع کیئے تھے کہ جن کی وجہ سے غلاموں کی نسل ختم ہوتے ہوتے ایک مہذب شہری کی حیثیت میں بدل گئی ہے مثلاً ان اصولوں میں سے کچھ یہ ہیں
۔
پہلا اصول:۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا جو ::ذی رحم::محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ رشتہ دار آزاد ہے۔
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب:غلام آزاد کرنے کا بیان۔ :جومحرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تو وہ (رشتہ دار) آزاد ہے۔
مثلاً باپ نے اپنے اس بیٹے کو خریدا جو کسی دوسرے شخص کی غلامی میں تھا یا بیٹے نے اپنے غلام باپ کو خریدا یا بھائی نے غلام خریدا تو محض خرید لینے کی وجہ سے وہ غلام آزاد ہو جائے گا ۔
” ذی رحم ” اس قرابت دار کو کہتے ہیں جو ولادت کی قرابت رکھے جس کا تعلق رحم سے ہوتا ہے ذی رحم میں بیٹا ، باپ ، بھائی چچا ، بھتیجا اور اسی قسم کے دوسرے قرابت دار شامل ہیں ” اور محرم ” اس قرابت دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز نہ ہو ۔
دوسرا اصول:
۔حضرت شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مرہ سے درخواست کی کہ بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی بات سنائیے۔ فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے مسلمان غلام کو آزاد کیا تو وہ غلام اس کے دوزخ سے چھٹکارے کا باعث ہوگا اس کی ہر ہڈی کے بدلہ میں (دوزخ کی آزادی کے لیے) کافی ہے اور جو دو مسلمان لونڈیوں کو آزاد کرے تو وہ دونوں باندیاں دوزخ سے اس کی خلاصی کا باعث ہوں گی ان میں سے ہر ایک کی دوہڈیوں کے بدلہ میں اس کی ایک ہڈی کافی ہوگی
۔
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب: غلام آزاد کرنے کا بیان۔ :غلام کو آزاد کرنا
اس فرمانِ عالی شان میں لوگوں کے لیئے آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور ایک مسلم کے لیئے سب سے پہلی ترجع آخرت ہی ہوتی ہے اس لیئے اس اصول کی وجہ سے بھی بہت سے غلام آزادی کی نعمت حاصل کر گے
۔
تیسرا اصول:۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب کسی شخص کی لونڈی اس کے ( نطفہ ) سے بچہ جنے تو وہ لونڈی اس شخص کے مرنے کے پیچھے ۔ یا یہ فرمایا کہ اس شخص کے مرنے کے بعد آزاد ہو جائے گی ۔ ” ( دارمی )
مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان :ام ولد ، اپنے آقا کی وفات کے بعد آزاد ہو جاتی ہے
یہ ایک ایسا سنہری اصول ہے کہ جس کی وجہ سے ہزاروں باندیاں آزادی حاصل کر گئیں اور آہستہ آہستہ انہی اصولوں کی بدولت غلامی والا سسٹم ختم ہوگیا ہے۔الحمدللہ
حدیث:۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
Narrated ‘Abdullah:
The Prophet said, “Whoever carries arms against us, is not from us.”
صحیح بخاری:جلد سوم:باب:خون بہا کا بیان :اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔
تشریح:۔
بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ جس نے بھی مسلمانوں پر ہتھیار اٹھایا یعنی مسلمانوں کا قتل کیا، آجکل کچھ اس کی وباء کچھ زیادہ ہی پھیلی ہوئی ہے ایک کلمہ گو اپنے کلمہ گو بھائی کو ہی قتل کر رہا ہے اس بارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ::
:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (قاتل تو خیر دوزخ میں ہی ہونا چاہیے) لیکن مقتول کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا صحیح بخاری:جلد سوم::::
اور یہ وقت شدید ترین فتنوں کا دور ہے ایک عام مسلمان سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ ہو کیا رہا ہے، اس وقت بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے سبھی فرقوں سے لاتعلق ہوجائے اور اپنے آپ کو ان فتنوں سے بچالے ورنہ اگر کسی بھی فرقے میں ہوا تو کل قیامت کے دن اسی فرقے کے ساتھ اس کا حشر ہوگا۔
اور اس وقت کے مطابق جوجامع حدیث ہمیں ملتی ہے اس کو پڑھتے ہیں۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا اس خوف سے کہیں وہ مجھے نہ پالے چنانچہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جاہلیت اور برائی میں تھے، اللہ نے ہمارے پاس یہ خیر بھیجی تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟
آپ نے فرمایا کہ ہاں، میں نے پوچھا کہ اس شر کے بعد بھی خیر ہوگا، آپ نے فرمایا کہ ہاں اور اس میں کچھ دھواں ہوگا میں نے پوچھا کہ اس کا دھواں کیا ہوگا آپ نے فرمایا کہ وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ میرے طریقے کے خلاف چلیں گے ان کی بعض باتیں تو تمہیں اچھی نظر آئیں گی اور بعض باتیں بری نظر آئیں گی، میں نے پوچھا کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟
آپ نے فرمایا ہاں، کچھ لوگ جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ اس کو جہنم میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ان لوگوں کی کچھ حالت ہم سے بیان فرمائیں، آپ نے فرمایا کہ وہ ہماری قوم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے میں نے عرض کیا کہ اگر میں وہ زمانہ نہ پالوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کیا حکم دیتے ہیں فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہو،
میں نے کہا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہو تو فرمایا کہ ان تمام جماعتوں سے علیحدہ ہوجاؤ اگرچہ تجھے درخت کی جڑچبانی پڑے یہاں تک کہ اس حال میں تیری موت آجائے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:باب: فتنوں کا بیان :جب جماعت نہ ہو تو کیونکر معاملہ طے ہو؟
حدیث:۔
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو اپنے گا لوں کو پیٹے اور گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی پکار پکارے
(جاہلیت کی سی بات کرے)
Narrated ‘Abdullah:
The Prophet said, “He who slaps the cheeks, tears the clothes and follows the tradition of the Days of Ignorance is not from us.”
صحیح بخاری:جلد اول:باب:جنازوں کا بیان :وہ شخص ہم میں سے نہیں جو اپنے گا لوں کو پیٹے
۔
تشریح:۔
یعنی غم کے موقعہ پر ماتم کرنا، رخسار پر یا جسم پر ہاتھوں سے پیٹنا اور غم میں گریبان چاک کرنا اور ساتھ ساتھ جاہلیت کی باتیں کرنا مثلاً اکثر سننے میں آتا ہے کہ اگر کسی کا بھائی بیٹا یا کوئی عزیز رشتے دار فوت ہوجاتا ہے تو وہ غم میں بہت غلط باتیں اور بعض اقات کفریہ کلمات بولنا شروع ہو جاتا یا ہوجاتی ہے کہ یااللہ تم کو یہی ملا تھا مارنے کے لیئے، اس سے بھی زیادہ جاہلیت کی پکاریں سننے کو ملتی ہیں، اسی لیئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایسی جاہلیت کی پکاریں پکارنے سے ہی منع کردیا ہے اور اگر کوئی پھر بھی کرتا ہے تو اس کو ڈر جانا چاہیئے کہ اس کا انجام بہت برُا ہے ایسے شخص کے لیئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حدیث:۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص لفظ امانت کی قسم کھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
Narrated Buraydah ibn al-Hasib:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: He who swears by Amanah (faithfulness) is not one of our number.
سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب: قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان :لفظ امانت پر قسم کھانے کا بیان
تشریح:۔
یہاں ایک بہت اہم اصول بتانا بھی مقصود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور وہ یہ کہ غیراللہ کی قسم نہ کھائی جائے اس فرمانِ عالی شان میں صرف ایک لفظ کا ذکر ہے باقی اسی موضوع کی احادیث بھی پیش خدمت کرتا ہوں ان شاءاللہ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اس وقت وہ گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنےباپ کی قسم کھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خبردار اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ جس شخص کو قسم کھانا ہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے
۔
صحیح بخاری:جلد سوم:باب:قسموں اور نذروں کا بیان :اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤ
عبداللہ بن دینار حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو جو قسم کھانا چاہے تو اسے اللہ کے سوا کسی کی قسم نہ کھانا چاہئے اور قریش اپنے باپ دادوں کی قسم کھاتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے باپ دادوں کی قسم نہ کھاؤ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:انبیاء علیہم السلام کا بیان :زمانہ جاہلیت کا بیان:: متفق علیہ::
حضرت سعید بن ابی عبید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا کہ۔ نہیں۔ قسم ہے کعبہ کی۔ (یعنی وہ کعبہ کی قسم کھا رہا تھا) تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ فرماتے تھے۔ جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا
۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب:قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان :باپ داداکی قسم کھانے کی ممانعت
ان واضح احکامات کے ہوتے ہمیں چاہیے کہ آئندہ ہم اللہ کے سواء کسی اور کی قسم نہ کھائیں مثلاً بعض لوگ انجانے میں قرآن،نبی، ولی،ماں باپ اور اولاد کی قسم کھاتے ہیں تو آئندہ سے پہلے کی معافی مانگیں اور دوبارہ کبھی بھی اللہ کے علاوہ کسی اور کی وؤقسم نہ کھائیں۔جزاک اللہ
حدیث:۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کو خوش آواز سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے اور دوسرے لوگوں نے اتنا زیادہ بیان کیا کہ اس کو زور سے نہیں پڑھتا۔
Narrated Abu Salama:
Abu Huraira said, “Allah’s Apostle said, ‘Whoever does not recite Qur’an in a nice voice is not from us,’ and others said extra,” (that means) to recite it aloud.”
صحیح بخاری:جلد سوم:باب:توحید کا بیان :اللہ کا قول کہ تم اپنی بات آہستہ آہستہ کرو یا زور سے بے شک اللہ دل کی باتوں کا جاننے والا ہے۔
تشریح:۔
یعنی کہ قرآن کی تلاوت اچھے لہجے میں نہیں کرتا بس اس کا مقصد ہو کہ کسی طرح قرآن کو ختم کرنا ہے اور جلدی جلدی میں تلاوت کرتے ہوئے الفاظ کی ادائیگی درست اور خوب صورت انداز میں نہیں کرتا ایسے شخص کے لیئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وعید ہے، اس لیئے جب بھی تلاوت کرنے لگیں تو اچھے انداز میں اس کی تلاوت کریں بےشک چند آیات کی ہی تلاوت کریں مگر وہ ادا کرنا بہترین انداز میں ہو۔تلاوت کا اصل حق یہ ہے کہ ہم قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ اس مقدس کتاب میں اللہ نے ہمیں کیا کیا احکامات دیے ہیں تاکہ ہم ان احکامات پر عمل کر کے ایک بہترین معاشرے کو تشکیل دے سکیں۔
حدیث:۔
ابوہریرہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح فروخت کرتے ہو اس نے آپ کو بتلا دیا (لیکن کچھ غلط بیانی سے بیان کیا) اس دوران آپ پر وحی نازل ہوئی کہ اپنا دست مبارک اس غلہ کے اندر داخل کریں جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس غلہ میں داخل کیا تو وہ اندر سے گیلا اور تر نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ملاوٹ اور دھوکہ دہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:خرید وفروخت کا بیان :ملاوٹ کی ممانعت کا بیان
تشریح:۔
اسلام کسی کو بھی دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دیتا ہے اسلام بہترین اصولِ زندگی دیتا ہے مگر افسوس کہ ہم لوگ اسلام کے اصولوں کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں فراڈ، دھوکہ دہی ایک عام رواج بن چکا ہے اب تو حالت یہ ہے کہ جو جتنا دھوکے باز ہوگا اتنا ہی اس کو قابل سمجھا جائے گا، مگر کسی کو دھوکہ دینا کسی مسلم کا کام نہیں ہے ایک سچا مسلم کبھی بھی ایسا کام نہیں کرئے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ اگر میں نے کسی کو دھوکہ دیا تو اس کی سزاء تو مجھے ملے گی ہی اس کے ساتھ مجھ پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھی چسپا ہوجائے گا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے اور کوئی بھی مسلم اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک سے علیحدہ کرنا کسی بھی قیمت پر گوارہ نہیں
کرسکتا بےشک اس کے بدلے دنیا جہاں کی دولت ہی اس کو مل جائے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز نقص والی ہے تو اس کے نقص کو جان بھوج کر چھپایا جاتا ہے تاکہ کہیں وہ چیز فروخت ہونے سےروک نہ جائے، اس لیئے اس ڈر سے کہ ہماری چیز فروخت نہ ہوگی کسی کو بھی دھوکہ نہ دیں۔ ان چھوٹے چھوٹے مگر اپنے اندر لاکھوں بھلائیاں لیئے ہوئے اصولوں کو نہ توڑیں، آج امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حالت صرف اسی لیئے روباذوال ہے کہ ہم لوگوں نے اسلام کے بہترین اصولوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے نفسہ نفسی کا دور چل نکلا ہے۔
اللہ ہم کو اسلام کے اصولوں کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔
حدیث:۔
حضرت عبدالرحمن بن شماسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔۔۔۔۔۔حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے تیراندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے یا اس نے نافرمانی کی۔
It has been reported by ‘Abd al-Rahman b. Shamasa that Fuqaim al- Lakhmi said to Uqba b. Amir: You frequent between these two targets and you are an old man, so you will be finding it very hard. ‘Uqba said: But for a thing I heard from the Holy Prophet (may peace be upon him), I would not strain myself. Harith (one of the narrators in the chain of transmitters) said: I asked Ibn Shamasa: What was that He said that he (the Holy Prophet) said: Who learnt archery and then gave it up is not from us. or he has been guilty of disobedience (to Allah’s Apostle).
صحیح مسلم:جلد سوم:باب: امارت اور خلافت کا بیان :تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میں
تشریح:۔
اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہمارے لیئے نصیحت ہے کہ اگر کسی نے تیر اندازی سیکھی اور پھر اس کو چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں کیونکہ اس ہنر سے ہم دشمنانِ اسلام کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور تیراندازی میں نشانہ بازی بہت لازمی امر ہے ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ قوت تیراندازی میں ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ) کفار کے خلاف اپنی استطاعت کے مطابق قوت حاصل کرو سنو قوت تیر اندازی ہے سنو قوت تیراندازی ہے سنو قوت تیر اندازی ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:امارت اور خلافت کا بیان :تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میں
اب کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ آج کے دور میں تیر کی کیا اہمیت ہے اصل میں تیراندازی سے مراد نشانہ بازی سیکھنا ہے آج کے دور میں بندوق، توپ، ٹینک ہیں ان سب میں بھی اہمیت ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے ٹھیک نشانے پر وار کرنا اور یہ ایک ہنر ہے جو ہر بندوق چلانے والا نہیں جانتا، اس سارے عمل میں نشانہ بازی بہت اہمیت کی حامل ہے۔
حدیث:۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں تھی تو وہ ہم میں سے نہیں ہےاور وہ دوزخ کو اپنا ٹھکانہ بنالے۔
It was narrated from Abu Dharr that he heard the Messenger of Allah say: “Whoever claims something that does not belong to him; he is not one of us, so let him take his place in Hell.”
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب:فیصلوں کا بیان :پرائی چیز کا دعوی کرنا اور اس میں جھگڑا کرنا
تشریح:۔
یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالکل واضح ہے مگر افسوس کہ ہم اس برُے فعل کے بھی مرتکب بن جاتے ہیں آج آپ عدالتوں میں جاکر دیکھیں گے تو آپ کو زیادہ مقدمات ایسے ہی ملیں گے کہ کسی نے کسی کے حق کو دبانے کے لیئے اس کے حق پر دعویٰ کیا ہوا ہے جو شریف النفس لوگ ہوتے ہیں وہ اپنا حق ہوتے ہوئے بھی کھو دیتے ہیں اور جو بدمعاش، بددیانت، وڈیرے، چوہدری، حکومتی افسران ہوتے ہیں وہ لوگوں کا مالِ ناحق کھاتے ہیں ان پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں، ۔جو ایسے کسی کا حق مارتے ہیں ان کو جان لینا چاہیئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسے لوگ ہم میں سے نہیں ہیں
۔
ایسے لوگوں کا حال ایک اور حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ
حضرت سالم اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بیان کیا کہ جو شخص زمین کا کوئی حصہ بھی ناحق لے گا (یعنی کسی کی زمین کا کوئی بھی قطعہ ازراہ ظلم وزبردستی لے گا) تو قیامت کے دن اسے زمین کے ساتویں طبقہ تک دھنسایا جائے گا ( بخاری)
مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:غصب اور عاریت کا بیان :زمین غصب کرنے کی سزا
حدیث:۔
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مال لوٹنے (علانیہ زبردستی مال چھیننے یا اچکنے پر) ہاتھ نہیں کٹے گا اور جس شخص نے دھڑ لے سے کوئی چیز چھینی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
Narrated Jabir ibn Abdullah:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Cutting of hand is not to be inflicted on one who plunders, but he who plunders conspicuously does not belong to us.
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:سزاؤں کا بیان :کوئی چیز اچکنے اور امانت میں خیانت کرنے پر ہاتھ کاٹنے کا بیان
تشریح:۔
جیسے آجکل ڈاکوں لوگوں کو لوٹتے ہیں گو کہ ان کا ہاتھ نہ کاٹنے کا حکم ہیں مگر ان لٹیروں کے لیئے اس سے بھی بڑی سزاء رکھی گئی ہے یعنی کہ وہ ہم میں سے نہیں ہیں اگر کوئی صحیح مسلم ہوگا وہ ہرگز ایسا عمل نہیں کرئے گا کیونکہ وہ کسی طور بھی نہیں چاہے گا کہ اس کا ربط نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹے۔
حدیث:۔
حضرت عبداللہ بن عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کے حقوق کو نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:ادب کا بیان :رحمت وہمدردی کا بیان
تشریح:۔
اس فرمان میں چھوٹوں اور بڑوں دونوں کے لیئے نصیحت ہے کہ وہ ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں، بڑے چھوٹے بچوں پر ظلم نہ کریں ان کو بلاوجہ نہ ماریں، ان سے رحم کا رویہ اپنائے رکھیں الا یہ کہ بچے کچھ ایسا کریں جس پر مناسب مار جائز ہو مثلاً جب دس۱۰ سال کا بچہ ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو مناسب مار مارنا جائز عمل ہے۔
اور جھوٹوں کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ بڑوں کا ادب کریں ان کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں ان کے جائز احکام کو پورا کریں۔
حدیث:۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت پر لڑائی کی وہ ہم میں سے نہیں جس کی موت عصبیت پر ہوئی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب: ادب کا بیان :عصبیت بالکل حرام ہے
تشریح:۔
یہ حدیث بہت جامع احکام لیئے ہوئے ہے اگر ان احکام پر عمل کیا جائے تو ہمارا ملک پاکستان ہی کیا پوری دنیا میں امن قائم ہوجائے مگر افسوس کہ ہم کلمہ پڑھنے والے اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ کرنے والے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے احکامات کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں جس کی وجہ سے آپ ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہوچکے ہیں۔
عصبیت، تعصب ایک ایسا مرض ہے جس کو ختم کرنے کے لیئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے خلاف کافی ارشادات فرمائے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعصب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
تعصب یہ ہے کہ آدمی (ناحق اور) ظلم میں اپنی قوم کا ساتھ دے۔سنن ابو داؤد
“عصبیت” کے معنی ہیں عصبی یا متعصب ہونا یعنی اپنے مذہب یا اپنے خیال کی پچ کرنا اور اپنی قوم کی قوت و سختی کے اظہار کے لیئے جدل و خصومت کرنا چنانچہ عصبہ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی بات یا اپنی قوم کی حمایت کرے اور یا اپنی قوم و جماعت کی بچ کے لیے غصہ ہو تعصب بھی اگر حق کے معاملہ میں ہو اور ظلم و تعدی کے ساتھ نہ ہو تو مستحسن ہے اگر تعصب کا تعلق حق بات کو نہ ماننے ،ظلم و تعدی اختیار کرنے اور اپنی قوت و شان و شوکت کے بیجا اظہار کی خاطر ہو تو مذموم ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خلیفہ کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا جو شخص اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے تلے عصبیت پر غصہ کرتے ہوئے مارا گیا اور وہ جنگ کرتا ہو عصبیت کے لئے تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے اور میری امت میں سے جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک اور برے کو قتل کرے مومن کا لحاظ کرے نہ کسی ذمی کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے تو وہ ہم میں سے نہیں۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب: امارت اور خلافت کا بیان :فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
حدیث:۔
حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمام سانپوں کو قتل کیا کرو جو ان کے انتقام سے ڈرجائے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
Narrated Abdullah ibn Mas’ud:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Kill all the snakes, and he who fears their revenge does not belong to me.Narrated Abdullah ibn Abbas:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: He who leaves the snakes along through fear of their pursuit, does not belong to us. We have not made peace with them since we have fought with them.
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب: ادب کا بیان :سانپوں کے قتل کا بیان
تشریح:۔
آج کل بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سانپ کو ماریں تو اس کی بیوی سپنی انتقام لیتی ہے، اس حدیث میں اس توہم پرستانہ خیال کو باطل ثابت کرنے کے لیئے سانپوں کو ہلاک کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے اور فرمایا جو کوئی ان کے بدلہ سے خوف کرے گا اس کا تعلق ہم سے نہیں ہے۔
حدیث:۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مونچھ کے بال نہ کاٹےوہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن نسائی:جلد اول:باب:پاکی کا بیان :مونچھ کترنا
تشریح:۔
ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اپنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم
ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ مشرکوں کی مخالفت کیا کرو مونچھیں کتروا کر اور داڑھی کو بڑھا کر۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم
لہذا ایک مسلم کو چاہیے کہ وہ اس حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسداری کرتے ہوئے اور اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ان احکامات پر عمل کرئے کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن کسی کا دعویٰ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے منہ پر دے مارا جائے اور کہا جائے کہ تم تو ہم میں سے نہیں ہو۔
حدیث:۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ لے لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ یہ حدیث حضرت انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
جامع ترمذی:جلد اول:باب:جہاد کا بیان :اس بارے میں کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کچھ لینا مکروہ ہے
تشریح:۔
مالِ غنیمت یعنی جہاد کے دوران دشمنانِ اسلام سے ملنے والا مال و متاع، ایک اور حدیث میں اس کی کچھ تفصیل آئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں کھڑے ہو کر مال غنیمت میں خیانت کرنے کا تذکرہ کر کے اس کو بڑا بھاری گناہ ظاہر کر کے اور خیانت بڑا جرم بتا کر
فرمایا مجھے قیامت کے دن کسی کو اس حالت میں دیکھنا محبوب نہیں کہ اس کی گردن پر میماتی ہوئی بکری سوار ہو اور اس کی گردن پر گھوڑا بیٹھا ہوا ہنہنا رہا ہو اور وہ کہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امداد فرمائیے تو میں کہہ دونگا کہ تیرے لیے مجھے کوئی اختیار نہیں ہے میں نے تجھے حکم الٰہی پہنچا دیا تھا اور اس کی گردن پر لدا ہوا اونٹ بلبلا رہا ہو وہ کہے یا رسول اللہ میری امداد فرمائیے تو میں کہہ دوں گا۔ میرے اختیار میں تیرے لیے کوئی چیز نہیں ہے اور اگر اس کی گردن پر سونا چاندی بلبلا رہے ہوں اور وہ مجھے کہے کہ یا رسول اللہ امداد فرمائیے تو میں کہہ دوں گا تیرے لیے میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے میں تو احکام الٰہی پہنچا چکا یا اس کی گردن پر کیڑے حرکت کر رہے ہوں اور وہ کہے یا رسول اللہ! میری فریاد رسی کیجئے تو میں کہوں گا تیرے لیے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا میں تو تجھے احکام الٰہی پہنچا چکا ہوں ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :مال غنیمت میں خیانت کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان جو شخص خیانت کرے گا تو بروز حشر اس چیز کو لاوے گا جس کی اس نے خیانت کی۔
حدیث:۔
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ” وتر حق::واجب:: ہے لہٰذا جو آدمی وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے” ۔ (سنن ابوداؤد)
مشکوۃ شریف:جلد اول:باب: وتر کا بیان :وتر پڑھنے کی تاکید
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر
2519
تشریح:۔
ان احادیث میں وتر پڑھنے کی اہمیت ثابت ہوئی اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وتر کی قضاء ادا کی،بعض لوگ عشاء کی نماز کے ساتھ وتر نہیں پڑھتے کہ انہوں نے تہجد کی نماز پڑھنی ہوتی ہےتو اگر بندے کو جاگ نہ آئے اور فجر کی نماز کا وقت ہوجائے تو بھی پہلے وتر ادا کرئے پھر فجر کی نماز اداکی جائے۔ اور سنت طریقہ بھی یہی ہے کہ وتر تہجد کے ساتھ پڑھے جائیں ایک اور حدیث میں ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہے یعنی کہ وتر پڑھنے کے بعد نفلی نماز بھی نہیں پڑھی جائے گی
،
حدیث:۔
حضرت ابونجیح روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نکاح کی قدرت رکھنے کے باوجود نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے
۔
سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر28
تشریح:۔
نکاح سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے اور نفس کا حق بھی ہے اس سے اجتناب کرنا نفس پر ظلم کرنا ہے، اور بعض اوقات نکاح نہ کرنے کی وجہ سے بندہ فتنے میں پڑ جاتا ہے ، مگر اب ایک فرقہ ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جو نکاح نہ کرنے کو بہت افضیلت کا درجہ سمجھتا ہے مگر شاید وہ اسلام کی تعلیمات سے نابلد ہیں کہ وہ اتنا واضح حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہ جان سکے، نکاح کے فوائد بےشمار ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
نکاح سنت سمجھ کر کرنے سے نیکی کا ملنا۔
نکاح سے نسلِ انسانی کی بقاء ہوتی ہے۔
نکاح کرنے والا مرد اور عورت بے شمار گناہوں سے بچ جاتے ہیں۔
نکاح کرنے والے اولاد جیسی نعمت پاتے ہیں۔
اولاد کی اچھی تربیت کرنے والے والدین کو اولاد کے ہر اچھے عمل کا برابر ثواب ملتا ہے بےشک وہ خود وفات بھی پا جائیں۔
حدیث:۔
ایک غفاری صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے زیرناف بال نہ کاٹے ناخن نہ تراشے اور مونچھیں نہ کاٹے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر
3456
تشریح:۔
اسلام صفائی پسند دین ہے اور اسلام میں ایسے بےشمار احکامات ملتے ہیں جن میں صفائی ستھرائی کی طرف توجہ دی گئی ہے، ایک جگہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، اس حدیث میں بھی جو احکام دیئے گے ہیں وہ انسان کے جسم کی صفائی کے متعلق ہیں لہذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ سنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرئے۔
حدیث:۔
حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قتل شبہ عمد کی دیت مغلظ ہے جیسے قتل عمد کی دیت ہوتی ہے البتہ شبہ عمد میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اور جو ہم پراسلحہ اٹھاتا ہے یا راستہ میں گھات لگاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 2576
حدیث:۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو ہم پر تیر اندازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 1100