اگر آپ سال کے اسلامي وعربي مہينوں پر نظر ڈاليں تو آپ کو کوئي مہينہ ايسا نہيں ملے گا جس ميں نام نہاد مسلمانوں نے کوئي نيا عمل ايجاد نہ کر رکھا ہو ، مثال کے طور پر محرم ميں تعزيہ داري، ماتم ونوحہ اور مرثيہ خواني وغيرہ کادور دورہ ہے تو ماہ صفر کي آخري بدھ سير وتفريح کے لئے باہر نکلنے والا تہوار، ربيع الاول ميں جشن ميلاد النبي کي چہل پہل ہے تو ربيع الثاني ميں گيارہويں کے نام سے شيخ عبد القادر جيلاني رحمۃ اللہ عليہ کے نام پر نذرونياز، ماہ رجب ميں کونڈے تو پھر شعبان ميں شب براءت کي دھوم دھام، الغرض بدعات وخرافات کا ايک سيل رواں ہيں جو مسلمانوں کو اپنے دھارے ميں بہائے لے جارہا ہے ۔
ماہ صفر اسلامي سن ہجري کا دوسرا مہينہ ہے، صفر کو صفر اس لئے کہتے ہيں ايک وبا پھيلي تھي جو لوگوں کو لگتي تولوگ بيمار ہوجاتے اور ان کا رنگ پيلا ہوجاتا تھا، جس کو اپنے يہاں يرقان کي بيماري کہا جاتا ہے۔ ديکھئے بيروني کي ( کتاب الاثار الباقيہ)
مسعودي نے اپني تاريخ ميں لکھا ہے کہ ملک يمن ميں ايک بازار کا نام صفريہ تھا اسي مناسبت سے اس مہينہ کا نام صفر پڑگيا۔
صفر کو صفر اس لئے بھي کہتے ہيں کہ لگاتار حرمت والے مہينے گزرنے کے بعد اہاليان مکہ جب سفر کرتے تھے تو مکہ وہاں کے باشندگان سے خالي ہوجاتا تھا، اس لئے کہ صفر کا معني ہوتا ہے خالي ہونا ، ديکھئے ابن منظور کي کتاب لسان العرب ج4 / ص 462،463۔
صفر سے متعلق بعض مسلمانوں کا عقيدہ ہے کہ يہ مہينہ منحوس اور خيرو برکت سے خالي ہے بنابريں وہ اس مہينہ ميں شادي بياہ کرنے کو برا سمجھتے اور سفر کرنے سے باز رہتے ہيں، اور اپنے باطل عقيدے کے مطابق اس من گھڑت نحوست کو دور کرنے کے لئے چنے کو ابال کر خود کھاتے اور تقسيم کرتے ہيں اور اپنے اس عمل کو باعث برکت سمجھتے ہوئے يہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ چنے کو ابال کر کھانے اور کھلانے سے نحوست اور بے برکتي نکل جاتي ہے يہ بالکل مشرکانہ اور جاہلانہ عقيدہ ہے جو نام نہاد مسلمانوں ميں موجود ہے، کيوں کہ اہل جاہليت کے يہاں بھي ماہ صفر کو منحوس سمجھنا مشہور ومعروف تھا ،وہ صفر کے مہينہ کو منحوس سمجھتے اور خير وبرکت سے خالي خيال کرتے تھے اور نہ ہي مسرت وشادماني کي محفليں رچاتے اور نہ کوئي بڑا کام کرتے تھے اس خيال سے کہ اس ميں کوئي نحوست نہ آجائے ،حالانکہ في نفسہ ماہ صفر برا نہيں ہے اور نہ ہي اس مہينہ ميں سفر کرنا منع ہے ، نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اس بدعقيدہ کي ترديد فرمائي ، چنانچہ صحيح بخاري ومسلم ميں حضرت ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے مروي ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا (لاعدوي ولاطير ولاصفر) “ يعني اللہ کے حکم کے بغير کسي کي بيماري کسي کو نہيں لگتي، نہ بدفالي لينا درست ہے اور نہ صفر کا مہينہ منحوس ہے” (صحيح بخاري ومسلم)
اس حديث کي صحت پر محدثين کا اتفاق ہے، اس لئے بيماري کے متعدي ہونےکا اور فال بد کا عقيدہ رکھنا اور ماہ صفر کو منحوس اور نامبارک سمجھنا يہ وہ امور ہيں جن سےدين اسلام کے صاف وشفاف چہرہ پر بد نما دھبہ پڑتا ہے ،حالانکہ صفر کا مہينہ بھي سال کے دوسرے مہينوں کي طرح ہے، اس مہينہ کو کوئي ايسي خصوصيت حاصل نہيں جو دوسرے مہينوں سے اس کوالگ کردے، اور ماہ صفر کے متعلق جو صحيح احاديث پائ جاتي ہے ان سے صرف يہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کو منحوس سمجھنا صحيح نہيں ہے،اس مہينہ کا اچھائ اور برائ ميں، اللہ عزوجل کي بنائي ہوئ تقدير ميں کوئ عمل دخل نہيں ہے،يہ مہينہ بھي دوسرے مہينوں کي طرح ہے جس ميں خير وشر وقوع پذير ہوتا ہے، اس لئے ماہ صفر يا کسي اور مہينے کو منحوس سمجھنا صحيح نہيں ہے، ہر وہ مہينہ جس کو ايک مومن اللہ کي اطاعت ميں لگادے وہ اس کے لئے بابر کت مہينہ ہے اور جس کو وہ اللہ کي معصيت ونافرماني ميں لگادے وہ اس کے لئےمنحوس ہے، علمائے اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس مہينہ کو منحوس سمجھنا ايک ايسا عقيدہ ہے جو اسلام کي نظر ميں باطل ہے اور اہل جاہليت کا عقيدہ ہے ۔
جب يہ مہينہ ختم ہونے پر آتا ہے توبہت سے لوگ اس کے آخري بدھ کو کاروبار بند کرکے عيد کي طرح خوشياں مناتے ہيں، گاؤں اور شہروں سے باہر جاکر لطيف اور عمدہ کھانا بناتے اور پھر کھاتے اور کھلاتے ہيں اور يہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم اسي مہينہ کے آخري بدھ کو بيماري سے صحتياب ہوئے تھے اور سير وتفريح کے لئے شہر سے باہر نکلے تھے اور پھر آپ نے عمدہ اور لطيف کھانا بنايا اورکھايا تھا حالانکہ يہ عقيدہ حديث اور تاريخ کي رو سے بالکل غلط اور من گھڑت ہے۔
حقيقت يہ ہے کہ ماہ صفر کي آخري بدھ کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم بيماري کي ابتدا تھي او ربيع الاول کي 12تاريخ کو آپ کي وفات ہوئي تھي تو جس دن رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم بيمار ہوئے ہوں اور عين اسي دن نام نہاد مسلمان شہر سے باہر سيروتفريح کے لئے نکليں، قسم قسم کے کھانے کھائيں اور کھلائيں اور، پھر يہ دعوي کريں کہ ہم مسلمان ہيں عاشق رسول ہيں، ہم ذرا اپنے گريبان ميں منہ ڈال کر پوچھيں کہ جو لوگ اپنے نبي کي بيماري کے دن خوشياں منائيں کيا وہ عاشق رسول محب رسول کہلانے کے حقدار ہيں ؟
اس کے برعکس کچھ ملکوں کے مسلمانوں کا يہ عقيدہ ہے کہ ماہ صفر کا آخري بدھ سال کا سب سے منحوس دن ہے، اور اپنے اس عقيدہ کي اثبات ميں بعض کا يہ قول پيش کرتے ہيں کہ ہر سال ماہ صفر کي آخري بدھ کو تين لاکھ بيس ہزار بلائيں اترتي ہيں اوريہ سال کا سب سے خطرناک دن ہوتا ہے اس لئے وہ ان بلاؤں سے بچنےکے لئے ماہ صفر کي آخري بدھ کو چاشت کے وقت چار رکعات نفل نماز ايک سلام سے پڑھتے ہيں ،ہر رکعت ميں ايک دفعہ سورۃ فاتحہ، سترہ مرتبہ سورہ کوثر، پندرہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور ايک ايک بار معوذتين پڑھتے ہيں، ايسا ہي ہر رکعت ميں کرتے ہيں ،پھر سلام پھيرتے ہيں اور سلام پھيرنے کے بعد (اللہ غا لب علي امرہ ولکن اکثر الناس لايعلمون) تين سوساٹھ مرتبہ پڑھ کر (سبحان ربک رب العزۃ عما يصفون وسلام علي المرسلين والحمد للہ رب العالمين) پر اپني دعا ختم کرتے ہيں، پھر فقيروں ميں روٹي خيرات کرتے ہيں اور يہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ جو شخص مذکورہ طريقے پر نماز پڑھے گا اللہ تعالي اپنے فضل وکرم سے اسے اس دن اترني والي ساري بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ فرمائے گا نيز مذکورہ آيت پڑھنےکي برکت سے بھي ماہ صفر کي آخري بدھ کو اترنے والي بلائيں اور آفتيں ٹل جائيں گي،“ اس نفل نماز کي بابت جب افتاء کي دائمي کميٹي سے پوچھا گيا تو جواب تھا کہ اس نفل نماز کے ثبوت ميں کتاب وسنت کي کوئي دليل نہيں ملتي اور نہ ہي اس امت کے پہلے اور بعد کے نيک لوگوں نے يہ نفل نماز پڑھي ہيں ،اس لئے يہ بدعت ہے ،اور فرمان نبوي صلي اللہ عليہ وسلم ہے ( من احدث في امرنا ھذا ماليس منہ فھو رد)“ جو ہمارے دين ميں ايسي بات ايجاد کرےجو اس ميں سے نہيں ہے تو وہ مردود ہے ” ايک دوسري روايت ميں ہے (من عمل عملا ليس عليہ امرنا فھو رد)“ جس نے کوئ ايسا کام کيا جو ہمارے دين ميں سے نہيں ہے تو وہ مردود ہے ” جو اس نمازاور اس کے ساتھ پڑھي جانے والي چيزوں کي نسبت نبي صلي اللہ عليہ وسلم يا آپ کے کسي صحابي کي طرف کرے تواس نے بہت بڑا بہتان باندھا، جس پر وہ اللہ تعالي کي طرف سے جھوٹ بولنے والوں کي سزا پانےکا مستحق ہے” ديکھئے (فتاوي اللجنۃ الدائمۃ ج2/ 354)
شيخ محمد عبد السلام شقيري رحمۃ اللہ عليہ فرماتے ہيں: بعض جہلاء ماہ صفر کي آخري بدھ کو آيات سلام يعني(سلام علي نوح في العالمين) لکھ کر پاني کے برتنوں ميں ڈال ديتے ہيں پھر اس کو پيتے ہيں اور برکت حاصل کرتے ہيں ايک دوسرے کو ہديہ بھيجتے ہيں اور يہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ اس کے پينے سے تمام برائياں اور آفتيں دور ہوجائيں گي يہ باطل عقيدہ ،خطرناک بدفالي لينا اور قبيح بدعت ہے اس برائي کے ديکھنے والے پر اس کي نکير کرنا ضروري ہوجاتا ہے” ديکھئے (السنن والمبتدعات للشقيري ص 111، 112)
اسلامي بھائيو! مذکورہ ساري چيزيں بدعات وخرافات ہيں جن کا دين سے کوئي تعلق نہيں ، اور نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کافرمان ہے ( اياکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ) “ نئے کاموں سے بچو ، کيوں کہ ہر نيا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہي ہے”
ذيل ميں ماہ صفر سے متعلق بعض وہ جھوٹي اور گھڑي احاديث پيش کي جاتي ہيں جن کو بنياد بناکر نام نہاد مسلمان مذکورہ بدعات وخرافات انجام ديتے ہيں:
(1) ( من بشرني بخروج صفر بشرتہ بالجنۃ) “ جومجھے ماہ صفر کے گزرنے کي خوشخبري ديے ميں اسے جنت کي خوشخبري ديتا ہوں”
يہ حديث موضوع ہے ديکھئے
(کتاب کشف الخفا للعجلوني ج 2/ 309، کتاب الفوائد المجموعہ في الاحاديث الموضوعۃ للشوکاني ج1/ 431، کتاب الاسرار المرفوعۃ في الاخبار الموضوعۃ ج1/ 337)
(2) (آخر الاربعاء في الشھر يوم نحس مستمر) “ ماہ صفر کا آخري بدھ منحوس دن ہے” يہ حديث صحيح نہيں ہے، علامہ الباني رحمۃ اللہ عليہ نےاس حديث کو موضوع قرار ديا ہے۔ ديکھئے (ضعيف الجامع ج3 )
(3) (يکون صوت في صفر ثم تتنازع القبائل في شھر ربيع ثم العجب کل العجب بين جمادي ورجب ) “ صفر ميں ايک آواز پيدا ہوگي ،پھر ماہ ربيع الاول ميں قبائل جھگڑيں گے پھر جمادي الاول والثاني اور رجب کے درميان عجيب وغريب چيزيں رونما ہوں گي”يہ حديث بھي گھڑي ہوئ ہے۔ ديکھئے ( کتاب المنار المنيف لابن القيم ص 64)
اللہ رب السماوات والارض سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو بدعت سے بچاکر سنت پر چلنے کي توفيق بخشے۔آمين۔
واللہ الموفق ھو الھادي الي سواء السبيل
از قلم : ابو عدنان محمد طيب السلفي حفظہ اللہ