’’بہترین کلام اللہ کا کلام ( قرآن کریم ) ہے اور بہترین ھدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ھوا دین ہے ۔،،
Wednesday, July 3, 2013
مسلمان کے مسلمان پر حقوق
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
’’ حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ‘‘
[صحیح مسلم:5]
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسلمان کے حق مسلمان پر چھ ہیں، جب تو اس سے ملے تو سلام کہہ، جب وہ تجھے بلائے تو اس کے پاس جا، جب تجھ سے خیر خواہی طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کر، جب اسے چھینک آئے تو اسے ’’يرحمك الله‘‘ کہہ، جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کر اور جب فوت ہو تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔‘‘
تشریح:
اسلام باہمی اخوت کا دین ہے۔ ’’ إنما المؤمنون إخوۃ‘‘
’’مومن بھائی بھائی ہیں۔‘‘
مسلمانوں کے ایک دوسرے پر کئی حقوق ہیں جن میں سے یہ چھ بہت اہم ہیں، حق المسلم کے الفاظ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ چیزیں مسلمان کے ذمے مسلمان کا حق ہیں کا فر کا حق نہیں ہیں، اب ہر ایک کی علیحدہ تشریح کی جاتی ہے:
1۔ سلام:
سلام کے متعلق سب سے قوی بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کا نام ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے نام ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ
[الحشر:59/ 23]
’’وہ بادشاہ ، نہایت پاک، سلام، امن دینے والا، غالب (ہے)۔‘‘
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو یوں کہتے :
السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ السَّلَامُ عَلَى مِيكَائِيلَ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ
[صحیح بخاری: 263]
’’یعنی اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو، جبرائیل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو۔‘‘
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف چہرہ پھیر کر فرمایا:
’’السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ‘‘
[متفتق عليه]
’’اللہ پر سلام ہو۔‘‘ مت کہو کیونکہ اللہ خود سلام ہے۔
سلام کا معنی وہ ہستی جو ہر عیب اور نقص سے سالم ہے اور جو سب کو سلامتی دینے والا ہے اور السلام علیکم کا معنی یہ ہوا کہ سلام ( اللہ تعالی ) تم پر سایہ فگن رہے، تمہارا نگہبان اور محافظ رہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے:
’’أَللهُ مَعَكَ وَاللهُ يَصْحَبُكَ‘‘
’’ اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہو، اللہ تمہارا ساتھی ہو۔‘‘
بعض کہتے ہیں کہ سلام بمعنی ’’ سلامۃ‘‘ ہے یعنی (سلامة اللہ علیکم) ’’ تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔‘‘ جب کوئی شخص دوسرے کو سلام کہتا ہے تو وہ اسے اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ میری طرف سے تم بے فکر ہو جاؤ کہ میں تمہیں کوئی نقصان پہنچاؤں گا کیونکہ جو شخص اللہ سے اس کی سلامتی کی دعا کر رہا ہے، وہ خود تکلیف کیسے دے سکتا ہے؟
2۔ ’’ جب مسلمان سے ملے اسے سلام کہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جدا ہوتے وقت سلام کی ضرورت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ فَلْيُسَلِّمْ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتْ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنْ الْآخِرَةِ
[مسند أحمد:2/ 230]
’’جب تم میں سے کوئی شخص مجلس میں پہنچے تو سلام کہے ، اگر اس کا ارادہ بیٹھنے کا ہے تو بیٹھ جائے پھر جب اٹھے تو سلام کہے کیونکہ پہلے سلام کا حق دوسرے سے زیادہ نہیں ہے۔‘‘
3 ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا ’’ السلام علیکم‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا پھر وہ بیٹھ گیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس (نیکیاں) ۔ ‘‘پھر ایک اور آیا اس نے ’’ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته‘‘ کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیس۔ ‘‘ پھر ایک اور آیا اس نے کہا : ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیس۔‘‘
[صحیح۔ سنن ابوداؤد]
سلام کے کامل الفاظ اتنے ہی ہیں، اس سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
4۔ جب کوئی شخص سلام کہے تو اس سے بہتر جواب دینا چاہیے یا کم ازکم اتنا جواب ضرور دینا چاہیے۔
[النساء: 86]
5۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے کسی سے علیحدہ ہو تو دوبارہ ملنے پر پھر سلام کہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کہے پھر اگر ان کی درمیان کوئی درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہو جائے تو دوبارہ ملنے پر پھر اسے سلام کہے۔ ‘‘
[صحیح ابو داؤد: 4332]
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس فرمان پر بہت اہتمام سے عمل کرتے تھے۔ وہ صحابی جس نے نماز اطمینان سے نہیں پڑھی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ نے اسے واپس بھیجا کہ ’’ دوبارہ نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ تین دفعہ ایسا ہی ہوا تو اس نے ہر مرتبہ آ کر پہلے سلام کہا تھا حالانکہ وہ مسجد میں ہی تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسجد میں تھے۔
[بخاری ومسلم]
6۔ جو شخص قضائے حاجت میں مشغول ہو اسے سلام نہیں کہنا چاہیے، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے ایک آدمی گذرا اور اس نے سلام کہا، (فارغ ہونے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ إِذَا رَأَيْتَنِي عَلَى مِثْلِ هَذِهِ الْحَالَةِ فَلَا تُسَلِّمْ عَلَيَّ فَإِنَّكَ إِنْ فَعَلْتَ ذَلِكَ لَمْ أَرُدَّ عَلَيْكَ‘‘
[سنن ابن ماجة:282]
’’جب تم مجھے اس جیسی حالت میں دیکھو تو مجھے سلام مت کہوکیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہیں جواب نہیں دو گا۔‘‘
2۔ دعوت قبول کرنا:
’’جب تجھے بلائے تو اس کے پاس جا۔‘‘ یہ الفاظ عام ہیں کسی مقصد کے لئے بھی مسلمان بھائی بلائے تو اس کے پاس جانا حق ہے مثلا وہ مدد کے لئے بلائے یا مشورہ طلب کرنے کے لئے یا کھانے کے لئے، غرض کسی بھی جائز کام کے لئے بلائے اس کی دعوت قبول کرنا اس کا حق ہے، خاص طور پر اگر اسے مدد کی ضرورت ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ
’’ ایک مسلم دوسرے مسلم کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے۔‘‘
دعوت ولیمہ میں جانے کی خاص تاکید آئی ہے اور نہ جانے پر وعید آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(وَمَنْ لَّمْ يُجِبِ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَى اللهَ وَرَسُوْلَهُ)
’’جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔‘‘
3۔ خیر خواہی:
مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی ہر حال میں ہی ضروری ہے۔ ترمذی میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مومن کے یہی چھ حق بیان کیے گئے ہیں اور خیر خواہی کے متعلق فرمایا:
’’وَيَنْصَحُ لَهُ إِذَا غَابَ أَوْ شَهِدَ‘‘
’’ وہ حاضر ہو یا غائب ، اس کی خیر خواہی کرے۔
[حدیث: 2737]
یعنی حاضر ہے تو اس کی جھوٹی تعریف ، چاپلوسی اور منافقت نہ کرے، غلط مشورہ نہ دے، نہ ہی دھوکا دے، اگر غائب ہے تو اس کی غیبت نہ کرے، چغلی نہ کھائے، بد خواہی نہ کرے، غرض ہر حال میں اس کی بھلائی کی فکر کرے۔
’’اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحُهُ‘‘
سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مسلمان بھائی مشورہ پوچھے تو اس وقت اسے درست مشورہ دینے اور اس کی خیرخواہی کرنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
4۔ چھینک پر الحمد للہ کہنے کا جواب:
1۔ چھینک کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کسی کوچھینک آئے تو ’’ الحمد للہ‘‘ کہے، اس کا بھائی یا ساتھی اسے ’’ یر حمک اللہ‘‘ کہے، جب وہ ’’ یرحمک اللہ ‘‘ کہے تو یہ کہے ’’ یہدیکم اللہ ویصلح بالکم‘‘ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے۔
[صحیح بخاری]
2۔ چھینک آنے پر کم ازکم الحمد للہ کہنا واجب ہے، اگر اس کے ساتھ ’’ علی کل حال ‘‘ پڑھا جائے تو بہتر ہے۔ ترمذی میں ابو ایوب رضی اللہ عنہ سےر وایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو یوں کہے: ’’ الحمد للہ علی کل حال ‘‘
[صحیح الترمذی: 2202]
3۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ کہے ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ جواب دینے والا کہے: ’’يرحمك الله‘‘ اور وہ خود کہے: ’’ یغفر اللہ لی ولکم‘‘ [صحیح]یہ عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے۔
4۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص چھینک سن کر کہے: ’’الحمد للہ رب العالمین علی کل حال ماکان‘‘ اسے کبھی ڈاڑھ اور کن کا درد نہیں ہو گا۔
[الادب المفرد للبخاری: 926]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کے رجال ثقات ہیں اور اس جیسی بات رائے سے نہیں کہی جا سکتی، اس لیے یہ مرفوع کے حکم میں ہے۔
[فتح الباری]
5۔ نماز کے دوران کسی دوسرے کو جواب دینا جائز نہیں ، کیونکہ یہ دوسرے آدمی سے مخاطب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ نماز میں لوگوں کے کلام سے کوئی چیز درست نہیں وہ تو صرف تسبیح ، تکبیر اور قرآن کی قراء ت ہے۔
[مسلم]
6۔ جو شخص چھینک آنے پر الحمد للہ نہ کہے اسے یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہیے۔
[بخاری]
7۔ غیر مسلم اگر چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اسے ’’یرحمک اللہ‘‘ نہیں کہنا چاہیے۔
ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھینکتے اور امید کرتے کہ آپ انہیں ’’یرحمک اللہ ‘‘ کہیں گے مگر آپ انہیں یہی کہتے:
’’یہدیکم اللہ ویصلح بالکم‘‘
[سنن ابو داؤد: 4213]
8۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ان کا قول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ اپنے بھائی کو تین دفعہ ’’یرحمک اللہ‘‘ کہو، اگر اس سے زیادہ ہو تو زکام ہے۔
[سنن ابو داؤد: 4210]
9۔ چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چھینک سے دماغ میں رکے ہوئے فضلات و بخارات خارج ہو جاتے ہیں اور دماغ کی رگوں اور پٹھوں کی رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں، جس سے انسان بہت سی خوفناک بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے، جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو ہر اس مسلمان پر جو اسے سنے حق ہے کہ اسے ’’ يرحمك الله‘‘ کہے اور جمائی شیطان سے ہے، جب تم میں کسی کو جمائی أئے تو جس قدر ہو کسے اسے روکے کیونکہ جب وہ ’’ ہا‘‘ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنتا ہے۔ [بخاری، کتاب الادب] صحیح مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے۔
5۔ بیمار پرسی:
1۔ مسلمان کی بیمار پرسی واجب ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے ’’باب وجوب عيادة المريض‘‘ اور اس پر کئی احادیث سے استدلال فرمایا ہے۔
2۔کفار کی تعلیم سے متاثر ڈاکٹروں کی زیادہ سے زیادہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ مریض کو کسی سے ملنے نہ دیا جائے حالانکہ بیمار کو دوستوں کے ملنے سے دلی راحت حاصل ہوتی ہے جو دل کی تقویت کا باعث ہوتی ہے جس سے بیماری ختم ہونے میں مدد ملتی ہے۔
ان کےدیکھنے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
کم ازکم اتنی دیر بیمار کی توجہ اپنی بیماری سے کم ہو جاتی ہے جتنی دیر وہ ملنے کےلئے آنے والے کے ساتھ مشغول رہتا ہے۔
3۔ بیمار پرسی کرنے سے مریض کی ضروریات کا علم ہوتا مثلا اسے کسی طبیب کے پاس لے جانے کی ضرورت ہو یا کسی دوا کی ضرورت ہو یا گھر میں اخراجات کی کمی کا مسئلہ ہو بیماری پرسی ہی سے ضرورت کا علم ہونے پر ایک مسلمان بھائی کی مدد کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات بیمار پرسی کرنے والا خود طبیب ہوتا ہے یا اس بیماری میں مبتلا رہ چکا ہوتا ہے وہ بہترین مشورہ بھی دے سکتا ہے۔
4۔ بیمار پرسی کے لئے آنے والوں کو دعا اور کتاب وسنت کے الفاظ پر مشمل دم سے مریض کو صحت ہو سکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کوئی مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کرے اور سات مرتبہ یہ کلمات کہے تو اسے عافیت دی جاتی ہے، سوائے اس کے کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچا ہو:
’’أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ‘‘
[سنن الترمذی: 1298]
’’ میں اللہ تعالی سے سوال کرتا ہوں جو عظمت والا ہے، عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا دے۔‘‘
[صحیح]
5۔ بیمار پرسی کرنے والےکو چاہیے کہ مریض کو حوصلہ دلائے اور بیماری کا ثواب ذکر کر کے اس کی ہمت بندھائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بیمار کی عیادت کے لئے جاتے تو فرماتے :
’’لاباس طہور إن شاء اللہ‘‘
کوئی حرج نہیں اگر اللہ نے چاہا تو یہ بیماری پاک کرنے والی ہے۔
[بخاری]
حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بیمار کے پاس جاتے یا اسے آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:
’’أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِى لاَ شِفَاءَ إِلا شِفَاؤُكَ ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا‘‘
[صحیح بخاری:5750]
’’لے جا بیماری کو اے لوگوں کے پرودگار! اور شفا دے اور تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ، ایسی شفا جو کوئی بیماری نہ چھوڑے۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے۔
[ کتاب السلام ص:1722]
7۔ زیر بحث حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار پرسی صرف مسلمان کا حق ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلم کی بیمار پرسی کر لیتے تھے، جیسا کہ آپ نے ایک یہودی نوجوان کی بیمار پرسی کی جو آپ کی خدمت کرتا تھا اور اسے اسلام قبول کرنے کے لئے کہا تو وہ مسلمان ہو گیا۔ اسی طرح آپ نے اپنے چچا ابو طالب کی وفات کے وقت اس سے ملاقات کی اور اسلام قبول کرنے کی تلقین فرمائی۔
[صحیح بخاری، کتاب المرضی]
8۔ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی بیمار پرسی صبح کے وقت کرے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس پر صلاۃ بھیجتے رہتے ہیں اور اگر پچھلے پہر کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس پر صلاۃ بھیجتے رہتے ہیں اور جنت میں اس کےلئے ایک باغ لگ جاتا ہے۔ ‘‘
[سنن الترمذی:775]
9۔ بیمار پرسی کا مقصد بیمار کو راحت پہنچانا ہے اور ظاہر ہے دیر تک بیٹھنے سے اور ہجوم کرنے سے اسے تکلیف ہو گی اس لیے بیمار پر سی کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ اس کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھا جائے۔
6۔ جنازے کے ساتھ جانا:
1۔ ’’ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان واقف ہو یا ناواقف اس کے جنازے کے ساتھ جانا اس کا حق ہے، حدیث میں اس کا بہت اجر آیا ہے۔
[دیکھیے بلوغ المرام ، کتاب الجنائز: 534]