Pages

Monday, December 24, 2012

بندوں کا حساب کس کس طرح ہو گا ؟

اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی حِکمت میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے دُنیا کو انسانوں کے لیے کام کرنے اور جدوجہد کرنے کی جگہ بنایا ، اور آخرت کو حساب اور جزاء کی جگہ بنایا ، کہ وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نیک کاموں والوں کو ان کے نیک کاموں کا ثواب دے گا اور برائی کرنے والوں کو ان کی برائی کی سزا دے گا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے (((((( لِيَجزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفسٍ مَا كَسَبَت إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الحِسَابِ ::: تا کہ اللہ ہر ایک جان کو اس کی کمائی کے مطابق بدلہ دے دے ، بے شک اللہ بہت ہی تیزی سے حساب کرنے والا ہے ))))) سورت إبراهيم / آیت51 ،
جی اس میں سے استثنائی طور پر کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ دُنیا میں بھی اپنے کسی بندے کو اپنی کسی خاص رحمت سے کچھ دینا چاہے یا کسی بندے کو کوئی عذاب دے کر دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنانا چاہے تو وہ جو چاہے کرتا ہے ،
قیامت والے دِن بندے اپنے رب اللہ رب العالمین کے سامنے انتہائی خوف اور ذلت کی حالت میں کھڑے ہوں گے ،
قیامت کے ہولناک منظر، اپنے اعمال کی فِکر ، اپنی کرتُوتوں کے انجام کا ڈر ، ان کے خوف میں ہر لحظہ اضافہ کر رہا ہو گا ،
اُن کے دِل خزاں رسیدہ پتوں کی مانند ، اور ان کے جسم خشک ٹہنیوں کی طرح کانپ اور لرز رہے ہوں گے ،
کوئی اپنے ہی پسینے میں ٹخنوں تک ڈوبا ہو گا ، کوئی ، گھٹنوں تک ، کوئی کمر تک ، کوئی سینے تک ، اور کوئی کانوں کی لَو تک ،
کوئی کسی کا بننا تو دُور ٹہرا ، کسی کی طرف دیکھنا بھی پسند نہ کرے گا ، ماں باپ اولاد کو ، اولاد ماں باپ کو ، خاوند بیوی کو ، بیوی خاوند ، بہن بھائی ایک دوسرے کو اپنی جان بچانے کے لیے بدلے میں دینے کو تیار ہوں گے ، (اللہ تعالیٰ ہم سب کو دُنیا اور آخرت میں اپنی پناہ میں رکھے اور خاص رحمت والا معاملہ رکھے )
ایسے خوف ، ایسی افراتفری ، ایسی بے بسی اور لاچاری ، ایسے ہولناک ماحول میں بندوں سے اُن کا رب اللہ کسی ترجمان کے بغیر ، کسی درمیانی واسطے ، ربط اور وسیلے کے بغیر براہ راست گفتگو فرمائے گا ،
اور ان سے ان کے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ، ظاہری اور خفیہ کاموں اور باتوں کے بارے میں پوچھے گا ،
حساب کا آغاز ہو گا ، تو ، سب سے پہلے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شفاعت سے ہو گا ،
اُس ہولناک دن میں شدید ناقابل بیان اور ناقابل تصور مشقت اور خوف کے عالم میں مخلوق ہزاروں سال کے برابر کھڑی رہی گی ، اور انسان گروہ در گروہ مختلف انبیاء علیہم السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے درخواست کریں گے کہ وہ اللہ کے پاس اُن کی سفارش کریں ،
سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے ” اے آدم آپ سب انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے تخلیق فرمایا ، فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا ، اور اللہ نے آپ کو ہر ایک چیز کا نام سِکھایا ، آپ کو جنّت کا مُکیں بنایا ، اللہ سے ہماری سفارش کیجیے کہ ہمیں اس مُشقت والی جگہ سے نجات سے اپنی اولاد کی سفارش کیجیے (کہ حساب کا آغاز کر دیا جائے) ، آدم علیہ السلام اپنی غلطی کا ذکر فرمائیں گے اور فرمائیں گے کہ "”” یہ مُقام میرا نہیں تُم لوگ نوح کے پاس جاؤ انہیں اللہ نے انسانوں کی طرف سب سے پہلا رسول بنا یا تھا ،
لوگوں کی ایک امید ٹوٹنے سے ان کا خوف مزید بڑہے گا ، پریشانی میں مزید اضافہ لیے وہ نوح علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے ،وہ بغیر عِلم کے اللہ سے سوال کرنے کی غلطی کا ذکر فرمائیں گے اور لوگوں سے کہیں گے  یہ میرا مقام نہیں ، اِبراہیم کے پاس جاؤ وہ اللہ کے خلیل ہیں ،
لوگ اِبراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے لیکن وہ تین الفاظ کو جھوٹ جیسا استعمال کرنے کی غلطی کا ذکر فرما کر فرمائیں گے یہ میرا مُقام نہیں تُم لوگ مُوسی کے پاس جاؤ، اللہ نے ان سے کلام فرمایا تھا اور اللہ نے انہیں تورات عطاء فرمائی تھی  تو لوگ پریشانی میں اضافہ لیے مُوسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے ،
تو مُوسی علیہ السلام فرعونی کو قتل کرنے کی غلطی کا ذکر فرما کر کہیں گے  یہ میرا مُقام نہیں تُم لوگ عیسیٰ کے پاس جاؤ (اُن کی صِفات یہ ہیں کہ) وہ اللہ کے بندے ، اللہ کے رسول ، اللہ کی بات ، اور اللہ کا حُکم ہیں
لوگ مشقت در مشقت برداشت کرتے ہوئے اور پریشانی اور خوف میں اضافے کے ساتھ وہاں سے عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے اور ان کے سامنے اپنی درخواست پیش کریں گے ،
عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے  یہ میرا مُقام نہیں ، تُم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) کے پاس جاؤ ، وہ اللہ کے ایسے بندے اور رسول ہیں جن کے اگلے پچھلے سارے گناہ اللہ نے معاف فرما رکھے ہیں .
آخری اُمید ، ایک بچی ہوئی آس ، اگر یہاں بھی درخواست قبول نہ ہوئی تو !!!!!
خوف کا ایک اورناقابل بیان بلکہ ناقابل تصور حملہ ،،،،،،،
لوگ ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوں گے ، اور ان سے اللہ کے سامنے شفاعت کی درخواست کریں گے تو وہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرمائیں گے ((((( أنَا لَھَا:::میں اِس کام کے لیے ہوں )))))
اور اللہ تعالی سے اس کے سامنے حاضر ی کے اجازت طلب فرمائیں گے ، اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی ، اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدہ ریز ہو جائیں ، اللہ تعالیٰ انہیں ایسی حمد و تعریف سکھائے گا جو اُس سے پہلے کسی کو نہ سکھائی ہو گی ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ کے سامنے اللہ کی وہ حمد اور تعریف بیان فرمائیں گے ، تو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کہا جائے گا ((((( يا مُحمَّد اِرفَع رَأسَكَ وَقُل يُسمَع لَك وَسَل تُعطَ وَاشفَع تُشَفَّع ::: اے مُحمد سر اٹھایے اور بات کیجیے آپ کی بات سنی جائے گی اور سوال کیجیے آپ کو عطاء کیا جائے گا اور سفارش کیجیے آپ کی سفارش قبول کی جائے )))))
تو اللہ تبارک و تعالیٰ حساب کا آغاز فرمائے گا ،

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ تعالی : إنا أرسلنا نوحا إلی قومه، 3 / 1215، الرقم : 3162، وفي کتاب : التفسير، باب : ذرية من حملنا مع نوح إنه کان عبدا شکورا، 4 / 1745، الرقم : 4435، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدنی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 184، الرقم : 194، والترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 622، الرقم : 2434، وقال : هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 435، الرقم : 9621، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 307، الرقم : 31674، وابن منده في الإيمان، 2 / 847، الرقم : 879، وأبو عوانة في المسند، 1 / 147، الرقم : 437، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 379، الرقم : 811، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 239، الرقم : 5510.

اِمام ابن حجر العسقلانی نے لکھا کہ ” اس شفاعت (سفارش ) کی طلب مغفرت کے لیے نہیں بلکہ حساب شروع ہونے کے لیے ہو گی ، تو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شفاعت (سفارش ) کو قبول فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ حساب کا آغاز فرمائے گا .
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خصوصیات اور فضیلتوں میں سے ایک یہ بھی ہے ، اور اس شفاعت والے اس مُقام کو ہی عُلماء نے ” مُقام محمود " کہا ہے ، جو صرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے اللہ کی ایک خاص رحمت اور رُتبہ ہے ،
روؤف رحیم ، شفیق و کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنی اُمت کا ہی فِکر ہوگا اللہ کے سامنے سفارش فرماتے ہوئے پکاریں گے ((((( أُمتی أُمتی ::: میری اُمت اُمت )))))
اللہ اللہ یہ محبت اور اپنی اُمت کا اتنا خیال ، اللہ نے مجھےجو کچھ عطاء فرمایا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر قربان ہونا قبول فرمائے ، اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہر حق ادا کرنے کی مکمل توفیق عطا فرمائے ، زبانی محبت کے دعوے کرنے کی بجائے عملی محبت کی ہمت عطا فرمائے ،
لوگوں کے اعمال کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا حساب فرمائے گا ، اور ان کی آخری ابدی منزل کا فیصلہ فرمائے گا ،
بنیادی طور پر حساب اور فیصلے کے لیے انسان دو اقسام ہوں گے ،
(1) اِیمان والے اور مسلمان ،
(2) کافر اور مشرک ،
::::::: اِن میں سے کچھ انسانوں کا معاملہ حساب و کتاب والا ہو گا ، کچھ کا اعمال کے تولنے والا ، اور کچھ کا بغیر حساب کتاب والا ، کچھ کا ساری مخلوق کے سامنے ہو گا ، اور کچھ کا اللہ کے خاص پردے میں ،
:::::::: حساب و کتاب کے بعد کافروں ، اور جانتے بوجھتے ہوئے شرک کرنے والوں کو جہنم رسید کیا جائے گا ، کیونکہ ان کا یقینی ٹھکانہ جہنم ہی ہے ،
(((((إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا لَم يَكُنِ اللَّهُ لِيَغفِرَ لَهُم وَلا لِيَهدِيَهُم طَرِيقاً o إِلَّا طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً ::: بے شک وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا اور کفر کیا نہ تو اللہ اُن کی مغفرت کرنے والا ہے اور نہ ہی اُن کو راہ حق کی ہدایت دینے والا ہے ، سوائے جہنم کی طرف جانے والی راہ کے جہاں وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت ہی آسان ہے ))))) سورت النساء / آیت 168،169،
اور فرمایا ((((( يُعرَفُ المُجرِمُونَ بِسِيمَاهُم فَيُؤخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالأَقدَامِ ::: مُجرم اُن کی نشانیوں سے پہچانے جائیں گے لہذا اُنہیں اُن کی پیشانیوں اور قدموں سے پکڑ لیا جائے گا ))))) سورت الرحمن / آیت41 ،
::::::: اِیمان والوں میں سے کچھ ایسے ہوں گے جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ اُن کے اعمال دِکھا کر اُن سے اِقرار کروائے گا اور اُن کے اِقرار کے بعد اُن کوجنّت میں داخل فرمائے گا ،
جیسا کہ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہُما کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ((((( يُدْنَى الْمُؤْمِنُ يوم الْقِيَامَةِ مِن رَبِّهِ عز وجل حتى يَضَعَ عليه كَنَفَهُ فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ فيقول "””هَل تَعْرِفُ ؟””” فيقول ” أَيْ رَبِّ أَعْرِفُ ” قال "”” فَإِنِّي قد سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ في الدُّنْيَا وَإِنِّي أَغْفِرُهَا لك الْيَوْمَ "”” فَيُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ وَأَمَّا الْكُفَّارُ وَالْمُنَافِقُونَ فَيُنَادَى بِهِمْ على رؤوس الْخَلَائِقِ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا على اللَّهِ ::: قیامت والے دِن (اللہ کے ہی حُکم سے کسی ) اِیمان والے کو اُس کے رب (اللہ) عزّ وجلّ کے قریب کیا جائے گا یہاں تک اللہ اُس کے اوپر اپنا (کوئی ایک )پردہ ڈال دے گا اور اُس سے اس کے گناہوں کا اِقرار کرواتے ہوئے فرمائے گا "”” کیا تُم (اپنا یہ گُناہ) جانتے ہو ؟ "”” بندہ کہے گا ” جی اے میرے رب جانتا ہوں ” اللہ کہے گا ” میں نے دُنیا میں تُمہارے اِن گناہوں پر پردہ ڈالا تھا اور آج میں اِن گناہوں سے تُمہاری مغفرت کرتا ہوں ” تو پھر اُس بندے کو(صِرف) اُس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی ، رہا معاملہ کافروں اور منافقوں کا تو اُنہیں تمام مخلوق کے سامنے پُکارا جائے گا (اور کہا جائے گا) کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ پر جھوٹ بولے )))))

صحیح البُخاری /حدیث 4408 / کتاب التفسیر /باب 175 ، صحیح مُسلم /حدیث 2768 /کتاب التوبۃ / باب 8 ،
::::::: اور کچھ ایسے ہوں گے جن کا کوئی حساب نہ ہو گا ، جِن سے کوئی پوچھ نہ ہو گی ، جن کو کوئی عذاب نہ ہوگا ، یہ اَیمان والوں میں سے مکمل طور پر عملی توحید والے ہوں گے ،
جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِن أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ ::: میری اُمت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر کسی حساب کے جنّت میں داخل ہوں گے )))))
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی "اے اللہ کے رسول ، وہ کون ہوں گے ؟ "
اِرشاد فرمایا ((((( هُمْ الَّذِينَ لَا يَتَطَيَّرُونَ ولا يَسْتَرْقُونَ ولا يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ::: وہ (ایسے لوگ ہوں گے ) جو شگون بازی نہیں کرتے ہیں ، اور نہ ہی رُقیہ ( دَم کرنا ) کرواتے ہیں ، اور نہ ہی اپنے آپ کو دغواتے (یعنی گرم دھات جسم پر لگوا کر عِلاج کرواتے) ہیں ، اور (صِرف ) اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں ))))) مُتفقٌ علیہ ، صحیح البُخاری /حدیث 6107 /کتاب الرّقاق /باب 21 ، صحیح مُسلم /حدیث217 /کتاب الاِیمان /باب94 ،

اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ((((( لَا حِسَابَ عَليهم ولا عَذَابَ::: اُن پر کوئی حساب نہ ہو گا اور نہ ہی اُنہیں کوئی عذاب ہو گا ))))) صحیح البُخاری /حدیث 6175 /کتاب الرّقاق /باب 50 ،
اور کچھ ایسے ہوں گے جن کے آخری ٹھکانے کا اِن مذکورہ بالا لوگوں کے فیصلے ہوجانے تک فیصلہ نہ کیا گیا ہوگا ، لیکن اللہ کی مشیئت سے وہ لوگ جنّت میں ہی جائیں گے ، وہ لوگ ” أصحاب الأعراف ” ہیں ،
” أصحاب الأعراف ” وہ لوگ ہوں گے جِن کی نیکیاں اور گناہ ایک ہی جتنے ہوں گے ، یہ لوگ جنّت اور جہنم کے درمیان ایک اونچی جگہ پر کھڑے کیے گئے ہوں گے ، جہاں سے وہ جنّت اور جہنم دونوں کو دیکھ سکیں گے اور امید اور خوف کی شدید موجوں کے تھپیڑوں میں رہیں گے ، جنتیوں اور جہنمیوں کو اُن پر نظر آنے والی نشانیوں سے پہچانتے ہوں گے ، جب تک اللہ چاہے گا وہ لوگ اسی جگہ پر اسی حالت میں رہیں گے ،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتایا ہے ((((( وَبَينَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الأَعرَافِ رِجَالٌ يَعرِفُونَ كُلّاً بِسِيمَاهُم وَنَادَوا أَصحَابَ الجَنَّةِ أَن سَلامٌ عَلَيكُم لَم يَدخُلُوهَا وَهُم يَطمَعُونَ ::: اور (جنّت اور جہنم ) دونوں کے درمیان پردہ ہے اور أعراف کے اُوپر لوگ ہوں گے جو سب (جنتیوں اور جہنمیوں) کو ان کی نشانیوں سے پہچانتے ہوں گے ، یہ ( أعراف پر موجود ) لوگ خود تو جنّت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے (لیکن) جنّتیوں کو پکار کر کہیں گے کہ تُم لوگوں پر سلامتی ہو ، اور(یہ أعراف پر موجود لوگ ) خود جنّت میں جانے کا لالچ رکھتے ہوں گے o وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاء أَصْحَابِ النَّارِ قَالُواْ رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ::: اور جب اُن ( أعراف پر موجود ) کی نظر جہنمیوں کی طرف جائے گی تو کہیں گے ، اے ہمارے رب ہمیں ظُلم کرنے والوں کے ساتھ مت بنانا ))))) سورت الأعراف /آیت47 ،
یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمت سے اُن لوگوں کو جنّت میں داخل فرمائے گا ،
::::::: اور مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے گناہ اُن کی نیکیوں سے زیادہ ہوں گے ، ان لوگوں کا فیصلہ اعمال کے وزن یا نیکیوں بدیوں کے مطابق ہوسکنے کے بارے میں پہلے سے کچھ اندازہ نہیں کیا جا سکتا ،
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مشیئت جسے چاہے گا معاف فرما دے گا اور جسے چاہے عذاب دے گا ، سوائے شرک کرنے والوں اور حقوق المخلوق یعنی بندوں اور دوسری مخلوقات کا حق مارنے والوں کے کہ اُن کی مغفرت نہ ہو گی ،
شرک کرنے والوں کے بارے میں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ((((( إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَدِ افتَرَى إِثماً عَظِيماً ::: بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہ فرمائے گا کہ اُس کے ساتھ شِّرک کیا جائے اور اس کے عِلاوہ جِس کے لیے جو چاہے گا معاف فرما دے گا ، اور جو شرک کرے گا تو اُس نے یقیناً بہت ہی جھوٹ پر مبنی عظیم گناہ بنایا ))))) سُورت النِساء /آیت48 ،
انسانوں اور دیگر مخلوق کے حقوق کے بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک بتایا کہ (((((لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إلى أَهْلِهَا يوم الْقِيَامَةِ حتى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ من الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ ::: تُم لوگوں کو قیامت والے دِن ضرور حق داروں کو اُن کے حقوق دینا ہی ہوں گے یہاں تک ایک بغیر سینگ والی بکری کا حق سینگ والی بکری سے بھی لیا ہی جائے گا ))))) صحیح مُسلم / حدیث 2582/کتاب البِر و الصلۃ و الآداب /باب 15 تحریم الظُلم ،
شرعی احکام کی مُکلّف مخلوق کا حساب تو اس طرح مذکورہ بالا طریقوں پر ہو گا ، جانوروں کا حساب بھی مذکورہ بالا حدیث مبارک کے مطابق ہو گا یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حکمت سے جس طرح چاہے گا حق دار کو اُس کا حق دلوائے گا ،
پس اللہ سبحانہُ و تعالیٰ شرک اور مخلوق کے حقوق کے علاوہ جس کا جو گناہ چاہے گا معاف فرما دے گا ،
قیامت والے دِن سب سے پہلے جن کاموں کا حساب ہو گا اُن میں سے ایک نماز ہے ، ایسا کام جو بندے اور اُس کے رب کے درمیان ہے ،
اور حقوق العباد میں سے سب سے پہلے قتل کا حساب ہو گا ،
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ ((((( أَوَّلُ ما يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلَاةُ وَأَوَّلُ ما يُقْضَى بَينَ النَّاس في الدِّمَاءِ::: سب سے پہلے بندے کا حساب اس کی نماز کے بارے میں ہو گا اور سب سے پہلے لوگوں کے درمیان قتل کے فیصلے ہوں گے ))))) سنن النسائی /کتاب تحریم الدم /کتاب 2 تعظیم الدم ، السلسہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث1748 ،
مخلوق کی حقوق تلفی ، مکمل طور پر ہو یا جزوی طور پر ، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ، اور اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا ، بلکہ صاحبءِ حق کو مکمل اختیار دے گا کہ وہ اپنے حق کے بدلے میں حق مارنے والے کی نیکیوں میں سے جو چاہے لے ، یا اپنے گناہوں میں سے کچھ اُس کے کھاتے میں ڈال دے ، اُس دِن ہر ایک شخص ایک ایک نیکی کے لیے تڑپتا ہو گا اور اپنے محبوبت ترین رشتہ دار اور محبوب ترین ہستی کو بھی ایک نیکی دینے کو تیار نہ ہوگا ،
اسی چیز کو سمجھاتے ہوئے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم فرمائی کہ ہم دُنیا میں ہی اپنے ظلم و ستم اور حق تلفی وغیرہ کا حساب صاف کر لیں اور خود کو معاف کروا لیں اس سے پہلے کہ ہمارے کیے ہوئے ظلم کے بدلے میں ، اللہ کی مخلوق کے مارے ہوئے حقوق کے بدلے میں ہماری نیکیاں ان کو دے دی جائیں یا اگر ہمارے پلے نیکیاں ہیں ہی نہیں تو اُن مظلوموں کے گناہوں میں سے کچھ ہمارے ذمے ڈال دیے جائیں اور یوں ہماری سزا میں مزید اضافہ ہو جائے ، اِس سے پہلے دُنیا میں ہی اپنا حساب بے باک کر لینا چاہیے ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( مَن كانت عِنْدَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيهِ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنهَا فإنّهُ لَيسَ ثَمَّ دِينَارٌ ولا دِرْهَمٌ مِن قَبْلِ أَنْ يُؤْخَذَ لِأَخِيهِ مِن حَسَنَاتِهِ فَإِنْ لم يَكُنْ له حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِن سيئآت أَخِيهِ فَطُرِحَتْ عَليهِ::: جس کےپاس اپنے کسی (مسلمان ) بھائی کا کوئی حق روکا ہوا ہو تو وہ اس سے نجات پا لے کیونکہ وہاں (آخرت میں ) نہ تو درھم ہوں گے اور نہ ہی دینار (جنہیں دے کر جان چھڑا لی جائے ، لہذا ) اس سے پہلے کہ اُس حق والے بھائی کے لیے حق روکے رکھنے والے کی نیکیوں میں سے نیکیاں لے لی جائیں اور اگر اس حق روکے رکھنے والے کے پاس نیکیاں نہیں تو حق والے بھائی کے گناہوں میں سے گناہ اس حق روکے رکھنے والے پر ڈال جائیں ))))) صحیح البخاری / حدیث 6169 /کتاب الرقاق / باب 48 ،
اس طر ح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور اپنی ساری مخلوق کا حساب فرمائے گا ،
چونکہ اللہ تعالیٰ کا عدل و انصاف لا جواب اور بے مثال ، اور ہر قِسم کے ظلم اور زیادتی سے پاک ہے ، لہذا اللہ سبحانہُ و تعالیٰ اپنے بندوں سے ان کے گناہوں کا اقرار کروائے گا ، اور اگر کوئی بندہ اپنے گناہوں کا اقرار نہ کرے گا تو اُس کے جسم کے اعضاء اُس کے کیے ہوئے کاموں کی گواہی دیں گے ((((( يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ::: اُس دِن اُن کی زُبانیں ، اور اُن کے ہاتھ اور اُن کے ٹانگیں اُن کے خلاف گواہی دے کر بتائیں گے کہ وہ کیا کرتے تھے ))))) سُورت النور /آیت 24،
اور صرف یہی اعضاء نہیں بلکہ پورا جسم گواہی دے گا اور بات کرتے ہوئے گواہی دے گا ((((( حَتَّىٰ إِذَا مَا جَآءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ::: یہاں تک کہ جب وہ جہنم کے بالکل قریب آ جائیں گے تو اُن کے خلاف اُن کے کان اور اُن کی آنکھیں اور اُن کی کھالیں گواہی دیں گی o وَقَالُواْ لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوۤاْ أَنطَقَنَا ٱللَّهُ ٱلَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ::: اور وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تُم نے ہمارے خِلاف گواہی کیوں دی ، اُن کی کھالیں (اور أعضاء ) کہیں گے ہمیں اللہ نے بات کروائی ہے جس نے ہر چیز کو بات کروائی اور اُسی نے تُم لوگوں کو پہلی دفعہ تخلیق کیا اور اُسی کی طرف تُم لوگ واپس جا رہے ہو o وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ وَلَـٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ ٱللَّهَ لاَ يَعْلَمُ كَثِيراً ممَّا تَعْمَلُونَ ::: اور تُم لوگ (گناہ کرتے ہوئے) خود کو (اس لیے نہیں )چھپاتے نہیں تھے ( کیونکہ تم لوگ یہ سمجھتے تھے ) کہ تُمارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں تمہارے خِلاف گواہی نہ دیں گی ، اور لیکن (اسکے ساتھ ساتھ ) تم لوگوں کو یہ گمان بھی تھا کہ اللہ تمہارے کاموں میں سے اکثر کاموں کا عِلم نہیں رکھتا o وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ ٱلَّذِي ظَنَنتُم بِرَبكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ منَ ٱلُخَاسِرِينَ ::: اور یہ تُم لوگوں کا تمہارے رب کے بارے میں وہ گُمان تھا جس نے تُم لوگوں کو تباہ کیا اور تُم لوگ خسارے والے ہو گئے ))))) سُورت (حٰم سجدہ) الفُصلت /آیات 20 تا 23 ،
تا کہ ہر بندے کے اعمال پر خود اس کے اپنے ہی جسم و جاں سے گواہی ہو جائے اور کسی کو یہ خیال نہ ہو سکے کہ معاذ اللہ اسے کسی جُرم کی بجائے محض اِلزام کی بنا پر سزا دی گئی ہے ،
::::::: اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا مکمل ، بے عیب انصاف ہی ہے کہ وہ بندوں کے اعمال کے حساب کے لیے ترازو (میزان) قائم فرمائے گا جس میں بندوں کے اعمال تول کر اُس تول کے مطابق بندوں کو جزاء یا سزاء ملے گی ، ہر کوئی اپنے اعمال کے وزن کو خود دیکھے گا ((((( وَالوَزنُ يَومَئِذٍ الحَقُّ فَمَن ثَقُلَت مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ المُفلِحُونَ ::: اور قیامت والے دِن (اعمال کا ) وزن (کیا جانا) حق ہے تو جِس کا (نیکیوں والا ) پلڑا بھاری ہو گیا تو وہ لوگ کامیابی پانے والے ہوں گے o وَمَن خَفَّت مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا بِآياتِنَا يَظلِمُونَ) الأعراف ::: اور جِس کا (نیکوں والا) پلڑا ہلکا ہو گیا تو وہ لوگ ہی ہوں گے جو اپنی جانوں کا نقصان پائیں گے کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظُلم کیا کرتے تھے ))))) سُورت الأعراف /آیات 8-9 ،
جو مسلمان یہ جان لے گا اور اِس پر اِیمان رکھتا ہو گا کہ قیامت والے دِن کس طرح حساب ہو گا اور ایک رتی برابر معمولی سے معمولی برائی بھی ایسی نہ ہو گی جس پر گرفت نہ ہو گی ، اور یہ کہ ظُلم و زیادتی ، برائی اور گناہ کا بدلہ کس کس طرح دینا ہو گا اور کس کس طرح لینا ہو گا تو اُس کے لیے سب سے ضروری اور أہم ہو جائے گا کہ وہ اُس دِن کے حساب سے پہلے اپنا حساب کرتا رہے اور اپنے کھاتے صاف رکھے اور اُس دِن کی تیاری رکھے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ ءِ راشد أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا فرمان ہے کہ " حَاسِبُوا أنفُسَكُم قَبلَ أن تحُاسَبُوا وَزِنُوا أنفُسَكُم قَبلَ أن تُوزَنُوا فَإنَّهُ أخفُ عَلِيكُم في الحِسابِ غَداً أن تُحاسِبُوا أنفُسَكُم اليَوم وتَزَيَّنُوا لِلعَرضَ الأكبر ::: اِس سے پہلے کہ تُم لوگوں کا حِساب کیا جائے تُم لوگ اپنی جانوں (کے اعمال) کا حساب خود کر رکھو ، اپنی جانوں (کے اعمال) کا وزن خود کر رکھو اس سے پہلے کہ اُن کا وزن کیا جائے ، کیونکہ آج حساب کر لینا کل حساب دینے کی نسبت تُم لوگوں کے لیے آسان ہو گا ، اور (جہاں ساری مخلوق کے اعمال دکھائے جائیں گے) اُس بڑی نمائش کے لیے (نیکیوں سے )سج سنور ہو جاؤ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر و المراجع ::: صحیح البُخاری ، صحیح مُسلم ، صحیح ابن حبان ، سنن الترمذی ، التفسیر الکبیر للرازی ، تفسیر ابن کثیر ، تفسیر الأضواء البیان ، فتح الباری شرح صحیح البُخاری ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ، السلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ، حلیۃ الأولیاء ۔

Wednesday, December 19, 2012

بہت گمان کرنے سے احتراز کرو

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ
049:012
‏ [جالندھری]‏ اے اہل ایمان ! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
 ‏
 تفسیر ابن كثیر
 
 اللہ تعالٰی اپنے مومن بندوں کو بد گمانی کرنے ، تہمت رکھنے اپنوں اور غیروں کو خوفزدہ کرنے ، خواہ مخواہ کی دہشت دل میں رکھ لینے سے روکتا ہے اور فرماتا ہے کہ بسا اوقات اکثر اس قسم کے گمان بالکل گناہ ہوتے ہیں پس تمہیں اس میں پوری احتیاط چاہیے ۔
 
 امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ آپ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے مسلمان بھائی کی زبان سے جو کلمہ نکلا ہو جہاں تک تجھ سے ہو سکے اسے بھلائی اور اچھائی پر محمول کر ۔
 
 ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کعبہ کرتے ہوئے فرمایا تو کتنا پاک گھر ہے ؟ تو کیسی بڑی حرمت والا ہے؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ مومن کی حرمت اس کے مال اور اس کی جان کی حرمت اور اس کے ساتھ نیک گمان کرنے کی حرمت اللہ تعالٰی کے نزدیک تیری حرمت سے بہت بڑی ہے ۔ یہ حدیث صرف ابن ماجہ میں ہی ہے ۔
 
 صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بد گمانی سے بچو گمان سب سے بڑی جھوٹی بات ہے بھید نہ ٹٹو لو۔ ایک دوسرے کی ٹوہ حاصل کرنے کی کوشش میں نہ لگ جایا کرو حسد بغض اور ایک دوسرے سے منہ پھلانے سے بچو سب مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو سہو ۔
 
 مسلم وغیرہ میں ہے ایک دوسرے سے روٹھ کر نہ بیٹھ جایا کرو ، ایک دوسرے سے میل جول ترک نہ کر لیا کرو ، ایک دوسرے کا حسد بغض نہ کیا کرو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے آپس میں دوسرے کے بھائی بند ہو کر زندگی گذارو ۔ کسی مسلمان کو حلال نہیں کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال اور میل جول چھوڑ دے 
 
طبرانی میں ہے کہ تین خصلتیں میری امت میں رہ جائیں گی فال لینا ، حسد کرنا اور بدگمانی کرنا ۔ ایک شخص نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان کا تدارک کیا ہے ؟ فرمایا جب حسد کرے تو استغفار کر لے ۔ جب گمان پیدا ہو تو اسے چھوڑ دے اور یقین نہ کر اور جب شگون لے خواہ نیک نکلے خواہ بد اپنے کام سے نہ رک اسے پورا کر ۔
 
 ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص کو حضرت ابن مسعود کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ اس کی ڈاڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں آپ نے فرمایا ہمیں بھید ٹٹولنے سے منع فرمایا گیا ہے اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہو گئی تو ہم اس پر پکڑ سکتے ہیں
 
 مسند احمد میں ہے کہ عقبہ کے کاتب وجین کے پاس گئے حضرت عقبہ گئے اور ان سے کہا کہ میرے پڑوس میں کچھ لوگ شرابی ہیں میرا ارادہ ہے کہ میں داروغہ کو بلا کر انہیں گرفتار کرا دوں ، آپ نے فرمایا ایسا نہ کرنا بلکہ انہیں سمجھاؤ بجھاؤ ڈانٹ ڈپٹ کر دو ، پھر کچھ دنوں کے بعد آئے اور کہا وہ باز نہیں آتے اب تو میں ضرور داروغہ کو بلاؤں گا آپ نے فرمایا افسوس افسوس تم ہرگز ہرگز ایسا نہ کرو سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کی پردہ داری کرے اسے اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے زندہ درگور کردہ لڑکی کو بچا لیا ۔
 
 ابو داؤد میں ہے حضرت معاویہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر تو لوگوں کے باطن اور ان کے راز ٹٹولنے کے درپے ہو گا تو تو انہیں بگاڑ دے گا یا فرمایا ممکن ہے تو انہیں خراب کر دے ۔
 
 حضرت ابودرداء فرماتے ہیں اس حدیث سے اللہ تعالٰی نے حضرت معاویہ کو بہت فائدہ پہنچایا ۔ ابو داؤد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ امیر اور بادشاہ جب اپنے ماتحتوں اور رعایا کی برائیاں ٹٹولنے لگ جاتا ہے اور گہرا اترنا شروع کر دیتا ہے تو انہیں بگاڑ دیتا ہے ۔
 
 پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو یعنی برائیاں معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو تاک جھانک نہ کیا کرو اسی سے جاسوس ماخذ ہے تجسس کا اطلاق عموما برائی پر ہوتا ہے اور تحسس کا اطلاق بھلائی ڈھونڈنے پر ۔ جیسے حضرت یعقوب اپنے بیٹوں سے فرماتے ہیں (فتحسسوا ) الخ ، بچو تم جاؤ اور یوسف کو ڈھونڈو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو اور کبھی کبھی ان دونوں کا استعمال شر اور برائی میں بھی ہوتا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے نہ تجسس کرو نہ تحسس کرو نہ حسد و بغض کرو نہ منہ موڑو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ
 
 امام اوزاعی فرماتے ہیں تجسس کہتے ہیں کسی چیز میں کرید کرنے کو اور تحسس کہتے ہیں ان لوگوں کی سرگوشی پر کان لگانے کو جو کسی کو اپنی باتیں سنانا نہ چاہتے ہوں ۔ اور تدابر کہتے ہیں ایک دوسرے سے رک کر آزردہ ہو کر قطع تعلقات کرنے کو ۔ پھر غیبت سے منہ فرماتا ہے
 
 ابو داؤد میں ہے لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیبت کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی کسی ایسی بات کا ذکر کرے جو اسے بری معلوم ہو تو کہا گیا اگر وہ برائی اس میں ہو جب بھی ؟ فرمایا ہاں غیبت تو یہی ہے ورنہ بہتان اور تہمت ہے ۔
 
 ابو داؤد میں ہے ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ صفیہ تو ایسی ایسی ہیں مسدد راوی کہتے ہیں یعنی کم قامت ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے ایسی بات کہی ہے کہ سمندر کے پانی میں اگر ملا دی جائے تو اسے بھی بگاڑ دے اور ایک مرتبہ آپ کے سامنے کسی شخص کی کچھ ایسی ہی باتیں بیان کی گئیں تو آپ نے فرمایا میں اسے پسند نہیں کرتا مجھے چاہے ایسا کرنے میں کوئی بہت بڑا نفع ہی ملتا ہو ۔
 
 ابن جریر میں ہے کہ ایک بی بی صاحبہ حضرت عائشہ کے ہاں آئیں جب وہ جانے لگیں تو صدیقہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارے سے کہا کہ یہ بہت پست قامت ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ان کی غیبت کی الغرض غیبت حرام ہے اور اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ لیکن ہاں شرعی مصلحت کی بنا پر کسی کی ایسی بات کا ذکر کرنا غیبت میں داخل نہیں جیسے جرح و تعدیل نصیحت و خیر خواہی جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فاجر شخص کی نسبت فرمایا تھا یہ بہت برا آدمی ہے اور جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا معاویہ مفلس شخص ہے اور ابوالجہم بڑا مارنے پیٹنے والا آدمی ہے ۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جبکہ ان دونوں بزرگوں نے حضرت فاطمہ بنت قیس سے نکاح کا مانگا ڈالا تھا اور بھی جو باتیں اس طرح کی ہوں ان کی تو اجازت ہے باقی اور غیبت حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے ۔ اسی لئے یہاں فرمایا کہ جس طرح تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے گھن کرتے ہو اس سے بہت زیادہ نفرت تمہیں غیبت سے کرنی چاہیے ۔ 
 
جیسے حدیث میں ہے اپنے دئیے ہوئے ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے اور فرمایا بری مثال ہمارے لئے لائق نہیں ۔ حجۃ الوداع کے خطبے میں ہے تمہارے خون مال آبرو تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسی حرمت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے۔ ابو داؤد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کا مال اس کی عزت اور اس کا خون مسلمان پر حرام ہے انسان کو اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی حقارت کرے ۔ 
 
اور حدیث میں ہے اے وہ لوگو جن کی زبانیں تو ایمان لاچکیں ہیں لیکن دل ایماندار نہیں ہوئے تم مسلمانوں کی غیبتیں کرنا چھوڑ دو اور ان کے عیبوں کی کرید نہ کیا کرو یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالٰی تمہاری پوشیدہ خرابیوں کو ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھرانے والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے ،
 
 مسند ابو یعلی میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا جس میں آپ نے پردہ نشین عورتوں کے کانوں میں بھی اپنی آواز پہنچائی اور اس خطبہ میں اوپر والی حدیث بیان فرمائی ، حضرت ابن عمر نے ایک مرتبہ کعبہ کی طرف دیکھا اور فرمایا تیری حرمت و عظمت کا کیا ہی کہنا ہے لیکن تجھ سے بھی بہت زیادہ حرمت ایک ایماندار شخص کی اللہ کے نزدیک ہے ۔ ابو داؤد میں ہے جس نے کسی مسلمان کی برائی کر کے ایک نوالہ حاصل کیا اسے جہنم کی اتنی ہی غذا کھلائی جائے گی اسی طرح جس نے مسلمانوں کی برائی کرنے پر پوشاک حاصل کی اسے اسی جیسی پوشاک جہنم کی پہنائی جائے گی اور جو شخص کسی دوسرے کی بڑائی دکھانے سنانے کو کھڑا ہوا اسے اللہ تعالٰی قیامت کے دن دکھاوے سناوے کے مقام میں کھڑا کر دے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے ہیں میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ وہ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتیں لوٹتے تھے 
(ابو داؤد)
 
 اور روایت میں ہے کہ لوگوں کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا معراج والی رات میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جن میں مرد و عورت دونوں تھے کہ فرشتے انکے پہلوؤں سے گوشت کاٹتے ہیں اور پھر انہیں اس کے کھانے پر مجبور کر رہے ہیں اور وہ اسے چبا رہے ہیں میرے سوال پر کہا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو طعنہ زن ، غیبت گو، چغل خور تھے ، انہیں جبراً آج خود ان کا گوشت کھلایا جا رہا ہے (ابن ابی حاتم ) یہ حدیث بہت مطول ہے اور ہم نے پوری حدیث سورہ سبحٰن کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہے فالحمد اللہ ۔ مسند ابو داؤد طیالسی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو روزے کا حکم دیا اور فرمایا جب تک میں نہ کہوں کوئی افطار نہ کرے شام کو لوگ آنے لگے اور آپ سے دریافت کرنے لگے آپ انہیں اجازت دیتے اور وہ افطار کرتے اتنے میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں نے روزہ رکھا تھا جو آپ ہی کے متعلقین میں سے ہیں انہیں بھی آپ اجازت دیجئے کہ روزہ کھول لیں آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اس نے دوبارہ عرض کی تو آپ نے فرمایا وہ روزے سے نہیں ہیں کیا وہ بھی روزے دار ہو سکتا ہے ؟ جو انسانی گوشت کھائے جاؤ انہیں کہو کہ اگر وہ روزے سے ہیں تو قے کریں چنانچہ انہوں نے قے کی جس میں خون جمے کے لوتھڑے نکلے اس نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ نے فرمایا اگر یہ اسی حالت میں مر جاتیں تو آگ کا لقمہ بنتیں ۔ اس کی سند ضعیف ہے اور متن بھی غریب ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے کہا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں عورتوں کی روزے میں بری حالت ہے مارے پیاس کے مر رہی ہیں اور یہ دوپہر کا وقت تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی پر اس نے دوبارہ کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو مر گئی ہوں گی یا تھوڑی دیر میں مر جائیں گی آپ نے فرمایا جاؤ انہیں بلا لاؤ جب وہ آئیں تو آپ نے دودھ کا مٹکا ایک کے سامنے رکھ کر فرمایا اس میں قے کر اس نے قے کی تو اس میں پیپ خون جامد وغیرہ نکلی جس سے آدھا مٹکا بھر گیا پھر دوسری سے قے کرائی اس میں بھی یہی چیزیں اور گوشت کے لوتھڑے وغیرہ نکلے اور مٹکا بھر گیا ، اس وقت آپ نے فرمایا انہیں دیکھو حلال روزہ رکھے ہوئے تھیں اور حرام کھا رہی تھیں دونوں بیٹھ کر لوگوں کے گوشت کھانے لگی تھیں 
(یعنی غیبت کر رہی تھیں ) 
( مسند احمد )
 
 مسند حافظ ابو یعلی میں ہے کہ حضرت ماعز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کیا ہے آپ نے منہ پھیر لیا یہاں تک کہ وہ چار مرتبہ کہہ چکے پھر پانچویں دفعہ آپ نے کہا تو نے زنا کیا ہے ؟ جواب دیا ہاں فرمایا جانتا ہے زنا کسے کہتے ہیں ؟ جواب دیا ہاں جس طرح انسان اپنی حلال عورت کے پاس جاتا ہے اسی طرح میں نے حرام عورت سے کیا ۔ آپ نے فرمایا اب تیرا مقصد کیا ہے ؟ کہا یہ کہ آپ مجھے اس گناہ سے پاک کریں آپ نے فرمایا کیا تو نے اسی طرح دخول کیا تھا جس طرح سلائی سرمہ دانی میں اور لکڑی کنویں میں ؟ کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ نے انہیں رجم کرنے یعنی پتھراؤ کرنے کا حکم دیا چنانچہ یہ رجم کر دئے گئے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسے دیکھو اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن اس نے اپنے تئیں نہ چھوڑا یہاں تک کہ کتے کی طرح پتھراؤ کیا گیا ۔ آپ یہ سنتے ہوئے چلتے رہے تھوڑی دیر بعد آپ نے دیکھا کہ راسے میں ایک مردہ گدھا پڑا ہوا ہے فرمایا فلاں فلاں شخص کہاں ہیں ؟ وہ سواری سے اتریں اور اس گدھے کا گوشت کھائیں انہوں نے کہا یارسول اللہ، اللہ تعالٰی آپ کو بخشے کیا یہ کھانے کے قابل ہے ؟ آپ نے فرمایا ابھی جو تم نے اپنے بھائی کی بدی بیان کی تھی وہ اس سے بھی زیادہ بری چیز تھی ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ شخص جسے تم نے برا کہا تھا وہ تو اب اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ مسند احمد میں ہے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ نہایت سڑی ہوئی مرداری بو والی ہوا چلی آپ نے فرمایا جانتے ہو ؟ یہ بو کس چیز کی ہے؟ یہ بدبو ان کی ہے جو لوگوں کی غیبت کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ منافقوں کے ایک گروہ نے مسلمانوں کی غیبت کی ہے یہ بدبودار ہوا وہ ہے ۔
 
 حضرت سدی فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان ایک سفر میں دو شخصوں کے ساتھ تھے جن کی یہ خدمت کرتے تھے اور وہ انہیں کھانا کھلاتے تھے ایک مرتبہ حضرت سلمان سو گئے تھے اور قافلہ آگے چل پڑا پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان دونوں نے دیکھا کہ حضرت سلمان نہیں تو اپنے ہاتھوں سے انہیں خیمہ کھڑا کرنا پڑا اور غصہ سے کہا سلمان تو بس اتنے ہی کام کا ہے کہ پکی پکائی کھا لے اور تیار خیمے میں آ کر آرام کر لے ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت سلمان پہنچے ان دونوں کے پاس سالن نہ تھا تو کہا تم جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لئے سالن لے آؤ ۔ یہ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے دونوں ساتھیوں نے بھیجا ہے کہ اگر آپ کے پاس سالن ہو تو دے دیجئے آپ نے فرمایا وہ سالن کا کیا کریں گے ؟ انہوں نے تو سالن پا لیا ۔ حضرت سلمان واپس گئے اور جا کر ان سے یہ بات کہی وہ اٹھے اور خود حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تو سالن نہیں نہ آپ نے بھیجا آپ نے فرمایا تم نے مسلمان کے گوشت کا سالن کھا لیا جبکہ تم نے انہیں یوں کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (میتاً) اس لئے کہ وہ سوئے ہوئے تھے اور یہ ان کی غیبت کر رہے تھے ۔ مختار ابو ضیا میں تقریبًا ایسا ہی واقعہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے اس خادم کا گوشت تمہارے دانتوں میں اٹکا ہوا دیکھ رہا ہوں اور ان کا اپنے غلام سے جبکہ وہ سویا ہوا تھا اور ان کا کھانا تیار نہیں کیا تھا صرف اتنا ہی کہنا مروی ہے کہ یہ تو بڑا سونے والا ہے ان دونوں بزرگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ ہمارے لئے استغفار کریں ابو یعلی میں ہے جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھایا (یعنی اس کی غیبت کی) قیامت کے دن اس کے سامنے وہ گوشت لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ جیسے اس کی زندگی میں تو نے اس کا گوشت کھایا تھا اب اس مردے کا گوشت بھی کھا ۔ اب یہ چیخے گا چلائے گا ہائے وائے کرے گا اور اسے جبراً وہ مردہ گوشت کھانا پڑے گا ۔ یہ روایت بہت غریب ہے پھر فرماتا ہے اللہ کا لحاظ کرو اس کے احکام بجا لاؤ اس کی منع کردہ چیزوں سے رک جاؤ اور اس سے ڈرتے رہا کرو ۔ جو اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو اس پر بھروسہ کرے اس کی طرف رجوع کرے وہ اس پر رحم اور مہربانی فرماتا ہے ۔ جمہور علماء کرام فرماتے ہیں غیبت گو کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے اور پھر سے اس گناہ کو نہ کرے پہلے جو کر چکا ہے اس پر نادم ہونا بھی شرط ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی حاصل کر لے ۔ بعض کہتے ہیں یہ بھی شرط نہیں اس لئے کہ ممکن ہے اسے خبر ہی نہ ہو اور معافی مانگنے کو جب جائے گا تو اسے اور رنج ہو گا ۔
 
 پس اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جن مجلسوں میں اس کی برائی بیان کی تھی ان میں اب اس کی سچی صفائی بیان کرے اور اس برائی کو اپنی طاقت کے مطابق دفع کر دے تو اولا بدلہ ہو جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اس وقت کسی مومن کی حمایت کرے جبکہ کوئی منافق اس کی مذمت بیان کر رہا ہو اللہ تعالٰی ایک فرشتے کو مقرر کر دیتا ہے جو قیامت والے دن اس کے گوشت کو نار جہنم سے بچائے گا اور جو شخص کسی مومن پر کوئی ایسی بات کہے گا جس سے اس کا ارادہ اسے مطعون کرنے کا ہو اسے اللہ تعالٰی پل صراط پر روک لے گا یہاں تک کہ بدلا ہو جائے یہ حدیث ابو داؤد میں بھی ہے
 
 ابو داؤد کی ایک اور حدیث میں ہے جو شخص کسی مسلمان کی بےعزتی ایسی جگہ میں کرے جہاں اس کی آبرو ریزی اور توہین ہوتی ہو تو اسے بھی اللہ تعالٰی ایسی جگہ رسوا کرے گا جہاں وہ اپنی مدد کا طالب ہو اور جو مسلمان ایسی جگہ اپنے بھائی کی حمایت کرے اللہ تعالٰی بھی ایسی جگہ اس کی نصرت کرے گا
 (ابو داؤد)

Friday, December 14, 2012

درود شریف کے فضائل


1- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘  
[ مسلم : ۴۰۸]
 
2- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ) 
[ صحیح الجامع : ۶۳۵۹ ]
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔

3- درود شریف کثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجات ملتی ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ جتنا چاہو۔ میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَجتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ایک روایت ہے میں ہے :إِذَنْ یَکْفِیْکَ اﷲُ ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِتب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔‘‘ 
[ ترمذی : ۲۴۵۷ ، وصححہ الالبانی ]
روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب وہی ہو گا جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا تھا ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً)
’’ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘   
[رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہم]
 
 
وہ مواقع جہاں درود شریف ضرور پڑھنا چاہیے

ویسے تو درود شریف کسی وقت یا موقع کی قید کے بغیر کثرت کے ساتھ پڑھنا چاہیے، تاہم بعض مواقع ایسے ہیں جہاں اس کے پڑھنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ تو مشہور ہیں ۔ مثلاً ہر نماز کے آخری تشہد میں، قنوتِ وتر کے آخر میں، نماز جنازہ کی دوسری تکبیر کے بعد اور خطبہ جمعہ وغیرہ میں۔ ان کے علاوہ مزید کچھ مواقع یہ ہیں :
ï دعا سے پہلے
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا ، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اس نے جلد بازی کی ہے ۔ پھر آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِیْدِ اﷲِ وَالثَّنَائِ عَلَیْہِ ، ثُمَّ یُصَلِّیْ عَلَی النَّبِیِّ ، ثُمَّ لْیَدْعُ بِمَا شَائَتم میں سے کوئی شخص جب نماز پڑھ لے تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف وثنا بیان کرے ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے ، اس کے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے۔‘‘
[ ابو داؤد : ۱۴۸۱ ، ترمذی : ۳۴۷۷ ۔ وصححہ الالبانی ]
اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
إِنَّ الدُّعَائَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأرْضِ لَا یَصْعَدُ مِنْہُ شَیْئٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ ﷺ  
[ ترمذی : ۴۸۶۔ وحسنہ الالبانی ]
’’بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے اور کوئی دعا اوپر نہیں جاتی یہاں تک کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں۔‘‘
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے تو ذکرکرنے اور سننے والے دونوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)
’’اس آدمی کی ناک خاک میں ملے جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔‘ 
[ترمذی : ۳۵۴۵۔ وصححہ الالبانی ]
نیز ارشاد فرمایا :
(اَلْبَخِیْلُ الَّذِیْ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)
’’ بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘
[ ترمذی : ۳۵۴۶۔ وصححہ الابانی ]
ïاذان کے بعد
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
(إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ، ثُمَّ صَلُّوْا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلاَۃً صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہٖ عَشْرًا)
’’جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی اسی طرح کہو جیسے وہ کہے ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے ( یا دس مرتبہ اس کی تعریف کرتا ہے)۔‘‘  
[مسلم: ۳۸۴]
ï مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے
مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے پہلے درود شریف اور پھر مسنون دعا پڑھنی چاہیے۔‘ 
[ السنن الکبری للنسائی وابن حبان ]
ï جمعہ کے روز
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی بعض خصوصیات ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا :
(۔۔۔فَأَکْثِرُوْا عَلَیَّ مِنَ الصَّلاَۃِ فِیْہِ ، فَإِنَّ صَلاَتَکُمْ مَعْرُوْضَۃٌ عَلَیَّ قَالَ : قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اﷲﷺِ ! وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلاَتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ ؟ قَالَ : یَقُوْلُوْنَ : بَلَیْتَ ، فَقَالَ : إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْأرْضِ أَجْسَادَ الْأنْبِیَائِ)
’’ لہذا تم اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجا کرو ، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ ( قبر میںآپ کا جسدِ اطہر ) تو بوسیدہ ہو جائے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر یہ بات حرام کردی ہے کہ وہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔‘‘ [ ابو داؤد :۱۰۴۷ ۔ وصححہ الالبانی ]
ï صبح وشام
حضرت ابودردائ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مََنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا ، وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا ، أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)  
[ صحیح الجامع : ۶۳۵۷ ]
’’جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔

درود شریف نہ پڑھنے والا بد نصیب

جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف نہیں بھیجتا وہ یقینا بد نصیب اور بہت ساری برکات سے محروم ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بارآمین کہا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تو ایسا نہیں کرتے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میرے پاس ابھی جبریل علیہ السلام آئے تھے ، انھوں نے کہا : اللہ تعالیٰ اس شخص کی ناک کو خاک میں ملائے ( ایک روایت میں ہے کہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے ) جو ماہِ رمضان المبارک کو پا لے اور اس کی مغفرت نہ کی جائے ، تو میں نے کہا : آمین ۔
پھر انھوں نے کہا : اللہ تعالیٰ اس شخص کی ناک کو خاک میں ملائے ( ایک روایت میں ہے کہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے ) جووالدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پا لے اور ( ان کی خدمت کرکے ) جنت میں داخل نہ ہو ، تو میں نے کہا : آمین ۔
پھر انھوں نے کہا : اللہ تعالیٰ اس شخص کی ناک کو خاک میں ملائے ( ایک روایت میں ہے کہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے ) جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے ، تو میں نے کہا : آمین ۔ 
[صحیح ابن خزیمہ وصحیح ابن حبان وغیرہ ]
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(مَنْ نَسِیَ الصَّلاَۃَ عَلَیَّ خَطِیَٔ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ) 
[ صحیح الجامع للألبانی : ۶۵۶۸] 
جو شخص مجھ پر درود بھیجنا بھول جائے وہ جنت کے راستے سے ہٹ گیا۔

وہ مجلس جس میں درود شریف نہ پڑھا جائے
جس مجلس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف نہ بھیجائے وہ یقینا بے برکت مجلس ہے اور اس کے شرکاء ایک صحیح حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سامنا کر سکتے ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
(
أَیُّمَا قَوْمٍ جَلَسُوْا مَجْلِسًا ثُمَّ تَفَرَّقُوْا قَبْلَ أَنْ یَّذْکُرُوا اﷲَ وَیُصَلُّوا عَلَی النَّبِیِّﷺکَانَ عَلَیْہِمْ مِنَ اﷲِ تِرَۃً ، إِنْ شَائَ عَذَّبَہُمْ وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَہُمْ)
’’ جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوں ، پھر وہ اللہ کا ذکر اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے بغیر جدا جدا ہوجائیں تویہ مجلس ان کے لیے عیب اور نقص کا باعث ہو گی۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو انھیں عذاب دے گا اور اگر چاہے گا تو انھیں معاف کردے گا۔‘‘
[ ابو داؤد والترمذی ۔ وصححہ الالبانی ]


درود شریف پڑھنے کے فوائد

علامہ ابن قیم ؒ نے درود شریف پڑھنے کے ۳۹ فوائد ذکر کئے ہیں ، ان میں سے چند اہم فوائد یہ ہیں
ï درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہوتا ہے۔
ïایک مرتبہ درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
ï دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔
ïدس گناہ معاف کردییجاتے ہیں ۔
ïدس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
ïدعاسے پہلے درود شریف پڑھنے سے دعا کی قبولیت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
ï اذان کے بعد کی مسنون دعا سے پہلے درود شریف پڑھا جائے تو قیامت کے روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔
ïدرود شریف کثرت سے پڑھنے سے پریشانیاں ٹل جاتی ہیں ۔
ïقیامت کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب ہو گا۔
ï درود شریف پڑھنے سے مجلس بابرکت ہو جاتی ہے۔
ïجب انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا ہے تواللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے۔
ï درود شریف پڑھنے والے شخص کی عمر اس کے عمل اور رزق میں برکت آتی ہے۔
ï درود شریف کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
ï درود شریف پڑھنے سے دل کو ترو تازگی اور زندگی ملتی ہے۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حقوق ادا کرنے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔ اور روزِ قیامت ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور آپ کے ہاتھوں حوضِ کوثر کا پانی نصیب کرے ۔ آمین ثم آمین


Tuesday, November 27, 2012

دلوں کی زندگی۔۔۔۔۔اللہ کے ذکر میں

ذکر سے خالی دل مردہ ہے


جو شخص ذکر کے مفہوم کو سمجھنے سے محروم رہا وہ آرام دہ اور اطمئنان بخش زندگی سے محروم رہا، یہی وجہ ہے کہ مومن کو ہمہ وقت ذکر الٰہی سے رطب اللسان رہنا چاہیے۔ امام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: "دل کے لیے ذکر اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک مچھلی کے لیے پانی، "۔ حضرت ابودرداء ؓ کہتے ہیں: "ہر چیز کو (پالش) کیا جاتا ہے، اور دلوں کی پالش اللہ رب العزت کا ذکر ہے"۔


 ذکر کے بدلے ۔۔۔جنت کے مکانات

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: لقيت ليلة أسري بي إبراهيم الخليل عليه السلام، فقال: يا محمد أقرئ أمتك السلام، وأخبرهم أن الجنة طيبة التربة، عذبة الماء، وأنها قيعان، وأن غرسها سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر» 
[حسن
جس رات مجھے معراج لے جایا گیا، حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے میری ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا: اے محمد : اپنی امت کو سلام کہیے اور انہیں یہ بتایئے کہ جنت بہترین مٹی اورمیٹھے پانی والی ہے، اور یہ (درخت وغیرہ سے خالی) دو چٹیل زمینیں ہیں، البتہ ان میں شجرکاری کے ذرائع سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالہ الا اللہ اور اللہ اکبر ہیں۔
 (حسن)

جنت کے گھرذکر کے ذریعے تعمیر کیئے جاتے ہیں، جب ذاکر(ذکرکرنے والا)اللہ کے ذکر سے رک جاتا ہے، تو فرشتے بھی جنت میں گھر کی تعمیر سے رک جاتے ہیں، پھر جب ذاکر ذکر الٰہی شروع کرتا ہے تو فرشتے بھی اپنے کام
یعنی گھر کی تعمیر  میں لگ جاتے ہیں۔

 ذکر الٰہی۔۔۔۔۔۔ذریعۂ نجات
 
ذکر کرنے والا بندۂ مومن ، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہوجاتا ہے، اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی معیت ورحمت کے سبب مطمئن رہتا ہے۔
 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکا ارشاد ہے: ما عمل ابن آدم عمل أنجى له من عذاب الله من ذكر الله عز وجل قالوا: يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: ولا الجهاد في سبيل الله، إلا أن تضرب بسيفك حتى ينقطع، ثم تضرب به حتى ينقطع

ترجمہ: آدم کے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ کوئی عمل نجات نہیں دے سکتا، صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول، اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے میں جھاد بھی نہیں، مگر یہ کہ تم اپنی تلوار سے (اتنا لڑو کہ) وہ ٹوٹ جائے ، پھر اتنا لڑو کہ وہ ٹوٹ جائے۔

فضیل بن عیاض کہتے ہیں: ہمیں یہ روایت پہنچی کہ
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے میری بندے تو مجھے صبح کے بعد کچھ دیر یاد کر، اسی طرح عصر کے بعد ، میں تیرے لیے ان اوقات کے درمیان کے لیے کافی ہوجاؤں گا۔
(بروایت حضرت ابوہریرہ )
حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں: اہل جنت کو جنت میں کسی چیز پر اتنا افسوس نہیں ہوگا سوائے اس گھڑی کے جو انھوں نے ذکر الٰہی کے بغیر گذاری تھی
   
لہٰذا۔۔۔۔

 اپنے لیے ہر روز صبح وشام تک ذکر الٰہی کے لیے ایک وقت متعین کیجئے تاکہ اس کے ذریعہ تم آسمان وزمین کے برابر کشادگی والی جنت حاصل کرسکو۔


ذکر اور دعا کے آداب

 ۱ دعا کے لیے مندرجہ ذیل اوقات کے منتظر رہے
 سال میں عرفہ کا دن، مہینوں میں ماہ رمضان، ہفتے میں جمعہ کا دن، اور اوقات میں سحر کا وقت
۲ ان مبارک حالات سے فائدہ اٹھائے
اللہ کے راستے میں لشکروں کے باہم مڈبھیڑ کے وقت، بارش کے نزول کے وقت اور نماز کے قائم ہونے کے وقت
۳ قبلہ رخ ہوکر دونوں ہاتھوں کو اٹھاکر دعا کرے۔
۴ دھیمی اور بلند یعنی درمیانی آواز میں دعا کرے۔
۵ دعا میں تکلف کے طور پر الفاظ کا استعمال نہ کرے بلکہ تضرع اور عاجزی ہو۔
۶ اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع، عاجزی ، انکساری اور تضرع کا مظاہرہ کرے۔
۷ دعا ،قبولیت کے یقین کے ساتھ کرے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔
۸ دعا اصرار سے مانگے اور تین تین بار دہرائے۔
۹ دعا کا آغاز اللہ تعالیٰ کے ذکر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر دورود وسلام کے ذریعے کرے۔
۱۰ سچی توبہ ، اپنے باطن کی اصلاح ، حلال کھانے اور ظلم کا خاتمہ پر توجہ دے


جنت میں لیجانے والے اذکار

 آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: من قال في يوم وليلة سبحان الله وبحمده مائة مرة حُطت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر» [صحيح
ترجمہ: جس نے دن ورات میں سبحان الله وبحمده سو مرتبہ پڑھا ، اس کے سمندر کے جھاگ کے برابر بھی گناہ ہو تو معاف کردیئے جائیں گے۔
نیز آپ کا ارشاد ہے: من قال سبحان الله العظيم وبحمده غرست له نخلة في الجنة» 
[صحيح].
ترجمہ: جس نے سبحان الله العظيم وبحمده کہا اس کے لیے جنت میں ایک کھجور کا درخت لگادیا جاتا ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے

 من قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير في يوم مائة مرة كانت له عدل عشر رقاب وكتبت له مائة حسنة، ومحيت عنه مائة سيئة، وكانت له حرزاً من الشيطان يومه ذلك حتى يمسي، ولم يأت أحد بأفضل مما جاء به إلا رجل عمل أكثر منه» [صحيح

ترجمہ: جس نے لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير دن میں سو مرتبہ پڑھا ، اس کے لیے دس غلاموں کو آزاد کرنے اور سو نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے، اور سو گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے، اور شام تک شیطان سے اس کو محفوظ کردیا جاتا ہے، اور اس عمل کرنے والے سے زیادہ افضل کوئی شخص نہیں آتا مگر وہ جس نے اس سے زیادہ عمل کیا ہو۔

دل کو اللہ کے ذکر سے کیسے زندہ رکھیں؟

جب ذکر کی اتنی اہمیت ہے تو دل کو ذکر الٰہی سے زندہ رکھنے کے بارے میں ہمارا کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟
ابن قیم کہتے ہیں: کبھی کبھی ذکر دل اور زبان دونوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے، اور یہ ذکر کا افضل طریقہ ہے، لیکن کبھی ذکر صرف دل میں کیا جاتا ہے، یہ طریقہ دوسرے درجہ پر ہے، اسی طرح کبھی کبھی صرف زبان سے ذکر کیا جاتا ہے اور دل غیر حاضر ہوتا ہے، تو یہ ذکر کا تیسرا درجہ ہے۔
افضل ذکر یہ ہے کہ زبان اور دل حاضر ہو،اور صرف دل کا ذکر زبان کے ذکر سے افضل ہے اس لیے کہ دل میں ذکر کرنے کی وجہ سے معرفت الٰہی عطا ہوتی ہے اور معرفت مراقبہ کو دعوت دیتی ہے۔
یقینا آپ کہیں گے کہ ذکر کے دوران دل اور زبان کے اجتماع پر کون قادر ہے۔  ہم سب کمزور ہیں، لیکن زبان کے ساتھ دل کا ذکر ایمان کا معیار ہے

ذکر کا طریقہ

 اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں فکر کرنا، دائمی محاسبہ اور مراقبہ کرنا، اللہ تعالیٰ کی قدرت اورصنعت کو پہچاننا۔ جب یہ عمل کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ اس کے نتیجے میں ہمارا دل اللہ کی یاد سے زندہ رہیں گے۔



ذکر کے فوائد

ذکر کے بہت سارے فوائد ہیں جن میں سے چند ہم یہاں بیان کررہے ہیں

۱ شیطان دور بھاگتا ہے، اور رحمن راضی ہوتا ہے۔
۲ دل اور بدن قوی ہوتا ہے، اور چہرہ اور دل منور ہوتا ہے۔
۳ ذکر کرنے والے کا چہرہ رعب، حلاوت اور تازگی سے لبریز ہوتا ہے۔
۴ ذکر سے مراقبہ حاصل ہوتا ہے یہاں تک کہ بندہ احسان کے باب میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرتا ہے گویا اسے دیکھ رہا ہے۔
۵۔ بندے کے حق میں ذکر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول حاصل ہوتا ہے: : {فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ}
[البقرة: 152].
۶۔ ذکر سے گناہ مٹتے ہیں، اس لیے کہ ذکر سب سے بڑی نیکی ہے۔
۷ ذکر ،رحمت الٰہی،سکینت الٰہی اور مغفرت الٰہی کے نرول کا ذریعہ ہے۔
۸۔ کثرت سے ذکر کرنا نفاق سے حفاظت کا ذریعہ ہے: وَلاَ يَذْكُرُونَ اللّهَ إِلاَّ قَلِيلاً}
[النساء: 142]
ترجمہ: اور وہ (منافقین) اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔
۹۔ذکر، دل کی سنگدلی اور سختی کے لیے باعث شفا ہے۔
۱۰ ذکر الٰہی رزق کے عظیم دروازوں میں سے ایک ہے

 ذکر کے بارے میں علماء کے اقوال

حضرت حسن کے پاس ایک آدمی آیا، اور ان سے کہا: او! ابوسعید۔۔ میں اپنے دل کی سختی کی شکایت کرتا ہوں، انھوں نے ارشاد فرمایا: اپنے دل کی سنگدلی کو ذکر الٰہی سے پگھلادو۔
مکحول کہتے ہیں: اللہ کا ذکر کرنا شفا ہے،اور بندوں کا ذکر کرنا بیماری ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنا مجھے زیادہ پسند ہے کہ میں اتنی ہی تعداد میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں دنانیر خرچ کروں۔
حضرت مالک بن دینار کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرح مزہ لینے والوں نے کسی اور چیز کا مزہ نہیں اٹھایا۔

Wednesday, November 21, 2012

تکبر و خودپسندی

یوں تو دنیا میں فسادات کی بہت سی وجوہات موجود ہیں لیکن علماء اخلاق نے غرور و تکبر، خودپسندى اور خودخواہی كى صفت كو " ام الفساد" يعنى فساد كى ماں قرار ديا ہے۔ غرور اور خودپسندی کو تمام گناہوں اور برى صفات كا سبب بتلايا ہے۔ " ولیم لا" ایک مشہور انگریز مصنف ہے۔ اس نے اخلاقیات کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے۔ برائی جب بھی شروع ہوتی ہے غرور سے شروع ہوتی ہے۔ برائی کاجب بھی خاتمہ ہوتا ہے تو انکساری کے ذریعہ ہوتا ہے۔
Evil can have no beginning, but from pride, nor any end but from   (humility William Law)
یوں تو" ولیم لا " نے یہ بات اخلاقی اعتبار سے کہی ہے، لیکن اگر ہم صرف اسلامی نقطعہ نظر کے مطابق اس بات پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آسمانی شریعت کی بات بھی یہی ہے۔ خدا کے نزدیک کسی آدمی کا سب سے بڑا جرم "شرک" ہے۔ اسی لئے شرک کی معافی نہیں اور شرک غرور کی سب سے اعلی سطح ہے یعنی اپنی ذات کو اتنی اہمیت دینا کہ اللہ اور اس کے احکامات کو فراموش کر دینا غرور ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے کیونکہ تکبر صرف واحد اللہ تعالی کی ذات کے لئے مخصوص ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلے میں جو بھی ظلم یا فساد کرتا ہے ان سب کی جڑ میں کھلا یا چھپا ہوا غرور شامل رہتا ہے۔ غرور کی وجہ سے آدمی حق کا اعتراف نہیں کرتا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ حق کا اعتراف کر کے اس کی بڑائی ختم ہو جائے گی۔ وہ بھول جاتا ہے کہ حق کو نہ مان کر وہ حق کے مقابلہ میں خود اپنی ذات کو برتر قرار دے رہا ہے۔ اور یہاں سے ہی خودپسند متکبر لوگوں کے ہاتھوں اللہ کی مخلوق کو نہ صرف اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے بلکہ معاشرے میں تباہی شروع ہو جاتی ہے۔ فضائل اخلاقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ اپنی ذات کی محبت اور خودپسندی ہے۔ کیونکہ اپنی ذات کی چاہت میں اضافے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر ایسے شخص کے دل میں دوسرے افراد سے محبت کرنے کی جگہ ہی باقی نہیں رہتی اور اپنی ذات کا غرور انسان کو اپنی غلطیوں کے اعتراف سے روکتا ہے اور ان حقائق کے قبول کرنے پر تیار نہیں ہونے دیتا، جن سے اس کے تکبر کا شیشہ چور ہو جانے کا اندیشہ ہو ۔
پروفیسر " روبنیسون" کہتا ہے ہم کو بارہا یہ اتفاق ہوتا ہے کہ خود بخود بغیر کسی زحمت و پریشانی کے اپنا نظریہ بدل دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی دوسرا ہمارے نظریہ کی غلطی یا اشتباہ پر ہم کو مطلع کرے تو پھر دفعةً ہم میں ایک انقلاب پیدا ہو جاتا ھے اور ہم اس غلطی کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں ہم کسی بھی نظریہ کو خود بڑی آسانی سے قبول کر لیتے ہیں لیکن اگر کوئی دوسرا ہم سے ہمارا نظریہ چھیننا چاہے تو ہم دیوانہ وار اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں، ظاہری سی بات ہے ہمارے عقیدہ و نظریہ میں کوئی مخصوص رابطہ نہیں ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ہماری خود خواہی و تکبر کی حس مجروح ہوتی ہے ۔ اس لئے ہم تسلیم نہیں کرتے اور اسی لئے اگر کوئی ہم سے کہے کہ تمہاری گھڑی پیچھے ہے یا تمہاری گاڑی بہت پرانے زمانہ کی ہے تو ممکن ہے کہ ہم کو اتنا ہی غصہ آ جائے جتنا یہ کہنے پر آتا ہے کہ تم مریخ کے بارے میں جاہل ہو یا فراعنہ مصر کے بارے میں تمہاری معلومات صفر کے برابر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ غصہ کیوں آتا ہے صرف اس لئے کہ ہمارے تکبر اور ہماری انانیت کو ٹھیس نہ لگ جائے۔
خودپسند اور غرور میں ڈوبا ہوا انسان خود اپنا سب سے بڑا دُشمن ہوتا ہے۔ ایسا شخص صرف حيوانیت كو چاہتا ہے۔ اس كے تمام افعال اور حركات كردار اور گفتار كا مركز حيوانى خواہشات كا چاہنا اور حاصل كرنا ہوتا ہے اور اسی لئے ایسا انسان مقام عمل ميں اپنے آپ كو حيوان سمجھتا ہے  اور زندگى ميں سوائے حيوانى خواہشات اور ہوس كے اور كسى ہدف اور غرض كو نہيں پہچانتا۔ حيوانى پست خواہشات كے حاصل كرنے ميں اپنے آپ كو آزاد جانتا ہے اور ہر كام كو جائز سمجھتا ہے اس كے نزديك صرف ايك چيز مقدس اور اصلى ہے اور وہ ہے اس كا حيوانى نفس اور وجود، تمام چيزوں كو يہاں تك كہ حق عدالت صرف اپنے لئے چاہتا ہے اور مخصوص قرار ديتا ہے۔ حق اور عدالت جو اسے فائدہ پہنچائے اور اس كى خواہشات كو پورا كرے اسی عدالت اور ضابطوں کو مانتا ہے اور اگر عدالت یا سمجھانے والا کوئی بھی اسے صیح راستے کی طرف دعوت دے تو وہ ايسے کسی قانون دوست یا عدالت كو نہيں مانتا، بلكہ اپنے غرور اور خودپسندی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اپنے لئے صحيح سمجھتا ہے كہ اپنے دوستوں یا عدالتوں كا مقابلہ كرے يہاں تك كہ قوانين اور احكام كى اپنى پسند كے مطابق تاويل كرتا ہے يعنى اس كے نزديك اپنے افكار اور نظريات اور حقيقت ركھتے ہيں اور باقی کسی شے کی کوئی حثیت نہیں۔
انسانی نیک بختی اور بشری سعادت کی سب سے بڑی دشمن "خود پسندی" ہے۔ لوگوں کی نظروں میں تکبر و خودپسندی جتنی مذموم صفت ہے کوئی بھی اخلاقی برائی اتنی ناپسند نہیں ہے۔ خودپسندی الفت و محبت کے رشتہ کو ختم کر دیتی ہے۔ یگانگت و اتحاد کو دشمنی سے بدل دیتی ہے اور انسان کے لئے عمومی نفرت کا دروازہ کھول دیتی ہے اسلئے انسان کو چاہیئے کہ وہ جتنا دوسروں سے اپنے لئے احترام و محبت کا خواہشمند ہو، اتنا ہی دوسروں کی حیثیت و عزت و وقار کا لحاظ کرے اور ان تمام باتوں سے پرہیز کرے جن سے حسن معاشرت کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا رشتہ محبت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ لوگوں کے جذبات کا احترام نہ کرنے سے اس کے خلاف عمومی نفرت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور خود وہ شخص مورد اہانت بن جاتا ہے۔ کبر کا لازمہ بدبینی ہے، متکبر انسان سب ہی کو اپنا بدخواہ اور خود غرض سمجھتا ہے اس کے ساتھ مسلسل ہونے والی بے اعتنائیوں اور اس کے غرور کو چکنا چور کر دینے والے واقعات کی یادیں اس کے دل سے کبھی محو نہیں ہوتیں اور بےاختیار و نادانستہ اس کے افکار اس طرح متاثر ہو جاتے ہیں کہ جب بھی اس کو موقع ملتا ہے وہ پورے معاشرے سے کینہ توزی کے ساتھ انتقام پر اتر آتا ہے اور جب تک اس کے قلب کو آرام نہ مل جائے اس کو سکون نہیں ملتا۔
اگر آپ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ہو جائے گی اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ جو لوگ انبیائے الٰہی کی مخالفت کرتے رہتے تھے اور حق و حقیقت کے قبول کرنے سے اعراض کرتے رہے تھے وہ ہمیشہ دنیا کی خونیں جنگوں میں اس بات پر راضی رہتے تھے کہ ہستی بشر سرحد مرگ تک پہنچ جائے اور یہ جذبہ ہمیشہ حاکمانِ وقت کے غرور و خودپرستی ہی کی بنا پر پیدا ہوتا تھا۔ پست اقوام و پست خاندان میں پرورش پانے والے افراد جب معاشرہ میں کسی اچھی پوسٹ پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ متکبر ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی شخصیت کو دوسروں کی شخصیت سے ماوراء سمجھتے ہیں اور ان کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی شرافت کا ڈھنڈھورا پیٹیں لیکن ایسے افراد بھول جاتے ہیں کہ غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و سر بلندی کی چوٹی پر پہنچایا ہے۔
ایک دانشمند کہتا ہے " امیدوں کے دامن کو کوتاہ کرو اور سطحِ توقعات کو نیچے لے آؤ اپنے آپ کو خواہشات کے جال سے آزاد کراؤ، غرور و خودبینی سے دوری اختیار کرو قید و بند کی زنجیروں کو توڑ دو۔ تاکہ روحانی سلامتی سے ہم آغوش ہو سکو ۔ حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو سود مند نصائح کرتے ھوئے فرمایا تھا "نخوت و تکبر سے پرہیز کرنا" اسی طرح قرآن مجید کہتا ہے اور لوگوں کے سامنے (غرور سے ) اپنا منہ نہ پھلانا، اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کیونکہ خدا کسی اکڑنے والے اور اترانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، اگر خدا کسی بندے کو تکبر کی اجازت دیتا تو ( سب سے پہلے ) اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء کو اجازت دیتا لیکن خدا نے اپنے انبیاء و اولیاء کے لئے بھی تکبر پسند نہیں فرمایا، بلکہ تواضع و فروتنی کو پسند فرمایا ( اسی لئے ) انبیاء و اولیاء نے ( خدا کے سامنے ) اپنے رخساروں کو زمین پر رکھ دیا اور اپنے چہروں کو زمین پر ملا اور ایمانداروں کے سامنے تواضع و فروتنی برتا۔ تکبر کرنے والے قطع نظر اس بات کے کہ پورا معاشرہ ان کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے ان کے لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، " تکبر سے بچو کیونکہ جب کسی بندے کی عادت تکبر ہو جاتی ھے تو خدا حکم دیتا ہے کہ میرے اس بندے کا نام جباروں میں لکھ لو، ہم میں سے ہر وہ شخص جو متکبر خودپسند واقعی اپنی سعادت و خوش بختی کا خواہاں ہے تو اس کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیئے اور اس نفرت انگیز صفت سے اپنی شخصیت کو الگ کرنا چاہیئے کیونکہ اگر اس نے اس کی سرکوبی کی کوشش نہ کی تو ہمیشہ ناکامی کا شکار رہے گا۔