Pages

Monday, December 24, 2012

بندوں کا حساب کس کس طرح ہو گا ؟

اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی حِکمت میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے دُنیا کو انسانوں کے لیے کام کرنے اور جدوجہد کرنے کی جگہ بنایا ، اور آخرت کو حساب اور جزاء کی جگہ بنایا ، کہ وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نیک کاموں والوں کو ان کے نیک کاموں کا ثواب دے گا اور برائی کرنے والوں کو ان کی برائی کی سزا دے گا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے (((((( لِيَجزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفسٍ مَا كَسَبَت إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الحِسَابِ ::: تا کہ اللہ ہر ایک جان کو اس کی کمائی کے مطابق بدلہ دے دے ، بے شک اللہ بہت ہی تیزی سے حساب کرنے والا ہے ))))) سورت إبراهيم / آیت51 ،
جی اس میں سے استثنائی طور پر کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ دُنیا میں بھی اپنے کسی بندے کو اپنی کسی خاص رحمت سے کچھ دینا چاہے یا کسی بندے کو کوئی عذاب دے کر دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنانا چاہے تو وہ جو چاہے کرتا ہے ،
قیامت والے دِن بندے اپنے رب اللہ رب العالمین کے سامنے انتہائی خوف اور ذلت کی حالت میں کھڑے ہوں گے ،
قیامت کے ہولناک منظر، اپنے اعمال کی فِکر ، اپنی کرتُوتوں کے انجام کا ڈر ، ان کے خوف میں ہر لحظہ اضافہ کر رہا ہو گا ،
اُن کے دِل خزاں رسیدہ پتوں کی مانند ، اور ان کے جسم خشک ٹہنیوں کی طرح کانپ اور لرز رہے ہوں گے ،
کوئی اپنے ہی پسینے میں ٹخنوں تک ڈوبا ہو گا ، کوئی ، گھٹنوں تک ، کوئی کمر تک ، کوئی سینے تک ، اور کوئی کانوں کی لَو تک ،
کوئی کسی کا بننا تو دُور ٹہرا ، کسی کی طرف دیکھنا بھی پسند نہ کرے گا ، ماں باپ اولاد کو ، اولاد ماں باپ کو ، خاوند بیوی کو ، بیوی خاوند ، بہن بھائی ایک دوسرے کو اپنی جان بچانے کے لیے بدلے میں دینے کو تیار ہوں گے ، (اللہ تعالیٰ ہم سب کو دُنیا اور آخرت میں اپنی پناہ میں رکھے اور خاص رحمت والا معاملہ رکھے )
ایسے خوف ، ایسی افراتفری ، ایسی بے بسی اور لاچاری ، ایسے ہولناک ماحول میں بندوں سے اُن کا رب اللہ کسی ترجمان کے بغیر ، کسی درمیانی واسطے ، ربط اور وسیلے کے بغیر براہ راست گفتگو فرمائے گا ،
اور ان سے ان کے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ، ظاہری اور خفیہ کاموں اور باتوں کے بارے میں پوچھے گا ،
حساب کا آغاز ہو گا ، تو ، سب سے پہلے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شفاعت سے ہو گا ،
اُس ہولناک دن میں شدید ناقابل بیان اور ناقابل تصور مشقت اور خوف کے عالم میں مخلوق ہزاروں سال کے برابر کھڑی رہی گی ، اور انسان گروہ در گروہ مختلف انبیاء علیہم السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے درخواست کریں گے کہ وہ اللہ کے پاس اُن کی سفارش کریں ،
سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے ” اے آدم آپ سب انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے تخلیق فرمایا ، فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا ، اور اللہ نے آپ کو ہر ایک چیز کا نام سِکھایا ، آپ کو جنّت کا مُکیں بنایا ، اللہ سے ہماری سفارش کیجیے کہ ہمیں اس مُشقت والی جگہ سے نجات سے اپنی اولاد کی سفارش کیجیے (کہ حساب کا آغاز کر دیا جائے) ، آدم علیہ السلام اپنی غلطی کا ذکر فرمائیں گے اور فرمائیں گے کہ "”” یہ مُقام میرا نہیں تُم لوگ نوح کے پاس جاؤ انہیں اللہ نے انسانوں کی طرف سب سے پہلا رسول بنا یا تھا ،
لوگوں کی ایک امید ٹوٹنے سے ان کا خوف مزید بڑہے گا ، پریشانی میں مزید اضافہ لیے وہ نوح علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے ،وہ بغیر عِلم کے اللہ سے سوال کرنے کی غلطی کا ذکر فرمائیں گے اور لوگوں سے کہیں گے  یہ میرا مقام نہیں ، اِبراہیم کے پاس جاؤ وہ اللہ کے خلیل ہیں ،
لوگ اِبراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے لیکن وہ تین الفاظ کو جھوٹ جیسا استعمال کرنے کی غلطی کا ذکر فرما کر فرمائیں گے یہ میرا مُقام نہیں تُم لوگ مُوسی کے پاس جاؤ، اللہ نے ان سے کلام فرمایا تھا اور اللہ نے انہیں تورات عطاء فرمائی تھی  تو لوگ پریشانی میں اضافہ لیے مُوسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے ،
تو مُوسی علیہ السلام فرعونی کو قتل کرنے کی غلطی کا ذکر فرما کر کہیں گے  یہ میرا مُقام نہیں تُم لوگ عیسیٰ کے پاس جاؤ (اُن کی صِفات یہ ہیں کہ) وہ اللہ کے بندے ، اللہ کے رسول ، اللہ کی بات ، اور اللہ کا حُکم ہیں
لوگ مشقت در مشقت برداشت کرتے ہوئے اور پریشانی اور خوف میں اضافے کے ساتھ وہاں سے عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے اور ان کے سامنے اپنی درخواست پیش کریں گے ،
عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے  یہ میرا مُقام نہیں ، تُم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) کے پاس جاؤ ، وہ اللہ کے ایسے بندے اور رسول ہیں جن کے اگلے پچھلے سارے گناہ اللہ نے معاف فرما رکھے ہیں .
آخری اُمید ، ایک بچی ہوئی آس ، اگر یہاں بھی درخواست قبول نہ ہوئی تو !!!!!
خوف کا ایک اورناقابل بیان بلکہ ناقابل تصور حملہ ،،،،،،،
لوگ ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوں گے ، اور ان سے اللہ کے سامنے شفاعت کی درخواست کریں گے تو وہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرمائیں گے ((((( أنَا لَھَا:::میں اِس کام کے لیے ہوں )))))
اور اللہ تعالی سے اس کے سامنے حاضر ی کے اجازت طلب فرمائیں گے ، اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی ، اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدہ ریز ہو جائیں ، اللہ تعالیٰ انہیں ایسی حمد و تعریف سکھائے گا جو اُس سے پہلے کسی کو نہ سکھائی ہو گی ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ کے سامنے اللہ کی وہ حمد اور تعریف بیان فرمائیں گے ، تو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کہا جائے گا ((((( يا مُحمَّد اِرفَع رَأسَكَ وَقُل يُسمَع لَك وَسَل تُعطَ وَاشفَع تُشَفَّع ::: اے مُحمد سر اٹھایے اور بات کیجیے آپ کی بات سنی جائے گی اور سوال کیجیے آپ کو عطاء کیا جائے گا اور سفارش کیجیے آپ کی سفارش قبول کی جائے )))))
تو اللہ تبارک و تعالیٰ حساب کا آغاز فرمائے گا ،

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ تعالی : إنا أرسلنا نوحا إلی قومه، 3 / 1215، الرقم : 3162، وفي کتاب : التفسير، باب : ذرية من حملنا مع نوح إنه کان عبدا شکورا، 4 / 1745، الرقم : 4435، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدنی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 184، الرقم : 194، والترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 622، الرقم : 2434، وقال : هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 435، الرقم : 9621، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 307، الرقم : 31674، وابن منده في الإيمان، 2 / 847، الرقم : 879، وأبو عوانة في المسند، 1 / 147، الرقم : 437، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 379، الرقم : 811، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 239، الرقم : 5510.

اِمام ابن حجر العسقلانی نے لکھا کہ ” اس شفاعت (سفارش ) کی طلب مغفرت کے لیے نہیں بلکہ حساب شروع ہونے کے لیے ہو گی ، تو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شفاعت (سفارش ) کو قبول فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ حساب کا آغاز فرمائے گا .
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خصوصیات اور فضیلتوں میں سے ایک یہ بھی ہے ، اور اس شفاعت والے اس مُقام کو ہی عُلماء نے ” مُقام محمود " کہا ہے ، جو صرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے اللہ کی ایک خاص رحمت اور رُتبہ ہے ،
روؤف رحیم ، شفیق و کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنی اُمت کا ہی فِکر ہوگا اللہ کے سامنے سفارش فرماتے ہوئے پکاریں گے ((((( أُمتی أُمتی ::: میری اُمت اُمت )))))
اللہ اللہ یہ محبت اور اپنی اُمت کا اتنا خیال ، اللہ نے مجھےجو کچھ عطاء فرمایا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر قربان ہونا قبول فرمائے ، اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہر حق ادا کرنے کی مکمل توفیق عطا فرمائے ، زبانی محبت کے دعوے کرنے کی بجائے عملی محبت کی ہمت عطا فرمائے ،
لوگوں کے اعمال کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا حساب فرمائے گا ، اور ان کی آخری ابدی منزل کا فیصلہ فرمائے گا ،
بنیادی طور پر حساب اور فیصلے کے لیے انسان دو اقسام ہوں گے ،
(1) اِیمان والے اور مسلمان ،
(2) کافر اور مشرک ،
::::::: اِن میں سے کچھ انسانوں کا معاملہ حساب و کتاب والا ہو گا ، کچھ کا اعمال کے تولنے والا ، اور کچھ کا بغیر حساب کتاب والا ، کچھ کا ساری مخلوق کے سامنے ہو گا ، اور کچھ کا اللہ کے خاص پردے میں ،
:::::::: حساب و کتاب کے بعد کافروں ، اور جانتے بوجھتے ہوئے شرک کرنے والوں کو جہنم رسید کیا جائے گا ، کیونکہ ان کا یقینی ٹھکانہ جہنم ہی ہے ،
(((((إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا لَم يَكُنِ اللَّهُ لِيَغفِرَ لَهُم وَلا لِيَهدِيَهُم طَرِيقاً o إِلَّا طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً ::: بے شک وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا اور کفر کیا نہ تو اللہ اُن کی مغفرت کرنے والا ہے اور نہ ہی اُن کو راہ حق کی ہدایت دینے والا ہے ، سوائے جہنم کی طرف جانے والی راہ کے جہاں وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت ہی آسان ہے ))))) سورت النساء / آیت 168،169،
اور فرمایا ((((( يُعرَفُ المُجرِمُونَ بِسِيمَاهُم فَيُؤخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالأَقدَامِ ::: مُجرم اُن کی نشانیوں سے پہچانے جائیں گے لہذا اُنہیں اُن کی پیشانیوں اور قدموں سے پکڑ لیا جائے گا ))))) سورت الرحمن / آیت41 ،
::::::: اِیمان والوں میں سے کچھ ایسے ہوں گے جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ اُن کے اعمال دِکھا کر اُن سے اِقرار کروائے گا اور اُن کے اِقرار کے بعد اُن کوجنّت میں داخل فرمائے گا ،
جیسا کہ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہُما کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ((((( يُدْنَى الْمُؤْمِنُ يوم الْقِيَامَةِ مِن رَبِّهِ عز وجل حتى يَضَعَ عليه كَنَفَهُ فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ فيقول "””هَل تَعْرِفُ ؟””” فيقول ” أَيْ رَبِّ أَعْرِفُ ” قال "”” فَإِنِّي قد سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ في الدُّنْيَا وَإِنِّي أَغْفِرُهَا لك الْيَوْمَ "”” فَيُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ وَأَمَّا الْكُفَّارُ وَالْمُنَافِقُونَ فَيُنَادَى بِهِمْ على رؤوس الْخَلَائِقِ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا على اللَّهِ ::: قیامت والے دِن (اللہ کے ہی حُکم سے کسی ) اِیمان والے کو اُس کے رب (اللہ) عزّ وجلّ کے قریب کیا جائے گا یہاں تک اللہ اُس کے اوپر اپنا (کوئی ایک )پردہ ڈال دے گا اور اُس سے اس کے گناہوں کا اِقرار کرواتے ہوئے فرمائے گا "”” کیا تُم (اپنا یہ گُناہ) جانتے ہو ؟ "”” بندہ کہے گا ” جی اے میرے رب جانتا ہوں ” اللہ کہے گا ” میں نے دُنیا میں تُمہارے اِن گناہوں پر پردہ ڈالا تھا اور آج میں اِن گناہوں سے تُمہاری مغفرت کرتا ہوں ” تو پھر اُس بندے کو(صِرف) اُس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی ، رہا معاملہ کافروں اور منافقوں کا تو اُنہیں تمام مخلوق کے سامنے پُکارا جائے گا (اور کہا جائے گا) کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ پر جھوٹ بولے )))))

صحیح البُخاری /حدیث 4408 / کتاب التفسیر /باب 175 ، صحیح مُسلم /حدیث 2768 /کتاب التوبۃ / باب 8 ،
::::::: اور کچھ ایسے ہوں گے جن کا کوئی حساب نہ ہو گا ، جِن سے کوئی پوچھ نہ ہو گی ، جن کو کوئی عذاب نہ ہوگا ، یہ اَیمان والوں میں سے مکمل طور پر عملی توحید والے ہوں گے ،
جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِن أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ ::: میری اُمت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر کسی حساب کے جنّت میں داخل ہوں گے )))))
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی "اے اللہ کے رسول ، وہ کون ہوں گے ؟ "
اِرشاد فرمایا ((((( هُمْ الَّذِينَ لَا يَتَطَيَّرُونَ ولا يَسْتَرْقُونَ ولا يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ::: وہ (ایسے لوگ ہوں گے ) جو شگون بازی نہیں کرتے ہیں ، اور نہ ہی رُقیہ ( دَم کرنا ) کرواتے ہیں ، اور نہ ہی اپنے آپ کو دغواتے (یعنی گرم دھات جسم پر لگوا کر عِلاج کرواتے) ہیں ، اور (صِرف ) اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں ))))) مُتفقٌ علیہ ، صحیح البُخاری /حدیث 6107 /کتاب الرّقاق /باب 21 ، صحیح مُسلم /حدیث217 /کتاب الاِیمان /باب94 ،

اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ((((( لَا حِسَابَ عَليهم ولا عَذَابَ::: اُن پر کوئی حساب نہ ہو گا اور نہ ہی اُنہیں کوئی عذاب ہو گا ))))) صحیح البُخاری /حدیث 6175 /کتاب الرّقاق /باب 50 ،
اور کچھ ایسے ہوں گے جن کے آخری ٹھکانے کا اِن مذکورہ بالا لوگوں کے فیصلے ہوجانے تک فیصلہ نہ کیا گیا ہوگا ، لیکن اللہ کی مشیئت سے وہ لوگ جنّت میں ہی جائیں گے ، وہ لوگ ” أصحاب الأعراف ” ہیں ،
” أصحاب الأعراف ” وہ لوگ ہوں گے جِن کی نیکیاں اور گناہ ایک ہی جتنے ہوں گے ، یہ لوگ جنّت اور جہنم کے درمیان ایک اونچی جگہ پر کھڑے کیے گئے ہوں گے ، جہاں سے وہ جنّت اور جہنم دونوں کو دیکھ سکیں گے اور امید اور خوف کی شدید موجوں کے تھپیڑوں میں رہیں گے ، جنتیوں اور جہنمیوں کو اُن پر نظر آنے والی نشانیوں سے پہچانتے ہوں گے ، جب تک اللہ چاہے گا وہ لوگ اسی جگہ پر اسی حالت میں رہیں گے ،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتایا ہے ((((( وَبَينَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الأَعرَافِ رِجَالٌ يَعرِفُونَ كُلّاً بِسِيمَاهُم وَنَادَوا أَصحَابَ الجَنَّةِ أَن سَلامٌ عَلَيكُم لَم يَدخُلُوهَا وَهُم يَطمَعُونَ ::: اور (جنّت اور جہنم ) دونوں کے درمیان پردہ ہے اور أعراف کے اُوپر لوگ ہوں گے جو سب (جنتیوں اور جہنمیوں) کو ان کی نشانیوں سے پہچانتے ہوں گے ، یہ ( أعراف پر موجود ) لوگ خود تو جنّت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے (لیکن) جنّتیوں کو پکار کر کہیں گے کہ تُم لوگوں پر سلامتی ہو ، اور(یہ أعراف پر موجود لوگ ) خود جنّت میں جانے کا لالچ رکھتے ہوں گے o وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاء أَصْحَابِ النَّارِ قَالُواْ رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ::: اور جب اُن ( أعراف پر موجود ) کی نظر جہنمیوں کی طرف جائے گی تو کہیں گے ، اے ہمارے رب ہمیں ظُلم کرنے والوں کے ساتھ مت بنانا ))))) سورت الأعراف /آیت47 ،
یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمت سے اُن لوگوں کو جنّت میں داخل فرمائے گا ،
::::::: اور مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے گناہ اُن کی نیکیوں سے زیادہ ہوں گے ، ان لوگوں کا فیصلہ اعمال کے وزن یا نیکیوں بدیوں کے مطابق ہوسکنے کے بارے میں پہلے سے کچھ اندازہ نہیں کیا جا سکتا ،
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مشیئت جسے چاہے گا معاف فرما دے گا اور جسے چاہے عذاب دے گا ، سوائے شرک کرنے والوں اور حقوق المخلوق یعنی بندوں اور دوسری مخلوقات کا حق مارنے والوں کے کہ اُن کی مغفرت نہ ہو گی ،
شرک کرنے والوں کے بارے میں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ((((( إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَدِ افتَرَى إِثماً عَظِيماً ::: بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہ فرمائے گا کہ اُس کے ساتھ شِّرک کیا جائے اور اس کے عِلاوہ جِس کے لیے جو چاہے گا معاف فرما دے گا ، اور جو شرک کرے گا تو اُس نے یقیناً بہت ہی جھوٹ پر مبنی عظیم گناہ بنایا ))))) سُورت النِساء /آیت48 ،
انسانوں اور دیگر مخلوق کے حقوق کے بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک بتایا کہ (((((لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إلى أَهْلِهَا يوم الْقِيَامَةِ حتى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ من الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ ::: تُم لوگوں کو قیامت والے دِن ضرور حق داروں کو اُن کے حقوق دینا ہی ہوں گے یہاں تک ایک بغیر سینگ والی بکری کا حق سینگ والی بکری سے بھی لیا ہی جائے گا ))))) صحیح مُسلم / حدیث 2582/کتاب البِر و الصلۃ و الآداب /باب 15 تحریم الظُلم ،
شرعی احکام کی مُکلّف مخلوق کا حساب تو اس طرح مذکورہ بالا طریقوں پر ہو گا ، جانوروں کا حساب بھی مذکورہ بالا حدیث مبارک کے مطابق ہو گا یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حکمت سے جس طرح چاہے گا حق دار کو اُس کا حق دلوائے گا ،
پس اللہ سبحانہُ و تعالیٰ شرک اور مخلوق کے حقوق کے علاوہ جس کا جو گناہ چاہے گا معاف فرما دے گا ،
قیامت والے دِن سب سے پہلے جن کاموں کا حساب ہو گا اُن میں سے ایک نماز ہے ، ایسا کام جو بندے اور اُس کے رب کے درمیان ہے ،
اور حقوق العباد میں سے سب سے پہلے قتل کا حساب ہو گا ،
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ ((((( أَوَّلُ ما يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلَاةُ وَأَوَّلُ ما يُقْضَى بَينَ النَّاس في الدِّمَاءِ::: سب سے پہلے بندے کا حساب اس کی نماز کے بارے میں ہو گا اور سب سے پہلے لوگوں کے درمیان قتل کے فیصلے ہوں گے ))))) سنن النسائی /کتاب تحریم الدم /کتاب 2 تعظیم الدم ، السلسہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث1748 ،
مخلوق کی حقوق تلفی ، مکمل طور پر ہو یا جزوی طور پر ، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ، اور اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا ، بلکہ صاحبءِ حق کو مکمل اختیار دے گا کہ وہ اپنے حق کے بدلے میں حق مارنے والے کی نیکیوں میں سے جو چاہے لے ، یا اپنے گناہوں میں سے کچھ اُس کے کھاتے میں ڈال دے ، اُس دِن ہر ایک شخص ایک ایک نیکی کے لیے تڑپتا ہو گا اور اپنے محبوبت ترین رشتہ دار اور محبوب ترین ہستی کو بھی ایک نیکی دینے کو تیار نہ ہوگا ،
اسی چیز کو سمجھاتے ہوئے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم فرمائی کہ ہم دُنیا میں ہی اپنے ظلم و ستم اور حق تلفی وغیرہ کا حساب صاف کر لیں اور خود کو معاف کروا لیں اس سے پہلے کہ ہمارے کیے ہوئے ظلم کے بدلے میں ، اللہ کی مخلوق کے مارے ہوئے حقوق کے بدلے میں ہماری نیکیاں ان کو دے دی جائیں یا اگر ہمارے پلے نیکیاں ہیں ہی نہیں تو اُن مظلوموں کے گناہوں میں سے کچھ ہمارے ذمے ڈال دیے جائیں اور یوں ہماری سزا میں مزید اضافہ ہو جائے ، اِس سے پہلے دُنیا میں ہی اپنا حساب بے باک کر لینا چاہیے ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( مَن كانت عِنْدَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيهِ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنهَا فإنّهُ لَيسَ ثَمَّ دِينَارٌ ولا دِرْهَمٌ مِن قَبْلِ أَنْ يُؤْخَذَ لِأَخِيهِ مِن حَسَنَاتِهِ فَإِنْ لم يَكُنْ له حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِن سيئآت أَخِيهِ فَطُرِحَتْ عَليهِ::: جس کےپاس اپنے کسی (مسلمان ) بھائی کا کوئی حق روکا ہوا ہو تو وہ اس سے نجات پا لے کیونکہ وہاں (آخرت میں ) نہ تو درھم ہوں گے اور نہ ہی دینار (جنہیں دے کر جان چھڑا لی جائے ، لہذا ) اس سے پہلے کہ اُس حق والے بھائی کے لیے حق روکے رکھنے والے کی نیکیوں میں سے نیکیاں لے لی جائیں اور اگر اس حق روکے رکھنے والے کے پاس نیکیاں نہیں تو حق والے بھائی کے گناہوں میں سے گناہ اس حق روکے رکھنے والے پر ڈال جائیں ))))) صحیح البخاری / حدیث 6169 /کتاب الرقاق / باب 48 ،
اس طر ح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور اپنی ساری مخلوق کا حساب فرمائے گا ،
چونکہ اللہ تعالیٰ کا عدل و انصاف لا جواب اور بے مثال ، اور ہر قِسم کے ظلم اور زیادتی سے پاک ہے ، لہذا اللہ سبحانہُ و تعالیٰ اپنے بندوں سے ان کے گناہوں کا اقرار کروائے گا ، اور اگر کوئی بندہ اپنے گناہوں کا اقرار نہ کرے گا تو اُس کے جسم کے اعضاء اُس کے کیے ہوئے کاموں کی گواہی دیں گے ((((( يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ::: اُس دِن اُن کی زُبانیں ، اور اُن کے ہاتھ اور اُن کے ٹانگیں اُن کے خلاف گواہی دے کر بتائیں گے کہ وہ کیا کرتے تھے ))))) سُورت النور /آیت 24،
اور صرف یہی اعضاء نہیں بلکہ پورا جسم گواہی دے گا اور بات کرتے ہوئے گواہی دے گا ((((( حَتَّىٰ إِذَا مَا جَآءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ::: یہاں تک کہ جب وہ جہنم کے بالکل قریب آ جائیں گے تو اُن کے خلاف اُن کے کان اور اُن کی آنکھیں اور اُن کی کھالیں گواہی دیں گی o وَقَالُواْ لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوۤاْ أَنطَقَنَا ٱللَّهُ ٱلَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ::: اور وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تُم نے ہمارے خِلاف گواہی کیوں دی ، اُن کی کھالیں (اور أعضاء ) کہیں گے ہمیں اللہ نے بات کروائی ہے جس نے ہر چیز کو بات کروائی اور اُسی نے تُم لوگوں کو پہلی دفعہ تخلیق کیا اور اُسی کی طرف تُم لوگ واپس جا رہے ہو o وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ وَلَـٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ ٱللَّهَ لاَ يَعْلَمُ كَثِيراً ممَّا تَعْمَلُونَ ::: اور تُم لوگ (گناہ کرتے ہوئے) خود کو (اس لیے نہیں )چھپاتے نہیں تھے ( کیونکہ تم لوگ یہ سمجھتے تھے ) کہ تُمارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں تمہارے خِلاف گواہی نہ دیں گی ، اور لیکن (اسکے ساتھ ساتھ ) تم لوگوں کو یہ گمان بھی تھا کہ اللہ تمہارے کاموں میں سے اکثر کاموں کا عِلم نہیں رکھتا o وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ ٱلَّذِي ظَنَنتُم بِرَبكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ منَ ٱلُخَاسِرِينَ ::: اور یہ تُم لوگوں کا تمہارے رب کے بارے میں وہ گُمان تھا جس نے تُم لوگوں کو تباہ کیا اور تُم لوگ خسارے والے ہو گئے ))))) سُورت (حٰم سجدہ) الفُصلت /آیات 20 تا 23 ،
تا کہ ہر بندے کے اعمال پر خود اس کے اپنے ہی جسم و جاں سے گواہی ہو جائے اور کسی کو یہ خیال نہ ہو سکے کہ معاذ اللہ اسے کسی جُرم کی بجائے محض اِلزام کی بنا پر سزا دی گئی ہے ،
::::::: اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا مکمل ، بے عیب انصاف ہی ہے کہ وہ بندوں کے اعمال کے حساب کے لیے ترازو (میزان) قائم فرمائے گا جس میں بندوں کے اعمال تول کر اُس تول کے مطابق بندوں کو جزاء یا سزاء ملے گی ، ہر کوئی اپنے اعمال کے وزن کو خود دیکھے گا ((((( وَالوَزنُ يَومَئِذٍ الحَقُّ فَمَن ثَقُلَت مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ المُفلِحُونَ ::: اور قیامت والے دِن (اعمال کا ) وزن (کیا جانا) حق ہے تو جِس کا (نیکیوں والا ) پلڑا بھاری ہو گیا تو وہ لوگ کامیابی پانے والے ہوں گے o وَمَن خَفَّت مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا بِآياتِنَا يَظلِمُونَ) الأعراف ::: اور جِس کا (نیکوں والا) پلڑا ہلکا ہو گیا تو وہ لوگ ہی ہوں گے جو اپنی جانوں کا نقصان پائیں گے کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظُلم کیا کرتے تھے ))))) سُورت الأعراف /آیات 8-9 ،
جو مسلمان یہ جان لے گا اور اِس پر اِیمان رکھتا ہو گا کہ قیامت والے دِن کس طرح حساب ہو گا اور ایک رتی برابر معمولی سے معمولی برائی بھی ایسی نہ ہو گی جس پر گرفت نہ ہو گی ، اور یہ کہ ظُلم و زیادتی ، برائی اور گناہ کا بدلہ کس کس طرح دینا ہو گا اور کس کس طرح لینا ہو گا تو اُس کے لیے سب سے ضروری اور أہم ہو جائے گا کہ وہ اُس دِن کے حساب سے پہلے اپنا حساب کرتا رہے اور اپنے کھاتے صاف رکھے اور اُس دِن کی تیاری رکھے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ ءِ راشد أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا فرمان ہے کہ " حَاسِبُوا أنفُسَكُم قَبلَ أن تحُاسَبُوا وَزِنُوا أنفُسَكُم قَبلَ أن تُوزَنُوا فَإنَّهُ أخفُ عَلِيكُم في الحِسابِ غَداً أن تُحاسِبُوا أنفُسَكُم اليَوم وتَزَيَّنُوا لِلعَرضَ الأكبر ::: اِس سے پہلے کہ تُم لوگوں کا حِساب کیا جائے تُم لوگ اپنی جانوں (کے اعمال) کا حساب خود کر رکھو ، اپنی جانوں (کے اعمال) کا وزن خود کر رکھو اس سے پہلے کہ اُن کا وزن کیا جائے ، کیونکہ آج حساب کر لینا کل حساب دینے کی نسبت تُم لوگوں کے لیے آسان ہو گا ، اور (جہاں ساری مخلوق کے اعمال دکھائے جائیں گے) اُس بڑی نمائش کے لیے (نیکیوں سے )سج سنور ہو جاؤ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر و المراجع ::: صحیح البُخاری ، صحیح مُسلم ، صحیح ابن حبان ، سنن الترمذی ، التفسیر الکبیر للرازی ، تفسیر ابن کثیر ، تفسیر الأضواء البیان ، فتح الباری شرح صحیح البُخاری ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ، السلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ، حلیۃ الأولیاء ۔