Pages

Saturday, March 31, 2012

اپریل فول:ایک معاشرتی برائی

مغرب کی بے سوچے سمجھے تقلید کے شوق نے ہمارے معاشرے میں جن برائیوں کورواج دیا،انہی میں سے ایک رسم ''اپریل فول'' بھی ہے۔اس رسم کے تحت ےکم اپریل کی تاریخ میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکہ دینا اوردھوکہ دے کرکسی کو بے وقوف بنانانہ صرف جائزسمجھا جاتا ہے،بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے،جوشخص جتنی صفائی اور چابکدستی سے دوسرے کو جتنا بڑا دھوکہ دے اُتنا ہی اسے قابل تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اُٹھانے والا سمجھا جاتا ہے۔
یہ مذاق جسے درحقیقت ''بدمذاقی''کہنا چاہئے،نہ جانے کتنے افراد کو بلاوجہ جانی ومالی نقصان پہنچا چکا ہے،بلکہ اسکے نتیجے میں بعض اوقات لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں،کہ انہیں کسی ایسے صدمے کی جھوٹی خبر سنادی گئی جسے سننے کی وہ تاب نہ لاسکے اور زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ رسم جس کی بنیاد جھوٹ،دھوکہ اور کسی بے گناہ کو بلاوجہ بےوقوف بنانے پر ہے،اخلاقی اعتبار سے توجیسے کچھ ہے ظاہر ہی ہے،لیکن اسکا تاریخی پہلو بھی ان لوگوں کےلئے انتہائی شرمناک ہے جو حضرت عیسیٰ ںکے تقدس پر کسی بھی اعتبار سے ایمان رکھتے ہیں۔
اس رسم کی ابتداء کیسے ہوئی؟اس بارے میں مؤرخین کے بیانات مختلف ہیں۔بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا،اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس(Venus)کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے،وینس کا ترجمہ یونانی زبان میںAphroditeکیا جاتاتھا اور شایداسی یونانی نام سے مشتق کرکے مہینے کا نام اپریل رکھ دیا گیا۔(برٹانیکا،پندرہواں ایڈیشن،ص٢٩٢،ج٨)
لہٰذا بعض مصنفین کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا،اس لئے اس دن کو لوگ جشن مسرت منایا کرتے تھے اور اسی جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جورفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کر گیا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جشن مسرت کے دن لوگ ایک دوسرے کوتحفے دیا کرتے تھے،ایک مرتبہ کسی نے تحفے کے نام پر کوئی مذاق کیاجو بالآخردوسرے لوگوں میں بھی رواج پکڑگیا۔
برٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ٢١ مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں، ان تبدیلیوںکو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ(معاذاللہ)قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بےوقوف بنارہی ہے،لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کوبےوقوف بنانا شروع کردیا۔(برٹانیکا،ص٤٩٦،ج١) یہ بات اب بھی مبہم ہی ہے کہ قدرت کے اس نام نہاد ''مذاق'' کے نتیجے میں یہ رسم چلانے سے ''قدرت''کی پیروی مقصود تھی یااس سے انتقام لینا منظور تھا؟ایک تیسری وجہ انیسویں صدی کی معروف انسائیکلوپیڈیا''لاروس''نے بیان کی ہے اور اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔وہ وجہ یہ ہے کہ دراصل یہودیوں اور عیسائیوں کی بیان کردہ روایات کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایا گیا،موجودہ نام نہاد انجیلوں میں اس واقعے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔لوقا کی انجیل کے الفاظ یہ ہیں''اور جو آدمی اسے(یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو)گرفتارکئے ہوئے تھے،اس کو ٹھٹھے میں اُڑاتے اور مارتے تھے اوراس کی آنکھیں بند کرکے اس کے منہ پر طمانچے مارتے تھے اور اس سے یہ کہ کر پوچھتے تھے کہ نبوت(یعنی الہام)سے بتا کہ کس نے تجھ کومارا؟اور طعنے مار مار کربہت سی اورباتیں اس کے خلاف کہیں''(لوقا٢٢:٣٦تا ٦٥)۔انجیلوں میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودی سرداروں اور فقیہوںکی عدالت عالیہ میں پیش کیا گیا،پھر انہیں پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ انکا فیصلہ وہاں ہوگا،پھر پیلاطس نے انہیں ہیروڈیس کی عدالت میں بھیج دیا اور بالآخرہیروڈیس نے دوبارہ فیصلے کے لئے ان کو پیلاطس ہی کی عدالت میں بھیجا۔لاروس کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیجنے کا مقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اور انہیں تکلیف پہنچانا تھا اور چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کوپیش آیا تھا اس لئے اپریل فول کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعے کی یاد گارہے۔۔۔۔ ۔۔اگریہ بات درست ہے(لاروس وغیرہ نے اسے بڑے وثوق کے ساتھ درست قرار دیا ہے اور اسکے شواہد پیش کئے ہیں)تو غالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی ہوگی اور اسکا منشاحضرت عیسیٰ علہی السلام کی تضحیک ہوگی،لیکن یہ بات حیرتناک ہے کہ جو رسم یہودیوں نے(معاذاللہ)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہنسی اُڑانے کے لئے جاری کی،اسے عیسائیوں نے کسطرح ٹھنڈے پیٹوں نہ صرف قبول کرلیابلکہ خود بھی اسے منانے اور رواج دینے میں شریک ہو گئے،اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عیسائی صاحبان اس رسم کی اصلیت سے واقف نہ ہوں اور انہوں نے بے سوچے سمجھے اس پر عمل شروع کردیا ہواور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عیسائیوں کا مزاج و مذاق اس معاملے مں عجیب و غریب ہے،جس صلیب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انکے خیال میں سولی دی گئی بظاہر قاعدے سے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ انکی نگاہ میں قابلِ نفرت ہوتی کہ اس کے ذریعے حضرت مسیح علیہ السلام کو ایسی اذیت دی گئی،لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عیسائی حضرات نے اسے مقدس قرار دینا شروع کر دیااور آج وہ عیسائی مذہب کے تقدس کی سب سے بڑی علامت سمجھی جاتی ہے۔لیکن مندرجہ بالاتفصیل سے یہ بات ضرورواضح ہوتی ہے کہ خواہ اپریل فول کی رسم وینس نامی دیوی کی طرف منسوب ہو،یااسے(معاذاللہ)قدرت کے مذاق کا ردعمل کہا جائے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مذاق اڑانے کی یادگار،ہر صورت میں اس رسم کا رشتہ کسی نہ کسی توہم پرستی یا کسی گستاخانہ نظریئےیا واقعے سے جڑا ہوا ہے اور مسلمانوں کے نقطئہ نظر سے یہ رسم مندرجہ ذیل بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے۔(١) جھوٹ بولنا۔(٢) دھوکہ دینا۔ (٣) دوسرے کو اذیت پہنچانا۔ (٤) ایک ایسے واقعے کی یادگار منانا،جس کی اصل یا تو بت پرستی ہے، یا توہم پرستی ہے، یا پھرایک پیغمبر کے ساتھ گستاخانہ مذاق۔اب مسلمانوں کو خود یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ آیا یہ رسم اس لائق ہے کہ اسے مسلمان معاشروںمیں اپنا کراسے فروغ دیا جائے؟ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ماحول میں اپریل فول منانے کا رواج بہت زیادہ نہیں ہے،لیکن اب بھی ہر سال کچھ نہ کچھ خبریں سننے میں آہی جاتی ہیں کہ بعض لوگوں نے اپریل فول منایا،جولوگ بے سوچے سمجھے اس رسم میں شریک ہوتے ہیں،وہ اگر سنجیدگی سے اس رسم کی حقیقت،اصلیت اور اس کے نتائج پر غور کریں تو انشاء اللہ اس سے پرہیزکی اہمیت تک ضرور پہنچ کر رہیں گے۔



 حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

Tuesday, March 6, 2012

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند

 بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیثِ شریف : عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :" إن الله يرضى لكم ثلاثا ويكره لكم ثلاثا ، فيرضى لكم أن تعبدوه ولا تشركوا به شيئا وأن تعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا ، ويكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال "  
( صحيح مسلم :1715 ، الأقضية – مسند أحمد :2/367 )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نےفرمایا : اللہ تعالٰی تمہارے لئے تین چیزوں کو پسندفرماتا ہے اور تین چیزوں کو ناپسند ، پس تمہارے لئے یہ پسند فرماتا ہے کہ: ۱۔ تم اس کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ ۔ ۲- یہ کہ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ۔ ۳- اور جدا جدا نہ ہو جاؤ اور تمہارے لئے ناپسند کرتا ہے :۱- قیل وقال کو ۔ ۲- اور زیادہ سوال کرنے کو ۔ ۳- اور مال ضائع کرنے کو ۔
{ صحیح مسلم ومسند احمد }

تشریح : رب ِحکیم وعلیم نے اپنے بندوں کےلئے ہر اس چیز کو پسند فرمایا ہے جس میں ان کے دین ودنیا کی خیر وبھلائی ہے اور اس کے برخلاف ہر اس چیز کو ناپسند فرمایا ہے جس میں ان کے دین ودنیا کے لئے ضرر ونقصان ہے ، ارشادباری تعالٰی ہے :" إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ" ‘‘ 
 اگر تم ناشکری  کرو تو یادرکھو کہ اللہ تعالی تم سب سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرے گا ، اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا ، پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب کی طرف ہے تمہیں وہ بتلادے گا جو تم کرتے ہو  ’’  
{الزُّمر:7}
زیرِ بحث حدیث میں بعض ایسی اہم چیزوں کا ذکر ہوا ہے جو اللہ تعالٰی کے نزدیک پسندیدہ ہیں یا ربِ کریم کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں وہ اس طرح کہ :
1) اخلاص وللہیت: بندے صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کے اپنی تمام ظاہری وباطنی عبادت خاص کردیں ، ایمان سے متعلقہ تمام اصول کو اپنائیں،  اسلام سے متعلقہ تمام احکام کو بجا لائیں ، نیک اعمال اور عمدہ اخلاق کو اپنا شیوہ بنائیں اور یہ سب کچھ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو ، ہر کام میں اخلاص وللہیت کو مدِ نظر رکھیں :
 " وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ " ‘‘  انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں  ’’  
{البيِّنة:5}
۲ اور ۳) دین پر ثابت قدمی اور عدم تفرق : دوسری اور تیسری چیز جو اس حدیث میں مذکور ہے وہ یہ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں وہ دین جو  اللہ تعالٰی اور بندوں کے درمیان حلقہٴ وصل ہے خواہ وہ قرآن مجید کی صورت میں ہو یا تعلیماتِ نبوی کی شکل میں اس پر استقامت پذیر رہیں اور آپس  میں اختلاف و انشقاق پیدا کرکے اپنی طاقت کو کمزور نہ کریں بلکہ نیکی وبھلائی اور تقویٰ وپرہیزگاری کے کام پر ایک دوسرے کے معاون ومددگار  رہیں جب تک ان میں توحید و اخلاص اور دین متین پر ثابت قدمی اور اسی اساس پر باہمی اتفاق واتحاد رہے گا اللہ تعالی انہیں زمین پر متمکن اور عزت ومدد سے نوازے گا ۔ ارشاد نبوی ہے : اس امت کو خوشخبری ہے بلندی کی ، اونچے مقام کی ، دین کے غلبے کی ، ا للہ کے مدد کی اور زمین پر حکومت کی ، البتہ یہ دھیان رہے کہ ان میں کا جو شخص آخرت کے لئے ادا کئے جانے والے عمل کو دنیا کے لئے کرے گا تو اسے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں ہے  
{مسند احمد ومستدرک حاکم }
اور اس حدیث میں اللہ کے نزدیک جن ناپسندیدہ امور کا ذکر ہے اور وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک پسندیدہ مذکورہ امور کے خلاف ہیں ان میں پہلی چیز :
[۱] قیل وقال ہے : قیل وقال سے مراد ہے کہ "فلاں نے یہ کہا " فلاں نے اس کا جواب یوں دیا ، مقصد بے فائدہ اور فضول باتیں ہیں جسے ہمارے عرف میں گپ شپ کہتے ہیں جن میں نہ دین کا فائدہ ہو نہ دنیا کا بلکہ وقت جیسی قابل قدر شئے کو ضائع کرنا ہو وجہ یہ ہے کہ جو بھی شخص جتنی زیادہ لایعنی باتیں کرتا ہے اتنی ہی جھوٹ بولتا اور جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے نتیجۃ فتنے ، باہمی اختلاف اور دوستوں میں لڑائی ہوتی ہے ۔
[۲] کثرتِ سوال : اللہ تعالٰی کی دوسری ناپسندیدہ چیز اس حدیث میں مذکور ہے وہ کثرتِ سوال ہے ، کثرت سوال عام ہے خواہ وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے متعلق ہو ، بغیر ضرورت مال کا سوال کرنا ، جو مساٴلہ درپیش نہ ہو اسکی کھوج میں لگنا ، کسی کو تنگ کرنے اور  بوجہ اعتراض سوال کرنا ، ایسی باتیں پوچھنا اور پاکی کی کھال نکالنا جس کا کوئِی فائدہ نہ ہو اور اس کی وجہ سے باہمی اختلاف کا ڈر ہو یہ ساری چیزیں اس میں داخل ہیں ، ارشاد باری تعالٰی ہے :
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآَنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ "
  اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار  ہوں ’’  
[ المائدۃ :101 ] 
 البتہ اگر عملی سوال ہو  جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچانا یا تعلیم دینا مقصود ہو ، یا سائل اس کا حاجت مند ہے اور بقدر حاجت سوال کررہا ہے تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ بسااوقات واجب ہوگا ، ارشاد باری تعالٰی ہے :
" فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ "  ‘‘ اگر تمہیں علم نہ ہو تو علم رکھنے والوں سے پوچھو ’’  
[ النحل :43 ]
[۳] مال کا ضیاع : رب کریم کی تیسری ناپسندیدہ چیز جو اس حدیث میں مذکور ہے مال کا ضائع کرنا ہے ، اس سے مراد ، فضول خرچی ، غیر ضروری جگہوں پر خرچ ، حرام جگہوں پر خرچ ، حتی کہ زمین ومکان کو کام میں نہ لانا اور بے فائدہ چھوڑ دینا ، حیوانوں کو پورا کھانا نہ دیکر کمزور وبےکار کردینا سب مال ضائع کرنے میں داخل ہے ، حتٰی کہ اللہ تعالٰی نے ایسے مال کے مالک جو مال میں صحیح تصرف کی صلاحیت نہیں رکھتا خود اس کا مال اس کے حوالے کرنے سے منع فرمایا ہے:
  وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا" 
 ‘‘اور نادانوں کو ان کے مال واپس نہ کرو جسے اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے سامان زیست کا ذریعہ بنایا ہے ’’  
{النساء :5}
 اس طرح اگر غور کیا جائے تو اس حدیث میں جان ، مال ، عزت اور دین کی حفاظت کے ذرین اصول بیان ہوئے ہیں ۔
فوائد :
1.    اللہ تعالٰی کے لئے صفت رضا اور کراہیت کا ثبوت ۔
2.    باہمی اتفاق مدد الہٰی کے اسباب میں سے ہے ۔
3.    ضروری ہے کہ باہمی اتفاق و اتحاد حبل اللہ [اللہ کے دین ] کے اساس پر ہو ۔
4.    اسلام بندوں کی عزت اور جان ومال کے حفاظت کا ضامن ہے ۔
 
 
فضیلۃ الشیخ /ا بوکلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ