Pages

Tuesday, March 6, 2012

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند

 بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیثِ شریف : عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :" إن الله يرضى لكم ثلاثا ويكره لكم ثلاثا ، فيرضى لكم أن تعبدوه ولا تشركوا به شيئا وأن تعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا ، ويكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال "  
( صحيح مسلم :1715 ، الأقضية – مسند أحمد :2/367 )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نےفرمایا : اللہ تعالٰی تمہارے لئے تین چیزوں کو پسندفرماتا ہے اور تین چیزوں کو ناپسند ، پس تمہارے لئے یہ پسند فرماتا ہے کہ: ۱۔ تم اس کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ ۔ ۲- یہ کہ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ۔ ۳- اور جدا جدا نہ ہو جاؤ اور تمہارے لئے ناپسند کرتا ہے :۱- قیل وقال کو ۔ ۲- اور زیادہ سوال کرنے کو ۔ ۳- اور مال ضائع کرنے کو ۔
{ صحیح مسلم ومسند احمد }

تشریح : رب ِحکیم وعلیم نے اپنے بندوں کےلئے ہر اس چیز کو پسند فرمایا ہے جس میں ان کے دین ودنیا کی خیر وبھلائی ہے اور اس کے برخلاف ہر اس چیز کو ناپسند فرمایا ہے جس میں ان کے دین ودنیا کے لئے ضرر ونقصان ہے ، ارشادباری تعالٰی ہے :" إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ" ‘‘ 
 اگر تم ناشکری  کرو تو یادرکھو کہ اللہ تعالی تم سب سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرے گا ، اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا ، پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب کی طرف ہے تمہیں وہ بتلادے گا جو تم کرتے ہو  ’’  
{الزُّمر:7}
زیرِ بحث حدیث میں بعض ایسی اہم چیزوں کا ذکر ہوا ہے جو اللہ تعالٰی کے نزدیک پسندیدہ ہیں یا ربِ کریم کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں وہ اس طرح کہ :
1) اخلاص وللہیت: بندے صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کے اپنی تمام ظاہری وباطنی عبادت خاص کردیں ، ایمان سے متعلقہ تمام اصول کو اپنائیں،  اسلام سے متعلقہ تمام احکام کو بجا لائیں ، نیک اعمال اور عمدہ اخلاق کو اپنا شیوہ بنائیں اور یہ سب کچھ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو ، ہر کام میں اخلاص وللہیت کو مدِ نظر رکھیں :
 " وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ " ‘‘  انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں  ’’  
{البيِّنة:5}
۲ اور ۳) دین پر ثابت قدمی اور عدم تفرق : دوسری اور تیسری چیز جو اس حدیث میں مذکور ہے وہ یہ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں وہ دین جو  اللہ تعالٰی اور بندوں کے درمیان حلقہٴ وصل ہے خواہ وہ قرآن مجید کی صورت میں ہو یا تعلیماتِ نبوی کی شکل میں اس پر استقامت پذیر رہیں اور آپس  میں اختلاف و انشقاق پیدا کرکے اپنی طاقت کو کمزور نہ کریں بلکہ نیکی وبھلائی اور تقویٰ وپرہیزگاری کے کام پر ایک دوسرے کے معاون ومددگار  رہیں جب تک ان میں توحید و اخلاص اور دین متین پر ثابت قدمی اور اسی اساس پر باہمی اتفاق واتحاد رہے گا اللہ تعالی انہیں زمین پر متمکن اور عزت ومدد سے نوازے گا ۔ ارشاد نبوی ہے : اس امت کو خوشخبری ہے بلندی کی ، اونچے مقام کی ، دین کے غلبے کی ، ا للہ کے مدد کی اور زمین پر حکومت کی ، البتہ یہ دھیان رہے کہ ان میں کا جو شخص آخرت کے لئے ادا کئے جانے والے عمل کو دنیا کے لئے کرے گا تو اسے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں ہے  
{مسند احمد ومستدرک حاکم }
اور اس حدیث میں اللہ کے نزدیک جن ناپسندیدہ امور کا ذکر ہے اور وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک پسندیدہ مذکورہ امور کے خلاف ہیں ان میں پہلی چیز :
[۱] قیل وقال ہے : قیل وقال سے مراد ہے کہ "فلاں نے یہ کہا " فلاں نے اس کا جواب یوں دیا ، مقصد بے فائدہ اور فضول باتیں ہیں جسے ہمارے عرف میں گپ شپ کہتے ہیں جن میں نہ دین کا فائدہ ہو نہ دنیا کا بلکہ وقت جیسی قابل قدر شئے کو ضائع کرنا ہو وجہ یہ ہے کہ جو بھی شخص جتنی زیادہ لایعنی باتیں کرتا ہے اتنی ہی جھوٹ بولتا اور جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے نتیجۃ فتنے ، باہمی اختلاف اور دوستوں میں لڑائی ہوتی ہے ۔
[۲] کثرتِ سوال : اللہ تعالٰی کی دوسری ناپسندیدہ چیز اس حدیث میں مذکور ہے وہ کثرتِ سوال ہے ، کثرت سوال عام ہے خواہ وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے متعلق ہو ، بغیر ضرورت مال کا سوال کرنا ، جو مساٴلہ درپیش نہ ہو اسکی کھوج میں لگنا ، کسی کو تنگ کرنے اور  بوجہ اعتراض سوال کرنا ، ایسی باتیں پوچھنا اور پاکی کی کھال نکالنا جس کا کوئِی فائدہ نہ ہو اور اس کی وجہ سے باہمی اختلاف کا ڈر ہو یہ ساری چیزیں اس میں داخل ہیں ، ارشاد باری تعالٰی ہے :
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآَنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ "
  اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار  ہوں ’’  
[ المائدۃ :101 ] 
 البتہ اگر عملی سوال ہو  جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچانا یا تعلیم دینا مقصود ہو ، یا سائل اس کا حاجت مند ہے اور بقدر حاجت سوال کررہا ہے تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ بسااوقات واجب ہوگا ، ارشاد باری تعالٰی ہے :
" فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ "  ‘‘ اگر تمہیں علم نہ ہو تو علم رکھنے والوں سے پوچھو ’’  
[ النحل :43 ]
[۳] مال کا ضیاع : رب کریم کی تیسری ناپسندیدہ چیز جو اس حدیث میں مذکور ہے مال کا ضائع کرنا ہے ، اس سے مراد ، فضول خرچی ، غیر ضروری جگہوں پر خرچ ، حرام جگہوں پر خرچ ، حتی کہ زمین ومکان کو کام میں نہ لانا اور بے فائدہ چھوڑ دینا ، حیوانوں کو پورا کھانا نہ دیکر کمزور وبےکار کردینا سب مال ضائع کرنے میں داخل ہے ، حتٰی کہ اللہ تعالٰی نے ایسے مال کے مالک جو مال میں صحیح تصرف کی صلاحیت نہیں رکھتا خود اس کا مال اس کے حوالے کرنے سے منع فرمایا ہے:
  وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا" 
 ‘‘اور نادانوں کو ان کے مال واپس نہ کرو جسے اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے سامان زیست کا ذریعہ بنایا ہے ’’  
{النساء :5}
 اس طرح اگر غور کیا جائے تو اس حدیث میں جان ، مال ، عزت اور دین کی حفاظت کے ذرین اصول بیان ہوئے ہیں ۔
فوائد :
1.    اللہ تعالٰی کے لئے صفت رضا اور کراہیت کا ثبوت ۔
2.    باہمی اتفاق مدد الہٰی کے اسباب میں سے ہے ۔
3.    ضروری ہے کہ باہمی اتفاق و اتحاد حبل اللہ [اللہ کے دین ] کے اساس پر ہو ۔
4.    اسلام بندوں کی عزت اور جان ومال کے حفاظت کا ضامن ہے ۔
 
 
فضیلۃ الشیخ /ا بوکلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ