Pages

Sunday, December 29, 2013

عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت


بسم اللہ الرحمن الرحیم
الصلوۃ والسلام علی رسولہ النبی الکریم

ماہ ربیع الاول میں بالعموم اور بارہ  ربیع الاول کو بالخصوص آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا جائز و مستحب ہے اور اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

ارشاد باری تعالی ہوا ، ( اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ) ۔ ( ابراہیم ، 5 ) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔  ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔
(تفسیر خزائن العرفان)

بلاشبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔
(آل عمران ،164)

آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔
(الضحی 11، کنز الایمان)

خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔

سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے
(اسد الغابہ ج 2 ص 129)

اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔
(المائدہ ، 114، کنزالایمان)

صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔
 تفسیر خزائن العرفان )۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔

عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں
کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں​

شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہنوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟

(ماثبت بالستہ)

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام​

صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخل فرمادے ۔
( مواہب الدنیہ ج 1 ص 27 ، مطبوعہ مصر )

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟
سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔
(مشکوہ)

حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91)
ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔
( سیرت حلبیہ ج 1 ص 94 ، خصائص کبری ج 1 ص 40 ، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)

سیدہ آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 109 ) یہ حدیث ( الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) مےں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرہء رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔
(صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)

جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص 58)
امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص 129

امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔
( حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج 1 ص 189)

امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔
(مواہب الدنیہ ج 1 ص 27)

شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔
(الدار الثمین ص 8)

ان دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرنے اور میلاد کا جشن منانے کا سلسلہ امت مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے ۔ اور اسے بدعت و حرام کہنے والے دراصل خود بدعتی و گمراہ ہیں۔

Friday, December 20, 2013

صفر ( کے مہینے میں ) کوئی نحوست نہیں ہے

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَر
(.بخاری،رقم۵۷۵۷)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ چھوت ہے، نہ بدفالی ہے، نہ مردے کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے اور نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے۔‘‘
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ حِینَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا صَفَرَ وَلَا ہَامَۃَ، فَقَالَ أَعْرَابِیٌّ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَمَا بَالُ الْإِبِلِ تَکُونُ فِی الرَّمْلِ کَأَنَّہَا الظِّبَاءُ فَیَجِیءُ الْبَعِیرُ الْأَجْرَبُ فَیَدْخُلُ فِیہَا فَیُجْرِبُہَا کُلَّہَا قَالَ: فَمَنْ أَعْدَی الْأَوَّلَ۔ ۔۔۔ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا صَفَرَ وَلَا ہَامَۃَ
(مسلم، رقم ۵۷۸۸، ۵۷۸۹)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ چھوت ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے اور نہ مردے کی کھوپڑی سے کوئی پرندہ نکلتا ہے، تو ایک دیہاتی شخص نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول ان اونٹوں کا کیا معاملہ ہوتا ہے جو ریگستان میں ہوتے ہیں تو ایسے (صاف اور چکنے) ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن، پھر ایک خارشی اونٹ آتا اور ان میں شامل ہو جاتا ہے تو وہ سب کو خارشی کر دیتا ہے۔آپ نے فرمایا: پہلے اونٹ کو کس نے بیماری لگائی تھی۔ ۔۔۔ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ چھوت ہے، نہ بدفالی ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے اور نہ مردے کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے۔‘‘
 عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا غُولَ
(مسلم، رقم ۵۷۹۵)
’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہ چھوت ہے، نہ بد فالی ہے اور نہ غول بیابانی ہی کوئی چیز ہے۔‘‘
توضیح
متعدی بیماریاں کیسے پھیلتی ہیں؟ اس سوال کا وہ علمی جواب جو آج ہمارے پاس موجود ہے، ظاہر ہے کہ وہ عربوں کے پاس موجود نہیں تھا۔ چنانچہ ان کے ہاں بعض توہمات کی بنا پر متعدی بیماری والے جانور کے بارے میں یہ عقیدہ پیدا ہو گیا کہ اس میں کوئی ایسی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنا پر وہ دوسروں کو بیمار کرسکتا ہے، یعنی وہ جانور موثر بالذات ہو جاتا ہے۔
بدفالی کے حوالے سے ان کا تصور یہ تھا کہ بعض جانوروں کے افعال انسانوں کو نفع و نقصان دیتے اور ان کی قسمتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ان کا ایک خیال یہ بھی تھا کہ انسانوں اور جانوروں کے پیٹ میں بھوک کی وجہ سے ایک سانپ نما کیڑا پیدا ہو جاتا ہے، جو انھیں مار دیتا ہے۔ وہ اس مرض کو بھی متعدی بیماریوں کی طرح مؤثر بالذات سمجھتے تھے۔
ان کا ایک باطل تصور یہ بھی تھا کہ جس مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی روح کھوپڑی سے پرندہ بن کر نکلتی ہے اور ’مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ‘ کے الفاظ کے ساتھ چلاتی رہتی ہے، پھر جب اس کے قتل کا بدلہ لے لیا جائے تو پھر وہ پرندہ کہیں اڑ جاتا ہے۔ اسی طرح اہل عرب یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ بیابانوں میں ایسے جنات اور شیاطین ہوتے ہیں جو اپنی شکلیں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ مسافروں کو دکھائی دیتے ہیں اور انھیں راستے سے بھٹکا کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ وہ انھیں غولِ بیابانی کہتے تھے۔
درجِ بالا احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے ان سب باطل اور مشرکانہ عقائد و تصورات کی نفی فرمائی اور یہ بتایا کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور (اللہ کے سوا )کوئی چیز بھی مؤثربالذات نہیں ہوتی۔

Monday, December 2, 2013

باب: اس بات کا بیان کہ رکوع اور سجدہ میں کیا کہے؟

بَابمَا يُقَالُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ

صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۴/ حدیث مرفوع

۱۰۷۴۔ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَی أَبِي بَکْرٍ أَنَّهٗ سَمِعَ أَبَا صَالِحٍ ذَکْوَانَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَقْرَبُ مَا يَکُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِهٖ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَکْثِرُوا الدُّعَاءَ۔

۱۰۷۴۔ ہارون بن معروف، عمرو بن سواد، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، عمارہ بن غزیہ مولی ابوبکر، ابوصالح، ذکوان، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سجدہ کرتے ہوئے بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے پس سجود میں کثرت کے ساتھ دعا کیا کرو۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۵/ حدیث مرفوع

۱۰۷۵۔ حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَا أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يَحْيٰی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَی أَبِي بَکْرٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي کُلَهٗ دِقَّهُ وَجِلَهٗ وَأَوَّلَهٗ وَآخِرَهُ وَعَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ۔

۱۰۷۵۔ ابوطاہر، یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یحیی بن ایوب، عمارہ بن غزیہ مولی ابوبکر، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سجدوں میں (اللہُمَّ اغْفِرْلِي ذَنْبِي کُلَهٗ دِقَّهُ وَجِلَّهُ) پڑھتے تھے اے اللہ میرے تمام گناہ معاف فرما دے چھوٹے بڑے اول وآخر ظاہری وپوشیدہ۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۶/ حدیث مرفوع

۱۰۷۶۔ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحٰقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُکْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُکُوعِهِ وَسُجُودِهِ سُبْحَانَکَ اللہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ۔

۱۰۷۶۔ زہیر بن حرب، اسحق بن ابراہیم، زہیر، جریج، منصور، ابی ضحی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رکوع و سجدہ میں کثرت کے ساتھ (سُبْحَانَکَ اللہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي) فرماتے تھے اور قرآن پر عمل کرتے اے اللہ اے ہمارے رب تو ہی پاک ہے اور تعریف تیری ہی ہے اے اللہ میری مغفرت فرما۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۷/ حدیث مرفوع

۱۰۷۷۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو کُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُکْثِرُ أَنْ يَقُولَ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَيْکَ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ مَا هَذِهِ الْکَلِمَاتُ الَّتِي أَرَاکَ أَحْدَثْتَهَا تَقُولُهَا قَالَ جُعِلَتْ لِي عَلَامَةٌ فِي أُمَّتِي إِذَا رَأَيْتُهَا قُلْتُهَا إِذَا جَاءَنَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ إِلَی آخِرِ السُّورَةِ۔

۱۰۷۷۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، مسلم، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات سے پہلے یہ کلمات کثرت سے فرمایا کرتے تھے (سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَيْکَ) سیدہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کلمات کیا ہیں جن کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ نے ان کو کہنا شروع کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے لئے میری امت میں ایک علامت مقرر کی گئی ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۸/ حدیث مرفوع

۱۰۷۸۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا يَحْيٰی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ نَزَلَ عَلَيْهِ إِذَا جَاءَنَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ يُصَلِّي صَلَاةً إِلَّا دَعَا أَوْ قَالَ فِيهَا سُبْحَانَکَ رَبِّي وَبِحَمْدِکَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي۔

۱۰۷۸۔ محمد بن رافع، یحیی بن آدم، مفضل، اعمش، مسلم بن صبیح، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ نازل ہوئی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی نماز میں نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا نہ پڑھی ہو: (سُبْحَانَکَ رَبِّي وَبِحَمْدِکَ اللہُمَّ اغْفِرْلِي
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۹/ حدیث مرفوع

۱۰۷۹۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا دَاوُدُ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُکْثِرُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَاکَ تُکْثِرُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فَقَالَ خَبَّرَنِي رَبِّي أَنِّي سَأَرَی عَلَامَةً فِي أُمَّتِي فَإِذَا رَأَيْتُهَا أَکْثَرْتُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فَقَدْ رَأَيْتُهَا إِذَا جَاءَنَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ فَتْحُ مَکَّةَ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللہِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًا۔

۱۰۷۹۔ محمد بن مثنی، عبدالاعلی، داؤ د، عامر، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت کے ساتھ (سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ) فرماتے تھے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت کے ساتھ (سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ) پڑھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ عنقریب میں اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا جب میں اس نشانی کو دیکھوں تو میں (سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ) کی کثرت کروں تو تحقیق میں نے اس علامت کو دیکھ لیا ہے (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ (فَتْحُ مَکَّةَ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللہِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًا) جب اللہ کی مدد آگئی اور مکہ فتح ہوگیا اور لوگوں کو تو دیکھے گا اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں گے تو اللہ کی تسبیح بیان کر اس کی تعریف کے ساتھ اور اس سے بخشش مانگ بے شک وہ رجوع فرمانے والا ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۸۰/ حدیث مرفوع

۱۰۸۰۔ حَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ قُلْتُ لِعَطَاءٍ کَيْفَ تَقُولُ أَنْتَ فِي الرُّکُوعِ قَالَ أَمَّا سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ فَأَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ افْتَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَظَنَنْتُ أَنَّهٗ ذَهَبَ إِلَی بَعْضِ نِسَائِهِ فَتَحَسَّسْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ فَإِذَا هُوَ رَاکِعٌ أَوْ سَاجِدٌ يَقُولُ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنِّي لَفِي شَأْنٍ وَإِنَّکَ لَفِي آخَرَ۔

۱۰۸۰۔ حسن بن علی حلوانی، محمد بن رافع، عبدالرزاق، حضرت ابن جریج سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عطا سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع میں کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا (سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ) مجھے ابن ابی ملیکہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کی ہے وہ فرماتی ہیں میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دوسری عورتوں کے پاس چلے گئے ہیں میں نے ڈھونڈنا شروع کیا واپس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رکوع کرتے ہوئے پایا سجدہ کرتے ہوئے پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے (سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ) میں نے کہا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں میں کس گمان و خیال میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کام میں مصروف ہیں۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۸۱/ حدیث مرفوع

۱۰۸۱۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيٰی بْنِ حَبَّانَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنْ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلٰی بَطْنِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَهُوَ يَقُولُ اللہُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ۔

۱۰۸۱۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبید اللہ بن عمر، محمد بن یحیی بن حبان، اعرج، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تھے اور میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں کے تلوے پر جا پڑا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہونے والے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے (اللہُمَّ انِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ) اے اللہ میں تیرے غصہ سے تیری خوشی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پنا میں آتا ہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں تیری حمد وثنا ایسی نہیں کر سکتا جیسی تو نے خود اپنی حمد وثنا بیان کی ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۸۲/ حدیث مرفوع

۱۰۸۲۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ أَنَّ عَائِشَةَ نَبَّأَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَقُولُ فِي رُکُوعِهِ وَسُجُودِهِ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوحِ۔

۱۰۸۲۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر عبدی، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، مطرف بن عبد اللہ بن شخیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع وسجود میں (سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوحِ) فرمایا کرتے تھے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۸۳/ حدیث مرفوع

۱۰۸۳۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي قَتَادَةُ قَالَ سَمِعْتُ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَحَدَّثَنِي هِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ۔

۱۰۸۳۔ محمد بن مثنی، ابوداؤد، شعبہ، قتادہ، مطرف بن عبد اللہ بن شخیر، ہشام، قتادہ، مطرف، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل فرمائی ہے اسناد دوسری ہیں۔

Saturday, November 9, 2013

محرم الحرام کے روزوں کی فضیلت

عاشورا، عشر سے بناہے جس کے معنی دس کے ہیں۔ یوم عاشور کے لفظی معنی دسویں کے دن کے ہیں۔ چونکہ یہ محرم الحرام کے مہینہ کا دن ہے۔ اِس لئے اِس کو محرم الحرام کی دسویں کا دن کہتے ہیں۔ یوم عاشورا، ظہورِ اسلام سے پہلے قریش مکہ مکرمہ کے نزدیک بھی بڑا دن تھا۔ اِسی دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا اور قریش مکہ مکرمہ اِس دن روزہ رکھتے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ آپ مکہ مکرمہ کے لوگوں کے اُن کاموں سے اِتفاق فرماتے تھے جو ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے اچھے کام ہوتے تھے۔ اِسی بنا پر آپ حج کی تقریبات میں بھی شرکت فرماتے تھے اوراِسی اُصول کی بنا پر عاشورا کا روزہ رکھتے تھے۔ لیکن قبل از ہجرت اِس روزے کا کسی کو حکم نہ فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عبداﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو ”یوم عاشورا“ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا ”تو اُن سے فرمایا یہ کیسا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی یہ وہ عظیم دن ہے جس میں اﷲ (تعالیٰ ) نے (حضرت) موسیٰ ؑ اور اُن کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اُ س کے پیروکاروں کو غرق فرما دیا تھا۔ بعد ازیں جب یہ دن آتا تو (حضرت) موسیٰ ؑ شکرانے میں اِس دن کا روزہ رکھتے اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اُن کی بات کو سماعت فرمانے کے بعد) اِرشاد فرمایا کہ ہم (حضرت) موسیٰ ؑ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ نبی کریم نے یوم عاشورا کا روزہ خود بھی رکھا اور اِس دن کا روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا۔
 (بخاری، مسلم، مشکوٰة، مسند احمد، صتح الباری، عمدة القاری، درمنثور، ابو داؤد، ابن کثیر) - See more at: http://theislamicpost.blogspot.com/2012/11/9-and-10-ashura-muharram-ka-roza.html#sthash.ufLdE5Cc.dpuf

 (بخاری، مسلم، مشکوٰة، مسند احمد، صتح الباری، عمدة القاری، درمنثور، ابو داؤد، ابن کثیر) 

یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ روزہ رکھنا حضرت موسیٰ ؑکی موافقت کے لئے تھا پیروی کے لئے نہیں تھا اور نہ ہی یہودیوں کی اِس میں پیروی تھی۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے ہی روایت ہے‘ فرماتے ہیں: ”جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کے دن کا روزہ رکھا اور اُس کے روزے کا حکم فرمایا تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا‘ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودی اور عیسائی کرتے ہیں تو سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ہم آئندہ سال اِس دنیا میں رہے تو نویں محرم الحرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔

(ابو داؤد، مسند احمد، تفسیر قرطبی، مشکوٰة)

اِس طرح مشابہت ختم ہو جائے گی کہ وہ صرف عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں اور ہم نویں تاریخ کا روزہ رکھ کر دور کر لیا کریں گے اور مشابہت کی وجہ سے نیکی بند نہیں کریں گے بلکہ اِس میں اضافہ کرکے فرق کر دیا کریں گے۔
حضرت حکم بن الاعرج سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ”کہ میں حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کے پاس اُس وقت پہنچا جب وہ زمزم شریف کے قریب اپنی چادر لپیٹے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے عرض کیا عاشورا کے روزہ کے بارے میں فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ ”جب تم محرم کا چاند دیکھو تو کھاو¿ اور نویں تاریخ کا روزہ رکھو

(ترمذی، مسلم)

ایک اور روایت میں حضرت رزین نے حضرت عطا سے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں نے حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے سُنا، وہ فرماتے تھے کہ ”نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔“ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد بھی روزہ رکھو۔

(مسند احمد) 

اُمّ المومنین حضرت سیّدہ حفصہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: ”چار اَعمال ایسے ہیں جن کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں چھوڑا۔ یوم عاشورا کا روزہ، عشرہ ذوالحجہ (کے نو روزے) اور ہر ماہ کے تین روزے اور فجر سے پہلے دو ر کعتیں (یعنی سُنّتِ فجر)“۔

(نسائی، مسلم احمد، مشکوٰة) 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور زوجہ مطہرہؓ سے روایت ہے ، فرماتی ہیں: ”رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو روزے رکھتے تھے (پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک) اور عاشورا کے روز (یعنی دسویں محرم کو) روزہ رکھتے تھے اور ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے ایک پیر کو اور دو ، دو جمعراتوں کو

(نسائی، مسند احمد) 

حضرت مزیدہ بن جابر سے روایت ہے، فرماتے ہیں، میری والدہ نے فرمایا: میں کوفہ کی مسجد میں تھی اور امیر المو¿منین حضرت سیّدنا عثمان غنیؓ کا دورِ خلافت تھا اور ہمارے ساتھ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بھی تھے۔ اُنہوں نے فرمایا، میں نے سُنا، وہ فرما رہے تھے: ”کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عاشورا کے روزہ کے بارے میں فرما رہے تھے کہ روزہ رکھو۔

(مسند احمد)
ایسے ہی حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کا واقعہ ہے وہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے یوم عاشورا کے بارے میں فرما رہے تھے ”یہ عاشورا کا دن ہے روزہ رکھو، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اِس دن کے روزہ کا حکم فرماتے تھے۔

  المعجم الکبیر للطبرانی، مسند احمد
ایک روایت میں ہے: ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا روزہ ماہِ رمضان المبارک کے بعد افضل ہے؟ فرمایا: اﷲ (تعالیٰ ) کے مہینے ماہِ محرم الحرام کے (یوم عاشورا) کا روزہ۔“ فقہاءکرام فرماتے ہیں اب سُنّت یہی ہے کہ نویں اور دسویں کے روزے رکھیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نویں تاریخ کے روزے کا اِرادہ بھی تھا اور اِرشاد بھی ہے۔
بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس روزہ کا ایسا تاکیدی حکم فرمایا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لئے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں ”رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشورا کے روزہ کا حکم فرماتے تھے اور ہم کو اِس پر رغبت دیتے اور عاشورا کے دن ہماری تحقیقات فرماتے تھے پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو نہ ہمیں روزہ رکھنے کا حکم فرمایا اور نہ ہی منع فرمایا اور نہ تحقیقات فرمائیں

(مسند احمد، درمنثور، مشکوٰة، مسلم، ابو داؤد)

اِسی طرح حضرت ربیع بنت معوذ بن عفرائؓ اور سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: کہ ”رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورا کو صبح صبح مدینہ شریف کے آس پاس کی اُن بستیوں میں جن میں انصار صحابہ کرامؓ رہتے تھے یہ اِطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی کچھ کھایا پیا نہیں وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جنہوں نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ بھی بقیہ دن بھر کچھ نہ کھائیں۔ بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں۔

(بخاری فی الصوم، مسلم، مسند احمد)

یہ حدیث پاک اُس زمانہ کی ہے جب عاشورا کا روزہ فرض تھا اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورا کے روزے کی فرضیت ختم ہو گئی اور اِس کی حیثیت نفلی روزے کی رہ گئی۔
نفلی روزوں کے بارے میں ایک طویل حدیث کے آخری حصہ میں عاشورا کے روزہ کے بارے میں اِرشاد فرمایا کہ : حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عاشورا کے دن کا روزہ، مجھے اﷲ کے کرم پر اُمید ہے کہ پچھلے سال کا کفّارہ بنا دے گا۔

(مشکوٰة، مسلم، ترمذی)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا یعنی عاشورا دسویں تاریخ ہے۔

(ترمذی) 

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’رمضان المبارک کے بعد افضل روزے اﷲ (تعالیٰ) کے مہینہ محرم الحرام کے ہیں اور فرض نماز کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے (یعنی نمازِ تہجد)“۔

(مشکوٰة، ترمذی، شرح السنة، دارمی) 

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ کسی دن کے روزہ کو دوسرے دنوں پر بزرگی دے کر تلاش کرتے ہوں سوائے اِسی دن یعنی عاشورا کے دن اور اِسی مہینہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔

(مشکوٰة)
امیر المو¿منین حضرت علیؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ تم ماہِ رمضان المبارک کے بعد روزہ رکھنا چاہتے ہو تو محرم الحرام (کے یوم عاشورا ) کا روزہ رکھو کیونکہ یہ اﷲ ربّ العزّت کا مہینہ ہے جس میںاﷲ کریم نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور دوسری کی اﷲ تعالیٰ توبہ قبول فرمائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو رغبت دلائی کہ عاشورا کے دن توبة النصوح کی تجدید کریں اور قبول توبہ کے خواستگار ہوں۔ پس جس نے اِس دن اﷲ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چا ہی تو اﷲ اُس کی توبہ ویسے ہی قبول فرمائے گا جیسے اُن سے پہلوں کی توبہ قبول کی ہے اور اُس دن دوسروں کی بھی توبہ قبول فرمائے گا۔ حضرت اِمام ترمذی نے اِس کی تخریج کی ہے۔

(ترمذی)

Tuesday, October 8, 2013

ماہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن

ماہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن اجرو ثواب کے لحاظ سے سال کے بہترین دن ہیں۔ان دنوں میں تسبیح (سبحان اللہ) ، تحمید (الحمدللہ)، تہلیل (لا الٰہ الا اللہ ) اور تکبیر ( اللہ اکبر ) کے ذکر کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیئے۔ کہ ان دنوں میں ذکر الٰہی اور دیگر اعمال صالحہ کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

سورۃ الحج میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے۔


وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ۔۔۔ اورمعلوم دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کرو ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بحوالہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نقل فرمایا ہے کہ ان معلوم دنوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔

صحیح بخاری اور سنن ابو داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ

ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر فقالوا يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله ؟ فقال رسول الله صل الله عليه و سلم ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله ولم يرجع من ذلك بشيئ۔

ذی الحجہ کے ان دس دنوں سے بہتر ایسا کوئی دن نہیں جس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک محبوب تر ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا، یارسول اللہ صلى الله عليه وسلم! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا ، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ راہ جہاد میں نکلے اور کچھ واپس لےکر نہ آئے۔۔۔ یعنی وہیں شہید ہو جائے۔

(صحیح بخاری و سنن ابو داؤد)
تسبیح وتحمید اور تہلیل کا کثرت سے ورد کرنا

ان دس دنوں میں تکبیر و تحمید اور تہلیل کا کثرت سے ورد کرنا آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت مبارکہ ہے۔ مسند امام احمد و طبرانی میں مروی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا
مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنْ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ۔

اللہ کے نزدیک ان دس دنوں میں عمل صالح کرنا جس قدر زیادہ محبوب اور عظیم المرتبت ہے اتنا دوسرے دنوں میں محبوب نہیں ہے۔ اس لئے تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہا کرو۔


ان کلمات کا ورد کرنے کی بہترین صورت اس کلمے کا ورد ہو سکتا ہے کہ جس کے بارے میں آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ یہ کلمہ مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ پیارا ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب چیزوں سے یہ کلمہ زیادہ محبوب ہے۔ اور وہ کلمہ ہے۔

سبحان اللہ ، والحمدللہ ، ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر۔
اس کلمے میں اللہ عزوجل کی تسبیح و تحمید و تہلیل و تکبیر سب آ جاتی ہے اور ہم بڑی آسانی سے اس کلمے کو ورد زبان بنا سکتے ہیں۔۔۔ اللہ عزوجل عمل کی توفیق دے۔

عرفات کے دن کا روزہ رکھنا

یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کا بڑا اجر وثواب ہے۔ اور اس دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وآلہ وسلم نے فرمایا۔

صيام يوم عرفة إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والتي بعده ۔

عرفہ کے دن کے روزہ کے بارے میں مجھے اللہ تعالٰی کی رحمت سے امید ہے کہ یہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے
کے گناہوں کو دور کردے گا۔
یہ روزہ اس کے لئے مسنون ہے جو اس سال حج پر نہ ہو۔۔۔ حاجیوں کے لئے اس دن کا روزہ رکھنا مسنون نہیں۔

بالوں اور ناخنوں کا کاٹنا

جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ، اس کے لئے مستحب ہے کہ ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک نہ تو بال کاٹے یا اکھاڑے اور نہ ہی ناخن تراشے۔

صحیح مسلم میں حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اِذَا دَخَلتِ العَشرُ وَ اَرادَ اَحَدُکُم اَن یُضَحِّیَ ، فَلا یَمَسَّ مِن شَعرِہِ وَ مِن بَشَرِہِ شَیئًا 

جب دس دِن ( یعنی ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آ جائیں اور تُم میں کوئی قُربانی کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور جِسم کو مت چھوئے۔

یعنی جسم کے بال یا ناخن وغیرہ نہ اتارے۔

عرفہ کے دن دعا کرنا

عرفہ کے دن دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا
خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔

سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام نےکی وہ یہ ہے۔

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔


سبحان اللہ ، والحمدللہ ، ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر۔

لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔

Wednesday, September 11, 2013

دنیا کی حقیقت

” خوب جان لو یہ دنیا کی زندگی اس کے سو ا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہر ی ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔۔۔۔۔
چند الفاظ میں اللہ تعالی نے دنیا کی پوری حقیقت ہی نگاہ والوں کی نگاہ میں رکھ دی ۔ یہ دنیا کیا ہے؟ کھیل۔ بس ایک دل لگی۔قلب و ذہن کےلئے تماشا اور جسم و اعضاءکےلئے ایک کھیل۔جبکہ کھیل کی کبھی کوئی حقیقت ہوتی ہے اور نہ تماشے کی ۔ اس کی کچھ حقیقت ہے تو یہی کہ ذہن کومصروف کرے، دل کو لبھائے اور وقت کو برباد کرے ۔جو ا س کی حقیقت سے بے خبر رہا وہ اس تماشے میں اپنی عمر کھو بیٹھا۔ ہوش آیا تو تب نہ وقت باقی رہا اور نہ تماشا!
پھر فرمایا کہ محض’ ٹیپ ٹاپ‘ ہے اور بس’ زیب و آرائش‘! جو دلوں کو لبھاتی ہے اور نظروں کو خیرہ کرتی ہے۔ نگاہوں سے ستائش چاہتی ہے اور دلوں سے شوق و رغبت کی طلبگار رہتی ہے۔ یہی دل اگر اس آرائش کی حقیقت سے آگاہ ہوجائیں اور یہی آنکھیں اس چکا چوند سے پرے اس کی اصلیت دیکھ لیں اور اس کے انجام سے واقف ہوجائیں تب یہ دنیا ان کے لئے بے وقعت ہوجائے اور وہ اس پر آخرت کو ترجیح دینے لگیں ۔تب یہ ہمیشہ کے گھرپر جو خوشیوں سے ہمیشہ آباد رہے گا غموں کے ایک ایسے گھر کو کبھی ترجیح نہ دیں جو نہ معلوم کے پل کا گھر ہے۔
مسند احمد میں روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :
” دنیا سے میرا بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤں میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے ۔ وہ کوئی پل آرام کر ے گا تو پھر اٹھ کر چل دے گا“!
ترمذی میں سہل بن عبداللہ کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  فرماتے ہیں :
”یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر برابر بھی وزن رکھتی تو کافرکوا س دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا“
صحیح مسلم میں مستورد بن شداد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
” دنیا آخرت کے مقابلے میں بس اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی نے سمندر میں کیا کمی کی “ تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا ۔
ترمذی میں ان کی ایک روایت یو ں آئی ہے ،کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہم رکاب تھا کہ آپ نے ایک مردہ بکری کے پاس ہمیں روک لیا۔ فرمایا: ”کیا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ یہ اپنے مالکوں کی نظر میں کتنی بے کار اور بے وقعت ہوئی کہ وہ اسے یوں پھینک گئے! “ صحابہ نے عرض کی :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ بے قیمت تھی تو گھر والوں نے یوں پھینک دی ۔تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :”تو پھر سنو دنیا اللہ کی نظر میں اس سے بھی زیادہ بے وقعت ہے جتنی اس گھر والوں کےلئے یہ مردہ بکری“
ترمذی ہی میں ابو ہریرہ کی یہ حدیث بھی آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ” یہ دنیا ملعون ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہے وہ ملعون ہے سوائے اللہ کی یاد کے اور جو اس سے تعلق رکھے اور سوائے اس کے جو کچھ سیکھے یا سکھائے“
امام احمد کہتے ہیں ہیثم ابن خارجہ نے ہم سے بیان کیا کہ اسماعیل بن عیاش نے عبداللہ بن دینار النہرانی کا یہ قول بیان کیا کہ عیسی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: ” میں تمہیں حق بات بتاتا ہوں ۔دیکھو دنیا کی مٹھاس آخرت کی کڑواہٹ ہے۔ اور دنیا کی کڑواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے ۔ اللہ کے سچے بندے آسائش پسند نہیں ہوتے ۔ میں تمھیں حق بات بتاتا ہوں تم میں بدترین عمل اس شخص کا ہے جو عالم ہو کر پھر دنیا سے محبت رکھے اور اس کو آخرت پر ترجیح دے “
امام احمد نے کہا ییحی بن اسحاق نے ہم سے بیان کیا، کہا: ” سعید بن عبدالعزیز نے مکحول سے یہ قول نقل کیا کہ عیسی علیہ السلام نے فرمایا:
” اے حواریو ! تم میں بھلا کون ہے جو سمندر کی اٹھتی موج پر اپنا گھر تعمیر کر لے“ سب نے عرض کی: ” اے رو ح اللہ ! بھلا یہ کون کر سکتا ہے !؟“ تب فرمایا:
” تو پھر اس دنیا سے خبردار رہو اس کو جائے قرار بنانے سے بچے رہو“
امام احمد بن حنبل نے کتاب الزہد میں عیسی بن مریم علیہ السلام کا قول نقل کیا !
” میں تم سے حق بات کہتا ہوں۔ جو دائمی بہشت کا وارث بننا چاہتا ہے اس کے لیے تو یہ بھی بہت ہے کہ اسے کھانے کو روٹی مل جائے اورپینے کو میٹھا پانی اور سونے کے لیے ایسی گلیاں بھی بری نہیں جہاں بے شک کتے رات گزارتے ہوں“
مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:
” اللہ تعالی نے تو اس دنیا کی مثال بس ابن آدم کے کھانے کی صورت میں ہی بیان کردی خواہ وہ اس کھانے کوکتنا ہی مزیدار اور چٹ پٹا بنالے بس کھانے کی دیر ہے پھر دیکھے وہ کیا سے کیا بن جاتا ہے!“
پھر تیسری بات اللہ تعالی نے اس دنیا کی یہ بتائی کہ یہ ’تفاخر‘ اور’ تکاثر‘ کا سامان ہے  یہ ایک دوسرے کو مات کرنے کےلئے ایک ذرہ ہے ایک دوسرے پر جیت پانے کے لیے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کےلئے دنیا کی دوڑ لگانی پڑتی ہے۔۔۔“
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار قبرستان سے گزرتے ہوئے فرمایا:
” دنیا سچ والوں کےلئے سچائی ثابت کرنے کی جگہ ہے ۔جو اس کی حقیقت سمجھ گیا اس کےلئے یہ عافیت کا گھر ہے۔ جو اس سے بچ بچ کر چلنے والے ہیں ان کے لیے یہ کامیابی کا زینہ ہے ۔یہ دنیا وہ مبارک جگہ ہے جہاں انبیاءسجدے کرکرکے رخصت ہوتے رہے۔ یہاں پے درپے اللہ کی وحی اتری ۔ فرشتے یہاں کی خیریت کی صبح و شام دعائیں کریں ۔اللہ کے ولیوں اور دوستوں کے لیے یہی میدان عمل ہے۔ یہیں وہ اس کی رحمت کے مستحق بن بن کر جاتے ہیں اور یہیں سے وہ اپنی عافیت کا بندوبست کرتے ہیں ۔کوئی اسے برا کیوں کہے جب اس نے اپنا آپ خود بتا دیا۔ اپنے خاتمے کی خبر یہ خود دیتی ہے۔ اپنے باشندوں کو موت اور فنا کے پیغام روز سناتی ہے۔ کچھ لوگوں کو اسے دشنام دینے کی تب سوجھی جب پشیمانی کے سوا کسی چیز کا وقت باقی نہ رہا۔ مگر خوش قسمتوں نے اسے خوب داددی کیونکہ اس دنیا نے انہیں جب سمجھایا تو وہ سمجھ گئے۔ انہیں خبردار کیا تو وہ چوکنا ہوگئے“
” سوا ے دنیا کے فریب میں پڑ ے رہنے والو جو آخر میں اسے دشنام دیں گے ! دنیا دشنام کے لائق کب ہوئی؟ دنیا نے تم کو فریب کب دے دیا ۔ کیا یہ فریب تم نے اپنے با پ دادا کی ویران قبریں دیکھ کر اس سے کھالیا؟ یا اپنی ماؤں کی ہائے دہائی سے تمہیں اس دنیا کے بار ے میں غلط فہمی ہوئی؟ تم اپنے ان ہاتھوں سے کتنے بیماروں کا علاج کرواتے رہے؟ کتنوں کی تیمارداری کی؟ کتنوں کےلئے صحت یابی کی دعائیں کرتے رہے؟ کتنوں کی خاطر طبیب ڈھونڈے؟ مگر تمھاری کوئی تدبیر کام نہ آئی۔ تمہاری دوڑ دھوپ بے کار گئی۔ اس کا بستر مرگ تم نے دنیا کے آئینے میں دیکھ لیا کہ وہ تمہارا بھی بستر ہے۔ اس کی لاش ہویا تمہاری اس چارپائی کی بلا سے ایک ہے“
تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ قبروں کی جانب متوجہ ہوئے اور کہا:”اے ملک عدم کے لوگو ! اے مٹی کے باسیو ! تمہارے گھر تھے سو ان میں اب اور بستے ہیں ۔ تمہارے مال جائیداد تھے سو اب وہ اوروں میں تقسیم ہوئے۔ تمہاری بیویاں تھیں سو اوروں سے بیاہی گئیں  ہمارے ہاں کی توبس یہی خبر ہے تم سناؤ تمہارے ہاں کی کیا خبر ہے “تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ” سنو آج اگر ان کو اجازت ملے تو تمہیں یہ ضرور بتائیں کہ یہاں سے ساتھ لے جانے کےلئے سب سے قیمتی سامان تقو ی ہے“
سو یہ دنیا درحقیقت لعنت ملامت کرنے کی چیز نہیں ۔ لعنت ملامت دراصل انسان کے اس فعل کی ہوسکتی ہے جو وہ اس دنیا میں بے مقصد کرتا ہے۔ یہ دنیا تو درحقیقت ایک گزر گاہ ہے یہ ایک پل کا کام دیتی ہے جس کے اس پار جنت ہے یا جہنم۔ مگر چونکہ یہاں انسانوں کی اکثریت خواہشات و شہوات سے مغلوب ہوتی ہے ۔ اللہ سے روگردانی اور آخرت سے غافل رہتی ہے، اس لیے لفظ ”دنیا“ سے مراد یہی خواہش پرستی اور شہوت پسندی لیا جانے لگا۔ یوں آخرت سے غفلت کانام ”دنیا“ پڑ گیا۔ قرآن یا حدیث میں جہاں کہیں ”دنیا“ کی مذمت ہوئی ہے تو دراصل وہ دنیا کی اسی روش اور اسی معنی کی ہوئی ہے۔ ورنہ یہ دنیا تو ہمیشگی پانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہ آخرت کی کھیتی ہے یہ جنت کی راہ کی ایک منزل ہے اور بہشت کےلئے زادراہ۔ پاکیز ہ نفوس یہیں پر ایمان کی نعمت سے بہرور ہوتے ہیں۔ یہیں پر وہ اللہ کی ہستی کی پہچان کرکے اگلے جہاں رخصت ہوتے ہیں ۔ یہیں وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور یہیں اس کا نام بلند کرتے ہیں۔ جنت کے ٹھاٹھ باٹ ، وہاں کی بہتی نہریں ، روا ں چشمے اور سرسبز باغات یہیں کی کھیتی کے مرہون منت تو ہیں! دنیا کی قدر بھی کسی کو ایمان نصیب ہو تو معلوم ہوتی ہے!! 
اردو استفادہ از عدت الصابرین
مصنفہ امام ابن القیم
 

Friday, August 16, 2013

Importance of Salah in Islam

Importance of Salah in Islam: Salah (Salat, Namaz) (Prayer according to Islam)
Importance of Salah in IslamAllah (SWT) has said in the Noble Qur'an: "I have not created the jinn and humankind for any other purpose except that they should worship Me." (Noble Qur'an 51:56)
It is clear from the above verse of Noble Qur'an that the purpose of our birth and of our life is no other than that of the worship of Allah (SWT). There are many acts of worship (Ibadah, Ibadat) in Islam, and Salah is one of the most important obligatory acts.
Salah (Salat, Namaz) is the ritual prayer practiced by Muslims in supplication to Allah (SWT). The term is commonly used to refer to the five daily prayers, which are compulsory upon all mature Muslims. Salah (Salat, Namaz) is considered the most important act of worship (Ibadah, Ibadat) in Islam and its importance is such that under very few circumstances it can be omitted.
Salah (Salat, Namaz) strengthens the foundations of our faith. It prepares a person to live the life of goodness and obedience to Allah (SWT), and it builds courage and determination. Every time we perform Salah, we renew our commitments to Allah (SWT) and we rid ourselves from worldly pressures five times a day.
According to a Hadith a companion of Holy Prophet Mohammad (pbuh) came to him one day and asked him "What is the thing that Allah (SWT) loves most?" Holy Prophet Mohammad (pbuh) replied "The thing that Allah (SWT) loves most is when his people pray Salah on time."
Salah (Salat, Namaz) is a practical sign of obedience to the commands of Allah (SWT). Its importance has been emphasized about 500 times in the Noble Qur'an.
Once Holy Prophet Mohammad (pbuh) shook a dry branch of a tree so that all of the leaves of the branch fell off than the Holy Prophet Mohammad (pbuh) said "The sins of those who pray Salah, drop off as the leaves of this branch fell off."
Before Salah, we make Wudu. Wudu (Ablution) is a unique way of cleansing certain parts of our body so we are clean before bowing down to the one who created us, who created the universe the one and only Allah (SWT).
The Holy Prophet Mohammad (pbuh) once asked his companions "Tell me if there was a river at the door step of one of you in which you washed five times a day would any of your dirt remain?" When Holy Prophet Mohammad (pbuh) received the reply that none of it would remain he then said "That is like the five times Salah, with which Allah (SWT) wipes out sin.
The last thing that Holy Prophet Mohammad (pbuh) emphasized at his deathbed was Salah. He also said the first thing we will have to answer about on the day of judgement is Salah.
While in Salah one communicates with Allah (SWT) and experiences his presence. That's why a Hadith says: Salah is the Meraj of a Momin (Namaz is called as Meraj-ul-Momineen).
The Holy Prophet Mohammad (pbuh) also said "The key to Heaven is Salah. The key to Salah is Purification."
"Namaz is a pillar of Religion. If Namaz is accepted all other deeds are accepted. If Namaz is rejected then all other Deeds are rejected." (Holy Prophet Mohammad (pbuh))
Importance of Salah in Islam: Sayings on Salah (Salat, Namaz)
Sayings on Salah (Salat, Namaz)Holy Prophet Mohammad (pbuh) said: "Almighty Allah (SWT) has set the light of my eyes in Salah (Salat, Namaz) and made it the most desirable thing for me, like the food for the hungry and the water for the thirsty. The hungry is contented after the meal and the thirsty is satisfied after drinking water. But my thirst for Salah (Salat, Namaz) is never quenched."
Holy Prophet Mohammad (pbuh) said: "Everything has a face and the face of your religion is Salah (Salat, Namaz); none of you should stain the face of his religion."
Commander of the Believers Imam Ali bin Abi Talib (pbuh) said: "Almighty Allah (SWT) has ordained the obligation of faith for purification from polytheism and the obligation of Salah (Salat, Namaz) for refraining from pride and arrogance."
Imam Jafar Sadiq (pbuh) said: "The superiority of Salah (Salat, Namaz) performed in the earliest moments over the one offered in the last moments of its specified time is the same as the superiority of the Hereafter over this world."
Imam Jafar Sadiq (pbuh) said: "It is quite possible that a person lives for fifty years and not even a single prayer of his is accepted. Is there anything harder and more painful than this? There are some people ... whose prayers ... will not be accepted ... because they belittle Salah (Salat, Namaz), while nothing but good is admitted to Almighty Allah (SWT). How can Almighty Allah (SWT) accept that which is considered to be of little worth?"
Imam Ali bin Moosa Al Ridha (pbuh) said: "When it is time for Salah (Salat, Namaz), perform your prayers; you never know what will happen afterwards ... Nothing is dearer to Almighty Allah than Salah (Salat, Namaz). Worldly affairs must not detract you from the prayer timings. Do not delay your prayers (from the prescribed timings) for no reason. Always perform your Salah (Salat, Namaz) on its best time."
Imam Ali bin Moosa Al Ridha (pbuh) said: "When you are praying, avoid being drowsy, slumberous, playing and hastening. Pray with solemnity, gravity and soberness. It is up to you to remain attentive, humble and submissive in Almighty Allah's presence. Stand in front of your Lord as a slave appears before his master. Keep your feet in order and your stature firm. Do not look here and there. Be as if you could see Him; for, if you do not see Him, He sees you."
Importance of Salah in Islam: Holy Prophet Mohammad (pbuh) and Salah (Salat, Namaz)
Holy Prophet Mohammad (pbuh) and SalahOne of the companions of the Holy Prophet Mohammad (pbuh), by the name of Sa'd, was very poor and was regarded as one of the People of the Ledge. Sa'd used to offer all his Salah (Salat, Namaz) prayers behind the Holy Prophet Mohammad (pbuh), who was greatly distressed by Sa'd's poverty. One day, the Holy Prophet Mohammad (pbuh) promised him that if he got some money, he would give it to Sa'd. Time passed but no money came to the Holy Prophet Mohammad (pbuh) who became even more distressed at Sa'd's situation. It was at this time that Jibril (Gabriel) descended, bringing with him two Dirhams.
Jibril (Gabriel) said to the Holy Prophet Mohammad (pbuh), "Allah (SWT) has said: We are aware of your distress in connection with Sa'd's poverty. If you want him to emerge from this state, give him these two Dirhams and ask him to engage himself in business."
The Holy Prophet Mohammad (pbuh) took the two Dirhams and set out of the house for the Dhuhr prayers when he found Sa'd waiting for him near one of the rooms of the mosque.
Turning to Sa'd, the Holy Prophet Mohammad (pbuh) asked: "Could you engage yourself in business?"
"By Allah (SWT)! I have no capital with which I can do business," replied Sa'd.
The Holy Prophet Mohammad (pbuh) handed him the two Dirhams and told him to start business with this capital.
Sa'd took the money and after offering the Dhuhr and Asr Salah (Salat, Namaz) prayers set about to earn his livelihood.
Allah (SWT) blessed Sa'd in such a way that whatever he purchased for a Dirham, he would sell it for double the amount. Consequently, his financial state gradually improved. This continued till he eventually purchased a shop near the mosque and began conducting his business from there. As his business picked up, he began to become lax with respect to his acts of worship (Ibadah, Ibadat), even to the extent that when Hazrat Bilal ibn Rabah recited the Adhan he would not get ready for the prayers. Previously, he was ready well before Adhan was recited!
When the Holy Prophet Mohammad (pbuh) noticed Sa'd's lateness for Salah (Salat, Namaz) prayers, he said to him: "Sa'd, this world has made you so busy that it has even weaned you away from your Salah (Salat, Namaz) prayers."
Salah is the Meraj of a MominSa'd replied, "What can I do? If I leave my wealth unattended, it will go to waste and I will end up in loss. From one person, I have to collect the money for the goods sold, while from another I have to take possession of the goods purchased."
The Holy Prophet Mohammad (pbuh) was disturbed at Sa'd's involvement with his wealth and his negligence with respect to his acts of worship and Salah (Salat, Namaz) prayer. At that moment, Jibril (Gabriel) descended again and said: "Allah (SWT) has said: 'We possess knowledge of your distress. Which of the two states do you prefer for Sa'd?"
The Holy Prophet Mohammad (pbuh) indicated that the previous state was beneficial for Sa'd. Jibril (Gabriel) agreed, "Yes, love for the world causes man to become heedless of the hereafter. Take back the two Dirhams, which you had given to him previously."
The Holy Prophet Mohammad (pbuh) approached Sa'd and asked him if he could return the two Dirhams that he had given to him.
"If you desire, I shall even give you two hundred Dirhams," replied Sa'd.
"No, just give me the two Dirhams, which you had taken from me." said the Holy Prophet Mohammad (pbuh).
Sa'd handed the money to the Holy Prophet Mohammad (pbuh) and within a short time, his financial situation turned a full circle and before long he found himself in his previous state.
Importance of Salah in Islam: Salah Timings (Prayer according to Islam, Salah Time)
Salah TimingsHe remembered his grandmother's warning about praying Salah (Salat, Namaz) on time: "My son, you shouldn't leave Salah (Salat, Namaz) to this late time". His grandmother's age was 70 but whenever she heard the Adhan, grandmother got up like an arrow and performed Salah (Salat, Namaz). He however could never win over his ego to get up and pray Salah (Salat, Namaz). Whatever he did, his Salah was always the last to be offered and he prayed it quickly to get it in on time. Thinking of this, he got up and realized that there were only 15 minutes left before Salat ul Isha. He quickly made Wudu (Ablution) and performed Salat ul Maghrib. While making Tasbih (Glorification) of Fatimah Zahra (sa), he again remembered his grandmother and was embarrassed by how he had prayed Salah (Salat, Namaz). His grandmother prayed with such tranquility and peace. He began making Dua and went down to make Sajda (prostrating) and stayed like that for a while.
He had been at school all day and was tired, so tired. He awoke abruptly to the sound of noise and shouting. He was sweating profusely. He looked around. It was very crowded. Every direction he looked in was filled with people. Some stood frozen looking around, some were running left and right and some were on their knees with their heads in their hands just waiting. Pure fear and apprehension filled him as he realized where he was.
His heart was about to burst. It was the Day of Judgment. When he was alive, he had heard many things about the questioning on the Day of Judgment, but that seemed so long ago. Could this be something his mind made up? No, the wait and the fear were so great that he could not have imagined this. The interrogation was still going on. He began moving frantically from people to people to ask if his name had been called. No one could answer him. All of a sudden his name was called and the crowd split into two and made a passageway for him. Two people grabbed his arms and led him forward. He walked with unknowing eyes through the crowd. The angels brought him to the center and left him there. His head was bent down and his whole life was passing in front of his eyes like a movie. He opened his eyes but saw only another world. The people were all helping others. He saw his father running from one lecture to the other, spending his wealth in the way of Islam. His mother invited guests to their house and one table was being set while the other was being cleared.
He pleaded his case; "I too was always on this path. I helped others. I spread the word of Allah (SWT). I performed my Salah (Salat, Namaz). I fasted in the month of Ramadan. Whatever Allah (SWT) ordered us to do, I did. Whatever Allah (SWT) ordered us not to do, I did not."
He began to cry and think about how much he loved Allah (SWT). He knew that whatever he had done in life would be less than what Allah (SWT) deserved and his only protector was Allah (SWT). He was sweating like never before and was shaking all over. His eyes were fixed on the scale, waiting for the final decision. At last, the decision was made. The two angels with sheets of paper in their hands, turned to the crowd. His legs felt like they were going to collapse. He closed his eyes as they began to read the names of those people who were to enter Jahannam (Hell). His name was read first. He fell on his knees and yelled that this couldn't be, "How could I go to Jahannam? I served others all my life, I spread the word of Allah (SWT) to others". His eyes had become blurry and he was shaking with sweat. The two angels took him by the arms. As his feet dragged, they went through the crowd and advanced toward the blazing flames of Jahannam. He was yelling and wondered if there was any person who was going to help him. He was yelling of all the good deeds he had done, how he had helped his father, his fasts, prayers, the Noble Qur'an that he read, he was asking if none of them would help him. The Jahannam angels continued to drag him. They had gotten closer to the Hellfire. He looked back and these were his last pleas. Had not Holy Prophet Mohammad (pbuh) said, "How clean would a person be who bathes in a river five times a day, so too does the Salah (Salat, Namaz) performed five times cleanse someone of their sins"? He began yelling, "My prayers? My prayers? My prayers?"
Namaz is called as Meraj-ul-MomineenThe two angels did not stop, and they came to the edge of the abyss of Jahannam. The flames of the fire were burning his face. He looked back one last time, but his eyes were dry of hope and he had nothing left in him. One of the angels pushed him in. He found himself in the air and falling towards the flames. He had just fallen five or six feet when a hand grabbed him by the arm and pulled him back. He lifted his head and saw an old man with a long white beard. He wiped some dust off himself and asked him, "Who are you?" The old man replied, "I am your Salah (Salat, Namaz) prayers".
"Why are you so late? I was almost in the Fire! You rescued me at the last minute before I fell in". The old man smiled and shook his head, "You always performed me at the last minute, and did you forget?" At that instant, he blinked and lifted his head from Sajda (prostrating). He was in a sweat. He listened to the voices coming from outside. He heard the adhan for Salat ul Isha. He got up quickly and went to perform Wudu (Ablution).
Say Your Prayers Before Prayers For You Are Said (Namaz Parha Karo Is Se Pehle Ke Tumhari Namaz Parhi Jaye).
Salah (Salat, Namaz)

Saturday, August 3, 2013

شوال کے 6 روزے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
من صام رمضان ثمّ أتبعه ستًّا من شوّال كان كصيام الدّهر۔[رواه مسلم 1164]
جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے، ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے رکھے۔
 شوال کے چھ روزے، ایک بہت عمدہ چانس ہے، اس موقع پر مسلمان کو بہت سارے فائدے حاصل ہوتے ہیں:
سب سے پہلے تو اسے دنیاوی منافع حاصل ہوتے ہیں اور دوسرے نمبر پر آخرت میں اجر عظیم کا مستحق قرار پاتا ہے۔
۱۔ شوال کے چھ روزوں پر دنیاوی منافع:
دنیاوی فوائد کی جہاں تک بات ہے تو سائنسی تحقیقات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صرف ایک دن کا اسلامی روزہ مکمل دس دن کے جسم میں موجود فضلے اور زہر آلود مواد کو پاک کرتا ہے۔
اس طرح تیس روز پر مشتمل روزوں کا مہینہ تین سو دین کے فضلات اور زہر آلود مواد کو ختم کرتا ہے، یہاں ہم معجزہ نبوی کو دیکھ سکتے ہیں کہ آپ رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ تاکہ پورے سال کے لیے جسم کی صفائی کا عمل مکمل ہوجائے: دیکھیے شوال کے چھ دن صفائی کے اعتبار سےساٹھ دن کے برابر ہوئے، اس طرح رمضان کے تین سو دن اور شوال کے ساٹھ دن جملہ 360 دنوں کی پاکی ہوگئی۔
جس کے بعد جسم جہاں طاقتور رہتا ہے وہیں گناہوں سے بھی پاک وصاف ہوجاتا ہے، اور پورے سال اللہ کے حکم سے صحت وعافیت کے ساتھ رہتا ہے۔
یہاں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت آشکارا ہوتی ہے، جس کا وجود طب اور سائنس جدید سے کئی برس پہلے سے ہے، جس کے سامنے مسلمان قدر وتکریم اور تعظیم کے ساتھ کھڑے ہوجاتا ہے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من صام رمضان ثمّ أتبعه ستًّا من شوال كان كصيام الدّهر۔[رواه مسلم 1164]
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے، ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے رکھے۔‘‘
ملاحظہ:
سائنس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ایک دن کا روزہ انسان کے جسم میں اتنی کثرت سے وہائٹ سیل پیدا کرتا ہے جو دس دن تک انسان کے بچاؤ کے لیے کافی ہوجاتے ہیں،اب دیکھیے قمری سال 355 یا 356 دن کا ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں 36 دن کا روزہ رکھنے کی ضرورت تھی، اسی لیے ضرورت ہے کہ ہر قسم کے بچاؤ  اوردفاع کے لیے شوال کے چھ روزوں کا اہتمام ہو۔
۲۔ شوال کے چھ روزوں کے اُخروی منافع:
آخرت کے اعتبار سے، بندۂ مسلم ایک عبادت کے بعد دوسری عبادت کے لیے تیار ہوجاتا ہے، رمضان کے روزے جو ثواب کے اعتبار سے دس مہینوں کے برابر ہے، کیونکہ ایک نیکی پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، اس لیے پورے سال کے بارہ مہینوں کی نیکیاں حاصل کرنے کے لیے شوال کے چھ روزے کافی ہوجاتے ہیں۔
وہ کیسے:
رمضان کے 30 دن کو 10 سے ضرب دیں تو 300 ہوجاتے ہیں۔
پھر شوال کے 6 دن کو 10 سے ضرب دیں تو 60 ہوجاتے ہیں۔
جملہ : رمضان کے 300 اور شوال کے 60 اس طرح 360 نیکیاں ہوجاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ سال بھر کے روزوں کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے۔۔اللہ اکبر۔
حدیث نبوی میں یہ پیچیدہ اور دقیق حساب کیا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل نہیں ہے۔۔؟؟
اس نبی کریم کی نبوت کی دلیل جو پڑھنا لکھنا اور حساب نہیں جانتے تھے!!!
سچ ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى۔[النّجم: 3-4]
’’اور نہ خواہش نفس سے کچھ بولتے ہیں۔ یہ قرآن تو ایک وحی ہے جو ان کی طرف بھیجا جاتا ہے۔‘‘
ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سارے مسلمانوں کو عبادات واطاعات میں ثابت قدمی عطا فرمائے، وہی ذات اس پر قادر ہے۔

Saturday, July 27, 2013

33 Powerful Verses-( Ayatul Hirz/Manzil ) protection from Nazar, Jinn, black magic and evil in general.

33 Ayat ul Hirz-(Signs of Protection) or also known as Manzil 
Ruqya from Black Magic, Jinn,Witchcraft, Sihr, Sorcery, Evil Eye

And using Names of Ashab Al Kahf-(7 sleepers in the Cave)

Arabic Ayat ul Hirz-(Signs of Protection) / Manzil  PDF
Arabic and english Ayat ul Hirz-(Signs of Protection) / Manzil  PDFSheikh Mishary Alafasy reciting Ayat ul Hirz-Signs of Protection/Manzil
Signs of Protection

The Prophet, peace and blessings be upon him and his family, remarked that whoever recites once a day the thirty-three verses known as Ayatul-Hirz (Signs of Protection) will be safe from all miseries, beasts and thieves and that, furthermore, these verses contain the cure of all diseases. The efficacy of these verses has been described by many. It is evident that it is very useful to recite them, and it is said that they can also guard against the dangers of war.


Ayatul-Hirz or Manzil is a collection of Ayat and short Surahs from the Quran that are to be recited as a means of protection and antidote - Ruqya from Black Magic, Jinn,Witchcraft, Sihr, Sorcery, Evil Eye and the like as well as other harmful thing.

These are known as "The Thirty-Three Verses" which are the following verses of the Quran:

Surah Al-Fatihah (chapter 1): verses 1 to 7
Surah Al-Bakarah (chapter 2): verses 1 to 5, 163, 255 to 257, and 284 to 286
Surah Al-Imran (chapter 3): verses 18, 26 and 27
Surah Al-A'araf (chapter 7): verses 54 to 56
Surah Al-Israa (chapter 17): verses 110 and 111
Surah Al-Muminoon (chapter 23): verses 115 to 118
Surah Al-Saaffaat (chapter 37): verses 1 to 11
Surah Al-Rehman (chapter 55): verses 33 to 40
Surah Al-Hashr (chapter 59): verses 21 to 24
Surah Al-Jinn (chapter 72): verses 1 to 4
Surah Al-Kaafiroon (chapter 109): verses 1 to 6
Surah Al-Ikhlas (chapter 112): verses 1 to 4
Surah Al-Falaq (chapter 113): verses 1 to 5
Surah Al-Naas (chapter 114): verses 1 to 6


Arabic Ayat ul Hirz-(Signs of Protection) / Manzil  PDF

Arabic and english Ayat ul Hirz-(Signs of Protection) / Manzil  PDF



The entire manzil is prescribed to be read one or three times in one sitting. This may be performed once or twice a day, in the latter case once in the morning and once in the evening.

Hadhrat Ubay bin Ka'b (rd) reports that he was once with Rasulullaah (sallallahu alayhi wasallam) when a Bedouin came and said, "O Nabi of Allaah (sw)! I have a brother who is suffering." "What is it that ails him?" Rasulullaah (sw) asked. When the man explained that his brother was affected by the Jinn, Rasulullaah (sw) told him to bring his brother to him. (When the man came) Rasulullaah (sw) seated the man in front of him and recited the following to secure protection for him (against the Jinn):  Above 33 verses;

(After Rasulullaah(sw) recited these before him) The man then stood up as if he had never had any ailment whatsoever.(Ahmad, Haakim and Tirmidhi,as quoted in Kanzul Ummaal (Vol.1 Pg.212).)

According to various traditions, different parts of the Qur'an are described to have a positive effect on an individual in terms of negating and preventing the effects of witchcraft, or for general well being and becoming a better practicing Muslim. Eminent Muslim scholar of the India-Pakistan sub-continent Maulana Mohammad Zakariya collected these verses in book form, which were already in use in his family as an antidote to witchcraft. This collection is popularly referred to as Manzil.


Sheikh Mishary Alafasy reciting Ayat ul Hirz-Signs of Protection/Manzil 
 Are There Any Prayers For Driving Away Jinn?  
Imam al-Nawawi in al-Adhkar mentioned that Ibn al-Sunni narrated that a man came to the Prophet, upon him blessings and peace and said that his brother suffered from a kind of jinn possession. The Prophet told him to bring him to him then recited upon him the following:
- Sura al-Fatiha
- The first four verses of al-Baqara
- two verses from the middle (163-64)
- Ayat al-Kursi
- the last three verses of al-Baqara
- The first verse of Al `Imran
- Verse 18 of Al `Imran
- Verse 54 of al-A`raf
- Verse 116 of al-Mu'minun
- Verse 3 of al-Jinn
- The first 10 verses of al-Saaffaat
- The last 3 verses of al-Hashr
- The last three Suras of the Qur'an.

From Imam Rabbani Mujaddid Alf Sani Shaykh Ahmad Faruqi Sirhindi:

Imam-i-Rabbani 'rahmat-ullahi alaih' and his disciples set out for a long journey. On their way they stopped at a hotel to spend the night. He told his disciples that a catastrophe was going to befall the inn during the night and advised them to recite the following prayer: "Bismillah-il-lazi la-yadhurru ma'asmihi shay'un fi-l-ard-i wala fi-s-sama' wa huwa-s- sami'ul- 'alim."

That night a great fire broke out, burning everything including the lodgers' belongings. Yet those who had said the prayer suffered no harm. This prayer is written in the books Umdat-ul-Islam and Barakat. On the other hand, it is stated in the book Targhib-us-salat that it is a hadith ash-Sharif.

For protection against anxiety, disasters, mischief and diseases, you should remember the Imam's advice and say this prayer daily, three times in the morning and three times in the evening. It should be recited also when ayat-i-hirz [ayats for protection] are recited.

Again from From Imam Rabbani Mujaddid Alf Sani Shaykh Ahmad Faruqi Sirhindi;
From this  Maktubat  95 - 3rd Vol. , 41st Letter;
....
He who says and believes that a sorcerer does whatever he likes by sorcery and that sorcery is certainly effective becomes a disbeliever. We must say that sorcery can take effect if Allahu ta'ala has predestined it. If a spell-bound person recites after the morning and late afternoon prayers for seven days and hangs and carries on his neck the ayats and the prayers on the hundred and eighty-seventh page of the second volume of Mawahib-i ladunniyya, and also the Ayat-i-hirz, which is written at the end of the Arabic book Tashil- ul-manafi', he will recover health.

We must say the Ayat-al-kursi, the Ikhlas and the Mu'awwizatayn and breathe onto some water. Then the spell-bound person must have three gulps from it and perform a ghusl with the remainder. He will recover health. The book Ibni Abidin in the section dealing with divorce because of illness, the book Zarqani on its pages number 7-104, and in the translation of Mawahib-i ladunniyya say as follows:

"Pulverize seven green leaves of the tree named sidr between two stones. Mix it with water. Recite the Ayat-al-kursi, Ikhlas and the suras Qul-a'udhu, then breathe onto that water. Drink three mouthfuls of it. Then, make a ghusl (have a bath) with that water," Sidr is the name of a wild cherry called lotus. In the letter number 96 of the book Makatib-i-Sharifa, it is said, "In order to attain what you need, perform two rakats of salat, and give its thawab as a gift to the souls of those scholars in the line called Silsila-i aliyya, and then pray to Allahu ta'ala to give what you need for the sake of them."

Mawlana Muhammad 'Uthman Sahib says at the end of the hundred and third page of his book Fawaid-i 'Osmaniyya, "For getting rid of the disasters caused by witchery and sorcery, say the Salawat-i-Sharifa three times, the Fatiha seven times, the Ayat-al-kursi seven times, the Kafirun seven times, the Ikhlas-i Sharif seven times, the Falaq seven times and the Nas seven times and breathe them on you and on the sick person. Then, saying them once more, breathe them on the room and bed of the spell-bound person, on all the house including the garden.

Inshallahu ta'ala, he will be saved from the spell. [You must not get any payment for this.] This is good for all other illnesses, too. In order that a barakat will come upon the field, give the 'ushr (zakat) of the crops, then write the names of the Ashab-i kahf on four different pieces of paper and wrap them up separately and bury them separately at four different untrodden corners of the field. After the namaz of morning and night, if you mention the names of the Silsila-i aliyya, say the Fatiha-i Sharifa and breathe it to their souls, any prayer which you do through them will be accepted; this has been experienced very often."

And it is written on its hundred and forty-eighth page and in Ruh- ul-bayan, "It will also protect and give barakat to carry a piece of paper containing the names of the Ashab-i kahf or to keep it in the home." Domitianus, or Docianus, one of the Roman Emperors, was a wicked, unjust idolater. He declared himself to be a god and was killed in 95. While he was in Ephesus (Tarsus), seven young men who would not renounce 'Isa's 'alaihissalam' religion took refuge in a cave 15 km north-west of the town.

They slept in it continuously for three hundred years. During the time of the Emperor Theodus, they woke and talked with Arius's disciples. They slept again. Theodus defeated idolatry, spread Nasraniyyat and went to the cave and talked with the Ashab-i kahf and attained their benedictions. He built a place for praying in front of the cave and passed away in 395. Mamun, Kharun Rashid's son and the seventh Abbasid caliph, rests in his grave in Tarsus. The names of the Ashab-i kahf were Yamliha, Maksalina, Mislina, Marnush, Dabarnush, Shazanush, Kafashtatayyush and their dog Qitmir.


Names of the seven Sleepers of the Cave "and their dog was the eighth."(18:22) for protection from being chased, war, fire, drowning,... as related by Ibn `Abbas(r):
قال ابن عباس رضى الله عنهما خواص أهل الكهف تنفع فى تسعة أشياء /للطلب والهرب ولطفى الحريق تكتب على خرقة وترمى فى وسط النار تنطفىء بازن الله تعالى ولبكاء الطفل وللحمى المثلثة وللصداع تشد على العضد الأيمن ولأم الصبيان وللركوب فى البر والبحر ولنماء العقل ولحفظ المال ولنجاة الاثمين من حاشية الجمل على الجلالين
عبد القهار الدردير أحمد عبد المنعم عاشور
سوهاج-ساقلته
"Inna asma`a Aŝĥabil Kahf tanfa` fee tis`a ashyaa: at-talabi wal-harb wa litufaul-hareeq..." "Surely the Names of the People of the Cave benefit in nine things: being chased down, war and they will put out fire..."


Question from Eshaykh:
18:18 ..whilst they were asleep, ….and wouldst certainly have been filled with terror of them.
From Bangali translation of “Kanzul Imam & Khajaynul Islam” by Imam Ahmad Raza Khan Berelvi(ra) and Hazrat Allama Naym Muradabadi (alihir rahima), I found in the note of Ayat # 18 that : Allah taila protected them (ashab-e-kahf) by such fear that nobody can reach them.Hazrat Muabiya (radi allahu anhu) at the time of war against Roman was passing through the “Kahf” (cave).Than he(ra) like to go “ashab-e-kahf”.Hazrat Ibn Abbas (ra) prevent him (ra) not to do that and recite this verse (18).After that a team enter there by the order of Hazrat Muabiya(ra).Than Allah taila flew a such kind of wind that burn everybody.


Assalamualikum,

Is it possible to enter this cave now,pls advise. I saw a video they showing the cave in Jordon and people can visit and showing the bones .


Answer:
wa `alaykum salam

ولما غزا ابن عباس رضي الله تعالى عنه مع معاوية بحر الروم فانتهوا إلى الكهف عزم معاوية أن يدخل عليهم فينظر إليهم ، فقال ابن عباس رضي الله تعالى عنهما : ليس هذا لك فقد منعه الله تعالى من هو خير منك ، فقال : { لَوِ أطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ } الآية فأرسل إليهم جماعة فلما دخلوا الكهف أرسل الله تعالى ريحاً فأخرجتهم

And [it was related] from Mu`awiya that he sent a battle expedition towards Byzantium, and they passed by the Cave in which are the Companions of the Cave [and said,] “what if we uncovered them and looked at them?” And ibn `Abbas said to him, “It is not for you to do that. Truly Allah prevented that to one who was better than you,” [meaning to the Prophet of Allah (s) in the verse] {if thou hadst come up on to them, thou wouldst have certainly turned back from them in flight,} (Surat al-Kahf, 18:18)

Then Mu`awiya said, “I will not stop until I know about them .” and he sent people to see them,and told them “go and enter the cave.” and they went and entered the cave and Allah sent a wind which burned them (ahraqathum).” [related in the Tafsir Ruh al-Bayan by Shaykh Isma`il al-Haqqi, who mentioned an alternate reading as akhrajathum, “forced them out” in lieu of ahraqathum “it burned them.”


Shaykh Hisham mentioned that meaning in his Tafsir of Surat al-Kahf:


And that’s why Mu`awiya (ra), when he asked to see them, Ibn `Abbas (ra) said “No.” Because Allah will send ru`ba, will send fear in your heart, as he said in Holy Qur’an, and then you will be completely burned out.


 ============================================
Back to Imam Rabbani Mujaddid Alf Sani Shaykh Ahmad Faruqi Sirhindi;
From this  Maktubat  95 - 3rd Vol. , 41st Letter;

Evil eye is true. That is, illness caused by evil eye is true. When some people look at something and like it, the rays coming out from their eyes are harmful and cause damage to everything whether it is living or lifeless. This has many examples. Perhaps some day science will be able to find out these rays and their effects. 

When a person sees something he likes, he should say "Masha- Allah" before expressing his admiration so that his looks should not give harm. Saying "Masha-Allah" will avert the evil eye. It is written in Fatawa-i hindiyya that to cure a child who has been harmed by evil eye or who has been frightened, it is permissible to burn straws and fumigate him by turning them around him or to pour melted wax (or lead) into cold water over his head.

In Mawahib and Madarij, Abdullah bin Wahab Quraishi, a Maliki savant who died in 197 (813), says, "According to Imam-i Malik, it is makruh to do ruqya with iron, with salt, by knotting two pieces of thread or with the seal of Sulaiman."

Ruqya means to say prayers and breathe on something or to carry on oneself. Doing ruqya with ayats and with the prayers coming down from Rasulullah is called tawiz. Tawiz is permissible and gives use to the person who believes and trusts.

As written in Halabi and in Durr ul- mukhtar, at the end of the chapter about taharat (cleanliness) [p. 119], after wrapping up the amulet containing tawiz with such waterproof things as tarpaulin and nylon, it is permissible for a junub to bear it or to go to the rest room with it on. It is called afsun (incantation) to say a ruqya the meaning of which is not known or which causes disbelief.

Carrying this or other things called nazarlik (anything worn in order to avert the evil eye) on oneself is called tamima. Those ruqyas made in order to cause affection and love are called tiwala. A hadith, which exists on the two hundred and thirty-second and the two hundred and seventy-fifth pages of the fifth volume of Radd ul-muhtar and which is also written in the books Mawahib and Madarij, states, "Tamima and tiwala are shirk."

At the same place Ibni Abidin informs that it is permissible to put bones or animal skulls in a field to avert the evil eye. A person who looks at the field will first see these things and then the field. Hence, it is understood that carrying such things as blue beads and others with this intention is not tamima; so it is permissible. It is written in the Persian book Madarij-un- nubuwwa and on the hundred and seventy-ninth page of the second volume of Mawahib-i ladunniyya that for curing a person harmed by evil eye it is certainly helpful to recite the Ayat-al-kursi, the Fatiha, the Mu'awwaza-tayn and the end of noon Sura.

It is also useful to recite the prayers written in these two books and on page 200 of the book Tas'hil- ul-manafi'. The most valuable and the most useful prayer is the sura of Fatiha. It is written on the last page of Tafsir-i Mazhari, "A hadith written in Ibni Maja and communicated by Hadrat Ali states, 'The best medicine is the Qur'an.'

If it is recited and breathed on the ill person, he will feel better." If his death time has not come yet, he will recover health. If it is his death time, it will become easy for him to surrender his soul.

For ridding sorrow, anxiety and annoyance, Rasulullah used to say the prayer, "La ilaha illAllahul-'azim-ul- halim la ilaha illAllahu Rabb-ul-'Arsh-il-'azim la ilaha illAllahu Rabb-us-samawati wa Rabb-ul-Ardi Rabb-ul- 'Arsh-il-karim."

It has been communicated by Anas bin Malik that it is good for neuralgia and for all other sicknesses to say the prayer, "Bismillahirrahmanir- rahim wa la-hawla wa la-quwwata illa billahil 'aliyyil 'azim." The prayer of a person who commits haram and whose heart is unaware will not be accepted.


The reciting (these prayers) by a person who does not have the belief of the Ahl as-sunnat will not be useful. Allahu ta'ala creates everything through a means. One who wants to attain something should cling to its means. Praying, giving alms, and taking medicine are things created by Allahu ta'ala as means to give health to His born slaves or to restore them to health. An ayat al- karima or a prayer is written in a pot. Or it is written on a piece of paper, which is then put into the pot. Then it is filled with some water.

When the writing is washed off and mixed with the water in the pot, one drinks some of it every day. Another way is to make an amulet of the paper and carry it on you. Another way is to read it and blow it on your both palms. Then you rub your palms gently on your body. Prayers or medicine will not lengthen one's lifetime. Nor will it save someone whose time of death has come.

Since such things as lifetime and time of death are unknown to us, we should pray and use medicine. A person whose time of death has not come yet will regain his health and strength. One should expect the healing not from the medicine, but from Allahu ta'ala. Muhammad Mathum 'rahmatullahi alaih' states in Maktubat, "It has been stated (by savants) that to attain your wish you should take permission and read the ayat-i- karima or the prayer (prescribed)."

The person who gives the permission will have deputed you (by giving permission). A well-known savant's or Wali's having written that you "should read" in his book shows (that he has given) permission. If you imagine (yourself) the owner of the permission as you read (the ayat al-karima or the prayer), it will be as useful and as effective as if it were read by that exalted person. It is a grave sin to read the (ayat from) Qur'an al-karim or the prayer in return for money, that is, to charge for it beforehand. It is forbidden to ask for a wage and the money taken will be haram, nor will the person concerned benefit from what has been read.

Payment not demanded beforehand but offered afterwards is a gift. And a gift, in its turn, is permissible and can therefore be taken. It is stated on the thirty-seventh [37] page of Fatawa-i-fiqhiyya, "It is permissible to write one or two ayats of Qur'an al-karim in a letter sent to disbelievers. No more than that should be written. And the (permission for) one or two ayats is intended for admonishing them and (will serve) as documentation (for your having admonished them). Even if a disbeliever believes in the use of an amulet, it is not permissible to give him an amulet containing an ayat al-karima or blessed names. It is haram.

It is not permissible even if the letters are written separately. No matter whether an amulet is written by a Muslim or by a disbeliever, using it requires knowing that it does not contain any writing meaning disbelief or haram." It is stated in Mawahib-i- ladunniyya, "Ruqya is permissible when it meets three conditions. It must contain an ayat al-karima or names of Allahu ta'ala

It must be written in the Arabic language or in an intelligible language. It must be believed that ruqya is like medicine, that it will be effective if Allahu ta'ala wills, and that Allahu ta'ala gives the effect.

The following incantation, taught by our Master, the Prophet, should be uttered on a person harmed by evil eye: 'A'udhu bi-kalimatillah-it- tammati min sherri kulli shaytanin wa hammatin wa min sherri kulli 'aynin lammatin.'

If this incantation is uttered and breathed on oneself and on one's household daily, three times in the morning and three times in the afternoon, it will protect them against evil eye, against the harms of shaytans and beasts." When it is uttered on one person (other than yourself), you say u'eedhuka instead of a'udhu.

When it is uttered on two people, u'eedhu-kuma is said, and when the people are more than two you say u'eedhu kum (instead of the first word - a'udhu - in the incantation)]. In short, we must do our best to carry out whatever the Mukhbir-i sadiq (he who has always told the truth, the Prophet) communicated and whatever the savants of Ahl as-sunnat wrote in books of the Shariat. We must know that doing the opposite is a vehement poison and will cause endless death. That is, it will cause eternal and various torments......