” خوب جان لو یہ دنیا کی زندگی
اس کے سو ا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہر ی ٹیپ ٹاپ اور تمہارا
آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں
ایک دوسرے سے بڑھ جانے
کی کوشش کرنا ہے۔۔۔۔۔
چند الفاظ میں اللہ تعالی نے
دنیا کی پوری حقیقت ہی نگاہ والوں کی نگاہ میں رکھ دی ۔ یہ دنیا کیا ہے؟
کھیل۔ بس ایک دل لگی۔قلب و ذہن کےلئے تماشا اور جسم و اعضاءکےلئے ایک
کھیل۔جبکہ کھیل کی کبھی کوئی حقیقت ہوتی ہے اور نہ تماشے کی ۔ اس کی کچھ
حقیقت ہے تو یہی کہ ذہن کومصروف کرے، دل کو لبھائے اور وقت کو برباد کرے
۔جو ا س کی حقیقت سے بے خبر رہا وہ اس تماشے میں اپنی عمر کھو بیٹھا۔ ہوش
آیا تو تب نہ وقت باقی رہا اور نہ تماشا!
پھر فرمایا کہ محض’ ٹیپ ٹاپ‘ ہے
اور بس’ زیب و آرائش‘! جو دلوں کو لبھاتی ہے اور نظروں کو خیرہ کرتی ہے۔
نگاہوں سے ستائش چاہتی ہے اور دلوں سے شوق و رغبت کی طلبگار رہتی ہے۔ یہی
دل اگر اس آرائش کی حقیقت سے آگاہ ہوجائیں اور یہی آنکھیں اس چکا چوند سے
پرے اس کی اصلیت دیکھ لیں اور اس کے انجام سے واقف ہوجائیں تب یہ دنیا ان
کے لئے بے وقعت ہوجائے اور وہ اس پر آخرت کو ترجیح دینے لگیں ۔تب یہ ہمیشہ
کے گھرپر جو خوشیوں سے ہمیشہ آباد رہے گا غموں کے ایک ایسے گھر کو کبھی
ترجیح نہ دیں جو نہ معلوم کے پل کا گھر ہے۔
مسند احمد میں روایت ہے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :
” دنیا سے میرا بھلا کیا ناطہ!
میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤں
میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے ۔ وہ کوئی پل آرام کر ے گا تو
پھر اٹھ کر چل دے گا“!
ترمذی میں سہل بن عبداللہ کی
روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :
”یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر
کے پر برابر بھی وزن رکھتی تو کافرکوا س دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی
نصیب نہ ہونے دیتا“
صحیح مسلم میں مستورد بن شداد
کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
” دنیا آخرت کے مقابلے میں بس
اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی
نے سمندر میں کیا کمی کی “ تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا ۔
ترمذی میں ان کی ایک روایت یو
ں
آئی ہے ،کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہم رکاب تھا کہ آپ نے ایک مردہ بکری کے پاس
ہمیں روک لیا۔ فرمایا: ”کیا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ یہ اپنے مالکوں کی نظر میں
کتنی بے کار اور بے وقعت ہوئی کہ وہ اسے یوں پھینک گئے! “ صحابہ نے عرض کی
:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ بے قیمت تھی تو گھر والوں نے یوں پھینک دی ۔تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے
فرمایا :”تو پھر سنو دنیا اللہ کی نظر میں اس سے بھی زیادہ بے وقعت ہے جتنی
اس گھر والوں کےلئے یہ مردہ بکری“
ترمذی ہی میں ابو ہریرہ کی یہ
حدیث بھی آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ” یہ دنیا ملعون ہے۔ دنیا میں جو
کچھ ہے وہ ملعون ہے سوائے اللہ کی یاد کے اور جو اس سے تعلق رکھے اور سوائے
اس کے جو کچھ سیکھے یا سکھائے“
امام احمد کہتے ہیں ہیثم ابن
خارجہ نے ہم سے بیان کیا کہ اسماعیل بن عیاش نے عبداللہ بن دینار النہرانی
کا یہ قول بیان کیا کہ عیسی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: ” میں
تمہیں حق بات بتاتا ہوں ۔دیکھو دنیا کی مٹھاس آخرت کی کڑواہٹ ہے۔ اور دنیا
کی کڑواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے ۔ اللہ کے سچے بندے آسائش پسند نہیں ہوتے ۔ میں
تمھیں حق بات بتاتا ہوں تم میں بدترین عمل اس شخص کا ہے جو عالم ہو کر پھر
دنیا سے محبت رکھے اور اس کو آخرت پر ترجیح دے “
امام احمد نے کہا ییحی بن اسحاق
نے ہم سے بیان کیا، کہا: ” سعید بن عبدالعزیز نے مکحول سے یہ قول نقل کیا
کہ عیسی علیہ السلام نے فرمایا:
” اے حواریو ! تم میں بھلا کون
ہے جو سمندر کی اٹھتی موج پر اپنا گھر تعمیر کر لے“ سب نے عرض کی: ” اے رو
ح اللہ ! بھلا یہ کون کر سکتا ہے !؟“ تب فرمایا:
” تو پھر اس دنیا سے خبردار رہو
اس کو جائے قرار بنانے سے بچے رہو“
امام احمد بن حنبل نے کتاب
الزہد میں عیسی بن مریم علیہ السلام کا قول نقل کیا !
” میں تم سے حق بات کہتا ہوں۔
جو دائمی بہشت کا وارث بننا چاہتا ہے اس کے لیے تو یہ بھی بہت ہے کہ اسے
کھانے کو روٹی مل جائے اورپینے کو میٹھا پانی اور سونے کے لیے ایسی گلیاں
بھی بری نہیں جہاں بے شک کتے رات گزارتے ہوں“
مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا
فرمان ہے:
” اللہ تعالی نے تو اس دنیا کی
مثال بس ابن آدم کے کھانے کی صورت میں ہی بیان کردی خواہ وہ اس کھانے
کوکتنا ہی مزیدار اور چٹ پٹا بنالے بس کھانے کی دیر ہے پھر دیکھے وہ کیا سے
کیا بن جاتا ہے!“
پھر تیسری بات اللہ تعالی نے اس
دنیا کی یہ بتائی کہ یہ ’تفاخر‘ اور’ تکاثر‘ کا سامان ہے یہ ایک دوسرے کو
مات کرنے کےلئے ایک ذرہ ہے ایک دوسرے پر جیت پانے کے لیے اور ایک دوسرے
سے آگے بڑھ جانے کےلئے دنیا کی دوڑ لگانی پڑتی ہے۔۔۔“
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار قبرستان سے
گزرتے ہوئے فرمایا:
” دنیا سچ والوں کےلئے سچائی
ثابت کرنے کی جگہ ہے ۔جو اس کی حقیقت سمجھ گیا اس کےلئے یہ عافیت کا گھر
ہے۔ جو اس سے بچ بچ کر چلنے والے ہیں ان کے لیے یہ کامیابی کا زینہ ہے ۔یہ
دنیا وہ مبارک جگہ ہے جہاں انبیاءسجدے کرکرکے رخصت ہوتے رہے۔ یہاں پے درپے
اللہ کی وحی اتری ۔ فرشتے یہاں کی خیریت کی صبح و شام دعائیں کریں ۔اللہ کے
ولیوں اور دوستوں کے لیے یہی میدان عمل ہے۔ یہیں وہ اس کی رحمت کے مستحق بن
بن کر جاتے ہیں اور یہیں سے وہ اپنی عافیت کا بندوبست کرتے ہیں ۔کوئی اسے
برا کیوں کہے جب اس نے اپنا آپ خود بتا دیا۔ اپنے خاتمے کی خبر یہ خود دیتی
ہے۔ اپنے باشندوں کو موت اور فنا کے پیغام روز سناتی ہے۔ کچھ لوگوں کو اسے
دشنام دینے کی تب سوجھی جب پشیمانی کے سوا کسی چیز کا وقت باقی نہ رہا۔ مگر
خوش قسمتوں نے اسے خوب داددی کیونکہ اس دنیا نے انہیں جب سمجھایا تو وہ
سمجھ گئے۔ انہیں خبردار کیا تو وہ چوکنا ہوگئے“
” سوا ے دنیا کے فریب میں پڑ ے
رہنے والو جو آخر میں اسے دشنام دیں گے ! دنیا دشنام کے لائق کب ہوئی؟ دنیا
نے تم کو فریب کب دے دیا ۔ کیا یہ فریب تم نے اپنے با پ دادا کی ویران
قبریں دیکھ کر اس سے کھالیا؟ یا اپنی ماؤں کی ہائے دہائی سے تمہیں اس دنیا
کے بار ے میں غلط فہمی ہوئی؟ تم اپنے ان ہاتھوں سے کتنے بیماروں کا علاج
کرواتے رہے؟ کتنوں کی تیمارداری کی؟ کتنوں کےلئے صحت یابی کی دعائیں کرتے
رہے؟ کتنوں کی خاطر طبیب ڈھونڈے؟ مگر تمھاری کوئی تدبیر کام نہ آئی۔ تمہاری
دوڑ دھوپ بے کار گئی۔ اس کا بستر مرگ تم نے دنیا کے آئینے میں دیکھ لیا کہ
وہ تمہارا بھی بستر ہے۔ اس کی لاش ہویا تمہاری اس چارپائی کی بلا سے ایک
ہے“
تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ قبروں کی جانب
متوجہ ہوئے اور کہا:”اے ملک عدم کے لوگو ! اے مٹی کے باسیو ! تمہارے گھر
تھے سو ان میں اب اور بستے ہیں ۔ تمہارے مال جائیداد تھے سو اب وہ اوروں
میں تقسیم ہوئے۔ تمہاری بیویاں تھیں سو اوروں سے بیاہی گئیں ہمارے ہاں کی
توبس یہی خبر ہے تم سناؤ تمہارے ہاں کی کیا خبر ہے “تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہماری
جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ” سنو آج اگر ان کو اجازت ملے تو تمہیں یہ
ضرور بتائیں کہ یہاں سے ساتھ لے جانے کےلئے سب سے قیمتی سامان تقو ی ہے“
سو یہ دنیا درحقیقت لعنت ملامت
کرنے کی چیز نہیں ۔ لعنت ملامت دراصل انسان کے اس فعل کی ہوسکتی ہے جو وہ
اس دنیا میں بے مقصد کرتا ہے۔ یہ دنیا تو درحقیقت ایک گزر گاہ ہے یہ ایک پل
کا کام دیتی ہے جس کے اس پار جنت ہے یا جہنم۔ مگر چونکہ یہاں انسانوں کی
اکثریت خواہشات و شہوات سے مغلوب ہوتی ہے ۔ اللہ سے روگردانی اور آخرت سے
غافل رہتی ہے، اس لیے لفظ ”دنیا“ سے مراد یہی خواہش پرستی اور شہوت پسندی
لیا جانے لگا۔ یوں آخرت سے غفلت کانام ”دنیا“ پڑ گیا۔ قرآن یا حدیث میں
جہاں کہیں ”دنیا“ کی مذمت ہوئی ہے تو دراصل وہ دنیا کی اسی روش اور اسی
معنی کی ہوئی ہے۔ ورنہ یہ دنیا تو ہمیشگی پانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہ
آخرت کی کھیتی ہے یہ جنت کی راہ کی ایک منزل ہے اور بہشت کےلئے زادراہ۔
پاکیز ہ نفوس یہیں پر ایمان کی نعمت سے بہرور ہوتے ہیں۔ یہیں پر وہ اللہ کی
ہستی کی پہچان کرکے اگلے جہاں رخصت ہوتے ہیں ۔ یہیں وہ اللہ کا ذکر کرتے
ہیں اور یہیں اس کا نام بلند کرتے ہیں۔ جنت کے ٹھاٹھ باٹ ، وہاں کی بہتی
نہریں ، روا ں چشمے اور سرسبز باغات یہیں کی کھیتی کے مرہون منت تو ہیں!
دنیا کی قدر بھی کسی کو ایمان نصیب ہو تو معلوم ہوتی ہے!!
اردو استفادہ از عدت الصابرین
مصنفہ امام ابن القیم