عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال :قال رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :ایہا
الناس لیس من شیئ یقربکم الی الجنۃ ویباعدکم من النار الاقدامرتکم بہ ولیس
شیئ یقربکم من النار ویباعدکم من الجنۃ الا قد نہیتکم عنہ وان الروح الامین
قد نفث فی روعی ان نفسا لن تموت حتی تستکمل رزقہا الا فاتقوا اللہ
واجملوافی الطلب ولا یحملنکم استبطاء الرزق ان تطلبوہ بمعاصی اللہ فانہ
لایدرک ماعند اللہ الابطاعتہ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا : اے لوگو: کوئی ایسی چیز نہیں ہے جوتم کوجنت
سے قریب کرے اور جہنم سے دور کرے مگر اسکا حکم میں تم لوگوں کو دے چکا ہوں
اور اسی طرح کوئی ایسی چیز نہیں ہے جوتمھیں جہنم سےقریب کرے اور جنت سے دور
کرے الایہ کہ اس سے میں نے تم لوگوں کو روک دیا ہے ، اور روح الامین {حضرت
جبرئیل}نے ابھی میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی متنفس اس وقت تک نہیں
مرے گا جب تک کہ اپنا رزق پورانہ کرلے ، لہذا اے لوگو ؟ اللہ تعالی سے ڈرو
اور روزی طلب کرنے کا اچھا طریقہ اختیار کرو ، روزی میں کچھ تاخیر ہوجانا
تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ اسے اللہ کی نافرمانی اور غیر مشروع طریقے سے
حاصل کرو ، کیونکہ جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے طاعت گزاری کے ذریعہ ہی اسے
حاصل کیا جاسکتا ہے۔
{ مستدرک الحاکم 2ص4 ۔ شرح السنۃ14ص303 }
تشریح : اللہ تبارک وتعالی نے اس دنیا میں رسولوں کی بعثت کا سلسلہ اسی لئے
رکھا ہے تا کہ رسول لوگوں کو انکے معاش ومعاد کے بارے میں صحیح راہ سے
روسناش کرائیں ، جائز وناجائز ،حلال وحرام اور مفید وغیر مفید امور سے
متعلق انکی رہنمائی کریں ، زیر بحث حدیث کے ابتدائی حصے میں اسی بات کی
وضاحت ہے کہ کوئی نیکی اور ثواب کی بات ایسی باقی نہیں رہی ہے جسکی تعلیم
میں نے تم کو نہ دے دی ہو اور کوئی بدی اور گناہ کی بات ایسی نہیں رہی جسکی
میں نے تم کو ممانعت نہ کردی ہو، اس طرح اوامر ونواہی کی پوری تعلیم میں
تم کو دے چکا ہوں اور اللہ تعالی کے تمام مثبت ومنفی احکام جو مجھے ملے تھے
وہ تم کو پہنچا چکا ہوں ۔حدیث کا یہ ابتدائی حصہ صرف تمہید ہے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ پر در اصل وہی خاص بات اپنے مخاطبین کو بتلانا
اور پہنچانا چاہتے تھے جو جبرئیل امین نے اس وقت آپکے دل میں ڈالی تھی
لیکن مخاطبین کے ذہن کو پوری طرح متوجہ کرنے کیلئے آپنے پہلے ارشاد فرمایا
کہ لوگو حلال وحرام اور گناہ وثواب کی پوری تعلیم میں تم کو دے چکا ہوں ،
اب ایک اہم تکمیلی بات جو ابھی جبرائیل امین نے مجھے پہنچائی ہے میں تم کو
بتانا چا ہتا ہوں ۔
اس تمہید کے ذریعہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مخاطبین کے ذہنوں کو
بیدار اور متوجہ کیا اور اسکے بعد وہ خاص بات ارشاد فرمائی جس کا حاصل یہ
ہی ہے کہ ہر شخص کا رزق مکتوب اور مقدر ہو چکا ہے ،وہ مرنے سے پہلے پہلے اس
کو مل کر رہے گا ، اور جب معاملہ یہ ہے تو آدمی کو چاہئے کہ اگر روزی میں
کچھ تنگی اور تاخیر بھی ہو جب بھی وہ اسکے حاصل کرنے کےلئے کوئی ایسا قدم
نہ اٹھائے جو اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف ہو اور جس میں اس کی نافرمانی ہو
تی ہو ، بلکہ اللہ تعالی کی رزاقیت پر یقین رکھتے ہوئے صرف حلال اور مشروع
طریقوں ہی سے اسکے حاصل کرنے کی کوشش کرے ، کیونکہ اللہ تعالی کا فضل و
انعام ، اس کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری ہی کے راستہ سے حاصل کیا جاسکتا
ہے ۔
اس کو ایک جزئ مثال کے انداز میں آسانی سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ فرض
کیجئے اللہ کا کوئی بندہ تنگ دستی میں مبتلاہے اور اسکو اپنا پیٹ بھر نے
کیلئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے ، اس موقعہ پر وہ ایک شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ
سورہا ہے ، شیطان اسکے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس سونے والے شخص کی کوئی
چیز اٹھالے اور ابھی ہاتھ کے ہاتھ بیچ کر روزی حاصل کرلے ، ایسے وقت کیلئے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم ہے کہ یقین رکھو جو روزی تم کو پہنچنے
والی ہے وہ پہنچ کر رہے گی ، پھر کیوں چوری کر کے اپنے اللہ کو ناراض ،
اپنے ضمیر کو ناپاک ، اور اپنی عاقبت کو خراب کرتے ہو ، بجائے چوری کرنے کے
کسی حلال اور جائز ذریعہ سے روزی حاصل کرنے کی کوشش کرو ، حلال کا میدان
ہر گز تنگ نہیں ہے ۔
{معارف الحدیث}
فائدے
اسلام ایک کامل دین ہے ۔
بندوں پر اللہ تعالی کا عظیم احسان کہ انہیں حلال وحرام کی تمییز کرائی ۔
ہر انسان کی روزی مقسوم اور اسکی اجل متعین ہے ۔
’’بہترین کلام اللہ کا کلام ( قرآن کریم ) ہے اور بہترین ھدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ھوا دین ہے ۔،،
Wednesday, January 9, 2013
Saturday, January 5, 2013
نمازِ تہجد کی فضیلت
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے
”وَمِنَ اللَّیلِ فَتَہَجَّدْ بِہ نَافِلَةً لَّکَ، عَسیٰ اَٴنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً“۔
(بنی اسرائیل:۷۹)
ترجمہ:۔”اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد پڑھ لیاکرو جو آپ کے حق میں زائد چیز ہے، کیا عجب کہ آپ کا رب آپ کو ”مقام محمود“ میں جگہ دے“۔
”مقام محمود“ مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے، جس پر قیامت کے دن فائز ہوکر آپ ا اپنی امت کی بخشش کرائیں گے۔
”مقام محمود“ مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے، جس پر قیامت کے دن فائز ہوکر آپ ا اپنی امت کی بخشش کرائیں گے۔
(ابن کثیر واحمد)
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے
:
”إِنَّ
الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰہُمْ
رَبُّہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ، کَانُوْا
قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالأَسْحَارِہُمْ
یَسْتَغْفِرُوْنَ“۔
(الذاریات:۱۰تا۱۸)
ترجمہ:۔”بے
شک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے رب کی عطا کردہ نعمتیں
لے رہے ہوں گے (اس بات پر کہ) بے شک یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) نیکو کار
تھے، رات کو (تہجد پڑھنے کی وجہ سے) بہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں
استغفار کیا کرتے تھے“۔
مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں رات کو جس وقت آنکھ کھل جائے، وضو کرکے دورکعت، چار رکعت، چھ رکعت یا آٹھ رکعت جس قدر طاقت اور فرصت ہو، دل کی رغبت ہو، پڑھ لیا کریں، تہجد کا ثواب مل جائے گا، خصوصاً رمضان المبارک میں زیادہ خیال رکھا کریں، تہجد کے لئے کوئی خاص سورتیں نہیں، جس جگہ سے یاد ہو اور دل چاہے پڑھ لیا کریں۔
تہجد کی فضیلت میں بہت سی احادیث ہیں، یہاں چند احادیث کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے
آپ ا نے ارشاد فرمایا ”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے“۔
(مسلم وابوداؤد)
حضرت عبد اللہ بن سلام جو تورات کے زبردست عالم تھے، مدینہ منورہ میں حضور اقدس ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چہرہٴ انور دیکھ کر یقین ہوگیا کہ آپ ا اللہ کے سچے رسول ہیں، آپ ا جھوٹے نہیں ہوسکتے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا کلام جو آپ ا کی زبان مبارک سے سنا، وہ یہ تھا
”یا ایہا الناس! افشوا السلام واطعموا الطعام وصلوا الارحام وصلوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنة بسلام“۔
(ترمذی)
ترجمہ:۔”
اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داریوں کو جوڑو اور
رات میں تہجد کی نماز پڑھو، جبکہ لوگ سورہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ
داخل ہو جاؤ گے“۔
آپ ا نے ارشاد فرمایا
”جنت میں ایک محل ہے جس کا اندرونی حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہوگا ۔حضرت ابو مالک اشعری نے پوچھا: یہ کس کو ملے گا اے اللہ کے رسول!؟ فرمایا: اس کو جو شیریں کلام ہو اور لوگوں کو کھانا کھلاتا ہو اور نماز تہجد میں کھڑے ہوئے رات گذارتا ہو، جبکہ لوگ سورہے ہوں“۔
(طبرانی)
جناب رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ
” جنت میں ایک درخت ہے، جس کے اوپر سے جوڑا اور نیچے سے سونے کا گھوڑا نکلے گا، اس کی زین اور لگام موتی اور یاقوت کے ہوں گے، وہ نہ تو”لید“ کرے گا، نہ پیشاب ،اس کے کئی پر ہوں گے، حد نظر پر اس کے قدم پڑیں گے، پھر اہل جنت اس پر سوار ہوں گے تو وہ ان کو لے کر اڑے گا، جہاں جانا چاہیں گے۔ یہ شان دیکھ کر ان سے نیچے درجے والے جنتی کہیں گے: اے رب! تیرے بندے اس مرتبہ پر کیونکر پہنچے؟ تو ان سے کہا جائے گا کہ یہ لوگ رات میں نماز (تہجد) پڑھتے تھے اور تم لوگ سوتے رہتے تھے، یہ لوگ روزہ رکھتے تھے اور تم کھاتے پیتے تھے، یہ خرچ کرتے تھے اور تم بخیلی کرتے تھے، یہ جان کی بازی لگاتے تھے اور تم بزدل بنے رہتے تھے“۔
(ابن ابی الدنیا)
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایاکہ
” جس شخص کی رات میں نماز (تہجد) زیادہ ہوگی، اس کا چہرہ دن میں زیادہ حسین ہوگا“۔
(ابن ماجہ)
جناب رسول اللہا نے صحابہٴ کرام سے ارشاد فرمایا کہ
” تمہیں تہجد ضرور پڑھنا چاہئے، اس لئے کہ یہ تمہارے سے پہلے نیک لوگوں کا
طریقہ ہے اور تمہارے رب سے نزدیک ہونے کا ذریعہ ہے، گناہوں کا کفارہ ہے
اور گناہوں سے روکنے والی ہے“۔
(ترمذی)
دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ” بدن سے بیماری کو دور کرنے والی ہے“۔
(طبرانی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ا نے فرمایا
”جو شخص رات کو اٹھے اور اپنی گھر والی کو بیدار کرے اور دونوں نماز
(تہجد) کی دورکعتیں پڑھیں تو ان دونوں کو کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والوں
میں لکھا جائے گا“۔
(نسائی)
ایک اور حدیث میں چند خوش نصیبوں کا ذکر ہے، جن کے تین انعامات ہیں
۱… خدا ان سے محبت کرتا ہے۔
۲…ان کے سامنے ہنستا ہے۔
۲…ان کے سامنے ہنستا ہے۔
۳…ان سے خوش ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کی خوبصورت بیوی ہو، عمدہ نرم بستر ہو اور وہ ان کو چھوڑ کر رات کو نماز تہجد کے لئے اٹھے، اس کے بارے میں خدا خود فرمائے گا کہ اس نے اپنی خواہش چھوڑ دی اور میرا ذکر کیا، حالانکہ اگر یہ چاہتا تو سوجاتا“۔
ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کی خوبصورت بیوی ہو، عمدہ نرم بستر ہو اور وہ ان کو چھوڑ کر رات کو نماز تہجد کے لئے اٹھے، اس کے بارے میں خدا خود فرمائے گا کہ اس نے اپنی خواہش چھوڑ دی اور میرا ذکر کیا، حالانکہ اگر یہ چاہتا تو سوجاتا“۔
(طبرانی)
اسی حدیث کی دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ
” اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا: میرے بندے کو اس کام (تہجد پڑھنے) پر
کس چیز نے آمادہ کیا؟ فرشتے عرض کریں گے: اے رب! آپ کے پاس کی چیز (جنت
ونعمت) کی امید نے اور آپ کے پاس کی چیز (دوزخ وعذاب)کے خوف نے۔ اللہ
تعالیٰ فرمائیں گے: تحقیق میں نے ان کو وہ چیز عطا کردی، جس کی امید کی تھی
اور اس چیز سے محفوظ کردیا، جس سے وہ ڈرتے تھے“۔
(مسنداحمد)
حضرت عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں کہ: تورات میں لکھا ہے کہ
” جن لوگوں کے پہلو خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں، ان کے لئے خدانے ایسی
نعمتیں تیار کررکھی ہیں، جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ،نہ کسی کان نے سنا،
نہ کسی آدمی کے دل پر اس کا خیال گذرا، ان نعمتوں کو مقرب فرشتے اور نبی
مرسل بھی نہیں جانتے“۔
(حاکم)
Subscribe to:
Posts (Atom)