حق تعالیٰ کا ارشاد ہے
”وَمِنَ اللَّیلِ فَتَہَجَّدْ بِہ نَافِلَةً لَّکَ، عَسیٰ اَٴنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً“۔
(بنی اسرائیل:۷۹)
ترجمہ:۔”اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد پڑھ لیاکرو جو آپ کے حق میں زائد چیز ہے، کیا عجب کہ آپ کا رب آپ کو ”مقام محمود“ میں جگہ دے“۔
”مقام محمود“ مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے، جس پر قیامت کے دن فائز ہوکر آپ ا اپنی امت کی بخشش کرائیں گے۔
”مقام محمود“ مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے، جس پر قیامت کے دن فائز ہوکر آپ ا اپنی امت کی بخشش کرائیں گے۔
(ابن کثیر واحمد)
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے
:
”إِنَّ
الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰہُمْ
رَبُّہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ، کَانُوْا
قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالأَسْحَارِہُمْ
یَسْتَغْفِرُوْنَ“۔
(الذاریات:۱۰تا۱۸)
ترجمہ:۔”بے
شک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے رب کی عطا کردہ نعمتیں
لے رہے ہوں گے (اس بات پر کہ) بے شک یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) نیکو کار
تھے، رات کو (تہجد پڑھنے کی وجہ سے) بہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں
استغفار کیا کرتے تھے“۔
مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں رات کو جس وقت آنکھ کھل جائے، وضو کرکے دورکعت، چار رکعت، چھ رکعت یا آٹھ رکعت جس قدر طاقت اور فرصت ہو، دل کی رغبت ہو، پڑھ لیا کریں، تہجد کا ثواب مل جائے گا، خصوصاً رمضان المبارک میں زیادہ خیال رکھا کریں، تہجد کے لئے کوئی خاص سورتیں نہیں، جس جگہ سے یاد ہو اور دل چاہے پڑھ لیا کریں۔
تہجد کی فضیلت میں بہت سی احادیث ہیں، یہاں چند احادیث کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے
آپ ا نے ارشاد فرمایا ”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے“۔
(مسلم وابوداؤد)
حضرت عبد اللہ بن سلام جو تورات کے زبردست عالم تھے، مدینہ منورہ میں حضور اقدس ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چہرہٴ انور دیکھ کر یقین ہوگیا کہ آپ ا اللہ کے سچے رسول ہیں، آپ ا جھوٹے نہیں ہوسکتے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا کلام جو آپ ا کی زبان مبارک سے سنا، وہ یہ تھا
”یا ایہا الناس! افشوا السلام واطعموا الطعام وصلوا الارحام وصلوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنة بسلام“۔
(ترمذی)
ترجمہ:۔”
اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داریوں کو جوڑو اور
رات میں تہجد کی نماز پڑھو، جبکہ لوگ سورہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ
داخل ہو جاؤ گے“۔
آپ ا نے ارشاد فرمایا
”جنت میں ایک محل ہے جس کا اندرونی حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہوگا ۔حضرت ابو مالک اشعری نے پوچھا: یہ کس کو ملے گا اے اللہ کے رسول!؟ فرمایا: اس کو جو شیریں کلام ہو اور لوگوں کو کھانا کھلاتا ہو اور نماز تہجد میں کھڑے ہوئے رات گذارتا ہو، جبکہ لوگ سورہے ہوں“۔
(طبرانی)
جناب رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ
” جنت میں ایک درخت ہے، جس کے اوپر سے جوڑا اور نیچے سے سونے کا گھوڑا نکلے گا، اس کی زین اور لگام موتی اور یاقوت کے ہوں گے، وہ نہ تو”لید“ کرے گا، نہ پیشاب ،اس کے کئی پر ہوں گے، حد نظر پر اس کے قدم پڑیں گے، پھر اہل جنت اس پر سوار ہوں گے تو وہ ان کو لے کر اڑے گا، جہاں جانا چاہیں گے۔ یہ شان دیکھ کر ان سے نیچے درجے والے جنتی کہیں گے: اے رب! تیرے بندے اس مرتبہ پر کیونکر پہنچے؟ تو ان سے کہا جائے گا کہ یہ لوگ رات میں نماز (تہجد) پڑھتے تھے اور تم لوگ سوتے رہتے تھے، یہ لوگ روزہ رکھتے تھے اور تم کھاتے پیتے تھے، یہ خرچ کرتے تھے اور تم بخیلی کرتے تھے، یہ جان کی بازی لگاتے تھے اور تم بزدل بنے رہتے تھے“۔
(ابن ابی الدنیا)
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایاکہ
” جس شخص کی رات میں نماز (تہجد) زیادہ ہوگی، اس کا چہرہ دن میں زیادہ حسین ہوگا“۔
(ابن ماجہ)
جناب رسول اللہا نے صحابہٴ کرام سے ارشاد فرمایا کہ
” تمہیں تہجد ضرور پڑھنا چاہئے، اس لئے کہ یہ تمہارے سے پہلے نیک لوگوں کا
طریقہ ہے اور تمہارے رب سے نزدیک ہونے کا ذریعہ ہے، گناہوں کا کفارہ ہے
اور گناہوں سے روکنے والی ہے“۔
(ترمذی)
دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ” بدن سے بیماری کو دور کرنے والی ہے“۔
(طبرانی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ا نے فرمایا
”جو شخص رات کو اٹھے اور اپنی گھر والی کو بیدار کرے اور دونوں نماز
(تہجد) کی دورکعتیں پڑھیں تو ان دونوں کو کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والوں
میں لکھا جائے گا“۔
(نسائی)
ایک اور حدیث میں چند خوش نصیبوں کا ذکر ہے، جن کے تین انعامات ہیں
۱… خدا ان سے محبت کرتا ہے۔
۲…ان کے سامنے ہنستا ہے۔
۲…ان کے سامنے ہنستا ہے۔
۳…ان سے خوش ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کی خوبصورت بیوی ہو، عمدہ نرم بستر ہو اور وہ ان کو چھوڑ کر رات کو نماز تہجد کے لئے اٹھے، اس کے بارے میں خدا خود فرمائے گا کہ اس نے اپنی خواہش چھوڑ دی اور میرا ذکر کیا، حالانکہ اگر یہ چاہتا تو سوجاتا“۔
ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کی خوبصورت بیوی ہو، عمدہ نرم بستر ہو اور وہ ان کو چھوڑ کر رات کو نماز تہجد کے لئے اٹھے، اس کے بارے میں خدا خود فرمائے گا کہ اس نے اپنی خواہش چھوڑ دی اور میرا ذکر کیا، حالانکہ اگر یہ چاہتا تو سوجاتا“۔
(طبرانی)
اسی حدیث کی دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ
” اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا: میرے بندے کو اس کام (تہجد پڑھنے) پر
کس چیز نے آمادہ کیا؟ فرشتے عرض کریں گے: اے رب! آپ کے پاس کی چیز (جنت
ونعمت) کی امید نے اور آپ کے پاس کی چیز (دوزخ وعذاب)کے خوف نے۔ اللہ
تعالیٰ فرمائیں گے: تحقیق میں نے ان کو وہ چیز عطا کردی، جس کی امید کی تھی
اور اس چیز سے محفوظ کردیا، جس سے وہ ڈرتے تھے“۔
(مسنداحمد)
حضرت عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں کہ: تورات میں لکھا ہے کہ
” جن لوگوں کے پہلو خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں، ان کے لئے خدانے ایسی
نعمتیں تیار کررکھی ہیں، جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ،نہ کسی کان نے سنا،
نہ کسی آدمی کے دل پر اس کا خیال گذرا، ان نعمتوں کو مقرب فرشتے اور نبی
مرسل بھی نہیں جانتے“۔
(حاکم)