Pages

Saturday, March 9, 2013

آپ کے مسائل اور ان کا حل

شراب نوش کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی
 
سوال : کیا نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ شراب نوشی کرنے والے کی چالیس ون تک نماز قبول نہیں ہوتی؟

 جواب: جی ہاں ! بہت ساری صحیح احادیث میں شراب نوشی کی سزا وارد ہے کہ اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی ، اور یہ حدیث عمرو بن عاص ،ابن عباس ،ابن عمر، اور ابن عمرو رضی اللہ تعالی عنھم سے مروی ہے۔ دیکھیں سلسلة الاحادیث الصحیحة حدیث نمبر (709) (2039) (2695) (1854)
ان احادیث میں ابن ماجہ کی درج ذیل حدیث ثابت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم  صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا:
”جو شخص شراب پئے اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔ اگر توبہ کرے تو اللہ تعالی توبہ قبول فرماتا ہے۔ دوبارہ پئے تو پھر چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں پھر اگر توبہ کرے تو اللہ تعالی توبہ قبول فرماتا ہے اور اگر پھر پئے تو اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں اور اگر توبہ کرے تو اللہ تعالی توبہ قبول فرماتا ہے اور اگر چوتھی مرتبہ یہی حرکت کرے تو اللہ تعالی اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں فرماتا اور اگر توبہ کرے تو اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور اگر وہ پھر دوبارہ شراب نوشی کرتا ہے تو پھر اللہ کو حق ہے کہ وہ اسے روز قیامت ردغة الخبال پلائے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم ردغة الخبال کیا ہے ؟ تو رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : دوزخیوں کاخون اور پیپ ۔ ”
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 3377 ) علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2722 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے.
نماز قبول نہ ہونے کا معنی یہ نہیں کہ نماز ہی صحیح نہیں یا پھر وہ نماز ادا ہی نہ کرے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اسے اس نماز کا اجروثواب نہیں ملے گا ۔ اس طرح نماز ادا کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ نماز کی ادائیگی سے بری الذمہ ہوجائے گا ترک کرنے کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن اگروہ نماز بھی ادا نہ کرے تو اسے اس کی بھی سزا ہوگی ۔

اولاد ِآدم  کی آپسی شادی سے متعلق اشکال

سوال : میں الحمد للہ اپنے ایمان میں شک نہیں کرتا لیکن میرے ذہن میں یہ اشکال ہے کہ جب قرآن میں بہن اور بھائی کی آپسی شادی حرام ہے تو یہ کیسے ہوا کہ آدم اور حوا ءعلیہما السلام کی اولاد کی آپس میں شادیاں ہوئیں ؟

جواب: جب آپ کا دل ایمان پر مطمئن ہے تو ان شاءاللہ وسوسے سے آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا ۔ البتہ ایک آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل ودماغ کو شبہات کی آماجگاہ نہ بنائے کہ شبہات کا تلاش کرنا ہی اس کا مطمح نظر بن جائے ۔
رہا وہ مسئلہ جو آپ نے سوال میں پوچھا ہے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شرائع کے مختلف ہوجانے سے احکام بھی بدل جاتے ہیں البتہ اصول اور عقائد نہیں بدلتے جوکہ ساری شریعتوں میں یکساں ہوتے ہیں ۔
سلیمان ںکی شریعت میں مجسمے بنانے جائز تھے تاہم ہماری شریعت میں یہ حرام ہیں ،یوسف ںکی شریعت میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں حرام ہے ۔ معرکوں میں حاصل ہونے والی غنیمت ہم سے پہلے لوگوں پر حرام تھی البتہ ہمارے لیے حلال ہیں ۔ دوسری امتوں کا قبلہ بیت المقدس تھا جبکہ ہمارا قبلہ بیت اللہ ہے ۔ بالکل اسی طرح آدم ںکی شریعت میں بہن بھائیوں کا آپس میںنکاح اور شادی کرنا جائز تھا جبکہ اس کے بعد والی سب شریعتوں میں حرام ۔
آدم ںکو جب کوئی بچہ ہوتا تو اس کے ساتھ ایک بچی بھی ہوتی تھی ،چنانچہ اس بچی کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ دوسرے بچے کے ساتھ پیدا ہونے والی بچی سے شادی کرتا تھا ۔      (تفسیر ابن کثیر، سورة المائدہ 27)

اس وقت جو بندراور خنزیر ہیں کیا یہ مسخ شدہ ہیں ؟

سوال : کیا آپ مجھے بندروںکے بارے میںبتاسکتے ہیں کہ کیا یہ وہی بشر ہیں جنہیں اللہ کے احکام میں معصیت کی بناپرجانور وں کی شکل میں مسخ کردیا گیاتھا،اور اگر ایسا ہے تو وہ کونسی قومیں ہیں؟

جواب : اللہ پاک نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر خبردی ہے کہ اس نے بنواسرائیل میں سے کچھ کی شکلوں کو ان کی نافرمانی کی بنیاد پر بندروں کی شکل میں بدل دیا تھا۔          (البقرة ۵۶)
انہوں نے اللہ کے محرمات کی پامالی کی تو اللہ تعالی نے انہیں یہ عذاب دیا تھا،اور یہ سزا صرف بنواسرائیل کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ اس امت میں بھی مسخ نہ ہوجائے۔
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : اس امت میں تقدیر کا انکار کرنے والوں کے لیے زمین میں دھنسنے یا شکلوں کے بگڑنے کا عذاب ہوگا “ (صحیح ترمذی 1748 )
دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ” اس امت میں زمین میں دھنسنا ، شکلوں کا بگڑنا اور پتھروں کی بارش ہوگی ،ایک شخص نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول! یہ کب ہوگا ؟ تو نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : جب ناچنے والیوں،موسیقی اور شراب نوشی کا ظہور ہونے لگے گا “۔        (سنن ترمذی 1801)
یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ اس امت میں بھی کچھ گناہوں کی سزاشکلوں کے بگڑنے کی صورت میں ظاہر ہوگی ۔ البتہ اس وقت جو بندر اور خنزیر ہیں وہ مسخ کئے گئے لوگوں میں سے نہیں ہيں، اس لیے کہ اللہ تعالی جسے مسخ کردے اس کی نسل ہی نہیں چلاتا ،بلکہ اسے مسخ کرنے کے بعد ہلاک کردیتاہے ۔
امام مسلم  نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن مسعود  سے روایت کیا ہے کہ ایک شحص نے رسول اکرم صلى الله عليه وسلم سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! یہ بندر اور خنزیر انہیں میں سے ہیں جنہیں مسخ کیا گیا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا : اللہ پاک مسخ کئے گئے کی نسل نہیں چلاتا اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہوتی ہے ،بندر اور خنزیر تو پہلے ہی سے موجود تھے “۔
 ( صحیح مسلم 2663)

انسان لمبے قد میں پیدا کیا گیا تو کیا ابھی تک اس کا قد کم ہورہا ہے ؟

سوال : کیا آدم عليه السلام کے زمانے میں لوگ چھوٹے قد کے تھے پھر آہستہ آہستہ لوگ طویل القامت ہوتے گئے ، یا اس کے برعکس تھا ؟

جواب : اللہ تعالی نے آدم عليه السلام کو ساٹھ ہاتھ لمبا پیدا فرمایا تھا ،پھر اس کے بعد تدرج کے ساتھ آہستہ آہستہ اس میں کمی آتی رہی یہاں تک کہ جتنا قد آج ہے اس پر ٹھہراؤ پیدا ہوگیا ۔ اس کی دلیل اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان ہے جسے امام بخاری  نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے : ”اللہ تعالی نے آدم عليه السلام کو پیدا فرمایا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا اور آج تک اس میں کمی ہو رہی ہے “ ۔   (بخاری 3326 مسلم2841 )
حافظ ابن حجر  فتح الباری میں رقم طراز ہیں : ”(آج تک مخلوق کے قد میں کمی ہو رہی ہے ) یعنی ہردور کے لوگوں کی پیدائش اپنے دور کے لوگوں کے مقابلہ میں کمی کے ساتھ ہورہی ہے ، تو قد میں کمی اس امت پر آکر ختم ہوچکی ہے ،اور اب قد میں ٹھہراؤ پیدا ہوچکا ہے “ ۔

 افادات : شیخ محمد صالح المنجد