Pages

Sunday, December 29, 2013

عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت


بسم اللہ الرحمن الرحیم
الصلوۃ والسلام علی رسولہ النبی الکریم

ماہ ربیع الاول میں بالعموم اور بارہ  ربیع الاول کو بالخصوص آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا جائز و مستحب ہے اور اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

ارشاد باری تعالی ہوا ، ( اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ) ۔ ( ابراہیم ، 5 ) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔  ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔
(تفسیر خزائن العرفان)

بلاشبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔
(آل عمران ،164)

آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔
(الضحی 11، کنز الایمان)

خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔

سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے
(اسد الغابہ ج 2 ص 129)

اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔
(المائدہ ، 114، کنزالایمان)

صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔
 تفسیر خزائن العرفان )۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔

عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں
کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں​

شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہنوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟

(ماثبت بالستہ)

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام​

صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخل فرمادے ۔
( مواہب الدنیہ ج 1 ص 27 ، مطبوعہ مصر )

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟
سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔
(مشکوہ)

حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91)
ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔
( سیرت حلبیہ ج 1 ص 94 ، خصائص کبری ج 1 ص 40 ، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)

سیدہ آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 109 ) یہ حدیث ( الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) مےں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرہء رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔
(صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)

جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص 58)
امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص 129

امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔
( حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج 1 ص 189)

امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔
(مواہب الدنیہ ج 1 ص 27)

شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔
(الدار الثمین ص 8)

ان دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرنے اور میلاد کا جشن منانے کا سلسلہ امت مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے ۔ اور اسے بدعت و حرام کہنے والے دراصل خود بدعتی و گمراہ ہیں۔

Friday, December 20, 2013

صفر ( کے مہینے میں ) کوئی نحوست نہیں ہے

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَر
(.بخاری،رقم۵۷۵۷)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ چھوت ہے، نہ بدفالی ہے، نہ مردے کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے اور نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے۔‘‘
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ حِینَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا صَفَرَ وَلَا ہَامَۃَ، فَقَالَ أَعْرَابِیٌّ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَمَا بَالُ الْإِبِلِ تَکُونُ فِی الرَّمْلِ کَأَنَّہَا الظِّبَاءُ فَیَجِیءُ الْبَعِیرُ الْأَجْرَبُ فَیَدْخُلُ فِیہَا فَیُجْرِبُہَا کُلَّہَا قَالَ: فَمَنْ أَعْدَی الْأَوَّلَ۔ ۔۔۔ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا صَفَرَ وَلَا ہَامَۃَ
(مسلم، رقم ۵۷۸۸، ۵۷۸۹)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ چھوت ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے اور نہ مردے کی کھوپڑی سے کوئی پرندہ نکلتا ہے، تو ایک دیہاتی شخص نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول ان اونٹوں کا کیا معاملہ ہوتا ہے جو ریگستان میں ہوتے ہیں تو ایسے (صاف اور چکنے) ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن، پھر ایک خارشی اونٹ آتا اور ان میں شامل ہو جاتا ہے تو وہ سب کو خارشی کر دیتا ہے۔آپ نے فرمایا: پہلے اونٹ کو کس نے بیماری لگائی تھی۔ ۔۔۔ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ چھوت ہے، نہ بدفالی ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے اور نہ مردے کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے۔‘‘
 عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا غُولَ
(مسلم، رقم ۵۷۹۵)
’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہ چھوت ہے، نہ بد فالی ہے اور نہ غول بیابانی ہی کوئی چیز ہے۔‘‘
توضیح
متعدی بیماریاں کیسے پھیلتی ہیں؟ اس سوال کا وہ علمی جواب جو آج ہمارے پاس موجود ہے، ظاہر ہے کہ وہ عربوں کے پاس موجود نہیں تھا۔ چنانچہ ان کے ہاں بعض توہمات کی بنا پر متعدی بیماری والے جانور کے بارے میں یہ عقیدہ پیدا ہو گیا کہ اس میں کوئی ایسی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنا پر وہ دوسروں کو بیمار کرسکتا ہے، یعنی وہ جانور موثر بالذات ہو جاتا ہے۔
بدفالی کے حوالے سے ان کا تصور یہ تھا کہ بعض جانوروں کے افعال انسانوں کو نفع و نقصان دیتے اور ان کی قسمتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ان کا ایک خیال یہ بھی تھا کہ انسانوں اور جانوروں کے پیٹ میں بھوک کی وجہ سے ایک سانپ نما کیڑا پیدا ہو جاتا ہے، جو انھیں مار دیتا ہے۔ وہ اس مرض کو بھی متعدی بیماریوں کی طرح مؤثر بالذات سمجھتے تھے۔
ان کا ایک باطل تصور یہ بھی تھا کہ جس مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی روح کھوپڑی سے پرندہ بن کر نکلتی ہے اور ’مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ‘ کے الفاظ کے ساتھ چلاتی رہتی ہے، پھر جب اس کے قتل کا بدلہ لے لیا جائے تو پھر وہ پرندہ کہیں اڑ جاتا ہے۔ اسی طرح اہل عرب یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ بیابانوں میں ایسے جنات اور شیاطین ہوتے ہیں جو اپنی شکلیں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ مسافروں کو دکھائی دیتے ہیں اور انھیں راستے سے بھٹکا کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ وہ انھیں غولِ بیابانی کہتے تھے۔
درجِ بالا احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے ان سب باطل اور مشرکانہ عقائد و تصورات کی نفی فرمائی اور یہ بتایا کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور (اللہ کے سوا )کوئی چیز بھی مؤثربالذات نہیں ہوتی۔

Monday, December 2, 2013

باب: اس بات کا بیان کہ رکوع اور سجدہ میں کیا کہے؟

بَابمَا يُقَالُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ

صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۴/ حدیث مرفوع

۱۰۷۴۔ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَی أَبِي بَکْرٍ أَنَّهٗ سَمِعَ أَبَا صَالِحٍ ذَکْوَانَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَقْرَبُ مَا يَکُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِهٖ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَکْثِرُوا الدُّعَاءَ۔

۱۰۷۴۔ ہارون بن معروف، عمرو بن سواد، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، عمارہ بن غزیہ مولی ابوبکر، ابوصالح، ذکوان، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سجدہ کرتے ہوئے بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے پس سجود میں کثرت کے ساتھ دعا کیا کرو۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۵/ حدیث مرفوع

۱۰۷۵۔ حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَا أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يَحْيٰی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَی أَبِي بَکْرٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي کُلَهٗ دِقَّهُ وَجِلَهٗ وَأَوَّلَهٗ وَآخِرَهُ وَعَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ۔

۱۰۷۵۔ ابوطاہر، یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یحیی بن ایوب، عمارہ بن غزیہ مولی ابوبکر، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سجدوں میں (اللہُمَّ اغْفِرْلِي ذَنْبِي کُلَهٗ دِقَّهُ وَجِلَّهُ) پڑھتے تھے اے اللہ میرے تمام گناہ معاف فرما دے چھوٹے بڑے اول وآخر ظاہری وپوشیدہ۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۶/ حدیث مرفوع

۱۰۷۶۔ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحٰقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُکْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُکُوعِهِ وَسُجُودِهِ سُبْحَانَکَ اللہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ۔

۱۰۷۶۔ زہیر بن حرب، اسحق بن ابراہیم، زہیر، جریج، منصور، ابی ضحی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رکوع و سجدہ میں کثرت کے ساتھ (سُبْحَانَکَ اللہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي) فرماتے تھے اور قرآن پر عمل کرتے اے اللہ اے ہمارے رب تو ہی پاک ہے اور تعریف تیری ہی ہے اے اللہ میری مغفرت فرما۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۷/ حدیث مرفوع

۱۰۷۷۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو کُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُکْثِرُ أَنْ يَقُولَ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَيْکَ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ مَا هَذِهِ الْکَلِمَاتُ الَّتِي أَرَاکَ أَحْدَثْتَهَا تَقُولُهَا قَالَ جُعِلَتْ لِي عَلَامَةٌ فِي أُمَّتِي إِذَا رَأَيْتُهَا قُلْتُهَا إِذَا جَاءَنَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ إِلَی آخِرِ السُّورَةِ۔

۱۰۷۷۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، مسلم، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات سے پہلے یہ کلمات کثرت سے فرمایا کرتے تھے (سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَيْکَ) سیدہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کلمات کیا ہیں جن کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ نے ان کو کہنا شروع کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے لئے میری امت میں ایک علامت مقرر کی گئی ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۸/ حدیث مرفوع

۱۰۷۸۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا يَحْيٰی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ نَزَلَ عَلَيْهِ إِذَا جَاءَنَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ يُصَلِّي صَلَاةً إِلَّا دَعَا أَوْ قَالَ فِيهَا سُبْحَانَکَ رَبِّي وَبِحَمْدِکَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي۔

۱۰۷۸۔ محمد بن رافع، یحیی بن آدم، مفضل، اعمش، مسلم بن صبیح، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ نازل ہوئی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی نماز میں نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا نہ پڑھی ہو: (سُبْحَانَکَ رَبِّي وَبِحَمْدِکَ اللہُمَّ اغْفِرْلِي
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۷۹/ حدیث مرفوع

۱۰۷۹۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا دَاوُدُ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُکْثِرُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَاکَ تُکْثِرُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فَقَالَ خَبَّرَنِي رَبِّي أَنِّي سَأَرَی عَلَامَةً فِي أُمَّتِي فَإِذَا رَأَيْتُهَا أَکْثَرْتُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فَقَدْ رَأَيْتُهَا إِذَا جَاءَنَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ فَتْحُ مَکَّةَ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللہِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًا۔

۱۰۷۹۔ محمد بن مثنی، عبدالاعلی، داؤ د، عامر، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت کے ساتھ (سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ) فرماتے تھے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت کے ساتھ (سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ) پڑھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ عنقریب میں اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا جب میں اس نشانی کو دیکھوں تو میں (سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ) کی کثرت کروں تو تحقیق میں نے اس علامت کو دیکھ لیا ہے (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ (فَتْحُ مَکَّةَ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللہِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًا) جب اللہ کی مدد آگئی اور مکہ فتح ہوگیا اور لوگوں کو تو دیکھے گا اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں گے تو اللہ کی تسبیح بیان کر اس کی تعریف کے ساتھ اور اس سے بخشش مانگ بے شک وہ رجوع فرمانے والا ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۸۰/ حدیث مرفوع

۱۰۸۰۔ حَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ قُلْتُ لِعَطَاءٍ کَيْفَ تَقُولُ أَنْتَ فِي الرُّکُوعِ قَالَ أَمَّا سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ فَأَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ افْتَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَظَنَنْتُ أَنَّهٗ ذَهَبَ إِلَی بَعْضِ نِسَائِهِ فَتَحَسَّسْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ فَإِذَا هُوَ رَاکِعٌ أَوْ سَاجِدٌ يَقُولُ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنِّي لَفِي شَأْنٍ وَإِنَّکَ لَفِي آخَرَ۔

۱۰۸۰۔ حسن بن علی حلوانی، محمد بن رافع، عبدالرزاق، حضرت ابن جریج سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عطا سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع میں کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا (سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ) مجھے ابن ابی ملیکہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کی ہے وہ فرماتی ہیں میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دوسری عورتوں کے پاس چلے گئے ہیں میں نے ڈھونڈنا شروع کیا واپس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رکوع کرتے ہوئے پایا سجدہ کرتے ہوئے پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے (سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ) میں نے کہا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں میں کس گمان و خیال میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کام میں مصروف ہیں۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۸۱/ حدیث مرفوع

۱۰۸۱۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيٰی بْنِ حَبَّانَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنْ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلٰی بَطْنِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَهُوَ يَقُولُ اللہُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ۔

۱۰۸۱۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبید اللہ بن عمر، محمد بن یحیی بن حبان، اعرج، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تھے اور میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں کے تلوے پر جا پڑا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہونے والے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے (اللہُمَّ انِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ) اے اللہ میں تیرے غصہ سے تیری خوشی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پنا میں آتا ہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں تیری حمد وثنا ایسی نہیں کر سکتا جیسی تو نے خود اپنی حمد وثنا بیان کی ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۸۲/ حدیث مرفوع

۱۰۸۲۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ أَنَّ عَائِشَةَ نَبَّأَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَقُولُ فِي رُکُوعِهِ وَسُجُودِهِ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوحِ۔

۱۰۸۲۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر عبدی، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، مطرف بن عبد اللہ بن شخیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع وسجود میں (سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوحِ) فرمایا کرتے تھے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۰۸۳/ حدیث مرفوع

۱۰۸۳۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي قَتَادَةُ قَالَ سَمِعْتُ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَحَدَّثَنِي هِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ۔

۱۰۸۳۔ محمد بن مثنی، ابوداؤد، شعبہ، قتادہ، مطرف بن عبد اللہ بن شخیر، ہشام، قتادہ، مطرف، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل فرمائی ہے اسناد دوسری ہیں۔