الحمد للہ الذی أکمل لنا الدین وأتمم علینا النعمۃ والصلاۃ والسلام علی نبیہ ورسولہ محمد نبی التوبۃ والرحمۃ ............أما بعد
اللہ تعالی نے فرمایا : وَاخْشَوْنِ۰ۭ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ
'' آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام پورا کردیا ، اورتمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا''۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ عزوجل نے فرمایا : اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ
''کیا ان لوگوں نے اللہ کے لئے ایسے شریک مقرر کررکھے ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسے دینی احکام مقرر کردیئے ہیں جو اللہ تعالی کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں ''۔
صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : '' جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جس کاتعلق دین سے نہیں ہے تووہ مردود ہے ''۔
اور صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا کرتے تھے :'' اما بعد : بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھا طریقہ محمد ﷺ کاطریقہ ہے، اور بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے ایجاد کئے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے''۔
اس مضمون کی آیات و احادیث بہت زیادہ ہیں ۔
مذکورہ بالا اس مضمون کی دیگر آیات و احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس امت کے لئے دین کو مکمل فرمادیا اور اسپر اپنی نعمت پوری کردی اور اپنے نبی محمدﷺ کو اس وقت وفات دی جب آپ ﷺ نے دین کوپورے طور پر پہنچا دیا اور اس امت کے لئے اللہ کی جانب سے مشروع ہوقول و فعل کوواضح کردیا۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ آپ ﷺ کے بعد جو قول وعمل بھی لوگ گھڑ کر اسلام کی جانب منسوب کریں گے وہ سب بدعت کے زمرے میں ہوگا، جوگھڑنے والے پر لوٹا دیاجائے گا اگرچہ گھڑنے والے کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام اور ان کے بعد کے علماء اسلام نے بدعات کی قباحت اور سنگینی کومحسوس کیااس لئے وہ بدعات کاانکار کرتے اور ان سے ڈراتے رہے، جیسا کہ تعظیم سنت اور انکار بدعت کے موضوع پرتالیفات کے مصنفین کرام نےسختی کے ساتھ بدعات کی مذمت کی ہے، مثلاً ابن وضاح ، طرطوشی ، ابو شامہ وغیرہ۔
انہیں نو ایجاد بدعات سے شب برات کی بدعت بھی ہے جو شعبان کی پندرہویں شب منعقد کی جاتی ہے جس کی شب میں لوگ جشن مناتے ہیں اور دن میں روزے رکھتے ہیں جبکہ اس بارے میں کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے اور اس شب کی فضیلت اور اس میں نوافل کے اہتمام کے بارے میں وارد احادیث یاتوضعیف اور یاپھر موضوع ہیں ، جیسا کہ بیشتر اہل علم نے لوگوں کو اس سے آگاہ کیاہے، جن میں کچھ کا ذکر ان شاءاللہ ذیل میں آئیگا۔
نیز اس رات کی فضیلت کے بارے میں اہل شام وغیرہ سےسلف کے کچھ آثار ملتے ہیں لیکن جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں جشن منانا بدعت ہے ، اور اس کی فضیلت میں وارد سبھی احادیث ضعیف اور بعض موضوع ہیں ،جیسا کہ حافظ ابن حجر رجب رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (لطائف المعارف) وغیرہ میں اس کی وضاحت کی ہے۔
قاعدہ یہ ہے کہ ضعیف احادیث عبادات کے باب میں لائق عمل اس وقت سمجھی جاتی ہیں جبکہ صحیح احادیث میں ان کااصل مفہوم ثبت ہو ، شب برات کایہ جشن و اجتماع توکسی حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ جس کی تائید میں ضعیف حدیثوں سے مدد لی جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں ایک عظیم قاعدہ ذکر کیاہے جس کامیں آپ کے سامنے ذکر کرتاہوں جوبعض اہل علم نے اس مسئلہ سے متعلق بیان کیاہے تاکہ آپ کو اس بارے میں پوری واقفیت ہو۔
علماءکرام کااس بات پر اتفاق ہے کہ شریعت کے جس مسئلہ میں لوگ اختلاف کاشکار ہوجائیں اسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی جانب لوٹادیاجائے پھر کتاب وسنت یاان میں سے کوئی ایک جو بھی فیصلہ کردیں وہی واجب الاتباع شریعت ہے، اور جو ان کے مخالف ہوجائے اسے دیوار پر ماردینا ضروری ہے، اور جن عبادات کاذکر ان دونوں میں موجود نہ ہوتووہ عمل بدعت ہے جس کاارتکاب ایک بندہ مسلم کے لئے جائز نہیں ہے چہ جائیکہ لوگوں کو اس کی جانب دعوت دی جائے اور اسے سراہا جائے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے سورۃ النساء میں فرمایا: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۵۹ۧ
'' اے ایمان والو! فرمانبرداری کرواللہ تعالی کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ، پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کروتو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تمہیں اللہ تعالی پر اورقیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے ''۔
(النساء:۵۹)
نیز ارشاد باری تعالی ہے : وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْہِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُہٗٓ اِلَى اللہِ۰ۭ
'' اور جس چیز میں تمہارا اختلاف ہواس کافیصلہ اللہ تعالی ہی کی طرف ہے ''۔
نیز ارشاد باری تعالی ہے : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۰ۭ
'' اے نبی آپ کہہ دیجئے ! اگر اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تومیری تابعداری کروخود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گااورتمہارے گناہوں کومعاف فرمادے گا''۔
(آل عمران: ۳۱)
اور اللہ عزوجل نے فرمایا : فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۶۵
'' سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں''۔
اس مضمون کی آیات بہت زیادہ ہیں ۔
مذکورہ بالا آیات قطعی دلیل ہیں کہ اختلافی مسائل کو کتاب و سنت کی جانب لوٹانا پھر ان دونوں کے فیصلے سے راضی ہونا ہربندہ کی دنیوی و اخروی بھلائی اسی میں مضمر ہے، اور بہ چیز باعتبار انجام کے بہت بہتر ہے۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اپنی کتاب (لطائف المعارف) میں مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :شام کے کچھ تابعین مثلاً خالد بن معدان ، مکحول لقمان بن عامر ، وغیرہ شعبان کی پندرہویں شب کی تعظیم کرتے تھے، اور اس میں عبادت کے لئے پیش کرتے تھے بعد کے لوگوں نے اس شب کی تعظیم و فضیلت انہیں سے لی ہے، یہ بھی کہاجاتاہے کہ شام کے ان تابعین کو اس سلسلہ میں کچھ اسرائیلی آثار پہنچتے تھے، پھر جب یہ چیز ان کے ذریعہ مختلف شہروں میں مشہور ہوئی تولو گ آپس میں اختلاف کر بیٹھے بعض لوگ ان کی بات مان کر اس شب کی تعظیم کے قائل ہوگئے، ان میں بصرہ کے عبادت گذاروں وغیرہ کی ایک جماعت تھی، ایک علماء حجاز کی اکثریت نے اس شب کی فضیلت و تعظیم کاانکار کیاہے، جن میں عطاءاور ابن ابی ملیکہ وغیرہ ہیں یہی بات عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے فقہاء اہل مدینہ سے بھی نقل کی ہے، امام مالک رحمہ اللہ کے اصحابہ وغیرہ کابھی یہی قول ہے، چنانچہ ان سب کی اجتماعی رائے ان ساری چیزوں کے بدعت ہونے کی ہے۔
اس شب میں عبادت کے طریقہ کے بارے میں علماء اہل شام کے مندرجہ ذیل دو قول ہیں۔
پہلا قول : اس رات مساجد میں اجتماعی طور پر عبادت کرنامستحب ہیں خالد بن معدان اور لقمان بن عامر وغیرہ اس شب اچھے کپڑے پہنتے ،دھونی دیتے،سرمہ لگاتے اور پوری رات مسجد میں ہی مصروف عبادت رہا کرتے تھے، اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے ، وہ کہتے ہیں اس شب مساجد میں اجتماعی طور پر عبادت کرنا بدعت نہیں ہے، اسے حرب کرمانی نے اپنے (مسائل )میں ذکر کیاہے۔
دوسرا قول : اس شب میں نماز ، قصہ خوانی اور دعا کے لئے اکٹھا ہونا مکروہ ہے، لیکن فرداً نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے، اہل شام کے امام، فقیہ، اور عالم علامہ اوزاعی رحمتہ اللہ علیہ کایہی کہنا ہے ، ان شاء اللہ یہی قول صحت سے قریب ترین ہے۔
امام ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں : (شعبان کی پندرہویں شب کے بارے میں امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے کوئی بات نہیں ملتی ، البتہ اس رات میں عبادت کے استحباب کے بارے میں ان سے دو روایتیں ملتی ہیں جو دونوں عیدین کی راتوں میں عبادت کے بارے میں منقول دو روایتوں سے نکلتی ہیں ۔
پہلی روایت : عیدین کی شب میں اکٹھا ہوکر عبادت کرنامستحب نہیں ہے کیونکہ نبیﷺ اور صحابہ کرام سے اس کاکوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔
دوسری روایت میں : عیدین کی شب میں اکٹھا ہوکر عبادت کرنامستحب ہے کیونکہ تابعین میں سے عبدالرحمن بن زید بن اسود ایسا کیاکرتے تھے۔
تویہی معاملہ شعبان کی پندرہویں شب کا بھی ہے کہ اس میں نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام سے کوئی چیز ثابت نہیں ہے، البتہ تابعین کی ایک جماعت سے اس کا ثبوت ملتا ہے، جو اہل شام کے بڑے فقہاء میں سے ہیں )۔
حافظ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کاخلاصہ ختم ہوا ۔
مذکورہ بالا گفتگو میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام سے پندرہویں شعبان کی شب کے بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔
اور جہاں تک اس معاملہ کاتعلق ہے کہ امام اوزاعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس شب میں انفرادی طور پر عبادت کومستحب کہاہے اور حافظ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ نے اس قول کواختیار کیاہے تووہ غریب اور ضعیف قول ہے کیونکہ جس چیز کامشروع ہونا شرعی دلائل سے ثابت نہ ہو ایک مسلمان کے لئے اسے دین میں ایجاد کرناجائز نہیں ہے،خواہ لو گ اسے انفرادی یااجتماعی طور پر خفیہ یاعلی الاعلان انجام دیں، کیونکہ نبی ﷺ کایہ فرمان عام ہے: '' جس نے کوئی ایسا عمل کیاجس کاتعلق دین سے نہیں تووہ مردود ہے غیر قابل قبول ہے''۔
بدعت کے انکار اور ان سے اجتناب کی بابت اس کے علاوہ بہت سی دلیلیں ہیں ، امام ابوبکر طرطوشی رحمہ اللہ اپنی کتاب ( الحوادث و البدع) میں رقمطراز ہیں : ( امام ابن وضاح نے زید بن اسلم سے روایت کرتے ہوئے بیان کہ ہم نے اپنے مشائخ اور فقہاء میں سے کسی کو نہ پایا کہ وہ شعبان کی پندرہویں شب اور حدیث مکحول کی جانب ذرا بھی توجہ دیتے رہے ہوں یا دوسری راتوں پر اس رات کی کوئی فضیلت سمجھتے رہے ہوں۔
امام ابن وضاح اپنی سند سے نقل کرتے ہیں کہ ابی ابن ملیکہ سے کہاگیا کہ زیاد نمیری کہتے ہیں :شعبان کی پندرہویں شب کاثواب لیلۃ القدر کی طرح ہے ، توابن ابی ملیکہ نے کہا: اگر میں اسے یہ کہتے ہوئے سنتا اور میرے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تومیں اسے ضرور مارتا زیادہ توایک قصہ گوشخص تھا ، اورجہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے: اے علی جو شخص شعبان کی پندرہویں شب کو سو رکعت نماز پڑھے اور اس کی ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے ایک بار ، قل ہو اللہ احد دس مرتبہ پڑھے اس کی ہر ضرورت پوری فرما دے گا............۔
یہ حدیث موضوع ہے ، نیز اس میں جس عظیم ثواب کی صراحت کی گئی ہے صحیح و غلط میں فرق کی صلاحیت رکھنے والا کوئی بھی شخص اس کے من گھڑت ہونے میں شک نہیں کرسکتا ہے، نیز اس حدیث کے تمام راوی مجہول الحال ہیں ، یہ حدیث دوسرے اور تیسرے طریقےسے ہی مروی ہے لیکن سبھی طرق موضوع اور اس کے روایت کرنیوالے مجہول الحال ہیں ۔
علامہ شوکانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب (المختصر) میں مزید لکھتے ہیں : (شعبان کی پندرہویں شب میں نماز پڑھنے کی حدیث باطل ہے اور ابن حبان کی حدیث جوحضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات میں نمازیں پڑھو اور دن میں روزہ رکھو)ضعیف ہے۔
اور علامہ شوکانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب (اللآلی الضعیفۃ والموضوعہ )میں فرماتے ہیں۔
مسند دیلمی وغیرہ میں وارد یہ روایت شعبان کی پندرہویں شب کو سو رکعت نماز پڑھنا اور اس کی ہر رکعت میں سورہ اخلاص دس مرتبہ پڑھنا اپنے بے شمار فضائل کے ساتھ موضوع ہے، یہ حدیث تین سندوں سے وارد ہوئی ہے اور تینوں ہی سندوں میں اس کے بیشتر راوی مجہول الحال اور ضعیف ہیں ، اسی طرح بارہ رکعت میں تیس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے والی روایت موضوع ہے، اور جس روایت میں چودہ مرتبہ پڑھنے کاذکر ہے وہ بھی موضوع ہے ۔
مذکورہ بالا حدی ثکی وجہ سے (احیاء علوم الدین )کے مصنف اور دیگر فقہاء و مفسرین دھوکہ کے شکار ہوگئے حالانکہ اس شب میں نماز کے بارے میں مختلف طرق سے مروی سبھی روایتیں باطل اور موضوع ہیں ۔
سنن ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ کہتی ہیں :رسول اللہ ﷺ اس رات جنت البقیع تشریف لے گئے، اور فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں رات کو اللہ تعالی آسمان دنیاپر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کوبخش دیتاہے۔
مذکورہ بالا باتوں اور اس حدیث میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، کیونکہ ہماری اصل گفتگو اس بارے میں نہیں بلکہ اس رات میں پڑھی جانے والی من گھڑت نما کے سلسلے میں ہے، یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث ضعیف اور منقطع ہے۔
اسی طرح اس شب میں نمازوں کے اہتمام کاموضوع ہونا جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزر چکا ہے ، حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے منافی نہیں ، جبکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں ضعف بھی ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں ۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں نماز کی بابت حدیث موضوع اور رسول اللہ ﷺ پر افترا پردازی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اپنی کتاب (المجموع) میں لکھتے ہیں : وہ نماز جو صلاۃ الرغائب کے نام سے مشہور ہے جو رجب کی پہلی جمعرات کومغرب اور عشاء کے درمیان بارہ رکعت اور اسی طرح پندرہویں شعبان کی نماز جو اس کی شب میں سو رکعت پڑھی جاتی ہے، یہ دونوں نمازیں بدعت خلاف شرع ہیں ۔
ایک بندہ مسلم کو اس بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے کہ ان دونوں نمازوں کاذکر (قوۃه القلوب ) اور (احیاء علوم الدین ) جیسی کتابوں میں موجود ہے ، یابعض احادیث میں ان کاذکر آیا ہوا ہے ، کیونکہ یہ سبھی چیزیں باطل ہیں اسی طرح ان ائمہ کی تحریروں سے بھی دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے جنہوں نے ان نمازوں کے استحباب میں ان کی شرعی حیثیت سے نابلد ہونے کی وجہ سے صفحات سیاہ کر ڈالے ہیں ، کیونکہ وہ ائمہ اس بارے میں غلطی کے شکار ہوئے ہیں ۔
امام ابو محمد رحمہ اللہ عبدالرحمن بن اسماعیل المقدسی رحمہ اللہ نے مذکورہ دونوں کتابوں کی تردید میں انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ ایک عمدہ کتاب تصنیف کی ہے۔ اس مسئلہ میں اہل علم کے اقوال بہت زیادہ ہیں اگر ہم ان تمام کو نقل کرنے لگیں جن پر ہم مطلع ہوئے ہیں توگفتگو طویل ہوجائے گی ، امید ہے کہ مذکورہ باتیں حق کے طلبگار کے لئے کافی اور تسلی بخش ہونگی۔
مذکورہ بالا آیات و احادیث اور اہل علم کے اقوال سے حق کے طلبگار کے لئےیہ بات واضح ہوگئ کہ شعبان کی پندرہویں شب میں جشن منانا اس میں نماز یا کسی بھی غیر شرعی عبادت کاانجام دینا اوراس دن کو روزہ کے لئے خاص کرنا اکثر اہل علم کے نزدیک بدعت ہے ، جس کی شریعت مطہرہ میں کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ یہ عہد صاحبہ کے بعد اسلام میں ایک نو ایجاد چیز ہے ،، اس مسئلہ اور دیگر مسائل میں حق کے طلبگار کے لئے اللہ عزوجل کا مندرجہ ذیل فرمان اور نبی ﷺ کی حدیث اور اس مفہوم کی دیگر آیات و احادیث کافی ہیں ۔
اللہ عزوجل کاارشاد ہے : وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ
'' آج میں نے تمہارے دین کوکامل کردیا اور تم پر اپنا انعام پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا''۔
نبی ﷺ کافرمان ہے: '' جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جس کاتعلق دین سے نہیں ہے تووہ مردود ہے ''۔
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جمعہ کی رات کو نمازوں کے لئے اور اس کے دن کو روزہ کے لئے خاص نہ کروں ،ہاں اگر کوئی شخص پہلے ہی سے روزہ رکھ رہا ہواور اس میں جمعہ آجائے توکوئی حرج نہیں ''۔
اگر کسی مخصوص عبادت کے لئے کسی رات کی تخصیص جائز ہوتی توجمعہ کی رات دیگر راتوں سے بہتر تھی کیونکہ اس کادن بہترین دن ہے جس پر سورج طلوع ہوکر چمکے، جیسا کہ نبی ﷺ سے صحیح احادیث میں یہ بات ثابت ہے۔
جب نبی ﷺ نے جمعہ کی شب کو کسی عبادت کے لئے خاص کرنے سے منع فرما دیا تو اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی اور رات کو کسی عبادت کے لئے خاص کرنا بدرجہ اولی ممنوع ہے کیونکہ مخصوص عبادت کے لئے کسی رات کی تخصیص اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کہ کسی صحیح دلیل سے تخصیص کے جواز کا پتہ نہ چلے ۔
چونکہ لیلۃ القدر اور رمضان کی راتوں میں عبادت اور اس میں محنت و جتن مشروع ہے اس لئے نبی ﷺ خود بھی ان راتوں میں عبادت کااہتمام کیااور امت کو اس کی خبر دی ، اور انہیں ان راتوں میں عبادت کا شوق دلایا ۔
جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں نبی ﷺ کایہ فرمان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : '' جس نے رمضان میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اللہ تعالی اس کے پچھلے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور جو شب قدر میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے تواللہ تعالی اس کے پچھلے تمام گناہوں کو بخش دیتاہے''۔
چنانچہ اگر پندرہویں شعبان کی شب یا رجب کے پہلے جمعہ کی رات یا شب اسراء و معراج میں جشن منایا یاکچھ مخصوص عبادتیں انجام دینا جائز ہوتا تونبی ﷺ امت کو ضرور اس کی راہنمائی فرماتے یاخود ان راتوں میں جشن مناتے اور عبادت کرتے۔
اور اگر درحقیقت عہد نبوی میں ایسی کوئی چیز ہوئی ہوتی توصحابہ کرام اسے نبی ﷺ سے نقل کراکے امت تک ضرور پہنچاتے ،اور قطعاً اسے نہ چھپاتے ، صحابہ کرام لوگوں میں سے بہتر اور انبیاء کے بعد امت کے سب سے زیادہ خیر خواہ تھے، رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔
علماء کرام کے اقوال کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات یا شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، تو اس سے پتہ چلا کہ ان دونوں راتوں میں اجتماع و عبادت بدعت ، اسلام میں نئی پید کردہ چیز ہے، اسی طرح ستائیسویں رجب جس کے بارے میں بعض لوگوں کاخیال ہے کہ یہ اسراء او ر معراج کی شب ہے مذکورہ دلائل کی روشنی میں اس رات کومخصوص عبادتوں کے لئے خاص کرنا اور اس میں جشن منانا جائز نہیں ہے،، اگرچہ یہ معلوم ہوجائے کہ اسراء و معراج کی رات ہے تو چہ جائیکہ یہ رات معلوم ہی ہے کہ یہ رات مبہم ، غیر معروف ہے، اور جولوگ یہ کہتے ہیں کہ شب معراج ستائیسویں رجب ہے توان کایہ قول باطل ، بے بنیاد ہے،جس کاصحیح احادیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے:
خیر الأمور السالفات علی الھدی
و شر الأمور المحدثات البدائع
(سب سے بہتر کام وہ ہیں جو ہدایت کے طریقہ پر ہوں، اور سب سے برے کام وہ ہیں جو دین میں نئے ایجاد کئے گئے ہوں )۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور سارے مسلمانوں کو سنت پر مضبوطی کے ساتھ کاربند اور اس پر ثابت قدم رہنے اور خلاف سنت کاموں سے اجتناب کی توفیق عطافرمائے، وہ اللہ سخی اور مہربان ہے۔
اور اللہ تعالی اپنے بندے اوررسول ہمارے نبی محمدﷺ اور آپ اہل و عیال اور تمام ساتھیوں پر رحمت نازل فرمائے۔
کتاب : توحید کا قلعہ
تالیف : عبدالملک القاسم
دارالقاسم للنشر والتوبیح
Wonderful Analysis of Shab e Barat Must Watch Javed Ahmed Ghamidi
Shab E Meraj & Shab E Barat Ki Haqeeqat By Dr Zakir Naik