Pages

Wednesday, March 8, 2017

اللہ کا خوف اور مسلمان کی زندگی میں اس کا اثر

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سب سے بلند اور عالی شان ہے۔
  
لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى (6) وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى
 [طه: 6، 7]
ترجمہ:’’جس کی ملکیت آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان اور (کرہ خاک) کے نیچے کی ہر ایک چیز پر ہے ۔اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی بخوبی جانتا ہے‘‘۔
میں اپنے رب کی تعریف کرتا ہوں اور اس کی عطا کردہ(نعمتوں ) پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہےاس کا کوئی شریک نہیں، اس کے بڑے پیارے (بابرکت) نام ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور ہمارے سردار سیدنا محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے اختیار کردہ نبی ہیں،اے اللہ اپنے بندے اور رسول محمد پر، اور ان کے آل اور نیک و متقی صحابہ پر رحمتیں،سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
اما بعد (اس کے بعد)
اے مسلمانوں
اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے، اور جان لو کہ جو کچھ تمھارے دل میں ہے اللہ اسے جانتا ہے تو اس (کی مخالفت )سے بچو، 

(فرمانِ باری تعالیٰ ہے) 
 إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ [آل عمران: 5]
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالٰی پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔
اللہ کے بندوں
بیشک دلوں کے اعمال بہت عظیم اور بہت بڑی بات ہے؛ انکا ثواب بھی بہت عظیم ہے اورانکی سزا بھی بہت سخت ہے،اور بدنی اعمال دلی اعمال کے تابع ہیں اور اسی پر ان کا دارومدار ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ: دل اعضاء کا بادشاہ ہے، اور باقی اعضاء اس کے لشکر (سپاہی ) ہیں۔
سیدناانس رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل صحیح نہ ہو۔(مسنداحمد)
اور دل کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہےکہ
اس کی توحید اللہ کے لئے ہو ، اور اسی کی تعظیم ہو، اور اسی کی محبت ،اسی کا خوف اور اسی سے امید ہو ، اور اسی کی فرماں برداری سے محبت ہو ، اوراسی کی نافرمانی سے نفرت ہو۔
امام مسلم نے سیدنا ابو ہریرہ کی حدیث نقل کی ہے: انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول - صلى الله عليه وسلم - نے فرمایا: بے شک اللہ تمھاری صورتوں(شکلوں) اور مالوں کو نہیں دیکھتا،وہ تو تمھارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
جناب حسن رحمہ اللہ نے ایک آدمی سے کہا: اپنے دل کا اعلاج کرو؛ کیونکہ بندوں کے دلوں کی پاکیزگی اللہ (کی رضا) کے لئے ضروری ہے۔
اور خوف اور امید ہی دلوں کے ان اعمال میں سے ہیں جو نیک کاموں پر ابھارتے ہیں، اور آخرت کی زندگی کی ترغیب دلاتے ہیں، اور برے کاموں سے ڈانٹتے ہیں، اور دنیا سےبے نیاز کردیتے ہیں،اور حد سے بڑھ جانے والے نفس کو لگام دیتے ہیں۔
اور اللہ کا خوف ہی دل کو ہر نیک کام کی طرف لے جاتا ہے، اور ہر برائی کے لئے رکاوٹ ہے، اور امید بندے کو اللہ کی رضا اور اس کے ثواب کیطرف لے جاتی ہے، اور عظیم اعمال کرنے کی ہمتوں کو بڑھاتی ہے، اور ہر برے عمل سے پھیردیتی ہے۔
اور اللہ کا خوف نفس کو (نفسانی) خواہشات سے روکتا ہے، اور اسے فتنے کے بارے میں ڈانٹتا ہے، اور اسے نیکی اور کامیابی کے کاموں کی طرف لے جاتا ہے۔
اور اللہ کا خوف توحید کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے، (اس لئے) ضروری ہے کہ وہ(خوف) اللہ ہی کے لئے ہو، اور اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف ہونا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کی اقسام میں سے ایک قسم ہے، اور اللہ تعالی نے اپنے سے ڈرنے کاحکم دیا ہے،اور کسی اور سے ڈرنے سے منع فرمایا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے
إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ [آل عمران: 175]
ترجمہ: یہ خبر دینے والا شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مومن ہو۔
اور سورہ مائدہ میں اللہ کا ارشاد ہے
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا [المائدة: 44]
اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے سے مول نہ بیچو۔
اور سورہ بقرہ میں فرمایا: وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [البقرة: 40]. اور مجھ ہی سے ڈرو۔
اور انس رضي اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم ہنسو کَم اور رو زیادہ۔ لوگوں نے (یہ بات سنتے ہی) اپنے چہروں کو ڈھانپ لیااور انکے رونے کی آواز آرہی تھی۔
 (اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا)
اور خوف کا مفہوم یہ ہے
دل کی بے چینی اورتڑپنا،اور اس (دل) کا حرام کام پر یا فرائض چھوڑنے پر، یا مستحب کام میں کمی پر اللہ کی طرف سے سزا کی توقع رکھنا، اور نیک عمل کے قبول نہ ہونے کا خدشہ ہونا، جب ہی محرمات سےنفس دور رہ سکتا ہے اور بھلائیوں کی طرف دوڑ سکتا ہے۔
اور خشیت، ڈر، خوف اور ہیبت
ان الفاظ کے معانی ملتے جلتے ضرور ہیں لیکن ہر لحاظ سے خوف کےمترادف نہیں ہیں،بلکہ خشیت خوف سے زیادہ خاص ہے، اور خشیت کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ کی صفات کو جانتے ہوئے اللہ کا خوف ہو۔
اللہ تعالی نے فرمایا: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ [فاطر: 28]
ترجمہ: اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔
اور صحیح حدیث میں ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے زیادہ اللہ کی خشیت اور اسکا تقوی رکھنے والا ہوں۔
اور ’’ وَجل ‘‘ کا مطلب ہے کہ
دل کالرزنا ، اور اس (دل) کا پھٹ جانا اس ذات کے ذکر سے جس کی بادشاہت اور سزاسے وہ ڈرتا ہو۔
اور’’ رَھبت ‘‘ کا مطلب یہ ہےکہ
ناپسندیدہ چیز سے بھاگنا۔اور ہیبت کا مطلب یہ ہے کہ تعظیم اور اجلال کو سامنے رکھتے ہوئے ڈرنا۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایاکہ
خوف کا تعلق تو عام مومنوں سے ہے، اور خشیت کا تعلق پہچاننے والے علماءکے ساتھ ہے، اور ہیبت کا تعلق محبت کرنے والوں سے ہے، اور اللہ کی خشیت اور خوف علم اور معرفت کے حساب سے(بڑھتے اور گھٹتے ) ہیں۔
اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اور اسکے خوف نے اسے خواہشات سے روک دیا ہے،اور اسے فرماں برداری پر گامزن کردیا ہے اللہ نے اس سے ثواب کی بہترین صورت کا وعدہ کیا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (46) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (47) ذَوَاتَا أَفْنَانٍ [الرحمن: 46 - 48]
ترجمہ: اور اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں ۔ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (دونوں جنتیں) بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہیں ۔
افنان سے مراد تازہ اور خوبصورت ٹہنیاں ہیں۔
عطاء رحمہ اللہ نے فرمایا: (اس سے مراد ) ہر وہ ٹہنی ہے جس میں کئی قسم کے پھل ہوں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى [النازعات: 40، 41]
ترجمہ: ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔
اور سورہ طور میں ارشاد فرمایا
وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (25) قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ (26) فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ (27) إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ  
[الطور: 25- 28]
ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے ۔ کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں کے درمیان بہت ڈرا کرتے تھے۔ پس اللہ تعالی نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہمیں تیز و تند گرم ہواؤں کے عذاب سے بچا لیا۔ ہم اس سے پہلے ہی اس کی عبادت کیا کرتے تھے بیشک وہ محسن اور مہربان ہے۔
اللہ نے یہ بات بتادی ہے کہ جو بھی اس سے ڈرتا ہے وہ اسے ناپسندیدہ (چیزوں) سے محفوظ رکھتا ہے،اور اسے کافی ہوجاتا ہے، اوراسکے انجام کو بہتر بناکراس پر احسان فرماتا ہے۔
ابن ابی حاتم نے عبد العزیز ـ یعنی ابن ابی روّاد ـ سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا : مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ [التحريم: 6]
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں ۔
اور کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین انکے پاس تھے جن میں ایک بزرگ بھی تھے ، بزرگ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: جھنم کے پتھر دنیا کے پتھر کی طرح ہیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم کی ایک چٹان دنیا کے تمام پہاڑوں سے زیادہ بڑی ہے۔انہوں (ابن ابی روّاد) نے فرمایا کہ: وہ بزرگ تو بے ہوش ہوکر گرپڑے، اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب ان کے دل پر ہاتھ رکھا تو وہ زندہ تھے ،نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں ندا لگاتے ہوئے کہا کہ: اے بزرگ؛ لاإلہ إلا اللہ، کہہ دیجئے۔ انہوں نے کہہ دیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں جنت کی بشارت دی۔ اس پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہمارے درمیان میں سے؟ فرمایا: جی، اللہ تعالی فرماتا ہے: ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ [إبراهيم: 14]
ترجمہ: اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گےیہ ہےان کےلئےجومیرےسامنےکھڑےہونےکا ڈررکھیں اورمیرےسزا دینے کے وعدہ سے خوف زدہ رہیں۔
اور سلف صالحین پر اللہ کا خوف طاری رہتا تھا، اور وہ بہترین طریقہ سے عمل کیا کرتے تھے،اور اللہ عز وجل کی رحمت کی امید رکھتے تھے، اسی لئے انکے معاملات درست ہوگئے، اور ان کا نتیجہ بہتر ہوگیا، اور ان کے اعمال پاکیزہ ہوگئے۔
سیدنا عمر رضي اللہ عنہ رات کو (معمول کے مطابق )چکر لگارہے تھے،تو انہوں نے ایک شخص کو سورۃ طور پڑھتے ہوئے سنا،آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھوڑے سے اتر کر دیوار سے ٹیک لگالیا (یعنی وہ سورت سنتے رہے اور اسمیں غور کرتے رہے)،پھرآپ ایک مہینہ تک بیمار رہے، لوگ انکی عیادت کرتے لیکن یہ معلوم نہ ہوتا کہ آپ رضی اللہ عنہ کوبیماری کیا ہے؟ (یعنی آپ رضی اللہ عنہ کی بیماری کی وجہ کوئی ظاہری علامت نہیں بلکہ آپ پر اللہ تعالیٰ کےخوف کاطاری ہونا تھا)
اور سیدناعلی رضي اللہ عنہ نے (ایک موقع پر) فجر کی نماز سے سلام پھیرا تو ان پر شدتِ غم کی وجہ سے افسردگی چھائی ہوئی تھی اور وہ اپنے ہاتھ کومل رہےتھے یہ کہتے ہوئےکہ: میں نے محمدﷺکے صحابہ کو دیکھا ہے لیکن آج میں کسی کو نہیں دیکھتا جو اُن (صحابہ رضی اللہ عنہم) کی طرح ہو، (اُن کی صفات یہ تھیں کہ)وہ (دن کا آغازاس حال میں فرماتے)کہ صبح کرتے ہوئے (فکرِ آخرت کی وجہ سے) اُن کے بال بکھرے ہوئے ، پیٹ خالی، اور حلیہ انتہائی سادہ ہوتا اور(رات بھرطویل سجدوں کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا کہ )گویا اُنکی آنکھوں کے درمیان ( پیشانیوں میں )کوئی سخت ومضبوط چیز جوڑدی گئی ہو،،جبکہ رات بھروہ سجدے اور قیام میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہوئے گذار تے ، اور سربسجود رہتے،اور جب صبح ہوتی تو اللہ کا ذکر فرماتےاور( ایک طرف اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور دوسری طرف اُس سے ثواب و جنت کی امید کرتے ہوئے) وہ ایسے ہوجاتےجیسےسخت تیزآندھی میں درخت کی حالت ہوتی ہے،اُن کی آنکھوں سے (اُسکی محبّت میں اور اُس کے خوف سے) آنسو جاری ہوجاتے،یہاں تک کہ (اُن آنسوں سے) اُن کے گریبان بھیگ جاتے ۔
اور سفیان ثوری رحمہ اللہ خوف کی وجہ سے بیمار ہوگئے تھے۔
اور اس مسئلہ میں طویل گفتگو موجودہے۔
اور تعریف کے لائق وہ خوف ہے جو نیک کام کی ترغیب دلائے، اور حرام کاموں سے روکے، جب خوف قابل تعریف (خوف کی) حدود سے نکل جاتا ہے تو وہ اللہ کی رحمت سے ناامیدی اور مایوسی کا باعث بن جاتا ہے، جوکہ کبیرہ گناہ ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ نے فرمایا
خوف کی ضروری حد (مقدار) یہ ہےکہ جو(خوف) فرائض ادا کرنے اور حرام چیزوں سے بچنے پر ابھارے، اور اگریہ اس حد سے بڑھ کر دلوں کونوافل اور فرماں برداری کے لئے تیار کرنے اور معمولی ناپسندیدہ اعمال سے رُکنے، اور مزید جائز اعمال میں وسیع ہونے پر ابھارے تو یہ قابل تعریف اضافہ ہوگا، اور اگر یہ (خوف)اس (حد) سے بھی بڑھ کر بیماری یا موت کا سبب بنے، یا ایسے مستقل غم کا سبب بنے جوجدو جہد سے روک دے تو یہ (اضافہ) قابل تعریف نہ ہوگا۔
جناب ابو حفص کا قول ہے
خوف اللہ کا کوڑا ہے۔جس کے ذریعےوہ اپنے دروازے سے بھاگنے والوں کو سیدھا کرتا ہے۔اور دوسرا قول یہ بھی ہے کہ خوف دل میں ایک چراغ ہے۔
اور ابو سلیمان کا قول ہے
وہ دل خراب ہی ہوا کرتا ہے جس سے خوف نکل جائے۔
اور مسلمان دو خوفوں کے درمیان رہتا ہے
ایک وہ معاملہ جو گزر گیا اوراسے نہیں معلوم کہ اللہ اس میں کیا کرنے والا ہے، اور دوسرا وہ معاملہ جو آرہا ہے اور اسے نہیں معلوم کہ اللہ اس میں کیا فیصلہ کرنے والا ہے۔
اور جہاں تک امید کا تعلق ہے تو وہ نیک اعمال پر اللہ کے ثواب کی خواہش کا نام ہے،اور امید کی شرط یہ ہے کہ اچھے کام میں آگے بڑھنا، اور حرام چیزوں سے بچنا یا ان سے توبہ کرنا، اورجہاں تک فرائض کو چھوڑنے ، اور خواہشات کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے تمنی اور امیدیں بحال رکھنے کا تعلق ہے تو یہ اللہ کے مکر سے نِڈر ہونے کا ثبوت ہے نہ کہ امیدیں قائم رکھنے کا
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے
  فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ [الأعراف: 99]. کہ اللہ کے مکر سے تو ظالم قوم ہی نہیں ڈرتی۔
اور اللہ تعالی نے بیان کردیا ہے کہ امید تو نیک عمل کرنے کے بعد ہوتی ہے نہ کہ بغیر عمل کے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے
  إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ (29) لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ [فاطر: 29، 30]
ترجمہ: جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی۔ تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے زیادہ دے بیشک وہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے۔
اسی طرح سورہ بقرہ میں فرمایا: : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ [البقرة: 218]
ترجمہ: البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں، اللہ تعالٰی بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔
اور امید ایک عبادت ہے جو صرف اللہ ہی کے لئے ہونی چاہئے،جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور سے امید رکھی تو یقینا اس نے شرک کیا۔
اللہ عز وجل نے فرمایا: فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا [الكهف: 110].
ترجمہ: تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔
اور امید اللہ تعالی سے قریب ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ایک حدیث میں اللہ تبارک و تعالی کے بارے میں آیا ہے: «أنا عند ظنِّ عبدي بي وأنا معه إذا ذكَرَني».میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق (معاملہ کرتا) ہوں اور جب وہ مجھے پکارے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔
اور واجب (ضروری کام )یہ ہے کہ خوف اور امید کو جمع کرنا، اور بندے کی سب سے مکمل صفت یہ ہے کہ خوف اور امید کے اعتدال کے ساتھ اللہ تعالی سے محبت کرنا، اور یہی انبیاء اور مومنوں کی صفت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے
إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ [الأنبياء: 90]
ترجمہ:یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے 
اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے
تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ [السجدة: 16]
ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں ۔
اگر مسلمان کو اللہ کی رحمت کی شمولیت اور اسکے عظیم کرم اوربڑے گناہوں سے اسکے تجاوز،اور اسکی جنت کی وسعت اور اسکے ثواب کا اضافہ معلوم ہوجائے تو اسکا نفس (دل)کشادہ ہو جائے، اور اللہ کے پاس جو عظیم بھلائی ہے اس کی چاہت اور امید میں یکسو ہوجائے، اور اگر اللہ کی بڑی سزا اور اسکی سخت پکڑ،اور مشکل حساب ،اور قیامت کی ہولناکی،اور آگ کی بھیانکی، اور طلوع ہونے کی ہولناکی، اور آخرت کے عذاب کی قسمیں اسے معلوم ہوجائیں تو اسکا نفس رُک جائے اور پریشان ہوجائے، اور چوکنّا ہو جائے اور ڈر جائے۔
اسی لئے ابو ہریرہ - رضي الله عنه - کی حدیث میں آیا ہے کہ
اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: اگر مومن جان لے کہ اللہ کے پاس کیا سزا ہے تو کوئی بھی اسکی جنت کی خواہش نہ رکھے، اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اسکی جنت (میں جانے) سے مایوس نہ ہو۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا۔
اللہ نے کئی مقامات پر بخشش اور عذاب کو اکھٹا(ذکر) کیا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ [الرعد: 6].
ترجمہ: اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بےجا ظلم پر اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے۔
اور امام غزالی نےجناب مکحول دمشقی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا
جو صرف ڈر سے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ حروری ہے، اور جو صرف امید سے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ مرجئ ہے، اور جو صرف محبت سے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ زندیق ہے، اور جو ڈر،امید اور محبت(ان تینوں صفات) کے ساتھ اسکی عبادت کرتا ہے تو وہ توحید والا اور اہل سنت (میں سے) ہے۔
امام ابن قیم کی مدارج السالکین میں ہے
اللہ عز وجل کی طرف جانے کے مسئلہ میں دل ایک پرندہ کی مانند ہے: محبت اسکا سَر ہے، خوف اور امید اسکے دو پَر ہیں، اور جب تک سَر اور دونوں پَر سلامت ہیں تب تک پرندہ بہترین پرواز کرسکتا ہے، اور اگر اسکا سَر کاٹ دیا جائے تو وہ مرجاتا ہے، اور اسکے دونوں پَر خراب ہوجائیں تو وہ ہر شکاری اورجان لینے والےکا سامان بَن جاتا ہے۔
لیکن سلف نے بہتر یہ سمجھا ہے کہ صحت کے وقت خوف کا پَر امید کے پَر پرغالب رہے، اور دنیا سے جاتے وقت امید کا پَر صحت کے پَر پر غالب رہے،اور محبت ایک سواری ہے، امید ایک جستجو ہے، اور خوف ایک ڈرائیور ہے، اور اللہ عز وجل اپنے کرم اور احسان سے (جنت کی طرف) پہنچانے والا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا: نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (49) وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ [الحجر: 49، 50].
ترجمہ: میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں۔ ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔
اللہ مجھے اور آپکو قرآن عظیم میں برکت عطا فرمائے، اور اس کے ذکر حکیم اور آیات کے ذریعہ مجھے اور آپکو فائدہ پہنچائے،میں اپنی یہ بات کہہ رہا ہوں اور اللہ سے اپنے لئے ، آپ سب کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ کی بخشش مانگتا ہوں، اور آپ سب بھی اس سے مغفرت مانگیں،بے شک وہ ہی بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اے مسلمانوں اللہ سے ڈرو، اور اسکے ثواب کی امید رکھو، اور اسکی سزا سے ڈرو، اور اللہ تعالی کا فرمان سنو: ترجمہ: تم یقین جانو کہ اللہ تعالی سزا بھی سخت دینے والا ہے اور اللہ تعالٰی بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے۔
  اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [المائدة: 98]
اور امام بخاری اور امام مسلم نےسیدنا نعمان بن بشیرکی حدیث روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا
میں نے اللہ کے رسولﷺسے سنا، وہ فرمارہے تھے: بے شک قیامت کے دن لوگوں میں سب سے ہلکےعذاب والا وہ شخص ہوگا جس کے دونوں پاؤں کے تلوے میں دو انگارے رکھے جائیں گے جن سے اسکا دماغ خولے گا، اسے ایسا محسوس ہوگا کہ اس سے زیادہ سخت عذاب کسی کو نہیں ہو رہا ،حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں ہوگا۔
اور امام مسلم نےسیدنامغیرہ بن شعبہ- کی حدیث ذکر کی ہے وہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا
موسی علیہ السلام نے اپنے رب سے پوچھاکہ اہل ِجنت میں سب سے کم مقام والا کون ہے؟ فرمایا کہ وہ شخص ہے جو سب لوگوں کے جنت میں جانے کے بعد آئے گا، اور اس سے کہا جائے گاکہ جنت میں داخل ہوجاؤ، وہ کہے گا کہ اےمیرے رب کیسے؟ جبکہ سب لوگ تو اپنے مقامات میں داخل ہوچکے ہیں، اور اپنی چیزوں کو بھی لے چکے ہیں؟ تو اس سے کہا جائے گاکہ کیا تم اس بات پر راضی ہوگے کہ تمھارے لئے وہ سب ہو جو دنیا کے بادشاہ کے پاس ہوتا ہے؟ تو وہ کہے گاکہ جی میں راضی ہوں، تو اللہ فرمائے گا کہ وہ تو تمھارا ہوہی گیا،اور اُتنا ہی اور ،اور اُتنا ہی اور ،اور اُتنا ہی اور ،اور اُتنا ہی اور (بھی تمھارا ہوگیا) ،پانچویں مرتبہ میں وہ کہے گاکہ میرے رب میں راضی ہوگیا،اللہ فرمائے گا کہ یہ تو تمھارا ہو ہی گیا ہے اور اُس سے دس گنا زیادہ بھی تمھارا ہے،اور تمھارے لئے وہ سب کچھ ہے جو تمھارا دل چاہے اورجو تمھاری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے، وہ کہے گا کہ اے میرے رب میں بہت راضی (و خوش ) ہوگیا۔
تو اللہ کے عذاب سےخوف زدہ ہونا چاہیے، اور اسکے ثواب کی امید ہونی چاہئے، اور (خصوصا) اس زمانے میں جہاں سنگ دلی اور غفلت اوردلوں پر دنیا کی محبت غالب آگئی ہے، اور اکثر لوگ گناہوں اورجرائم میں بہادر(نڈر) ہوگئے ہیں، اور آخرت کی زندگی کو بھلا چکے ہیں، اور اللہ -تبارك وتعالى-کی سزاؤں کو معمولی سمجھنے لگے ہیں۔
اس زمانے میں خوف کا پَر مضبوط (غالب) ہونا چاہئے تاکہ دل سیدھے(صحیح) رہیں،اور پاکیزہ رہیں،اور دنیا سے جانے کے موقع پَر امید غالب رہے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے: تم میں سے ہر شخص کو اس حالت میں موت آنی چاہئے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان کر رہا ہو۔
اور اللہ کا خوف یہ تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے حقوق کی ادا ئیگی ہو، اور وہ مسلمان کو ان (حقوق اللہ) میں کمی کرنے سے دور رکھتا ہے، اور بندے کو بندوں پر ظلم اور زیادتی کرنے سے روکتا ہے، اور حقوق العباد کی ادائیگی کی ہمت بڑھاتا ہے اوران (حقوق العباد) کو ہلکا سمجھنے اور انہیں ضائع کرنے سے بچاتا ہے، اور مسلمان کو خواہشات اور حرام چیزوں کے پیچھے چلنے سے روکتا ہے، اور اسے دنیا اور اس (دنیا) کے فتنے سے دور رکھتا ہے،اور آخرت اور اسکی نعمتوں کا شوق دلاتا ہے۔
اللہ کے بندوں
ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [الأحزاب: 56]
اور رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: جو مجھ پر ایک درود بھیجے گا اس کے بدلے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائےگا۔
تو پہلے والوں اور آخری والوں کے سردار اور رسولوں کے امام پر درود و سلام بھیجیں،اے اللہ محمد اور انکے آل پر رحمتیں نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم اورانکے آل پررحمتیں نازل کیں،بے شک تو تعریفوں اور بزرگی والا ہے، اے اللہ محمد اور انکے آل کو برکتوں سے نواز دے،جس طرح تو نے ابراہیم اور انکے آل کو برکتوں سے نوازا، بے شک تو تعریفوں والااور بزرگی والا ہے،اوربہت ساری سلامتی بھیج دے۔
اے اللہ
ہمارے سردار اور نبی محمدﷺ پر اور انکی ازواج (مطہرات) پر اور اُنکی اولاد پر قیامت تک رحمتیں نازل فرما، اے اللہ راضی ہوجا تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ، اور (خاص طور پر) ہدایت یافتہ خلفائے راشدین سیدنا ابو بکر،عمر،عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین سے(بھی)، اور (عموما )تمام صحابہ سے، اور تابعین سے بھی راضی ہوجا اور ان لوگوں سے بھی جوقیامت تک ان کے نقش قدم پر چلیں۔
یا اللہ، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے
انکے ساتھ ساتھ اپنے احسان،کرم اور رحمت سے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ: اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے، یا اللہ تمام جہانوں کے رب
اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے، اور کفر اور کفار کو ذلت دے، اور شرک اور مشرکوں کو (بھی) ذلت دے۔
یا اللہ یا رب العامین
اپنے دین اور کتاب اور نبی کی سنت کی مدد فرما، اے اللہ اپنے دین اور کتاب اور نبی کی سنت کی مدد فرما، اے طاقتور ،اے عزیز۔
اے اللہ
ہر مومن اور مومنہ کا معاملہ آسان فرمادے،اے اللہ ہمارے سینوں کو کھول دے،اور ہمارے معاملات آسان فرمادے،یا أرحم الراحمین۔ یا اللہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کےفوتشدگان کی مدد فرما،اے اللہ انکی قبروں کو روشن کردے،اے اللہ انکی نیکیوں میں اضافہ فرما اور انکے گناہوں سے درگزر فرما،اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
اے اللہ
ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم پر بارش برسا،اے اللہ ہم پر ایسی بارش برساجو مفید ہو،اے اللہ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے اپنی رحمت سے ہم پر بارش برسااور ہمیں مایوس نہ کرنا، اور اس میں اے تمام جہانوں کے رب مسلمانوں کے لئے برکت اور بھلائی فرمادے، بی شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اے اللہ
ہمارے وطنوں میں ہمیں امن عطا فرما، اور اے اللہ ہمارےسربراہوں کی اصلاح فرما۔
اے اللہ
اے تمام جہانوں کے رب: حرمین شریفین کے خادم کو اس عمل کی توفیق دے جو تجھے اچھا لگتا ہے اور جس سے تو راضی ہوتا ہے، اور جس میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے بھلائی ہے، اور جس میں اسکے وطن اور عوام کے لئے بھلائی ہے،اور اسے صحت کا لباس پہنادے بی شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اے اللہ
ہمارے شہروں کو ہر برائی اور ناپسندیدہ چیز سے محفوظ فرما، اور مسلمانوں کے شہروں کی بھی حفاظت فرما۔
اے اللہ
شام میں ہمارے مسلمان بھائیوں پر مہربانی فرما
اے اللہ
اے تمام جہانوں کے رب
ان کے معاملات میں دانائی عطا فرما، اے اللہ انکی حمایت فرما اور انہیں ظالموں کے ظلم اور زیادتی کرنے والوں کی زیادتی سے بچا،بےشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اے اللہ
ہر جگہ اسلام اور اہل اسلام کی حفاظت فرما،یا اللہ،یا رب العالمین ہمارے تمام احوال کی اصلاح فرما چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ ہم سے مہنگائی،بیماری،سود اور زنا کو دور فرما،اور زلزلوں اورمصیبتوں کو(دور فرما)، اور ظاہر اور پوشیدہ فتنوں کی برائی کو(دور فرما)۔
اللہ کے بندو
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ[النحل: 90، 91].
ترجمہ: اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خودتمہیں نصیحتیں کررہاہےکہ تم نصیحت حاصل کرو،اور اللہ تعالٰی کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول و قرار کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو، حالانکہ تم اللہ تعالٰی کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو تم جوکچھ کرتےہواللہ اس کوبخوبی جان رہاہے۔
اور اللہ کا ذکر کروجوعظیم و جلیل ہے وہ تمہارا ذکر کرے گا، اور اسکی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو، اور اللہ کا ذکرتو بہت بڑا ہے، اوریقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتاہے۔
وآخرُ دعوانا أنِ الحمدُ للہِ ربِّ العالمَین
امامِ حرم ڈاکٹر علی بن عبد الرّحمٰن الحذیفی حفظہ اللہ  
 
مترجم: شعیب اعظم مدنی (فاضل مدینہ یونیورسٹی) 
مراجعہ : حافظ حماد چاؤلہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی)

 


کلمہ لا الہ الا اللہ کی فضیلت








اَوّل کلمہ طیّب
——–٭٭———
لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ.
’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
کلمہ لا الہ الا اللہ کی فضیلت
————–٭٭—————
سید نا معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
‘‘ من شھد ان لا الہ الا اللہ مخلسا من قلبہ
دخل الجنۃ ’’جس شخص نے خلوص دل سے لا الہ الا اللہ کی گواہی دی
وہ جنت میں داخل ہو گیا۔
( صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ان مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا )

عن ابى هريره رضى الله عنه عن النبى ﷺ اسعد الناس بشفاعتي يوم القيامة، من قال لا إله إلا الله، خالصا من قلبه، أو نفسه (رواہ البخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا " قیامت کے روز میری سفارش سے فیض یاب ہونے والے لوگ وہ ہیں جنہوں نے سچے دل سے یا (آپ ﷺ نے فرمایا) جی جان سے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا ہے۔