میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اسی بارے میں ارشادِ ربانی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو[71] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی
الأحزاب: 70، 71
اسلام میں نماز ، روزہ، زکاۃ ، حج وغیرہ دیگر عبادات فرض ہیں جنکے بہت بڑے بڑے مقاصد ہیں، جو سارے کے سارے تہذیبِ نفس ، تزکیہ قلب، طہارتِ اعضاء اور انسان کو بلند اخلاقی اقدار کی جانب لے جاتے ہیں۔
ان عبادات میں رمضان المبارک کی عظیم الشان عبادات بھی شامل ہیں، چنانچہ رمضان المبارک میں روزے، قیام اللیل ، افطاری کروانے سے ایک مسلمان کی ایسے انداز سے تربیت ہوتی ہے جن کے ذریعے وہ اخلاقیات کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے، چنانچہ اللہ عز وجل نے فرمایا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے (اور اس کا مقصد یہ ہے) کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو
البقرة: 183
اور حقیقتِ تقوی، قول و فعل اور چال چلن کو اخلاقِ حسنہ اور اچھی صفات کے لبادہ میں پیش کرنے کا نام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، اگر گناہ ہو جائے تو نیکی ضرور کرو یہ نیکی اس گناہ کو مٹا دے گی، اور لوگوں سے اچھے اخلاق کیساتھ پیش آؤ)
انسان کی کامیابی ہر وقت اور ہر جگہ اچھے اخلاق، اچھے کام اور اچھے گفتار میں پنہاں ہے، اسی لئے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آ پ سے جنت میں سب سے زیادہ داخل کرنے والے اعمال کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: (اللہ کا ڈر، اور اچھا اخلاق) پھر آپ سے جہنم میں سب سے زیادہ داخل کرنے والی اشیاء میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: (زبان اور شرمگاہ) ترمذی نے روایت کیا اور کہا: یہ "حسن صحیح ہے"
چنانچہ اسلام اپنے ماننے والوں سے اخلاقِ حسنہ کا مطالبہ کرتا ہے، کہ اسکے سارے معاملات اچھی صفات سے مزین ہوں، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کامل ترین ایمان کا حامل مؤمن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے، تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کیلئے بہتر ہو) ترمذی نے روایت کیا ، اور کہا :"یہ حسن صحیح ہے"
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (مؤمن اپنے اچھے اخلاق کے باعث نفلی روزے اور نفلی قیام کرنے والے شخص کا درجہ پا لیتا ہے) ابو داود نے اسے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا۔
مخلوقات میں کامل ترین اور افضل ترین شخصیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جنکی اللہ تعالی نے یوں تعریف بیان کی
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ اور بیشک آپ انتہائی عظیم اخلاق کے مالک ہیں
[القلم: 4]
اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوب ترین شخصیت اور قیامت کے دن آپکے قریب ترین مقام پانے والے خوش نصیب بھی یہی لوگ ہونگے چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے محبوب ترین اور قیامت کے دن میرے قریب تر وہ لوگ ہیں جو اچھے اخلاق کے مالک ہیں) ترمذی نے اسے روایت کیا اور کہا: "یہ حدیث حسن ہے"
عبادات کیلئے اللہ تعالی سے بلند ترین اخلاقِ حسنہ اور صفاتِ جمیلہ کی توفیق مانگو، پھر انہی عبادات سے مکمل طور پر ذوقِ سلیم بھی حاصل کرو، اور اپنی زندگی کو پیار و محبت کے رنگوں سے بھرنے کیلئے ہر اچھے کام اور اچھی بات لینے کی کوشش کرو، جب یہ کام کرنے میں کامیاب ہوجاؤ گے تو تمہاری زندگیوں میں محبت و مودّت سرایت کر جائے گی، آپس میں ملنے جلنے کا معیاِر بلند ہوجائے گا، زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط اصلاح کے بعد بہترین ہو جائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے انہی بلند اخلاقی اقدار کو مسلمانوں پر واجب کیا ہے جبکہ قرآن نے انہی اقدار کو فرض قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا: وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا اور لوگوں کیلئے اچھی بات کہو
[البقرة: 83]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! فلاں خاتون کا بہت زیادہ نفلی نماز ، روزوں اور صدقہ خیرات کے ساتھ ذکر کیا جاتاہے لیکن وہ اپنے پڑوسی کو زبان سے تکلیف دیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ جہنمی ہے)۔ پھرا س نے کہا: یا رسول اللہ! ایک دوسری خاتون کا بہت کم نفلی نماز ، روزہ اور صدقہ کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، وہ صدقہ میں تھوڑی سی پنیر دے دیتی ہے ، لیکن اپنے ہمسائے کو زبان سے تکلیف نہیں دیتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ جنتی ہے) احمد نے اور امام بخاری نے "ادب المفرد" میں روایت کیا ہے۔
اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ داروں کو ان اہداف ِ عبادات کے منافی امور سے دور رہنے کی ترغیب دلائی، چنانچہ فرمایا: (جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو بےہودہ ، اور بے شرمی کی باتیں مت کرے ، پھر بھی اگر کوئی اسے گالی گلوچ دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو یہ کہہ دے: "میں روزہ دار ہوں")
جی ہاں مسلمانو! فحاشی عبادت گزار، اور نیکو کار لوگوں کا شیوا نہیں، ایسے ہی بلا وجہ سختی عباد الرحمن کی صفات میں سے نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے غلط باتیں اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اسکے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں)
صحابہ کرام نے ان عظیم مقاصد کو سمجھتے ہوئے انہیں اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنایااور ان پر عمل بھی کیا۔
جابر کہتے ہیں: "جب تم روزہ رکھو تو تمہارے ساتھ کان، آنکھ ، اور زبان کا جھوٹ اور حرام کاموں سے روزہ ہونا چاہئے، پڑوسی کو تکلیف مت دو، اپنے آپ کو پرسکون اور صاحبِ وقار بناؤ، تمہارےروزے کا دن دیگر ایام سے یکسر مختلف ہو "
خوش قسمت وہی ہے جو رحمن کی عبادت کرتا ہے، اچھے اخلاق کا مالک ہے، اور آگ سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر اچھے اخلاق اور کام کی توفیق دے ۔
اخلاقِ حسنہ ، ان صفاتِ سلوک کا نام ہے جنہیں اسلام نے ضروری قرار دیا ہے، اور پھر ان پر ثوابِ عظیم بھی عنائت کیا، دوسرے لفظوں میں اسکا مطلب یہ ہے کہ: انسان ہر اچھے قول و فعل کو اپنائے، یعنی: فضیلت والے کاموں سے مزین ہو اور برے کاموں سے اپنے آپ کو بچائے۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی ماہیت کو اپنے ان الفاظ میں کھول کر رکھ دیا: "نیکی ہی اچھا اخلاق ہے"
"البِرّ" یعنی نیکی: ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے، جو اچھے قول و فعل، چال چلن اور منہج سے تعلق رکھے۔
اللہ تعالی نے ہمیں ایک بہت ہی عظیم کام کا حکم دیا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا ہے: یا اللہ! ہمارے حبیب ، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ، ہمارے نبی سیدنا محمد پر درود و سلام بھیج ، یا اللہ! ان پر انکی آل پر اور انکے تمام صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔
یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما۔
یا اللہ! ہم سب کو اس مبارک مہینے میں جہنم کی آگ سے آزاد فرما، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو معاف فرما، یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، اور تمام مسلمانوں کی توبہ قبول فرما۔
یا اللہ ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عنائت فرما، ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچا۔
یا اللہ! مسلمانوں کو امن وامان نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو امن وامان نصیب فرما،یا اللہ! سب میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! ان میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا حیی یا قیوم! یا اللہ! انکے دکھ ، درد تکلیف سب دور فرما۔
یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا نصیب فرما، یا تمام مقروض لوگوں کے قرضے ختم فرما۔
یا اللہ، یا حیی یا قیوم! ہمارے حکمران کی حفاظت فرما، اور اسے ہر اچھے کام کی توفیق دے۔
اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو، ہماری آخری بات یہی ہے کہ تمام تعریفات اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔
میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کےتمام گناہوں اور خطاؤں کی بخشش چاہتا ہوں،تم بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو،یقینا وہ توبہ و استغفار کرنے والوں کے معاف کرنے والاہے۔
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ
خطبہ جمعہ بعنوان "رمضان اور روزہ دار کا اخلاق