Pages

Thursday, June 15, 2017

ریان جنت کا دروازہ

  جنت میں بعض مخصوص اعمالِ صالحہ کے اعتبار سے آٹھ دروازے ہیں جو شخص دنیا میں خلوص نیت سے ان میں جس عملِ صالح کا بھی خوگر ہوگا وہ جنت میں اسی عمل کے دروازے سے جائے گا
۔ ریان جنت کا وہ دروازہ ہے جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ : أَ يْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَيَقُوْمُوْنَ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقْ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ.

 بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب الريان للصائمين، 2 : 671، رقم :  1797

’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا :  روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘


ریان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں محدّث ملا علی قاری فرماتے ہیں :  یا تو وہ بنفسہ ریان ہے کیونکہ اس کی طرف کثیر نہریں جاری ہیں اور اس کے قریب تازہ اور سر سبز و شاداب پھل پھول بکثرت ہیں۔ یا قیامت کے دن اس کے ذریعے سے لوگوں کی پیاس مٹے گی اور ترو تازگی و نظافت چہرے پر ہمیشہ رہے گی۔

 ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح فی مشکاة المصابيح، 4 : 230

Friday, June 2, 2017

"وقفِ عثمان بن عفّان" کی کہانی جس کا کنواں 1400 برس سے جاری


"العربیہ ڈاٹ نیٹ" کی ٹیم نے مدینہ منورہ میں واقع "بئرِ رومہ" کا دورہ کیا جو "بئرِ عثمان" کے نام سے مشہور ہے۔ 1400 برس پہلے دامادِ رسول اور خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس کنوئیں کو خرید کر قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے واسطے وقف کر دیا تھا۔
اس کنوئیں کے پانی سے آج بھی ملحقہ باغِ عثمان کو سیراب کیا جاتا ہے۔ یہ باغ سعودی وزارت زراعت کے زیرِ نگرانی ہے جس کی وجہ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود زائرین کو اس مقام میں داخل ہونے میں دشواری پیش آتی ہے۔

رومہ کنویں کی کہانی


"بئرِ رومہ" ایک صحابی کی ملکیت میں تھا جن کا نام "رومہ الغفاری" (رضی اللہ عنہ) تھا۔ وہ اس کنوئیں کا پانی فروخت کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول صلى الله عليه وسلم نے اُن سے فرمایا کہ " کیا تم اس کنوئیں کو جنت کے چشمے کے بدلے فروخت کرو گے"۔ انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ میرے پاس اس کے سوا کوئی کنواں ہے نہیں لہذا میں ایسا نہیں کر سکتا۔
اس پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے 35 ہزار درہم کے عوض اس کنوئیں کو خرید لیا۔ اس کے بعد اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا کہ اگر میں اس کنوئیں کو خرید لوں تو کیا میرے لیے بھی جنت کے چشمے کی وہ ہی پیش کش ہو گی جو آپ نے رومہ کو فرمائی تھی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا "ہاں".. اس پر حضرت عثمان نے کہا "میں اس کو مسلمانوں کے واسطے خرید چکا ہوں"۔

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نام سے وقف

اس طرح کی بہت سے باتیں مشہور ہیں کہ کئی لوگوں نے مدینہ منورہ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نام سے مختلف چیزوں کو وقف کر رکھا ہے جن میں ایک ہوٹل اور ایک بینک اکاؤنٹ شامل ہے۔
اس حوالے سے سیرت نبوی اور مدینہ منورہ کے آثاریات کے محقق عبداللہ کابر نے واضح کیا کہ صحابی ِ رسول عثمان بن عفان کے لیے وقف کی نسبت میں معلومات کا خلط ملط ہے۔
کابر کے مطابق حضرت عثمان نے "بئرِ رومہ" کو تمام مسلمانوں کے واسطے روزِ قیامت تک وقف کر دیا۔
بینک میں حضرت عثمان بن عفان کے نام سے اکاؤنٹ کے حوالے سے کابر نے واضح کیا کہ مسجد نبوی شریف کی مشرقی سمت حضرت عثمان کا ایک گھر موجود ہے۔ اس گھر کے پڑوس میں ایک سرائے بھی تھی جو "رباط العجم" کے نام سے معروف تھی۔ اس وقف کے مالکان نے یہ پسند کیا کہ اسے "وقف سیدنا عثمان بن عفان" کا نام دے دیا جائے کیوں کہ یہ سرائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے پڑوس میں تھی۔

کابر نے مزید بتایا کہ " جب سعودی دور میں دوسری توسیع ہوئی تو اس دوران حرمِ نبوی کی مشرقی سمت یہ عمارتیں ختم کر دی گئیں۔ اس موقع پر زرِ تلافی کا بینک میں وقفِ عثمان بن عفان کے نام سے اندراج کیا گیا۔ بینک کے ملازمین یہ گمان کر بیٹھے کہ مذکورہ سرائے کے زرِ تلافی کے طور پر اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی کروڑوں کی رقم وقف عثمان (بئرِ رومہ) کے واسطے ہے"۔
عبداللہ کابر نے مزید بتایا کہ کنواں اب بھی موجود ہے اور وہاں سے ابھی تک میٹھا پانی حاصل ہوتا ہے۔ اس کے گرد کھجوروں کا باغ اور ایک فارم بھی ہے۔



سائن بورڈ پر بنیادی نوعیت کی معلومات

"العربیہ ڈاٹ نیٹ" کی ٹیم کے دورے کے دوران یہ بات پھر سے سامنے آئی کہ بئرِ عثمان ایک اہم زرعی علاقے میں واقع ہے۔ یہ بے توجہی کا شکار ہے جب کہ اس کے گرد علاقے کو متعدد شعبوں میں کام میں لایا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی اس کنوئیں کو ماضی کی حالت پر واپس لا کر ایک اہم سیاحتی مقام بنایا جا سکتا ہے۔
وزارت زراعت نے اس مقام کی بندش کی ہوئی ہے اور کنوئیں کے قریب اس مشہور مقام کے حوالے سے کوئی معلومات دستیاب نہیں سوائے شاہراہ عام پر نصب ایک سائن بورڈ کے جس پر بنیادی نوعیت کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مذکورہ مقام کو مدینہ منورہ کے زائرین کے سامنے سیاحتی مقام کے طور پر پیش کیا جائے اور اس جگہ کو اقتصادی ، سیاحتی ، زرعی اور مذہبی تناظر میں پھر سے زندگی بخشی جائے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ ـ محمد الحربی