کے بارے میں مختلف روایات مشہور ہیں جن میں سے دو درج ذیل ہیں : : April fool
اپریل لاطینی زبان کے لفظ اپریلس
Aprilis
یا اپرائر
Aprire
سے ماخوذ ہے ، جس کا مطلب ہے پھولوں کا کھلنا ، کونپلیں پھوٹنا ، قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر شراب کے دیوتا کی پرستش کرتی اور اسے خوش کرنے کے لیے لوگ شراب پی کر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ۔ یہ جھوٹ رفتہ رفتہ اپریل فول کا ایک اہم حصہ بلکہ غالب حصہ بن گیا
انسائیکلوپیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے ۔ اس دن ہر طرح کی نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے ، اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔
افسوس صد افسوس ! یہ فضول اور فول رسم مسلم معاشرے کا ایک اور لازم حصہ بن چکی ہے ، اور مسلمان اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کی تباہی و بربادی پر خوشی کا دن مناتے ہیں ۔ اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو فول بنا بنا کر ان کو مصیبت و پریشانی میں ڈالتے ہیں
اپریل فول کی دردناک حقیقت
:
جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا ، تو اس وقت اسپین کی زمین پر مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ فاتح فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے ، تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوتی تھیں ۔ جب قابض افواج کو یقین ہو گیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی مسلمان زندہ نہیں بچا ہے تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرمان روا کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ واپس مراکش چلا جائے ، جہاں سے اس کے آباؤ اجداد آئے تھے ۔ قابض فوج غرناطہ سے کوئی بیس کلومیٹر دور ایک پہاڑی پر اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی ۔
جب عیسائی افواج مسلمان حکم رانوں کو اپنے ملک سے نکال چکیں تو پھر حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے شہید کر دیا جائے ، جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسے ، اور وہاں جا کر اپنے گلوں میں صلیبیں ڈال لیں اور عیسائی نام رکھ لیے ۔ اب بظاہر اسپین میں کوئی بھی مسلمان نظر نہیں آ رہا تھا ، مگر اب بھی عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ چھپ کر اور اپنی شناخت چھپا کر زندہ ہیں ۔ اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی تراکیب سوچی جانے لگیں اور پھر ایک منصوبہ بنایا گیا ۔ پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہو جائیں ، تا کہ انہیں ان ممالک میں بھیج دیا جائے جہاں وہ جانا چاہیں ۔ اب چونکہ ملک میں امن قائم ہو چکا تھا ، اور مسلمانوں کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوا ۔ مارچ کے پورے مہینے اعلانات ہوتے رہے ۔ الحمراءکے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کر دئیے گئے ، جہاز آ کر بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے رہے ، مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ جب مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہو گا تو وہ سب غرناطہ میں اکٹھے ہونا شروع ہوئے ۔ اس طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیا اور ان کی بڑی خاطر مدارات کی ۔
یہ کوئی پانچ سوبرس پہلے ، یکم اپریل کا دن تھا ، جب تمام مسلمانوں کو بحری جہاز میں بٹھایا گیا ۔ مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑتے ہوئے بڑی تکلیف ہو رہی تھی مگر اطمینان تھا کہ چلو جان بچ گئی ۔ دوسری جانب عیسائی حکم ران اپنے محلوں میں جشن منانے لگے ۔ جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دئیے ۔ ان مسلمانوں میں بوڑھے ، جوان ، خواتین ، بچے اور کئی مریض بھی تھے ۔ جب جہاز سمندر کے عین وسط میں پہنچے ، تو منصوبہ بندی کے تحت انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا ، اور یوں وہ تمام مسلمان سمندر میں ابدی نیند سو گئے ۔
اس کے بعد اسپین بھر میں جشن منایا گیا کہ ہم نے کس طرح اپنے دشمنوں کو بےوقوف بنایا ۔ پھر یہ دن اسپین کی سرحدوں سے نکل کر پورے یورپ میں فتح کا عظیم دن بن گیا ۔ اور اسے انگریزی میں
First April Fool
کا نام دیا گیا یعنی ” یکم اپریل کے بے وقوف “ آج بھی عیسائی دنیا اس دن کی یاد بڑے اہتمام سے مناتی ہے اور لوگوں کو جھوٹ بول کر بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔ ۔
اس رسم بد کے درج ذیل نقصانات ہیں :
1 دشمنوں کی خوشی میں شرکت کرنا ۔
2 نفاق میں ڈوب جانا ۔
3 جھوٹ بولنا اور ہلاکت پانا ۔
4 اللہ کی ناراضگی پانا ۔
5 مسلمان بہن بھائیوں کی تباہی و بربادی کی خوشی منانا ۔
6 مسلمان بہن بھائیوں کو مشکل و مصیبت میں ڈالنا ۔
7 دنیا و آخرت میں خسارہ ہی خسارہ تباہی ہی تباہی ہے ۔
حافظ راشد منیر تبسم
’’بہترین کلام اللہ کا کلام ( قرآن کریم ) ہے اور بہترین ھدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ھوا دین ہے ۔،،
Tuesday, March 22, 2011
Monday, March 21, 2011
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سائنس کے اعترافات
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سائنس کے اعترافات
( الأحاديث النبوية واعترافات العلم )
بسم الله الرحمن الر حيم
جنین کی نشوونما کے پہلے چالیس دن
ڈاکٹر جولے سمپسن ، ہیوسٹن ( امریکہ ) کے بیلور کالج آف میڈیسن میں شعبہ حمل و زچگی و امراض نسوانی
( Ob-Gyn )
کے چیئرمین اور سالماتی و انسانی توارث کے پروفیسر ہیں ، اس سے پہلے وہ میمفس کی یونیورسٹی آف ٹینٹیسی میں شعبہ ” اوب گائن “ کے پروفیسر اور چیئرمین رہے ، وہ امریکی باروری انجمن کے صدر بھی تھے ۔ 1992ءمیں انہیں کئی ایوارڈ ملے ، جن میں ایسوسی ایشن آف پروفیسرز آف اوب گائن پبلک ریلکنیشن ایوارڈ بھی شامل تھا ۔ پروفیسر سمپسن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل دواحادیث کا مطالعہ کیا
( ان احدکم یجمع خلقہ ، فی بطن امه اربعین یوما )
( صحیح البخاری ، كتاب بدءالخلق ، باب ذکر الملائکۃ ، حدیث : 3208 ، صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیۃ خلق الآدمی ، حدیث : 2643 )
” تم میں سے ہر ایک کی تخلیق کے تمام اجزاءاس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک ( نطفے کی صورت ) میں جمع رہتے ہیں ۔ “
( اذا مر بالنطفۃ اثنتان واربعون لیلۃ ، بعث اللہ الیھا ملکا ، فصورھا وخلق سمعھا وبصرھا وجلدھا ولحمھا وعظامھا )
( صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیۃ خلق الآدمی.... حدیث : 2645 )
” جب نطفہ قرار پائے بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ ایک فرشتے کو اس کے پاس بھیجتا ہے جو ( اللہ کے حکم سے ) اس کی شکل و صورت بناتا ہے ، اور اس کے کان ، اس کی آنکھیں ، اس کی جلد ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے ۔ “
پروفیسر سمپسن ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دوحدیثوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ جنین کے پہلے چالیس دن اس کی تخلیق کے ناقابل شناخت مرحلے پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث میں جس قطعیت اور صحت کے ساتھ جنین کی نشوونما کے مراحل بیان کئے گئے ہیں ان سے وہ خاص طور پر متاثر ہوئے ، پھر ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے اپنے درج ذیل تاثرات پیش کئے ۔
دونوں احادیث جو مطالعے میں آئی ہیں ، وہ ہمیں پہلے چالیس دنوں میں بیشتر جنینی ارتقاء کا متعین ٹائم ٹیبل فراہم کرتی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج صبح دوسرے مقررین نے بھی بار بار اس نکتے کو دہرایا ہے ۔ یہ احادیث جب ارشاد فرمائی گئیں اس وقت کے میسر سائنسی علم کی بنا پر اس طرح بیان نہیں کی جا سکتی تھیں ۔ میرے خیال میں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ صرف جینیات
( Genetics )
اور مذہب کے درمیان کوئی تصادم نہیں ، درحقیقت ، مذہب بعض روایتی سائنسی نقطہ نظر کو الہام سے تقویت پہنچا کر سائنس کی رہنمائی کر سکتا ہے اور یہ کہ قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو صدیوں بعد درست ثابت ہوئے اور جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ قرآن میں دی گئی معلومات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔
انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اذا اکل احدکم من الطعام فلا یمسح یدہ حتی یلعقھا او یلعقھا )
( صحیح مسلم ، الاشربۃ ، باب استحباب لعق الاصابع.... حدیث : 2031 )
” جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ نہ پونچھے یہاں تک کہ اسے ( انگلیاں ) چاٹ لے یا چٹوالے ۔ “
کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیاں پہلے دیا اور اس میں جو حکمت کار فرما ہے اس کی تصدیق طبی سائنسدان اس دور میں کر رہے ہیں ۔
ایک خبر ملاحظہ کیجئے
جرمنی کے طبی ماہرین نے تحقیق کے بعد یہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کے پوروں پر موجود خاص قسم کی پروٹین اسے دست ، قے اور ہیضے جیسی بیماریوں سے بچاتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق وہ بیکٹیریا جنہیں ” ای کولائی “ کہتے ہیں ، جب انگلیوں کی پوروں پر آتے ہیں تو پوروں پر موجود پروٹین ان مضر صحت بیکٹیریا کو ختم کر دیتی ہے ۔ اس طرح یہ جراثیم انسانی جسم پر رہ کر مضر اثرات پیدا نہیں کرتے خاص طور پر جب انسان کو پسینہ آتا ہے تو جراثیم کش پروٹین متحرک ہو جاتی ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ پروٹین نہ ہوتی تو بچوں میں ہیضے ، دست اور قے کی بیماریاں بہت زیادہ ہوتیں ۔
( روزنامہ نوائے وقت 30 جون 2005ء )
ااہل مغرب کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کے فعل کو غیرصحت مند
( Unhigienic )
قرار دے کر اس پر حرف گیری کرتے رہے ہیں ، لیکن اب سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے کہ یہ عمل تو نہایت صحت مند ہے کیونکہ انگلیاں منہ کے اندر نہیں جاتیں اور یوں منہ کے لعاب سے آلودہ نہیں ہوتیں ۔ نیز انگلیوں کے پوروں پر موجود پروٹین سے مضر بیکٹیریا بھی ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس چمچے یا کانٹے سے کھانا کھائیں تو وہ بار بار منہ کے لعاب سے آلودہ ہوتا رہتا ہے اور یہ بے حد غیرصحت مند عمل ہے ، جب اللہ تعالیٰ نے انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین پیدا کی ہے تو ہاتھ سے کھانا اور کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا دونوں صحت مند افعال ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا حدیث میں انہی دو باتوں پر عمل کی تلقین کی گئی ہے ، یعنی
( 1 )
کھانا ہاتھ ( دائیں ) سے کھایا جائے
( 2 )
ہاتھ پونچھنے سے پہلے انگلیاں چاٹی جائیں ۔
دائیں ہاتھ سے کھانے اور اس کے بعد انگلیاں چاٹنے کی اس اسلامی روایت بلکہ سنت کو عربوں نے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے جسے ماضی میں یورپ والے غیر صحت مند عمل ٹھہراتے رہے ، مگر اب انہی کے طبی محققین کی تحقیق کہہ رہی ہے کہ یہ ہرگز مضر عمل نہیں بلکہ عین صحت مند اور فائدہ مند ہے ۔
کتا چاٹ جائے تو برتن کو مٹی سے دھونے کا حکم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
( طھور اناءاحدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولاھن بالتراب )
( صحیح مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279 )
مسلم کی ایک اور روایت میں ہے : فلیرقه اسے چاہئے کہ اس ( میں موجود کھانے یا پانی ) کو بہاد دے ۔ “
( مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279(89) )
ااور ترمذی کی روایت میں ہے
(( اولاھن او اخراھن بالتراب ))
( جامع الترمذی ، باب ما جاءفی سور الکلب ، حدیث : 91 )
” پہلی یا آخری بار مٹی کے ساتھ دھونا چاہئے ۔ “
ااس کی توضیح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام
انگریزی ) میں یوں کی گئی ہے )
یہ واضح رہے کہ کسی چیز کی محض ناپاکی سے صفائی کے لئے اسے سات دفعہ دھونا ضروری نہیں ، کسی چیز کو سات دفعہ دھونے کا فلسفہ محض صفائی کرنے سے مختلف ہے ۔ آج کے طبی ماہرین کہتے ہیں کہ کتے کی آنتوں میں جراثیم اور تقریبا 4 ملی میٹر لمبے کیڑے
ہوتے ہیں جو اس کے فضلے کے ساتھ خارج ہوتے ہیں اور اس کے مقعد کے گرد بالوں سے چمٹ جاتے ہیں ، جب کتا اس جگہ کو زبان سے چاٹتا ہے تو زبان ان جراثیم سے آلودہ ہو جاتی ہے ، پھر کتا اگر کسی برتن کو چاٹے یا کوئی انسان کتے کا بوسہ لے جیسا کہ یورپی ااور امریکی عورتیں کرتی ہیں تو جراثیم کتے سے اس برتن یا اس عورت کے منہ میں منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ انسان کے معدے میں چلے جاتے ہیں ، یہ جراثیم آگے متحرک رہتے ہیں اور خون کے خلیات میں گھس کر کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتے ہیں چونکہ ان جراثیم کی تشخیص خوردبینی ٹیسٹوں کے بغیر ممکن نہیں ۔ شریعت نے ایک عام حکم کے تحت کتے کے لعاب کو فی نفسہ ناپاک قرار دیا اور ہدایت کی کہ جو برتن کتے کے لعاب سے آلودہ ہو جائے اسے سات بار ضرور صاف کیا جائے اور ان میں سے ایک بار مٹی کے ساتھ دھویا جائے ۔
( بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام )
( انگریزی )
مطبوعہ دارالسلام ، صفحہ : 16 حاشیہ : 1 )
مکھی کے ایک پر میں بیماری ، دوسرے میں شفا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ فان فی احدی جناحیہ داء وفی الاخرٰی شفاء ))
( صحیح البخاری ، بدءالخلق ، باب اذا وقع الذباب.... حدیث : 3320 )
” اگر تم میں سے کسی کے مشروب ( پانی ، دودھ وغیرہ ) میں مکھی گر پڑے تو اسے چاہئے کہ اس کو مشروب میں ڈبکی دے ، پھر اسے نکال پھینکے ، کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے تو دوسرے میں شفا ۔ “
ڈاکٹر محمد محسن خاں اس ضمن میں لکھتے ہیں : ” طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے بیان فرمایا جب انسان جدید طب کے متعلق بہت کم جانتے تھے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضوے
( Organisms )
اور دیگر ذرائع پیدا کئے جو ان جراثیم
( Pathogenes )
کو ہلاک کر دیتے ہیں ، مثلاً پنسلین پھپھوندی اور سٹیفائلو کوسائی جیسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے ۔ حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی بیماری ( جراثیم ) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے لہٰذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہئے تا کہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے جو جراثیم کامداوا کرے گا ۔
میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے اس موضوع پر جامعۃ الازہر قاہرہ ( مصر ) کے عمید قسم
الحدیث ( شعبہ حدیث کے سربراہ ) محمد السمحی کو خط بھی لکھا جنہوں نے اس حدیث اور اس کے طبی پہلوؤں پر
ایک مضمون تحریر کیا ہے ۔ اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ماہرین خرد حیاتیات
( Microbiologists )
نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات
( Yeast Cells )
طفیلیوں
( Parasites )
کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لئے مکھی کی تنفس کی نالیوں
( Repiratory Tubules )
میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع میں ڈبوئی جائے تو وہ خلیات نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں ، اور ان خلیات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے ۔
( مختصر صحیح البخاری ) ( انگریزی ) مترجم ڈاکٹر محمد حسن خاں ، ص : 656 حاشیہ : 3 )
اس سلسلے میں ” الطب النبوی صلی اللہ علیہ وسلم لابن القیم “ کے انگریزی ترجمہ
Healing with the Madicine of the Prophet PBUH
طبع دارالسلام الریاض میں لکھا ہے
:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مکھی خوراک میں گر پڑے تو اسے اس میں ڈبویا جائے ، اس طرح مکھی مر جائے گی ، بالخصوص اگر غذا گرم ہو ، اگر غذا کے اندر مکھی کی موت غذا کو ناپاک بنانے والی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پھینک دینے کا حکم دیتےاس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محفوظ بنانے کی ہدایت کی ۔ شہد کی مکھی ، بھڑ ، مکڑی اور دیگر کیڑے بھی گھریلو مکھی کے ذیل میں آتے ہیں ، کیوں کہ اس حدیث سے ماخوذ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم عام ہے ۔ مردہ جانور ناپاک کیوں ہیں ؟ اس کی توجیہ یہ ہے کہ ان کا خون ان کے جسموں کے اندر رہتا ہے ، اس لئے کیڑے مکوڑے یا حشرات جن میں خون نہیں ہوتا وہ پاک ہیں ۔
بعض اطباءنے بیان کیا ہے کہ بچھو اور بھڑ کے کاٹے پر گھریلو مکھی مل دی جائے تو اس شفا کی وجہ سے آرام آ جاتا ہے جو اس کے پروں میں پنہاں ہے ، اگر گھریلو مکھی کا سر الگ کر کے جسم کو آنکھ کے پپوٹے کے اندر رونما ہونے والی پھنسی پر ملا جائے تو انشاءاللہ آرام آجائے گا ۔
( الطب النبوی : 105,104 )
طاعون زدہ علاقے سے دور رہنے کا حکم اور اس کی حکمت
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الطاعون رجز ، ارسل علی بنی اسرائیل ، او علی من کان قبلکم فاذا سمعتم بہ بارض فلا تقدموا علیہ ، واذا وقع بارض
وانتم بھا ، فلا تخرجوا فرارا منہ
( صحیح مسلم ، الطب ، باب الطاعون ، حدیث : 2218 )
” طاعون عذاب ہے ، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر اور تم سے پہلوں پر نازل ہوا ، چنانچہ جب تم سنو کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب وہ اس علاقے میں پھوٹ پڑے جہاں تم مقیم ہو تو فرار ہو کر اس علاقے سے باہر مت جاؤ ۔ “
صحیحین ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( الطاعون شھادۃ لکل مسلم ))
( صحیح البخاری ، الطب ، باب ما یذکر من الطاعون ، حدیث : 5732 )
” طاعون ہر مسلم کے لئے شہادت ہے ۔ “
طبی اصطلاح میں طاعون ایک مہلک گلٹی ہے جو بہت شدید اور تکلیف دہ متعدی عارضہ ہے اور یہ تیزی سے متاثرہ حصے کے رنگ کو سیاہ ، سبز یا بھورے رنگ میں تبدیل کر دیتا ہے پھر جلد ہی متاثرہ حصے کے اردگرد زخم نمودار ہونے لگتے ہیں ۔ طاعون عموماً جسم کے تین حصوں ، بغلوں ، کان کے پیچھے اور ناک پھنک یا جسم کی نرم بافتوں
( Tissues )
پر حملہ کرتا ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا
(( غدۃ ، کغدۃ البعیر یخرج فی المراق والابط ))
( التمھید لابن عبدالبر : 6/212 )
” یہ ایک گلٹی ہے ، جو اونٹ کی گلٹی سے مشابہ ہے اور جو پیٹ کے نرم حصوں اور بغلوں میں نمودار ہوتی ہے ۔ “
اامام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی تصنیف الطب النبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو طاعون زدہ علاقے میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا ہے ، کے زیر عنوان لکھا ہے :
طاعون کے نتیجے میں جسم میں تعدیہ یا عفونت
( Infection )
زخم
( Ulcers )
اور مہلک رسولیاں نمودار ہوتی ہیں ، اطباءاپنے مشاہدے کی رو سے انہیں طاعون کی علامات قرار دیتے ہیں ۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ طاعون کی وبا سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جسم کو مضر رطوبتوں سے نجات پانے میں مدد دی جائے ۔ اسے پرہیزی غذا ملے اور جسم کی خشکی عموماً محفوظ رہے ۔ انسانی جسم میں مضر مادے ہوتے ہیں جو بھاگ دوڑ اور غسل کرنے سے متحرک ہو جاتے ہیں پھر وہ جسم کے مفید مادوں سے مل کر کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں ، اس لئے جب کسی جگہ طاعون حملہ آور ہو تو وہیں ٹھہرنے میں عافیت ہے تا کہ انسان کے جسم میں مضر مادے متحرک نہ ہوں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو طاعون سے متاثرہ علاقے میں نہ جانے یا وہیں ٹھہرنے کا جو حکم دیا ، اس میں بڑی حکمت پنہاں ہے ، اس کا مقصد یہ ہے :
( 1 )
آدمی نقصان اور نقصان کا باعث بننے والی شے سے بچ جائے ۔
( 2 )
اپنی صحت برقرار رکھے ، کیوں کہ ضرورت زندگی کے حصول اور عاقبت کے تقاضے پورے کرنے کا دارومدار اسی پر ہے ۔
( 3 )
آلودہ اور مضر ہوا میں سانس لے کر بیمار نہ پڑ جائے ۔
( 4 )
طاعون سے متاثرہ لوگوں سے میل ملاپ سے احتراز کرے ، تا کہ خود اسے طاعون نہ آئے ۔
( 5 ) جسم اور روح کی چھوت اور توہم سے تحفظ ہو ، جن کا نقصان صرف انہیں ہوتا ہے جو ان پر یقین رکھتے ہوں ۔
غرض یہ کہ طاعون سے متاثرہ علاقے میں داخل ہونے کی ممانعت ایک احتیاطی تدبیر اور ایک طرح کی پرہیزی غذا ہے ، جو انسان کو نقصان کی راہ سے پرے رکھتی ہے ، اور یہ طاعون سے متاثرہ علاقہ چھوڑ کر جانے کا نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور اس کے فیصلوں کے آ گے سرجھکانے کا سبق ہے ۔ پہلا حکم تعلیم و تربیت ہے جب کہ دوسرا تسلیم و اطاعت اور تمام امور اللہ کی رضا پر چھوڑ دینے کا درس
دیتا ہے ۔ ( الطب النبوی ( انگریزی ) کے صفحہ 53 کے حاشےے میں ” ایڈیٹر کا نوٹ “ کے زیر عنوان لکھا ہے : ” ہمارے
مصنف ( ابن قیم ) کے زمانے میں ابھی قرنطینہ کا طبی تصور قائم نہیں ہوا تھا مگر یہ حدیث مصنف سے بھی تقریبا 700 سال پہلے ارشاد ہوئی تھی ۔ اس حدیث نے ایمان کی وساطت سے قرنطینہ نافذ کر دیا تھا ، اگرچہ طب کے علماء کو اس سے متعلق علم کئي صدیوں بعد حاصل ہوا ۔
تاليف
مولانا رحمت الله ندوى
مراجعہ
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
( الأحاديث النبوية واعترافات العلم )
بسم الله الرحمن الر حيم
جنین کی نشوونما کے پہلے چالیس دن
ڈاکٹر جولے سمپسن ، ہیوسٹن ( امریکہ ) کے بیلور کالج آف میڈیسن میں شعبہ حمل و زچگی و امراض نسوانی
( Ob-Gyn )
کے چیئرمین اور سالماتی و انسانی توارث کے پروفیسر ہیں ، اس سے پہلے وہ میمفس کی یونیورسٹی آف ٹینٹیسی میں شعبہ ” اوب گائن “ کے پروفیسر اور چیئرمین رہے ، وہ امریکی باروری انجمن کے صدر بھی تھے ۔ 1992ءمیں انہیں کئی ایوارڈ ملے ، جن میں ایسوسی ایشن آف پروفیسرز آف اوب گائن پبلک ریلکنیشن ایوارڈ بھی شامل تھا ۔ پروفیسر سمپسن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل دواحادیث کا مطالعہ کیا
( ان احدکم یجمع خلقہ ، فی بطن امه اربعین یوما )
( صحیح البخاری ، كتاب بدءالخلق ، باب ذکر الملائکۃ ، حدیث : 3208 ، صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیۃ خلق الآدمی ، حدیث : 2643 )
” تم میں سے ہر ایک کی تخلیق کے تمام اجزاءاس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک ( نطفے کی صورت ) میں جمع رہتے ہیں ۔ “
( اذا مر بالنطفۃ اثنتان واربعون لیلۃ ، بعث اللہ الیھا ملکا ، فصورھا وخلق سمعھا وبصرھا وجلدھا ولحمھا وعظامھا )
( صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیۃ خلق الآدمی.... حدیث : 2645 )
” جب نطفہ قرار پائے بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ ایک فرشتے کو اس کے پاس بھیجتا ہے جو ( اللہ کے حکم سے ) اس کی شکل و صورت بناتا ہے ، اور اس کے کان ، اس کی آنکھیں ، اس کی جلد ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے ۔ “
پروفیسر سمپسن ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دوحدیثوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ جنین کے پہلے چالیس دن اس کی تخلیق کے ناقابل شناخت مرحلے پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث میں جس قطعیت اور صحت کے ساتھ جنین کی نشوونما کے مراحل بیان کئے گئے ہیں ان سے وہ خاص طور پر متاثر ہوئے ، پھر ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے اپنے درج ذیل تاثرات پیش کئے ۔
دونوں احادیث جو مطالعے میں آئی ہیں ، وہ ہمیں پہلے چالیس دنوں میں بیشتر جنینی ارتقاء کا متعین ٹائم ٹیبل فراہم کرتی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج صبح دوسرے مقررین نے بھی بار بار اس نکتے کو دہرایا ہے ۔ یہ احادیث جب ارشاد فرمائی گئیں اس وقت کے میسر سائنسی علم کی بنا پر اس طرح بیان نہیں کی جا سکتی تھیں ۔ میرے خیال میں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ صرف جینیات
( Genetics )
اور مذہب کے درمیان کوئی تصادم نہیں ، درحقیقت ، مذہب بعض روایتی سائنسی نقطہ نظر کو الہام سے تقویت پہنچا کر سائنس کی رہنمائی کر سکتا ہے اور یہ کہ قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو صدیوں بعد درست ثابت ہوئے اور جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ قرآن میں دی گئی معلومات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔
انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اذا اکل احدکم من الطعام فلا یمسح یدہ حتی یلعقھا او یلعقھا )
( صحیح مسلم ، الاشربۃ ، باب استحباب لعق الاصابع.... حدیث : 2031 )
” جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ نہ پونچھے یہاں تک کہ اسے ( انگلیاں ) چاٹ لے یا چٹوالے ۔ “
کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیاں پہلے دیا اور اس میں جو حکمت کار فرما ہے اس کی تصدیق طبی سائنسدان اس دور میں کر رہے ہیں ۔
ایک خبر ملاحظہ کیجئے
جرمنی کے طبی ماہرین نے تحقیق کے بعد یہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کے پوروں پر موجود خاص قسم کی پروٹین اسے دست ، قے اور ہیضے جیسی بیماریوں سے بچاتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق وہ بیکٹیریا جنہیں ” ای کولائی “ کہتے ہیں ، جب انگلیوں کی پوروں پر آتے ہیں تو پوروں پر موجود پروٹین ان مضر صحت بیکٹیریا کو ختم کر دیتی ہے ۔ اس طرح یہ جراثیم انسانی جسم پر رہ کر مضر اثرات پیدا نہیں کرتے خاص طور پر جب انسان کو پسینہ آتا ہے تو جراثیم کش پروٹین متحرک ہو جاتی ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ پروٹین نہ ہوتی تو بچوں میں ہیضے ، دست اور قے کی بیماریاں بہت زیادہ ہوتیں ۔
( روزنامہ نوائے وقت 30 جون 2005ء )
ااہل مغرب کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کے فعل کو غیرصحت مند
( Unhigienic )
قرار دے کر اس پر حرف گیری کرتے رہے ہیں ، لیکن اب سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے کہ یہ عمل تو نہایت صحت مند ہے کیونکہ انگلیاں منہ کے اندر نہیں جاتیں اور یوں منہ کے لعاب سے آلودہ نہیں ہوتیں ۔ نیز انگلیوں کے پوروں پر موجود پروٹین سے مضر بیکٹیریا بھی ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس چمچے یا کانٹے سے کھانا کھائیں تو وہ بار بار منہ کے لعاب سے آلودہ ہوتا رہتا ہے اور یہ بے حد غیرصحت مند عمل ہے ، جب اللہ تعالیٰ نے انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین پیدا کی ہے تو ہاتھ سے کھانا اور کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا دونوں صحت مند افعال ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا حدیث میں انہی دو باتوں پر عمل کی تلقین کی گئی ہے ، یعنی
( 1 )
کھانا ہاتھ ( دائیں ) سے کھایا جائے
( 2 )
ہاتھ پونچھنے سے پہلے انگلیاں چاٹی جائیں ۔
دائیں ہاتھ سے کھانے اور اس کے بعد انگلیاں چاٹنے کی اس اسلامی روایت بلکہ سنت کو عربوں نے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے جسے ماضی میں یورپ والے غیر صحت مند عمل ٹھہراتے رہے ، مگر اب انہی کے طبی محققین کی تحقیق کہہ رہی ہے کہ یہ ہرگز مضر عمل نہیں بلکہ عین صحت مند اور فائدہ مند ہے ۔
کتا چاٹ جائے تو برتن کو مٹی سے دھونے کا حکم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
( طھور اناءاحدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولاھن بالتراب )
( صحیح مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279 )
مسلم کی ایک اور روایت میں ہے : فلیرقه اسے چاہئے کہ اس ( میں موجود کھانے یا پانی ) کو بہاد دے ۔ “
( مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279(89) )
ااور ترمذی کی روایت میں ہے
(( اولاھن او اخراھن بالتراب ))
( جامع الترمذی ، باب ما جاءفی سور الکلب ، حدیث : 91 )
” پہلی یا آخری بار مٹی کے ساتھ دھونا چاہئے ۔ “
ااس کی توضیح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام
انگریزی ) میں یوں کی گئی ہے )
یہ واضح رہے کہ کسی چیز کی محض ناپاکی سے صفائی کے لئے اسے سات دفعہ دھونا ضروری نہیں ، کسی چیز کو سات دفعہ دھونے کا فلسفہ محض صفائی کرنے سے مختلف ہے ۔ آج کے طبی ماہرین کہتے ہیں کہ کتے کی آنتوں میں جراثیم اور تقریبا 4 ملی میٹر لمبے کیڑے
ہوتے ہیں جو اس کے فضلے کے ساتھ خارج ہوتے ہیں اور اس کے مقعد کے گرد بالوں سے چمٹ جاتے ہیں ، جب کتا اس جگہ کو زبان سے چاٹتا ہے تو زبان ان جراثیم سے آلودہ ہو جاتی ہے ، پھر کتا اگر کسی برتن کو چاٹے یا کوئی انسان کتے کا بوسہ لے جیسا کہ یورپی ااور امریکی عورتیں کرتی ہیں تو جراثیم کتے سے اس برتن یا اس عورت کے منہ میں منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ انسان کے معدے میں چلے جاتے ہیں ، یہ جراثیم آگے متحرک رہتے ہیں اور خون کے خلیات میں گھس کر کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتے ہیں چونکہ ان جراثیم کی تشخیص خوردبینی ٹیسٹوں کے بغیر ممکن نہیں ۔ شریعت نے ایک عام حکم کے تحت کتے کے لعاب کو فی نفسہ ناپاک قرار دیا اور ہدایت کی کہ جو برتن کتے کے لعاب سے آلودہ ہو جائے اسے سات بار ضرور صاف کیا جائے اور ان میں سے ایک بار مٹی کے ساتھ دھویا جائے ۔
( بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام )
( انگریزی )
مطبوعہ دارالسلام ، صفحہ : 16 حاشیہ : 1 )
مکھی کے ایک پر میں بیماری ، دوسرے میں شفا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ فان فی احدی جناحیہ داء وفی الاخرٰی شفاء ))
( صحیح البخاری ، بدءالخلق ، باب اذا وقع الذباب.... حدیث : 3320 )
” اگر تم میں سے کسی کے مشروب ( پانی ، دودھ وغیرہ ) میں مکھی گر پڑے تو اسے چاہئے کہ اس کو مشروب میں ڈبکی دے ، پھر اسے نکال پھینکے ، کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے تو دوسرے میں شفا ۔ “
ڈاکٹر محمد محسن خاں اس ضمن میں لکھتے ہیں : ” طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے بیان فرمایا جب انسان جدید طب کے متعلق بہت کم جانتے تھے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضوے
( Organisms )
اور دیگر ذرائع پیدا کئے جو ان جراثیم
( Pathogenes )
کو ہلاک کر دیتے ہیں ، مثلاً پنسلین پھپھوندی اور سٹیفائلو کوسائی جیسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے ۔ حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی بیماری ( جراثیم ) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے لہٰذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہئے تا کہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے جو جراثیم کامداوا کرے گا ۔
میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے اس موضوع پر جامعۃ الازہر قاہرہ ( مصر ) کے عمید قسم
الحدیث ( شعبہ حدیث کے سربراہ ) محمد السمحی کو خط بھی لکھا جنہوں نے اس حدیث اور اس کے طبی پہلوؤں پر
ایک مضمون تحریر کیا ہے ۔ اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ماہرین خرد حیاتیات
( Microbiologists )
نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات
( Yeast Cells )
طفیلیوں
( Parasites )
کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لئے مکھی کی تنفس کی نالیوں
( Repiratory Tubules )
میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع میں ڈبوئی جائے تو وہ خلیات نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں ، اور ان خلیات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے ۔
( مختصر صحیح البخاری ) ( انگریزی ) مترجم ڈاکٹر محمد حسن خاں ، ص : 656 حاشیہ : 3 )
اس سلسلے میں ” الطب النبوی صلی اللہ علیہ وسلم لابن القیم “ کے انگریزی ترجمہ
Healing with the Madicine of the Prophet PBUH
طبع دارالسلام الریاض میں لکھا ہے
:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مکھی خوراک میں گر پڑے تو اسے اس میں ڈبویا جائے ، اس طرح مکھی مر جائے گی ، بالخصوص اگر غذا گرم ہو ، اگر غذا کے اندر مکھی کی موت غذا کو ناپاک بنانے والی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پھینک دینے کا حکم دیتےاس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محفوظ بنانے کی ہدایت کی ۔ شہد کی مکھی ، بھڑ ، مکڑی اور دیگر کیڑے بھی گھریلو مکھی کے ذیل میں آتے ہیں ، کیوں کہ اس حدیث سے ماخوذ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم عام ہے ۔ مردہ جانور ناپاک کیوں ہیں ؟ اس کی توجیہ یہ ہے کہ ان کا خون ان کے جسموں کے اندر رہتا ہے ، اس لئے کیڑے مکوڑے یا حشرات جن میں خون نہیں ہوتا وہ پاک ہیں ۔
بعض اطباءنے بیان کیا ہے کہ بچھو اور بھڑ کے کاٹے پر گھریلو مکھی مل دی جائے تو اس شفا کی وجہ سے آرام آ جاتا ہے جو اس کے پروں میں پنہاں ہے ، اگر گھریلو مکھی کا سر الگ کر کے جسم کو آنکھ کے پپوٹے کے اندر رونما ہونے والی پھنسی پر ملا جائے تو انشاءاللہ آرام آجائے گا ۔
( الطب النبوی : 105,104 )
طاعون زدہ علاقے سے دور رہنے کا حکم اور اس کی حکمت
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الطاعون رجز ، ارسل علی بنی اسرائیل ، او علی من کان قبلکم فاذا سمعتم بہ بارض فلا تقدموا علیہ ، واذا وقع بارض
وانتم بھا ، فلا تخرجوا فرارا منہ
( صحیح مسلم ، الطب ، باب الطاعون ، حدیث : 2218 )
” طاعون عذاب ہے ، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر اور تم سے پہلوں پر نازل ہوا ، چنانچہ جب تم سنو کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب وہ اس علاقے میں پھوٹ پڑے جہاں تم مقیم ہو تو فرار ہو کر اس علاقے سے باہر مت جاؤ ۔ “
صحیحین ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( الطاعون شھادۃ لکل مسلم ))
( صحیح البخاری ، الطب ، باب ما یذکر من الطاعون ، حدیث : 5732 )
” طاعون ہر مسلم کے لئے شہادت ہے ۔ “
طبی اصطلاح میں طاعون ایک مہلک گلٹی ہے جو بہت شدید اور تکلیف دہ متعدی عارضہ ہے اور یہ تیزی سے متاثرہ حصے کے رنگ کو سیاہ ، سبز یا بھورے رنگ میں تبدیل کر دیتا ہے پھر جلد ہی متاثرہ حصے کے اردگرد زخم نمودار ہونے لگتے ہیں ۔ طاعون عموماً جسم کے تین حصوں ، بغلوں ، کان کے پیچھے اور ناک پھنک یا جسم کی نرم بافتوں
( Tissues )
پر حملہ کرتا ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا
(( غدۃ ، کغدۃ البعیر یخرج فی المراق والابط ))
( التمھید لابن عبدالبر : 6/212 )
” یہ ایک گلٹی ہے ، جو اونٹ کی گلٹی سے مشابہ ہے اور جو پیٹ کے نرم حصوں اور بغلوں میں نمودار ہوتی ہے ۔ “
اامام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی تصنیف الطب النبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو طاعون زدہ علاقے میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا ہے ، کے زیر عنوان لکھا ہے :
طاعون کے نتیجے میں جسم میں تعدیہ یا عفونت
( Infection )
زخم
( Ulcers )
اور مہلک رسولیاں نمودار ہوتی ہیں ، اطباءاپنے مشاہدے کی رو سے انہیں طاعون کی علامات قرار دیتے ہیں ۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ طاعون کی وبا سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جسم کو مضر رطوبتوں سے نجات پانے میں مدد دی جائے ۔ اسے پرہیزی غذا ملے اور جسم کی خشکی عموماً محفوظ رہے ۔ انسانی جسم میں مضر مادے ہوتے ہیں جو بھاگ دوڑ اور غسل کرنے سے متحرک ہو جاتے ہیں پھر وہ جسم کے مفید مادوں سے مل کر کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں ، اس لئے جب کسی جگہ طاعون حملہ آور ہو تو وہیں ٹھہرنے میں عافیت ہے تا کہ انسان کے جسم میں مضر مادے متحرک نہ ہوں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو طاعون سے متاثرہ علاقے میں نہ جانے یا وہیں ٹھہرنے کا جو حکم دیا ، اس میں بڑی حکمت پنہاں ہے ، اس کا مقصد یہ ہے :
( 1 )
آدمی نقصان اور نقصان کا باعث بننے والی شے سے بچ جائے ۔
( 2 )
اپنی صحت برقرار رکھے ، کیوں کہ ضرورت زندگی کے حصول اور عاقبت کے تقاضے پورے کرنے کا دارومدار اسی پر ہے ۔
( 3 )
آلودہ اور مضر ہوا میں سانس لے کر بیمار نہ پڑ جائے ۔
( 4 )
طاعون سے متاثرہ لوگوں سے میل ملاپ سے احتراز کرے ، تا کہ خود اسے طاعون نہ آئے ۔
( 5 ) جسم اور روح کی چھوت اور توہم سے تحفظ ہو ، جن کا نقصان صرف انہیں ہوتا ہے جو ان پر یقین رکھتے ہوں ۔
غرض یہ کہ طاعون سے متاثرہ علاقے میں داخل ہونے کی ممانعت ایک احتیاطی تدبیر اور ایک طرح کی پرہیزی غذا ہے ، جو انسان کو نقصان کی راہ سے پرے رکھتی ہے ، اور یہ طاعون سے متاثرہ علاقہ چھوڑ کر جانے کا نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور اس کے فیصلوں کے آ گے سرجھکانے کا سبق ہے ۔ پہلا حکم تعلیم و تربیت ہے جب کہ دوسرا تسلیم و اطاعت اور تمام امور اللہ کی رضا پر چھوڑ دینے کا درس
دیتا ہے ۔ ( الطب النبوی ( انگریزی ) کے صفحہ 53 کے حاشےے میں ” ایڈیٹر کا نوٹ “ کے زیر عنوان لکھا ہے : ” ہمارے
مصنف ( ابن قیم ) کے زمانے میں ابھی قرنطینہ کا طبی تصور قائم نہیں ہوا تھا مگر یہ حدیث مصنف سے بھی تقریبا 700 سال پہلے ارشاد ہوئی تھی ۔ اس حدیث نے ایمان کی وساطت سے قرنطینہ نافذ کر دیا تھا ، اگرچہ طب کے علماء کو اس سے متعلق علم کئي صدیوں بعد حاصل ہوا ۔
تاليف
مولانا رحمت الله ندوى
مراجعہ
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
Thursday, March 10, 2011
اللہ کو راضی کر لو
اللہ کا تعارف
میرےمحترم بھائیوں اور دوستو! اللہ تعالٰی اس کائنات کا تنہا خالق وحدہ لا شریک اور مالک بھی ہے۔ اللہ اپنی زات میں ابتدا سےپاک ہے۔ اللھم انت الا ول فلیس قبلک شئی الاول بلا بدایہ ۔
اللہ وہ ذات ایسا اول ایسا پہلا جس کی ابتدا کوئی نہیں ابتداءتک دیکھنا چاہیں۔ آخر آخر کوئی سرا نظر نہیں آتا۔ وہ آکر بھی ہےدائم بھی۔ بلا انتہا اس کی انتہائی کوئی نہیں۔ کہیں جا کر اس کا آخری کنارہ کوئی نہیں۔ تو اللہ وہ ذات ہےکہ جو دوکان میں سماتا ہےنہ مکان میں، ماضی حال مستقبل کی بندشوں میں بندھا ہوا ہےنہ اسےزمین کی ضرورت ہےنہ آسمانوں کی ضرورت ہی۔ نہ انسانوں کا محتاج، نہ فرشتوں کا محتاج، نہ نبیوں اور رسولوں کا محتاج، نہ جنت اور جہنم کا محتاج، اپنی ذات میں اپنی بقاءکےلئےنہ کھانےکا محتاج نہ پینےکا محتاج ، تھکن سےپاک، نیند سےپاک، اونکھ سےپاک، غفلت سےپاک بیوی سےپاک ، اولاد سےپاک رشتوں سےپاک، وزارت مشاورت سےپاک، اکیلا تن تنہا اتنےبڑےنظام کا خالق مالک علم قدرت اتنا کامل اتنی پھیلی ہوئی کائنات جلتی ہوئی اڑتی ہوئی تیرتی ہوئی سےذرہ برابر نہ غافل ہےاور نہ جاہل ہی۔ ایک دور تھا اس کائنات اور اس دھرتی پہ ایسا تھا کہ کچھ نہ تھا۔ اس سےاگلا دور آیا اس نےزمین کو بچھانا شروع کر دیا۔ ولارض مددنھا زمین بچھائی۔ والارض فرشنھا فنعم الماھدون۔ اللہ نےفرمایا میں نےفرش بچھایا کوئی میرےجیسا ہےجو بنا کےدکھا دے۔
قدرت الٰہی کےکر شمے
بنانےمیں اللہ کی قدرت یہ ہےکہ ایک ذرہ مٹی کا نہ تھا اور یہ زمیں اتنا بڑا گولہ مٹی کا بنایا۔ ایک پتھر نہیں تھا اتنےبڑےبڑےپہاڑ بنائے۔ ایک تنکا نہ تھا کیسےکیسےدرخت اگائے۔ ہوا کا ذرہ نہ تھا ٹھنڈی اور گرم ہوائوں کا نظام چلایا۔ بادل کا کوئی ذرہ نہ تھا کوئی وجود نہ تھا، ایسےکالےاور سفید سرخ بادل بنائےاور پانی کا قطرہ نہ تھا درہا چلائےسمندر بنائےچشمےپیدا فرمائی۔ میٹھا پانی بنایا کڑوا پانی بنایا۔ ھٰذا عذب فرات وھٰذا ملح اجاج یہ میٹھا پانی، یہ کروا پانی۔ بینھما بر زخ لا یبغیٰن۔ درمیان میں پردہ لگا دیا نہ میٹھا پانی کڑوےمیں جائےنہ کڑوا پانی میٹھےمیں جا سکی۔ یہ ایک ایسا نظام ہی۔ جو اللہ تعالٰی نےپیدا فرمایا۔ رفع السمٰوٰت۔ آسمان بلند کر دئئ الشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ۔ سورج چاند ستاروں کا نظام بنایا اور چلایا ان سب کو اپنا غلام بنایا۔یغشی الل النھار دن اور رات کا نظام چلا یا۔ دن کو اجالا دیا رات کو اندھیرا دےدیا، ستاروں کو نیلاہٹ دےدی چاند کو روشنی دےدی۔ سورج کو اجالا، آگ کو تپش اور حرارت دےدی۔ زمین کو گردش دےدی پانی کو چلنا دےدیا پہاڑوں کو ٹھہرائو دےدیا۔ ہوائوں کو گرم اور ٹھنڈا لطیف بنایا۔ آسمانوں کو بلند کردیا زمین کو پست کر دیا فرشتوں کو نور بنایا، ہمیں خاک سےبنایا جنات کو آک سےبنایا ساری کائنات کےاتنےبڑےنظام بنائےاور چلائی۔ان میں اللہ نہ تھکا، نہ غافل ہوا، نہ خطا کھائی۔
صرف ایک نظام کو ہی لےلو۔ مور کےانڈےسےمرغی نہ نکلی، مرغی کےانڈےسےکوئل نہ نکلی۔ کوئل کےانڈےسےکوا نہ نکلا،کوےکےانڈےسےفاختہ نہ نکلی فاختہ کےانڈےسےمگرمچھ نہ نکلا مگر مچھ کےانڈےسےکچھوا نہ نکلا کچھوےکےانڈےسےمچھلی نہ نکلی مچھلی کےانڈےسےمچھر نہ نکلا، مچھر کےانڈےسےمکھی نہ نکلی، مکھی کےانڈے سےپسو نہ نکلا۔ دنیا میں کتنی کائنات ہےجو انڈےدےرہی ہےکبھی اللہ خطا کھا جاتا ، تو مور کےانڈےسےشتر مرغ نکلتا شتر مرغ کےانڈےسےمرغابی نکلتی مرغابی کےانڈےسےکوا نکلتا اوہو! میں بھول ہی گیا۔ کھرب ہی کھرب انڈےبکھرےپڑےہیں ایک مادہ مچھر کئی ہزار انڈےدےدیتی ہےایک شہدکی مادہ مکھی تیس ہزار انڈےدےدیتی ہےاور ان سےکیا نکالنا ہےنر یا مادہ اور اس نےکیا بننا ہےاس انڈےکو انسان کو کھانا ہےکہ اس سےبچہ نکالنا ہی، مرغی نکلنی ہےمر غا نکالنا ہی۔ یہ اللہ کا نظام تخلیق ہےبغیر کسی چیز کےسب کچھ بنایا یہ نطام بھی بنایا اور پھر ہمیں بھی بنایا سارےدنیا کےنظام کو تو قابو کرکےدکھایا اور ہمیں تھوڑی سی آزادی دےدی۔
امتحان کی گھڑی
اللہ نےکہا تم کو آزادی دےرہا ہوں موت تک پھر تم سےنبٹ لونگا۔ سنفرغ لکم ایھا الثقلٰن۔ تمھاری مرضی ہے ان ٹھندی ہوائوں کو محسوس کرکےمیر ا شکر ادا کرو، یا ان ٹھنڈی ہوائوں میں مست ہو کر گانےکی محفلیں سجائو۔ میں دیکھوںگا دونوں کو مگر فیصلہ کروں گا فیصلےکےدن۔ یہ نہیں کہ ہم اللہ کی طاقت سےباہر ہو گئےہیں۔ یہ سورج زمین سےبارہ لاکھ گنا بڑا ہےنو کروڑ تیس لاکھ میل کےفاصلےپر ہی۔ چھ سو سولہ ارب ٹن ہائیڈروجن کو اللہ تعالٰی ایک سیکنڈ میں چھ سو بارہ ارب ٹن ملیم گیس سےتبدیل کرتا ہی۔ جس کی حرارت اتنی زیادہ ہےکہ پانچ کروڑ ہائیڈروجن بم اکٹھےپھٹیں تو ان سےجتنی آگ اور حرارت پیدا ہوتی ہےاتنی سورج ایک سیکنڈ میں پھینک رہا ہے۔
جو اللہ سورج جیسی آگ کو قابو میں کرےاور اس کےپانچ کروڑ ہائیڈروجن بموں جتنی آگ کو کنٹرول کرےاور زمین کی طرف جب وہ آگ سفر شروع کرےتو اس کا بیس کروڑواں حصہ نیچےپہنچےاور باقی سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائے۔
جو اللہ اتنی طاقت رکھتا ہو کہ زمین ، سورج کےگرد گھومی، ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سےہماری جو گولی پستول سےیا کاشنکوف سےنکلتی ہےاس کی رفتار کوئی اٹھارہ سو کلو میٹرفی گھنٹہ ہے
توجو زمین اتنی تیز گھومےکبھی اللہ نےآپ کو چکر آنےدئے؟۔ کبھی آپ کےشہر کو الٹنےدیا؟۔ کبھی پہاڑوں کو الٹنےدیا؟۔ اتنی تیز رفتار گھومنےوالی چیز جس کی رفتار گولی کی رفتار کےقریب ہےاس کو قابو کرنا مشکل ہےیا ہمیں (انسان) کو قابو کرنا مشکل ہے۔ پھر زمین سورج کےگرد ساڑےانیس کروڑ میل کےدائرےمیں گھومتی ہے۔ سورج بھی گھوم رہا ہےزمین بھی گھوم رہی ہے۔ سورج کی رفتار چھ لاکھ میل فی گھنٹہ ہے۔ زمین کی رفتار ساٹھ ہزار میل فی گھنٹہ ہےاور ہر اٹھارہ میل کےبعد دو اشاریہ آٹھ ملی میٹر سورج سےہٹ جاتی ہی۔ ملی میڑ کتنا ہوتا ہے۔ ایک سینٹی میٹر کا ہزارواں حصہ ۔ ہر سال زمیں پیچھےہٹ رہی ہےسورج آگےدوڑ رہا ہےان میں فاصلہ پانچ سو ملین میل ہر سال بڑھتا جارہا ہے۔ سورج بھی دوڑ رہا ہےزمیں بھی دوڑ رہی ہےیہ زمین ہر سال دو اشاریہ آٹھ ملی میٹر سورج سےہٹتی ہےیہ اگر دو اشاریہ پانج ملی میٹر ہےیعنی تین مائکرو میٹر ہزارواں حسہ ملی میٹر کا مائکرو میٹر ہوتا ہی۔ تو یہ زمین تین مائکرو میٹر زیادو ہٹ جائےسورج سےیا کم ہٹ جائے۔ تین مائکرو میٹر تو نظر بھی نہیں آتا بہت بڑی دور بین لگا کر دیکھا جائےتو تب جا کر نظر آجائےگا، تو تین مائکرو میٹر کی کمی زیادتی چند ہفتوں کےاندر ساری کائنات کو تباہ و برباد کر سکتی ہے۔
اللہ کا علم کامل
تو میرےبھائیو! یہ بارش ہو رہی ہےیہ قطرےگر ہرےہیں۔ تقریبا بارہ سو میٹر اونچا بادل ہوتا ہےجو بارش بر ساتا ہےان بارش کےقطروں کا حجم اور وزن ہےاس وزن و حجم کی کسی چیز کو اگر بارہ سو میٹر کی بلندی سےنیچےپھینکا جائےتو اس کی رفتار ہوگی پانچ سو اٹھاون کلو میٹر فی گھنٹہ۔ جو قطرےآپ پر برس رہےہیں اب یہ سامنےآپ کو نظر آرہےہیں ان کی زمین پر آنےکی رفتار ہےدس سےبارہ کلو میٹر فی گھنٹہ اللہ اس پانی کےقطرےکو ایسی شکل دیتا ہےکہ جس سےاس کی رفتار ٹوٹتی ہےپھر ہوا میں اللہ نےایسےمادےرکھےہیں جو اس سےرگڑ کھاتےہیں اور اس کی رفتار کو توڑتےہیں ۔ جب یہ قطرہ زمین کو چومتا ہےتو اس کی رفتار دس سےبارہ کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہی۔ اگریہ رفتار دس بارہ کلو میٹر کی بجائےسو کلو میٹر ہو جائےتو۔ نہ کوئی سر سلامت رہےگا نہ کوئی چھت سلامت رہےگی، نہ کوئی پہاڑ سلامت رہےگا۔ نہ کوئی سڑک سلامت رہے۔ نہ کوئی انسان سلامت رہے۔
اب زمین پر جتنی بھی بارش ہو رہی ہےاس کی رفتار کو کنٹرول کرنا ایک ایک قطرےکو کنٹرول کرنا یہ رب کا کام ہی۔ یہ ہےمیر ا اور آپ کا رب جو اتنا کچھ کر کےنہ تھکتا ہےنہ چوکتا ہے( چوکنا یعنی غلظی کرنا) پھر یہ کتنےقطرےبرس رہےہیں کون جانتا ہے؟ اللہ فرماتا ہے۔ یعلم عدد قطر الامطار میں تمھارا رب ہوں جو بارش کےسارےقطروں کی تعداد کو جانتا ہوں۔
تو میرےبھائیو! یہ سب نظام اس بادشاہ نےبنایا ہےاسی نےچلایا اس پر قابو رکھا۔ کیا وہ ہمیں نہیں قابو کر سکتا؟ کہ دنیا میں کوئی نا فرمانی نہ کرے۔ کوئی عورت بےپردہ نہ پھرے، کوئی نوجوان مستی نہ کرے، کسی ہوٹل میں شراب نہ پی جائے، کہیں زنا نہ ہو۔ کہیںجوا نہ ہو۔کوئی بےنمازی نہ ہو، کیا مشکل ہےاللہ کےلئے؟
ا ءنتم اشد خلقا ام السمآئ۔ ترجمہ تو یہ ہی۔ کہ تمھارا بنانا مشکل ہےیا آسمان کا بنانا مشکل ہی۔ لیکن اللہ کہ رہا ہے؟ تمھیں قابو کرنا مشکل ہےیا آسمان کو قابو کرنا مشکل ہے؟ تمھیں قابو کرنا زیادہ مشکل ہےیا آسمان کو قابو کرنازیادہ مشکل ہے؟
بنا ھا میں نےاس کو بنایا۔ رفع سمکھا چھت کو اٹھایا۔فسواھا برابر کیا۔ و اغطش لیلھا رات کو لایا و اخر ج ضحھا دن کو لایا۔
والارض بمد ذلک دحھا زمین کو بچھایا۔ اخرج منھا ماءھا ومرعٰھا زمین سےپانی نکالا چارا نکالا۔ والجبال ارسٰھا پہاڑوں کو گاڑا۔ متاعالکم والانعامکم تمھارےلئےاور تمھارےجانوروں کےلئے۔جو اللہ پہاڑوں کو گاڑ کےقابو رکھی۔ بارش کےقطروں پر اپنی طاقت کو ظاہر کرکےدکھائے۔ آسمان جیسی بڑی مخلوق کو قابو کر کےدکھائے۔ وہ اس چھ فٹ کےآدمی کو کیسےقابو نہیں کر سکتا؟
لمحہ فکریہ
تو میرےبھائیو! ہمارےلئےامتحان ہےبڑا زبردست بڑا خوفناک ہمارےایک ایک قول فعل پر اللہ کی نظر ہےاور ایک دن ایسا آنےوالا ہےجب اللہ ہمیں اپنےسامنےکھڑا کر دیگا۔ بتائو آسمان کو قابو کرنا مشکل ہےیا انسان کو؟ یہ اللہ پاک ہمیں متوجہ فرما رہا ہے۔ قل کل یعمل عٰلی شاکلتہ۔ کہ کرو کرو راستےکھلےہوئےہیں ۔ گناہوں کےبھی، اچھائی کےبھی ، برائی کےبھی ، ایمان کےبھی ، کفر کےبھی ، سارےراستےکھلےہوئےہیں ۔ تمھیں اختیار دےدیا ہے جو چاہےایما ن لائےاور جو چاہےکفر اختیار کرے۔ فمن شاءفلیومن و من شاءفلیکفر لیکن یہ بتایا کہ: لاتحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون۔ کہ اپنےرب کو غافل مت سمجھو وہ غافل نہیں ہے۔ تو میرےبھائیو! ہم موت سےپہلےپہلےاپنےآپ کو غفلت سےنکالیں اور ساری دنیا کےانسانوں کو بھی غفلت سےنکالیں کیونکہ ہمارا مسئلہ صرف اپنی ذات کےساتھ متعلق نہیں ہے۔ ساری دنیا کےانسانوں کا مسئلہ ہےاور خاص طور پر اس امت کا مسئلہ ہےجب اکثریت میں نا فرمانی آئےگی تو عذاب کےدروازےکھلیں گےاو جب اکثریت میں فرمانبرداری آئےگی تو اللہ پاک کےرحم و کرم سےفضل کےدروازےکھلیں گے۔ اسی لیےہم ہی عرض کر ہےہیں کہ بھائیو! اپنی ذات کےلئےبھی توبہ کریں اور لوگوں سےبھی توبہ کروائیں۔ اپنےشہر کا ماحول ایسا بنائیں کہ کوئی بھی یہاں آ کر گناہ کی جرات نہ کر سکے۔
انسان محتاج ہے
میرےبھائیو! اور دوستو! انسان کمزور ہے ۔ خلق الانسان ضعیفا۔ یہ سہاروں کےبغیر چل نہیں سکتا ۔ جسم کےنظام کےلئےغذا کا، پانی کا اور ہوا کا محتاج ہے۔ ضروریات زندگی پورا کرنےکےلئےساری کائنات کا محتاج ہے۔ ایک ایک چیز سےاس کی ضروریات وابستہ ہیں۔ اتنا کوئی بھی محتاج نہیں ہےجتنا انسان محتاج ہے۔ جانور، پتنگے، پرندےان کی کیا ضرویات ہیں کچھ نہیں، بہت تھوڑی ، جو تھوڑی دیر میں ہی پوری ہو جاتی ہیں ۔ لیکن انسان قدم قدم پر محتاج ہےپھر جتنا مالدار بنتا جاتا ہےانتا محتاج ہوتا جاتا ہی۔ جتنا عہدوں میں ترقی کرتا ہےاتنا وہ محتاج ہوتا جاتا ہے۔
ایک آدمی اپنی ضروریات پوری کرنےکےلئےہزاروں آدمیوں کا محتاج بنتا ہےچاہےوہ جھاڑو دینےوالا ہےیا کسی ملک کا صدر اور بادشاہ ہےیا بازار میں ریڑی لگاتا ہے۔ انسان کمزور ہے۔ یاایھاالناس انتم الفقرآئ۔ اےانسانوں! تم فقیر ہو اور محتاج ہو ۔اب مشکل یہ ہےکہ جن سےہم امیدیں رکھتےہیں وہ بھی ہماری طرح محتاج ہیں۔ ہماری طرح ان میں طمع ہے، ہماری طرح لالچ ہے، ہماری طرح ان کی بھی ضروریات ہیں اور انسان میں اپنی ضروریات کو پورا کرنےکا جذبی بھی ہےلہٰذا جب محتاج نےمحتاج پر سہارا کیا ، کمزور نےکمزور پر اعتماد کیا تووہ بنیاد ٹوٹ گئی، عمارت ٹوٹ گئی کھنڈر بن گئی ۔
پہلا سبق
تو سب سےپہلا سبق جو اللہ تعالٰی نےمسلمانوں کو سکھاتا ہےوہ ہے لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ۔ یہ پہلا سبق اللہ دیتا ہےاور سارےنبیوں کی پہلی دعوت یہی ہےکہ تم اس کائنات میں اللہ جیسا نہیں پا سکتی۔ لیس کمثلہ شی۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا تم اللہ کو اپنےساتھ لےلو اور اس کےسامنےہر ضروریات رکھنےکی عادت بنالو اور اس کےمحتاج بن جائو ( جو کسی کا محتاج نہیں)تو وہ تمھاری دنیا اور آخرت کی ساری ضرورتوں کو پورا کر دے گا ۔
اللہ کےساتھ اپنا تعلق بنائو
لیکن اس کےلئےشرط یہ ہےکہ اس کےساتھ تعلق قائم کیا جائے۔ اور وہ تعلق قائم کیسےہوگا؟ یہ جتناتبلیغ کا کام ہو رہا ہےیہ اللہ تعالٰی ساتھ تعلق کو ٹھیک کرنےکی محنت ہو رہی ہے، اگر کسی سےتعلق بنانا ہو تو کتنا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ صرف تھانیدار یا ایس پی ہے یا کمشنر یہ سارےچھوٹےچھوٹےآفیسر ہیں ان سےاگر تعلق بنانا ہو تو کس طرح آدمی گردش کرتا ہے، راستےتلاش کرتا ہے، خوشامد کرتا ہے۔ جھوٹ سچ ان کےسامنےبولتا ہے تب جا کر ان سےتعلق قائم ہوتا ہےتو اللہ سےتعلق پیدا کرنا جو زمین اور آسمان کا بادشاہ ہے، ان سب سےآسان ہےجتنےآپ انسان سےتعلق قائم کرنےمیں تھکتےہیں۔ اس سےکم اللہ تعالٰی سےتعلق قائم کرنےمیں تھکا جائےتو سارے مسئلےحل ہو جائیں ۔ اللہ تعالٰی سےتعلق قائم کرنےکی ضرورت ہے دنیا والوں سےتو یہ معاملہ ہےکہ نہیں ۔ ہمیںروٹی کی ضرورت ہےتو جس پر امید ہےوہ بھی روٹی کھاتا ہےاور ہمیں خوف سےامن کی ضرورت ہےاور جس پر ہماری امید ہےوہ خود بھی خوفزدہ ہے۔ ہماری طمع ہےکہ دولت بڑھ جائےاور جن لوگوں سےہم دولت نکالنا چاہتےہیں ان میں بھی طمع لالچ ہےکہ ہماری دولت اور مال بڑھ جائےاور ہم اپنےگھر کو روشن کر نا چاہتےہیں۔اور جن جن راستوں سےہم کوششیں کر رہےہیں جن کی جیبوں سےروپےنکال رہےہیں وہ خود بھی چاہتےہیں کہ ہمارےبھی محل کھڑےہو جائیں ۔
لیکن اگر ہم اللہ سےتعلق قائم کر لیں تو اللہ تعالٰی کسی ایک بھی چیز کا محتاج نہیں، نہ وہ کھائے ،نہ پئے ، نہ سوئےنہ تھکےنہ وہ پریشان ہو اور نہ اس کےخزانوں میں کوئی کمی آئے۔ کائنات کےاس نظام کو چلا کےنہیں تھکا کہ یہ کہنےلگےکہ میں تھک گیا ہوں اب کل دربار لگےگا ہم اپنی اپنی ضرورتیں اس کےپاس لےکر آئیں گےکیونکہ نہ سوتا ہے نہ گھبراتا ہے نہ جاہل ہے نہ عاجز ہے بلکہ وہ غالب ہے غیرالمغلوب اس پر کوئی غالب نہیں سب پر اس کی طاقت چھائی ہوئی ہے اس سےطاقت ور کوئی نہیں جو اس پر چھا جائے۔ وہ جائر ہے مجبور نہیں وہ غیرالمخلوق ہے وہ خالق ہے محلوق نہیں
مالک غیر الملوک، وہ مالک ہےمملوک نہیں ۔ ناصر غیر المنصور ، وہ مدد کرتا ہےمددکا محتاج نہیں۔ حافظ غیر محفوظ وہ حفاظفت کرتا ہےاپنی حفاظت کراتا نہیں ۔
رب غیر مربوب وہ پالتا ہےاور پرورش کرتا ہےاور خود اپنی پرورش میں کسی کا محتاج نہیں۔ شاہد غیر مشہور، وہ سب کو دیکھتا ہےاس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ،
سب چیزیں اس کی نظروں میں ہیں ۔ لا تدرکہ الابصار ۔ اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں ۔ وھو یدرک الا بصار۔ ہم سب کو دیکھتا ہے۔ کتنی دور ہے۔ لا تراہ العیون۔ آنکھ نہیں دیکھ سکتی ۔ آنکھ تو ستارےبھی نہیں دیکھ سکتی ، اللہ کو کیسےدیکھ سےگی۔ ولا تخالطوہ الظنون ۔ دنیا میں انسانی خیال سب سےتیز رفتار سواری ہے۔ تو اللہ تعالٰی تک خیال بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ ساری دنیا کےانسانوں کےخیالوں کو اکھٹا کیا جائے تو وہ ان سےبھی اوپر ہے۔ خیال کی پرواز تخیل کی پرواز اڑتےاڑتےتھک جائےاور اللہ کو نہ پہنچ سکے۔ ولا یصفوہ الواصفون۔ سارا جہاں مل کر اس کی تعریف کرنا چاہے۔ تو سب مل کر اس کی تعریف نہ کرسکیں ۔ اتنےدور اور اتنا اونچا ہےلیکن اس کی عجیب صفت ہی۔ بل ھواقرب الیہ من حبل الورید۔ یہاں پر دو متضاد چیزیں آپس میں مل گئی ہیں دو ناممکن ، ممکن ہو گئےاتنا دور اتنا دور ہےکہ خیالات بھی اس تک نہ پہنچ سکے، اور اتنا زیادہ قریب ہےکہ شہ رگ سےبھی زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ پھر اس کی فوقیت اور اوپر ہونا۔ فویتہ ما اکثر ملکہ کما اعلٰی مکانہ ۔ کیا عظیم الشان اس کی ملک ہےاعلٰی اس کا مکان ہے۔ ما اعظم شانہ ۔ کیا عظیم اس کی شان ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ یا اللہ سب کچھ تیرا ہے ملک تیرا ہے کبریا ئی تیری جبروت تیری قدرت تیری جمال و جلال تیرا ۔ اس ذات کو ہم ساتھ لےلیں تو کام بن گیا۔ پھر وہ ایسا بادشاہ ہےجو کسی کا محتاج نہیں دنیا کےبڑےبڑےبادشاہ سب محتاج ہیں اسمبلیاں پاس کریں سینٹ پاس کریں تب کہیں جا کےان کا حکم چلےپھر ان کےخلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہوجائےتو کرسی الٹ جائے۔ لیکن اللہ تعالٰی ایسا بادشاہ نہیں ہے۔ احد اکیلا صمد بےنیاز الملک لا شریک لہ اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں اس کا کوئی مثل نہیں ۔ العالی اونچا لا ثانیہ اس کےبرابر کوئی نہیں ۔وہ غنی ہےاس کا مدد گار کوئی نہیں ۔ اسکو کسی چیز سےنفع نہیں پہنچتا ۔ اسےکوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اس پر کوئی غالب نہیں۔ اسکو کوئی چیز تھکاتی نہیں ۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ اس سےپہلےکچھ نہیں اسکےبعد کچھ نہیں ۔ کوئی چیز اس سےاوپر نہیں کوئی چیز اس سےچھپی ہوئی نہیں۔ اگر ایسا بادشاہ ہماری پشت پر آجائےتو ہم سےطاقت ور دنیا میں کون ہوگا۔ ہم سےبڑا عزت والا کون ہوگا؟ آج ساری دنیا میں غلط ذہین بن گیا ہےکہ پیسہ ہوگا تو کام چلےگا پیسہ نہیں ہوگا تو کام نہیں چلےگا۔
میرےبھائیو! ہم پوری دنیا کو بتائیں کہ اللہ ساتھ ہوگا تو کام چلیں گےاور اللہ ساتھ نہیں ہوگا تو کام نہیں چلیں گےاور بعض کہتےہیں کہ بہت سارےکام چلتےہیں لیکن اللہ ساتھ نہیں تو یہ ان کی ڈھیل ہےاور یہ ان کو مہلت ہےکب تک ؟ موت تک۔ اللہ کی کتاب کا اعلان ہے ہم نےاپنےنا فرمانوں کو ڈھیل دی ہوئی ہےوہ جھوٹ بول کر کما رہےہیں اور ان کو رزق آتا ہیے وہ لوگوں کےپیسےمار رہےہیں ۔ دبا رہےہیں حق مار رہےہیں خیانت کر رہےہیں غلط کو صحیح کی شکل میں بیچ رہےہیں ۔ اور ان کو رزق مل رہا ہے۔ تو کیا اللہ تعالٰی کی کتاب کہتی ہےکہ ہم نےان کو مہلت دی ہوئی ہےاور ان سب کو آپ بتائیے۔ و املی لھم ان کیدی متین ۔ جب تمھارا رب ان کو پکڑےگا تو اس کی پکڑ بڑی سخت ہیےایک اور جگہ اللہ فرماتا ہیےیہی تیرےرب کی پکڑ کا حال ہےجب وہ بستیوں کو پکڑتا ہےتو اس کی پکڑ بڑی سخت ہے ۔ اور اس میں بڑی نشانیاں ہیں ۔ جس کو آخرت کےعذاب کا ڈر ہےوہ اس سےسبق حاصل کرےگا اور آخرت کا خوف نہیں وہ بہک جائےگا بھٹک جائےگا ۔ آخرت کو جاننےوالوں کےلئےاتنی ہی نشانیاں اس میں کافی ہیں یہ سب اللہ تعالٰی کی ڈھیل میں ہیں یہ نہیں کہ وہ اللہ تعالٰی سےغالب ہو کر کما رہےہیں۔ میرےبھائیو! ہم اللہ تعالٰی کو ساتھ لےلیں وہ کھاتا نہیں کہ اس کو طمع ہو کہ میں پہلےخود کھائوں پھر تمھیں کھلائوں ماں کو بھی سخت بھوک لگی ہوتی ہےتو پہلےخود کھا لیتی ہےپھر بچوں کو کھلاتی ہے تو اللہ تعالٰی نہ گھر کا محتاج ہےکہ پہلےاپنےلئےگھر بنائےپھر آپ کو دےنہ آرام کا محتاج ہےکہ پہلےخود آرام کرےپھر آپ کو آرام کرائے ہر چیز سےہر عیب سےپاک ذات اللہ کی ہے۔
اللہ بھی ہو اور کوئی بھی
اللہ کو اپنے فیصلوں میں اسکو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا وہ حکیم ذات ہےاگر وہ ذات اکیلی ہمیں مل گئی ہمیں سب کچھ مل گیا۔ اللہ فرماتا ہے الیس اللہ بکاف عبدہ ۔ میرےبندےکافی نہیں ہوں میں؟ اللہ بھی اور کوئی بھی اسی کو تو شرک کہتےہیں اللہ بھی ہےیہ بھی ہےاور وہ بھی ہےیہیں سےشرک کےدروازےکھلتےہیں ۔ ابو طالب کےگرد قریش کا گھیرا ہےوہ اصرار کر رہےہیں کہ بھتیجےکو روک لو ورنہ ہم اسےقتل کر دیں گےانہوں نےبلا یا آپ تشریف لائےاور چار پائی کےپائوں کی طرف بیٹھ گئےکہا بھتیجےتیری قوم آئی ہےآپ ان کو کچھ کہنا چھوڑ دیں اور یہ تجھےکچھ نہیں کہیں گےآپ نےفرمایا۔ اےچچا میں ایک بات ان سےکرتا ہوں ۔ ایک بول میرا مان لیں تو عرب سارا ان کاتابع ہوگا اور سارا جہاں ان کی حکومت کےنیچےآجائےگا۔ تو یہ سب اچھل پڑےابو جہل نےاپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا تیرےباپ کی قسم دس دفعہ بھی تیرےبول ماننےکو تیار ہوں وہ بول کیا ہےجس سےپورا عرب ہمارےتابع ہوجائی؟ وہ کیا ہےجس سےعرب اور عجم ہمارا غلام ہو جائی؟ تو آپ نےفرمایا۔ لا الہ اللہ بس یہ ہےیہ مان لو۔ اس نےکہا تو کئی خدائوں کو ایک بناتا ہےیہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا ۔ یہی آج ہماری سمجھ میں بھی نہیں آرہا ہیے میرےبھائیو! اللہ تعالٰی کو ساتھ لےلو تو بحر و بر فرش و عرش لوح و قلم کرسی زمین مکان ہوا فضا سب اللہ کی ہیں اور اللہ کےتابع ہیں یہ عالم کچھ نہ تھا اللہ نےآدم کےساتھ اس کو بنایا اور اس کو شکل دی ہر چیز کو بنایا اور اس کا اندازہ لگایا۔ پھر آسمان کو اٹھایا ۔ آسمان کےلئےستون نہیں لگایا پھر زمین کو بچھایا پھر اس میں سےپانی کو نکالا پھر چارا نکالا پھر پہاڑ لگائےرات اور دن کا نظام بنایاپھر کبھی دن کو لمبا کیا کبھی رات کو لمبا کیا۔ پھر سورج کو دہکایا۔ پھر اللہ نےچاند کی چاندنی کو ٹھنڈا کر کےزمین میں بکھیر دیا ۔اللہ فرماتا ہےکہ تم غور کیوں نہیں کرتےہو تمھارےرب نےزمین اور آسمان کو کیسےبنایا؟ تم کو جوڑا جوڑا بنایا۔ ہمیں ساری چیزوں سےکاٹ دیتی ہےنید ۔ رات کو اللہ نے سب کےلئےتمام مخلوقت کےلئےآرام کی چیز بنائی۔
اللہ سےبنا کر رکھو
اللہ تعالٰی قرآن کےذریعےہمیں بتا رہےہیں کہ یہ ہوا کا نظام پانی کا نظام پہاڑوں کا دریائوں کا نظام اور زمین کا نظام ہمارےلئےہیں ۔ اللہ تعالٰی کو ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں ۔ تو اللہ ہی سےبنا کر رکھو ایس پی سےمیئر سےکمشنر سےبنا کےرکھو اور زمین و آسمان کےبادشاہ سےبگاڑ کےرکھو تو کیسی حماقت ہی؟ لوگ تو بدمعاشوں سےبنا کر رکھتےہیں جن کو کام پڑتےہیں تو کام آئیں گے۔ تو ہم زمین اور آسمان کےبادشاہ سےبگاڑ کر چلیں تو ہماری زندگی کیسی سکھی ہوگی ہم کیسےچین پائیں گے؟ تو اس کےلئےمیرےبھائیو! اپنےاللہ سےتعلق قائم کر لو ہر کام میں ساتھ لےلو سب سےزیادہ آسان اللہ کو ساتھ لینا ہےبڑا آسان بادشاہ ہےاس کی قدرت اتنی بڑی ہےکہ اس کی کوئی حد نہیں ۔
اللہ کو اپنےبندےکی توبہ کا انتظار ہے
اپنےبندوں سےتعلق اتنا ہےکہ کائنات کی ہر چیز نےاجازت مانگی ہےکہ اےاللہ نافرمانوں کو ہلاک کردوں ؟تو اللہ کہتا ہےکہ نہیں چھوڑ دو میں ان کی توبہ کا انتظار کر تا ہوں ۔ تو پہلےکام کرنےکا یہ ہےکہ اپنےاللہ کو ساتھ لینا ہےتو اس کےلئےتوبہ کر لیں تبلیغ کوئی جماعت نہیں یہ ایک محنت ہےکہ ہر مسلمان اپنےاللہ سےجڑ جائےاور تعلق بنا لے۔ مسئلےحل کروانا ہےتو اللہ سےحل کر والے ۔ سارےاپنی اپنی زبانوں میں مانگ لو سب اکھٹےایک ہی آواز میں مانگ لو تو اللہ تعالٰی یہ نہیں کہےگا ارےبھائی کیا کر رہےہو اتنا شور میں کن کن کی سنوباری باری مانگو ۔ اللہ کہتا ہےکہ جتنا جی میں آتا ہےمانگو ۔ فاتیٰت کل انسان مسئلہ میں تم سب کا مانگا تم سب کو دےدوں ۔ میرےخزانےمیں اتنی بھی کمی نہیں آتی جتنا سوئی کو سمندر میں ڈال کر باہر نکالا جاتا ہے۔ جس طرح سمندر میں کمی نہیں آتی اسی طرح تیرےرب کےخزانےمیں کوئی کمی نہیں آتی ۔ تو میرےبھائیو ایسےاللہ میرے اور آپ کےہو جائیں تو کیا خیال ہےہمارےکام بنیں گےیا نہیں ؟
ایک صحابی کا واقعہ
ایک صحابی اپنےگھر میں آئےتو پوچھا کچھ کھانےکو ہے؟ بیوی نےکہا نہیں فاقہ ہےتو پریشان ہو گئےگھر میں بیٹھا نہیں جا رہا تھا نہ بھوک کا حال دیکھا جائے اس لئےباہر نکل گئی۔ بیوی نے سوچا کہ میں اپنا فاقہ کیسےچھپائوں پڑوس سےکہ ہمارےگھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس نےتنور میں آگ جلائی کہ پڑوسیوں کو پتہ چل جائےکہ اس نےروٹی پکانےکےلئےتنور گرم کیا ہےاور ادھر خالی چکی چلانا شروع کر دی یوں اپنےقافہ کو چھپایا اس دوران اللہ تعالٰی سےدعا کی یا اللہ آپ جانتےہیں کہ ہم بھوکےہیں اللہ ھما ارزقنا آپ ہمیں رزق کھلا دیں ۔ صرف جملہ یا اللہ ہمیں کھلادےابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ تنور سےخوشبوئیں اٹھنےلگیں اور اتنےمیں دروازےپر خاوند آیا تو خاوند کو لینےگئی میاں اور بیوی نےتنور میں جھانک کےدیکھا تو تنور میں رانیں بھنی جارہی ہیں اور چکی پر جا کےدیکھا تو اس سےآٹا نکل رہا ہےسارےبرتن بھر لئےجب چکی اٹھا کر دیکھا تو کچھ نہیں تھا ۔ اب وہ حضور کی خدمت میں کہ یا رسول اللہ یہ واقعہ ہوا ہے۔ آپ نےفرمایا اٹھا کر نہ دیکھتا تو قیامت تک یہ چکی چلتی رہتی۔ میرےبھائیو! ایسا تعلق اللہ سےبنا لیں تو، پھر سودےمیں جھوٹ بولنےکیضرورت نہیں پڑےگی۔ پھر ہمیں سود پر سودا کرنا نہیں پڑےگا۔ پھر ادھار کا ریٹ الگ کرنےکی ضرورت نہیں پڑےگی۔ اللہ تعالٰی سےتعلق بنا لیں اس سےمانگنا آجائےیا اللہ ! خدا کی قسم اس میں جو طاقت ہےاس سےعرش کےدروازےکھل جاتےہیں۔
اللہ کی مدد کےبغیر کامیابی ممکن نہیں
سب سےپہلا معرکہ جس میں حق و باطل ٹکرائےجنگ بدر ہےبدر اسلام کا ایک بنیادی سنگ میل ہے۔ جہاں سےاسلام کی تاریخ بنی ایک طرف پوری مسلح فوج کھڑی ہوئی ہے ہزار آدمی ہیں تیں سو گھڑ سوار ہیں سات سو تلوار سےلیس باقی نیزےوالےہیں ادھر کل تین سو تیرا آدمی کھڑےہیں یہ تین سو تیرہ بغیر تیاری کےنکلےہیں لڑائی کےلیےنہ ذہنی طور پر تیار ہیں نہ تھیار ہیں سارےلشکر میں آٹھ تلوار یں ہیں سات سو تلوار اور آٹھ سو تلوار کیا مقابلہ ہے تین سو گھوڑے اور دو گھڑ سوار کیا مقابلہ ہے۔ ساٹھ اونٹنیاں یہ کل سامان جنگ ہےبدر کی لڑائی کا کل سامان جنگ اور ایک ہزار مسلح ہےاس زمانےکےسارےہتھیار وں کےساتھ اور اللہ تعالٰی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدےمیں ہیں ۔ اور دعا کر رہیں ہیں کہ انکو تونےمار دیا تو پھر تیرا نام لینےوالا کوئی نہیں رہےگا ۔ یہ الفاظ بدر کےصحابہ کی عظمت کو بتاتے ہیں کہ اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اتنا اونچا مقام دےرہا ہےکہ اگر یہ مٹ گئےتو تیرا نام بھی دنیا سےمٹ جائےگا یہ ایسےبنیادی لوگ تھےاس دن جو روئےہیں اور اللہ سےمانگا ہےکچھ بھی نہیں ہاتھ میں اور ادھر سب نےمانگا ۔ سب مانگ رہےہیں یا اللہ تو ہی کرےگا تو ہی کرےگا۔ تو اللہ نےکہا میرےہزار فرشتےآرہےہیں کافر ایک ہزار ، فرشتےبھی ایک ہزار ایک بات سمجھائی کہا فرشتوں کو نہ سمجھنا کہ فرشتوں کا کام ہوتا ہی۔ کام اللہ ہی کرتا ہیے
وما النصر الا من عنداللہ کام اللہ ہی بناتا ہیے دوسری مدد آئی ۔ اذ یغشیکم النعاس امنة منہ ۔ اللہ نےنیند دےدی سب سو گئےتھکےہوئےتھےسو گئےتھکاوٹ دور ہو گئی ۔ تیسری مدد آئی ۔ ایک تو اللہ تعالٰی نےفرشتےبھیجےشیطان کےوسوسےدور ہو ئےاور استقامت ہو گئی قدم جم گئےاور اللہ تعالٰی نےدلوں کو مضبوط کردیا ۔ پھر پانچویں مد آئی ۔ اللہ نےفرشتوں کو لڑنےکا حکم دےدیا فرشتےآتےتو تھےپر ہمیشہ ، لیکن لڑتےنہیں تھےجنگ بدر میں فرشتےلڑےہیں یہ پہلی جنگ تھی جس میں فرشتوں نےآکےلڑائی کی اور اللہ نےان کو بتایا ۔ ان کی گردنیں کاٹنا اور ان کےہاتھ کاٹنا ۔ تو کہا ں تین سو تیرہ اور کہاں ایک ہزار جب لشکر آمنےسامنےہونےلگےتو ایک ہوا چلی ایک زور سےہوا آئی ۔ حضرت علی نےپوچھا یا رسول اللہ یہ کیسی ہوا ہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا جبرائیل آگئےفرشتوں کےساتھ ۔ پھر ایک دوسری ہو چلی حضرت علی نےپوچھا یا رسول اللہ یہ کیسی ہوا ہے پ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا جبرائیل آگئےفرشتوں کےساتھ پھردوسری ہو چلی حضرت علی نےپوچھا یا رسول اللہ یہ کیا ہےپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہامیکائیل گئےفرشتوں کےساتھ ۔ اللہ نےمنٹوں میں پانسہ پلٹ کےدکھا دیا ۔ اللہ کی مدد کےبغیر کامیابی نا ممکن ہی۔
حضرت شرابیل ابن حسن رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک پتلے دبلے سے صحابی ہیں وحی کے کاتب تھے وحی لکھتے تھے مصر میں ایک قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا کچھ دن زیادہ گزر گئے ایک دن حضرت شرابیل کو جوش آیا گھوڑے کو ایڑ لگا کے آگے ہوئے اور فیصل کے قریب جا کر فرمایا : اے قبتیو سنو! ہم ایک ایسے اللہ کی طرف تمھیں بلا رہے ہیں اگر اس کا ارادہ ہو جائے تو تمھیں اس قلعے کی آن کی آن توڑ سکتا ہے۔ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہ کر جو شہادت کی انگلی اتھائی ۔ سارا قلعہ زمین پر آ گرا یہ کلمہ سیکھا ہوا تھا ہم گدھے ہیں جنہوں نے ابھی تک کلمہ سیکھا نہیں ہے جب کلمہ اندر آتا ہے تو باطل ایسے ٹوٹتا ہے جیسے تم انڈے کے چھلکے کو توڑتے ہو۔
تو بھائیو! آج اللہ کی محبت دلوں سے نکل گئی ہے۔ اللہ پر اعتماد اور یقین اٹھ گیا ہے وہ ہمارے تمام مسائل حل کردے گا اس کا علم تو ہے اس کا یقین ڈھیلا پڑ گیا ہے۔ اس امت کا کام ہے کہ اللہ کی عظمت کبریائی جبروت جلال کے قسے سنا سنا کر لوگوں کے دلوں میں جتنے بت ہیں ان کو توڑتے ہیں اندر کے بتوں کو بھی توڑ کر لا الہ کا نقش دلوں میں راسخ کرتے ہیں کہ لا الہ الااللہ دل میں اتر جائے ایک حدیث سے آپ اندازہ لگایئے۔ والذی نفسی بیدہ۔ اس ذات کی قسم جو میری جان کا مالک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اتنا بڑا ترازو ہو کہ اس کے ایک پلڑے میں سات آسمان اور سات زمین رکھ دیئے جائیں اور ان کے درمیان میں جو کچھ بھی ہے ان سب کو رکھ دیا جائے اور دوسری طرف لا الہ الااللہ رکھ دیا جائے تو لا الہ الااللہ سب کو ہوا میں اٹھا دے گا اور وزنی ہو جائے گا اور ہماری محنت یہ ہے کہ ہم اس کو دل اتاریں اس کو سیکھیں اور اس کی دعوت دیں۔
لا الہ الااللہ میں کائنات کی طاقت نہیں اللہ کی طاقت چھپی ہوئی ہے اللہ وہ ذات ہے نہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ اک کا کوئی آخر۔
اللہ تعالٰی کا انسان سے شکوہ
حدیث میں آتا ہے کہ۔ میرے بندے جب تو کوئی گناہ کرتا ہے یہ نہ دیکھا کر کہ چھوٹا ہے کہ بڑا ہے۔ یہ دیکھا کر کہ نا فرمانی کس کی ہورہی ہے۔
نافرمانی تو بہت بڑے رب کی ہورہی ہے۔
اس کی ذات سے اثر لے کر چلنا یہ ایمان ہے۔
آپ میں سے بہت سارے مجھے جانتے ہیں نام سے نہیں جانتے ہیں تو شکل سے تو پہچان رہے ہیں تعارف تو اس کو بھی کہتے ہیں۔ تعارف اور تعلق کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ اس کے دروازے پر آئیں تو وہ آپ کا کام ضرور کرے اگر وہ کر سکتا ہے۔ آپ کو وہ لوٹا نہ سکے۔ ایسا اللہ کے ساتھ تعلق بنالیں اور اللی تعالٰی بھی ہہی فرماتا ہے کہ اپنے بندے کا ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ اس کا نام تعلق ہے اس تعلق کو اللہ پاک کے ساتھ آپ بنا لیں۔
جب اللہ کی روشنی اندر داخل ہوتی ہے تو اندر سینہ کھل جاتا ہے۔ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اے رسول اللہ اس نور کی کوئی نشانی ہے؟ ہم سارے ایمان والے بیٹھے ہیں ہم سارے دعا کرتے ہیں ہمارے اندر ایمان کا نور ہے دیکھو اور اس کی نشانی کیا ہے؟
اللہ پوچھنے والے کا بھلا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی نشانی تین چیزیں ہیں۔ 1دنیا سے بے رخبتی 2جنت کے شوق3موت سے پہلے موت کی فکر کرنے والا۔ یہ تین باتیں ہیں تو ایمان کا نور دل کے اندر آچکا ہے۔ اگر تین باتیں نہیں ہیں تو عین ممکن ہے کہ ایمان ہے لیکن نور سے خالی ہے۔ جیسے لائن ہے اندر بتی بھی ہے اور جلانے والی کوئی نہیں ہے۔ ایمان نے مگر اس کو چمکانے کی ضرورت ہے۔
اللہ کو راضی کر لو از مولانا طارق جمیل
نام کتاب : اللہ کو راضی کر لو
میرےمحترم بھائیوں اور دوستو! اللہ تعالٰی اس کائنات کا تنہا خالق وحدہ لا شریک اور مالک بھی ہے۔ اللہ اپنی زات میں ابتدا سےپاک ہے۔ اللھم انت الا ول فلیس قبلک شئی الاول بلا بدایہ ۔
اللہ وہ ذات ایسا اول ایسا پہلا جس کی ابتدا کوئی نہیں ابتداءتک دیکھنا چاہیں۔ آخر آخر کوئی سرا نظر نہیں آتا۔ وہ آکر بھی ہےدائم بھی۔ بلا انتہا اس کی انتہائی کوئی نہیں۔ کہیں جا کر اس کا آخری کنارہ کوئی نہیں۔ تو اللہ وہ ذات ہےکہ جو دوکان میں سماتا ہےنہ مکان میں، ماضی حال مستقبل کی بندشوں میں بندھا ہوا ہےنہ اسےزمین کی ضرورت ہےنہ آسمانوں کی ضرورت ہی۔ نہ انسانوں کا محتاج، نہ فرشتوں کا محتاج، نہ نبیوں اور رسولوں کا محتاج، نہ جنت اور جہنم کا محتاج، اپنی ذات میں اپنی بقاءکےلئےنہ کھانےکا محتاج نہ پینےکا محتاج ، تھکن سےپاک، نیند سےپاک، اونکھ سےپاک، غفلت سےپاک بیوی سےپاک ، اولاد سےپاک رشتوں سےپاک، وزارت مشاورت سےپاک، اکیلا تن تنہا اتنےبڑےنظام کا خالق مالک علم قدرت اتنا کامل اتنی پھیلی ہوئی کائنات جلتی ہوئی اڑتی ہوئی تیرتی ہوئی سےذرہ برابر نہ غافل ہےاور نہ جاہل ہی۔ ایک دور تھا اس کائنات اور اس دھرتی پہ ایسا تھا کہ کچھ نہ تھا۔ اس سےاگلا دور آیا اس نےزمین کو بچھانا شروع کر دیا۔ ولارض مددنھا زمین بچھائی۔ والارض فرشنھا فنعم الماھدون۔ اللہ نےفرمایا میں نےفرش بچھایا کوئی میرےجیسا ہےجو بنا کےدکھا دے۔
قدرت الٰہی کےکر شمے
بنانےمیں اللہ کی قدرت یہ ہےکہ ایک ذرہ مٹی کا نہ تھا اور یہ زمیں اتنا بڑا گولہ مٹی کا بنایا۔ ایک پتھر نہیں تھا اتنےبڑےبڑےپہاڑ بنائے۔ ایک تنکا نہ تھا کیسےکیسےدرخت اگائے۔ ہوا کا ذرہ نہ تھا ٹھنڈی اور گرم ہوائوں کا نظام چلایا۔ بادل کا کوئی ذرہ نہ تھا کوئی وجود نہ تھا، ایسےکالےاور سفید سرخ بادل بنائےاور پانی کا قطرہ نہ تھا درہا چلائےسمندر بنائےچشمےپیدا فرمائی۔ میٹھا پانی بنایا کڑوا پانی بنایا۔ ھٰذا عذب فرات وھٰذا ملح اجاج یہ میٹھا پانی، یہ کروا پانی۔ بینھما بر زخ لا یبغیٰن۔ درمیان میں پردہ لگا دیا نہ میٹھا پانی کڑوےمیں جائےنہ کڑوا پانی میٹھےمیں جا سکی۔ یہ ایک ایسا نظام ہی۔ جو اللہ تعالٰی نےپیدا فرمایا۔ رفع السمٰوٰت۔ آسمان بلند کر دئئ الشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ۔ سورج چاند ستاروں کا نظام بنایا اور چلایا ان سب کو اپنا غلام بنایا۔یغشی الل النھار دن اور رات کا نظام چلا یا۔ دن کو اجالا دیا رات کو اندھیرا دےدیا، ستاروں کو نیلاہٹ دےدی چاند کو روشنی دےدی۔ سورج کو اجالا، آگ کو تپش اور حرارت دےدی۔ زمین کو گردش دےدی پانی کو چلنا دےدیا پہاڑوں کو ٹھہرائو دےدیا۔ ہوائوں کو گرم اور ٹھنڈا لطیف بنایا۔ آسمانوں کو بلند کردیا زمین کو پست کر دیا فرشتوں کو نور بنایا، ہمیں خاک سےبنایا جنات کو آک سےبنایا ساری کائنات کےاتنےبڑےنظام بنائےاور چلائی۔ان میں اللہ نہ تھکا، نہ غافل ہوا، نہ خطا کھائی۔
صرف ایک نظام کو ہی لےلو۔ مور کےانڈےسےمرغی نہ نکلی، مرغی کےانڈےسےکوئل نہ نکلی۔ کوئل کےانڈےسےکوا نہ نکلا،کوےکےانڈےسےفاختہ نہ نکلی فاختہ کےانڈےسےمگرمچھ نہ نکلا مگر مچھ کےانڈےسےکچھوا نہ نکلا کچھوےکےانڈےسےمچھلی نہ نکلی مچھلی کےانڈےسےمچھر نہ نکلا، مچھر کےانڈےسےمکھی نہ نکلی، مکھی کےانڈے سےپسو نہ نکلا۔ دنیا میں کتنی کائنات ہےجو انڈےدےرہی ہےکبھی اللہ خطا کھا جاتا ، تو مور کےانڈےسےشتر مرغ نکلتا شتر مرغ کےانڈےسےمرغابی نکلتی مرغابی کےانڈےسےکوا نکلتا اوہو! میں بھول ہی گیا۔ کھرب ہی کھرب انڈےبکھرےپڑےہیں ایک مادہ مچھر کئی ہزار انڈےدےدیتی ہےایک شہدکی مادہ مکھی تیس ہزار انڈےدےدیتی ہےاور ان سےکیا نکالنا ہےنر یا مادہ اور اس نےکیا بننا ہےاس انڈےکو انسان کو کھانا ہےکہ اس سےبچہ نکالنا ہی، مرغی نکلنی ہےمر غا نکالنا ہی۔ یہ اللہ کا نظام تخلیق ہےبغیر کسی چیز کےسب کچھ بنایا یہ نطام بھی بنایا اور پھر ہمیں بھی بنایا سارےدنیا کےنظام کو تو قابو کرکےدکھایا اور ہمیں تھوڑی سی آزادی دےدی۔
امتحان کی گھڑی
اللہ نےکہا تم کو آزادی دےرہا ہوں موت تک پھر تم سےنبٹ لونگا۔ سنفرغ لکم ایھا الثقلٰن۔ تمھاری مرضی ہے ان ٹھندی ہوائوں کو محسوس کرکےمیر ا شکر ادا کرو، یا ان ٹھنڈی ہوائوں میں مست ہو کر گانےکی محفلیں سجائو۔ میں دیکھوںگا دونوں کو مگر فیصلہ کروں گا فیصلےکےدن۔ یہ نہیں کہ ہم اللہ کی طاقت سےباہر ہو گئےہیں۔ یہ سورج زمین سےبارہ لاکھ گنا بڑا ہےنو کروڑ تیس لاکھ میل کےفاصلےپر ہی۔ چھ سو سولہ ارب ٹن ہائیڈروجن کو اللہ تعالٰی ایک سیکنڈ میں چھ سو بارہ ارب ٹن ملیم گیس سےتبدیل کرتا ہی۔ جس کی حرارت اتنی زیادہ ہےکہ پانچ کروڑ ہائیڈروجن بم اکٹھےپھٹیں تو ان سےجتنی آگ اور حرارت پیدا ہوتی ہےاتنی سورج ایک سیکنڈ میں پھینک رہا ہے۔
جو اللہ سورج جیسی آگ کو قابو میں کرےاور اس کےپانچ کروڑ ہائیڈروجن بموں جتنی آگ کو کنٹرول کرےاور زمین کی طرف جب وہ آگ سفر شروع کرےتو اس کا بیس کروڑواں حصہ نیچےپہنچےاور باقی سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائے۔
جو اللہ اتنی طاقت رکھتا ہو کہ زمین ، سورج کےگرد گھومی، ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سےہماری جو گولی پستول سےیا کاشنکوف سےنکلتی ہےاس کی رفتار کوئی اٹھارہ سو کلو میٹرفی گھنٹہ ہے
توجو زمین اتنی تیز گھومےکبھی اللہ نےآپ کو چکر آنےدئے؟۔ کبھی آپ کےشہر کو الٹنےدیا؟۔ کبھی پہاڑوں کو الٹنےدیا؟۔ اتنی تیز رفتار گھومنےوالی چیز جس کی رفتار گولی کی رفتار کےقریب ہےاس کو قابو کرنا مشکل ہےیا ہمیں (انسان) کو قابو کرنا مشکل ہے۔ پھر زمین سورج کےگرد ساڑےانیس کروڑ میل کےدائرےمیں گھومتی ہے۔ سورج بھی گھوم رہا ہےزمین بھی گھوم رہی ہے۔ سورج کی رفتار چھ لاکھ میل فی گھنٹہ ہے۔ زمین کی رفتار ساٹھ ہزار میل فی گھنٹہ ہےاور ہر اٹھارہ میل کےبعد دو اشاریہ آٹھ ملی میٹر سورج سےہٹ جاتی ہی۔ ملی میڑ کتنا ہوتا ہے۔ ایک سینٹی میٹر کا ہزارواں حصہ ۔ ہر سال زمیں پیچھےہٹ رہی ہےسورج آگےدوڑ رہا ہےان میں فاصلہ پانچ سو ملین میل ہر سال بڑھتا جارہا ہے۔ سورج بھی دوڑ رہا ہےزمیں بھی دوڑ رہی ہےیہ زمین ہر سال دو اشاریہ آٹھ ملی میٹر سورج سےہٹتی ہےیہ اگر دو اشاریہ پانج ملی میٹر ہےیعنی تین مائکرو میٹر ہزارواں حسہ ملی میٹر کا مائکرو میٹر ہوتا ہی۔ تو یہ زمین تین مائکرو میٹر زیادو ہٹ جائےسورج سےیا کم ہٹ جائے۔ تین مائکرو میٹر تو نظر بھی نہیں آتا بہت بڑی دور بین لگا کر دیکھا جائےتو تب جا کر نظر آجائےگا، تو تین مائکرو میٹر کی کمی زیادتی چند ہفتوں کےاندر ساری کائنات کو تباہ و برباد کر سکتی ہے۔
اللہ کا علم کامل
تو میرےبھائیو! یہ بارش ہو رہی ہےیہ قطرےگر ہرےہیں۔ تقریبا بارہ سو میٹر اونچا بادل ہوتا ہےجو بارش بر ساتا ہےان بارش کےقطروں کا حجم اور وزن ہےاس وزن و حجم کی کسی چیز کو اگر بارہ سو میٹر کی بلندی سےنیچےپھینکا جائےتو اس کی رفتار ہوگی پانچ سو اٹھاون کلو میٹر فی گھنٹہ۔ جو قطرےآپ پر برس رہےہیں اب یہ سامنےآپ کو نظر آرہےہیں ان کی زمین پر آنےکی رفتار ہےدس سےبارہ کلو میٹر فی گھنٹہ اللہ اس پانی کےقطرےکو ایسی شکل دیتا ہےکہ جس سےاس کی رفتار ٹوٹتی ہےپھر ہوا میں اللہ نےایسےمادےرکھےہیں جو اس سےرگڑ کھاتےہیں اور اس کی رفتار کو توڑتےہیں ۔ جب یہ قطرہ زمین کو چومتا ہےتو اس کی رفتار دس سےبارہ کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہی۔ اگریہ رفتار دس بارہ کلو میٹر کی بجائےسو کلو میٹر ہو جائےتو۔ نہ کوئی سر سلامت رہےگا نہ کوئی چھت سلامت رہےگی، نہ کوئی پہاڑ سلامت رہےگا۔ نہ کوئی سڑک سلامت رہے۔ نہ کوئی انسان سلامت رہے۔
اب زمین پر جتنی بھی بارش ہو رہی ہےاس کی رفتار کو کنٹرول کرنا ایک ایک قطرےکو کنٹرول کرنا یہ رب کا کام ہی۔ یہ ہےمیر ا اور آپ کا رب جو اتنا کچھ کر کےنہ تھکتا ہےنہ چوکتا ہے( چوکنا یعنی غلظی کرنا) پھر یہ کتنےقطرےبرس رہےہیں کون جانتا ہے؟ اللہ فرماتا ہے۔ یعلم عدد قطر الامطار میں تمھارا رب ہوں جو بارش کےسارےقطروں کی تعداد کو جانتا ہوں۔
تو میرےبھائیو! یہ سب نظام اس بادشاہ نےبنایا ہےاسی نےچلایا اس پر قابو رکھا۔ کیا وہ ہمیں نہیں قابو کر سکتا؟ کہ دنیا میں کوئی نا فرمانی نہ کرے۔ کوئی عورت بےپردہ نہ پھرے، کوئی نوجوان مستی نہ کرے، کسی ہوٹل میں شراب نہ پی جائے، کہیں زنا نہ ہو۔ کہیںجوا نہ ہو۔کوئی بےنمازی نہ ہو، کیا مشکل ہےاللہ کےلئے؟
ا ءنتم اشد خلقا ام السمآئ۔ ترجمہ تو یہ ہی۔ کہ تمھارا بنانا مشکل ہےیا آسمان کا بنانا مشکل ہی۔ لیکن اللہ کہ رہا ہے؟ تمھیں قابو کرنا مشکل ہےیا آسمان کو قابو کرنا مشکل ہے؟ تمھیں قابو کرنا زیادہ مشکل ہےیا آسمان کو قابو کرنازیادہ مشکل ہے؟
بنا ھا میں نےاس کو بنایا۔ رفع سمکھا چھت کو اٹھایا۔فسواھا برابر کیا۔ و اغطش لیلھا رات کو لایا و اخر ج ضحھا دن کو لایا۔
والارض بمد ذلک دحھا زمین کو بچھایا۔ اخرج منھا ماءھا ومرعٰھا زمین سےپانی نکالا چارا نکالا۔ والجبال ارسٰھا پہاڑوں کو گاڑا۔ متاعالکم والانعامکم تمھارےلئےاور تمھارےجانوروں کےلئے۔جو اللہ پہاڑوں کو گاڑ کےقابو رکھی۔ بارش کےقطروں پر اپنی طاقت کو ظاہر کرکےدکھائے۔ آسمان جیسی بڑی مخلوق کو قابو کر کےدکھائے۔ وہ اس چھ فٹ کےآدمی کو کیسےقابو نہیں کر سکتا؟
لمحہ فکریہ
تو میرےبھائیو! ہمارےلئےامتحان ہےبڑا زبردست بڑا خوفناک ہمارےایک ایک قول فعل پر اللہ کی نظر ہےاور ایک دن ایسا آنےوالا ہےجب اللہ ہمیں اپنےسامنےکھڑا کر دیگا۔ بتائو آسمان کو قابو کرنا مشکل ہےیا انسان کو؟ یہ اللہ پاک ہمیں متوجہ فرما رہا ہے۔ قل کل یعمل عٰلی شاکلتہ۔ کہ کرو کرو راستےکھلےہوئےہیں ۔ گناہوں کےبھی، اچھائی کےبھی ، برائی کےبھی ، ایمان کےبھی ، کفر کےبھی ، سارےراستےکھلےہوئےہیں ۔ تمھیں اختیار دےدیا ہے جو چاہےایما ن لائےاور جو چاہےکفر اختیار کرے۔ فمن شاءفلیومن و من شاءفلیکفر لیکن یہ بتایا کہ: لاتحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون۔ کہ اپنےرب کو غافل مت سمجھو وہ غافل نہیں ہے۔ تو میرےبھائیو! ہم موت سےپہلےپہلےاپنےآپ کو غفلت سےنکالیں اور ساری دنیا کےانسانوں کو بھی غفلت سےنکالیں کیونکہ ہمارا مسئلہ صرف اپنی ذات کےساتھ متعلق نہیں ہے۔ ساری دنیا کےانسانوں کا مسئلہ ہےاور خاص طور پر اس امت کا مسئلہ ہےجب اکثریت میں نا فرمانی آئےگی تو عذاب کےدروازےکھلیں گےاو جب اکثریت میں فرمانبرداری آئےگی تو اللہ پاک کےرحم و کرم سےفضل کےدروازےکھلیں گے۔ اسی لیےہم ہی عرض کر ہےہیں کہ بھائیو! اپنی ذات کےلئےبھی توبہ کریں اور لوگوں سےبھی توبہ کروائیں۔ اپنےشہر کا ماحول ایسا بنائیں کہ کوئی بھی یہاں آ کر گناہ کی جرات نہ کر سکے۔
انسان محتاج ہے
میرےبھائیو! اور دوستو! انسان کمزور ہے ۔ خلق الانسان ضعیفا۔ یہ سہاروں کےبغیر چل نہیں سکتا ۔ جسم کےنظام کےلئےغذا کا، پانی کا اور ہوا کا محتاج ہے۔ ضروریات زندگی پورا کرنےکےلئےساری کائنات کا محتاج ہے۔ ایک ایک چیز سےاس کی ضروریات وابستہ ہیں۔ اتنا کوئی بھی محتاج نہیں ہےجتنا انسان محتاج ہے۔ جانور، پتنگے، پرندےان کی کیا ضرویات ہیں کچھ نہیں، بہت تھوڑی ، جو تھوڑی دیر میں ہی پوری ہو جاتی ہیں ۔ لیکن انسان قدم قدم پر محتاج ہےپھر جتنا مالدار بنتا جاتا ہےانتا محتاج ہوتا جاتا ہی۔ جتنا عہدوں میں ترقی کرتا ہےاتنا وہ محتاج ہوتا جاتا ہے۔
ایک آدمی اپنی ضروریات پوری کرنےکےلئےہزاروں آدمیوں کا محتاج بنتا ہےچاہےوہ جھاڑو دینےوالا ہےیا کسی ملک کا صدر اور بادشاہ ہےیا بازار میں ریڑی لگاتا ہے۔ انسان کمزور ہے۔ یاایھاالناس انتم الفقرآئ۔ اےانسانوں! تم فقیر ہو اور محتاج ہو ۔اب مشکل یہ ہےکہ جن سےہم امیدیں رکھتےہیں وہ بھی ہماری طرح محتاج ہیں۔ ہماری طرح ان میں طمع ہے، ہماری طرح لالچ ہے، ہماری طرح ان کی بھی ضروریات ہیں اور انسان میں اپنی ضروریات کو پورا کرنےکا جذبی بھی ہےلہٰذا جب محتاج نےمحتاج پر سہارا کیا ، کمزور نےکمزور پر اعتماد کیا تووہ بنیاد ٹوٹ گئی، عمارت ٹوٹ گئی کھنڈر بن گئی ۔
پہلا سبق
تو سب سےپہلا سبق جو اللہ تعالٰی نےمسلمانوں کو سکھاتا ہےوہ ہے لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ۔ یہ پہلا سبق اللہ دیتا ہےاور سارےنبیوں کی پہلی دعوت یہی ہےکہ تم اس کائنات میں اللہ جیسا نہیں پا سکتی۔ لیس کمثلہ شی۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا تم اللہ کو اپنےساتھ لےلو اور اس کےسامنےہر ضروریات رکھنےکی عادت بنالو اور اس کےمحتاج بن جائو ( جو کسی کا محتاج نہیں)تو وہ تمھاری دنیا اور آخرت کی ساری ضرورتوں کو پورا کر دے گا ۔
اللہ کےساتھ اپنا تعلق بنائو
لیکن اس کےلئےشرط یہ ہےکہ اس کےساتھ تعلق قائم کیا جائے۔ اور وہ تعلق قائم کیسےہوگا؟ یہ جتناتبلیغ کا کام ہو رہا ہےیہ اللہ تعالٰی ساتھ تعلق کو ٹھیک کرنےکی محنت ہو رہی ہے، اگر کسی سےتعلق بنانا ہو تو کتنا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ صرف تھانیدار یا ایس پی ہے یا کمشنر یہ سارےچھوٹےچھوٹےآفیسر ہیں ان سےاگر تعلق بنانا ہو تو کس طرح آدمی گردش کرتا ہے، راستےتلاش کرتا ہے، خوشامد کرتا ہے۔ جھوٹ سچ ان کےسامنےبولتا ہے تب جا کر ان سےتعلق قائم ہوتا ہےتو اللہ سےتعلق پیدا کرنا جو زمین اور آسمان کا بادشاہ ہے، ان سب سےآسان ہےجتنےآپ انسان سےتعلق قائم کرنےمیں تھکتےہیں۔ اس سےکم اللہ تعالٰی سےتعلق قائم کرنےمیں تھکا جائےتو سارے مسئلےحل ہو جائیں ۔ اللہ تعالٰی سےتعلق قائم کرنےکی ضرورت ہے دنیا والوں سےتو یہ معاملہ ہےکہ نہیں ۔ ہمیںروٹی کی ضرورت ہےتو جس پر امید ہےوہ بھی روٹی کھاتا ہےاور ہمیں خوف سےامن کی ضرورت ہےاور جس پر ہماری امید ہےوہ خود بھی خوفزدہ ہے۔ ہماری طمع ہےکہ دولت بڑھ جائےاور جن لوگوں سےہم دولت نکالنا چاہتےہیں ان میں بھی طمع لالچ ہےکہ ہماری دولت اور مال بڑھ جائےاور ہم اپنےگھر کو روشن کر نا چاہتےہیں۔اور جن جن راستوں سےہم کوششیں کر رہےہیں جن کی جیبوں سےروپےنکال رہےہیں وہ خود بھی چاہتےہیں کہ ہمارےبھی محل کھڑےہو جائیں ۔
لیکن اگر ہم اللہ سےتعلق قائم کر لیں تو اللہ تعالٰی کسی ایک بھی چیز کا محتاج نہیں، نہ وہ کھائے ،نہ پئے ، نہ سوئےنہ تھکےنہ وہ پریشان ہو اور نہ اس کےخزانوں میں کوئی کمی آئے۔ کائنات کےاس نظام کو چلا کےنہیں تھکا کہ یہ کہنےلگےکہ میں تھک گیا ہوں اب کل دربار لگےگا ہم اپنی اپنی ضرورتیں اس کےپاس لےکر آئیں گےکیونکہ نہ سوتا ہے نہ گھبراتا ہے نہ جاہل ہے نہ عاجز ہے بلکہ وہ غالب ہے غیرالمغلوب اس پر کوئی غالب نہیں سب پر اس کی طاقت چھائی ہوئی ہے اس سےطاقت ور کوئی نہیں جو اس پر چھا جائے۔ وہ جائر ہے مجبور نہیں وہ غیرالمخلوق ہے وہ خالق ہے محلوق نہیں
مالک غیر الملوک، وہ مالک ہےمملوک نہیں ۔ ناصر غیر المنصور ، وہ مدد کرتا ہےمددکا محتاج نہیں۔ حافظ غیر محفوظ وہ حفاظفت کرتا ہےاپنی حفاظت کراتا نہیں ۔
رب غیر مربوب وہ پالتا ہےاور پرورش کرتا ہےاور خود اپنی پرورش میں کسی کا محتاج نہیں۔ شاہد غیر مشہور، وہ سب کو دیکھتا ہےاس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ،
سب چیزیں اس کی نظروں میں ہیں ۔ لا تدرکہ الابصار ۔ اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں ۔ وھو یدرک الا بصار۔ ہم سب کو دیکھتا ہے۔ کتنی دور ہے۔ لا تراہ العیون۔ آنکھ نہیں دیکھ سکتی ۔ آنکھ تو ستارےبھی نہیں دیکھ سکتی ، اللہ کو کیسےدیکھ سےگی۔ ولا تخالطوہ الظنون ۔ دنیا میں انسانی خیال سب سےتیز رفتار سواری ہے۔ تو اللہ تعالٰی تک خیال بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ ساری دنیا کےانسانوں کےخیالوں کو اکھٹا کیا جائے تو وہ ان سےبھی اوپر ہے۔ خیال کی پرواز تخیل کی پرواز اڑتےاڑتےتھک جائےاور اللہ کو نہ پہنچ سکے۔ ولا یصفوہ الواصفون۔ سارا جہاں مل کر اس کی تعریف کرنا چاہے۔ تو سب مل کر اس کی تعریف نہ کرسکیں ۔ اتنےدور اور اتنا اونچا ہےلیکن اس کی عجیب صفت ہی۔ بل ھواقرب الیہ من حبل الورید۔ یہاں پر دو متضاد چیزیں آپس میں مل گئی ہیں دو ناممکن ، ممکن ہو گئےاتنا دور اتنا دور ہےکہ خیالات بھی اس تک نہ پہنچ سکے، اور اتنا زیادہ قریب ہےکہ شہ رگ سےبھی زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ پھر اس کی فوقیت اور اوپر ہونا۔ فویتہ ما اکثر ملکہ کما اعلٰی مکانہ ۔ کیا عظیم الشان اس کی ملک ہےاعلٰی اس کا مکان ہے۔ ما اعظم شانہ ۔ کیا عظیم اس کی شان ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ یا اللہ سب کچھ تیرا ہے ملک تیرا ہے کبریا ئی تیری جبروت تیری قدرت تیری جمال و جلال تیرا ۔ اس ذات کو ہم ساتھ لےلیں تو کام بن گیا۔ پھر وہ ایسا بادشاہ ہےجو کسی کا محتاج نہیں دنیا کےبڑےبڑےبادشاہ سب محتاج ہیں اسمبلیاں پاس کریں سینٹ پاس کریں تب کہیں جا کےان کا حکم چلےپھر ان کےخلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہوجائےتو کرسی الٹ جائے۔ لیکن اللہ تعالٰی ایسا بادشاہ نہیں ہے۔ احد اکیلا صمد بےنیاز الملک لا شریک لہ اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں اس کا کوئی مثل نہیں ۔ العالی اونچا لا ثانیہ اس کےبرابر کوئی نہیں ۔وہ غنی ہےاس کا مدد گار کوئی نہیں ۔ اسکو کسی چیز سےنفع نہیں پہنچتا ۔ اسےکوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اس پر کوئی غالب نہیں۔ اسکو کوئی چیز تھکاتی نہیں ۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ اس سےپہلےکچھ نہیں اسکےبعد کچھ نہیں ۔ کوئی چیز اس سےاوپر نہیں کوئی چیز اس سےچھپی ہوئی نہیں۔ اگر ایسا بادشاہ ہماری پشت پر آجائےتو ہم سےطاقت ور دنیا میں کون ہوگا۔ ہم سےبڑا عزت والا کون ہوگا؟ آج ساری دنیا میں غلط ذہین بن گیا ہےکہ پیسہ ہوگا تو کام چلےگا پیسہ نہیں ہوگا تو کام نہیں چلےگا۔
میرےبھائیو! ہم پوری دنیا کو بتائیں کہ اللہ ساتھ ہوگا تو کام چلیں گےاور اللہ ساتھ نہیں ہوگا تو کام نہیں چلیں گےاور بعض کہتےہیں کہ بہت سارےکام چلتےہیں لیکن اللہ ساتھ نہیں تو یہ ان کی ڈھیل ہےاور یہ ان کو مہلت ہےکب تک ؟ موت تک۔ اللہ کی کتاب کا اعلان ہے ہم نےاپنےنا فرمانوں کو ڈھیل دی ہوئی ہےوہ جھوٹ بول کر کما رہےہیں اور ان کو رزق آتا ہیے وہ لوگوں کےپیسےمار رہےہیں ۔ دبا رہےہیں حق مار رہےہیں خیانت کر رہےہیں غلط کو صحیح کی شکل میں بیچ رہےہیں ۔ اور ان کو رزق مل رہا ہے۔ تو کیا اللہ تعالٰی کی کتاب کہتی ہےکہ ہم نےان کو مہلت دی ہوئی ہےاور ان سب کو آپ بتائیے۔ و املی لھم ان کیدی متین ۔ جب تمھارا رب ان کو پکڑےگا تو اس کی پکڑ بڑی سخت ہیےایک اور جگہ اللہ فرماتا ہیےیہی تیرےرب کی پکڑ کا حال ہےجب وہ بستیوں کو پکڑتا ہےتو اس کی پکڑ بڑی سخت ہے ۔ اور اس میں بڑی نشانیاں ہیں ۔ جس کو آخرت کےعذاب کا ڈر ہےوہ اس سےسبق حاصل کرےگا اور آخرت کا خوف نہیں وہ بہک جائےگا بھٹک جائےگا ۔ آخرت کو جاننےوالوں کےلئےاتنی ہی نشانیاں اس میں کافی ہیں یہ سب اللہ تعالٰی کی ڈھیل میں ہیں یہ نہیں کہ وہ اللہ تعالٰی سےغالب ہو کر کما رہےہیں۔ میرےبھائیو! ہم اللہ تعالٰی کو ساتھ لےلیں وہ کھاتا نہیں کہ اس کو طمع ہو کہ میں پہلےخود کھائوں پھر تمھیں کھلائوں ماں کو بھی سخت بھوک لگی ہوتی ہےتو پہلےخود کھا لیتی ہےپھر بچوں کو کھلاتی ہے تو اللہ تعالٰی نہ گھر کا محتاج ہےکہ پہلےاپنےلئےگھر بنائےپھر آپ کو دےنہ آرام کا محتاج ہےکہ پہلےخود آرام کرےپھر آپ کو آرام کرائے ہر چیز سےہر عیب سےپاک ذات اللہ کی ہے۔
اللہ بھی ہو اور کوئی بھی
اللہ کو اپنے فیصلوں میں اسکو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا وہ حکیم ذات ہےاگر وہ ذات اکیلی ہمیں مل گئی ہمیں سب کچھ مل گیا۔ اللہ فرماتا ہے الیس اللہ بکاف عبدہ ۔ میرےبندےکافی نہیں ہوں میں؟ اللہ بھی اور کوئی بھی اسی کو تو شرک کہتےہیں اللہ بھی ہےیہ بھی ہےاور وہ بھی ہےیہیں سےشرک کےدروازےکھلتےہیں ۔ ابو طالب کےگرد قریش کا گھیرا ہےوہ اصرار کر رہےہیں کہ بھتیجےکو روک لو ورنہ ہم اسےقتل کر دیں گےانہوں نےبلا یا آپ تشریف لائےاور چار پائی کےپائوں کی طرف بیٹھ گئےکہا بھتیجےتیری قوم آئی ہےآپ ان کو کچھ کہنا چھوڑ دیں اور یہ تجھےکچھ نہیں کہیں گےآپ نےفرمایا۔ اےچچا میں ایک بات ان سےکرتا ہوں ۔ ایک بول میرا مان لیں تو عرب سارا ان کاتابع ہوگا اور سارا جہاں ان کی حکومت کےنیچےآجائےگا۔ تو یہ سب اچھل پڑےابو جہل نےاپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا تیرےباپ کی قسم دس دفعہ بھی تیرےبول ماننےکو تیار ہوں وہ بول کیا ہےجس سےپورا عرب ہمارےتابع ہوجائی؟ وہ کیا ہےجس سےعرب اور عجم ہمارا غلام ہو جائی؟ تو آپ نےفرمایا۔ لا الہ اللہ بس یہ ہےیہ مان لو۔ اس نےکہا تو کئی خدائوں کو ایک بناتا ہےیہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا ۔ یہی آج ہماری سمجھ میں بھی نہیں آرہا ہیے میرےبھائیو! اللہ تعالٰی کو ساتھ لےلو تو بحر و بر فرش و عرش لوح و قلم کرسی زمین مکان ہوا فضا سب اللہ کی ہیں اور اللہ کےتابع ہیں یہ عالم کچھ نہ تھا اللہ نےآدم کےساتھ اس کو بنایا اور اس کو شکل دی ہر چیز کو بنایا اور اس کا اندازہ لگایا۔ پھر آسمان کو اٹھایا ۔ آسمان کےلئےستون نہیں لگایا پھر زمین کو بچھایا پھر اس میں سےپانی کو نکالا پھر چارا نکالا پھر پہاڑ لگائےرات اور دن کا نظام بنایاپھر کبھی دن کو لمبا کیا کبھی رات کو لمبا کیا۔ پھر سورج کو دہکایا۔ پھر اللہ نےچاند کی چاندنی کو ٹھنڈا کر کےزمین میں بکھیر دیا ۔اللہ فرماتا ہےکہ تم غور کیوں نہیں کرتےہو تمھارےرب نےزمین اور آسمان کو کیسےبنایا؟ تم کو جوڑا جوڑا بنایا۔ ہمیں ساری چیزوں سےکاٹ دیتی ہےنید ۔ رات کو اللہ نے سب کےلئےتمام مخلوقت کےلئےآرام کی چیز بنائی۔
اللہ سےبنا کر رکھو
اللہ تعالٰی قرآن کےذریعےہمیں بتا رہےہیں کہ یہ ہوا کا نظام پانی کا نظام پہاڑوں کا دریائوں کا نظام اور زمین کا نظام ہمارےلئےہیں ۔ اللہ تعالٰی کو ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں ۔ تو اللہ ہی سےبنا کر رکھو ایس پی سےمیئر سےکمشنر سےبنا کےرکھو اور زمین و آسمان کےبادشاہ سےبگاڑ کےرکھو تو کیسی حماقت ہی؟ لوگ تو بدمعاشوں سےبنا کر رکھتےہیں جن کو کام پڑتےہیں تو کام آئیں گے۔ تو ہم زمین اور آسمان کےبادشاہ سےبگاڑ کر چلیں تو ہماری زندگی کیسی سکھی ہوگی ہم کیسےچین پائیں گے؟ تو اس کےلئےمیرےبھائیو! اپنےاللہ سےتعلق قائم کر لو ہر کام میں ساتھ لےلو سب سےزیادہ آسان اللہ کو ساتھ لینا ہےبڑا آسان بادشاہ ہےاس کی قدرت اتنی بڑی ہےکہ اس کی کوئی حد نہیں ۔
اللہ کو اپنےبندےکی توبہ کا انتظار ہے
اپنےبندوں سےتعلق اتنا ہےکہ کائنات کی ہر چیز نےاجازت مانگی ہےکہ اےاللہ نافرمانوں کو ہلاک کردوں ؟تو اللہ کہتا ہےکہ نہیں چھوڑ دو میں ان کی توبہ کا انتظار کر تا ہوں ۔ تو پہلےکام کرنےکا یہ ہےکہ اپنےاللہ کو ساتھ لینا ہےتو اس کےلئےتوبہ کر لیں تبلیغ کوئی جماعت نہیں یہ ایک محنت ہےکہ ہر مسلمان اپنےاللہ سےجڑ جائےاور تعلق بنا لے۔ مسئلےحل کروانا ہےتو اللہ سےحل کر والے ۔ سارےاپنی اپنی زبانوں میں مانگ لو سب اکھٹےایک ہی آواز میں مانگ لو تو اللہ تعالٰی یہ نہیں کہےگا ارےبھائی کیا کر رہےہو اتنا شور میں کن کن کی سنوباری باری مانگو ۔ اللہ کہتا ہےکہ جتنا جی میں آتا ہےمانگو ۔ فاتیٰت کل انسان مسئلہ میں تم سب کا مانگا تم سب کو دےدوں ۔ میرےخزانےمیں اتنی بھی کمی نہیں آتی جتنا سوئی کو سمندر میں ڈال کر باہر نکالا جاتا ہے۔ جس طرح سمندر میں کمی نہیں آتی اسی طرح تیرےرب کےخزانےمیں کوئی کمی نہیں آتی ۔ تو میرےبھائیو ایسےاللہ میرے اور آپ کےہو جائیں تو کیا خیال ہےہمارےکام بنیں گےیا نہیں ؟
ایک صحابی کا واقعہ
ایک صحابی اپنےگھر میں آئےتو پوچھا کچھ کھانےکو ہے؟ بیوی نےکہا نہیں فاقہ ہےتو پریشان ہو گئےگھر میں بیٹھا نہیں جا رہا تھا نہ بھوک کا حال دیکھا جائے اس لئےباہر نکل گئی۔ بیوی نے سوچا کہ میں اپنا فاقہ کیسےچھپائوں پڑوس سےکہ ہمارےگھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس نےتنور میں آگ جلائی کہ پڑوسیوں کو پتہ چل جائےکہ اس نےروٹی پکانےکےلئےتنور گرم کیا ہےاور ادھر خالی چکی چلانا شروع کر دی یوں اپنےقافہ کو چھپایا اس دوران اللہ تعالٰی سےدعا کی یا اللہ آپ جانتےہیں کہ ہم بھوکےہیں اللہ ھما ارزقنا آپ ہمیں رزق کھلا دیں ۔ صرف جملہ یا اللہ ہمیں کھلادےابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ تنور سےخوشبوئیں اٹھنےلگیں اور اتنےمیں دروازےپر خاوند آیا تو خاوند کو لینےگئی میاں اور بیوی نےتنور میں جھانک کےدیکھا تو تنور میں رانیں بھنی جارہی ہیں اور چکی پر جا کےدیکھا تو اس سےآٹا نکل رہا ہےسارےبرتن بھر لئےجب چکی اٹھا کر دیکھا تو کچھ نہیں تھا ۔ اب وہ حضور کی خدمت میں کہ یا رسول اللہ یہ واقعہ ہوا ہے۔ آپ نےفرمایا اٹھا کر نہ دیکھتا تو قیامت تک یہ چکی چلتی رہتی۔ میرےبھائیو! ایسا تعلق اللہ سےبنا لیں تو، پھر سودےمیں جھوٹ بولنےکیضرورت نہیں پڑےگی۔ پھر ہمیں سود پر سودا کرنا نہیں پڑےگا۔ پھر ادھار کا ریٹ الگ کرنےکی ضرورت نہیں پڑےگی۔ اللہ تعالٰی سےتعلق بنا لیں اس سےمانگنا آجائےیا اللہ ! خدا کی قسم اس میں جو طاقت ہےاس سےعرش کےدروازےکھل جاتےہیں۔
اللہ کی مدد کےبغیر کامیابی ممکن نہیں
سب سےپہلا معرکہ جس میں حق و باطل ٹکرائےجنگ بدر ہےبدر اسلام کا ایک بنیادی سنگ میل ہے۔ جہاں سےاسلام کی تاریخ بنی ایک طرف پوری مسلح فوج کھڑی ہوئی ہے ہزار آدمی ہیں تیں سو گھڑ سوار ہیں سات سو تلوار سےلیس باقی نیزےوالےہیں ادھر کل تین سو تیرا آدمی کھڑےہیں یہ تین سو تیرہ بغیر تیاری کےنکلےہیں لڑائی کےلیےنہ ذہنی طور پر تیار ہیں نہ تھیار ہیں سارےلشکر میں آٹھ تلوار یں ہیں سات سو تلوار اور آٹھ سو تلوار کیا مقابلہ ہے تین سو گھوڑے اور دو گھڑ سوار کیا مقابلہ ہے۔ ساٹھ اونٹنیاں یہ کل سامان جنگ ہےبدر کی لڑائی کا کل سامان جنگ اور ایک ہزار مسلح ہےاس زمانےکےسارےہتھیار وں کےساتھ اور اللہ تعالٰی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدےمیں ہیں ۔ اور دعا کر رہیں ہیں کہ انکو تونےمار دیا تو پھر تیرا نام لینےوالا کوئی نہیں رہےگا ۔ یہ الفاظ بدر کےصحابہ کی عظمت کو بتاتے ہیں کہ اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اتنا اونچا مقام دےرہا ہےکہ اگر یہ مٹ گئےتو تیرا نام بھی دنیا سےمٹ جائےگا یہ ایسےبنیادی لوگ تھےاس دن جو روئےہیں اور اللہ سےمانگا ہےکچھ بھی نہیں ہاتھ میں اور ادھر سب نےمانگا ۔ سب مانگ رہےہیں یا اللہ تو ہی کرےگا تو ہی کرےگا۔ تو اللہ نےکہا میرےہزار فرشتےآرہےہیں کافر ایک ہزار ، فرشتےبھی ایک ہزار ایک بات سمجھائی کہا فرشتوں کو نہ سمجھنا کہ فرشتوں کا کام ہوتا ہی۔ کام اللہ ہی کرتا ہیے
وما النصر الا من عنداللہ کام اللہ ہی بناتا ہیے دوسری مدد آئی ۔ اذ یغشیکم النعاس امنة منہ ۔ اللہ نےنیند دےدی سب سو گئےتھکےہوئےتھےسو گئےتھکاوٹ دور ہو گئی ۔ تیسری مدد آئی ۔ ایک تو اللہ تعالٰی نےفرشتےبھیجےشیطان کےوسوسےدور ہو ئےاور استقامت ہو گئی قدم جم گئےاور اللہ تعالٰی نےدلوں کو مضبوط کردیا ۔ پھر پانچویں مد آئی ۔ اللہ نےفرشتوں کو لڑنےکا حکم دےدیا فرشتےآتےتو تھےپر ہمیشہ ، لیکن لڑتےنہیں تھےجنگ بدر میں فرشتےلڑےہیں یہ پہلی جنگ تھی جس میں فرشتوں نےآکےلڑائی کی اور اللہ نےان کو بتایا ۔ ان کی گردنیں کاٹنا اور ان کےہاتھ کاٹنا ۔ تو کہا ں تین سو تیرہ اور کہاں ایک ہزار جب لشکر آمنےسامنےہونےلگےتو ایک ہوا چلی ایک زور سےہوا آئی ۔ حضرت علی نےپوچھا یا رسول اللہ یہ کیسی ہوا ہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا جبرائیل آگئےفرشتوں کےساتھ ۔ پھر ایک دوسری ہو چلی حضرت علی نےپوچھا یا رسول اللہ یہ کیسی ہوا ہے پ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا جبرائیل آگئےفرشتوں کےساتھ پھردوسری ہو چلی حضرت علی نےپوچھا یا رسول اللہ یہ کیا ہےپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہامیکائیل گئےفرشتوں کےساتھ ۔ اللہ نےمنٹوں میں پانسہ پلٹ کےدکھا دیا ۔ اللہ کی مدد کےبغیر کامیابی نا ممکن ہی۔
حضرت شرابیل ابن حسن رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک پتلے دبلے سے صحابی ہیں وحی کے کاتب تھے وحی لکھتے تھے مصر میں ایک قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا کچھ دن زیادہ گزر گئے ایک دن حضرت شرابیل کو جوش آیا گھوڑے کو ایڑ لگا کے آگے ہوئے اور فیصل کے قریب جا کر فرمایا : اے قبتیو سنو! ہم ایک ایسے اللہ کی طرف تمھیں بلا رہے ہیں اگر اس کا ارادہ ہو جائے تو تمھیں اس قلعے کی آن کی آن توڑ سکتا ہے۔ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہ کر جو شہادت کی انگلی اتھائی ۔ سارا قلعہ زمین پر آ گرا یہ کلمہ سیکھا ہوا تھا ہم گدھے ہیں جنہوں نے ابھی تک کلمہ سیکھا نہیں ہے جب کلمہ اندر آتا ہے تو باطل ایسے ٹوٹتا ہے جیسے تم انڈے کے چھلکے کو توڑتے ہو۔
تو بھائیو! آج اللہ کی محبت دلوں سے نکل گئی ہے۔ اللہ پر اعتماد اور یقین اٹھ گیا ہے وہ ہمارے تمام مسائل حل کردے گا اس کا علم تو ہے اس کا یقین ڈھیلا پڑ گیا ہے۔ اس امت کا کام ہے کہ اللہ کی عظمت کبریائی جبروت جلال کے قسے سنا سنا کر لوگوں کے دلوں میں جتنے بت ہیں ان کو توڑتے ہیں اندر کے بتوں کو بھی توڑ کر لا الہ کا نقش دلوں میں راسخ کرتے ہیں کہ لا الہ الااللہ دل میں اتر جائے ایک حدیث سے آپ اندازہ لگایئے۔ والذی نفسی بیدہ۔ اس ذات کی قسم جو میری جان کا مالک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اتنا بڑا ترازو ہو کہ اس کے ایک پلڑے میں سات آسمان اور سات زمین رکھ دیئے جائیں اور ان کے درمیان میں جو کچھ بھی ہے ان سب کو رکھ دیا جائے اور دوسری طرف لا الہ الااللہ رکھ دیا جائے تو لا الہ الااللہ سب کو ہوا میں اٹھا دے گا اور وزنی ہو جائے گا اور ہماری محنت یہ ہے کہ ہم اس کو دل اتاریں اس کو سیکھیں اور اس کی دعوت دیں۔
لا الہ الااللہ میں کائنات کی طاقت نہیں اللہ کی طاقت چھپی ہوئی ہے اللہ وہ ذات ہے نہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ اک کا کوئی آخر۔
اللہ تعالٰی کا انسان سے شکوہ
حدیث میں آتا ہے کہ۔ میرے بندے جب تو کوئی گناہ کرتا ہے یہ نہ دیکھا کر کہ چھوٹا ہے کہ بڑا ہے۔ یہ دیکھا کر کہ نا فرمانی کس کی ہورہی ہے۔
نافرمانی تو بہت بڑے رب کی ہورہی ہے۔
اس کی ذات سے اثر لے کر چلنا یہ ایمان ہے۔
آپ میں سے بہت سارے مجھے جانتے ہیں نام سے نہیں جانتے ہیں تو شکل سے تو پہچان رہے ہیں تعارف تو اس کو بھی کہتے ہیں۔ تعارف اور تعلق کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ اس کے دروازے پر آئیں تو وہ آپ کا کام ضرور کرے اگر وہ کر سکتا ہے۔ آپ کو وہ لوٹا نہ سکے۔ ایسا اللہ کے ساتھ تعلق بنالیں اور اللی تعالٰی بھی ہہی فرماتا ہے کہ اپنے بندے کا ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ اس کا نام تعلق ہے اس تعلق کو اللہ پاک کے ساتھ آپ بنا لیں۔
جب اللہ کی روشنی اندر داخل ہوتی ہے تو اندر سینہ کھل جاتا ہے۔ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اے رسول اللہ اس نور کی کوئی نشانی ہے؟ ہم سارے ایمان والے بیٹھے ہیں ہم سارے دعا کرتے ہیں ہمارے اندر ایمان کا نور ہے دیکھو اور اس کی نشانی کیا ہے؟
اللہ پوچھنے والے کا بھلا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی نشانی تین چیزیں ہیں۔ 1دنیا سے بے رخبتی 2جنت کے شوق3موت سے پہلے موت کی فکر کرنے والا۔ یہ تین باتیں ہیں تو ایمان کا نور دل کے اندر آچکا ہے۔ اگر تین باتیں نہیں ہیں تو عین ممکن ہے کہ ایمان ہے لیکن نور سے خالی ہے۔ جیسے لائن ہے اندر بتی بھی ہے اور جلانے والی کوئی نہیں ہے۔ ایمان نے مگر اس کو چمکانے کی ضرورت ہے۔
اللہ کو راضی کر لو از مولانا طارق جمیل
نام کتاب : اللہ کو راضی کر لو
Monday, March 7, 2011
نیکیوں میں بے حد اضافہ کرنے والے بابرکت کلمات
ترازو میں نہایت وزنی کلمات
(( عن ام المومنین جویریۃ بنت الحارث رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خرج من عندھا بکرۃ حین صلی الصبح وھی فی مسجدھا ثم رجع بعد ان اضحی وھی جالسۃ فقال (( ما ذلت علی الحال التی فارقتک علیھا ؟ )) قالت نعم ! قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم (( لقد قلت بعدک اربع کلمات ثلث مرات لو وزنت بما قلت منذ الیوم لوزنتھن : سبحان اللہ وبحمدہ عدد خلقہ ورضاءنفسہ وزنۃ عرشہ ومداد کلمتہ ))
( صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء ، باب التسبیح اول النھار وعند النوم )
” ام المومنین حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر ان کے پاس سے چلے گئے اور وہ اپنے جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کا وقت ہو جانے کے بعد واپس تشریف لائے تو حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ابھی تک وہیں بیٹھی ہوئی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم اسی حالت میں ہو جس پر میں تم کو چھوڑ کر گیا تھا ؟ “ انہوں نے عرض کیا ” ہاں ! “ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں نے تیرے بعد چار کلمے تین مرتبہ کہے ہیں اگر ان کا وزن کیا جائے تو اس وظیفہ پر غالب آ جائیں جو تو نے اب تک پڑھا ہے ۔ وہ کلمات یہ ہیں ۔
(( سبحان اللّٰہ وبحمدہ عدد خلقہ ورضاءنفسہ وزنۃ عرشہ ومداد کلمتہ ))
نیکیوں میں بے حد اضافہ کرنے والے بابرکت کلمات
(( عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال (( کلمتان خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان حبیبتان الی الرحمن سبحان اللّٰہ العظیم سبحان اللّٰہ وبحمدہ ))
( صحیح بخاری ، کتاب الدعوات ، باب فضل التسبیح )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” دو کلمے زبان سے ادا کرنے انتہائی آسان لیکن ترازو میں بہت وزنی ہیں اور رحمان کو بہت پسند ہیں ۔
(( سبحان اللہ العظیم سبحان اللہ وبحمدہ ))
” اللہ اپنی حمد کے ساتھ پاک ہیں اور عظمت والے ہیں ۔ “
مسلمان بھائی کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت سے دو پہاڑوں کے برابر ثواب ملتا ہے ۔
(( عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال (( من اتبع جنازۃ مسلم ایمانا واحتسابا وکان معہ حتی یصلی علیھا ویفرغ من دفنھا فانہ یرجع من الاجر بقیراطین کل قیراط مثل احد ومن صلی علیھا ثم رجع قبل ان تدفن فانہ یرجع بقیراط ))
( صحیح بخاری ، کتاب الایمان ، باب اتباع الجنائز من الایمان )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو شخص بحالت ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ چلے یہاں تک کہ نماز پڑھے اور دفن کرنے سے فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو دوقیراط کے برابر ثواب سے نوازیں گے اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے ۔ اور جو صرف نماز پڑھ کر واپس آجائے وہ ایک قیراط کے برابر ثواب پاتا ہے ۔ “
نماز فجر کی دو سنتوں کا ثواب
(( عن عائشۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال (( رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیھا )) کتاب صلاۃ المسافرین ، باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر والحث علیھا.... )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کہ فجر کی دو رکعتیں ( سنت ) دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے زیادہ قیمتی ہیں ۔ “
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجنے والے پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں
(( عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال (( من صلی علیَّ واحدۃ صلی اللّٰہ علیہ عشرا )) ( مسلم کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشھد )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ” جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت فرمائے گا ۔ “
سمندر کی جھاگ کے برابر گناہوں کو معاف کرنے والے پاکیزہ کلمات
(( عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال (( من قال سبحان اللّٰہ وبحمدہ فی یوم مائۃ مرۃ حطت عنہ خطایاہ وان کانت مثل زبد البحر )) ( صحیح بخاری ، کتاب الدعوات ، باب فضل التسبیح )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص دن میں سو بار یہ کلمات کہے (( سبحان اللہ وبحمدہ )) ( اللہ اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے ) اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔ “
نماز ظہر سے قبل اور بعد میں چار سنتیں پڑھنے والے پر جہنم کی آگ حرام
(( عن ام حبیبۃ رضی اللہ عنہا قال : سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم من حافظ علیٰ اربع رکعات قبل الظھر واربع بعدھا حرَّمہ اللّٰہ علی النار )) ( ترمذی کتاب الصلاۃ ، باب ما جاءفی الاربع قبل الظھر )
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ” جو ظہر سے پہلے اور ظہر کے بعد چار رکعت کی پابندی کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دیتے ہیں ۔ “ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے ۔
سید الاستغفار جنت کی ضمانت
(( عن شداد بن اوس رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال (( سید الاستغفار ان یقول اللھم انت ربی لا الہ الا انت خلقتنی وانا عبدک وانا علی عھدک ووعدک ما استطعت اعوذبک من شرما صنعت ابوئُلک بنعمتک علی وابوءبذنبی فاغفرلی انہ لایغفر الذنوب الاانت )) قال (( ومن قالھا من النھار موقنا بھا فمات من یومہ قبل ان یمسی فھو من اھل الجنۃ ومن قالھا من اللیل وھو موقن بھا فمات قبل ان یصبح فھو من اھل الجنۃ )) ( صحیح بخاری ، کتاب الدعوات ، باب افضل الاستغفار )
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” سید الاستغفار ( یعنی افضل ترین استغفار ) یہ ہے کہ تو اس طرح کہے (( اللھم انت ربی.... )) ” تو ہی میرا رب ہے ۔ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں اپنی طاقت کے مطابق اور اپنی کی ہوئی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور میں ان نعمتوں کا جو تیری طرف سے ہیں اقرار کرتا ہوں اور میں اپنے گناہوں کا بھی اقرار کرتا ہوں تو مجھ کو معاف کر دے کیوں کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مذکورہ الفاظ کو دن میں پڑھے گا ( ثواب کا ) پورا یقین رکھتے ہوئے اگر وہ شام ہونے سے پہلے پہلے مر جائے تو وہ جنتیوں میں سے ہو گا ۔ اور جو شخص یہ الفاظ رات کو پڑھے پورے یقین کے ساتھ وہ صبح ہونے سے پہلے پہلے مر جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہے ۔ “
(( عن ام المومنین جویریۃ بنت الحارث رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خرج من عندھا بکرۃ حین صلی الصبح وھی فی مسجدھا ثم رجع بعد ان اضحی وھی جالسۃ فقال (( ما ذلت علی الحال التی فارقتک علیھا ؟ )) قالت نعم ! قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم (( لقد قلت بعدک اربع کلمات ثلث مرات لو وزنت بما قلت منذ الیوم لوزنتھن : سبحان اللہ وبحمدہ عدد خلقہ ورضاءنفسہ وزنۃ عرشہ ومداد کلمتہ ))
( صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء ، باب التسبیح اول النھار وعند النوم )
” ام المومنین حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر ان کے پاس سے چلے گئے اور وہ اپنے جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کا وقت ہو جانے کے بعد واپس تشریف لائے تو حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ابھی تک وہیں بیٹھی ہوئی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم اسی حالت میں ہو جس پر میں تم کو چھوڑ کر گیا تھا ؟ “ انہوں نے عرض کیا ” ہاں ! “ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں نے تیرے بعد چار کلمے تین مرتبہ کہے ہیں اگر ان کا وزن کیا جائے تو اس وظیفہ پر غالب آ جائیں جو تو نے اب تک پڑھا ہے ۔ وہ کلمات یہ ہیں ۔
(( سبحان اللّٰہ وبحمدہ عدد خلقہ ورضاءنفسہ وزنۃ عرشہ ومداد کلمتہ ))
نیکیوں میں بے حد اضافہ کرنے والے بابرکت کلمات
(( عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال (( کلمتان خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان حبیبتان الی الرحمن سبحان اللّٰہ العظیم سبحان اللّٰہ وبحمدہ ))
( صحیح بخاری ، کتاب الدعوات ، باب فضل التسبیح )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” دو کلمے زبان سے ادا کرنے انتہائی آسان لیکن ترازو میں بہت وزنی ہیں اور رحمان کو بہت پسند ہیں ۔
(( سبحان اللہ العظیم سبحان اللہ وبحمدہ ))
” اللہ اپنی حمد کے ساتھ پاک ہیں اور عظمت والے ہیں ۔ “
مسلمان بھائی کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت سے دو پہاڑوں کے برابر ثواب ملتا ہے ۔
(( عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال (( من اتبع جنازۃ مسلم ایمانا واحتسابا وکان معہ حتی یصلی علیھا ویفرغ من دفنھا فانہ یرجع من الاجر بقیراطین کل قیراط مثل احد ومن صلی علیھا ثم رجع قبل ان تدفن فانہ یرجع بقیراط ))
( صحیح بخاری ، کتاب الایمان ، باب اتباع الجنائز من الایمان )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو شخص بحالت ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ چلے یہاں تک کہ نماز پڑھے اور دفن کرنے سے فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو دوقیراط کے برابر ثواب سے نوازیں گے اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے ۔ اور جو صرف نماز پڑھ کر واپس آجائے وہ ایک قیراط کے برابر ثواب پاتا ہے ۔ “
نماز فجر کی دو سنتوں کا ثواب
(( عن عائشۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال (( رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیھا )) کتاب صلاۃ المسافرین ، باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر والحث علیھا.... )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کہ فجر کی دو رکعتیں ( سنت ) دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے زیادہ قیمتی ہیں ۔ “
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجنے والے پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں
(( عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال (( من صلی علیَّ واحدۃ صلی اللّٰہ علیہ عشرا )) ( مسلم کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشھد )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ” جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت فرمائے گا ۔ “
سمندر کی جھاگ کے برابر گناہوں کو معاف کرنے والے پاکیزہ کلمات
(( عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال (( من قال سبحان اللّٰہ وبحمدہ فی یوم مائۃ مرۃ حطت عنہ خطایاہ وان کانت مثل زبد البحر )) ( صحیح بخاری ، کتاب الدعوات ، باب فضل التسبیح )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص دن میں سو بار یہ کلمات کہے (( سبحان اللہ وبحمدہ )) ( اللہ اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے ) اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔ “
نماز ظہر سے قبل اور بعد میں چار سنتیں پڑھنے والے پر جہنم کی آگ حرام
(( عن ام حبیبۃ رضی اللہ عنہا قال : سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم من حافظ علیٰ اربع رکعات قبل الظھر واربع بعدھا حرَّمہ اللّٰہ علی النار )) ( ترمذی کتاب الصلاۃ ، باب ما جاءفی الاربع قبل الظھر )
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ” جو ظہر سے پہلے اور ظہر کے بعد چار رکعت کی پابندی کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دیتے ہیں ۔ “ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے ۔
سید الاستغفار جنت کی ضمانت
(( عن شداد بن اوس رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال (( سید الاستغفار ان یقول اللھم انت ربی لا الہ الا انت خلقتنی وانا عبدک وانا علی عھدک ووعدک ما استطعت اعوذبک من شرما صنعت ابوئُلک بنعمتک علی وابوءبذنبی فاغفرلی انہ لایغفر الذنوب الاانت )) قال (( ومن قالھا من النھار موقنا بھا فمات من یومہ قبل ان یمسی فھو من اھل الجنۃ ومن قالھا من اللیل وھو موقن بھا فمات قبل ان یصبح فھو من اھل الجنۃ )) ( صحیح بخاری ، کتاب الدعوات ، باب افضل الاستغفار )
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” سید الاستغفار ( یعنی افضل ترین استغفار ) یہ ہے کہ تو اس طرح کہے (( اللھم انت ربی.... )) ” تو ہی میرا رب ہے ۔ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں اپنی طاقت کے مطابق اور اپنی کی ہوئی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور میں ان نعمتوں کا جو تیری طرف سے ہیں اقرار کرتا ہوں اور میں اپنے گناہوں کا بھی اقرار کرتا ہوں تو مجھ کو معاف کر دے کیوں کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مذکورہ الفاظ کو دن میں پڑھے گا ( ثواب کا ) پورا یقین رکھتے ہوئے اگر وہ شام ہونے سے پہلے پہلے مر جائے تو وہ جنتیوں میں سے ہو گا ۔ اور جو شخص یہ الفاظ رات کو پڑھے پورے یقین کے ساتھ وہ صبح ہونے سے پہلے پہلے مر جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہے ۔ “
Saturday, March 5, 2011
اخلاص اور اطاعت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَلِلّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير
وَاللّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون
أَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاء مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلاَّ اللّهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُون
( النحل:16 - آيات:77-78-79 )
آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اللہ تعالٰی ہی کو معلوم ہے اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب۔ بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔ (77)
اللہ تعالٰی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو ۔ (78)
کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو تابع فرمان ہو کر فضا میں ہیں، جنہیں بجز اللہ تعالٰی کے کوئی اور تھامے ہوئے نہیں، بیشک اس میں ایمان لانے والے لوگوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (79)
اللہ تعالٰی اپنے کمال علم اور کمال قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ زمین و آسمان کا غیب وہی جانتا ہے ، کوئی نہیں جو غیب داں ہو۔ اللہ جسے چاہے ، جس چیز پر چاہے ، اطلاع دے دے ۔ ہرچیز اس کی قدرت میں ہے نہ کوئی اس کا خلاف کر سکے ، نہ کوئی اسے روک سکے۔ جس کام کا جب ارادہ کرے ، قادر ہے پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ آنکھ بند کر کے کھو لنے میں تو تمہیں کچھ دیر لگتی ہوگی لیکن حکم الٰہی کے پورا ہو نے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی ۔
قیامت کا آنا بھی اس پر ایسا ہی آ سان ہے ، وہ بھی حکم ہو تے ہی آ جائے گی ۔ ایک کا پیدا کرنا اور سب کا پیدا کرنا اس پر یکساں ہے ۔
اللہ کا احسان دیکھو کہ اس نے لوگوں کو ماؤں کے پیٹوں سے نکالا۔ یہ محض نا دان تھے پھر انہیں کان دئیے جس سے وہ سنیں ، آنکھیں دیں جس سے دیکھیں ، دل دئیے جس سے سوچیں اور سمجھیں ۔
عقل کی جگہ دل ہے اور دماغ بھی کہا گیا ہے۔ عقل سے ہی نفع نقصان معلوم ہوتا ہے۔ یہ قویٰ اور حواس انسان کو بتدریج تھوڑے تھوڑے ہو کر ملتے ہیں ، عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھوتری بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کمال کو پہنچ جائیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسان اپنی ان طا قتوں کو اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگائے رہے ۔
صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے کہ :
جو میرے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے لڑائی کا اعلان کرتا ہے ۔ میرے فرائض کی بجا آوری سے جس قدر بندہ میری قر بت حاصل کر سکتا ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں کر سکتا ۔ نوافل بکثرت پڑھتے پڑھتے بندہ میرے نزدیک اور میرا محبوب ہو جاتا ہے ۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ تھامتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔ وہ اگر مجھ سے مانگے میں دیتا ہوں ، اگر دعا کرے میں قبول کرتا ہوں ، اگر پناہ چاہے ، میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی روح کے قبض کرنے میں موت کو نا پسند کرتا ہے ۔ میں اسے نا راض کرنا نہیں چاہتا۔
(بخاری ، کتاب الرقاق ، باب التواضع ، ح:6502)
اور موت ایسی چیز ہی نہیں جس سے کسی ذی روح کو نجات مل سکے ۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لئے ، دیکھتا ہے اللہ کے لئے ، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے۔ شرع نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے، انہی کو دیکھتا ہے۔ اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھانا ، پاؤں چلا نا بھی اللہ کی رضامندی کے کاموں کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اللہ پر اس کا بھروسہ رہتا ہے۔ اسی سے مدد چاہتا ہے ، اس کے تمام کام اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے ہی ہو تے ہیں ۔ اس لئے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ پھر وہ میرے ہی لئے سنتا ہے اور میرے ہی لئے دیکھتا ہے اور میرے لئے پکڑتا ہے اور میرے لئے ہی چلتا پھرتا ہے ۔
آیت میں بیان ہے کہ ماں کے پیٹ سے وہ نکالتا ہے ، کان ، آنکھ ، دل ، دماغ وہ دیتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔
اور آیت میں فرمان ہے :
قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ الخ (المُلك:23)
یعنی اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کر تے ہو ، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تمہارا حشر کیا جانے والا ہے۔
آیت : 79
پھر اللہ پاک رب العالمین اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ان پرندوں کی طرف دیکھو جو آسمان و زمین کے درمیان کی فضا میں پرواز کر تے پھرتے ہیں ، انہیں پروردگار ہی اپنی قدرت کاملہ سے تھا مے ہوئے ہے۔ یہ قوت پر وازاسی نے انہیں دے رکھی ہے اور ہواؤں کو ان کا مطیع بنا رکھا ہے ۔
سورہ ملک میں بھی یہی فرمان ہے کہ کیا وہ اپنے سروں پر اڑتے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھتے؟ جو پر کھولے ہوئے ہیں اور پر سمیٹے ہوئے بھی ہیں انہیں بجز اللہ رحمان و رحیم کے کون تھامتا ہے ؟
وہ اللہ تمام مخلوق کو بخوبی دیکھ رہا ہے ، یہاں بھی خاتمے پر فرمایا کہ اس میں ایمانداروں کے لئے بہت سے نشان ہیں ۔
بحوالہ :
تفسیر ابن کثیر
مترجم : محمد جوناگڑھی
وَلِلّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير
وَاللّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون
أَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاء مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلاَّ اللّهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُون
( النحل:16 - آيات:77-78-79 )
آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اللہ تعالٰی ہی کو معلوم ہے اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب۔ بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔ (77)
اللہ تعالٰی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو ۔ (78)
کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو تابع فرمان ہو کر فضا میں ہیں، جنہیں بجز اللہ تعالٰی کے کوئی اور تھامے ہوئے نہیں، بیشک اس میں ایمان لانے والے لوگوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (79)
اللہ تعالٰی اپنے کمال علم اور کمال قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ زمین و آسمان کا غیب وہی جانتا ہے ، کوئی نہیں جو غیب داں ہو۔ اللہ جسے چاہے ، جس چیز پر چاہے ، اطلاع دے دے ۔ ہرچیز اس کی قدرت میں ہے نہ کوئی اس کا خلاف کر سکے ، نہ کوئی اسے روک سکے۔ جس کام کا جب ارادہ کرے ، قادر ہے پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ آنکھ بند کر کے کھو لنے میں تو تمہیں کچھ دیر لگتی ہوگی لیکن حکم الٰہی کے پورا ہو نے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی ۔
قیامت کا آنا بھی اس پر ایسا ہی آ سان ہے ، وہ بھی حکم ہو تے ہی آ جائے گی ۔ ایک کا پیدا کرنا اور سب کا پیدا کرنا اس پر یکساں ہے ۔
اللہ کا احسان دیکھو کہ اس نے لوگوں کو ماؤں کے پیٹوں سے نکالا۔ یہ محض نا دان تھے پھر انہیں کان دئیے جس سے وہ سنیں ، آنکھیں دیں جس سے دیکھیں ، دل دئیے جس سے سوچیں اور سمجھیں ۔
عقل کی جگہ دل ہے اور دماغ بھی کہا گیا ہے۔ عقل سے ہی نفع نقصان معلوم ہوتا ہے۔ یہ قویٰ اور حواس انسان کو بتدریج تھوڑے تھوڑے ہو کر ملتے ہیں ، عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھوتری بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کمال کو پہنچ جائیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسان اپنی ان طا قتوں کو اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگائے رہے ۔
صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے کہ :
جو میرے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے لڑائی کا اعلان کرتا ہے ۔ میرے فرائض کی بجا آوری سے جس قدر بندہ میری قر بت حاصل کر سکتا ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں کر سکتا ۔ نوافل بکثرت پڑھتے پڑھتے بندہ میرے نزدیک اور میرا محبوب ہو جاتا ہے ۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ تھامتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔ وہ اگر مجھ سے مانگے میں دیتا ہوں ، اگر دعا کرے میں قبول کرتا ہوں ، اگر پناہ چاہے ، میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی روح کے قبض کرنے میں موت کو نا پسند کرتا ہے ۔ میں اسے نا راض کرنا نہیں چاہتا۔
(بخاری ، کتاب الرقاق ، باب التواضع ، ح:6502)
اور موت ایسی چیز ہی نہیں جس سے کسی ذی روح کو نجات مل سکے ۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لئے ، دیکھتا ہے اللہ کے لئے ، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے۔ شرع نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے، انہی کو دیکھتا ہے۔ اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھانا ، پاؤں چلا نا بھی اللہ کی رضامندی کے کاموں کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اللہ پر اس کا بھروسہ رہتا ہے۔ اسی سے مدد چاہتا ہے ، اس کے تمام کام اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے ہی ہو تے ہیں ۔ اس لئے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ پھر وہ میرے ہی لئے سنتا ہے اور میرے ہی لئے دیکھتا ہے اور میرے لئے پکڑتا ہے اور میرے لئے ہی چلتا پھرتا ہے ۔
آیت میں بیان ہے کہ ماں کے پیٹ سے وہ نکالتا ہے ، کان ، آنکھ ، دل ، دماغ وہ دیتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔
اور آیت میں فرمان ہے :
قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ الخ (المُلك:23)
یعنی اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کر تے ہو ، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تمہارا حشر کیا جانے والا ہے۔
آیت : 79
پھر اللہ پاک رب العالمین اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ان پرندوں کی طرف دیکھو جو آسمان و زمین کے درمیان کی فضا میں پرواز کر تے پھرتے ہیں ، انہیں پروردگار ہی اپنی قدرت کاملہ سے تھا مے ہوئے ہے۔ یہ قوت پر وازاسی نے انہیں دے رکھی ہے اور ہواؤں کو ان کا مطیع بنا رکھا ہے ۔
سورہ ملک میں بھی یہی فرمان ہے کہ کیا وہ اپنے سروں پر اڑتے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھتے؟ جو پر کھولے ہوئے ہیں اور پر سمیٹے ہوئے بھی ہیں انہیں بجز اللہ رحمان و رحیم کے کون تھامتا ہے ؟
وہ اللہ تمام مخلوق کو بخوبی دیکھ رہا ہے ، یہاں بھی خاتمے پر فرمایا کہ اس میں ایمانداروں کے لئے بہت سے نشان ہیں ۔
بحوالہ :
تفسیر ابن کثیر
مترجم : محمد جوناگڑھی
Subscribe to:
Posts (Atom)