Pages

Monday, April 25, 2011

زمین و آسمان کی تخلیق چھ دن میں

سورة الأعراف آیات ۵۴ـ۵۸

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۵۴﴾

بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین [۶۴] چھ دن میں [۶۵] پھر قرار پکڑا عرش پر [۶۶] اوڑھاتا ہے رات پر دن کہ وہ اسکے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا اور پیدا کئے سورج اور چاند اور تارے [۶۷] تابعدار اپنے حکم کے [۶۸] سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا [۶۹]


Surely, your Lord is Allah who created the heavens and the earth in six days, then He positioned himself on the Throne. He covers the day with the night that pursues it swiftly. (He created) the sun and the moon and the stars, subjugated to His command. Lo! To Him alone belong the creation and the command. Glorious is Allah, the Lord of all the worlds.


اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾

پکارو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے [۷۰] اس کو خوش نہیں آتے حد سے بڑھنے والے [۷۱]


Supplicate to your Lord humbly and secretly. Surely, He does not like those who cross the limits.


وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾

اور مت خرابی ڈالو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد اور پکارو اس کو ڈر اور توقع سے [۷۲] بیشک اللہ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے


Do not make mischief on the earth after it has been set in order. Supplicate Him in fear and hope. Surely, the mercy of Allah is close to those who are good in their deeds.


وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۵۷﴾

اور وہی ہے کہ چلاتا ہے ہوائیں خوشخبری لانے والی مینہ سے پہلے یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں اٹھا لاتی ہیں بھاری بادلوں کو تو ہانک دیتے ہیں ہم اس بادل کو ایک شہر مردہ کی طرف پھر ہم اتارتے ہیں اس بادل سے پانی پھر اس سے نکالتے ہیں سب طرح کے پھل اسی طرح ہم نکالیں گے مردوں کو تاکہ تم غور کرو


He is the One who sends the winds carrying good news before His blessings, until when they lift up the heavy clouds, We drive them to a dead land. Then, there We pour down water. Then, We bring forth with it all sorts of fruits. In similar way, We will bring forth all the dead. (All this is being explained to you), so that you may learn a lesson.


وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّشۡکُرُوۡنَ ﴿٪۵۸﴾

اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کا سبزہ نکلتا ہے اس کے رب کے حکم سے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر ناقص یوں پھیر پھیر کر بتلاتے ہیں ہم آیتیں حق ماننے والے لوگوں کو [۷۳]


As for a good land, its vegetation comes out with the permission of its Lord. But that which is bad does not grow except what is bad. Thus We alternate the verses in various ways for a people who pay gratitude.


[۶۴]زمین و آسمان کی تخلیق چھ دن میں:

گذشتہ آیت میں معاد کا ذکر تھا اس رکوع میں مبدا کی معرفت کرائی گئ ہے ۔ وہاں قَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ سے بتلایا گیا تھا کہ جو لوگ دنیا میں انبیاء و رسل سے منحرف رہتے تھے ان کو بھی قیامت کے دن پیغمبروں کی سچائی کی ناچار تصدیق کرنی پڑے گی۔ یہاں نہایت لطیف پیرایہ میں خدا کی حکومت یاد دلانے اور انبیاء و رسل کی ضرورت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بعض مشہور پیغمبروں کے احوال و واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ انکی تصدیق یا تکذیب کرنے والوں کا آخرت سے پہلے دنیا ہی میں کیا انجام ہوا گویا یہ رکوع آنے والے کئ رکوعات کی تمہید ہے
۔
[۶۵]یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے برابر تھا پیدا کیا کیونکہ یہ متعارف دن اور رات تو آفتاب کے طلوع و غروب سے وابستہ ہیں جب اس وقت آفتاب ہی پیدا نہ ہوا تھا تو دن رات کہاں سے ہوتا۔ یا یہ کہا جائے کہ عالم شہادت کے دن رات مراد نہیں، عالم غیب کے دن رات مراد ہیں۔ جیسے کسی عارف نے فرمایا ہے ؂ غیب را ابرے وآبے دیگر است۔ آسمان و آفتابے دیگر است۔ پہلی صورت میں پھر علماء کا اختلاف ہے کہ یہاں چھ دن سے ہمارےچھ دن کی مقدار مراد ہے۔ یا ہزار برس کا ایک ایک دن جسے فرمایا ہے وَ اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ (الحج۔۴۷) میرے نزدیک یہ آخری قول راجح ہے۔ بہرحال مقصود یہ ہوا کہ آسمان و زمین دفعۃً بنا کر نہیں کھڑے کئےگئے۔ شاید اول ان کا مادہ پیدا فرمایا ہو۔ پھر اس کی استعداد کے موافق بتدریج مختلف اشکال و صور میں منتقل کرتے رہے ہوں۔ حتٰی کہ چھ دن (چھ ہزار سال) میں وہ بجمیع متعلقا تہما موجودہ مرتب شکل میں موجود ہوئے۔ جیسا کہ آج بھی انسان اور کل حیوانات و نباتات وغیرہ کی تولید و تخلیق کا سلسلہ تدریجی طور پر جاری ہے۔ اور یہ اس کی شان "کن فیکون" کے منافی نہیں۔ کیونکہ "کن فیکون" کا مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ خدا جس چیز کو وجود کے جس درجہ میں لانا چاہے اس کا ارادہ ہوتے ہی وہ اس درجہ میں آ جاتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ خدا کسی چیز کو وجود کے مختلف مدارج سے گذارنے کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ ہر شے کو بدون توسط اسباب و علل کے دفعۃً موجود کرتا ہے۔

[۶۶]استویٰ علی العرش کی تفسیر:

خدا تعالیٰ کی صفات و افعال کے متعلق یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ نصوص قرآن و حدیث میں جو الفاظ حق تعالیٰ کی صفات کے بیان کرنے کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ان میں اکثر وہ ہیں جن کا مخلوق کی صفات پر بھی استعمال ہوا ہے مثلًا خدا کو "حی" "سمیع" "بصیر" "متکلم" کہا گیا اور انسان پر بھی یہ الفاظ اطلاق کئے گئے، تو ان دونوں مواقع میں استعمال کی حیثیت بالکل جداگانہ ہے۔ کسی مخلوق کو سمیع و بصیر کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان موجود ہیں۔ اب اس میں دو چیزیں ہوئیں۔ ایک وہ آلہ جسے آنکھ کہتےہیں اور جو دیکھنے کا مبدا اور ذریعہ بنتا ہے۔ دوسرا اس کا نتیجہ اور غرض و غایت (دیکھنا) یعنی وہ خاص علم جو رویت بصری سے حاصل ہوا ۔ مخلوق کو جب "بصیر" کہا تو یہ مبداء اور غایت دونوں چیزیں معتبر ہوئیں۔ اور دونوں کی کیفیات ہم نے معلوم کر لیں۔ لیکن یہ ہی لفط جب خدا کی نسبت استعمال کیا گیا تو یقینًا و مبادی اور کیفیات جسمانیہ مراد نہیں ہو سکتیں جو مخلوق کے خواص میں سے ہیں اور جن سے خداوند قدوس قطعًا منزہ ہے البتہ یہ اعتقاد رکھنا ہو گا کہ ابصار (دیکھنے) کا مبداء اس کی ذات اقدس میں موجود ہے اور اس کا نتیجہ یعنی وہ علم جو رویت بصری سے حاصل ہو سکتا ہے اس کو بدرجہ کمال حاصل ہے۔ آگے یہ کہ وہ مبداء کیسا ہے اور دیکھنے کی کیا کیفیت ہے تو بجز اس بات کے کہ اس کا دیکھنا مخلوق کی طرح نہیں ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (شوریٰ۔۱۱) نہ صرف سمیع و بصیر بلکہ اس کی تمام صفات کو اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ صفت باعتبار اپنے اصل مبداء و غایت کے ثابت ہے مگر اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی اور نہ شرائع سماویہ نے اس کا مکلف بنایا ہے کہ آدمی اس طرح کے ماوراء عقل حقائق میں خوض کر کے پریشان ہو۔ اس کا کچھ حصہ خلاصہ ہم سورہ مائدہ میں زیر فائدہ وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ یَدُ اللّٰہِ مَغۡلُوۡلَۃٌ (المائدہ۔۶۴) بیان کر چکے ہیں۔ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کو بھی اسی قاعدہ سے سمجھ لو۔ "عرش" کے معنی تخت اور بلند مقام کے ہیں۔ "استواء" کا ترجمہ اکثر محققین نے "استقرار و تمکن" سے کیا ہے (جسے مترجمؒ نے قرار پکڑنے سے تعبیر فرمایا) گویا یہ لفظ تخت حکومت پر ایسی طرح قابض ہونے کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کا کوئی حصہ اور گوشہ حیطہ نفوذ و اقتدار سے باہر نہ رہے اور نہ قبضہ و تسلط میں کسی قسم کی مزاحمت اور گڑ بڑی پائی جائے
۔ سب کام اور انتظام برابر ہو۔ اب دنیا میں بادشاہوں کی تخت نشینی کا ایک مبداء اور ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت یا غرض و غایت یعنی ملک پر پورا تسلط و اقتدار اور نفوذ و تصرف کی قدرت حاصل ہونا۔ حق تعالیٰ کے اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ میں یہ حقیقت اور غرض و غایت بدرجہ کمال موجود ہے یعنی آسمان و زمین (کل علویات و سفلیات) کو پیدا کرنے کے بعد ان پر کامل قبضہ و اقتدار اور ہر قسم کے مالکانہ و شہنشاہانہ تصرفات کا حق بے روک ٹوک اسی کو حاصل ہے جیسا کہ دوسری جگہ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کے بعد یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ وغیرہ الفاظ اور یہاں یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ الخ سے اسی مضمون پر متنبہ فرمایا ہے۔ رہا اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کا مبداء اور ظاہری صورت، اس کے متعلق وہ ہی عقیدہ رکھنا چاہئے جو ہم "سمع و بصر" وغیرہ صفات کے متعلق لکھ چکے ہیں کہ اس کی کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی جس میں صفات مخلوقین اور سمات حدوث کا ذرا بھی شائبہ ہو۔ پھر کیسی ہے؟ اس کا جواب وہی ہے کہ ؂اے برتر از خیال و قیاس و گمان و وہم۔ وزہر چہ گفتہ اند شنیدیم و خواندہ ایم۔ منزل تمام گشت و بپایاں رسید عمر۔ ماہمچناں در اول وصف تو ماندہ ایم ۔ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ

[۶۷]چاند سورج اور دن رات کی تخلیق:

یعنی رات کے اندھیرے کو دن کے اجالے سے یا دن کے اجالے کو رات کے اندھیرے سے ڈھانپتا ہے اس طرح کہ ایک دوسرے کا تعاقب کرتا ہوا تیزی سے چلا آتا ہے۔ ادھر رات ختم ہوئی ادھر دن آ موجود ہوا، یا دن تمام ہوا تو فورًا رات آ گئ۔ درمیان میں ایک منٹ کا وقفہ بھی نہیں ہوتا۔ شاید اس پر بھی تنبیہ فرما دی کہ اسی طرح کفر و ضلالت اور ظلم و عدوان کی شب دیجور جب عالم پر محیط ہو جاتی ہے اس وقت خدا تعالیٰ ایمان و عرفان کے آفتاب سے ہر چہار طرف روشنی پھیلا دیتا ہے۔ اور جب تک آفتاب عالمتاب کی روشنی نمودار نہ ہو تو نبوت کے چاند تارے رات کی تاریکی میں اجالا اور رہنمائی کرتے ہیں۔

[۶۸]کوئی سیارہ اس کے حکم کے بدون حرکت نہیں کر سکتا
۔
[۶۹]پیدا کرنا "خلق" ہے اور پیدا کرنے کے بعد تکوینی یا تشریعی احکام دینا یہ "امر" ہے اور دونوں اسی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ اس طرح وہ ہی ساری خوبیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہوا۔

[۷۰]اللہ کو پکارنے کا طریقہ:

جب "عالم خلق و امر" کا مالک اور تمام برکات کا منبع وہ ہی ذات ہے تو اپنی دنیوی و اخروی حوائج میں اسی کو پکارنا چاہئے۔ الحاح و اخلاص اور خشوع کےساتھ بدون ریاکاری کے آہستہ آہستہ اس سے معلوم ہوا کہ دعاء میں اصل اخفاء ہے اور یہی سلف کا معمول تھا۔ بعض مواضع میں جہر و اعلان کسی عارض کی وجہ سے ہوگا۔ جس کی تفصیل روح المعانی وغیرہ میں ہے
۔
[۷۱]یعنی دعاء میں حد ادب سے نہ بڑھے ۔ مثلًا جو چیزیں عادتًا یا شرعًا محال ہیں وہ مانگنے لگے یا معاصی اور لغو چیزوں کی طلب کرے یا ایسا سوال کرے جو اس کی شان و حیثیت کے مناسب نہیں، یہ سب "اعتداء فی الدعاء" میں داخل ہے
۔
[۷۲]پچھلی آیتوں میں ہر حاجت کے لئے خدا کو پکارنے کا طریقہ بتلایا تھا۔ اس آیت میں مخلوق اور خالق دونوں کے حقوق کی رعایت سکھلائی یعنی جب دنیا میں معاملات کی سطح درست ہو تو تم اس میں گڑ بڑی نہ ڈالو اور خوف و رجاء کے ساتھ خدا کی عبادت میں مشغول رہو۔ نہ اس کی رحمت سے مایوس ہو اور نہ اس کےعذاب سے مامون اور بےفکر ہو کر گناہوں پر دلیر بنو۔ میرے نزدیک یہ ہی راجح ہے کہ یہاں وَادْعُوْہُ الخ میں دعاء سے عبادت مراد لی جائے۔ جیسا کہ صلوٰۃ تہجد کے بارہ میں فرمایا۔ تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۔ (السجدہ۔۱۶)

[۷۳]کائنات میں حق تعالیٰ کا تصرف:

پچھلی آیات میں "استواء علی العرش" کے ساتھ فلکیات (چاند سورج وغیرہ) میں جو خدائی تصرفات ہیں ان کا بیان تھا، درمیان میں بندوں کو کچھ مناسب ہدایات کی گئیں اب سفلیات اور "کائنات الجو" کے متعلق اپنے بعض تصرفات کا ذکر فرماتے ہیں تاکہ لوگ معلوم کر لیں کہ آسمان زمین اور ان دونوں کے درمیانی حصہ کی کل حکومت صرف اسی رب العالمین کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ہوائیں چلانا، مینہ برسانا، قسم قسم کے پھول، پھل پیدا کرنا۔ ہر زمین کی استعداد کے موافق کھیتی اور سبزہ اگانا، یہ سب اسی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے نشان ہیں۔ اسی ذیل میں مُردوں کا موت کے بعد جی اٹھنا اور قبروں سے نکلنا بھی سمجھا دیا۔
 حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ "ایک تو مُردوں کا نکلنا قیامت میں ہے اور ایک دنیا میں یعنی جاہل ادنیٰ لوگوں میں (جہالت و ذلت کی موت سے مر چکے تھے) عظیم الشان نبی بھیجا اور انہیں علم دیا اور دنیا کا سردار کیا، پھر ستھری استعداد والے کمال کو پہنچے اور جن کی استعداد خراب تھی ان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ناقص سا " گویا اس پورے رکوع میں بتلا دیا گیا کہ جب خدا اپنی رحمت و شفقت سے رات کی تاریکی میں ستارے، چاند، سورج سے روشنی کرتا ہے اور خشکی کے وقت زمین کو سرسبز و شاداب کرنے اور انسان و حیوانات کی زندگی کا سامان مہیا فرمانے کے لئے اوپر سے بارش بھیجتا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسا مہربان خدا اپنی مخلوق کو جہل و ظلم کی اندھیریوں سے نکالنے کے لئے کوئی چاند اور سورج پیدا نہ کرے اور بنی آدم کی روحانی غذا تیار کرنے اور قلوب کی کھیتیوں کو سیراب کرنے کے لئے باران رحمت نازل نہ فرمائے

۔ بلاشبہ اس نے ہر زمانہ کی ضرورت اور اپنی حکمت کے موافق پیغمبروں کو بھیجا جن کے منور سینوں سے دنیا میں روحانی روشنی پھیلی اور وحی الہٰی کی لگاتار بارشیں ہوئیں۔ چنانچہ آیندہ کئ رکوع میں ان ہی پیغمبروں کے بھیجنے کا ذکر کیا گیا ہے اور جیسا کہ بارش اور زمین کی مثال میں اشارہ کیا گیا کہ مختلف زمینیں اپنی اپنی استعداد کے موافق بارش کا اثر قبول کرتی ہیں، اسی طرح سمجھ لو کہ انبیاء علیہم السلام جو خیر و برکت لے کر آتے ہیں، اس سے منتفع ہونا بھی حسن استعداد پر موقوف ہے۔ جو لوگ ان سے انتفاع نہیں کرتے یا پورا انتفاع نہیں کرتے، انہیں اپنی سوء استعداد پر رونا چاہئے ؂ باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست۔ درباغ لالہ روید و در شو بوم خس۔

Monday, April 18, 2011

زندگی کی سچائی

گے کہ اس دنیا میں آنے کا ہمارا مقصد کیا ہے۔ ضرور دیکھیے۔

















Friday, April 15, 2011

آیے اپنے رب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں

بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم

اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں
 
آیے اپنے رب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں


اللہ کرے کہ میری یہ باتیں آپ کے دِل میں گھر کر جائیں ،
اور آپ اللہ سے حقیقی محبت کرنے لگیں جِس طرح کہ اُس سے محبت کرنے کا حق ہے ،
آیے اللہ کے بارے میں کچھ جانیں ، اور ایسی زُبان میں جانیں جو بولی جانے والی ساری زُبانوں سے مختلف ہے لیکن ساری زبانوں سے زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے ،
وہ ہے محبت کی ز ُبان
،
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ اُس کی بے مثال تخلیقات اور ایجادات سے ساری کائنات بھری ہوئی ہے بلکہ کائنات بھی اُسی کی تخلیق ہے ؟؟؟

انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ ہر سانس لینے والی جان پر اُس کا یہ احسانء عظیم ہو کہ وہ سانس لے رہی ہے ؟؟؟

انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ اُس کا ہمارے ساتھ انتہائی حلم والا رویہ کہ وہ ہمارا ہر وہ کام دیکھتا ہے جو اُس کی ناراضگی والا ہے پھر بھی ہمیں سزا نہیں دے رہا ؟؟؟

انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ ہم اُس کی نافرمانیوں میں لُتھڑ کر بھی اگر اُس کے سامنے خود کو حاضر کر دیں تو وہ ہماری طرف سے منہ نہیں پھیرتا ، ہم سے نفرت نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے ، اور ہماری توبہ قبول کرتا ہے اور ہمارے گناہوں کو نیکوں میں تبدیل کر دیتا ہے
 ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا کوئی ہم مثل نہیں ((((( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ::: اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب
دیکھنے اور سننے والا ہے ))))) سورت الشوریٰ /آیت 11،
اور اللہ پاک کے بارے میں کچھ سمجھانے کے لیے سب سے اعلیٰ ترین مثال ہوتی ہے ((((( وَلِلّهِ الْمَثَلُ الأَعْلَىَ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ::: اور اللہ کے لیے (سب سے) بُلند مثال ہے اور وہ زبردست اور حِکمت والا ہے )))) سورت النحل/آیت 60،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِن دونوں مذکورہ بالا فرامین کو سامنے رکھتے ہوئے میں ایک مثال دے کر آپ کو کچھ سمجھانا چاہتا ہوں لیکن معاذ اللہ یہ مثال اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک یا اُس کی کسی صفت مبارک کی تشبیہ کے لیےنہیں اور نہ ہی اُس کی کسی صفت مبارک کی کوئی کیفیت بتانے کے لیے بلکہ آپ صاحبان کو بات سمجھانے کے لیے ، آپ کے شعور میں کچھ اجاگر کرنے کے لیے ہے ،
تصور کیجیے کہ اگر کوئی انسان، کسی دوسرے اِنسان سے مصافحہ کرنے کے لیے یا اُس کی مدد کرنے کے لیے، یا اُس کو درست راہ تک پہنچانے کے لیے ، اُس کی طرف ہاتھ پھیلائے اوروہ پہلا اِس دوسرے کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ کسی اور طرف ، کسی اور کی طرف متوجہ رہے اور دوسرا شخص پہلے کی اِس بے رُخی کے باوجود اُس کی طرف متوجہ رہے اور اُس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے رکھے تو بتایے کیا آپ اُس پہلے بے رُخی کرنے والے کو اُس کی بے رخی پر ڈانٹیں گے نہیں ؟؟؟

اور دوسرے کو اِس پہلے کی طرف سے توجہ ہٹا دینے کا نہیں کہیں گے چھوڑیے اِس کو ، یہ اِس قابل ہی نہیں کہ آپ اِس کی مدد کرنے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑہائیں، اور شاید آپ کا یہ کہنا ایک لحاظ سے دُرست بھی ہو ، اب آپ یہ دیکھیے کہ ہمارا رب اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف کس طرح متوجہ رہتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے

 ((((( إِنَّ اللَّهَ عَزّ وجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ حتى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِن مَغْرِبِهَا::: بے شک اللہ عز و جل رات میں اپنا ہاتھ (مُبارک ) پھیلاتا ہے کہ دِن میں برائیاں کرنے والا توبہ کر لے اور دِن میں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات میں برائیاں کرنے والا توبہ کر لے (اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرتا رہے گا ) یہاں تک سورج مغرب سے طلوع ہو جائے )))))صحیح مُسلم/ حدیث 2759/ کتاب التوبہ /باب 5،

دیکھیے کہ ہمارا رب ہر وقت ہمارے لیے اپنی رحمت کے ساتھ ، اپنی مغفرت لیے ہوئے اپنا ہاتھ مبارک ہماری طرف پھیلائے رکھتا ہے اور ہم اُس کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اور طرف متوجہ رہتے ہیں ،ہمارے دِل ہمارے رب سے آشنا نہیں ، اُس کی رحمت اور اس کی بخشش کی وسعت سے آشنا نہیں ، اُس کی محبت سے آشنا نہیں ، اور یہ نا آشنائی ہمیں ہمارے رب سے اُس کی محبت سے اُس کی تابع فرمانی سے مزید دُور کرتی چلی جاتی ہے ،
آیے ایک اور مثال سے اپنے رب کی رحمت اور عطاء کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں ، اور ساتھ ساتھ ہی یہ بات بھی دہراتا چلوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ """ یہ مثال اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک یا اُس کی کسی صفت مبارک کی تشبیہ کے لیےنہیں اور نہ ہی اُس کی کسی صفت مبارک کی کوئی کیفیت بتانے کے لیے بلکہ آپ صاحبان کو بات سمجھانے کے لیے ، آپ کے شعور میں کچھ اجاگر کرنے کے لیے ہے
 """
جی ، تو ذرا سوچیے کہ ایک شخص کے پاس کچھ کام کرنے والے غُلام ہوں اور ان میں ایک بہت ہی غریب اور تباہ حال شخص بھی ہو ، اور یہ آقا اپنے اس غُلام کو اس کی ضروریات زندگی پوری کرنے کا سامان تو ضرور ہی دیتا ہواور جوابی طور پر وہ غُلام اپنے آقا کے احکام پر عمل نہ کرتا ہو ، اُس کی نا فرمانی کرتا ہو ،اور اگر کبھی آقا کے احکام پر عمل کرے بھی تو آقا کے بتائے ہوئے طریقے پر نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہو ، اپنے نفس کی خواہشات کے مطابق کرتا ہو ، اپنی عقل اور مزاج کی شہوتوں کے مطابق کرتا ہو ،
آپ ہی بتایے کہ کیا ایسا غُلام اس قابل نہیں کہ آقا اسے دُھتکار دے ، اپنے احسان اور درگزر کے دروازے اُس پر بند کر دے ؟؟؟
لیکن آقا یہ سب جانتے ہوئے بھی اُس نافرمان اور گمراہ غُلام کے ساتھ احسان اور درگزر والا رویہ رکھے اور اُس کے لیے اپنے عفو اور بخشش کے در کھولے رکھے
 ،
کیا آپ ایسے آقا کی تعریف نہ کریں گے ؟؟؟
کیا ایسے آقا کے لیے آپ کے دِل میں احترام اور محبت پیدا نہ ہو گی ؟

ایک دفعہ پھر یاد دہانی کروا دوں کہ اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کے لیے سب سے اعلیٰ ترین مثال ہو سکتی ہے ، یہ مثالیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات اور ان کی کیفیات نہیں ہیں بلکہ صرف ان کے بارے میں کچھ سمجھانے کچھ اندازہ قائم کرنے کے لیے ہے تو اس مذکورہ بالا مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اب غور کیجیے کہ وہ غُلام ہم ہیں اور وہ آقا اللہ تعالیٰ ہے ، تو کیوں ایسے الروؤف الرحیم اورالجوادالکریم رب کی محبت ہمارے دِلوں میں نہ ہو !!!؟؟؟

اور کیسے ہم اپنے""" ودود """رب کی نافرمانی کرتے ہیں !!!؟؟؟
دیکھے ہمارا """ ودود """ رب کس طرح اپنے اِیمان والے نیکوکار بندوں پر شفقت کی بارش کیے رکھتا ہے اور اُن کی اپنے رب سے محبت سے پہلے وہ """ ودود """ رب اُن سے محبت کرتا ہے ((((( يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ::: اللہ اُن سے محبت کرتا ہے او وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں )))))
اور اللہ تما م تر بادشاہی کا مالک ہے ، ہر قوت و قدرت کا مالک ہے،اُسے کسی سے کوئی حاجت نہیں ، کسی سے کوئی لالچ نہیں ، اس کے باوجود جب اپنے غُلاموں کی طرف نزول فرماتا ہے تو ان کے ساتھ اپنے جلال اور ھیبت والے معاملے کی بجائے شفقت اور رحمت والا معاملہ فرماتا اور انہیں پکار پکار کر فرماتا ہے

 ((((( هَل مِن سَائِلٍ يُعْطَى؟ هَل مِن دَاعٍ يُسْتَجَابُ لَهُ ؟ هَل مِن مُسْتَغْفِرٍ يُغْفَرُ لَهُ؟:::ہے کوئی سوالی کہ اُسے دِیا جائے ؟ ہے کوئی دُعا کرنے والا کہ اُس کی دُعا قبول کی جائے ؟ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ اُس کی بخشش کی جائے )))))صحیح مُسلم /حدیث758/کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا /باب24 ،

ایسا مالک اور آقا جو اپنی تمام تر قوت و عظمت کے باوجود ہماری تما م تر برائیوں اور نافرمانیوں کے باوجود ہمیں اُس کی بخشش کی کھلی دعوت دے، کیوں ہم اُس سے محبت نہیں کرتے اور اس کی نافرمانیوں میں مشغول رہتے ہیں !!!؟؟؟
اُس نے ہمیں اسلام کی نعمت سے نوازا ، اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت میں شامل فرما کر اپنی خاص نعمتوں کے دروازے ہمارے لیے کھولے اور اس طرح ہم سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ، اور ہم اُس سے محبت نہیں کرتے اُس کی نافرمانی کرتے ہیں !!! یا اُس کی تابع فرمانی اپنی مرضی کے طور طریقوں پر کرتے ہیں !!!
چلتے چلتے اللہ کی محبت حاصل ہوجانے کے نتیجے پر غور فرماتے چلیے
 ،
انس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ کہیں سے گذر رہے تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ راستے میں ہے اُس کی ماں نے جب اپنے بچے کو راستے کے درمیان میں دیکھا تو ڈر گئی کہ کہیں جانوروں کے پیروں تلے دب نہ جائے تو انتہائی والہانہ انداز میں """ میرا بچہ میرا بچہ """کہتے ہوئے بھاگی اور اپنے بچے کو اٹھا کر سینے سے چمٹا لیا ،

 صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ دیکھا تو عرض کی """ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُلْقِيَ ابْنَهَا فِي النَّارِ ؟::: اے اللہ کے رسول کیا یہ اپنے بیٹے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ؟ """ (یعنی جو ماں اپنے بیٹے سے اتنی محبت کرتی ہے وہ کیسے یہ برادشت کر سکتی ہے کہ اُس کا بیٹا آگ میں ڈال دیا جائے
 )
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا

 (((((لَا وَلَا يُلْقِي اللَّهُ حَبِيبَهُ فِي النَّارِ::: نہیں اور نہ ہی اللہ اپنے کسی محبوب کو آگ میں ڈالے گا ))))) المستدرک الحاکم/حدیث 7347، مُسند احمد /حدیث 13492/السلسلہ الصحیحۃ /حدیث2407،

اللہ کرے کہ ہم اُس سے محبت کرنے والوں میں سے بن سکیں اور ہم اُس کے اِس حکم پر عمل کرنے والے بھی بن سکیں کہ ((((( قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ::: (اے محمد ) آپ فرما دیجیے کہ اگر تُم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو (تو پھر ) اللہ تُم لوگوں سے محبت کرے گا اور تُم لوگوں کے گناہ معاف فرمائے گا اور اللہ بہت ہی بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے )))))سورت آل عمران /آیت 31۔
اپنی بات کچھ سوالات پر ختم کرتا ہوں جو ہم سب کے لیے ہیں کہ ہم خود سے پوچھیں کہ
 ،
کیا اپنے رب کی یہ چند صفات جاننے کے بعد بھی میں اُس سے اُس طرح محبت نہیں کروں گا جِس طرح کہ اُس سے محبت کرنے کا حق ہے ؟؟؟
اور کیا اِن بینات کو سمجھنے کے بعد بھی میں اُس کی نافرمانی کروں گا ؟؟؟
کیا میں نا شکر گذار بنوں گا ؟؟؟
کیا میں اپنے رب کی ذات بے مثال اور صفات بے مثال کو مزید جاننے سے رکا رہوں گا ؟؟؟
اِن شاء اللہ سب کا جواب """ نہیں """ ہوگا ، قولاً بھی اور عملاً بھی ،
اور آپ سب یہ کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کر کے اُس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کر کے اللہ کی محبت حاصل کر سکیں کہ جسے اللہ کی محبت حاصل ہو جائے اللہ اسے عذاب نہ دے گا ۔

Tuesday, April 12, 2011

جسم انسانی

خلیات:

 خلیہ زندہ اجسام کی بنیادی اکائی کا نام ہےایک اوسط قدوقامت کےانسانی جسم میں ان خلیات کی تعداد ایک کروڑ ارب کےقریب ہے۔
خلیےزندگی کےمختلف افعال انجام دیتےہیں مثلاً یہ سانس لیتےہیں غذا حاصل کرتےہیں اور بڑھتےہیں اور وقت پورا ہونےپر اللہ کےحکم سےاپنا کام پورا کرکےختم ہو جاتےہیں۔ تمام اربوں کھربوں خلیےایک ہی خلیےسےبنتےہیں کروڑوں خلیےروزانہ ختم ہو جاتےہیں اور دوسرےخلیےاُسی وقت ان کی جگہ لےلیتےہیں۔ اندازہ ہےکہ ہر سیکنڈ میں خون کےدس لاکھ سےزیادہ خلیات ختم ہو جاتےہیں اور اسی تعداد میں نئےخلیات جنم لےلیتےہیں۔
ہر خلیہ میں ٠٧ سے٥٨ فیصد تک پانی ہوتا ہی۔
خلیہ میں پانی کےعلاوہ ٠١ سے٠٢ فیصد لحمیات ہوتےہیں ٢ فی صد کولیسٹرول اور فاسفورلپڈ (چربی‘ چکنائی) ہوتےہیں ایک فی صد نشاستہ دار اجزاءہوتےہیں۔ ہڈیاں کیلشیم کا ذخیرہ بناتی ہیں۔
امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں کہ ہڈیوں کی حرکات کےلیےپورےجسم میں ٩٣٥ عضلات پیدا کیےہیں۔
جوڑ اور پٹھے: اللہ تعالیٰ نےہمارےجسم میں ایک سو اسی (٠٨١) جوڑ بنائےہیں جو ہمارےجسم کو حرکت دیتےہیں۔ (کتاب الصحت) عضلات اندرونی اعضا کو گرمی اور سردی سےمحفوظ رکھتےہیں۔ جسم کےتمام افعال حس و حرکت انہی سےمتعلق ہیں چنانچہ ایک قدم اٹھانےمیں یا ایک یا آدھےسیکنڈ میں ٥٤ پٹھےاستعمال ہوتےہیں۔ اعصاب میں دوڑنےوالی رَو کی رفتار ٤ میل فی سیکنڈ ہےیعنی ایک گھنٹےمیں ٤ ہزار ٤ سو میل فاصلہ طےکرتی ہی۔ دماغ سےجو پیغام انگلی تک پہنچتا ہےوہ ایک سیکنڈ کےسوویں حصےمیں اپنا فاصلہ طےکر لیتا ہے

۔
انسانی کھال:

 جلد میں دو لاکھ پچاس ہزار سےزائد ایسےخانےہیں جو سرد چیزوں کو محسوس کرتےہیں جب کوئی سرد چیز جسم کو چھوتی ہےتو دماغ کو خبر پہنچ جاتی ہی۔ اور جسم کانپنےلگتا ہےجلد کی نالیاں کشادہ ہو جاتی ہیں اور مزید خون جلد کو جانےلگتا ہےتاکہ زیادہ گرمی پہنچائی جائےجلد کو جب گرمی پہنچتی ہےتو گرمی کےمخبر خلیےدماغ کو خبر کرتےہیں اور تین ملین پسینہ کےغدود ٹھنڈا پسینہ خارج کرتےہیں جس سےجسم کو راحت اور سکون پہنچتا ہےگویا کہ ہماری جلد میں حیاتی ریشوں کا ایک جال بچھا ہوا ہےجو گرم و سرد چیزوں کو محسوس کرتا ہےاور دماغ تک خبر پہنچا دیتا ہے۔

دماغ:

 ایک محتاط اندازےکےمطابق ہم اپنی کل عمر میں ہاتھ کو ٥٢ ملین بار کھولتےاور بند کرتےہیں۔
ہمارا دماغ ایک ملین سےبھی زیادہ مخصوص خلیوں سےبنا ہےجن کو نیوران کہا جاتا ہےدماغ کےخلیےاپنا مخصوص کام ایک کھرب سےزائد حساس ریشوں کےذریعےکرتےہیں جو دماغ سےلےکر تمام جسم میں پھیلےہوتےہیں۔ دماغ کےخلیوں کی تعداد ٠٥٢ کھرب ہی

۔
آنکھیں:


 حدیث شریف کےمطابق سات فرشتوں کا ہر وقت آنکھوں کی حفاظت کرتےرہنا بہت بڑی نعمت ہے۔ آنکھ کو غذا خون سےملتی ہےمگر جو خون آنکھ میں جاتا ہےوہ اس خون سےمختلف ہےجو دوسرےاعضاءکو پہنچتا ہے۔
آنکھ کےاندر جراثیم داخل نہیں ہو سکتےاس کےلیےمدافعت کا ایک الگ نظام ہےبہت سےجراثیم معمولی رطوبتوں سےختم کر دئیےجاتےہیں آنکھ کو چوٹ اور بیماریوں سےبچانےکےلیےبہت سےنظام کام کر رہےہیں۔
ایک آنکھ میں ٣١ کروڑ کیمرےکام کر رہےہیں جس میں سےساٹھ لاکھ کیمرےصرف رنگ پہچانتےہیں بارہ کروڑ کیمرےصرف کالا اور سفید رنگ بتاتےہیں رات کےوقت کام کرنےوالےعلیحدہ کیمرےہیں جن کو راڈز کہتےہیں جن لوگوں میں راڈز نہیں ہوتےان کو رات کو نظر نہیں آتا۔
انسانی آنکھ میں ایک کھرب سےزائد روشنی قبول کرنےوالےریشےہوتےہیں یہ تعداد ان ستاروں کےبرابر ہےجو کہکشاں میں ہیں۔


آنکھ کےآخری طبقےمیں ٠٣ لاکھ تہیں اور ٣ کروڑ ستون ہیں ہماری آنکھیں ایک سال میں کم از کم چالیس لاکھ دفعہ کھلتی اور بند ہوتی ہیں آنکھ کےنور کےعلاوہ باہر کی معمولی سی روشنی سےبندہ دیکھ سکتا ہے۔
کان: کان میں ایک لاکھ ٹیلیفونی سماعتی خانےہوتےہیں یہ خانےآواز کو وصو ل کرکےدماغ تک پہنچاتےہیں کان کےاندر پردہ کےآگےتین ہڈیاں باہم پیوست ہیں یہ ہڈیاں اونچی اور سخت آوازوں کو نرم کرکےآگےپہنچاتی ہیں۔

Monday, April 4, 2011

چاند کا دوٹکڑے ہونااور جدید سائنس

اپالو 10اور 11کے ذریعے ناسانے چاند کی جو تصویر لی ہے اس سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوںمیں تقسیم ہوا تھا ۔یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تاحال تحقیق کامرکز بنی ہوئی ہے ۔
ناسا ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے ۔ا س تصویر میں راکی بیلٹ کے مقام پر چاند دوحصوں میں تقسیم ہوا نظر آتاہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں مصر کے ماہر ارضیات ڈاکٹر زغلول النجار سے میزبان نے اس آیت کریمہ کے متعلق پوچھا

(اِ قْتَرَ بَتِ السَّا عَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ 0 وَ اِنْ یَّرَ وْ ا اٰ یَةً یُّعْرِ ضُوْ ا وَ یَقُوْ لُوْ ا سِحْرُ مُّسْتَمِرُّ 0 وَ کَذَّ بُوْا وَ اتَّبَعُوْا اَھْوَآ ءَ ھُمْ وَ کُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرُّ 0)
قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا .یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے۔'' ۔
( القمر، 1-3

ڈاکٹرزغلول النجارکنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں ماہر ارضیات کے پروفیسرہیں۔ قرآن مجید میں سائنسی حقائق کمیٹی کے سربراہ ہیں ۔ اورمصرکی سپریم کونسل آف اسلامی امور کی کمیٹی کے بھی سربراہ ہیں۔ انہوں نے میزبان سے کہاکہ اس آیت کریمہ کی وضاحت کے لیے میرے پاس ایک واقعہ موجود ہے ۔انہوں نے اس واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میں برطانیہ کے مغرب میں واقع کارڈ ف یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہا تھا ۔جس کوسننے کے لیے مسلم اور غیر مسلم طلبا ء کی کثیر تعداد موجود تھی ۔قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق پر جامع انداز میں گفتگو ہورہی تھی کہ ایک نو مسلم نوجوان کھڑ ا ہوا اور مجھے اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سر کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور فرمایا ہے ، کیا یہ قرآن میں بیان کردہایک سائنسی حقیقت نہیں ہے ۔ڈاکٹر زغلول النجار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں! کیونکہ سائنس کی دریافت کردہ حیران کن اشیاء یا واقعات کی تشریح سائنس کے ذریعے کی جاسکتی ہے مگر معجزہ ایک مافوق الفطرت شے ہے ،جس کو ہم سائنسی اصولوں سے ثابت نہیں کرسکتے ۔چاند کا دوٹکڑے ہوناایک معجزہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لیے بطوردلیل دکھایا ۔حقیقی معجزات ان لوگوں کے لیے قطعی طورپر سچائی کی دلیل ہوتے ہیں جو ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم اس کو اس لیے معجزہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔اگر یہ ذکر قرآن وحدیث میں موجودنہ ہوتاتو ہم اس زمانے کے لو گ اس کو معجزہ تسلیم نہ کرتے ۔علاوہ ازیں ہمار ااس پر بھی ایمان ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے ۔


پھر انہوں نے چاند کے دوٹکڑے ہونے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ احادیث کے مطابق ہجرت سے 5سال قبل قریش کے کچھ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے سچے نبی ہیں تو ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟انہوں نے ناممکن کام کا خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس چاند کے دو ٹکڑے کر دو۔چناچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف اشارہ کیا اور چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے حتٰی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا . یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اورایک ٹکڑا اس طرف ہو گیا۔ ابن مسعود فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو ،یادرکھنا اور گواہ رہنا۔کفار مکہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو ہے ۔کچھ اہل دانش لوگوں کا خیال تھا کہ جادو کا اثر صرف حاضر لوگوں پر ہوتاہے ۔اس کا اثر ساری دنیا پر تو نہیں ہو سکتا ۔چناچہ انہوں نے طے کیاکہ اب جولوگ سفر سے واپس آئیں ان سے پوچھو کہ کیا انہوں نے بھی اس رات چاند کو دو ٹکڑے دیکھاتھا۔چناچہ جب وہ آئے ان سے پوچھا ، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کے دوٹکڑے ہوتے دیکھاہے ۔کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی میں کوئی شک نہیں ۔اب جو باہر سے آیا ،جب کبھی آیا ،جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے ۔ا س شہادت کے باوجود کچھ لوگوں نے اس معجزے کا یقین کرلیا مگر کفار کی اکثریت پھر بھی انکار پر اَڑی رہی۔

اسی دوران ایک برطانوی مسلم نوجوان کھڑا ہوا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ میر انام داؤد موسیٰ پیٹ کاک ہے۔میں اسلامی پارٹی برطانیہ کا صدر ہوں۔وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ سر !اگر آ پ اجازت دیں تو اس موضوع کے متعلق میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتاہوں ۔مَیں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم بات کرسکتے ہو!اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب میں مختلف مذاہب کی تحقیق کر رہا تھا،ایک مسلمان دوست نے مجھے قرآن شریف کی انگلش تفسیر پیش کی ۔مَیں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اُسے گھر لے آیا ۔گھر آکر جب میں نے قرآن کو کھولا تو سب سے پہلے میری نظر جس صفحے پر پڑی وہ یہی سورة القمر کی ابتدائی آیات تھیں ۔ان آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعدمیں نے اپنے آپ سے کہا کہ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے ؟کیا یہ ممکن ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوں اور پھر آپس میں دوبارہ جڑ جائیں ۔وہ کونسی طاقت تھی کہ جس نے ایسا کیا ؟ان آیات کریمہ نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں قرآن کامطالعہ برابرجاری رکھوں ۔کچھ عرصے کے بعد مَیں اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہوگیا مگر میرے اندر سچائی کو جاننے کی تڑپ کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم تھا
۔
یہی وجہ ہے کہ خدا کا کرنا ایک دن ایساہوا کہ میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔ٹی وی پر ایک باہمی مذاکرے کا پروگرام چل رہاتھا ۔جس میں ایک میزبان کے ساتھ تین امریکی ماہرین فلکیات بیٹھے ہوئے تھے ۔ٹی وی شو کا میزبان سائنسدانوں پر الزامات لگا رہا تھا کہ اس وقت جب کہ زمین پر بھوک ،افلاس ،بیماری اورجہالت نے ڈھیرے ڈھالے ہوئے ہیں ،آپ لوگ بے مقصد خلا میں دورے کر تے پھررہے ہیں۔جتنا روپیہ آپ ان کاموں پر خرچ کر رہے ہیں وہ اگر زمین پر خرچ کیا جائے تو کچھ اچھے منصوبے بنا کر لوگوں کی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے اور اپنے کام کا دفاع کرتے ہوئے اُن تینوں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ خلائی ٹیکنالوجی زندگی کے مختلف شعبوں ادویات ،صنعت اور زراعت کو وسیع پیمانے پر ترقی دینے میں استعما ل ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم سرمائے کو ضائع نہیں کررہے بلکہ اس سے انتہائی جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے ۔جب انہوں نے بتایا کہ چاند کے سفر پر آنے جانے کے انتظامات پر ایک کھرب ڈالر خرچ آتاہے تو ٹی وی میزبان نے چیختے ہوئے کہا کہ یہ کیسافضول پن ہے ؟ایک امریکی جھنڈے کو چاند پر لگانے کے لیے ایک کھرب ڈالر خرچ کرنا کہا ں کی عقلمندی ہے ؟سائنسدانوں نے جوابا ً کہا کہ نہیں ! ہم چاند پر اس لیے نہیں گئے کہ ہم وہاں جھنڈا گاڑ سکیں بلکہ ہمارا مقصد چاند کی بناوٹ کا جائزہ لیناتھا ۔دراصل ہم نے چا ند پر ایک ایسی دریافت کی ہے کہ جس کا لوگوں کویقین دلانے کے لیے ہمیں اس سے دوگنی رقم بھی خرچ کرنا پڑسکتی ہے۔مگر تاحال لوگ اس بات کو نہ مانتے ہیں اور نہ کبھی مانیں گے۔میزبان نے پوچھا کہ وہ دریافت کیا ہے؟انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن چاند کے دوٹکڑے ہوئے تھے اورپھر یہ دوبارہ آپس میں مل گئے۔میزبان نے پوچھاکہ آپ نے یہ چیز کس طرح محسوس کی ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تبدیل شدہ چٹانوں کی ایک ایسی پٹی وہا ں دیکھی ہے کہ جس نے چاند کو اس کی سطح سے مرکز تک اور پھر مرکز سے اس کی دوسری سطح تک، کو کاٹا ہوا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس بات کا تذکرہ ارضیاتی ماہرین سے بھی کیا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق ایسا ہرگز اس وقت تک نہیں ہوسکتا کہ کسی دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے ہوں اور پھر دوبارہ آپس میں جڑبھی گئے ہوں۔

برطانوی مسلم نوجوان نے بتایا کہ جب مَیں نے یہ گفتگو سنی تو اپنی کرسی اچھل پڑا اوربے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ اللہ نے امریکیوں کو اس کام کے لیے تیا رکیا کہ وہ کھربوں ڈالر لگاکر مسلمانوں کے معجزے کو ثابت کریں ، وہ معجزہ کہ جس کا ظہور آج سے 14سو سال قبل مسلمانوں کے پیغمبر کے ہاتھوں ہوا۔مَیں نے سوچا کہ اس مذہب کو ضرور سچا ہوناچاہیے ۔میں نے قرآن کو کھولا اور سورة القمر کو پھر پڑھا۔درحقیقت یہی سورة میرے اسلام میں داخلے کا سبب بنی۔








علاوہ ازیں انڈیاکے جنوب مغرب میں واقع مالابار کے لوگوں میں یہ با ت مشہور ہے کہ مالابار کے ایک بادشاہ چکراوتی فارمس نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کامنظر اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا ۔ا س نے سوچاکہ ضرور زمین پر کچھ ایساہو اہے کہ جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا ۔چناچہ اس نے اس واقعے کی تحقیق کے لیے اپنے کارندے دوڑائے تو اسے خبر ملی کہ یہ معجزہ مکہ میں کسی نبی کے ہاتھوں رونما ہوا ہے ۔اس نبی کی آمد کی پیشین گوئی عرب میں پہلے سے ہی پائی جاتی تھی ۔چناچہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا پروگرام بنایا اوراپنے بیٹے کو اپنا قائم مقام بنا کرعرب کی طرف سفر پر روانہ ہوا۔وہاں اس نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دی اور مشرف بااسلام ہوا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق جب و ہ واپسی سفر پر گامزن ہوا تو یمن کے ظفر ساحل پراس نے وفات پائی ۔یمن میں اب بھی اس کا مقبر ہ موجودہے۔جس کو ''ہندوستانی راجہ کا مقبرہ''کہا جاتاہے اور لوگ اس کودیکھنے کے لیے وہاں کا سفر بھی کرتے ہیں۔اسی معجزے کے رونما ہونے کی وجہ سے اورراجہ کے مسلمان ہونے کے سبب مالابار کے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔اس طرح انڈیا میں سب سے پہلے اسی علاقے کے لوگ مسلمان ہوئے ۔بعدازاں انہوں نے عربوں کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھایا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب کے لوگ اسی علاقے کے ساحلوں سے گزر کر تجارت کی غرض سے چین جاتے تھے ۔یہ تمام واقعہ اور مزید تفصیلات لندن میں واقع''انڈین آفس لائبیریری''کے پرانے مخطوطوں میں ملتاہے۔جس کاحوالہ نمبر
ہے۔(Arabic ,2807,152-173)

اس واقعہ کا ذکر محمدحمیداللہ نے اپنی کتاب ''محمدرسول اللہ''میں کیاتھا۔ ناسا کی یہ تصویرچاند پر پائی جانے والی کئی دراڑوں میں سے ایک دراڑ کی ہے ۔ ہم وثوق سے تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہی دراڑ ہے کہ جو معجزہ کے رونما ہونے کی بناء پر وجود میں آ ئی تھی مگر ہمارا ایمان ہے کہ معجزہ کے بعد چاند کی کچھ ایسی ہی صورتحال ہوئی ہو گی۔ بحرحال سائنسدانوں کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے جس واقعہ کا ذکر آج سے 14سو سال پہلے کیا تھا وہ بالکل برحق ہے ۔ یہ ناصر ف قرآن مجید کی سچائی کی ایک عظیم الشان دلیل ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی ،امام الانبیا ء کی رسالت کی بھی لاریب گواہی ہے۔

 اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کو اکمل و کامل کرے اور ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق اپنے عملوں کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔