بیان 1: ایسےاحکام جنہیں قرآن ہی میں مزید واضح کر دیا گیا
بیت اللہ کی زیارت کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
تم میں سے جو شخص حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ اٹھانا چاہے، وہ حسب مقدور قربانی ادا کرے۔ اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے ایام میں اور سات گھر پہنچ کر رکھے اور اس طرح سے دس پورے کر لے۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر مسجد الحرام کے پاس نہ ہوں۔
(البقرۃ 2:196)
ہم نے موسی کو تیس راتوں کے لئے طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اس پر اضافہ کر دیا۔ اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت چالیس دن ہو گئی۔ (الاعراف 7:142)
اللہ تعالی کے اس فرمان میں چالیس راتوں سے یا تو یہی مراد ہے جس پر ہم بات کر رہے ہیں کہ تیس اور دس، چالیس ہوتے ہیں اور یا پھر اس کا مقصد معنی کو مزید واضح کر دینا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے:
تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن سکو۔ چند مقرر دنوں کے یہ روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی تعداد پوری کر لے۔
(البقرہ 2:183-184)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول دینے والی ہیں۔ اس لئے اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ اس میں پورے مہینے کے روزے رکھے اور اگر کوئی مریض یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لے۔
(البقرہ 2:185)
اللہ تعالی نے انسان پر روزے فرض کئے اور یہ متعین کر دیا کہ روزے ایک مہینے کے لئے رکھنا ہوں گے۔ ایک مہینہ، دو لگاتار چاند کے نظر آنے کی درمیانی مدت کو کہتے ہیں جو کہ تیس یا انتیس دن ہو سکتی ہے۔ ان دونوں آیات میں بیان کردہ قانون میں اوپر والی دونوں آیات کی طرح جو ہدایت پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ پورے عدد کو صحیح طور پر بیان کر دیا جائے۔
ان آیات کی قرین قیاس تفسیر یہ ہے کہ سات اور تین کے عدد کو بیان کر دیا جائے، اور تیس اور دس کے عدد کو بیان کر دیا جائے۔ اس طرح لوگ صحیح طور پر مجموعی عدد کو جان لیں جیسا کہ وہ رمضان کے مہینے کے بارے میں اس بات کو جانتے ہیں۔
بیان 2: ایسے احکام جنہیں واضح کرنے کی ضرورت نہیں
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
جب تم نماز کے لئے اٹھو تو منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو، سروں پر مسح کر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لو۔ اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ۔
(المائدہ 5:6)
حالت جنابت میں نماز کے قریب نہ جاؤ سوائے اس کے کہ راستے سے گزرنا ہو۔
(النسا 4:43 )
ان آیات کے ذریعے اللہ تعالی نے وضو کی ایک جامع تعریف بیان کر دی ہے جس کے ذریعے ہم وضو کو استنجا اور غسل سے الگ ایک حکم کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ منہ اور ہاتھوں کو کم از کم ایک مرتبہ دھونا ضروری ہے۔ اس حکم میں یہ واضح نہیں تھا کہ کیا انہیں ایک سے زیادہ مرتبہ بھی دھویا جا سکتا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس بات کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ وضو میں ایک بار دھونے کا حکم دیا لیکن آپ نے خود ان اعضا تین مرتبہ دھویا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ دھونا تو ضروری ہے اور تین مرتبہ دھونے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اسی طرح سنت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ استنجا کرنے کے لئے تین پتھر درکار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ وضو اور غسل سے کیا مراد ہے؟ آپ نے یہ بھی بتا دیا کہ ٹخنوں اور کہنیوں کو دھونا ضروری ہے۔ قرآن مجید کے متن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹخنوں کو پاؤں دھونے اور کہنیوں کو ہاتھ دھونے کے حکم میں شامل کیا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے (اس کی وضاحت بھی فرمائی اور یہ بھی) فرما دیا: "ان دھلی ایڑیوں کو آگ کا عذاب دیا جائے گا۔" اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پاؤں کو دھونا چاہیے نہ کہ ان کا مسح کرنا چاہیے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے اس کے ترکے کا چھٹا حصہ ہے اور اگر اس کی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی وارث ہوں تو ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے۔ اور اگر میت کے بہن بھائی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حقدار ہو گی۔
(النسا 4:11 )
تمہاری بیویوں نے جو کچھ ترکہ چھوڑا ہے، تمہارے لئے اس کا نصف حصہ ہے اگر وہ بے اولاد ہوں۔ اولاد ہونے کی صورت میں تم چوتھائی حصے کے حق دار ہو جبکہ میت کی کی گئی وصیت پوری کر دی گئی ہو اور اس پر واجب الادا قرض ادا کر دیا گیا ہو۔ وہ (بیویاں) تمہارے ترکے سے چوتھائی حصے کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصہ آٹھواں ہو گا اگر وصیت جو تم نے کی تھی، پوری کر دی جائے یا قرض جو تم نے چھوڑا تھا ادا کر دیا جائے۔ اگر وہ مرد و عورت بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا بہن ہو، تو بھائی یا بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکے کے تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے جبکہ میت کی طرف سے کی گئی وصیت پوری کر دی جائے اور میت پر واجب الادا قرض ادا کر دیا جائے بشرطیکہ کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔
(النسا 4:12 )
قرآن مجید کے ان واضح احکامات کے بعد دیگر تفصیلات غیر ضروری ہیں۔ اللہ تعالی نے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ ترکے کی تقسیم سے قبل وصیت پوری کی جائے اور قرض ادا کئے جائیں۔ یہ بات حدیث سے پتہ چلتی ہے کہ وصیت ترکے کے ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
بیان 3: ایسے احکام جن کی وضاحت سنت کے ذریعے کی گئی
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ الصَّلاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَوْقُوتاً-
بے شک نماز مومنین پر مقررہ اوقات میں فرض ہے۔۔
(النسا 4:103 )
وَاقِيمُوا الصَّلاۃ وَآتُوا الزَّكَاۃ ۔
نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔
(البقرۃ2:43 )
وَاتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَا لِلَّہ ۔
اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کرو۔
(البقرۃ2:196 )
یہ احکام نازل کرنے کے بعد اللہ تعالی نے اپنے رسول کی زبان سے نمازوں کی تعداد، اوقات اور ادائیگی، زکوۃ کی رقم اور اوقات، حج اور عمرہ کا طریقہ اور ان اعمال کی ادائیگی کب ضروری ہے اور کب نہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اس معاملے میں اتفاق بھی رکھتی ہیں اور کچھ اختلاف بھی۔ اسی طرز کی اور مثالیں قرآن اور حدیث میں موجود ہیں۔
نوٹ:
احادیث میں بسا اوقات بظاہر اختلاف نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حدیث روایت کرنے والے دو افراد بسا اوقات حدیث کا پس منظر بیان نہیں کر پاتے یا پھر دونوں احادیث مختلف مواقع سے متعلق ہوتی ہیں یا پھر کسی ایک صاحب غلط فہمی کی بنیاد پر بات کو کسی اور طرح بیان کر دیتے ہیں۔ احادیث کو جمع کرنے اور اس کے پس منظر سے واقفیت حاصل کرنے سے یہ تعارض دور ہو جاتا ہے۔
بیان 4: سنت میں بیان کردہ احکام
البیان میں وہ تمام احکام بھی شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حدیث میں بیان فرما دیے اگرچہ یہ احکامات قرآن میں بیان نہ ہوئے ہوں۔ جیسا کہ ہم نے اپنی اس کتاب میں بیان کیا کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر اپنے جس احسان کا ذکر کیا ہے کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اس بات کی دلیل ہے کہ حکمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں اللہ تعالی کا جو حکم بیان کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دین میں اس کی اہمیت کیا ہے؟ قرآن میں اللہ تعالی نے آپ کے جو فرائض بیان کئے ہیں وہ ان اقسام پر مشتمل ہیں:
• پہلی قسم تو ان احکام پر مشتمل ہے جو کتاب اللہ میں اتنی وضاحت سے بیان کر دیے گئے ہیں کہ وحی کے نزول کے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
• دوسری قسم کے احکام وہ ہیں جن میں اللہ تعالی کی طرف سے ہم پر حکم کو اجمالاً فرض کر دیا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے پوری جامعیت کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے یہ (تفصیلات) بیان کر دی ہیں کہ کوئی حکم کس طرح فرض ہے؟ کس پر فرض ہے؟ اس میں سے کب کسی حکم پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے یا نہیں؟
• تیسری قسم ان احکام پر مشتمل ہے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کے ذریعے متعین فرمائے۔ یہ احکام کتاب اللہ میں موجود نہیں ہیں۔
ان میں سے ہر قسم اللہ کے قانون کا بیان ہے۔
جو شخص اللہ تعالی کی کتاب، قرآن میں بیان کردہ احکامات پر عمل کرنے کو اپنے لئے مانتا ہے، اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنے کو بھی قبول کرے کیونکہ اس کا حکم کتاب اللہ میں موجود ہے۔ جو شخص بھی یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اللہ تعالی ہی کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں، اسے یہ بھی ماننا چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اطاعت بھی خدا نے ہی ہم پر لازم کی ہے۔
جو فرائض اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت میں بیان ہوئے، انہیں مان لینا اس بات کو قبول کر لینا ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہی ہے۔ جو کچھ وہ قبول کر رہا ہے اس میں اگر فروعی نوعیت کے کچھ اختلافات بھی ہوں جیسے حلال و حرام یا فرائض اور حدود میں اختلاف۔ کسی بات کا حکم دیا یا کسی کو سزا دی جیسا کہ اس نے قرآن میں فرمایا ہے، یعنی
اس (اللہ) سے یہ سوال نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس نے کچھ کیوں کیا لیکن (اس کےان بندوں) سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔"
اقتباس: کتاب الرسالاۃ
تالیف: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ
تالیف: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ