Pages

Friday, April 15, 2011

آیے اپنے رب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں

بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم

اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں
 
آیے اپنے رب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں


اللہ کرے کہ میری یہ باتیں آپ کے دِل میں گھر کر جائیں ،
اور آپ اللہ سے حقیقی محبت کرنے لگیں جِس طرح کہ اُس سے محبت کرنے کا حق ہے ،
آیے اللہ کے بارے میں کچھ جانیں ، اور ایسی زُبان میں جانیں جو بولی جانے والی ساری زُبانوں سے مختلف ہے لیکن ساری زبانوں سے زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے ،
وہ ہے محبت کی ز ُبان
،
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ اُس کی بے مثال تخلیقات اور ایجادات سے ساری کائنات بھری ہوئی ہے بلکہ کائنات بھی اُسی کی تخلیق ہے ؟؟؟

انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ ہر سانس لینے والی جان پر اُس کا یہ احسانء عظیم ہو کہ وہ سانس لے رہی ہے ؟؟؟

انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ اُس کا ہمارے ساتھ انتہائی حلم والا رویہ کہ وہ ہمارا ہر وہ کام دیکھتا ہے جو اُس کی ناراضگی والا ہے پھر بھی ہمیں سزا نہیں دے رہا ؟؟؟

انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ ہم اُس کی نافرمانیوں میں لُتھڑ کر بھی اگر اُس کے سامنے خود کو حاضر کر دیں تو وہ ہماری طرف سے منہ نہیں پھیرتا ، ہم سے نفرت نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے ، اور ہماری توبہ قبول کرتا ہے اور ہمارے گناہوں کو نیکوں میں تبدیل کر دیتا ہے
 ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا کوئی ہم مثل نہیں ((((( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ::: اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب
دیکھنے اور سننے والا ہے ))))) سورت الشوریٰ /آیت 11،
اور اللہ پاک کے بارے میں کچھ سمجھانے کے لیے سب سے اعلیٰ ترین مثال ہوتی ہے ((((( وَلِلّهِ الْمَثَلُ الأَعْلَىَ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ::: اور اللہ کے لیے (سب سے) بُلند مثال ہے اور وہ زبردست اور حِکمت والا ہے )))) سورت النحل/آیت 60،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِن دونوں مذکورہ بالا فرامین کو سامنے رکھتے ہوئے میں ایک مثال دے کر آپ کو کچھ سمجھانا چاہتا ہوں لیکن معاذ اللہ یہ مثال اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک یا اُس کی کسی صفت مبارک کی تشبیہ کے لیےنہیں اور نہ ہی اُس کی کسی صفت مبارک کی کوئی کیفیت بتانے کے لیے بلکہ آپ صاحبان کو بات سمجھانے کے لیے ، آپ کے شعور میں کچھ اجاگر کرنے کے لیے ہے ،
تصور کیجیے کہ اگر کوئی انسان، کسی دوسرے اِنسان سے مصافحہ کرنے کے لیے یا اُس کی مدد کرنے کے لیے، یا اُس کو درست راہ تک پہنچانے کے لیے ، اُس کی طرف ہاتھ پھیلائے اوروہ پہلا اِس دوسرے کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ کسی اور طرف ، کسی اور کی طرف متوجہ رہے اور دوسرا شخص پہلے کی اِس بے رُخی کے باوجود اُس کی طرف متوجہ رہے اور اُس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے رکھے تو بتایے کیا آپ اُس پہلے بے رُخی کرنے والے کو اُس کی بے رخی پر ڈانٹیں گے نہیں ؟؟؟

اور دوسرے کو اِس پہلے کی طرف سے توجہ ہٹا دینے کا نہیں کہیں گے چھوڑیے اِس کو ، یہ اِس قابل ہی نہیں کہ آپ اِس کی مدد کرنے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑہائیں، اور شاید آپ کا یہ کہنا ایک لحاظ سے دُرست بھی ہو ، اب آپ یہ دیکھیے کہ ہمارا رب اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف کس طرح متوجہ رہتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے

 ((((( إِنَّ اللَّهَ عَزّ وجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ حتى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِن مَغْرِبِهَا::: بے شک اللہ عز و جل رات میں اپنا ہاتھ (مُبارک ) پھیلاتا ہے کہ دِن میں برائیاں کرنے والا توبہ کر لے اور دِن میں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات میں برائیاں کرنے والا توبہ کر لے (اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرتا رہے گا ) یہاں تک سورج مغرب سے طلوع ہو جائے )))))صحیح مُسلم/ حدیث 2759/ کتاب التوبہ /باب 5،

دیکھیے کہ ہمارا رب ہر وقت ہمارے لیے اپنی رحمت کے ساتھ ، اپنی مغفرت لیے ہوئے اپنا ہاتھ مبارک ہماری طرف پھیلائے رکھتا ہے اور ہم اُس کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اور طرف متوجہ رہتے ہیں ،ہمارے دِل ہمارے رب سے آشنا نہیں ، اُس کی رحمت اور اس کی بخشش کی وسعت سے آشنا نہیں ، اُس کی محبت سے آشنا نہیں ، اور یہ نا آشنائی ہمیں ہمارے رب سے اُس کی محبت سے اُس کی تابع فرمانی سے مزید دُور کرتی چلی جاتی ہے ،
آیے ایک اور مثال سے اپنے رب کی رحمت اور عطاء کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں ، اور ساتھ ساتھ ہی یہ بات بھی دہراتا چلوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ """ یہ مثال اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک یا اُس کی کسی صفت مبارک کی تشبیہ کے لیےنہیں اور نہ ہی اُس کی کسی صفت مبارک کی کوئی کیفیت بتانے کے لیے بلکہ آپ صاحبان کو بات سمجھانے کے لیے ، آپ کے شعور میں کچھ اجاگر کرنے کے لیے ہے
 """
جی ، تو ذرا سوچیے کہ ایک شخص کے پاس کچھ کام کرنے والے غُلام ہوں اور ان میں ایک بہت ہی غریب اور تباہ حال شخص بھی ہو ، اور یہ آقا اپنے اس غُلام کو اس کی ضروریات زندگی پوری کرنے کا سامان تو ضرور ہی دیتا ہواور جوابی طور پر وہ غُلام اپنے آقا کے احکام پر عمل نہ کرتا ہو ، اُس کی نا فرمانی کرتا ہو ،اور اگر کبھی آقا کے احکام پر عمل کرے بھی تو آقا کے بتائے ہوئے طریقے پر نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہو ، اپنے نفس کی خواہشات کے مطابق کرتا ہو ، اپنی عقل اور مزاج کی شہوتوں کے مطابق کرتا ہو ،
آپ ہی بتایے کہ کیا ایسا غُلام اس قابل نہیں کہ آقا اسے دُھتکار دے ، اپنے احسان اور درگزر کے دروازے اُس پر بند کر دے ؟؟؟
لیکن آقا یہ سب جانتے ہوئے بھی اُس نافرمان اور گمراہ غُلام کے ساتھ احسان اور درگزر والا رویہ رکھے اور اُس کے لیے اپنے عفو اور بخشش کے در کھولے رکھے
 ،
کیا آپ ایسے آقا کی تعریف نہ کریں گے ؟؟؟
کیا ایسے آقا کے لیے آپ کے دِل میں احترام اور محبت پیدا نہ ہو گی ؟

ایک دفعہ پھر یاد دہانی کروا دوں کہ اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کے لیے سب سے اعلیٰ ترین مثال ہو سکتی ہے ، یہ مثالیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات اور ان کی کیفیات نہیں ہیں بلکہ صرف ان کے بارے میں کچھ سمجھانے کچھ اندازہ قائم کرنے کے لیے ہے تو اس مذکورہ بالا مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اب غور کیجیے کہ وہ غُلام ہم ہیں اور وہ آقا اللہ تعالیٰ ہے ، تو کیوں ایسے الروؤف الرحیم اورالجوادالکریم رب کی محبت ہمارے دِلوں میں نہ ہو !!!؟؟؟

اور کیسے ہم اپنے""" ودود """رب کی نافرمانی کرتے ہیں !!!؟؟؟
دیکھے ہمارا """ ودود """ رب کس طرح اپنے اِیمان والے نیکوکار بندوں پر شفقت کی بارش کیے رکھتا ہے اور اُن کی اپنے رب سے محبت سے پہلے وہ """ ودود """ رب اُن سے محبت کرتا ہے ((((( يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ::: اللہ اُن سے محبت کرتا ہے او وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں )))))
اور اللہ تما م تر بادشاہی کا مالک ہے ، ہر قوت و قدرت کا مالک ہے،اُسے کسی سے کوئی حاجت نہیں ، کسی سے کوئی لالچ نہیں ، اس کے باوجود جب اپنے غُلاموں کی طرف نزول فرماتا ہے تو ان کے ساتھ اپنے جلال اور ھیبت والے معاملے کی بجائے شفقت اور رحمت والا معاملہ فرماتا اور انہیں پکار پکار کر فرماتا ہے

 ((((( هَل مِن سَائِلٍ يُعْطَى؟ هَل مِن دَاعٍ يُسْتَجَابُ لَهُ ؟ هَل مِن مُسْتَغْفِرٍ يُغْفَرُ لَهُ؟:::ہے کوئی سوالی کہ اُسے دِیا جائے ؟ ہے کوئی دُعا کرنے والا کہ اُس کی دُعا قبول کی جائے ؟ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ اُس کی بخشش کی جائے )))))صحیح مُسلم /حدیث758/کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا /باب24 ،

ایسا مالک اور آقا جو اپنی تمام تر قوت و عظمت کے باوجود ہماری تما م تر برائیوں اور نافرمانیوں کے باوجود ہمیں اُس کی بخشش کی کھلی دعوت دے، کیوں ہم اُس سے محبت نہیں کرتے اور اس کی نافرمانیوں میں مشغول رہتے ہیں !!!؟؟؟
اُس نے ہمیں اسلام کی نعمت سے نوازا ، اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت میں شامل فرما کر اپنی خاص نعمتوں کے دروازے ہمارے لیے کھولے اور اس طرح ہم سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ، اور ہم اُس سے محبت نہیں کرتے اُس کی نافرمانی کرتے ہیں !!! یا اُس کی تابع فرمانی اپنی مرضی کے طور طریقوں پر کرتے ہیں !!!
چلتے چلتے اللہ کی محبت حاصل ہوجانے کے نتیجے پر غور فرماتے چلیے
 ،
انس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ کہیں سے گذر رہے تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ راستے میں ہے اُس کی ماں نے جب اپنے بچے کو راستے کے درمیان میں دیکھا تو ڈر گئی کہ کہیں جانوروں کے پیروں تلے دب نہ جائے تو انتہائی والہانہ انداز میں """ میرا بچہ میرا بچہ """کہتے ہوئے بھاگی اور اپنے بچے کو اٹھا کر سینے سے چمٹا لیا ،

 صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ دیکھا تو عرض کی """ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُلْقِيَ ابْنَهَا فِي النَّارِ ؟::: اے اللہ کے رسول کیا یہ اپنے بیٹے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ؟ """ (یعنی جو ماں اپنے بیٹے سے اتنی محبت کرتی ہے وہ کیسے یہ برادشت کر سکتی ہے کہ اُس کا بیٹا آگ میں ڈال دیا جائے
 )
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا

 (((((لَا وَلَا يُلْقِي اللَّهُ حَبِيبَهُ فِي النَّارِ::: نہیں اور نہ ہی اللہ اپنے کسی محبوب کو آگ میں ڈالے گا ))))) المستدرک الحاکم/حدیث 7347، مُسند احمد /حدیث 13492/السلسلہ الصحیحۃ /حدیث2407،

اللہ کرے کہ ہم اُس سے محبت کرنے والوں میں سے بن سکیں اور ہم اُس کے اِس حکم پر عمل کرنے والے بھی بن سکیں کہ ((((( قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ::: (اے محمد ) آپ فرما دیجیے کہ اگر تُم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو (تو پھر ) اللہ تُم لوگوں سے محبت کرے گا اور تُم لوگوں کے گناہ معاف فرمائے گا اور اللہ بہت ہی بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے )))))سورت آل عمران /آیت 31۔
اپنی بات کچھ سوالات پر ختم کرتا ہوں جو ہم سب کے لیے ہیں کہ ہم خود سے پوچھیں کہ
 ،
کیا اپنے رب کی یہ چند صفات جاننے کے بعد بھی میں اُس سے اُس طرح محبت نہیں کروں گا جِس طرح کہ اُس سے محبت کرنے کا حق ہے ؟؟؟
اور کیا اِن بینات کو سمجھنے کے بعد بھی میں اُس کی نافرمانی کروں گا ؟؟؟
کیا میں نا شکر گذار بنوں گا ؟؟؟
کیا میں اپنے رب کی ذات بے مثال اور صفات بے مثال کو مزید جاننے سے رکا رہوں گا ؟؟؟
اِن شاء اللہ سب کا جواب """ نہیں """ ہوگا ، قولاً بھی اور عملاً بھی ،
اور آپ سب یہ کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کر کے اُس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کر کے اللہ کی محبت حاصل کر سکیں کہ جسے اللہ کی محبت حاصل ہو جائے اللہ اسے عذاب نہ دے گا ۔