Pages

Wednesday, May 25, 2011

عقیدہ آخرت

کا ش میں نے ہوش سے کام لیا ہوتا، کا ش میں فلاں کرم فرما کا مشورہ مان لیا ہوتا، میں فلاں حما قت نہ کی ہوتی، تو آج میری حیثیت ہی کچھ اور ہوتی اور اگر بے جا جوش سے کام نہ لیا ہوتا تو آج یہ خستہ حالت اور پریشانی نہ ہوتی۔
یہ کلمات جن میں حسرت ہے، افسوس بھی ہے، پشیمانی بھی ہے اور دکھ کا اظہار بھی، اکثر لوگوں کی زبان سے اس وقت سنے جاتے ہیں جب وہ ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں ان کے پاس مصائب و آلام اور دکھ درد و پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور جہاں پر موجود رہ کر وہ اپنے مجروح ماضی کا صرف جائزہ لے سکتے ہیں اور اس پر ندامت و افسوس کے احساسات کا اظہار کرسکتے ہیں۔ ایسے حالات عام طور پر اس وقت رونما ہوتے ہیں جب کوئی انسان وقتِ امتحان یا فیصلے کرنے کے موقع پر یا تو غلط فیصلہ کرجاتا ہے یا پھر اپنے فیصلے پر قائم رہ کر محنت نہیں کرپاتا۔ اس تذکرہ سے یہ ثابت ہوا کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے یا اگر کچھ نہیں کرپاتا تو اس کا صلہ اسے جلد ہی مل جاتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت بھی ہے اور ہر جہت کا اصول بھی۔ یعنی انسان جو بھی کرتا ہے اس کا تعلق بعد میں آنے والی چیز سے ضرور ہوتا ہے اور پیش آنے والے حالات و واقعات انہی فیصلوں کا پھل ہوتے ہیں۔ چاہے وہ میٹھا ہو یا کڑوا۔

آخرت کے معنی بھی کچھ اسی قسم کے ہیں۔ اگر اسی سوچ کو ہم وسیع معنوں میں لیں تو ہم آخرت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ آخرت ایک ایسا نظریہ ہے جس پر ایمان لانا اور جس کو ماننا فطرتِ انسانی اور سوچ و عقل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے
۔
آخرت کے معنی و مفہوم

لغت میں لفظ آخرت کا جو مطلب پایا جاتا ہے وہ ہے بعد میں آنے والی چیز۔ شریعت کی اصطلاح میں آخر سے مراد ہے کہ یہ دنیا ایک دن ختم ہوجائے گی اور مرنے کے بعد ایک دن تمام لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اور ان اعمال کی بنیاد پر ان کا فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ حسرت کے عالم میں جھونک دئیے جائیں یا خوشی و مسرت کی جہت میں داخل ہوں۔ اس بات پر بغیر کسی شک و شبہ کے یقین و اعمال رکھنے کو عقیدہ آخرت کہتے ہیں۔

عقیدہ آخرت پر ایمان لانے کا مطلب

آخر پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم ان پانچ چیزوں پر مکمل ایمان لے آئیں اور بغیر کسی شک و شبہ کے ان کو تسلیم
کرلیں
:
(۱) ایک دن اللہ تعالی تمام عالم اور اس کی مخلوقات کو مٹا دے گا۔ اس دن کا نام قیامت ہے۔

(۲) پھر وہ سب کو ایک دوسری زندگی بخشے گا اور سب لوگ اللہ کے سا منے حاضر ہونگے۔

(۳) تمام لوگوں نے اس دنیوی زندگی میں جو کچھ کیا ہے اس کا نامہ اعمال خدا کی عدالت میں پیش ہوگا
۔
(۴) اللہ تعالی ہر شخص کے اچھے اور برے عمل کا وزن فرمائے گا۔ اور اس کے مطابق بخشش یا سزا ملے گی۔

(۵)
جن لوگوں کی بخشش ہوجائے گی وہ جنت میں جائیں گے۔ اور جن کو سزا دی جائے گی وہ دوزخ میں جائیں گے
۔
تمام مزاہب کی تلقین

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی پیغمبرانِ دین لوگوں تک اللہ کا پیغام لے کر نازل ہوئے ہیں ان سب نے آخرت کا نظریہ بالکل اسی طرح پیش کیا ہی جس طرح حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ ہرزمانے میں اس پر ایمان لانا اور اس کے مطابق اپنے اعمال کو ترتیب دینا مسلمان ہونے کے لئے لازمی شرط رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عقیدہ آخرت پر ایمان کے بغیر اسلام کی تعلیمات کو ماننا اور اس پر عمل کرنا بالکل بے معنی ہوجاتا ہے۔ اور انسان کی ساری زندگی خراب ہوجاتی ہے۔

انسانی فطرت کا تقاضہ – آخرت

کسی انسان سے جب کوئی کام کرنے کا کہاجاتا ہے تو اس کے ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مجھے اس

 کام کا کیا فائدہ ہوگا؟

 میں اسے کیوں کروں؟

اور اس کے صلے میں مجھے کیا ملے گا؟

 اگر میں یہ کام نہ کروں تو مجھے کیا نقصان ہوگا؟

 یہ سوالات کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ انسانی فطرت ہر ایسے کام کو لغو اور فضول سمجھتی ہے جس کا کوئی حاصل نہ ہو۔ کوئی شخص کوئی ایسا کام ہرگز نہیں کرتا جب تک کہ اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور نہ ہی کسی ایسے کام سے پرہیز کرتا ہے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ اس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔

اس دنیا میں ہر طبقہ فکر اس بات پر متفق ہے کہ نیکیاں کیا ہیں یا اچھے اور معروف کام کیا ہیں اور برے کام یا گناہ کے کام کیا ہیں۔ تاش، ٹی وی اور فضول کاموں کو تمام لوگ متفقہ طور پر لغو اور وقت کا زیاں سمجھتے ہیں جاہے وہ ہندو ہوں یا یہودی، نصرانی ہوں یا مسلمان۔ اسی طرح غریبوں کی مدد کرنا، صفائی کا خیال رکھنے اور اچھے اخلاق کو لوگ نیکی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ سب فطرتِ انسانی ہے
۔
اب یہ فطرتِ انسانی تقاضہ کرتی ہے کہ ہم جو نیک کام کرتے ہیں یا برے کاموں سے بچتے ہیں ان کا صلہ بھی ضرور ملنا چاہئے۔ چاہے وہ جیسے بھی اور جس صورت میں ہو۔ اسی انسانی فطرت کو مدِنظر رکھتے ہوئے دنیا کے واحد مکمل دین نے آخرت کا واضح ترین نقشہ پیش کیا اور انسانی تقاضوں کی تسکین کے لئے جنت اور جہنم بنایا اور ان کا نظریہ پیش کیا
۔
قرآن مجید میں ارشان باری تعالی ہے
:
جن لوگوں نے نیک کام کئے پس ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے
۔

آخرت کے بارے میں تین نظریے

آخرت کے بارے میں تین مختلف نظریے پائے جاتے ہیں
۔
(۱) ایک گروہ کہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا نظریہ ہے جو سائنسدان ہونے کا دعوی کرتے ہیں
۔
(۲) دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انسان اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتنے کے لئے باربار اسی دنیا میں جنم لیتا ہے۔ اگر اس کے اعمال برے ہیں تو دوسرے جنم میں کوئی جانور یا کوئی بدتر درجے کا انسان ہوگا۔ اگر اجھے اعمال زیادہ ہیں وہ کسی اونچے درجے پر پہنچ جائے گا۔ یہ خیال بعد خام مذاہب میں پایا جاتا ہے
۔
(۳) تیسرا گروہ قیامت اور حشر اور خدا کی عدالت میں پیشی اور جزا اور سزا پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ تمام انبیائکرام کا متفقہ عقیدہ ہے

۔
پہلے گروہ کے عقیدے پر غوروفکر


ایک گنوار نے اگر ہوائی جہاز نہیں دیکھا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ ہوائی جہاز کیا چیز ہے۔ لیکن اگر وہ کہے گا کہ ”میں جانتا ہوں کہ ہوائی جہاز کوئی چیز نہیں ہے۔ “ تو صاحبِ فہم افراد اسے احمق اور بےوقوف کہیں گے۔ اس لئے کہ کسی چیز کا نہ دیکھنا یہ معنی ہرگز نہیں رکھتا کہ وہ چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے
۔
کچھ اسی طرح کا حال اس نظریہ کے ماننے والوں کا بھی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے مرنے کے بعد کسی دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا۔ ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ جو مرجاتا ہے وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔ لہذا مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔
اگر مرنے کے کسی نے نہیں دیکھا کہ کیا ہوگا تو وہ زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتا ہے کہ ”میں نہیں جانتا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔“ اس سے یہ دعوی کرنا کہ ” ہم جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد کچھ نہ ہوگا۔“ بالکل بے ثبوت بات ہے اوراس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے
۔

تاریخ – سوچنے کی بات


ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک شخص آیا جو آخر کے خلاف تھا اور یقین نہ رکھتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے آخرت کے بارے میں بہت دلائل دئے اور سمجھا نے کی کوشس کی لیکن وہ اپنے نظریے پر اڑا رہا اور بات نہ مانا۔ آخر کار حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ چلو فرض کرو تمہاری بات درست ہوئی کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے تو ہم جو اس عقیدے کی بنیاد پر اعمال کرتے ہیں ہم کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ہم بھی مٹی میں ہمیشہ کے لئے مل جائیں گے۔لیکن بالغرض ہمارا نظریہ درست نکلا اور اللہ کے سامنے حاضری ہوگئی تو پھر تم کیا کرو گے؟

 یہ سن کر وہ منکرِ آخرت لاجواب ہوگیا

۔
دوسرے گروہ کے نظریے پر غورفکر


اس کے بعد دوسرے نظریے پر غور کریں تو یہ بھی خلاءمیں محسوس ہوتا ہے۔ اس عقیدے کی رو سے ایک شخص جو اس وقت انسان ہوگیا کہ جب وہ جانور تھا تو اس نے اچھے عمل کئے تھے۔ اور ایک جانور جو اس وقت جانور ہے وہ اس لئے جانور ہے کہ جب وہ انسان تھا تو اس نے برے عمل کئے تھے
۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کیا چیز تھا؟ اگر کہتے ہو کہ انسان تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس سے پہلے درخت یا حیوان تھا، ورنہ پوچھا جائے گا کہ انسان کس وجہ سے بنا؟ اگر کہتے ہو کہ درخت تھا یا حیوان تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس سے پہلے انسان تھا! غرض اس عقیدے کے ماننے والے مخلوقات کی ابتدا کسی بھی جنم کو قرار نہیں دے سکتے۔ یہ بات صریح عقل کے خلاف ہے

۔
تیسرے گروہ کے نظریے پر غوروفکر


اب ہم تیسرے نظریے پر غور کرتے ہیں۔ اس نظریے میں بیان کی گیا ہے کہ
:
ایک دن قیامت آئے گی اور خدا اپنے اس کارخانے کو توڑ پھوڑ کر نئے سرے سے اعلی درجہ کا پائیدار کارخانہ بنائے گا جس میں اچھے اور برے اعمال کا تجزیہ ہوگا اور اس کے مطابق جزاوسزا کا فیصلہ ہوگا
۔
اس نظریہ میں پہلی بات یہ ہے کہ ایک دن قیامت آئے گی اور یہ تمام نظام کائنات فنا ہوجائے گا۔ اس بات کو کوئی بھی شخص عقل پر پرکھنے کے بعد جھٹلا نہیں سکتا۔ کیونکہ ہم جتنا اس نظام پر غور کریں اتنا ہی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کائنات فانی ہے اور ایک دن ختم ہوجائے گی۔ سائنس کی رو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں سب محدود ہیں اور ایک دن ختم ہوجائیں گی۔ تمام صاحبِ علم شخصیات اس بات پر متفق ہیں اور اسے تسلیم کرچکے ہیں کہ ایک دن یہ سورج ٹھنڈا ہوجائے گا اور سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہوجائیں گے

۔
دوسری بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے اعلی درجے کا کارخانہ بنایا جائے گا اور تمام لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔

 قرآن پاک میں ارشادِ پاک ہے
:
سو کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے

۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن نہیں ہے؟ اگر ناممکن ہے تو اب جو زندگی حاصل ہے یہ کیسے ممکن ہوئی؟ سوچنے کی بات ہے کہ جس خدا نے انسان کو ایک مرتبہ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ اسے زندگی کیونکر نہیں بخش سکتا؟ اور جس نے یہ کارخانہ قدرت ایک مرتبہ تخلیق کیا ہے وہ دوبارہ کیسے نیا کارخانہ نہیں بنا سکتا؟


تیسری بات جو بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی اس دنیوی زندگی کا اعمال نامہ اللہ تعالی کے حضور پیش ہوگا اور اس کے مطابق جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ اعمال نامہ کیسے بنا رہ گیا یا سب کچھ کیسے محفوظ ہوگیا۔ تو اس کا جواب خود ہی اس کے سامنے آگیا۔ جدید سائنسی تحقیق کے بعد پتہ چلا کے ہمارے منہ سے جو آوازیں نکلتی ہیں وہ ایک خاص Frequency پر نقش ہوجاتی ہے اور تاقیامت گردوپیش میں محفوظ رہتی ہیں۔ اسی طرح ہماری ہر حرکت Images کی صورت میں ہوا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ یعنی انسان جیسے جیسے ترقی کررہاہے اسے اس بات پر پختہ یقین ہوتا جارہا ہے کہ یہ اعمال نامہ پورا کا پورا محفوظ ہے

۔
تیسرے نظریے کی صداقت


تیسرے نظریے پر ہم غوروفکر کریں تو سب سے زیادہ دل کو لگتا نظریہ یہ ہی ہے اور اس میں کوئی چیز خلافِ عقل یا ناممکن نہیں ہے۔ اگرچہ اس عقیدے پر ہمارا ایمان صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اعتماد پر ہے، عقل پر اس کا مدار نہیں لیکن جب ہم غوروفکر سے کام لیتے ہیں تو ہمیں آخرت کے متعلق تمام عقیدوں میں سب سے زیادہ یہی عقیدہ مطابقِ عقل معلوم ہوتا ہے۔

سورة البقرہ میں ارشادِ ربانی ہے
:
اور وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں

۔
یعنی مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آخرت کو صدقِ دل سے تسلیم کیا جائے

۔ بقول اقبال

موت کو سمجھتے ہیں کافر اختتامِ زندگی
یہ ہے شامِ زندگی، صبح دوامِ زندگی


قرآن و حدیث کی روشنی میں


آخرت کی قدرواہمیت کا اندازہ ہم کلامِ الہی سے بھی لگا سکتے ہیں۔

 ارشادِ خداوندی ہے
:
جو لوگ آخرت پر ایمان لاتے ہیں وہی کتابِ الہی پر بھی ایمان لاتے ہیں۔


ایک اورجگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
:
یہ دنیا تو بس عارضی فائدہ ہے اور جو آخرت ہے وہی پائیدار گھڑی ہے

۔
سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
:
خدا کی قسم دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی اس انگلی کو سمندر میں ڈالے اور اور پھر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹا ہے

۔
عقیدہ آخرت کے فوائد

آخرت کا انکار یا اقرار انسان کی زندگی میں فیصلہ کن اثر رکھتا ہے۔ اس کے ماننے والے اور نہ ماننے والے میں بہت بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ ایک کے نزدیک نیکی وہ ہے جس کوئی اچھا نتیجہ اس دنیا کی ذرا سی زندگی میں حاصل ہوجائے۔ مثلاً کوئی عہدہ مل جائے، کوئی خوشی حاصل ہوجائے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے شخص کے نزدیک نیکی وہ ہے جس سے خدا خوش ہو اور بدی وہ ہے جس سے خدا ناراض ہو۔ اسے اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ اگر وہ اس مختصر زندگی میں سزا سے بچ گیا اور چند روز مزے لوٹتا رہا تب بھی آخر کار خدا کے عذاب سے نہ بچے گا۔ غرض یہ کہ عقیدہ آخرت پر ایمانِ کامل
رکھنے والے شخص کو بہت سے اخروی دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں

:
(۱) بہادری و سرفروشی

ہمیشہ کے لئے مٹ جانے کا ڈر انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔ مگر دل میں جب یہ یقین موجود ہو کہ دنیوی زندگی ناپائیدار ہے اور اخروی زندگی دائمی ہے تو یہ احساس انسان کو بہادر بنادیتا ہے اور وہ اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتا
۔
(۲) صبروتحمل
عقیدہ آخرت پر ایمان سے انسان کے دل میں صبروتحمل پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ حق کی خاطر جو بھی تکلیف برداشت کی جائے گی اس کا صلہ آخرت میں ضرور ملے گا۔ لہذا آخرت پر نظر رکھتے ہوئے وہ ہر مصیبت کی گھڑی میں صبروتحمل کا مظاہرہ کرتا ہے
۔
(۳) نیکی سے رغبت
جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے تمام اعمال اس کے نامہ اعمال میں محفوظ کرلئے جاتے ہیں اور آخرت میں اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ یہ احساس اسے نیکی کی طرف مائل کرتا ہے
۔
(۴) مال خرچ کرنے کا جذبہ
عقیدہ آخرت انسان کے دل میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ آخرت کی زندگی دائمی زندگی ہے جو بعدالموت شروع ہوتی ہے۔ یہ احساس اسے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب کرتا ہے تاکہ اس کی اخروی زندگی سنور جائے
۔
(۵) احساسِ ذمہ داری
آخرت پر ایمان رکھنے سے انسان میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے فرائض سے کوتاہی جرم ہے جس کی آخرت میں سزا ملے گی۔ لہذا وہ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کرتا ہے۔

(۶) پاکیزہ معاشرے کی تشکیل
اگر معاشرے کے تمام لوگ عقیدہ آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہوں تو اس سے معاشرے میں ایک اچھی فضا قائم ہوتی ہے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے
۔
(۷) برائیوں کا خاتمہ
ایسے افراد پر مشتمل معاشرہ جو عقیدہ آخرت کے ماننے والے ہوں برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔ آخرت پر ایمان رکھنے سے لوگوں میںیہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو برائیاں کر رہے ہیں اس کی سزا انہیں آخرت میں ملیں گی۔ چنانچہ وہ برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں
۔
(۸) باہمی اخوت و مساوات کا فروغ
عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے مسلمانوں میں باہمی اخوت و مساوات پیدا ہوتی ہے۔ عقیدہ آخرت ان میں یہ احساس اجاگر کرتا ہے کہ تمام انسان اللہ کی نظر میں برابر ہیں۔ بہتر صرف وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار اور متقی ہے
۔

حروفِ آخر

عقیدہ آخرت اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر ایمان لاکر انسان دنیاوآخرت میں رضائے الہی کے مطابق زندگی بسر کرسکتا ہے اور ایک ایسا کردار تشکیل کرتا ہے جس سے اسے قربتِ الہی کا حصول ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس عقیدہ کو بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا ہر فعل تشکیل دیں تاکہ روزِ آخرت جنت کے مستحق ٹہریں۔ اللہ تعالی کبھی وعدہ خلافی نہیں فرماتا اور اللہ کا وعدہ ہے کہ
:
بے شک نیک لوگ بہشت میں ہوں گے اور بے شک گناہ گار دوزخ میں
۔

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق
رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
کل حشر کے میدان میں اگر یہ اعلان کہ ایک شخص کے سوا سب کو جہنم میں جھونک دو، تو مجھے خدا کی رحمت سے امید ہی کہ جہنم سے بچنے والا وہ شخص میں ہی ہوں گا۔ اور اگر یہ علان ہوجائے کہ ایک شخص کے سوا سب کو جنت میں لے جاو، تو اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے مجھے یہی اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ وہ شخص میں ہی ہوں گا۔
فاروق اعظم
رضی اللہ تعالی عنہ کے یہ الفاظ بار بار پڑھنے کے لائق ہیں، جن سے عقیدہ آخرت پر مکمل ایمان نظر آتا ہے۔ اور جس کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے عظیم خلیفہ بنے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنے اندر آخرت کے لئے یہی کیفیت پیدا کریں تاکہ رضائے الہی ہمارا مقدر بنے اور ہم آخرت میں سرخرو ہوسکیں۔

Tuesday, May 24, 2011

آپس کے لڑائی جھگڑوں سے بچنے کا اسلامی حل


آج کل میاں بیوی، عزیز واقارب، خاندانوں اور معاشرہ میں یہ خطرناک بیماری عام ہے جسکے بے انتہا نقصانات ہیں مثلاً روزی میں بے برکتی، آخرت کا عذاب، مال و جان کا نقصان، طلاق، قتل و غارت گری، آپس میں نفرت، بغض، ذ ہنی انتشار ، بلڈپریشراور امراض دل و دماغ ۔

 فرمان الٰہی ہے :۔

(ترجمہ) ’’ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ زبان سے ایسی بات کہا کریں جو بہترین ہو۔دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل 17: آیت 53)

 یہ بات یاد رکھیئے کہ لڑائی کرانے والا شیطان ہے اسلئے اصل لڑائی آپ کی شیطان سے ہے نہ کہ مخالف انسان سے۔ شکست شیطان کو دیجئے یہی آپکی اصل جیت ہے۔ شیطان کا پہلا حملہ غصہ دلانا ہے۔ {تفصیل کیلئے پڑھیئے تفسیر ( القصص  28: آیت 15) }

اس لئے جب آپ کو غصہّ آئے تو مند ر جہ ذیل کام کیجئے جس کی تعلیم قرآن و سنت میںہے :

1.  اَ عُوْ ذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ  بار بار پڑھیئے۔

2  حالت بدل دیں۔ کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں۔

3.  وضو کر کے2 رکعات نماز حاجت( برائے دفع غصہّ) شروع کر دیں۔ (مشکوٰۃ)

.4 سر پرٹھنڈا پانی ڈال لیں اور (کم از کم 2 گلاس پانی) پئیں بھی ۔

5 سب سے پہلے دونوں فریق اپنے دل میں اﷲ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر پیدا کریں۔

فرمان الٰہی ہے :۔

 (ترجمہ) ’’جو شخص اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اسکے لئے ( مشکل سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دیتا ہے‘‘ (طلاق 65 : آیت 2)

اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ کریم کے سامنے کھڑے ہو کر حساب دینے سے ڈرے۔
{تفصیل کیلئے پڑھیئے تفسیر عبس80 : آیت 40 }

 اس لئے دونوں فریق علیٰحدگی میں (اختلافات دہرائے بغیر)اپنا اپنا حق اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے معاف کر کے اجر عظیم حاصل کریں یہ آپ کی طرف سے صدقہ بھی ہے

{مزیدتفصیل کیلئے پڑھیئے تفسیرآل عمران 3 :آیات 134 تا 136}


6  اگر دو مسلمان (یا مسلمانوں کی دو جماعتیں) آپس میں لڑ پڑیں تو تیسرے آدمی یا تیسری جماعت پر اﷲ تعالیٰ نے یہ فرض کیا ہے کہ وہ ان میں انصاف سے صلح کرادیں۔

فرمان الٰہی ہے :

 (ترجمہ)’’اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں باہم لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ بےشک مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو۔‘‘ (الحجرات 49 : آیات 9 تا 10)

{مزید پڑھئیے تفسیر حجرات 49 : آیات 11 تا 12}’’جو شخص خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرانے کی تلقین کرے اور  صرف اﷲ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے تو (اللہ) یقینا  اسے بہت بڑا اجر دینگے۔ ‘‘ (النساء 4 : آیت 114)

 7آپس میں محبت سے ملیں،مصافحہ کریں، تحائف دیں، احسان کریں،ضرور ت مند ہو تو مالی تعاون بھی کریں۔

 فرمان الٰہی ہے :

(ترجمہ) ’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔ پھر (تم دیکھو گے) تمہارا دشمن تمہارا بہترین دوست ہو جائیگا اور یہ چیز صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں اور یہ توفیق اسی کو ملتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہو۔ ‘‘ (حٰمٓ السجدہ 41 : آیات 34 تا 35)

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا :

 ’’ قطع تعلق کرنے والوں سے ملو جو نہ دیتے ہوں ان کو دو۔ ظالم کے قصور کو معاف کر دو‘‘(طبرانی)

8 لڑائی کے دوران اور لڑائی کے بعد کسی بھی حالت میں جھوٹ نہ بولیں،جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہیں۔
   رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  نے جھوٹی گواہی دینے کو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے بعدسب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے (ترمذی)

  آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ 3 مرتبہ ا رشاد فرمایا پھر یہ آیت تلاوت فرما ئی :

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ

(ترجمہ)’’پس بتوںکی گندگی اور جھوٹ(جھوٹی باتوں اور جھوٹی قسم)سے بچو ۔‘‘(الحج 22: آیت 30)

 یہ بہت بڑا گناہ ہے جسکی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے (بیماری اور نقصانات کی شکل میں) اور آخرت میںالگ۔ {پڑھئیے تفسیر( الحج 22 :آیت30) اور(الفرقان  25: آیت 72)}

آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے کوگناہِ کبیرہ قرار دیا۔ (بخاری)

9 کبھی بھی لڑائی کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں ۔ نہ یہ سوچیں کہ میں بڑا ہوں چھوٹے سے معافی کیوں مانگوں، اگر آپکی غلطی یا زیادتی ہو تو معافی مانگ لیں۔ اس عمل میں ہی آپکی بڑائی ہے۔ بد گمانی سے بچئے،والدین بیوی اور بچوں کے تمام جائز حقوق ادا کریں
اسی طرح بیوی بھی شوہر کے تمام حقوق پورے کرے۔ سنی ہوئی باتوں پر یقین نہ کریں کیونکہ سُنی سنائی باتیں بھی لڑائی کا سبب بنتی ہیں۔

فرمان الٰہی ہے:۔

 (ترجمہ) ’’اے ایمان والو ، اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (گنہگار، بدکار جھوٹا) کسی قسم کی خبر لائے تو تم اسکی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔‘‘ (الحجرات 49 :آیت 6)

 رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا :۔

 ’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو(بلا تصدیق) بیان کر دے‘‘(مسلم)  شبہ کا فائدہ بھی دوسروں کو دیں۔

مصیبت آنے پر صبر اور نماز سے مدد لیجئے۔فرمان الٰہی ہے :۔ (ترجمہ)’’اے ایمان والو، صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘ (البقرہ 2 : آیوت 153)

بار بار نمازحاجت پڑھئیے۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی جلد ہی بہتری آجائیگی۔صبر کرنے سے انسان اﷲ تعالیٰ کی مغفرت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ تمام گھر والوں کو بھی نمازکا پابند بنائیں۔ زکوٰۃ پوری پوری ادا کریں اور تمام احکام الٰہی پر پورا پورا عمل کریں۔

«اس موضوع پر چند مزید احادیث :

 رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

1 ’’جو رزق کی فراخی اور عمر کی درازی چاہے وہ اقرباسے صلہ رحمی (رشتہ داروںسے حسن سلوک) کرے۔‘‘(بخاری)

2’’قطع رحمی کرنے (رشتہ داروں سے تعلق توڑنے) والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ‘‘(بخاری)

3’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو صلہ رحمی کا بدلہ (صلہ رحمی سے) دیتا ہے۔ البتہ وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا ہے جس سے صلہ رحمی نہیں کی جاتی مگر وہ صلہ رحمی کرتا ہے۔‘‘ (بخاری)

4 ’’کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے 3 دن سے زیادہ تعلقات اس طرح منقطع کرے کہ جب وہ دونوں ملیں تو ایک دوسرے سے منہ اِدھر اُدھر پھیر لیںبلکہ دونوں میں سے بہتر وہ شخص ہے جو پہلے سلام کرے۔‘‘ (بخاری)

5عام حالات میں بھی پہل آپ ہی کریں۔ ’’جو شخص 3 دن سے زیادہ صلح کئے بغیر فوت ہو گیا تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا‘‘ (ابوداؤد، احمد)

6’’اس شخص کی نماز سر سے بالشت بھر بھی بلند نہیں ہوتی جو (عام مسلمانوں سے لڑنے والا) قطع تعلق کرنے والا ہے ‘‘  (ابن ما جہ)

7’’لوگوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کو طے کرادینے کا ثواب(نفلی) روزہ و نماز اور صدقہ سے بھی زیادہ ہے‘‘ (ابوداؤد)

8ˆ’’دو   آد میوں کے درمیان صلح کرا دینا بھی صدقہ ہے ‘‘(بخاری)

9’’مظلوم کی بد دعا سے بچو چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اسلئے کہ اسکے (اور اﷲتعالیٰ کے) درمیان پردہ نہیں ہے‘‘(بخاری)

10حدیث قدسی ہے  :’’میرے بندو ، آپس میںظلم نہ کرو۔‘‘ (مسلم)

طلاق سے بچنے کے اسلامی طریقے:

طلاق سے بچنے کیلئے میاں بیوی اوپر دئیے گئے 9اسلامی حل کے ساتھ ساتھ یہ 9 کام بھی کریں:

1مرد اور عورتیں سورۂ نساء اور سورۂ طلاق کا ترجمہ و تفسیر بار بار پڑھیں تاکہ آپکو طلاق کے بعد کی مشکلات کا علم ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا:  ’’اﷲ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے انتہائی ناپسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘(ابوداؤد)

2  شوہر گھر کا نگراں اور محافظ ہے اس لئے اسکو چاہیئے کہ حکمت سے کام لے۔ اس پر عورت سے زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’عورت ٹیٹرھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے وہ آپ کے ساتھ ہمیشہ ایک طریقہ (عادت) پر قائم نہیں رہتی۔ آپ اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو اسکے ٹیڑھے پن کے ہوتے ہوئے فائدہ اٹھاتے رہیں اگر آپ اسکے ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنا چاہیں گے تو اسکو توڑ دینگے اور اسکا توڑنااسکو طلاق ہے‘‘ (مسلم)

3 دونوں صبر، برداشت اور درگزر سے کام لیں۔ ایک دوسرے سے نفرت نہ کریں اگر کسی میں ایک عادت بری ہے تو دوسری عادت اچھی بھی ہو گی۔ حقوق زوجین ادا کرتے رہیں۔ خراب حالات سے ہمیشہ سمجھوتہ کریں۔ روزانہ ایک دوسرے سے لفظاً محبت کا اظہار کرتے رہیں ۔ جلد بازی نہ کریں۔ [مزید پڑھیئے ترجمہ وتفسیر(النساء 4 :آیات19 اور 79) ]

4 دونوں ایک دوسرے کو تحفہ دیں۔ اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے، ہلکی پھلکی تفریح مثلاً گھر کی حدود میں ایک دوسرے کے ساتھ دوڑ لگائیں کبھی خود آگے نکل جائیں کبھی بیوی کو آگے نکل جانے دیں، جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی شریک حیات عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ کیا کرتے تھے(بخاری)

5 آپس میں ایک دوسرے سے اچھا سلوک کریں۔ مغرور اور بخیل نہ بنیں اﷲ تعالیٰ موافقت پیدا کر دیگا اِنْ شَاؓئَ اللّٰہُ تَعَالٰی یاد رکھیں کہ طلا ق دینے سے میا ں بیو ی کی    زندگی تو خرا ب ہو تی ہی ہے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی۔با لخصو ص بچو ں کی شا دی کے وقت۔

6طلاق کی و جہ سے دونوںخاندانوںمیںپھوٹ پڑجاتی ہے۔اسکانقصان صرف دو انسانوں تک محدود نہیںر ہتا ۔

7 ’’میاں بیوی کو جدا کرنا شیطان کا سب سے زیادہ پسندیدہ فعل ہے‘‘(مسلم)

اسلئے اختلافات کے د نوں میں بار بارپڑ ھیئے :۔

اَ عُوْ ذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

8 نماز کی پابندی کریں کیونکہ نماز برے کاموں سے ر وکتی ہے۔ ہر نماز کے بعد دل سے دعا مانگئیے کہ اﷲ ربّ العزّت آپس میں محبت اور خلوص پیدا کردیں۔مجرب عمل ہے۔

9دونوں ایک دوسرے کے لئے قربانی دیں یعنی ہر کام میں ایک دوسرے کو ترجیح دیں اور ایک دوسرے کی عزّت کریں۔

کامیاب زندگی کے لئے اسلامی اصو ل

فرمان الٰہی ہے :۔

 (ترجمہ) ’’اور اپنی آواز میں نرمی پیدا کرو بلاشبہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔ ‘‘ (لقمان 31 : آیت 19)

 گفتگو کرتے ہوئے مخاطب کی عزّت کا خیال رکھیں۔ اچھے طریقہ سے گفتگو کریں۔ مخلصانہ لہجہ اختیار کریں۔ اسے شرمندہ کرنے یا اس پر چھاجانے کی کوشش نہ کریں۔ دوسروںکی گفتگو کو غور سے سنیں اور انکی بات کے درمیان نہ بولیں، بات پوری کہنے دیں۔

 رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے  فرمایا :

   ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے بے یار و مد د گا ر چھوڑے او ر نہ ہی اسے حقیر سمجھے۔‘‘(مسلم)جب بھی آپ کسی مسلمان بھائی سے ملیں تو مسکراتے ہوئے سلام اور گرم جوشی سے مصافحہ کریں۔ (ترمذی)

فرمان الٰہی ہے :۔

 (ترجمہ )’’اپنے بھائی کو اچھے ناموں سے پکاریں اور وہ نام زیادہ استعمال کریں جو اس کو سب سے زیادہ پسند ہو۔‘‘( الحجرات 49 :آیت 11)

ہر انسان کیلئے سب سے زیادہ پسندیدہ نام اسکا اپنا ذاتی نام ہوتا ہے اسلئے ہر شخص کو اسکے ذاتی نام سے پکاریئے « دوسروں کا مذاق نہ اڑائیں نہ اپنے بڑوں کا نہ چھوٹوں کا۔

فرمانِ الٰہی ہے

 (ترجمہ) ’’اے ایمان والو، مرد دوسرے مردوں کامذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ(اللہ کے نزدیک ) یہ ان سے بہترہوں اورنہ ہی عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے کہ (اللہ کے نزدیک ) یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دوایمان لانے کے بعد مسلمان کو برانام دینا بری بات ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ‘‘(الحجرات 49 : آیت 11)

 رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔

’’میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا، چاہے مجھے اتنی اتنی دولت ہی کیوں نہ دے۔ ‘‘ (ترمذی(

«کسی کی عیب جوئی اور غیبت نہ کریں یعنی اس کی غیر موجودگی میں اس کے عیوب بیان نہ کریں ، چاہے وہ عیب اس میں موجود ہی ہو بلکہ دوسروں کی خامیوں پر ا چھے طر یقہ سے ا نہیں آگا ہ کریں ۔

 فرما نِ ا لٰہی ہے :۔

(ترجمہ)’’ا ے ا ہل ا یما ن ، زیادہ گمان کرنے سے بچو (کیونکہ) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تم ضرور نفرت کرو گے اور اﷲ کا ڈر رکھو۔ بیشک اﷲ توبہ قبول کرنے و الا مہربان ہے۔‘‘ (حجرات49: آیت12)

«اپنی غلطی کا اعتراف کرنا سیکھئے :۔ اﷲ تعالیٰ کے سامنے بھی اور انسانوں کے سامنے بھی، آدم علیہ السلام سے جب بھول ہوئی تو انہوں نے فرمایا:۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا:وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَـکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ

(ترجمہ) ’’اے ہمارے رب، ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر آپ ہمیں معاف   نہ کرینگے اور رحم نہ کرینگے تویقینا ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہونگے۔‘‘ (الاعراف 7 : آیت23)

جب موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے ایک آدمی قتل ہو گیا تو انہوں نے فوراً ا عتراف گناہ کیا اور معافی مانگی اور کہا :

رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ  (القصص28 : آیت16)

(ترجمہ)’’ اے میرے رب،بے شک میںنے اپنی جان پر ظلم کیا ہے۔ بس مجھے  معاف کر دیجئے۔ ‘‘

{( اﷲ تعالیٰ) نے انہیں معاف کر دیا بے شک وہ بخشنے والا اور مہربان ہے}

لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ

(ترجمہ)’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے آپ کے، آپ پاک ہیں،بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔‘‘(الانبیاء21:آیت87)  دعائے یونس علیہ السلام

«ضرورت مندوں کیساتھ مالی تعاون کرنے سے آمدنی میں اورجسمانی خدمت سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے  بِاِ ذْ  ِن اللّٰہِ تَعَالٰی ۔ بے لوث ہو کرہاتھ پاؤں، زبان اور مال سے بھی دوسروں کی خدمت کریں، خاص طور پر والدین اور قریبی عزیز و اقارب کی۔

رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔

’’اﷲ تبارک و تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندہ کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔‘‘ (مسلم)

فرمان الٰہی ہے:۔

 (ترجمہ)
1’’والدین کے ساتھ، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، پڑوسیوں، رشتہ داروں، ہم نشین ساتھیوں، مسافروں اور جو تمہارے غلام ہیں سب ہی کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اﷲ اچھا سلوک کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور تکبر اور بڑائی کرنے وا لو ں کو دوست نہیں رکھتا ‘‘(النسآء 4 : آیت 36)

2 ’’ جو مصیبت تم پر آتی ہے  تو وہ تمہاری اپنی حرکات کی و جہ سے ہوتی ہے (اﷲ پھر بھی تمہاری) بہت سی غلطیوں کو معاف ہی فرما دیتے ہیں۔‘‘ (الشوریٰ42  :آیت30)

3 ہر شخص اپنے اعمال کا قرض دار(ذمہ دار)ہے۔‘‘(المدثر 74: آیت 38) [اسے اپنے گناہوں کا بدلہ ملنا ہے۔ کچھ دنیا میں مل جاتا ہے باقی زیادہ حصّہ آخرت میں ملتاہے]

4’’ خشکی و تری میں لوگوںکے گناہوں کی و جہ سے فساد(بگاڑ) پھیل گیا ہے تاکہ انہیں ان کے اعما لِ بد کا مزہ چکھایا جائے شاید وہ بازآجائیں۔‘‘(الروم 30 : آیت 41 )

{وضا حت :۔ سب سے بڑا فساد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیروں کو شریک کیاجائے اس کے احکام کو بالا ئے طاق رکھ کر زندگی گزاری جائے، حلال وحرام کی تمیز اٹھا دی جائے جس کے نتیجہ میں لوگوں کی جان ،مال اور عزت محفوظ نہیں رہتی اور ان کے برے اعمال کی و جہ سے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی، مہنگا ئی، جنگ و جدال اور فتنہ و فساد کو مسلط کر دیتاہے تاکہ دنیاوی سزاؤں سے متاثر ہو کر لوگ اللہ کریم کی طرف رجوع کریںاور اپنے گناہوں سے تائب ہوں }

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔

’’جب لوگوں میں( آجکل کی طرح) بڑے بڑے گناہ ہونے لگتے ہیں تو اﷲتعالیٰ ایسی خطرناک بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں جو اُس سے پہلے نہیں ہوتی تھیں‘‘ (ابن ما جہ)

 غور فرمائیے۔ اور روزانہ اپنا جائزہ لیں کہ آنکھ، کان، زبان  ہاتھ اور پیر سے ایسے کون سے گناہ ہورہے ہیں جن کا قرض اتارنا پڑ رہا ہے اور ہم پر مصیبتیں کیوں آرہی ہیں؟ ان اصولوں کو روزانہ پڑھیں اور دیکھیں کہ آج کس اصول پر عمل نہیں ہو سکا۔ ابتدا میں مشکل ہو گی لیکن آخر کار  اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی آسانی ہوتی چلی جائیگی

!!!! بد دعا

بد دعا چند الفاظ سے بنا ایک چھوٹا سا لفظ ہے ، جو زبان سے بڑی آسانی کے ساتھ ادا ہوجاتا ہے ، لیکن اس کے اثرات انتہائی دور رس ہوتے ہیں ، اس کے اثر سے آبادیاں ویرانوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، دولت وثروت کے جھولوںمیں جھولتے ہوئے خاندان فقیری و محتاجی کی چکی میں پس کر سرکوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں ، تندرست اور توانا خوب صورت جسم بیماریوں کا شکار ہوکر ہڈیوں کا پنجر بن جاتےہیں ،اور حکومت و اقتدار کی سرمستیوں سے جھومتے ہوئے سر ذلت ورسوائیوں کے عمیق غاروں میں گر کر اہل دنیا کے لئے عبرت وموعظت کا نشان بن جاتے ہیں ۔

 اسی لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا

 مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اﷲ تعالی کے درمےان کوئی پردہ نہیں ہے ۔( متفق علیہ


مظلوم کے دل کا ہر نالہ تاثیر میں ڈوبا ہوتا ہے

ظالم کو کوئی جاکر دے خبر ، انجام ستم کیا ہوتا ہے

جب ظلم گذرتا ہے حد سے، قدرت کو جلال آجاتا ہے

فرعون کا سر جب اٹھتا ہے ،موسٰی کوئی پیدا ہوتا ہے

روئے زمین کی پہلی بد دعا



سب سے پہلی وہ بد دعا جس کے ہمہ گیر اثرات روئے زمین پر ظاہر ہوئے ، اﷲ تعالیٰ کے سب سے پہلے رسول سیدنا نوح کی بد دعا تھی ، آپ ابو البشر ثانی ہیں ، اس عظیم ہستی نے ساڑھے نو سو سال کی طویل عمر پائی ، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو سرزمین عراق کے دو مشہور ومعروف دریاو ں ، دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں ( جسے جزیرہ کہا جاتا ہے ) آباد قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تھا ، آپ ساری زندگی اﷲ تعالیٰ کی توحید اور اس کی خالص عبادت کی دعوت دیتے رہے ، اس بھر پور زندگی میں راہ حق میں نہ کبھی تھکاوٹ محسوس کی اور نہ اکتاہٹ ، دن اور رات چھپ چھپ کر ، اور علی الاعلان ہر طرح دعوت حق دیتے رہے ، جیسا کہ ارشاد قرآنی ہے
 :
نوح نے کہا : میرے پروردگار !بولا اے رب میں بلاتا رہا اپنی قوم کو رات اور دن
پھرمیرے بلانے سے اور زیادہ بھاگنے لگے
اور میں نے جب کبھی اُنکو بلایا تاکہ تو اُنکو بخشے ڈالنے لگے انگلیاں اپنے کانوں میں اور لپیٹنے لگے اپنے اوپر کپڑے  اور ضد کی اور غرور کیا بڑا غرور
پھر میں نے اُنکو بلایا بر ملا
پھر میں نے اُنکو کھول کر کہا اور چھپ کر کہا چپکے سے(نوح :۵۔۹)

لیکن قوم نے آپ کا مذاق اڑایا اور نہایت ہی بے باکی سے اﷲ کے عذاب کا مطالبہ کیا
:
” ان کی قوم نے کہا : اے نوح ! تم ہم سے ہمیشہ ہی جھگڑتے رہے ہو ، اور تم نے جھگڑنے کی حد کردی ہے ، اگر تم سچے ہو تو تم جس عذاب کا تم ہم سے وعدہ کرتے رہے ہو اب اسے لے ہی آو ،،۔( ھود : ۲۳)

ساڑھے نو سو سال کی کاوشوں اور شب وروز دعوتی تگ وتاز کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک نہایت ہی قلیل لوگ ، جن کی تعداد تفاسیر میں چالیس سے لے کر اسّی تک بیان ہوئی ہے، ایمان لے آئی۔اور اب ان سے زیادہ لوگوں کے ایمان لانے کی توقع بھی ختم ہوگئی
 ،
 یہاں تک کہ خود اﷲ تعالیٰ نے فرمادیا
:
” اب آپ کی قوم کا کوئی فرد ایمان نہیں لائے گا ، سوائے ان کے جو ایمان لاچکے ہیں ، آپ ان کے کرتوت پر افسوس نہ کیجئے ،،۔ ( ھود :۶۳)
جب قوم کی شرارت حد سے زیادہ بڑھ گئی ، اور ان کی طغیانیت اور سرکشی حدود پار کرگئی تو پھر آپ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اپنے قوم کے کافروں پر روئے زمین کی سب سے پہلی بد دعا کی اور اپنی بد دعا میں فرمایا
 :
” تو سر زمن پر کسی کافر کا گھر نہ رہنے دے ، اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے ، اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا ، گناہ گار اور سخت کافر ہی ہوگا ،،۔ ( نوح : ۷۲)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے ، ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں موجود تھے ، اتنے میں ابوجہل کے دماغ میں ایک شیطانی تدبیر آئی اور اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا “کون ہے جو بنی فلاں کے محلے سے ذبح شدہ اونٹوں کی اوجھڑی لائے اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جائیں تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھ دے “،قوم کا سب سے بدبخت شخص عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے اوجھڑی لا یااور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اس نے آپ کی پشت پر دونوں کندھوںکے درمیان رکھ دی ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے “میں یہ کریہہ منظر دیکھ رہاتھا لیکن اپنی بے بسی اور کمزوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ مدد نہیں کرسکتا تھا اورا بوجہل اوراس کے ہمنشین اس المناک منظر دیکھ کر قہقے مارمار کر ہنس رہے تھے ،ان کی خوشی سنبھالے نہیں جارہی تھی ،وہ ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہوکر ہنس رہے تھے اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت سجدہ میں رب رحیم سے مناجات میں مشغول تھے اور سرمبارک کو اٹھانہیں رہے تھے ،میں دوڑتا ہوا حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نورنظر لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اس کی اطلاع دی ، ادھر سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور ادھر سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا روتی ہوئی آئیں اور ان دونوں نے مل کراس اوجھڑی کو ہٹا یا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز سے فراغت کے بعد ہاتھ اٹھائے ، پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناءکی اور پھر فرمایا “اے اللہ !ابوجہل ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو اپنی پکڑ میں لے لے “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں شخص کا بھی نام لیا جو مجھے یاد نہیں رہا، ان لوگوںنے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بددعا کے یہ الفاظ سنے تو ان کی ہنسی ہوا ہوگئی ، چہروں پرخوف اتر آیا اور انہیں یقین ہوگیا کہ اب وہ کسی بھی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کی زد سے بچ نہیں سکتے
۔
 راوی حدیث کہتے ہیں “اللہ کی قسم ! جن جن کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا ان کی مسخ شدہ لاشوں کو میںنے بدر کے اندھے کنویں میں پھینکا ہو پایا “(بخاری مع الفتح )
۔
جنگ بدر کے اختتام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں کے پاس تشریف لائے جس میں کہ ان مجرمین کی لاشیں گھسیٹی گئی تھیں ، اس کی منڈیر پر کھڑے ہوکر ان میں سے ایک ایک شخص کا نام لے کر پکارا “اے ابو جہل بن ہشام!اے عتبہ بن ربیعہ !اے شیبہ بن ربیعہ !اے امیہ بن خلف ! تمہارے رب نے تم سے جس عذا ب کا وعدہ کیا تھا کیا تم نے اسے نہیں پایا ؟اور میرے رب نے مجھ سے جس فتح ونصرت کا وعدہ فرمایا تھا اسے میں نے دیکھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گویا ہوئے: “یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ایسے جسموں سے مخاطب ہیں جس میں روحیں نہیں ہیں ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! تم ان سے بہتر نہیں سن رہے ہو “حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :”کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تھوڑی دیر کے لئے زندہ کردیا تھا تا کہ وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ان باتوں کو سنیں اور ان کی حسرت ، ندامت ، ذلت ورسوائی اور روسیاہی میں مزید اضافہ ہوجائے،،۔ (بخاری )

سیدنا خبیب بن عدیرضی اللہ تعالی عنہ کی بد دعا


سیدنا خبیب بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کو بنی لحیان نے غداری کرکے مکہ والوں کے ہاتھ بیچ دیا ، ان کو حجیر بن ابی اھاب تمیمی نے خرید لیا ، اس لئے کہ آپ نے جنگ بدر میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا جو حجیرکا ماں کی جانب سے بھائی تھا ، اس نے آپ کو اپنے گھر میں قید کردیا ، تاکہ حرمت والے مہینے گذرنے کے بعد آپ کو سولی پر چڑھائے ۔ حجیر کی لونڈی سیدہ ماویہ ( جو خفیہ طور پر مسلمان ہوچکی تھیں ) کہتی ہیں : ” سیدنا خبیب بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے گھر میں قید کئے گئے تھے ، ایک دن میں نے انہیں اس حال میں دیکھا کہ ان کے ہاتھوں اور پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں انسانی سر کے برابر انگور کا خوشہ تھا ، اور اس وقت سارے عرب میں کہیں انگور کا موسم نہیں تھا ،،۔
پھر اہل مکہ نے آپ کو پھانسی دینے کے لئے مقام تنعیم پر لے گئے ، پھانسی دینے سے پہلے ان کے جسم کو تیروں اور نیزوں سے چھلنی کردیا گیا ، ایک بد بخت نے نیزے سے ان کے سینے کو چھیدتے ہوئے کہا : ” شاید اب تم یہ چاہتے ہوگے کہ تم کو چھوڑ دیا جائے اور تمہاری جگہ محمد پکڑ لئے جاتے ،،۔ آپ نے تڑپ کر جواب دیا : ” اﷲ کی قسم ! مجھے یہ بھی منظور نہیں کہ مجھے چھوڑ دیا جائے ، اور میری رہائی کے بدلے رسول اقدس کے قدم مبارک میں کانٹا بھی چھبویا جائے ،،۔ پھر آپ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا : ” یا اﷲ ! میں نے تیرے رسول کے فرامین ان تک پہنچادئے ،یہ لوگ میرے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں ، اس کی خبر تو تیرے رسول تک پہنچادے ،،۔ اس کے بعد آپ نے اپنے قتل کے لئے جمع شدہ کافروں کے حق میں بد دعا کرتے ہوئے فرمایا : ” یا اﷲ تو ان لوگوں کو اچھی طرح گن لے ، انہیں تتر بتر کرکے قتل کردے ، اور ان میں سے کسی کو بھی زندہ مت چھوڑ ،،۔یہ اتفاق تھا یا آپ کی بد دعا کا اثر
کہ آپ کے قتل میں جو بھی شریک تھا سب کے سب چند سال کے عرصے میں متفرق قتل کردئے گئے
۔
صاحب مغازی محمد بن اسحاق کہتے ہیں : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سعید بن عامر جمحی رضی اللہ تعالی عنہ کو ملک شام کے ایک علاقے کا گورنر بنا کر روانہ فرمایا ، وہاں کے لوگوں نے ان کے خلاف دربار خلافت میں یہ شکایت پہنچائی کہ سعید بن عامر مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں ، اور انہیں اس کے دورے پڑتے رہتے ہیں ، بسا اوقات جب وہ قوم میں فیصلے کر رہے ہوتے تو بے ہوش ہوجاتے ہیں ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں پیشی کے لئے لکھا ، جب وہ حاضر خدمت ہوئے تو ان سے پوچھا : یہ آپ کو کونسا مرض لاحق ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : ” ا میر المو منین ! واﷲ مجھے کوئی مرض نہیں ہے ، لیکن میں ، جس وقت سیدنا خبیب بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کو سولی پر چڑھایا جارہا تھا ، تو اس جگہ موجود تھا ، اور میں نے ان کی بد دعا کو اپنے کانوں سے سنا تھا ، بخدا ! آج بھی جب وہ نظارہ میری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے تو دل پر ایسی رقت طاری ہوجاتی ہے کہ اس کے اثر سے بے ہوش ہوجاتا ہوں ،،۔ اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر میں ان کی عزت وتوقیر میں اور اضافہ ہوگیا ۔ ( سیرت بن ہشام

سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی بددعا



سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ماموں ، سابقین اولین میں نمایاں مقام کے حامل اور وہ ساتویں شخص ہیں جنہوں نے رسول اکرم کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  کے زمانے میں آپ نے عراق فتح کیا، اور آپ نے ہی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  کے حکم پر عراق کا مشہور شہر کوفہ آباد کیا ، کوفہ کے لوگ اپنی خیانت اور بد عہدی میں ہر دور میں ممتاز رہے ہیں ، جس وقت آپ کوفہ کے گورنر تھے ، اہل کوفہ نے آپ کی شکایت دربار خلافت میں پہنچائی کہ انہیں صحیح طور پر نماز پڑھانا بھی نہیں آتا ۔

 سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  نے آپ کو طلب کیا اور فرمایا : اے ابو اسحاق ! یہ لوگ اس بات کے شاکی ہیں کہ آپ انہیں ٹھیک طور پر نماز نہیں پڑھاتے ،،۔ سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا :” اﷲ کی قسم ! میں انہیں بالکل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاتا ہوں اور اس میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا، پہلی دو رکعتوں میں لمبی قراءت کرتا ہوں اور آخری دو رکعتوں کو مختصر پڑھاتا ہوں ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  نے فرمایا :” ابو اسحاق ! مجھے آپ سے یہی امید تھی ،،۔ پھر آپ نے اس شکایت کی تحقیق کے لئے کچھ صحابہ کرام کو سیدنا سعد کے ساتھ روانہ کیا ۔ اس تحقیقی وفد نے کوفہ کی ہر مسجد کا دورہ کیا ،اور سیدنا سعد کے متعلق کے متعلق لوگوں کی رائے دریافت کی ، تمام نے آپ کے حسن عمل کی تعریف کی ، پھر یہ وفد بنو عبس کی مسجد آیا اور وہاں لوگوں سے دریافت کیا ، ان میں سے ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی ، کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا : ” اگر آپ لوگ ان کے متعلق ہماری رائے جاننا ہی چاہتے ہیں تو سن لیں کہ :” سعد میدان جنگ میں فوج کے ہمراہ نہیں چلتے ، نہ مال غنیمت ٹھیک طور پر تقسیم کرتے ہیں اور نہ ہی فیصلوں میں انصاف سے کام لیتے ہیں ،،
۔
سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اس شخص کے ان جھوٹے اتہامات کو سنا تو فرمایا : ” اﷲ کی قسم ! میں اس شخص کے حق میں تین طرح کی بد دعائیں کروں گا :” یا اﷲ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے ، صرف دکھاوے کے لئے ، یا لوگوں میں شہرت اور ناموری کے لئے کھڑا ہوا ہے ، تو تو اس کی عمر دراز کردے ، اور اس کی محتاجی کو بھی لمبی کردے ، اور اسے فتنوں اور آزمائشوں میں مبتلا کردے ،،
۔
راوی حدیث کہتے ہیں :” اس شخص نے بڑی لمبی عمر پائی ، وہ گلیوں میں لوگوں سے بھیک مانگا کرتا تھا ، اور لوگوں کے پوچھنے پر بتلاتا تھا : ” کہ میں ایک مصیبت میں مبتلا بوڑھا ہوں ، مجھے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی بد دعا نے تباہ کردیا ہے ،،۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں :میں نے اسے اس حال میں دیکھا ہے کہ کبر سنی کی وجہ سے اس کی بھوئیں آنکھوں پر آگری تھیں، ایسے عالم میں بھی وہ راستے میں آنے جانے والی لڑکیوں سے چھیڑ خانی کیا کرتا تھا ،،۔ ( متفق علیہ

سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی بد دعا



جلیل القدر صحابی ،سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے ، یہ سیدہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے شوہر اورسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  کے بہنوئی ہیں ، اور ان لوگوں میں سے ہیں جو اسلام کی آمد سے قبل ہی بت پرستی سے کنارہ کش ہوچکے تھے ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کے واقعے میں انہوں نے اپنے اسی بہنوئی اور بہن کی پٹائی کی تھی ۔ ان کے متعلق اروی بنت اوس نے ، مروان بن حکم ، حاکم مدینہ کے دربار میں یہ شکایت پہنچائی کہسیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی زمین کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے ، مروان نے آپ کو طلب کیا تو آپ نے مروان سے کہا : ” کیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو سننے کے بعد بھی اس کی زمین پر نا جائز قبضہ کرسکتا ہوں ؟ مروان نے پوچھا : ” آپ نے کونسی حدیث سنی ہے ؟ فرمایا :

میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین ظلم سے ہتھیالیتا ہے تو اس کی وجہ سے قیامت کے دن سات زمینیں طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالی جائیں گی ،،۔ مروان نے کہا : اب اس کے بعد آپ سے کوئی دلیل نہیں مانگوں گا ۔ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو بد دعا دیتے ہوئے کہا : ” یا اﷲ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے ، تو تو اسے اندھا کردے ، اور اسی کی زمین میں اسے مار دے ،،۔ راوی کہتے ہیں : وہ اس وقت تک نہیں مری جب تک کہ اندھی نہیں ہوگئی ، وہ دیواروں کو ٹٹولتی ہوئی چلتی تھی اور کہتی تھی : مجھے سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی بد دعا لگ گئی ہے ۔ وہ اپنی ہی زمین میں موجود کنویں کے پاس سے گذر رہی تھی کہ اس میں گر گئی ، اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا ۔ یہی وہ زمین تھی جس کے متعلق اس نے سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا تھا ۔ ( متفق علیہ

ہم تمام کے لئے ضروری ہے کہ بد دعا سے بچیں ، اور بالخصوص والدین کی ، کیونکہ والدین ور اساتذہ کی کیونکہ ان کی بددعا ان کے مستقبل کا بیڑہ غرق کردے گی ، والدین کی بد دعا اور اس کے اثرات کے متعلق احادیث میں کئی واقعات ذکر کئے گئے ہیں
 جن میں ایک بنو اسرائیل کے ایک مشہور عابد وزاہد حضرت جریج رحمہ اﷲ کا واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے
:
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” صرف تین گود کے بچوں نے بات کیا ( جب کہ عموما اس عمر میں بچے بات نہیں کرتے ) ایک : عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام )۔ دوسرا :جریج والا لڑکا ۔ اور جریج ایک عابد وزاہد آدمی تھا ، اس نے اپنے لئے ایک حجرہ بنا لیا اور اسی میں مصروفِ عبادت رہا کرتا تھا ایک دن اس کی والدہ اس کے پاس اس وقت آئی جب کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا ، اس نے اسے، اے جریج :کہہ کر آواز دی ۔ اس نے ( اپنے دل میں ) کہا :اے میرے رب !ایک طرف ماں ہے اور دوسری طرف نماز ( کس کا خیال کروں )پھر وہ نماز میں مشغول رہا اور وہ واپس لوٹ گئی ۔دوسرے دن پھر اس کے پاس آئی اور وہ نماز پڑھ رہا تھا ، اس نے کہا :اے جریج ! اس نے کہا : یارب ! میری ماں اور میری نماز ، پھر نماز میں مشغول ہوگیا ، ماں واپس چلی گئی تیسرے دن وہ پھر اس کے پاس آئی اور اسے، اے جریج !کہہ کر آواز دی اور وہ نماز پڑھ رہا تھا ، اس نے (دل میں ) کہا : یا رب ! میری والدہ مجھے صدا دے رہی ہے اور میں حالتِ نماز میں ہوں ( کیا کروں ؟) اس نے اپنی نماز کو جاری رکھا اس کی والدہ نے اسے ان الفاظ میں بد دعا دی :
 یا اﷲ ! اِسے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ یہ بدکار عورتوں کے چہرے نہ دیکھ لے ۔
پھر بنو اسرائیل میں جریج اور اس کے زُہد وتقوی کی شہرت عام ہوگئی ، اس دوران ایک بد کار عورت نے ،جس کا حُسن مشہور تھا ، کہا : اگر تم چاہو تو میں جریج کو فتنہ میں ڈال سکتی ہوں چنانچہ وہ جریج کے سامنے بن سنور کر آئی ، لیکن جریج نے اس پر کوئی توجہ نہ دی ، پھر وہ ایک چرواہے کے پاس آئی جو جریج کے عبادت گاہ کے آس پاس ہی رہا کرتا تھا اور اس کے ساتھ بدکاری کرکے حاملہ ہوگئی ، جب اسے لڑکا پیدا ہوا تو اس نے مشہور کردیا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے ۔
جب لوگوں نے یہ سنا تو وہ جریج کے پاس آئے ، اسے حجرے سے باہر کھینچ کر لائے اور صومعے کو گرادیا اور بُری طرح پیٹنے لگے ۔ جریج نے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟( ایسا کیوں کر رہے ہو؟)لوگوں نے کہا کہ تم نے فلاں بدکار عورت کے ساتھ برائی کی ہے اور اس کے نتیجے میں تجھ سے اسے لڑکا ہوا ہے ۔اس نے کہا : ” وہ بچہ کہاں ہے ؟جب بچہ لایا گیا تو اس نے لوگوں سے کہا اگر تم اجازت دو تو میں نماز پڑھوں ؟ اس نے نماز پڑھنے کے بعد اس بچے کے پیٹ پر ہاتھ پھےرتے ہوئے کہا :اے لڑکے ! بتا تیرا باپ کون ہے ؟ اس بچے نے جواب دیا : ” فلاں چرواہا ہے ،، ۔ یہ سنتے ہی لوگ جریج کو چُومنے اور( حصولِ برکت کےلئے )اسے چُھوتے ہوئے درخواست کرنے لگے :اگر آپ پسند کریں تو ہم آپ کے حُجرے کو سونے کا بنا دیں ؟اس نے کہا : ” نہیں ! پہلے جیسے مٹی کا تھا اسی طرح کا بنادو۔ ،،( متفق علیہ

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر اولاد بے گناہ بھی ہو تو والدین کی بد دعا انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے ، والدین کے لئے بھی ضروری ہے کہ اولاد سے کوئی گُستاخی ہوجائے تو ان کو بجائے بد دعا دینے کے ہدایت کی دعا کریں.

Wednesday, May 11, 2011

کیا کھڑے ہو کر پانی پینا گناہ ہے؟

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے :

1. عن انس عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه نهیٰ ان اليشرب الرجل قائما.
(رواه مسلم)

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص کھڑا ہو کر پانی پیئے۔

2. عن ابن عباس رضی الله عنه قال اتيت النبی صلی الله عليه وآله وسلم بدلوٍ من ماءِ زم زم فشرِب وهو قائمٌ.
(متفق عليه)

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک ڈول ماء زم زم پیش کیا۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے کھڑے ہو کر پانی پیا
۔
3. عن علیٍ ثم قام مشرِبَ فضلَه وهو قائمٌ ثم قال ان ناساً يکرهون الشرب قائماً وان النبی صلی الله عليه وآله وسلم صنع مثل صنعت.
(رواه البخاری)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا پھر فرمایا لوگ کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ سمجھتے ہیں اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کھڑے ہو کر پانی پیا تھاجیسا کہ میں نے پیا۔

ان احادیث مبارکہ سے ہمیں دو چیزوں کا پتہ چلا۔ ایک کھڑے ہو کر پانی پینا اور دوسری چیز یہ کہ کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا
۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ ماء زم زم اور وضو سے بچا ہوا پانی کھڑا ہو کر پینا سنت ہے اور باقی پانی بیٹھ کر پینا سنت ہے

 لیکن دوسری جماعت کے علماء کرام کے نزدیک ایسا نہیں ہے بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ کھڑے ہو کر پانی پینا جائز ہے اور بیٹھ کر پینا سنت ہے
۔
لہذا کھڑے ہو کر پانی پینا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن مکروہ ہوگا یعنی ناپسندیدہ عمل ہے لیکن اگر کوئی عذر ہو تو کھڑے ہو کر پینا مکروہ بھی نہیں ہے
۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان

کیا عورتوں کا مزاروں پر یا قبرستان میں جانا جائز ہے؟

قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم کنت نهيتکم زيارة القبور اَلا فزورُوها فانها تُذهد في الدنيا وتذکر الاخرة
.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں زیارت قبور سے منع کرتا تھا اب قبرستان جایا کرو اس لیے کہ یہ زیارت قبور دنیا میں تقویٰ اور آخرت کی یاد پیدا کرتی ہے۔

علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہیں لیکن یہ احتیاط ضروری ہے کہ عورتوں کے ساتھ کوئی محرم ہو تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو اگر کسی بھی صورت میں فتنہ اور برائی کا اندیشہ ہو تو پھر گھر پر ہی ایصال ثواب کریں
۔
عورتوں کے زیارت قبور پر درج ذیل احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں

عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِامْرَأة تَبْکِي عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ : اتَّقِي اﷲَ وَاصْبِرِي. قَالَتْ : إِلَيکَ عَنِّي، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي، وَلَمْ تَعْرِفْه، فَقِيلَ لَها : إِنّه النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم ، فَأتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَه بَوَّابِينَ، فَقَالَتْ : لَمْ أعْرِفْکَ، فَقَالَ : إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَة الْأوْلٰي.
رَوَاه الْبُخَارِيُّ وَأحْمَدُ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب زيارة القبور، 1 / 431، الرقم : 1223، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 143، الرقم : 12480، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 101، الرقم : 20043.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس زار و قطار رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ سے ڈر اور صبر کر۔ اس عورت نے (شدتِ غم اور عدمِ تعارف کی وجہ سے) کہا : آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ آپ کو مجھ جیسی مصیبت نہیں پہنچی ہے۔ وہ خاتون آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتی نہ تھی۔ کسی نے اُسے بتایا کہ یہ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ وہ عورت (اپنی اس بات کی معذرت کرنے کیلئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ اَقدس پر حاضر ہوئی۔ اس نے خدمت میں حاضری کی اجازت لینے کیلئے دربان نہیں پایا (تو باہر سے کھڑے ہوکر) عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اُس کی معذرت طلبی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صدمے کے موقع پر صبر ہی بہتر ہے۔‘‘ اِسے امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے
۔
عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها، في رواية طويلة قَالَتْ : قُلْتُ : کَيفَ أَقُوْلُ لَهمْ يا رَسُوْلَ اﷲِ؟ (تَعْنِي فِي زِيارَة الْقُبُوْرِ) قَالَ : قُوْلِي : السَّلَامُ عَلٰي أَهلِ الدِّيارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيرْحَمُ اﷲُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اﷲُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ. رَوَاه مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبر والدعاء لأهلها، 2 / 669، الرقم : 974، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب الأمر بالاستغفار للمؤمنين، 4 / 91، الرقم : 2037، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 221، الرقم : 25897، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 576، الرقم : 6722.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا ایک طویل روایت میں بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں زیارتِ قبور کے وقت اہلِ قبور سے کس طرح مخاطب ہوا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یوں کہا کرو : اے مومنو اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اﷲ تعالیٰ ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں پر رحم فرمائے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تمہیں ملنے والے ہیں۔‘‘
اِسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے
۔
عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها أَنَّها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم (کُلَّمَا کَانَ لَيلَتُها مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم) يخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيلِ إِلَي الْبَقِيعِ، فَيقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأتَاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ، غَدًا مُؤَجَّلُوْنَ، وَإنَّا، إِنْ شَاءَ اﷲُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ. اللَّهمَّ اغْفِرْ لِأهلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ. رَوَاه مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها، 2 / 669، الرقم : 974، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب الأمر بالاستغفار للمؤمنين، 4 / 93، الرقم : 2039، وأبو يعلي في المسند، 8 / 199، الرقم : 4758، وابن حبان في الصحيح، 7 / 444، الرقم : 3172.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی جب میرے یہاں باری ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے آخری پہر بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (اہلِ قبرستان سے) فرماتے : تم پر سلامتی ہو، اے مومنوں کے گھر والو! جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہارے پاس آ گئی کہ جسے کل ایک مدت بعد پاؤ گے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اﷲ! بقیع غرقد (اہلِ مدینہ کے قبرستان) والوں کی مغفرت فرما۔‘‘
اِسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے
۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أبِي مُلَيکَة رضي اﷲ عنهما قَالَ تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنهما بِحُبْشِيٍّ، قَالَ : فَحُمِلَ إِلٰي مَکَّة فَدُفِنَ فِيها فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَة أتَتْ قَبْرَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أبِي بَکْرٍ فَقَالَتْ :
وَکُنَّا کَنَدْمَانَي جَذِيمَة حِقْبَة
مِنَ الدَّهرِ حَتّٰي قِيلَ لَنْ يتَصَدَّعَا
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا کَأنِّي وَمَالِکًا
لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيلَة مَعَا
ثُمَّ قَالَتْ : وَاﷲِ، لَوْ حَضَرْتُکَ مَا دُفِنْتَ إِلَّا حَيثُ مُتَّ وَلَوْ شَهدْتُکَ مَا زُرْتُکَ. رَوَاه التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في زيارة القبور للنساء، 3 / 371، الرقم : 1055، والحاکم في المستدرک، 3 / 541، الرقم : 6013، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 60.

حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اﷲ عنہما کا مقام حبشی میں انتقال ہوا تو آپ کو مکہ مکرمہ لا کر دفن کیا گیا، جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا آپ کی قبر پر تشریف لائیں تو (اشعار میں) فرمایا :

’’ہم جذیمہ بادشاہ کے دو مصاحبوں کی طرح عرصہ دراز تک اکٹھے رہے یہاں تک کہ کہا گیا ہرگز جدا نہیں ہوں گے، پس جب جدا ہو گئے تو گویا کہ مدت دراز تک اکٹھا رہنے کے باوجود میں اور مالک نے ایک رات بھی اکٹھے نہیں گزاری‘‘۔
پھر فرمایا : اللہ کی قسم! اگر میں وہاں ہوتی تو تمہیں وہیں دفن کراتی جہاں تمہارا انتقال ہوا اور اگر میں حاضر ہوتی تو تمہاری زیارت نہ کرتی۔‘‘ اِسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے
۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أبِي مَلِيکَة رضي الله عنه أنَّ عَائِشَة رضي اﷲ عنها أقْبَلْتْ ذَاتَ يوْمٍ مِنَ الْمَقَابِرِ، فَقُلْتُ لَها : يا أمَّ الْمُؤْمِنِينَ، مِنْ أينَ أقْبَلْتِ؟ قَالَتْ : مِنْ قَبْرِ أخِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أبِي بَکْرِ، فَقُلْتُ لَها : ألَيسَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم نَهي عَنْ زِيارَة الْقُبُوْرِ؟ قَالَتْ : نَعَمْ، کَانَ نَهي ثُمَّ أمَرَ بِزِيارِتِها. رَوَاه الْحَاکِمُ.
أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 532، الرقم : 1392، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 131، الرقم : 7207، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 149، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 4 / 137.

’’حضرت عبد اﷲ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا قبرستان سے واپس تشریف لا رہی تھیں میں نے اُن سے عرض کیا : اُم المؤمنین! آپ کہاں سے تشریف لا رہی ہیں؟ فرمایا : اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کی قبر سے، میں نے عرض کیا : کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتِ قبور سے منع نہیں فرمایا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا : ہاں! پہلے منع فرمایا تھا لیکن بعد میں رخصت دے دی تھی۔‘‘ اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے
۔
عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أبِيه قَالَ : کَانَتْ فَاطِمَة بِنْتِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم تَزُوْرُ قَبْرَ حَمْزَة کُلَّ جُمُعَة. رَوَاه عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 3 / 572، الرقم : 6713، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 131، الرقم : 7208.

’’امام جعفر الصادق اپنے والد گرامی امام محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیھا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتی تھیں۔‘‘ اِسے امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے
۔
عَنِ الأصْبَغِ بْنِ نَبَاتَة قَالَ : أنَّ فَاطِمَة بِنْتَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَتْ تَأتِي قَبْرَ حَمْزَة وَکَانَتْ قَدْ وَضَعَتْ عَلَيه عَلَمًا لَوْ تَعْرِفُه، وَذُکِرَ أنَّ قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَأبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ کَانَ عَلَيهمُ النَّقْلُ يعْنِي حِجَارَة صِغَارًا. رَوَاه عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
أخرجه عبد الرزاق في المصنف،کتاب الجنائز، باب في زيارة القبور، 3 / 574، الرقم : 6717.

’’حضرت اصبغ بن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیھا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتی تھیں۔ آپ نے اُس کی پہچان کے لئے اُس کے اُوپر جھنڈا نصب کیا ہوا تھا۔ یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنھما کی قبور پر بھی چھوٹے پتھروں کی نشانیاں رکھی گئی تھیں۔‘‘
اِسے امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے
۔
عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَينِ عَنْ أبِيه أنَّ فَاطِمَة بِنْتَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَتْ تَزُوْرُ قَبْرَ عَمِّها حَمْزَة کُلَّ جُمُعَة فَتُصَلِّي وَتَبْکِي عِنْدَه. رَوَاه الْحَاکِمُ وَالْبَيهقِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا الْحَدِيثُ رُوَاتُه عَنْ آخِرِهمْ ثِقَاتٌ.
أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 533، الرقم : 1396، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 78، الرقم : 7000، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 137.

’’حضرت علی بن حسین اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیھا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتی تھیں آپ وہاں دعا کرتیں اور گریہ و زاری کرتی تھیں۔‘‘
اِسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اِس حدیث کے راوی ثقہ ہیں
۔
عَنْ أبِي هرَيرَة رضي الله عنه أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُوْرِ.
رَوَاه التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضي اﷲ عنهما. وَقَالَ : هذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَأي بَعْضُ أهلِ الْعِلْمِ أنَّ هذَا کَانَ قَبْلَ أنْ يرَخِّصَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي زِيارَة الْقُبُوْرِ فَلَمَّا رَخَّصَ دَخَلَ فِي رُخْصَتِه الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَقَالَ بَعْضُهمْ : إِنَّمَا کُرِه زِيارَة الْقُبُورِ لِلنِّسَاءِ لِقِلَّة صَبْرِهنَّ وَکَثْرَة جَزَعِهنَّ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في کراهية زيارة القبور النساء، 3 / 371، الرقم : 1056، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 337، الرقم : 8430، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 569، الرقم : 6704، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 42، الرقم : 3591.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کثرت سے) قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی
۔‘‘
اسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا : اس باب میں حضرت ابنِ عباس اور حسان بن ثابت رضی اﷲ عنھما سے بھی روایات مذکور ہیں۔ وہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے
۔
بعض علماء کے نزدیک یہ حکم اس وقت تھا جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتِ قبور کی اجازت نہیں دی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت فرما دی تو یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں : عورتوں کی زیارتِ قبور کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ ان میں صبر کم اور رونا دھونا زیادہ ہوتا ہے
۔
شارحِ بخاری حافظ ابنِ حجر عسقلانی (م 852ھ) نے شرح صحیح بخاری میں حدیثِ ترمذی کا ذکر کر کے لکھا ہے :
قال القرطبي : هذا اللّعن إنّما هو للمکثرات من الزيارة لما تقتضيه الصفة من المبالغة، ولعلّ السبب ما يفضي إليه ذلک من تضييع حق الزوج، والتبرج، وما ينشأ منهن من الصّياح ونحو ذلک. فقد يقال : إذا أمن جميع ذلک فلا مانع من الإذن، لأن تذکر الموت يحتاج إليه الرّجال والنّساء.
أخرجه ابن حجر عسقلاني في فتح الباري، 3 / 149

’’قرطبی نے کہا یہ لعنت کثرت سے زیارت کرنے والیوں کے لئے ہے جیسا کہ صفت مبالغہ کا تقاضا ہے (یعنی زَوَّارات مبالغہ کا صیغہ ہے جس میں کثرت سے زیارت کرنے کا معنی پایا جاتا ہے) اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ (بار بار) قبروں پر جانے سے شوہر کے حق کا ضیاع، زینت کا اظہار اور بوقتِ زیارت چیخ و پکار اور اس طرح کے دیگر ناپسندیدہ اُمور کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ پس اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جب ان تمام ناپسندیدہ اُمور سے اجتناب ہو جائے تو پھر رخصت میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مرد اور عورتیں دونوں موت کی یاد کی محتاج ہیں۔‘‘

اسی بات کو شارحِ ترمذی علامہ عبد الرحمان مبارکپوری (م 1353ھ) نے تحفۃ الاخوذی (4 : 136) میں نقل کیا ہے۔

تمام شارحینِ حدیث اور فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ حصولِ عبرت اور تذکیرِ آخرت کے لئے زیارتِ قبور میں عموم ہے یعنی جس طرح ممانعت عام تھی اسی طرح جب رخصت ملی تو وہ بھی عام ہے۔ البتہ عورتیں چونکہ بے صبر ہوتی ہیں اگر اپنے کسی قریبی عزیز کی قبر پر جاکر اس طرح نوحہ کریں جس سے شریعت نے منع کیا ہے یا قبرستان میں ان کا جانا باعثِ فتنہ اور بے پردگی و بے حیائی کا باعث ہو، محرم ساتھ نہ ہو یا ایسا اجتماع ہو جہاں اختلاطِ مرد و زن ہو تو اس صورت میں عورتوں کا زیارتِ قبور کے لئے جانا بلا شبہ ممنوع ہے۔ اور اگر محرم کے ساتھ باپردہ قبرستان جائے اور وہاں جاکر دعا کرے، تذکیرِ آخرت سامنے ہو تو پھر رخصت ہے۔ جمہور احناف کے نزدیک رخصتِ زیارت مرد و زن دونوں کے لئے ہے
۔
1۔ علامہ ابنِ نجیم حنفی (926۔970ھ) لکھتے ہیں :
وقيل تحرم علي النساء، والأصح أن الرخصة ثابته لهما.
ابن نجيم، البحر الرائق، 2 / 210
’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیارتِ قبر عورتوں کے لئے حرام ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ زیارتِ قبور کی اجازت مرد و زن دونوں کے لئے یکساں ہے
۔‘‘
2۔ علامہ ابنِ عابدین شامی حنفی نے لکھا ہے :
أمّا علي الأصحّ من مذهبنا وهو قول الکرخي وغيره، من أن الرخصة في زيارة القبور ثابتة للرّجال والنّساء جميعًا، فلا إشکال.
ابن عابدين، رد المحتار علي الدر المختار، 2 / 626
’’احناف کے نزدیک صحیح قول امام کرخی وغیرہ کا ہے وہ یہ کہ زیارتِ قبور کی اجازت مردو و زن دونوں کے لئے ثابت ہے جس میں کوئی اشکال نہیں۔‘‘
3۔ علامہ شرنبلالی (م 1069ھ) لکھتے ہیں :
نُدِبَ زِيارَتُها لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ عَلَي الْأصَحِّ.
شرنبلالي، نور الإيضاح، فصل في زيارة القبور

’’صحیح روایت کے مطابق زیارتِ قبور مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں طور پر مستحب ہے۔‘‘

4۔ علامہ طحطاوی (م 1231ھ) مراقی الفلاح کی شرح میں لکھتے ہیں :

وفي السراج : وأمّا النّساء إذا أردن زيارة القبور إن کان ذالک لتجديد الحزن، والبکاء، والندب کما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه يحمل الحديث الصحيح ’’لعن اﷲ زائرات القبور‘‘. وإن کان للاعتبار، والتّرحّم، والتّبرّک بزيارة قبور الصّالحين من غير ما يخالف الشّرع فلا بأس به، إذا کنّ عجائز. وکره ذالک للشّابات، کحضورهن في المساجد للجماعات. وحاصله أن محل الرخص لهن إذا کانت الزيارة علي وجه ليس فيه فتنة. والأصحّ أن الرّخصة ثابتة للرّجال والنّساء لأن السّيدة فاطمة رضي اﷲ عنها کانت تزور قبر حمزة کل جمعة وکانت عائشة رضي اﷲ عنها تزور قبر أخيها عبد الرحمٰن بمکة، کذا ذکره البدر العيني في شرح البخاري.
طحطاوي، حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح / 340. 341
’’سراج میں لکھا ہے

 : عورتیں جب زیارتِ قبور کا ارادہ کریں تو اس سے ان کا مقصد اگر آہ و بکا کرنا ہو جیسا کہ عورتوں کی عادت ہوتی ہے تو اس صورت میں ان کے لئے زیارت کے لئے جانا جائز نہیں اور ایسی صورت پر اس صحیح حدیث مبارکہ کہ اﷲ تعالیٰ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرماتا ہے، کا اطلاق ہوگا اور اگر زیارت سے اُن کا مقصد عبرت و نصیحت حاصل کرنا اور قبورِ صالحین سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی طلب اور حصولِ برکت ہو جس سے شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو تو اس صورت میں زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ خواتین بوڑھی ہوں، نوجوان عورتوں کا (بے پردہ) زیارت کے لئے جانا مکروہ ہے جیسا کہ ان کا مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز کے لئے آنا مکروہ ہے۔

 حاصل کلام یہ ہے کہ عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کی رخصت تب ہے جب اس طریقے سے زیارت قبور کو جائیں کہ جس میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور صحیح بات یہ ہے کہ زیارتِ قبور کی رخصت مرد و زن دونوں کے لئے ثابت ہے کیونکہ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی) سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اپنے بھائی حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی مکہ میں زیارت کرتی تھیں۔ یہی بات علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے شرح صحیح بخاری (عمدۃ القاری) میں لکھی ہے
۔‘‘
عَنْ حَسَّانِ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه قَالَ : لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم زَوَّارَاتِ الْقُبُوْرِ.
رَوَاه الْحَاکِمُ وَقَالَ : وَهذِه الأحَادِيثُ الْمَرْوِية فِي النَّهيِ عَنْ زِيارَة الْقُبُوْرِ مَنْسُوْخَة وَالنَّاسِخُ لَها حَدِيثُ عَلْقَمَة بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيمَانَ بْنِ بُرَيدَة عَنْ أبِيه عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : قَدْ کُنْتُ نَهيتُکُمْ عَنْ زِيارَة الْقُبُوْرِ، ألَا فَزُوْرُوْها فقد أذن اﷲ تعالٰي لنبيه صلي الله عليه وآله وسلم في زيارة قبر أمه وهذا الحديث مخرج في الکتابين الصحيحين للشيخين رضي اﷲ عنهما.
قال ابن القدامة : اختلف الرواية عن أحمد في زيارة النساء القبور : فروي عنه کراهتها لما روت أم عطية قالت : نهينا عن زيارة القبور ولم يعزم علينا. رواه مسلم.
ابن قدامة، المغني، 2 / 226
’’ابن قدامہ بیان کرتے ہیں

: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کے حوالے سے دو مختلف روایتیں مروی ہیں ان میں سے ایک کراہت کے بارے میں ہے کہ حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں قبروں کی زیارت سے منع فرمایا لیکن ہم پر سختی نہیں کی۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
والرواية الثانية : لا يکره، لعموم قوله عليه السلام : کنت نهيتکم عن زيارة القبور، فزوروها. وهذا يدلّ علي سبق النهي ونسخه، فيدخل في عمومه الرّجال والنّساء.
ابن قدامة، المغني، 2 / 326
’’دوسری روایت یہ ہے

 کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا اب ان کی زیارت کیا کرو یہ حکم ممانعت ختم ہونے اور منسوخ ہونے پر دلالت کرتا ہے پس اس عموم میں مرد و زَن دونوں شامل ہوگئے۔‘‘

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری