Pages

Tuesday, May 24, 2011

!!!! بد دعا

بد دعا چند الفاظ سے بنا ایک چھوٹا سا لفظ ہے ، جو زبان سے بڑی آسانی کے ساتھ ادا ہوجاتا ہے ، لیکن اس کے اثرات انتہائی دور رس ہوتے ہیں ، اس کے اثر سے آبادیاں ویرانوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، دولت وثروت کے جھولوںمیں جھولتے ہوئے خاندان فقیری و محتاجی کی چکی میں پس کر سرکوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں ، تندرست اور توانا خوب صورت جسم بیماریوں کا شکار ہوکر ہڈیوں کا پنجر بن جاتےہیں ،اور حکومت و اقتدار کی سرمستیوں سے جھومتے ہوئے سر ذلت ورسوائیوں کے عمیق غاروں میں گر کر اہل دنیا کے لئے عبرت وموعظت کا نشان بن جاتے ہیں ۔

 اسی لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا

 مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اﷲ تعالی کے درمےان کوئی پردہ نہیں ہے ۔( متفق علیہ


مظلوم کے دل کا ہر نالہ تاثیر میں ڈوبا ہوتا ہے

ظالم کو کوئی جاکر دے خبر ، انجام ستم کیا ہوتا ہے

جب ظلم گذرتا ہے حد سے، قدرت کو جلال آجاتا ہے

فرعون کا سر جب اٹھتا ہے ،موسٰی کوئی پیدا ہوتا ہے

روئے زمین کی پہلی بد دعا



سب سے پہلی وہ بد دعا جس کے ہمہ گیر اثرات روئے زمین پر ظاہر ہوئے ، اﷲ تعالیٰ کے سب سے پہلے رسول سیدنا نوح کی بد دعا تھی ، آپ ابو البشر ثانی ہیں ، اس عظیم ہستی نے ساڑھے نو سو سال کی طویل عمر پائی ، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو سرزمین عراق کے دو مشہور ومعروف دریاو ں ، دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں ( جسے جزیرہ کہا جاتا ہے ) آباد قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تھا ، آپ ساری زندگی اﷲ تعالیٰ کی توحید اور اس کی خالص عبادت کی دعوت دیتے رہے ، اس بھر پور زندگی میں راہ حق میں نہ کبھی تھکاوٹ محسوس کی اور نہ اکتاہٹ ، دن اور رات چھپ چھپ کر ، اور علی الاعلان ہر طرح دعوت حق دیتے رہے ، جیسا کہ ارشاد قرآنی ہے
 :
نوح نے کہا : میرے پروردگار !بولا اے رب میں بلاتا رہا اپنی قوم کو رات اور دن
پھرمیرے بلانے سے اور زیادہ بھاگنے لگے
اور میں نے جب کبھی اُنکو بلایا تاکہ تو اُنکو بخشے ڈالنے لگے انگلیاں اپنے کانوں میں اور لپیٹنے لگے اپنے اوپر کپڑے  اور ضد کی اور غرور کیا بڑا غرور
پھر میں نے اُنکو بلایا بر ملا
پھر میں نے اُنکو کھول کر کہا اور چھپ کر کہا چپکے سے(نوح :۵۔۹)

لیکن قوم نے آپ کا مذاق اڑایا اور نہایت ہی بے باکی سے اﷲ کے عذاب کا مطالبہ کیا
:
” ان کی قوم نے کہا : اے نوح ! تم ہم سے ہمیشہ ہی جھگڑتے رہے ہو ، اور تم نے جھگڑنے کی حد کردی ہے ، اگر تم سچے ہو تو تم جس عذاب کا تم ہم سے وعدہ کرتے رہے ہو اب اسے لے ہی آو ،،۔( ھود : ۲۳)

ساڑھے نو سو سال کی کاوشوں اور شب وروز دعوتی تگ وتاز کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک نہایت ہی قلیل لوگ ، جن کی تعداد تفاسیر میں چالیس سے لے کر اسّی تک بیان ہوئی ہے، ایمان لے آئی۔اور اب ان سے زیادہ لوگوں کے ایمان لانے کی توقع بھی ختم ہوگئی
 ،
 یہاں تک کہ خود اﷲ تعالیٰ نے فرمادیا
:
” اب آپ کی قوم کا کوئی فرد ایمان نہیں لائے گا ، سوائے ان کے جو ایمان لاچکے ہیں ، آپ ان کے کرتوت پر افسوس نہ کیجئے ،،۔ ( ھود :۶۳)
جب قوم کی شرارت حد سے زیادہ بڑھ گئی ، اور ان کی طغیانیت اور سرکشی حدود پار کرگئی تو پھر آپ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اپنے قوم کے کافروں پر روئے زمین کی سب سے پہلی بد دعا کی اور اپنی بد دعا میں فرمایا
 :
” تو سر زمن پر کسی کافر کا گھر نہ رہنے دے ، اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے ، اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا ، گناہ گار اور سخت کافر ہی ہوگا ،،۔ ( نوح : ۷۲)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے ، ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں موجود تھے ، اتنے میں ابوجہل کے دماغ میں ایک شیطانی تدبیر آئی اور اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا “کون ہے جو بنی فلاں کے محلے سے ذبح شدہ اونٹوں کی اوجھڑی لائے اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جائیں تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھ دے “،قوم کا سب سے بدبخت شخص عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے اوجھڑی لا یااور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اس نے آپ کی پشت پر دونوں کندھوںکے درمیان رکھ دی ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے “میں یہ کریہہ منظر دیکھ رہاتھا لیکن اپنی بے بسی اور کمزوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ مدد نہیں کرسکتا تھا اورا بوجہل اوراس کے ہمنشین اس المناک منظر دیکھ کر قہقے مارمار کر ہنس رہے تھے ،ان کی خوشی سنبھالے نہیں جارہی تھی ،وہ ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہوکر ہنس رہے تھے اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت سجدہ میں رب رحیم سے مناجات میں مشغول تھے اور سرمبارک کو اٹھانہیں رہے تھے ،میں دوڑتا ہوا حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نورنظر لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اس کی اطلاع دی ، ادھر سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور ادھر سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا روتی ہوئی آئیں اور ان دونوں نے مل کراس اوجھڑی کو ہٹا یا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز سے فراغت کے بعد ہاتھ اٹھائے ، پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناءکی اور پھر فرمایا “اے اللہ !ابوجہل ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو اپنی پکڑ میں لے لے “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں شخص کا بھی نام لیا جو مجھے یاد نہیں رہا، ان لوگوںنے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بددعا کے یہ الفاظ سنے تو ان کی ہنسی ہوا ہوگئی ، چہروں پرخوف اتر آیا اور انہیں یقین ہوگیا کہ اب وہ کسی بھی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کی زد سے بچ نہیں سکتے
۔
 راوی حدیث کہتے ہیں “اللہ کی قسم ! جن جن کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا ان کی مسخ شدہ لاشوں کو میںنے بدر کے اندھے کنویں میں پھینکا ہو پایا “(بخاری مع الفتح )
۔
جنگ بدر کے اختتام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں کے پاس تشریف لائے جس میں کہ ان مجرمین کی لاشیں گھسیٹی گئی تھیں ، اس کی منڈیر پر کھڑے ہوکر ان میں سے ایک ایک شخص کا نام لے کر پکارا “اے ابو جہل بن ہشام!اے عتبہ بن ربیعہ !اے شیبہ بن ربیعہ !اے امیہ بن خلف ! تمہارے رب نے تم سے جس عذا ب کا وعدہ کیا تھا کیا تم نے اسے نہیں پایا ؟اور میرے رب نے مجھ سے جس فتح ونصرت کا وعدہ فرمایا تھا اسے میں نے دیکھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گویا ہوئے: “یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ایسے جسموں سے مخاطب ہیں جس میں روحیں نہیں ہیں ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! تم ان سے بہتر نہیں سن رہے ہو “حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :”کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تھوڑی دیر کے لئے زندہ کردیا تھا تا کہ وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ان باتوں کو سنیں اور ان کی حسرت ، ندامت ، ذلت ورسوائی اور روسیاہی میں مزید اضافہ ہوجائے،،۔ (بخاری )

سیدنا خبیب بن عدیرضی اللہ تعالی عنہ کی بد دعا


سیدنا خبیب بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کو بنی لحیان نے غداری کرکے مکہ والوں کے ہاتھ بیچ دیا ، ان کو حجیر بن ابی اھاب تمیمی نے خرید لیا ، اس لئے کہ آپ نے جنگ بدر میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا جو حجیرکا ماں کی جانب سے بھائی تھا ، اس نے آپ کو اپنے گھر میں قید کردیا ، تاکہ حرمت والے مہینے گذرنے کے بعد آپ کو سولی پر چڑھائے ۔ حجیر کی لونڈی سیدہ ماویہ ( جو خفیہ طور پر مسلمان ہوچکی تھیں ) کہتی ہیں : ” سیدنا خبیب بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے گھر میں قید کئے گئے تھے ، ایک دن میں نے انہیں اس حال میں دیکھا کہ ان کے ہاتھوں اور پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں انسانی سر کے برابر انگور کا خوشہ تھا ، اور اس وقت سارے عرب میں کہیں انگور کا موسم نہیں تھا ،،۔
پھر اہل مکہ نے آپ کو پھانسی دینے کے لئے مقام تنعیم پر لے گئے ، پھانسی دینے سے پہلے ان کے جسم کو تیروں اور نیزوں سے چھلنی کردیا گیا ، ایک بد بخت نے نیزے سے ان کے سینے کو چھیدتے ہوئے کہا : ” شاید اب تم یہ چاہتے ہوگے کہ تم کو چھوڑ دیا جائے اور تمہاری جگہ محمد پکڑ لئے جاتے ،،۔ آپ نے تڑپ کر جواب دیا : ” اﷲ کی قسم ! مجھے یہ بھی منظور نہیں کہ مجھے چھوڑ دیا جائے ، اور میری رہائی کے بدلے رسول اقدس کے قدم مبارک میں کانٹا بھی چھبویا جائے ،،۔ پھر آپ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا : ” یا اﷲ ! میں نے تیرے رسول کے فرامین ان تک پہنچادئے ،یہ لوگ میرے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں ، اس کی خبر تو تیرے رسول تک پہنچادے ،،۔ اس کے بعد آپ نے اپنے قتل کے لئے جمع شدہ کافروں کے حق میں بد دعا کرتے ہوئے فرمایا : ” یا اﷲ تو ان لوگوں کو اچھی طرح گن لے ، انہیں تتر بتر کرکے قتل کردے ، اور ان میں سے کسی کو بھی زندہ مت چھوڑ ،،۔یہ اتفاق تھا یا آپ کی بد دعا کا اثر
کہ آپ کے قتل میں جو بھی شریک تھا سب کے سب چند سال کے عرصے میں متفرق قتل کردئے گئے
۔
صاحب مغازی محمد بن اسحاق کہتے ہیں : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سعید بن عامر جمحی رضی اللہ تعالی عنہ کو ملک شام کے ایک علاقے کا گورنر بنا کر روانہ فرمایا ، وہاں کے لوگوں نے ان کے خلاف دربار خلافت میں یہ شکایت پہنچائی کہ سعید بن عامر مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں ، اور انہیں اس کے دورے پڑتے رہتے ہیں ، بسا اوقات جب وہ قوم میں فیصلے کر رہے ہوتے تو بے ہوش ہوجاتے ہیں ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں پیشی کے لئے لکھا ، جب وہ حاضر خدمت ہوئے تو ان سے پوچھا : یہ آپ کو کونسا مرض لاحق ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : ” ا میر المو منین ! واﷲ مجھے کوئی مرض نہیں ہے ، لیکن میں ، جس وقت سیدنا خبیب بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کو سولی پر چڑھایا جارہا تھا ، تو اس جگہ موجود تھا ، اور میں نے ان کی بد دعا کو اپنے کانوں سے سنا تھا ، بخدا ! آج بھی جب وہ نظارہ میری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے تو دل پر ایسی رقت طاری ہوجاتی ہے کہ اس کے اثر سے بے ہوش ہوجاتا ہوں ،،۔ اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر میں ان کی عزت وتوقیر میں اور اضافہ ہوگیا ۔ ( سیرت بن ہشام

سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی بددعا



سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ماموں ، سابقین اولین میں نمایاں مقام کے حامل اور وہ ساتویں شخص ہیں جنہوں نے رسول اکرم کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  کے زمانے میں آپ نے عراق فتح کیا، اور آپ نے ہی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  کے حکم پر عراق کا مشہور شہر کوفہ آباد کیا ، کوفہ کے لوگ اپنی خیانت اور بد عہدی میں ہر دور میں ممتاز رہے ہیں ، جس وقت آپ کوفہ کے گورنر تھے ، اہل کوفہ نے آپ کی شکایت دربار خلافت میں پہنچائی کہ انہیں صحیح طور پر نماز پڑھانا بھی نہیں آتا ۔

 سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  نے آپ کو طلب کیا اور فرمایا : اے ابو اسحاق ! یہ لوگ اس بات کے شاکی ہیں کہ آپ انہیں ٹھیک طور پر نماز نہیں پڑھاتے ،،۔ سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا :” اﷲ کی قسم ! میں انہیں بالکل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاتا ہوں اور اس میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا، پہلی دو رکعتوں میں لمبی قراءت کرتا ہوں اور آخری دو رکعتوں کو مختصر پڑھاتا ہوں ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  نے فرمایا :” ابو اسحاق ! مجھے آپ سے یہی امید تھی ،،۔ پھر آپ نے اس شکایت کی تحقیق کے لئے کچھ صحابہ کرام کو سیدنا سعد کے ساتھ روانہ کیا ۔ اس تحقیقی وفد نے کوفہ کی ہر مسجد کا دورہ کیا ،اور سیدنا سعد کے متعلق کے متعلق لوگوں کی رائے دریافت کی ، تمام نے آپ کے حسن عمل کی تعریف کی ، پھر یہ وفد بنو عبس کی مسجد آیا اور وہاں لوگوں سے دریافت کیا ، ان میں سے ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی ، کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا : ” اگر آپ لوگ ان کے متعلق ہماری رائے جاننا ہی چاہتے ہیں تو سن لیں کہ :” سعد میدان جنگ میں فوج کے ہمراہ نہیں چلتے ، نہ مال غنیمت ٹھیک طور پر تقسیم کرتے ہیں اور نہ ہی فیصلوں میں انصاف سے کام لیتے ہیں ،،
۔
سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اس شخص کے ان جھوٹے اتہامات کو سنا تو فرمایا : ” اﷲ کی قسم ! میں اس شخص کے حق میں تین طرح کی بد دعائیں کروں گا :” یا اﷲ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے ، صرف دکھاوے کے لئے ، یا لوگوں میں شہرت اور ناموری کے لئے کھڑا ہوا ہے ، تو تو اس کی عمر دراز کردے ، اور اس کی محتاجی کو بھی لمبی کردے ، اور اسے فتنوں اور آزمائشوں میں مبتلا کردے ،،
۔
راوی حدیث کہتے ہیں :” اس شخص نے بڑی لمبی عمر پائی ، وہ گلیوں میں لوگوں سے بھیک مانگا کرتا تھا ، اور لوگوں کے پوچھنے پر بتلاتا تھا : ” کہ میں ایک مصیبت میں مبتلا بوڑھا ہوں ، مجھے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی بد دعا نے تباہ کردیا ہے ،،۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں :میں نے اسے اس حال میں دیکھا ہے کہ کبر سنی کی وجہ سے اس کی بھوئیں آنکھوں پر آگری تھیں، ایسے عالم میں بھی وہ راستے میں آنے جانے والی لڑکیوں سے چھیڑ خانی کیا کرتا تھا ،،۔ ( متفق علیہ

سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی بد دعا



جلیل القدر صحابی ،سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے ، یہ سیدہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے شوہر اورسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  کے بہنوئی ہیں ، اور ان لوگوں میں سے ہیں جو اسلام کی آمد سے قبل ہی بت پرستی سے کنارہ کش ہوچکے تھے ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کے واقعے میں انہوں نے اپنے اسی بہنوئی اور بہن کی پٹائی کی تھی ۔ ان کے متعلق اروی بنت اوس نے ، مروان بن حکم ، حاکم مدینہ کے دربار میں یہ شکایت پہنچائی کہسیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی زمین کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے ، مروان نے آپ کو طلب کیا تو آپ نے مروان سے کہا : ” کیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو سننے کے بعد بھی اس کی زمین پر نا جائز قبضہ کرسکتا ہوں ؟ مروان نے پوچھا : ” آپ نے کونسی حدیث سنی ہے ؟ فرمایا :

میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین ظلم سے ہتھیالیتا ہے تو اس کی وجہ سے قیامت کے دن سات زمینیں طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالی جائیں گی ،،۔ مروان نے کہا : اب اس کے بعد آپ سے کوئی دلیل نہیں مانگوں گا ۔ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو بد دعا دیتے ہوئے کہا : ” یا اﷲ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے ، تو تو اسے اندھا کردے ، اور اسی کی زمین میں اسے مار دے ،،۔ راوی کہتے ہیں : وہ اس وقت تک نہیں مری جب تک کہ اندھی نہیں ہوگئی ، وہ دیواروں کو ٹٹولتی ہوئی چلتی تھی اور کہتی تھی : مجھے سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی بد دعا لگ گئی ہے ۔ وہ اپنی ہی زمین میں موجود کنویں کے پاس سے گذر رہی تھی کہ اس میں گر گئی ، اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا ۔ یہی وہ زمین تھی جس کے متعلق اس نے سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا تھا ۔ ( متفق علیہ

ہم تمام کے لئے ضروری ہے کہ بد دعا سے بچیں ، اور بالخصوص والدین کی ، کیونکہ والدین ور اساتذہ کی کیونکہ ان کی بددعا ان کے مستقبل کا بیڑہ غرق کردے گی ، والدین کی بد دعا اور اس کے اثرات کے متعلق احادیث میں کئی واقعات ذکر کئے گئے ہیں
 جن میں ایک بنو اسرائیل کے ایک مشہور عابد وزاہد حضرت جریج رحمہ اﷲ کا واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے
:
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” صرف تین گود کے بچوں نے بات کیا ( جب کہ عموما اس عمر میں بچے بات نہیں کرتے ) ایک : عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام )۔ دوسرا :جریج والا لڑکا ۔ اور جریج ایک عابد وزاہد آدمی تھا ، اس نے اپنے لئے ایک حجرہ بنا لیا اور اسی میں مصروفِ عبادت رہا کرتا تھا ایک دن اس کی والدہ اس کے پاس اس وقت آئی جب کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا ، اس نے اسے، اے جریج :کہہ کر آواز دی ۔ اس نے ( اپنے دل میں ) کہا :اے میرے رب !ایک طرف ماں ہے اور دوسری طرف نماز ( کس کا خیال کروں )پھر وہ نماز میں مشغول رہا اور وہ واپس لوٹ گئی ۔دوسرے دن پھر اس کے پاس آئی اور وہ نماز پڑھ رہا تھا ، اس نے کہا :اے جریج ! اس نے کہا : یارب ! میری ماں اور میری نماز ، پھر نماز میں مشغول ہوگیا ، ماں واپس چلی گئی تیسرے دن وہ پھر اس کے پاس آئی اور اسے، اے جریج !کہہ کر آواز دی اور وہ نماز پڑھ رہا تھا ، اس نے (دل میں ) کہا : یا رب ! میری والدہ مجھے صدا دے رہی ہے اور میں حالتِ نماز میں ہوں ( کیا کروں ؟) اس نے اپنی نماز کو جاری رکھا اس کی والدہ نے اسے ان الفاظ میں بد دعا دی :
 یا اﷲ ! اِسے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ یہ بدکار عورتوں کے چہرے نہ دیکھ لے ۔
پھر بنو اسرائیل میں جریج اور اس کے زُہد وتقوی کی شہرت عام ہوگئی ، اس دوران ایک بد کار عورت نے ،جس کا حُسن مشہور تھا ، کہا : اگر تم چاہو تو میں جریج کو فتنہ میں ڈال سکتی ہوں چنانچہ وہ جریج کے سامنے بن سنور کر آئی ، لیکن جریج نے اس پر کوئی توجہ نہ دی ، پھر وہ ایک چرواہے کے پاس آئی جو جریج کے عبادت گاہ کے آس پاس ہی رہا کرتا تھا اور اس کے ساتھ بدکاری کرکے حاملہ ہوگئی ، جب اسے لڑکا پیدا ہوا تو اس نے مشہور کردیا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے ۔
جب لوگوں نے یہ سنا تو وہ جریج کے پاس آئے ، اسے حجرے سے باہر کھینچ کر لائے اور صومعے کو گرادیا اور بُری طرح پیٹنے لگے ۔ جریج نے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟( ایسا کیوں کر رہے ہو؟)لوگوں نے کہا کہ تم نے فلاں بدکار عورت کے ساتھ برائی کی ہے اور اس کے نتیجے میں تجھ سے اسے لڑکا ہوا ہے ۔اس نے کہا : ” وہ بچہ کہاں ہے ؟جب بچہ لایا گیا تو اس نے لوگوں سے کہا اگر تم اجازت دو تو میں نماز پڑھوں ؟ اس نے نماز پڑھنے کے بعد اس بچے کے پیٹ پر ہاتھ پھےرتے ہوئے کہا :اے لڑکے ! بتا تیرا باپ کون ہے ؟ اس بچے نے جواب دیا : ” فلاں چرواہا ہے ،، ۔ یہ سنتے ہی لوگ جریج کو چُومنے اور( حصولِ برکت کےلئے )اسے چُھوتے ہوئے درخواست کرنے لگے :اگر آپ پسند کریں تو ہم آپ کے حُجرے کو سونے کا بنا دیں ؟اس نے کہا : ” نہیں ! پہلے جیسے مٹی کا تھا اسی طرح کا بنادو۔ ،،( متفق علیہ

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر اولاد بے گناہ بھی ہو تو والدین کی بد دعا انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے ، والدین کے لئے بھی ضروری ہے کہ اولاد سے کوئی گُستاخی ہوجائے تو ان کو بجائے بد دعا دینے کے ہدایت کی دعا کریں.