Pages

Saturday, August 20, 2011

شب قدر کی فضیلت

 بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم


( اِنَّا اََنزَلنَاہُ فِی لَیلَۃِ القَدرِ O وَمَا اََدرئکَ مَا لَیلَۃُ القَدرِ O لَیلَۃُ القَدرِ خَیرٌ مِّن اََلفِ شَہرٍ O تَنَزَّلُ المَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِاِذنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ اََمرٍ O سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطلَعِ الفَجرِ ) ( ہم نے قُرآن کو قدر کی رات میں اُتارا O اور تُم نہیں جانتے کہ قدر کی رات کیا ہے O قدر کی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے O اِس رات میں ہر کام کے لیے فرشتے اور رُوح ( جبرئیل علیہ السَّلام ) اپنے رب کے حُکم سے اُترتے ہیں O وہ رات فجر تک سلامتی ہے ) سُورت القدر۔


 انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اَنَّ ھذا الشَّھرَ قَد حَضرَکُم و فِیہِ لَیلَۃٌ خیرٌ مَن اَلفِ شَھرٍ مَن حَرمَھَا فَقَد حُرِمَ الخَیرَ کُلَّہُ وَ لَا یُحرَمُ اِلَّا کُلُّ مَحرُومً ) ( یہ مہینہ تمہارے پاس آ گیا ہے جِس میں قدر کی رات ہے ، جو کہ ہزار مہینوں سے زیادہ خیر والی ہے ، جو اِس سے محروم رہا وہ یقیناً ہر خیر سے محروم رہا ، اور قدر کی رات سے سوائے بد نصیب کے کوئی اور محروم نہیں ہوتا ) سُنن ابن ماجہ ، حدیث ، ١٦٤٤۔ اِمام الالبانی نے اِسے صحیح قرار دِیا ۔
 رمضان کی راتوں میں سب سے بہترین اور افضل قدر کی رات ہے ، ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مَن قَام لَیلۃ القَدر اِیماناً و اِحتساباً غُفِرَ لہُ ما تقدَّم مِن ذنبہِ ) ( جِس نے قدر کی رات اِیمان اور نیک نیتی کے ساتھ قیام کیا اُس کے سابقہ گُناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ) صحیح مُسلم، حدیث ، ٧٥٩ صحیح البُخاری ، حدیث ، ٢٠٠٩ ۔ اِمام النووی نے صحیح مسلم کی شرح میں اِس حدیث کی تشریح میں لِکھا کہ ''' اِیمان کے ساتھ کا معنیٰ ہے کہ قیام کرنے والا اِس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اِس قیام کی فضلیت حق ہے اور اِحتساب کا معنیٰ ہے کہ قیام کرنے والا قیام صِرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کےلئیے کرے نہ تو لوگوں کو دِکھانے کےلئیے کرے اور نہ ہی کِسی اور مقصد سے '''

 شبِ قدر کی نشانیاں 
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَیلَۃُ القدرِ، سمحۃٌ ، طلَقۃٌ ،لاحارۃ ٌ ولا بارِدَۃ ٌ ،تَصبحُ الشَّمسُ صَبِیحَتَھا ضَعیفَۃٌ حَمرا ءَ )( قدر کی رات نرمی والی معتدل ہے ، نہ گرم نہ ٹھنڈی ، اُس رات کی صُبح سورج کی روشنی کمزور اور سُرخی مائل ہوتی ہے ) صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ ، حدیث ، ٥٤٧٥ ۔
زر بن حُبیش سے روایت ہے کہ اُنہوں نے اُبي بن کعب رضی اللہ عنہُ کو سُنا کہ جب اُنہیں کہا گیا کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں '' جو پورا سال قیام کرے گا وہ قدر کی رات پا لے گا '' تو اُبي بن کعب رضی اللہ عنہُ نے کہا '' اللہ کی قسم جِس کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، بے شک قدر کی رات رمضان میں ہے ، اور اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کون سی رات ہے ؟جِس رات میں قیام کے لئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دِیا وہ ستائیسویں رات ہے ، اور اُس کی نشانی یہ ہے کہ اُس کی صبح میں جب سورج طلوع ہو تا ہے تو وہ سفید ہوتا ہے اور اُس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی '' صحیح مُسلم ، حدیث ، ٧٦٢ ۔
 کون سی رات قدر کی رات ہے ؟ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( التَمسُوھا فی العِشرِ الاَوخرِ مِن رمضانِ ، لَیلَۃُ القدرِ فی تَاسعۃٍ تبقیٰ ، فی سابعۃٍ تبقیٰ ، فی خامسۃٍ تبقیٰ ) ( شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے ( یعنی آخری دس دِن اور راتوں میں ) طلب کرو ، شبِ قدر نویں میں باقی رہے گی ، ساتویں میں باقی رہے گی پانچویں میں باقی رہے گی ) صحیح البُخاری / حدیث ٢٠٢١ /کتاب فضل لیلۃ القدر / باب ٣ ۔
 عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتانے کے لیے آئے ، تو مُسلمانوں میں سے دو آدمیوں نے جھگڑا کیا ( یعنی شبِ قدر کے معاملے میں جھگڑا کیا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( خَرجتُ لِاَخبرَکُم بِلیلۃِ القدرِ ، فَتَلاحیٰ فُلانٌ و فُلانٌ فَرُفِعت ، و عسٰی اَن یکوُن خیراً لکُم ، فِالتِمِسُوھا فی التاسعۃِ و السابعۃِ و الخامسِۃِ ) ( میں اِس لئیے باہر آیا تھا کہ تُم لوگوں کو شبِ قدر کے بارے میں بتاؤں لیکن فُلان اور فُلان نے جھگڑا کیا تو شبِ قدر کو اُٹھا لیا گیا ، اور اُمید ہے کہ اِس کا اُٹھا لیا جانا تُمہارے لئیے خیر ہو گا ،
پس تُم شبِ قدر کو نویں ، ساتویں اور پانچویں میں طلب کرو ) یعنی آخری عشرے کی اِن راتوں میں شبِ قدر کو ڈھو نڈو ۔
صحیح البُخاری /حدیث ٢٠٢٣ /کتاب فضل لیلۃ القدر / باب ٣ ۔
 ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَیلَۃُ القدرِ لَیلَۃُ سابعۃٍ اَو تاسعۃٍ و عَشرینَ ، اِنَّ الملائکَۃِ تلکِ الیلۃَ فی الاَرضِ اَکثرُ مِن عددِ الحَصی) ( شبِ قدر ستائیسویں یا اُنتسویں رات ہے ، بے شک اِس رات میں فرشتے زمین پر کنکریوں سے بھی زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں ) حدیث حسن ہے ، صحیح الجامع الصغیر /حدیث ٥٤٧٣ ، سلسلہ احادیث الصحیحہ/حدیث ، ٢٢٠٥۔
معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہُما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( لَیلَۃُ القدرِ لَیلَۃُ سبعٍ و عَشرینَ ) ( شبِ قدر ستائیسویں رات ہے ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ١٣٨٣ ، حدیث صحیح، صحیح الجامع الصغیر حدیث ٥٤٧٤
::::: اوپر بیان کی گئی احادیث میں ہمیں شبِ قدر کے بارے میں یہ خبریں ملتی ہیں :::::
 ( ١ ) شبِ قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے ۔
( ٢ ) شبِ قدر اُنتسویں ، ستائیسویں ، یا پچیسیوں رات ہے ۔
( ٣ ) شبِ قدر اُنتسویں یا ستائیسویں رات ہے .
 ( ٤ ) شبِ قدر ستائیسویں رات ہے ۔

شبِ قدر کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں اِمام ابن حجر العسقلانی نے فتح الباری میں عُلماء کے چھیالیس اقوال نقل کئیے ہیں ، لیکن جو بات سب سے زیادہ دُرست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ستائیسویں کی رات ہی شبِ قدر ہے ، کیونکہ اُوپر ذِکر کی گئی احادیث میں سے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی بیان کردہ حدیث میں صراحت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ قدر کو واضح فرما دِیا ہے اِسکے عِلاوہ مندرجہ ذیل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل بیان کیا گیا ہے وہ اِس خیال کو زیادہ یقین اور پُختگی دیتا ہے کہ شبِ قدر ستائیویں کی رات ہے ،
*** ابی ذرٍّ ر ضی ا للہ عنہُ کہتے ہیں ( صُمنا مع رسول اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان، فلم یُقیم بنا شیاَاً مِن الشھر حتی بقی سبعٌ فقام بنا حتی ذھب ثُلث اللیل فلما کانت السادسۃُ لم یُقم بِنا ، فلما کانت الخامسۃُ فقام بِنا حتی ذھب شطرُ الیل ، فقلتُ یا رسول اللَّہ ! لو نفَّلتنا قیامَ ھذہ اللیلۃ ، فقال( ان الرَّجل اَذا صلَّی مع الامام حتی یَنصَرِفُ حُسِبَ لہُ قیامُ لیلۃ) فلما کانت الرابعۃُ لم یَقُم ، فلما کانت الثالثۃُ جمع اھلہُ و نسائَہُ و الناسَ فقام بِنا حتی خشینا اَن یفوتنا الفلاح قال:قلتُ : ما الفلاح؟ قال السَّحُور ،ثُمّ لم یقم بِنا بقیَّۃَ الشھر ) ( رمضان میں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مہینہ ہمارے ساتھ کوئی قیام نہیں کیا ، جب سات دِن رہ گئے ( یعنی تیئسویں رات ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رات کے تیسرے حصے تک نماز پڑہائی ، جب چھ دِن رہ گئے ( یعنی چوبیسویں رات ) تو اُنہوں نے کوئی نماز نہیں پڑہائی ، جب پانچ دِن رہ گئے ( یعنی پچیسویں رات ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آدھی رات تک نماز پڑہائی ، تو میں نے کہا :: اے اللہ کے رسول آپ اِس رات کا قیام ہمارے لیئے پورا کر دیں تو اُنہوں نے فرمایا ( اگر کوئی اِمام کے ساتھ ، اِمام کے نماز پڑہنے تک نماز پڑہتا ہے تو اُس کے لیے پوری رات کے قیام کا اجر لِکھا جاتا ہے ) پھر جب چار دِن رہ گئے ( یعنی چھبیسویں رات ) تو اُنہوں نے کوئی نماز نہیں پڑہائی ، پھر جب تین دِن رہ گئے ( یعنی ستائیسویں رات ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں ، اپنی بیگمات اور لوگوں کو اکھٹا کیا اور ہمیں نماز پڑہائی ، یہاں تک کہ ہمیں یہ خوف ہونے لگا کہ ہم الفلاح حاصل نہ کر سکیں گے ، ( روای کہتے ہیں کہ میں نے ابی ذرٍّ سے پوچھا : الفلاح کیا ہے تو اُنہوں نے کہا سحری کا کھانا ) اور اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کے باقی دِن ہمیں رات میں اور کوئی نماز نہیں پڑہائی ) اِمام البانی نے '' قیام رمضان '' کے صفحہ ٢٠ کے حاشیے میں کہا '''حدیث صحیح ہے ، سنن لکھنے والوں نے اپنی کتابوں میں روایت کی ہے ، اسکی تخریج ، '' صلاۃ التراویح '' صفحہ ١٥ '' صحیح ابی داؤد '' حدیث ١٢٤٥ ، اور '' الاِروا الغلیل '' حدیث ٤٤٧ ، میں موجود ہے ۔

Wednesday, August 10, 2011

زکوٰۃ کی شرعی حیثیت

زکوٰۃ اور نماز دین کے ایسے رکن ہیں ، جن کا ہر دور میں اور ہر مذہب میں آسمانی تعلیمات کے پیروکاروں کو حکم دیا گیا ہے ۔ گویا یہ دونوں فریضے ایسے ہیں جو ہر نبی کی امت پر عائد ہوتے رہے ہیں ، تا آنکہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا خاتمہ اور دین کی تکمیل کر دی گئی ۔ چنانچہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ، ان کے صاحبزادے حضرت اسحاق پھر ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے :

(( وَاَوحَینَآ اِلَیہِم فِعلَ الخَیرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیتَآئَ الزَّکٰوۃِ وَکَانُوا لَنَا عٰبِدِینَ )) ( الانبیاء: 73/21 )

” اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعے سے نیکیوں کے کرنے کا ، نماز قائم کرنے کا اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے ۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :

(( وَکَانَ یَامُرُ اَہلَہ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِندَ رَبِّہ مَرضِیًّا )) ( مریم : 55/19 )

” وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور وہ اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھے ۔ “

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا :

(( اِنِّی عَبدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الکِتٰبَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّاo وَّجَعَلَنِی مُبٰرَکًا اَینَ مَا کُنتُ وَاَوصٰنِی بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمتُ حَیًّا )) ( مریم : 31-30/19 )

” میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور نبوت سے سرفراز کیا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں ، مجھے بابرکت بنا دیا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں ، مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت فرمائی ہے ۔

بنی اسرائیل کو جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا تھا ، ان میں یہ حکم بھی تھا :

(( وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ )) ( البقرہ : 43/2 )

” اور نماز قائم کرو اور زکوٰہ ادا کرو ۔ “

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

(( لَئِن اَقَمتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنتُم بِرُسُلِی وَعَزَّرتُمُوہُم وَاَقرَضتُمُ اللّٰہَ قَرضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنکُم سَیِّاٰتِکُم وَلَاُدخِلَنَّکُم جَنّٰتٍ تَجرِی مِن تَحتِہَا الاَنہٰرُ )) ( المائدہ : 12/5 )

” اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے اور میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہے اور ان کی مدد کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہے تو یقینا میں تمہاری برائیاں تم سے مٹا دوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں ۔

ان آیات سے واضح ہے کہ پچھلی تمام آسمانی شریعتوں میں بھی نماز اور زکوٰۃ کو ایک نہایت ممتاز اور اہم مقام و مرتبہ حاصل تھا ۔


اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت :

دین اسلام نے بھی زکوٰۃ کی اس اہمیت کو نہ صرف برقرار رکھا ، بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا اور اسے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں تیسرا رکن قرار دیا ، فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

(( بنی الاسلام علٰی خمس : شھادۃ ان لا الٰہ الا اللہ ، وان محمدا رسول اللہ ، واقام الصلاۃ والزکاۃ ، والحج ، وصومِ رمضان ) ( صحیح البخاری ، الایمان ، باب دعاوکم ایمانکم.... ، ح : 8 وصحیح مسلم ، الایمان ، باب بیان ارکان الاسلام.... ، ح : 16 )

اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں :
( 1 ) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔
( 2 ) نماز قائم کرنا ۔
( 3 ) زکوٰۃ ادا کرنا ۔
( 4 ) حج کرنا ( اگر استطاعت ہو ) اور
( 5 ) رمضان کے روزے رکھنا ۔

قرآن مجید میں عموماً جہاں بھی نماز کا ذکر یعنی اقامت صلوٰۃ کا حکم آیا ہے ، زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم بھی ساتھ ساتھ ہے ۔ دو درجن سے زیادہ مقامات پر قرآن کریم نے (( اقیموا الصلاۃ )) کے ساتھ (( واٰتوا الزکوٰۃ )) کا حکم دیا ہے ۔ قرآن مجید کے اس اسلوبِ بیان سے واضح ہے کہ دین میں جتنی اہمیت نماز کی ہے ، اتنی ہی اہمیت زکوٰۃ کی ہے ۔ ان دونوں میں بایں طور تفریق کرنے والا کہ ایک پر عمل کرے اور دوسرے پر نہ کرے ، سرے سے ان کا عامل نہیں سمجھا جائے گا ۔ بلکہ جس طرح ترک نماز انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے ، اسی طرح زکوٰۃ بھی شریعت میں اتنا اہم مقام رکھتی ہے کہ اس کی ادائیگی سے انکار ، اعراض و فرار مسلمانی کے زمرے سے نکال دینے کا باعث بن جاتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ان لوگوں سے قتال کیا ، جنہوں نے نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کر کے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( واللہ ! لا قاتلن من فرق بین الصلوٰۃ والزکاۃ )) ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب1، ح : 1400 ، وصحیح مسلم ، الایمان ، باب الامر بقتال الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ ، ح :20 )

” واللہ ! میں ان لوگوں کے خلاف ضرور جہاد کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق کریں گے ۔ “

بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی اس رائے کو تشدد پر محمول کر کے توقف کیا اور آپ کو لچک دار رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ، لیکن خلیفہ رسول نے اسے دین میں مداہنت اور نرمی کہہ کر رد کر دیا اور ان پر مسئلے کی اہمیت واضح کی ۔ تاآنکہ وہ بھی مؤقف صدیق رضی اللہ عنہ کے قائل و معترف ہوگئے ۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

(( فواللہ ! ما ھو الا ان شرح اللہ صدر ابی بکر رضی اللہ عنہ فعرفت انہ الحق )) ( حوالہ مذکور )

” اللہ کی قسم ! اصل میں اللہ نے ابوبکر کا سینہ ( جہاد کے لیے ) کھول دیا ، تو میں نے جان لیا کہ وہی ( موقف ابوبکر ) حق ہے ۔ “

اور اس طرح گویا اس امر پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہو گیا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے قولاً یا عملاً انکار ، اسلام سے خروج کا باعث ہے ۔


زکوٰۃ کے معنی : لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کے ایک معنی بڑھوتری اور اضافے کے اور دوسرے معنی پاک و صاف ہونے کے ہیں ۔ شرعی اصطلاح کے مطابق زکوٰۃ میں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بقیہ مال پاک صاف ہو جاتا ہے اور عدم ادائیگی سے اس میں غرباءو مساکین کا حق شامل رہتا ہے جس سے بقیہ مال ناپاک ہو جاتا ہے ۔ جیسے کسی جائز اور حلال چیز میں ناجائز اور حرام چیز مل جائے تو وہ جائز اور حلال چیز کو بھی حرام کر دیتی ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا :

(( ان اللہ یفرض الزکاۃ الا لیطیب ما بقی من اموالم )) ( سنن ابی داود ، الزکاۃ ، باب فی حقوق المال ، ح : 1664 )

” اللہ نے زکوٰۃ اسی لیے فرض کی ہے وہ تمہارے بقیہ مال کو پاک کر دے ۔ “

یہی بات حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر میں بیان ہوئی ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ سورہ توبہ کی آیت ( 35 ) جس میں سونا چاندی جمع کر کے رکھنے پر سخت وعید آئی ہے ، زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی ہے :

(( فلما انزلت جعلھا اللہ طھرا للاموال )) ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب ما ادی زکانہ فلیس بکنز ، ح : 1404 )

” جب وہ آیت نازل ہو گئی تو اللہ نے زکوٰۃ کو مالوں کی پاکیزگی کا ذریعہ بنا دیا ۔ “

قرآن میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے :

(( خُذ مِن اَموَالِہِم صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُم وَتُزَکِّیہِم بِہَا )) ( التوبۃ : 103/9 )

” ( اے پیغمبر ! ) ان کے مالوں سے صدقہ لے کر اس کے ذریعے سے ان کی تطہیر اور ان کا تزکیہ کر دیں ۔ “

اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ و صدقات سے انسان کو طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے ۔ طہارت کس چیز سے ؟ گناہوں سے اور اخلاق رذیلہ سے ۔ مال کی زیادہ محبت انسان کو خود غرض ، ظالم ، متکبر ، بخیل ، بددیانت وغیرہ بناتی ہے جبکہ زکوٰۃ ، مال کی شدتِ محبت کو کم کر کے اسے اعتدال پر لاتی ہے اور انسان میں رحم و کرم ، ہمدردی و اخوت ، ایثار و قربانی اور فضل و احسان کے جذبات پیدا کرتی ہے اور جب انسان اللہ کے حکم پر زکوٰۃ ادا کرتا ہے ، تو اس سے یقینا اس کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں ۔

(( اِنَّ الحَسَنٰتِ یُذہِبنَ السَّیِّاٰتِ )) ( ھود : 114/11 )

” بلاشبہ نیکیاں ، برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ “

زکوٰۃ کے دوسرے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں ۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے بظاہر تو مال میں کمی واقع ہوتی نظر آتی ہے ، لیکن حقیقت میں اس سے اضافہ ہوتا ہے ، بعض دفعہ تو ظاہری اضافہ ہی اللہ تعالیٰ فرما دیتا ہے ، ایسے لوگوں کے کاروبار میں ترقی ہو جاتی ہے ۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو مال میں معنوی برکت ضرور ہو جاتی ہے ۔ معنوی برکت کا مطلب ہے خیر و سعادت کے کاموں کی زیادہ توفیق ملنا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے نیکی کے کام خوب کرواتا ہے ، یہ اپنے تھوڑے سے مال سے مساجد و مدارس تعمیر کرتے یا ان کی تعمیر میں تعاون کرتے ہیں ، معاشرے کے نادار اور بے سہارا افراد کی کفالت اور خبرگیری کرتے ہیں ، جب کہ توفیق خیر سے محروم لوگ ، چاہے وہ کروڑ پتی اور ارب پتی ہوں ، ان سعادتوں اور فضل و احسان کی ان کرم گستریوں سے محروم ہی رہتے ہیں ۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ۔ ( صحیح مسلم ، البر ، باب استحباب العفو والتواضع ، حدیث 2588 ) اس کے مزید دلائل حسب ذیل ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :

(( یَمحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُربِی الصَّدَقٰت )) ( البقرہ : 276/2 )

” اللہ تعلیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ “

ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (( وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ )) ( الروم : 39/30 )

” اور جو تم سود پر دیتے ہو تا کہ وہ لوگوں کے مالوں میں بڑھے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو جس سے تمہارا مقصد اللہ کی رضا ہو ، تو یہی لوگ ہیں ( اپنا مال اور ثواب ) دو چند کرنے والے ۔ “

ایک اور مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :

(( مَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَہُم فِی سَبِیلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنبَتَت سَبعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَن یَّشَآئ )) ( البقرہ : 261/2 )

” ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال ، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی سی ہے جو سات بالیاں اگاتا ہے ، ہربالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے ( اس سے بھی زیادہ ) بڑھا دیتا ہے ۔ “

قرآن کریم ان تمام آیات میں انفاق فی سبیل اللہ یعنی زکوٰۃ و صدقات کو مال میں اضافے کا سبب بتلایا گیا ہے ۔ یہ اضافہ ، جیسا کہ پہلے بتلایا جا چکا ہے ، ظاہری اور حقیقی طور پر بھی ہو سکتا ہے ۔ ( جیسا کہ اس کی بہت سی مثالیں ہمارے تجربہ و مشاہدہ کا حصہ ہیں ) اور معنوی طور پر بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بھی بہت سے نمونے دیکھنے میں آتے ہیں ۔ اور قیامت کے دن اجر و ثواب کے اعتبار سے تو یہ اضافہ ہر صورت میں ہر ایک کے لیے ہی ہو گا بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ حلال مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا ہو گا ۔ جیسے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لا یتصدق احد بتمرۃ من کسب طیب ، الا اخذھا بیمینہ ، فیربیھا کما یربی احدکم فلوہ او قلوصہ ، حتی تکون مثل الجبل ، او اعظم )) ( صحیح مسلم ، الزکاۃ ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا ، ح : 1014 )

” جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے ، پھر اسے بڑھاتا ہے جیسے تمہارا آدمی اپنے بچھیرے ( گھوڑی کے بچے ) یا اونٹنی کے بچے کو پالتا ہے ، یہاں تک کہ وہ کھجور ، پہاڑ کی طرح یا اس سے بھی بڑی ہو جاتی ہے ۔ “

سونا ، چاندی اور نقدی کا نصاب : جس کے پاس سونا چاندی ہو اور وہ اس کا حق ( زکوٰۃ ) ادا نہیں کرتا ، تو قیامت کے دن انہیں چوڑی چوڑی سلاخوں یا تختوں میں تبدیل کر کے اور انہیں جہنم کی آگ میں گرم کر کے ان سے ان کے مالکوں کی پیشانیاں ، ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا اور یہ عمل صرف ایک مرتبہ ہی نہیں ہو گا ، بلکہ محشر کے پچاس ہزار سال کے برابر دن میں مسلسل یہ عمل جاری رہے گا ، جب بھی یہ تختے اور سلاخیں ٹھنڈی ہو جائیں گی ، انہیں گرم کیا جاتا اور ان سے انہیں داغا جاتا رہے گا ۔ ( صحیح مسلم ) قرآن کریم میں بھی یہ وعید ان لوگوں کے لیے بیان ہوئی ہے جو سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ۔ ( سورۃ التوبہ : 35, 34/9 )

اور ایک حدیث میں مطلق مال کا ذکر ہے کہ جسے اللہ مال سے نوازے ، پھر وہ اس میں سے زکوٰۃ ادا نہ کرے ، تو قیامت کے دن اس مال کو نہایت خطرناک زہریلے سانپ کی شکل میں بنا کر اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا ، جو اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال اور تیرا خزانہ ہوں ۔ مطلق مال میں سونے چاندی کے علاوہ ، نقدی ، سامان تجارت وغیرہ بھی آ جاتے ہیں ، جو آج کل مال کی معروف صورت ہے ، ان میں زکوٰۃ ضروری ہے ،


ان میں زکوٰۃ عائد ہونے کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں :

* ایک یہ کہ وہ نصاب کو پہنچ جائیں ۔

* دوسری یہ کہ ان پر سال گزر جائے ۔


ان کی ضروری تفصیل حسب ذیل ہے :

چاندی کا نصاب :

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( فاذا کانت لک مائتا درھم وحال علیھا الحول ، ففیھا خمسۃ دراھم )) ( سنن ابی داود ، الزکاۃ ، باب فی زکاۃ السائمۃ ، ح : 1573 )

” جب تیرے پاس دو سو درہم ہو جائیں اور ان پر سال بھی گزر جائے ، تو ان میں پانچ درہم زکوٰۃ ہیں ۔ “

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لیس فیما دون خمس اواق صدقہ ، ولیس فیما دون خمسِ دود صدقۃ ، ولیس فیما دون خمس اوسق صدقۃ )) ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب ما ادی زکاتہ فلیس بکنز ، ح : 1405 )

” پانچ اوقےے سے کم میں زکوٰۃ نہیں ۔ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق ( تین سو صاع تقریبا 20من غلے ) سے کم میں زکوٰۃ نہیں ۔ “

صحیح بخاری کی حدیث میں اوقےے کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جو چاندی کا ایک سکہ تھا ، ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا تھا ، یوں پانچ اوقےے ، دو سو درہم ہوگئے ۔ ان دونوں حدیثوں سے چاندی کا نصاب دو سو درہم ثابت ہوا ، جس کا وزن ساڑھے باون تولہ ہوا ۔ آج کل کے حساب سے 618 گرام182 ملی گرام ۔

اس میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ ( ڈھائی فیصد ) ہے ۔ یعنی دو سو درہم میں پانچ درہم ۔ آج کل کے حساب سے15 گرام ساڑھے454 ملی گرام ، ( اگر چاندی ہی زکوٰۃ میں دینی ہو ) لیکن اگر زکوٰۃ چاندی کی بجائے نقدی میں دینی ہو ، تو ساڑھے باون تولہ چاندی کی جتنی رقم بنتی ہو ( مثلا اتنی چاندی 6 روپے میں آتی ہو تو ) ڈھائی فیصد کے حساب سے6 ہزار میں ڈیڑھ سو روپے زکوٰۃ بنے گی ۔

یہ کم از کم نصاب ہے یعنی اس سے کم میں زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔ اس سے زیادہ جتنی چاندی ہو گی مذکورہ حساب سے اس کی رقم بنا کر زکوٰۃ ادا کی جائے ۔


سونے کا نصاب :

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ حدیث میں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( ولیس علیک شیءیعنی فی الذھب ، حتی تکون لک عشرون دینارا ، فاذا کانت لک عشرون دینارا وحال علیھا الحول ففیھا نصف دینار ، فما زاد فبحساب ذٰلک )) ( سنن ابی داود ، الزکاۃ ، باب فی زکاۃ السائمۃ ، ح : 1573 )


اور سونے میں تجھ پر کچھ نہیں ، جب تک کہ وہ 20دینار نہ ہوجائیں ، پس جب وہ 20 دینار ہو جائیں اور ان پر سال گزر جائے تو ان میں نصف دینار زکوٰۃ ہے ، پس جو اس سے زیادہ ہو تو اسی حساب سے زکوٰہ ہوگی ۔ “

اس روایت کی سند پر کچھ گفتگو ہے ، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر بعض محققین نے متابعات و شواہد کی بنیاد پر اسے حسن قرار دیا ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ارواءالغلیل ( 289/3 ) میں بعض احادیث و آثار اور ان کے شواہد بیان کئے ہیں ، جن سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سونے کے نصاب کے لیے مذکورہ حدیث صحیح بنیاد ہے ۔

* ایک دینار کا وزن ہے : 4/25 گرام

* 5 دینار کا وزن : 21/25 گرام


* 20 دینار کا وزن : 85 گرام

یہ سونے کا نصاب ہے ، چاہے ڈلی ہو یا زیورات کی شکل میں ۔ ( الروضۃ الندیۃ ( حاشیہ ) 472/1 بحوالہ ” الاموال فی دولۃ الخلافۃ ” عبدالقدیم زلوم )

اس میں چالیسواں حصہ ( ربع العشر ) زکوٰۃ ہے ، یعنی20 دینار میں نصف دینار ( 2 ماشہ2 رتی ، یا دو گرام 87 ملی گرام ) چالیس دینار میں ایک دینار ۔ دوسرا طریقہ زکوٰۃ نکالنے کا یہ ہے کہ جب سونا ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ ہو تو زکوٰۃ دیتے وقت فی تولہ سونے کی قیمت معلوم کر لی جائے اور جتنی رقم بنے اس میں سے ڈھائی فیصد ( فی ہزار ، 25 روپے ) کے حساب سے زکوٰۃ ادا کر دے ۔

جواہر میں زکوٰۃ نہیں :

جواہر یعنی موتی ، یاقوت ، زمرد ، الماس اور مرجان وغیرہ میں زکوٰۃ نہیں ، جیسے لوہے ، تانبا ، پیتل اور سیسہ وغیرہ میں زکوٰۃ نہیں ۔ البتہ ان کی تجارت سے جو مال حاصل ہوگا ، اس میں شرائط کے مطابق زکوٰۃ ہوگی ۔

نقدی کا نصاب :

آج کل بالعموم لوگوں کے پاس سونا چاندی کی بجائے نقدی کی صورت میں رقم ہوتی ہے ۔ اس صورت میں زکوٰۃ کس طریقے سے نکالی جائے ؟ اس کے لیے علماءنے چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا ہے اور صدیوں سے علماءکے مابین نقدی کے لیے یہی نصاب تسلیم ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس اتنی نقد رقم ایک سال تک فاضل بچت کے طور پر محفوظ رہی ہے ۔ جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہے ، تو اس کو چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالنی چاہئیے ۔ مثلاً آج کل کے حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم کم و بیش تقریباً چھ ہزار روپے بنتی ہے ، اس لیے نقدی کا نصاب چھ ہزار روپے ہوگا ۔ جس شخص کے پاس چھ ہزار روپے ایک سال فالتو پڑے رہے ہوں ، اسے چاہئیے کہ وہ اس کی زکوٰۃ ڈھائی فیصد کے حساب سے25روپے فی ہزار ( 6ہزار کے150 روپے ) زکوٰۃ نکالے ۔ اس سے زیادہ جتنی رقم ہو ، وہ ڈھائی فیصد یا 25روپے فی ہزار کے حساب سے نکالے ۔ 6 ہزار سے کم رقم والے پر زکوٰۃ عائد نہ ہوگی ۔

بعض علماءکے نزدیک رقم کی زکوٰۃ کے لیے سونے کا نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت ہے ۔ اس حساب سے نقد رقم کا نصاب 6 ہزار کی بجائے 45, 46 ہزار روپے ہوگا ۔ اس سے کم رقم پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔

رکاز ( دفینے ) میں خمس ہے :

رکاز کے معنی چھپانے کے ہیں ، انسان کو کوئی چھپا ہوا خزانہ یعنی دفینہ مل جائے ، تو جس وقت ملے ، اسی وقت اس میں سے5 فی صد زکوٰۃ نکال دے ، اس میں زکوٰۃ کی مقدار اس لیے زیادہ ہے کہ یہ بغیر محنت کے حاصل ہو جاتا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( وفی الرکاز الخمس )) ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب فی الرکاز الخمس ، ح : 1499 )

” رکاز ( دفینے ) میں پانچواں حصہ ہے ۔ “

معادن ( کانوں ) کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں ، اس لیے کانوں سے نکلنے والی چیزوں میں زکوٰۃ نہیں ۔ البتہ اس کی آمدنی پر بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور سال گزر جائے ، تو زکوٰۃ ہے ۔

دو نصابوں کو ملا کر نصاب بنانا ؟

اگر ایک شخص کے پاس سونا چاندی دونوں چیزیں ہوں ، لیکن دونوں نصاب سے کم ہوں ( یعنی سونا ساڑھے سات تولے سے کم اور چاندی ساڑھے باون تولہ سے کم ہو ) اس صورت میں اس پر زکوٰۃ عائد ہو گی یا نہیں ؟ ایسے شخص کے بارے میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے ۔

امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحہ کے خیال میں ایسے شخص کو دونوں چیزیں ملا کر اگر نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ نکالنی چاہئیے ۔ اہلحدیث علماءمیں مولانا حافظ محمد عبداللہ صاحب محدث روپڑی رحہ کی رائے بھی یہی ہے ۔ تاہم دوسرے ائمہ کے نزدیک یہ صحیح نہیں ۔ جب تک اپنے اپنے طور پر ہر چیز نصاب کو نہ پہنچ جائے ، اس میں زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔ دو مختلف چیزوں کو ملا کر نصاب بنانے کی صراحت کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔ اس لیے مختلف چیزوں کو ملا کر نصاب بنانا شرعاً صحیح نہیں ، عام علماءاہلحدیث اسی مسلک کو زیادہ صحیح اور راجح سمجھتے ہیں ۔

زیور کی زکوٰۃ :

سونا چاندی کے زیور کی زکوٰۃ میں بھی کچھ اختلاف ہے ۔ بعض علماءاس میں زکوٰۃ کی فرضیت کے قائل نہیں ، جب کہ علماءاہلحدیث کی اکثریت زیور میں زکوٰۃ کی قائل ہے اور احتیاط کے لحاظ سے بھی یہی مسلک زیادہ صحیح ہے ۔ زیور کی زکوٰۃ دونوں طریقوں سے نکالی جا سکتی ہے ۔ زیور میں سے چالیسواں حصہ سونا یا چاندی بطورِ زکوٰۃ نکال دی جائے یا چالیسویں حصے کی قیمت ادا کر دی جائے ، دونوں طرح جائز ہے ۔ تاہم کسی کے پاس اگر حد نصاب ( ساڑھے سات تولہ سونا یا چاندی ساڑھے باون تولہ ) سے کم زیور ہے ، تو اس پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔

مال تجارت کی زکوٰۃ

اموالِ زکوٰۃ کی چوتھی قسم اموالِ تجارت ہیں ۔ یعنی جو سامان بھی تجارت کے لیے ہو اس میں سے زکوٰۃ نکالی جائے ۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

(( ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یامرنا ان نخرج الصدقۃ من الذی نعد للبیع )) ( سنن ابی داود ، الزکاۃ ، باب العروض اذا کانت للتجارۃ ھل فیھا زکاۃ ؟ ح : 1562 )

” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم ہر اس سامان میں سے زکوٰۃ نکالیں ، جو تجارت کے لیے تیار کریں ۔ “

یہ روایت سنداً ضعیف ہے ، اس لیے بعض اہل علم نے سامان تجارت میں زکوٰۃ کے عائد ہونے کی نفی کی ہے ، لیکن علماءکی اکثریت نے سامان تجارت کو اموال ہی میں شمار کر کے تجارتی سامان میں بھی زکوٰۃ کا اثبات کیا ہے اور یہی بات راجح ہے ۔

چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

” ائمہ اربعہ اور ساری امت کا ( سوائے چند شاذ لوگوں کے ) اس بات پر اتفاق ہے کہ سامانِ تجارت میں زکوٰۃ واجب ہے ۔ خواہ تاجر مقیم ہوں یا مسافر ، ارزانی کے وقت سامان خرید کر نرخوں کے گراں ہونے کا انتظار کرنے والے تاجر ہوں ۔ تجارت کا مال نئے یا پرانے کپڑے ہوں ، یا کھانے پینے کا سامان ۔ ہر قسم کا غلہ ، پھل فروٹ ، سبزی ، گوشت وغیرہ ۔ مٹی ، چینی دھات وغیرہ کے برتن ہوں یا جاندار چیزیں غلام ، گھوڑے ، خچر اور گدھے وغیرہ ۔ گھر میں پلنے والی بکریاں ہوں یا جنگل میں چرنے والے ریوڑ ، غرض تجارت کے ہر قسم کے مال میں زکوٰۃ فرض ہے ۔ علاوہ ازیں شہری اموالِ تجارت بیشتر اموالِ باطنہ ہیں ، جبکہ ( مویشی ) جانوروں کی اکثریت اموالِ ظاہرہ ہیں ۔( القواعد النورانیہ الفقہیہ ، ص : 89-90 طبع مصر )

مال تجارت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ :

اموالِ تجارت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ سال بسال جتنا تجارتی مال دکان ، مکان یا گودام وغیرہ میں ہو ، اس کی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے ۔ علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو ، اس کو بھی شمار کر لیا جائے ۔ نقد رقم ، کاروبار میں لگا ہوا ( یعنی زیر گردش ) سرمایہ اور سامانِ تجارت کی تخمینی قیمت ، سب ملا کر جتنی رقم ہو ، اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے ۔

تاہم کوئی تجارتی مال اس طرح کا ہے کہ وہ اکٹھا خریدا ، پھر وہ سال یا دو سال فروخت نہیں ہوا ، تو اس مال کی زکوٰۃ اس کے فروخت ہونے پر صرف ایک سال کی ادا کی جائے گی ۔ ورنہ عام مال جو دکان میں فروخت ہونے پر صرف ایک سال کی ادا کی جائے گی ۔ ورنہ عام مال جو دکان میں فروخت ہوتا رہتا ہے اور نیا اسٹاک رہتا ہے ، وہاں چونکہ فرداً فرداً ایک ایک چیز کا حساب مشکل ہے ، اس لیے سال بعد سارے مال کی بہ حیثیت مجموعی قیمت کا اندازہ کر کے زکوٰۃ نکالی جائے ۔

اگر کوئی رقم کسی کاروبار میں منجمد ہوگئی ہو ، جیسا کہ بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے اور وہ رقم دو تین سال یا اس سے زیادہ دیر تک پھنسی رہتی ہے ، یا کسی ایسی پارٹی کے ساتھ آپ کو سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ کئی سال آپ کو رقم وصول نہیں ہوتی تو ایسی ڈوبی ہوئی رقم کی زکوٰۃ سال بہ سال دینی ضروری نہیں ۔ جب رقم وصول ہو جائے ، اس وقت ایک سال کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے ، وہ جب بھی وصول ہو ۔


اسم المقالة : زکوٰۃ کی شرعی حیثیت

تحرير المقالة: جناب حافظ صلاح الدین یوسف

Sunday, August 7, 2011

غیبت ....ایک معاشرتی ناسور

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ غیبت و چغل خوری ہمارے معاشرے میں ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے اور معاشرے کی جڑوں کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے ، معاشرے کا بیش تر حصہ بلاتفریق مردوزن کے اس بیماری و اخلاقی برائی میں مبتلا نظر آتا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ عورتوں کو موردالزام ٹھہرایا جاتا تھا کہ یہ غیبت و چغل خوری کرنے ، رائی کا پہاڑ بنانے ، بات کا بتنگڑ بنانے ، ایک کے ساتھ دس لگانے اور اپنی غیبت و چغل خوری کا ماہرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے گھروں میں فساد کروانے اور خاندانوں میں پھوٹ ڈلوانے میں یہ یدطولیٰ رکھتی تھیں ، لیکن اگر ہم اپنے گردوپیش کا بنظر غائر جائزہ لیں تو مرد حضرات بھی اس برے اور قبیح فعل میں عورتوں کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں ، ڈیروں پہ حقہ پینے کے بہانے بیٹھے ہوئے زمیندار ہوں یا گاؤں کے چوہدری کی بیٹھک پر بیٹھے ہوئے حضرات ، دوران سفر بس میں سوار خواتین و حضرات ہوں یا نماز کے بعد مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازی لوگ ، سب کے سب واضح و پوشیدہ انداز یا اشارہ و کنایہ سے غیبت و چغل خوری میں مصروف نظر آئیں گے ۔

اس خطرناک اور تباہ کن مرض میں مبتلا مردوزن جن کے نزدیک غیبت یا چغل خوری کرنا ، کسی کا راز فاش ، کرنا ، کسی کے گھریلو معاملات کو برسرِعام کرنا ، مسلمانوں کے عیوب کا پردہ فاش کرنا کوئی عیب یا گناہ نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کے یہ چلتے پھرتے ریڈیو اسٹیشن ، بظاہر انتہائی شریف اور معصوم نظر آنے والے یہ لوگ پس پردہ جن کے پیش نظر خطرناک اور مذموم مقاصد کار فرما ہوتے ہیں ۔ بظاہر ہمدردی و تعاون کی آڑ میں نہایت عیاری اور چالاکی سے کسی محفل یا مجلس مین بیٹھے مرد ہوں یا گھر میں بیٹھی ہوئی چار عورتیں ، اپنے مسلمان بھائی کا گوشت کھانے ( غیبت کرنے ) سے پہلے روایتی طور پر چند جملے ضرور کہتے نظر آئیں گے ، قسم سے ڈرلگتا ہے کہیں غیبت نہ ہو جائے ، میں یہ بات صرف تیرے ساتھ ہی کر رہا ہوں ( یا کر رہی ہوں ) غیبت و چغل خوری کرنا تو گناہ ہے ایک بات بتاتا ہوں.... تو پھر یہ لوگ ایسے ماہرانہ اور فاضلانہ انداز میں مسلمانوں کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرتے ہیں کہ سامعین بھی ان کی معلومات اور ذہانت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔ العیاذ باللہ ۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ غیبت کیا ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے کیا اضرار و مفاسد ہیں خود پڑھئے ، دوسروں کی اصلاح کیجئے تا کہ اس اخلاقی موذی مرض سے ہم محفوظ رہ سکیں ۔

غیبت کی تعریف

جرجانی کہتے ہیں ۔ کسی انسان میں پائی جانے والی کسی برائی کا اس کی عدم موجودگی میں تذکرہ کرنا غیبت ہے ۔ کفوی کہتے ہیں : کسی کی پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی گفتگو کرنا جسے وہ ناپسند کرے ۔ امام غزالی کہتے ہیں ۔ آدمی کی کسی ایسی بات کا تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے خواہ اس کا تعلق اس کی شخصیت سے ہو یا اس کی ذات سے ، دین و دنیا سے ہو یا مال و اولاد سے ، ماں باپ سے ہو یا زوجہ و خادمہ سے ، حرکات و سکنات سے ہو یا خوشی و غمی سے ، گفتگو سے ہو یا اشارہ و کنایہ سے غیبت ہی شمار ہوگی ۔

غیبت ایک ایسا مرض ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد شعوری اور غیر شعوری طور پر اس میں ملوث نظر آتی ہے ۔ بظاہر خوشنما نظر آنے والے گناہوں کے اس سراب میں کھو کر صراط مستقیم سے لوگ ایسے دور ہٹتے ہیں کہ پھر گناہ و ثواب اور جزا و سزا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے اور جب کوئی ان مبتلا حضرات کو اللہ کا خوف دلا کر اس سے منع کرتا ہے تو چالاکی و عیاری کے پردہ میں چھپا ہوا معصومیت بھرا ان کا جواب یہ ہوتا ہے ۔ لو بھائی اس میں کون سی غیبت والی بات ہے یہ عیب اس میں موجود تو ہے ، جب کہ اسی کا نام غیبت ہے ۔

معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اتدرون ما الغیبۃ صحابہ! کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے تو انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذکرک اخاک بما لیکرہ تیرا اپنے مسلمان بھائی کے متعلق ایسی بات ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے ۔
تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے جو میں ذکر کرتا ہوں تو فرمایا : اگر اس میں موجود بات کو تو کرے گا ” فقد اغتیتہ “ تو تو نے اس کی غیبت کی ، اور اگراس میں موجود نہیں ہے ” فقد بھتہ “ تو تو نے اس پر الزام لگایا ۔ ( رواہ مسلم )

فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کی حقیقت واضح ہو جانے کے بعد اب کسی کو دھوکہ میں نہیں رہنا چاہئیے اور شیطان کے جال اور خود ساختہ باطل شبھات و تاویلات سے دامن چھڑا لینا چاہئیے اسی میں ہی خیر اور عافیت ہے ۔ فھل من مدّکر....!

غیبت کا حکم

غیبت کے عظیم خطرات کے پیش نظر علماءنے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے ، اگر وہ اس سے توبہ نہیں کرتا ۔ ابن حجر الہیثمی کہتے ہیں : کہ بہت سارے صحیح اور واضح دلائل اس کے بڑا گناہ ہونے کی دلیل ہیں ۔ لیکن اس کے مفاسد میں اختلاف ہونے کی وجہ سے اس کے بڑا اور چھوٹا ہونے میں اختلاف ہے ۔ اور صاحب جوامع الکلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مال غصب کرنے اور کسی کو قتل کرنے کی قبیل میں شمار کیا ہے جو بالاجماع کبیرہ گناہ ہیں ، آپ کا فرمان ہے کہ : ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت حرام ہے ۔

اے مسلمانو

غیبت ایسی خطرناک بیماری ہے جو بندے کو ہلاکتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیتی ہے ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کو لکھا اما بعد :
فانی اوصیک بذکر اللہ ، فانہ دواء، وانھاک عن ذکر الناس فانہ داء“
میں تمہیں ذکر الٰہی کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ دوا ہے ، اور لوگوں کے ذکر ( یعنی غیبت ) سے منع کرتا ہوں کیونکہ وہ بیماری ہے ۔


عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ ایک مردہ خچر کے پاس سے گزرے ، تو انہوں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا کہ کون ہے جو اسے پیٹ بھر کر کھائے گا ؟ یہ مردار کھانا اپنے مسلم بھائی کے گوشت کھانے سے بہتر ہے ۔ مسلمان بھائیو! اگر آپ غیبت کے خطرات سے آگاہی چاہتے ہیں تو آئیے فرمودات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں غور و فکر کریں کہ کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برائی کے خطرات اور فسادات کو بیان کیا ہے ۔

ابوداؤد و ترمذی میں صحیح روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ وہ ایسی ایسی ہے

ایک دوسری روایت میں ہے کہ چھوٹے قد کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لقد قلت کلمۃ ، لو مزجت بماءالبحر لمزجتہ
تو نے ایسا کلمہ کہا ہے اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا ذائقہ بھی تبدیل ہو جائے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی نقل اتاری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں

پسند نہیں کرتا کہ میں کسی آدمی کی نقل اتاروں اور اس کے بدلے مجھے اتنا اتنا مال بھی ملے ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

ولا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضا ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکرہتموہ واتقوا اللہ ان اللہ تواب رحیم ( حجرات )

اور جاسوسی نہ کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے ، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ، تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔
تجسس سے مراد کسی کی ٹوہ میں رہنا کہ اس کا کوئی عیب یا خامی معلوم ہو جائے اور اسے معاشرے میں بدنام کیا جائے ، احادیث میں اس کی ممانعت ہے اور اسلام نے اس کو منع قرار دے کر مسلمان کی آزادی و حرمت اور داخلی و خارجی معاملات کا تحفظ کیا ہے ۔ لیکن آج کے دور میں حریت و آزادی کے دعویدار مغربی آزادی کے دلدادہ جس زور و شعور سے حریت و آزادی کا علم لیے نگر نگر اس کی دعوت دیتے پھر رہے ہیں اس سے معاشرے میں سوائے بدامنی و بے سکونی باہم رنجش و کشمکش اور نفرت و تعصب کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔

اسی طرح غیبت یہ ہے کہ کسی کی برائیوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا اگرچہ وہ اسے ناپسند کرتا ہو یہ دونوں اپنی اپنی جگہ جرم ہیں یہ آیت ہمیں یہی دعوت دیتی ہے کہ جاسوسی و غیبت حرام ہے ۔ جس طرح ایک مسلمان اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتا تو کسی کی برائی کرنا بھی ایسے ہی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں جرم مسلمانوں کی مرغوب ترین غذا بن چکے ہیں ۔ اعاذناللہ منہا ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ نے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے غیبت کی مثال اس لیے دی ہے کیونکہ مردار کھانا گندہ اور قبیح فعل ہے ۔ اسی طرح غیبت دین میں حرام ہے اور نفوس کیلئے قبیح ترین چیز ہے ۔ اور وہ شخص جو لوگوں کی غیبت کرتا ہے ، اپنے آپ کو بدترین و صف کا مستحق ٹھہراتا ہے ، اور وہ ایسے ہی ہے جیسے اپنے بھائی کا گوشت کھا رہا ہے ، پس کیا ہی یہ برا وصف ہے ۔

علی بن حسین نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ دوسرے کی غیبت کر رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا غیبت سے بچئے کہ یہ کتا ( صفت ) لوگوں کا سالن ہے ۔


 یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہئیے کہ غیبت کے نقصانات بہت بڑے ہیں جن کا سامنا غیبت خور کو دنیا و آخرت میں کرنا پڑے گا ۔
غیبت کے نقصانات

غیبت صاحب غیبت کیلئے آزمائش

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ غیبت خور اس برے اخلاق سے متصف ہوتا ہے اور سوائے تکلیف و مشقت کے اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اپنے نفسوں کو ذکر الٰہی سے غیبت میں مصروف نہیں رکھو کیونکہ یہ آزمائش ہے ، اور ذکر الٰہی کو لازم پکڑو وہ رحمت ہے ۔

غیبت فساد دین

ہر عاقل پر دینی لحاظ سے اس کے نقصانات واضح ہیں ایک تو غیبت اعلیٰ اخلاق کے منافی ہے اور دوسرا انسان کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ دین اور تقویٰ سے دور ہو جائے ۔
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم آدمی کے دین پر غیبت کے اثرات کینسر ( سرطان ) سے بھی زیادہ شدید ہیں ۔

غیبت منافی ایمان عمل

اے گروہ! جو شخص اپنی زبان سے ایمان لایا ہے ، اور ابھی تک اس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا ، لوگوں کی غیبت نہیں کرو اور نہ ہی ان کے عیوب تلاش کرو ، پس جس نے مسلمانوں کے عیوب تلاش کےے اللہ بھی اس کے عیوب ظاہر کرےگا ، اور اللہ نے جس کے عیوب کو ظاہر کر دیا وہ اپنے گھر میں ہی ذلیل و رسوا ہو جائےگا ۔ ( اپنی موت آپ مر جائے گا )
غیبت قبر میں عذاب کا سبب

قبر میں عذاب آخرت کے نقصانات میں سے ایک ہے اب کیا اس سے بھی کوئی بڑی دلیل ہو سکتی ہے.... ؟
قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عذاب قبر کی ہمیں تین قسمیں بتائی گئیں ہیں ، ایک ثلث عذاب غیبت سے ، ایک ثلث پیشاب کے چھینٹوں سے اور ایک ثلث چغل خوری سے عذاب ہوگا ۔


غیبت یوم قیامت عذاب کا سبب

یہ سب سے بدترین اور سخت جزا ہے غیبت خور کو جو بدلے میں ملے گی اور زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے لوگوں کی سزا کا قصہ ہمارے رونگٹے کھڑے کر دینے اور دلوں پر ہیبت طاری کر دینے کے لیے کافی ہے ۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 ” جب مجھے معراج کرائی گئی ، میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ، میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ تو اس نے بتایا : ھولاءالذین یاکلون لحوم الناس ، ویقعون فی اعراضھم ( احمد ابوداود صحیح البانی ) یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے تھے ۔

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک گندی اور بدبودار ہوا چلی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس ہوا کے متعلق جانتے ہو.... ؟ یہ مومنوں کی غیبت کرنے والوں کی
( غیبت کی ) بدبو ہے ۔ ( احمد ابن ابی الدینا صححہ البانی )
غیبت قیامت کے دن نیکیوں سے ہاتھ دھونے کا سبب

قیامت کا دن جو ہولناکیوں اور وحشتوں سے بھرپور دن ہوگا ، جس کا ایک دن پچاس ہزار سال کا ہوگا ، جب سورج کی شدت و حدت سے زمین تپ کر تانبا بن چکی ہوگی ، انسانیت پریشاں و ہراساں ہوگی ، حتیٰ کہ رب العزت کی مقرب ترین اور پاک باز ہستیاں انبیاءبھی خوف و پریشانی میں ہوں گے ، لوگ ” یفرالمرءمن اخیہ وامہ وابیہ “ کی کیفیت سے دوچار ہوں گے ، جہاں ” لاینفع مال و لابنون “ کا سماں ہوگا ، جب ہر فرد و بشر زبان پر نفسی نفسی کی پکار لئے اپنے اپنے گناہوں کے پسینے میں شرابور حساب و کتاب کے شروع ہونے کے انتظار میں مارے مارے پھر رہے ہوں گے ۔ جہاں انسان ایک ایک نیکی کا محتاج ہو گا تو ذرا اندازہ کریں کہ اگر آپ نے کسی کی غیبت کی ہوگی ، کسی کی عزت پامال کرنے کی کوشش کی ہوگی ، کسی کے عیوب کا پردہ چاک کیا ہوگا ۔

تو تیری زبان سے ڈسے ہوئے یہ لوگ اپنا حساب بے باک کرانے کے لیے دربار الٰہی میں آموجود ہوں گے اور تیری وجہ سے ہونے والی اپنی ذلت و رسوائی کا بدلہ مانگیں گے تو اس وقت ان کو دینے کے لیے سوائے تیری نیکیوں کے اور کوئی چیز نہیں ہو گی جس سے ان کو بدلہ دیا جا سکے اور ان مظلومین کی داد رسی کا کوئی سامان ہوسکے ، کیونکہ حقوق العباد حقدار کی معافی کے بغیر معاف نہیں ہوسکتے ۔
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اس مستعار زندگی کا بہتر استعمال کرے تا کہ اسے دنیا و آخرت میں اس کا فائدہ ہو ۔ اور اس بات کی حرص بھی ہونی چاہئیے کہ زندگانی کا ایک بھی لمحہ ایسے نہ گزرے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو ، لیکن بدقسمتی سے لوگوں کی کثیر تعداد کا مصرف وقت بلکہ محبوب ترین مشغلہ غیبت و چغل خوری کے علاوہ کوئی اور ہے ہی نہیں ، کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ اپنی تمام تر مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی مجلسوں کا رخ کرتے ہیں جن میں لوگوں کا گوشت کھایا جاتا ہے اور ان کی عزتوں کو پامال کیا جاتا ہے اگرچہ ان کو دوچار محلے چھوڑ کر ہی کیوں نہ آنا پڑے ۔

یحییٰ بن معاذ کہتے ہیں کسی بھی مسلمان و مومن کیلئے ہر مسلمان کو اپنے اندر تین اوصاف و خوبیاں رکھنی چاہئیں ۔

1 اگر آپ اپنے بھائی کو نفع نہیں دے سکتے تو نقصان بھی نہ دیں ۔

2 اگر اسے خوشی نہیں دے سکتے تو مغموم بھی نہ کریں ۔

3 اگر اس کی تعریف نہیں کر سکتے تو مذمت بھی نہ کریں ۔


لیکن ہماری اکثریت ان اوصاف سے محروم نظر آتی ہے جن اوصاف سے متصف ہونا چاہئیے وہ تو کہیں نظر نہیں آتے   مگر دوسرے بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ ایک انتہائی اہم اور فائدہ مند نصیحت جو ایاس بن معاویہ نے سفیان بن حسین کو کی ، آئیے سفیان کی زبانی ہی سنتے ہیں ۔
 سفیان کہتے ہیں کہ ایک دن میں ایاس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، ایک آدمی گزرا تو اس کے متعلق میں نے کچھ باتیں کیں تو ایاس نے کہا اسکت خاموس ہو جا ۔ پھر مجھ سے پوچھا کیا تو نے غزوہ روم میں شرکت کی ہے.... ؟ میں نے کہا نہیں ، پھر پوچھا کیا غزوہ ترک میں.... ؟ میں نے کہا نہیں ، تو ایاس نے کہا : ” سلم منک الروم والترک ، ولم یسلم منک اخوک المسلم “ روم و ترک تو تجھ سے سلامت رہے لیکن تیرا مسلمان بھائی تجھ سے نہ بچ سکا ۔ سفیان کہتے ہیں اس دن کے بعد میں نے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی ۔ میمون بن سیاہ اگر کسی مجلس میں ہوتے نہ خود غیبت کرتے اور نہ کسی کو غیبت کرنے دیتے اگر منع کرنے پر بھی وہ نہ رکتا تو محفل سے ہی اٹھ کر چلے جاتے تھے ۔

ہمیں بھی اپنی محافل و مجالس میں غیبت سے بچناچاہئیے اور اگر کوئی کر رہا ہو تو اسے سمجھانا چاہئیے اور اپنے مسلمان بھائی و بہن کا دفاع کرنا چاہئیے کیونکہ اس میں بھی اجر و ثواب ہے ۔


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

 من ذب عن عرض اخیہ بالغیبۃ ، کان حقا علی اللہ ان یعتقہ من النار جس نے بھی اپنے بھائی کی موجودگی میں اس کی عزت کا دفاع کی ، تو اللہ کا یہ ذمہ ہو جاتا ہے کہ اسے آگ سے آزاد کرے ۔ ( احمد ، طبرانی ، صحیح ترغیب الالبانی )

Medical benefits of fasting Ramadan

Fasting Ramadan is an obedience to Allah the Almighty, Who said in His Honourable Book;

 O believers, prescribed for you is the fast, even as it was prescribed for those that were before you- haply you will be Allah fearing.” (2: 183)

( يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون )

Fasting is a prescribed duty, and a private relation between man and his Lord, which Allah has guaranteed to reward for it.  It was narrated in the Qudsi Hadith that Allah says;

Every act of the son of Adam is for him, except fasting.  It is meant (exclusively) for Me and I give reward for it.”
            In 1994, the first conference on health benefits of fasting Ramadan was held in Casablanca, Morocco.  Around 50 research papers from all over the world incorporating the health benefits



Of the health benefits of fasting Ramadan are :


  • Giving rest to the digestive system. 

  •  Ramadan is the period of rest for the digestive system, which is responsible for the metabolism process of food.  Consequently, the liver also takes rest as it is the main factory of food metabolism.  To achieve this benefit, Moslems should adhere to the tradition (sunnah) of the Prophet by abstaining from having too much food after breakfast.  The Prophet (PBUH) said;


  •  "The son-of-Adam never fills a bowl worse than his belly. Some bites are enough for man to prop his physique.  Had he wished otherwise, then one third for his food, and one third for his drink, and one third for his breath."   


  •  It is of benefit to the body that the break of fasting starts with some dates (as indicated in the Prophetic tradition).  Dates are rich in Glucose and Fructose, which have a great caloric benefit specially for the brain, and are useful in raising the level of sugar gradually in blood, thus reducing the feeling of hunger and the need for large quantities of food.


  • Moderate loss of weight.

  •   During fasting, the consumption of sugars decreases, and so does the level of sugar in blood.  This makes the body rely on providing the needed calories for metabolism by burning  sugar stored in the body.   Glycogen stored in the liver, and fats in tissues are decomposed and transferred into calories and energy needed by the body.  This results in moderate shortage of body weight.  Therefore, fasting is considered of great value for overweight persons and stable non-insulin diabetes.

  •  

  • Decrease of cholesterol level in blood.

  •   Several studies proved that cholesterol level in blood during fasting, as well as the rate of precipitating on the walls of arteries have decreased.   This in turn reduces the chances of cardiac and cerebrovascular accidents, and prevents the raise of hypertension.   Shortage of fats in blood helps reduce stones of gall and choledocus.  The Prophet (PBUH) said;


  •  Fast! You will be healthy.


  • Rest of renal system. 

  •  Some studies revealed that abstaining from drinking water for about 10-12 hours is not necessarily bad; it is rather useful in many cases.  Concentration of liquids in the body causes moderate dehydration that the body can tolerate, as there is a sufficient liquid reserve, and as long as man has no complaint of renal lithiasis, both kidneys get rest of the process of waste disposing.  The prophetic tradition mandates that Suhur (a meal before the dawn) be delayed and Fotoor (the breakfast meal) be expedited, thus reducing the time period of dehydration as much as possible.   Shortage of liquids leads in turn to moderate decrease of blood pressure that the normal man can tolerate and be of use to those complaining of hypertension.


  • Educational and psychological benefits.

  •  Fasting Ramadan is useful as it has a restraining power over the soul’s whimsies, and an urge to abandon bad habits, specially when the smoker is obliged to abstain from smoking even if for a temporary period, on the hope such abandon will be permanent.   This is also applied to drinking too much coffee and tea.  The psychological benefits are numerous.  The fasting person feels complacent, attains mental and psychological rest, refrains from all that disturbs the integrity of his fasting, and maintains the proper behaviour controls, that all reflect positively on the general community.  The Prophet said;

  • Fasting is restraining.  When anyone of you is fasting, he should refrain from obscene language or any acts of ignorance. And if anyone slanders him or quarrels with him, he should say; ‘I am fasting, I am fasting.’” 

  •  Several studies revealed that crime rate in Islamic countries decreases during Ramadan .

  • Friday, August 5, 2011

    اَسرارِ صیام

    جان لو کہ روزہ کے اندر کچھ ایسی خاص بات رکھ دی گئی ہے جو اِس کے سوا کسی اور عمل میں نہیں، اور وہ ہے اِس کو اللہ عزوجل کے ساتھ ایک خاص نسبت ہو جانا،
     جیسا کہ حدیثِ قدسی میں وارد ہوا ہے
     
     (الصوم لی و أنا أجزی بہ)
     
    عبادتِ صیام کو بس یہی شرف کافی ہے، ویسے ہی جیسے ”بیت اللہ“ کہلا کر ایک مقام کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسبت کا ایک خاص حوالہ حاصل ہو جاتا ہے۔
     
     چنانچہ فرمایا:
     
     ”وَطَہِّر بَیتِی´“ یعنی ”میرے“ گھر کو صاف ستھرا کر رکھو!
     
    روزہ کی فضیلت کے پیچھے دو خوبصورت معانی پنہاں ہیں:
     
    ایک یہ کہ یہ ایک راز ہے اور سراسر ایک باطنی عمل۔۔۔
     
    ۔ جو مخلوق کے احاطۂ نظر میں کبھی آ ہی نہ پائے۔ روزہ کے اِس معنیٰ میں ریاکا کوئی گزر نہیں۔
     
    دوسرا یہ کہ روزہ دراصل دشمنِ خدا کو مقہور کر دینا ہے۔
     
     وجہ یہ کہ دشمنِ خدا کا وہ ہتھیار جو وہ ابنِ آدم کے خلاف بے تحاشا برتتا ہے اِس کی شہواتِ نفس ہیں۔ یہ شہوات و خواہشات انسان میں جہاں سے تقویت پاتی ہیں وہ ہے اِس کے ہاں خورد ونوش کی فراوانی۔ پس جب تک خواہشات کی یہ زمین ہری بھری رہے گی تب تلک شیاطین کا اِس چراگاہ میں آنا جانا بے تحاشا رہے گا۔ اب جب خواہشات و شہوات کو ترک کرایا جائے گا تو شیاطین کی راہیں خود بخود یہاں تنگ ہونے لگیں گی۔
     
    اب ہم اختصار سے روزہ کی کچھ سنتوں کا ذکر کریں گے:
     
     
    1) سحری کی جانا بے حد پسندیدہ ہے، اور وہ بھی یہ کہ خاصی لیٹ کرکے کی جائے۔ افطار میں خوب جلدی کی جائے، اور یہ کہ کھجور سے کی جائے۔
     
    2) رمضان میں سخاوت بطورِ خاص مستحب ہے۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا۔ اچھا اور پسندیدہ بننا، دل کھول کر صدقہ کرنا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رمضان کے معمولات کی نسبت ہمیں سیرت و احادیث سے معلوم ہے۔
     
    3) رمضان میں قرآن کا طالبِ علم بننا۔ اعتکاف کی صورت خدا کے گھر میں ڈیرے ڈال دینا خصوصا رمضان کی آخری دس راتیں۔ رمضان کے آخری حصہ میں عبادت پر پورا زور صرف کردینا۔
     
    صحیحین میں عائشہ رضی اللہ تعالے عنہا کی حدیث ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ کمر بستہ ہو جاتے، رات عبادت میں گزارتے اور اہلِ خانہ کو بیدار کرتے۔
     علماءنے اِس ’کمر بستہ ہو جانے‘ کے دو معنیٰ بیان کئے ہیں: ایک یہ کہ ازدواجی تعلق سے کنارہ کشی کرلیتے، اور دوسرا یہ کہ یہ کنایہ ہے عمل میں انتہائی حد تک جت جانے کا۔

    علماءکا قول ہے کہ آپ کا آخری عشرہ میں عبادت وریاضت پر پورا زور صرف کردینا اس وجہ سے تھا کہ آپ لیلۃ القدر کو پالینے کی سعی فرماتے۔
     
    ٭٭٭٭٭٭٭
     
    اب ہم روزہ کے بعض اَسرار اور آداب کا ذکر کریں گے:
     
    روزہ کے تین مراتب ہیں:
     
     ایک عوام کا روزہ اور ایک خواص کا روزہ اور ایک خاص الخواص کا روزہ۔
     
    ’عوام‘ کا روزہ ہے: پیٹ اور شرمگاہ کو اس کی خواہش پورا کرنے سے روک رکھنا۔
     
    ’خواص‘ کا روزہ ہے: نگاہ، زبان، ہاتھ، پیر، کان، آنکھ اور سب کے سب اعضاءوجوارح کو خدا کی معصیت کے کاموں سے باز کئے رکھنا۔
     
    رہا ’خاص الخواص‘ کا روزہ، تو وہ یہ ہے
     
     کہ دل ہی ہر گھٹیا سوچ اور ارادے کے معاملہ میں روزہ دار ہو جائے۔ وہ سب افکار و خیالات جو آدمی کو خدا سے دور کریں یا خدا کی نگاہ میں آدمی کی وقعت کم کردینے والے ہوں آدمی کے ہاں متروک ہو کر رہ جائیں۔ گویا قلب کی دنیا میں آدمی خدا کے سوا دنیا ومافیہا سے روزہ رکھ لے۔ روزہ کے اِس مرتبہ کی شرح و وضاحت کسی اور مقام پر ہوگی۔
     
    رہ گیا دوسرا مرتبہ یعنی ’خواص کا روزہ‘ تو اس کے آداب میں یہ آتا ہے کہ آدمی کی نگاہ روزہ سے ہو جائے اور ہر اُس جانب سے جو خدا نے حرام ٹھہرا دی نگاہ کا رخ پھر جائے۔ زبان کو ہر اُس بات سے جو مخلوق کو اذیت دے یا خالق کے ہاں حرام یا ناپسند ہو، یا حتیٰ کہ جو لایعنی وبے فائدہ ہو۔۔۔۔ زبان کو ایسی ہر بات سے تالا لگ جائے۔ نیز یہ کہ آدمی اپنے سب کے سب اعضاءو جوراح کا پہرہ دار بن کر کھڑا ہو جائے کہ کوئی عضو بھی خدا کی معصیت کا رخ نہ کرپائے۔
     
    بخاری کی روایت میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
     
     من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجة فی أن یدع طعامہ وشرابہ
     
     ” جو شخص قولِ باطل سے اور اس پر عمل کر گزرنے سے باز نہیں رہتا، اللہ کو یہ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا ہی چھوڑ کر رہے“
     
     مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں، کیونکہ یہ ان باتوں سے تو رک گیا ہے جو روزے کے علاوہ عام حالات میں اس کیلئے بالکل جائز اور روا ہیں البتہ ان باتوں سے روزہ رکھ کر بھی رکنے کا نام نہیں لیتا جن کی کسی بھی وقت اسے اجازت نہیں، اور جو کہ اللہ کی مطلق حرام کردہ باتیں ہیں۔
     
    آدابِ صیام میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ آدمی رات کو کھانے سے پیٹ نہ بھر لے۔ رات کو بھی کھائے تو بس حساب سے۔ کیونکہ،
     جیسا کہ حدیث میں ہے،
     
     ابنِ آدم کا پیٹ وہ بدترین برتن ہے جس کو یہ کناروں تک بھر لیتا ہے۔ ابتدائے شب اگر انسان پیٹ کو کھانے سے پر کر لے تو باقی شب وہ اپنا اچھا استعمال ہرگز نہ کرپائے گا۔
     
     اسی طرح اگر وہ سحری کے وقت شکم سیر ہو جاتا ہے تو ظہر تک وہ خود کو کار آمد نہ رکھ پائے گا۔ کیونکہ بسیار خوری کاہلی اور بے ہمتی کو جنم دیتی ہے۔ نیز روزہ سے جو کوئی مقصود ہے بسیار خوری سے خود اس مقصود ومطلوب پر ہی پانی پھر جاتا ہے۔ روزہ سے مقصود تو یہ ہے کہ انسان بھوک کے تجربے سے گزرے اور ترکِ خواہش کی استعداد پائے۔
     
    ٭٭٭٭٭٭٭
     
    جان لو کہ صیامِ نفل یوں تو ہر وقت پسندیدہ ہے، مگر کچھ خاص ایامِ فضیلت میں تو بے حد پسندیدہ اور مستحب ہو جاتا ہے۔
     فضیلت کے ایام کچھ تو وہ ہیں جو ہر سال آتے ہیں، جیسے مثلاً رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے، یومِ عرفہ، یومِ عاشوراء، عشرۂ ذو الحج، اور محرم۔
     
     جبکہ کچھ ایام وہ ہیں جو ماہانہ ہیں،
    جیسے مثلاً مہینے کا یومِ اول اور یومِ وسط اور آخری یوم۔ جو ان تین دنوں کے روزے رکھے وہ خوب ہے۔
     
     البتہ افضل یہ ہے کہ مہینے کے تین دن وہ ایامِ بیض کے کرے، یعنی چاند کے جوبن کے تین ایام روزہ سے رہے۔
     
    جبکہ فضیلت کے کچھ ایام ہفتہ وار ہیں، یعنی سوموار کا روزہ اور جمعرات کا روزہ
    ۔
    صیامِ نفل میں افضل ترین صومِ داودؑ ہے: داود علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار۔ صیامِ داودعلیہ السلام  کے افضل ترین ہونے میں تین خوبصورت معانی پوشیدہ ہیں:
     
    ایک یہ کہ نفس کو ایک دن اُس کا حظ ملتا ہے اور ایک دن اُس سے عبادتِ صوم کرائی جاتی ہے۔ یعنی ایک دن اُس کو حق ملتا ہے اور ایک دن اُس سے کام لیا جاتا ہے، جو کہ عدل کی بہترین حالت ہے۔
     
    دوسرا یہ کہ کھانے کا روز روزِ شکر ہے اور اگلا روزے کا دن روزِ صبر۔ جبکہ ایمان کے دو ہی شق ہیں، ایک شکر اور ایک صبر!
     
    تیسرا یہ کہ عام مجاہدہ کی نسبت یہ نفس پر زیادہ شاق ہے۔ کیونکہ جونہی نفس ایک خاص حالت سے مانوس ہونے لگتا ہے اِسے وہاں سے پھیر کر ایک دوسری حالت میں لے آیا جاتا ہے۔ یوں نفس کا یکسانیت سے نکلنا نفس کو عبادت کے خاص معانی سے آشنا کراتا ہے۔
     
     یہی وجہ ہے کہ صومِ دہر (یعنی ہمیشہ روزے ہی رکھتے جانا) کی بابت، مسلم میں ابو قتادہ رضی اللہ تعالے عنہ سے مروی ہے،
     عمررضی اللہ تعالے عنہ  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیاتو آپ نے فرمایا:
     
     لا صام ولا أفطر، أو لم یصم ولم یفطر کہ ”نہ اُس کا روزہ اور نہ اُس کا افطار“
     
    یہ (صومِ دہر) اس حالت پر محمول ہوگا کہ آدمی لگاتار روزے رکھے اور ممنوعہ ایام تک کے روزے نہ چھوڑے۔ البتہ اگر وہ عیدین اور ایامِ تشریق میں روزہ رکھنے سے اجتناب کرتا ہے تو یہ صومِ دہر نہ ہوگا۔
     
     چنانچہ عائشہ رضی اللہ تعالے عنہا کے بارے میں آتا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالے عنہا لگاتار روزے رکھتیں۔ انس بن مالک
    رضی اللہ تعالے عنہ کہتے ہیں صحابیِ رسول ابو طلحہ رضی اللہ تعالے عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی رحلت کے بعد چالیس سال تک لگا تار روزے رکھتے رہے (ممنوعہ ایام کے ماسوا)
     
    ٭٭٭٭٭٭٭
     
    یہ بھی جان لو کہ جس آدمی کو بصیرت ملی ہو وہ روزہ سے جو مقصود ہے عین اس مقصود سے آشنا رہتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو نیکی کے کسی ایسے (نفل) کا مکلف نہیں کرتا جس کی ادائیگی کے باعث وہ اُس سے کسی افضل تر عمل کو اختیار کرنے کے معاملہ میں بے ہمت ہو رہے۔
     
    مثلاً، عبد اللہ بن مسعود
    رضی اللہ تعالے عنہ کا بکثرت روزہ رکھنے کا معمول نہ تھا۔ فرماتے:
     
     میں جب روزہ رکھتا ہوں تو نماز (کی طوالت و کثرت) پر پوری محنت نہیں کر پاتا، جبکہ میں (نفل) روزہ کی نسبت نماز (قیام وسجود) پر محنت اور ریاضت کو ترجیح دیتا ہوں۔
     
     سلف میں بعض کے ساتھ یوں ہوتا کہ بکثرت روزہ رکھیں تو قراءتِ قرآن پر محنت نہ ہو پاتی۔ چنانچہ وہ بکثرت افطار سے رہتے تاکہ تلاوت پر قدرت پائیں۔ ہر انسان ہی اپنی حالت کا بہتر اندازہ کر سکتا ہے اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ عبادت کے کون کونسے اعمال اس کے زیادہ سے زیادہ مناسبِ حال ہیں۔
    (اردو استفادہ از:
    مختصر منہاج القاصدین
    مؤلفہ امام ابنِ قدامہ الحنبلی رحمت اللہ علیہ
    کتاب الصوم وآدابہ و أسرارہ ومہماتہ وما یتعلق بہ)

    Wednesday, August 3, 2011

    رمضان المبارک کی فضیلت و اہمیت

    رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنے اندر لامحدود، ان گنت رحمتیں سموئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں اور برکتیں نازل ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ ماہ مقدس نیکیوں کی موسلادھار بارش برساتا ہے اور ہر مسلمان زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

     رمضان کا مہینہ باقی مہینوں کا سردار ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جن کی زندگی میں یہ مہینہ آیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔

     قرآن مجید میں خالق ارض وسماءنے ارشاد فرمایا ہے

     ”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دیئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاﺅ“۔


    رمضان کا لفظ ”رمضا“ سے نکلا ہے اور رمضا اس بارش کو کہتے ہیں جو کہ موسم خریف سے پہلے برس کر زمین کو گردوغبار سے پاک کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کی بارش کا ہے جس کے برسنے سے مومنوں کے گناہ دھل جاتے ہیں۔

     عربی زبان میں روزے کے لئے صوم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی رک جانا کے ہیں یعنی انسانی خواہشات اور کھانے پینے سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک رک جاتا ہے اور اپنے جسم کے تمام اعضاءکو برائیوں سے روکے رکھتا ہے۔

    انسان کائنات میں رہتے ہوئے جو کوئی بھی کام کرتا ہے اس کی غرض و غایت اور مقصد ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کی غرض و غایت اور مقصد تقویٰ کو قرار دیا ہے ایک مسلمان روزہ کی وجہ سے برائیوں کو ترک کر دیتا ہے اور نیکیوں کی طرف راغب ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔

     تقویٰ نام ہی اس چیز کا ہے کہ تمام برائیوں سے انسان نفرت کرنے لگے اور نیکیوں کی طرف لپک کر جائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالے عنہ سے کسی نے پوچھا کہ اے امیر المومنین تقویٰ کیا ہے؟ آپ رضی اللہ تعالے عنہ نے فرمایا کیا تیرا گزر کبھی خاردار جھاڑیوں سے ہوا ہے؟ تو وہاں سے کیسے گزرتا ہے؟

     عرض کی کہ اپنے دامن کو سمیٹ کر، کانٹوں سے بچ کر گزرتا ہوں کہ کہیں خاردار کانٹوں کی وجہ سے میرا جسم زخمی نہ ہو جائے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالے عنہ نے فرمایا یہی تقویٰ ہے کہ مسلمان اس دنیا میں گناہوں سے اپنے دامن کو بچا کر گزر جائے اور آخرت کا رختِ سفر باندھ لے۔

    دراصل اللہ تعالیٰ کی بخشنے والی ذات نے اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے کے لئے رمضان المبارک کا مقدس مہینہ مسلمانوں کو تحفہ عطا کیا ہے جس میں مسلمان اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اپنے رب سے طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس و مطہر اپنے بندوں کے سابقہ گناہ اپنی رحمت سے معاف کر دیتی ہے۔

     رمضان المبارک کے ماہ مقدس کے بارے میں قرآنی آیت میں سب سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ روزہ ہر مسلمان عاقل، بالغ اور آزاد پر فرض ہے اس میں مسلمان مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔

     رمضان کا مہینہ 29 یا 30 دن کا ہوتاہے مریض اور مسافر کے لئے دین اسلام نے رعایت دی ہے کہ وہ بعد میں روزے جو قضا ہوئے رکھ لے اور گنتی پوری کر لے۔

    ۲ اسی مہینے میں قرآن مجید کا نزول ہوا:﴿ شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ ﴾ (البقرة: ۲/۱۸۵)
     جس كا ايك مطلب تو بعض علماء اور مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ سب سے پہلی وحی جو غار حرا میں
     بصورت ﴿ اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴾ جبریل امین لے کر آئے، وہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے ۔

     اور دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن مجید پورا کا پورا لیلة القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتار دیا گیا، اور لیلة القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔

    ۳ ۳ اسی ماہ مبارک میں لیلة القدر ہوتی ، جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ ﴾ (سورة القدر) ’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ ہزار مہینے کے ۸۳ سال ۴ مہینے بنتے ہیں ۔ عام طور پر انسانوں کی عمریں بھی اس سے کم ہوتی ہیں۔ لیکن اس امت پر اللہ تعالیٰ کی یہ کتنی مہربانی ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اسے لیلة القدر سے نواز دیتا ہے، جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے ۸۳ سال کی عبادت سے بھی زیادہ اجر و ثواب حاصل کر سکتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
    (انہ سمع من یتق بہ۔۔۔۔خیر من الف شہر)
    (موطا امام مالک، الاعتکاف، باب ماجاء فی لیلة القدر ۳۲۱/۱ طبع مصر)

    ’’انہو ں نے بعض معتمد علماء سے یہ بات سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے پہلے لوگوں کی عمریں دکھلائی گئیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آپ کی ا مت کی عمریں ان سے کم ہیں اور اس وجہ سے وہ ان لوگوں سے عمل میں پیچھے رہ جائے گی، جن کو لمبی عمریں دی گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ازالہ اس طرح فرما دیا کہ امت محمدیہ کے لیے لیلة القدر عطا فرما دی۔‘‘

    ۴ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ فرض کیے ہیں اور روزہ رکھنا بھی نماز، زکوٰة اور حج و عمرہ کی طرح ایک نہایت اہم عبادت ہے۔ اور روزے کی فضیلت متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا:
    (إذا دخل شهر رمضان فُتحت أبواب السماء وغُلِّقت أبواب جهنم وسُلسِلت الشياطين) (صحیح البخاری، الصوم، ح:۱۸۹۸)

    ’’جب رمضان جب رمضان آتا ہے تو آسمان (اور ایک روایت میں ہے جنت) دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور (بڑے بڑے) شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
    (الصوم جنۃ یسجن بھا العبد من النار) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۷)
    ’’روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔‘‘

    ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
    (الصوم جنة من عذاب الله ) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۶)
    ’’روزہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے (بچاؤ کی ) ڈھال ہے۔‘‘

    ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا) (صحیح البخاری، الجھاد والسیر ، باب فضل الصوم فی سبیل اللہ، ح:۲۸۴۰ وصحیح مسلم، الصیام، فضل الصیام فی سبیل اللہ۔۔۔ح:۱۱۵۳)
    ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔‘‘

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (ان فی الجنة بابا یقال لہ۔۔۔۔۔۔۔۔فلم یدخل منہ احد) (صحیح البخاری، الصوم، باب الریان للصائمین، ح:۱۸۹۶ وکتاب بدء الخلق، ح: ۳۲۵۷ وصحیح مسلم، باب فضل الصیام، ح۱۱۵۲)
    ’’جنت (کے آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ’’ رَیّان‘‘ ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا، کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے، تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔‘‘

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (الصیام والقرآن یشفعان۔۔۔۔۔۔ فیشفعان) (صحیح الجامع، بحوالہ مسند احمد، طبرانی کبیر، مستدرک حاکم وشعب الایمان، ح:۳۸۸۲، ۷۲۰/۲)
    ’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (فتنة الرجل فی اھلہ ومالہ۔۔۔۔۔۔والصدقة) (صحیح البخاری، الصوم، باب الصوم کفارة، ح:۱۸۹۵ وصحیح مسلم، الایمان باب رفع الامانة والایمان من بعض القلوب۔۔۔۔ الخ، ح:۱۴۴)
    ’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘

    آزمائش کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ چیزوں کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا اور ان کا امتحان لیتا ہے۔ اولاد کی آزمائش یہ ہے کہ انسان ان کی فرط محبت کی وجہ سے غلط رویہ، یا بخل یا خیر سے اجتناب تو اختیار نہیں کرتا، یا ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی تو نہیں کرتا؟ مال کی آزمائش یہ ہے کہ انسان اس کے کمانے میں ناجائز طریقہ تو اختیار نہیں کرتا، اسی طرح اسے خرچ کرنے میں اسراف سے یا بخل سے تو کام نہیں لیتا؟ پڑوسی کی آزمائش یہ ہے کہ انسان اس کے آرام و راحت کا خیال رکھتا ہے یا نہیں، اس کے دکھ درد میں اس کا معاون اور دست و بازو بنتا ہے یا نہیں؟

    ان ذمے داریوں کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں انسان سے ہو جاتی ہیں۔ نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات ان كا كفاره بن جاتے ہیں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ (ھود:۱۱۴)’’نیکیاں برائيوں کو دور کر دیتی ہیں۔‘‘ اس حدیث و آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کو نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات اور دیگر نیکیوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ یہ نیکیاں اس کی کوتاہیوں اور گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں۔

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (للصائم فرحتان یفرحہما۔۔۔۔۔فرح بصومہ) (صحیح البخاری، الصوم، باب ھل یقول انی صائم اذا شتم، ح:۱۹۰۴، وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، ح:۱۱۵۱)
    ’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسری خوشی) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا۔‘‘

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (والذی نفس محمد بیدہ!۔۔۔۔۔۔ من ریح المسک) (صحیح البخاری، الصوم، باب ھل یقول: انی صائم اذا شتم، ح:۱۹۰۴ وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، ح:۱۱۵۱)
    ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بدلی ہوئی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘

    خُلْفَہ یا خَلُوف اس بو کو کہتے ہیں جو معدے کے خالی ہونے پر روزے دار کے منہ سے نکلتی ہے۔ یہ بو عام حالات سے مختلف اور بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی بیان فرمائی، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

    (الصیام لی وانا اجزی بہ) (صحیح البخاری، باب فضل الصوم، ح:۱۸۹۴ وصحیح مسلم، باب ورقم مذکور)
    ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔‘‘

    یعنی دیگر نیکیوں کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ ﴿الحسنة بعشر امثالھا﴾(حوالہ ہائے مذکورہ) نیکی کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گناہ تک ملے گا۔ لیکن روزے کو اللہ تعالیٰ نے اس عام ضابطے اور کلیے سے مستثنیٰ فرما دیا اور یہ فرمایا کہ قیامت والے دن اس کی وہ ایسی خصوصی جزاء عطا فرمائے گا، جس کا علم صرف اسی کو ہے اور وہ عام ضابطوں سے ہٹ کر خصوصی نوعیت کی ہوگی۔