Pages

Saturday, August 20, 2011

شب قدر کی فضیلت

 بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم


( اِنَّا اََنزَلنَاہُ فِی لَیلَۃِ القَدرِ O وَمَا اََدرئکَ مَا لَیلَۃُ القَدرِ O لَیلَۃُ القَدرِ خَیرٌ مِّن اََلفِ شَہرٍ O تَنَزَّلُ المَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِاِذنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ اََمرٍ O سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطلَعِ الفَجرِ ) ( ہم نے قُرآن کو قدر کی رات میں اُتارا O اور تُم نہیں جانتے کہ قدر کی رات کیا ہے O قدر کی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے O اِس رات میں ہر کام کے لیے فرشتے اور رُوح ( جبرئیل علیہ السَّلام ) اپنے رب کے حُکم سے اُترتے ہیں O وہ رات فجر تک سلامتی ہے ) سُورت القدر۔


 انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اَنَّ ھذا الشَّھرَ قَد حَضرَکُم و فِیہِ لَیلَۃٌ خیرٌ مَن اَلفِ شَھرٍ مَن حَرمَھَا فَقَد حُرِمَ الخَیرَ کُلَّہُ وَ لَا یُحرَمُ اِلَّا کُلُّ مَحرُومً ) ( یہ مہینہ تمہارے پاس آ گیا ہے جِس میں قدر کی رات ہے ، جو کہ ہزار مہینوں سے زیادہ خیر والی ہے ، جو اِس سے محروم رہا وہ یقیناً ہر خیر سے محروم رہا ، اور قدر کی رات سے سوائے بد نصیب کے کوئی اور محروم نہیں ہوتا ) سُنن ابن ماجہ ، حدیث ، ١٦٤٤۔ اِمام الالبانی نے اِسے صحیح قرار دِیا ۔
 رمضان کی راتوں میں سب سے بہترین اور افضل قدر کی رات ہے ، ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مَن قَام لَیلۃ القَدر اِیماناً و اِحتساباً غُفِرَ لہُ ما تقدَّم مِن ذنبہِ ) ( جِس نے قدر کی رات اِیمان اور نیک نیتی کے ساتھ قیام کیا اُس کے سابقہ گُناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ) صحیح مُسلم، حدیث ، ٧٥٩ صحیح البُخاری ، حدیث ، ٢٠٠٩ ۔ اِمام النووی نے صحیح مسلم کی شرح میں اِس حدیث کی تشریح میں لِکھا کہ ''' اِیمان کے ساتھ کا معنیٰ ہے کہ قیام کرنے والا اِس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اِس قیام کی فضلیت حق ہے اور اِحتساب کا معنیٰ ہے کہ قیام کرنے والا قیام صِرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کےلئیے کرے نہ تو لوگوں کو دِکھانے کےلئیے کرے اور نہ ہی کِسی اور مقصد سے '''

 شبِ قدر کی نشانیاں 
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَیلَۃُ القدرِ، سمحۃٌ ، طلَقۃٌ ،لاحارۃ ٌ ولا بارِدَۃ ٌ ،تَصبحُ الشَّمسُ صَبِیحَتَھا ضَعیفَۃٌ حَمرا ءَ )( قدر کی رات نرمی والی معتدل ہے ، نہ گرم نہ ٹھنڈی ، اُس رات کی صُبح سورج کی روشنی کمزور اور سُرخی مائل ہوتی ہے ) صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ ، حدیث ، ٥٤٧٥ ۔
زر بن حُبیش سے روایت ہے کہ اُنہوں نے اُبي بن کعب رضی اللہ عنہُ کو سُنا کہ جب اُنہیں کہا گیا کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں '' جو پورا سال قیام کرے گا وہ قدر کی رات پا لے گا '' تو اُبي بن کعب رضی اللہ عنہُ نے کہا '' اللہ کی قسم جِس کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، بے شک قدر کی رات رمضان میں ہے ، اور اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کون سی رات ہے ؟جِس رات میں قیام کے لئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دِیا وہ ستائیسویں رات ہے ، اور اُس کی نشانی یہ ہے کہ اُس کی صبح میں جب سورج طلوع ہو تا ہے تو وہ سفید ہوتا ہے اور اُس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی '' صحیح مُسلم ، حدیث ، ٧٦٢ ۔
 کون سی رات قدر کی رات ہے ؟ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( التَمسُوھا فی العِشرِ الاَوخرِ مِن رمضانِ ، لَیلَۃُ القدرِ فی تَاسعۃٍ تبقیٰ ، فی سابعۃٍ تبقیٰ ، فی خامسۃٍ تبقیٰ ) ( شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے ( یعنی آخری دس دِن اور راتوں میں ) طلب کرو ، شبِ قدر نویں میں باقی رہے گی ، ساتویں میں باقی رہے گی پانچویں میں باقی رہے گی ) صحیح البُخاری / حدیث ٢٠٢١ /کتاب فضل لیلۃ القدر / باب ٣ ۔
 عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتانے کے لیے آئے ، تو مُسلمانوں میں سے دو آدمیوں نے جھگڑا کیا ( یعنی شبِ قدر کے معاملے میں جھگڑا کیا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( خَرجتُ لِاَخبرَکُم بِلیلۃِ القدرِ ، فَتَلاحیٰ فُلانٌ و فُلانٌ فَرُفِعت ، و عسٰی اَن یکوُن خیراً لکُم ، فِالتِمِسُوھا فی التاسعۃِ و السابعۃِ و الخامسِۃِ ) ( میں اِس لئیے باہر آیا تھا کہ تُم لوگوں کو شبِ قدر کے بارے میں بتاؤں لیکن فُلان اور فُلان نے جھگڑا کیا تو شبِ قدر کو اُٹھا لیا گیا ، اور اُمید ہے کہ اِس کا اُٹھا لیا جانا تُمہارے لئیے خیر ہو گا ،
پس تُم شبِ قدر کو نویں ، ساتویں اور پانچویں میں طلب کرو ) یعنی آخری عشرے کی اِن راتوں میں شبِ قدر کو ڈھو نڈو ۔
صحیح البُخاری /حدیث ٢٠٢٣ /کتاب فضل لیلۃ القدر / باب ٣ ۔
 ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَیلَۃُ القدرِ لَیلَۃُ سابعۃٍ اَو تاسعۃٍ و عَشرینَ ، اِنَّ الملائکَۃِ تلکِ الیلۃَ فی الاَرضِ اَکثرُ مِن عددِ الحَصی) ( شبِ قدر ستائیسویں یا اُنتسویں رات ہے ، بے شک اِس رات میں فرشتے زمین پر کنکریوں سے بھی زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں ) حدیث حسن ہے ، صحیح الجامع الصغیر /حدیث ٥٤٧٣ ، سلسلہ احادیث الصحیحہ/حدیث ، ٢٢٠٥۔
معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہُما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( لَیلَۃُ القدرِ لَیلَۃُ سبعٍ و عَشرینَ ) ( شبِ قدر ستائیسویں رات ہے ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ١٣٨٣ ، حدیث صحیح، صحیح الجامع الصغیر حدیث ٥٤٧٤
::::: اوپر بیان کی گئی احادیث میں ہمیں شبِ قدر کے بارے میں یہ خبریں ملتی ہیں :::::
 ( ١ ) شبِ قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے ۔
( ٢ ) شبِ قدر اُنتسویں ، ستائیسویں ، یا پچیسیوں رات ہے ۔
( ٣ ) شبِ قدر اُنتسویں یا ستائیسویں رات ہے .
 ( ٤ ) شبِ قدر ستائیسویں رات ہے ۔

شبِ قدر کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں اِمام ابن حجر العسقلانی نے فتح الباری میں عُلماء کے چھیالیس اقوال نقل کئیے ہیں ، لیکن جو بات سب سے زیادہ دُرست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ستائیسویں کی رات ہی شبِ قدر ہے ، کیونکہ اُوپر ذِکر کی گئی احادیث میں سے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی بیان کردہ حدیث میں صراحت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ قدر کو واضح فرما دِیا ہے اِسکے عِلاوہ مندرجہ ذیل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل بیان کیا گیا ہے وہ اِس خیال کو زیادہ یقین اور پُختگی دیتا ہے کہ شبِ قدر ستائیویں کی رات ہے ،
*** ابی ذرٍّ ر ضی ا للہ عنہُ کہتے ہیں ( صُمنا مع رسول اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان، فلم یُقیم بنا شیاَاً مِن الشھر حتی بقی سبعٌ فقام بنا حتی ذھب ثُلث اللیل فلما کانت السادسۃُ لم یُقم بِنا ، فلما کانت الخامسۃُ فقام بِنا حتی ذھب شطرُ الیل ، فقلتُ یا رسول اللَّہ ! لو نفَّلتنا قیامَ ھذہ اللیلۃ ، فقال( ان الرَّجل اَذا صلَّی مع الامام حتی یَنصَرِفُ حُسِبَ لہُ قیامُ لیلۃ) فلما کانت الرابعۃُ لم یَقُم ، فلما کانت الثالثۃُ جمع اھلہُ و نسائَہُ و الناسَ فقام بِنا حتی خشینا اَن یفوتنا الفلاح قال:قلتُ : ما الفلاح؟ قال السَّحُور ،ثُمّ لم یقم بِنا بقیَّۃَ الشھر ) ( رمضان میں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مہینہ ہمارے ساتھ کوئی قیام نہیں کیا ، جب سات دِن رہ گئے ( یعنی تیئسویں رات ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رات کے تیسرے حصے تک نماز پڑہائی ، جب چھ دِن رہ گئے ( یعنی چوبیسویں رات ) تو اُنہوں نے کوئی نماز نہیں پڑہائی ، جب پانچ دِن رہ گئے ( یعنی پچیسویں رات ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آدھی رات تک نماز پڑہائی ، تو میں نے کہا :: اے اللہ کے رسول آپ اِس رات کا قیام ہمارے لیئے پورا کر دیں تو اُنہوں نے فرمایا ( اگر کوئی اِمام کے ساتھ ، اِمام کے نماز پڑہنے تک نماز پڑہتا ہے تو اُس کے لیے پوری رات کے قیام کا اجر لِکھا جاتا ہے ) پھر جب چار دِن رہ گئے ( یعنی چھبیسویں رات ) تو اُنہوں نے کوئی نماز نہیں پڑہائی ، پھر جب تین دِن رہ گئے ( یعنی ستائیسویں رات ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں ، اپنی بیگمات اور لوگوں کو اکھٹا کیا اور ہمیں نماز پڑہائی ، یہاں تک کہ ہمیں یہ خوف ہونے لگا کہ ہم الفلاح حاصل نہ کر سکیں گے ، ( روای کہتے ہیں کہ میں نے ابی ذرٍّ سے پوچھا : الفلاح کیا ہے تو اُنہوں نے کہا سحری کا کھانا ) اور اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کے باقی دِن ہمیں رات میں اور کوئی نماز نہیں پڑہائی ) اِمام البانی نے '' قیام رمضان '' کے صفحہ ٢٠ کے حاشیے میں کہا '''حدیث صحیح ہے ، سنن لکھنے والوں نے اپنی کتابوں میں روایت کی ہے ، اسکی تخریج ، '' صلاۃ التراویح '' صفحہ ١٥ '' صحیح ابی داؤد '' حدیث ١٢٤٥ ، اور '' الاِروا الغلیل '' حدیث ٤٤٧ ، میں موجود ہے ۔