(( وَاَوحَینَآ اِلَیہِم فِعلَ الخَیرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیتَآئَ الزَّکٰوۃِ وَکَانُوا لَنَا عٰبِدِینَ )) ( الانبیاء: 73/21 )
” اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعے سے نیکیوں کے کرنے کا ، نماز قائم کرنے کا اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے ۔ “
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :
(( وَکَانَ یَامُرُ اَہلَہ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِندَ رَبِّہ مَرضِیًّا )) ( مریم : 55/19 )
” وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور وہ اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھے ۔ “
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا :
(( اِنِّی عَبدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الکِتٰبَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّاo وَّجَعَلَنِی مُبٰرَکًا اَینَ مَا کُنتُ وَاَوصٰنِی بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمتُ حَیًّا )) ( مریم : 31-30/19 )
” میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور نبوت سے سرفراز کیا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں ، مجھے بابرکت بنا دیا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں ، مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت فرمائی ہے ۔ “
بنی اسرائیل کو جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا تھا ، ان میں یہ حکم بھی تھا :
(( وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ )) ( البقرہ : 43/2 )
” اور نماز قائم کرو اور زکوٰہ ادا کرو ۔ “
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
(( لَئِن اَقَمتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنتُم بِرُسُلِی وَعَزَّرتُمُوہُم وَاَقرَضتُمُ اللّٰہَ قَرضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنکُم سَیِّاٰتِکُم وَلَاُدخِلَنَّکُم جَنّٰتٍ تَجرِی مِن تَحتِہَا الاَنہٰرُ )) ( المائدہ : 12/5 )
” اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے اور میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہے اور ان کی مدد کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہے تو یقینا میں تمہاری برائیاں تم سے مٹا دوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ “
ان آیات سے واضح ہے کہ پچھلی تمام آسمانی شریعتوں میں بھی نماز اور زکوٰۃ کو ایک نہایت ممتاز اور اہم مقام و مرتبہ حاصل تھا ۔
اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت :
دین اسلام نے بھی زکوٰۃ کی اس اہمیت کو نہ صرف برقرار رکھا ، بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا اور اسے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں تیسرا رکن قرار دیا ، فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
(( بنی الاسلام علٰی خمس : شھادۃ ان لا الٰہ الا اللہ ، وان محمدا رسول اللہ ، واقام الصلاۃ والزکاۃ ، والحج ، وصومِ رمضان ) ( صحیح البخاری ، الایمان ، باب دعاوکم ایمانکم.... ، ح : 8 وصحیح مسلم ، الایمان ، باب بیان ارکان الاسلام.... ، ح : 16 )
اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں :
( 1 ) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔
( 2 ) نماز قائم کرنا ۔
( 3 ) زکوٰۃ ادا کرنا ۔
( 4 ) حج کرنا ( اگر استطاعت ہو ) اور
( 5 ) رمضان کے روزے رکھنا ۔
قرآن مجید میں عموماً جہاں بھی نماز کا ذکر یعنی اقامت صلوٰۃ کا حکم آیا ہے ، زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم بھی ساتھ ساتھ ہے ۔ دو درجن سے زیادہ مقامات پر قرآن کریم نے (( اقیموا الصلاۃ )) کے ساتھ (( واٰتوا الزکوٰۃ )) کا حکم دیا ہے ۔ قرآن مجید کے اس اسلوبِ بیان سے واضح ہے کہ دین میں جتنی اہمیت نماز کی ہے ، اتنی ہی اہمیت زکوٰۃ کی ہے ۔ ان دونوں میں بایں طور تفریق کرنے والا کہ ایک پر عمل کرے اور دوسرے پر نہ کرے ، سرے سے ان کا عامل نہیں سمجھا جائے گا ۔ بلکہ جس طرح ترک نماز انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے ، اسی طرح زکوٰۃ بھی شریعت میں اتنا اہم مقام رکھتی ہے کہ اس کی ادائیگی سے انکار ، اعراض و فرار مسلمانی کے زمرے سے نکال دینے کا باعث بن جاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ان لوگوں سے قتال کیا ، جنہوں نے نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کر کے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( واللہ ! لا قاتلن من فرق بین الصلوٰۃ والزکاۃ )) ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب1، ح : 1400 ، وصحیح مسلم ، الایمان ، باب الامر بقتال الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ ، ح :20 )
” واللہ ! میں ان لوگوں کے خلاف ضرور جہاد کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق کریں گے ۔ “
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی اس رائے کو تشدد پر محمول کر کے توقف کیا اور آپ کو لچک دار رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ، لیکن خلیفہ رسول نے اسے دین میں مداہنت اور نرمی کہہ کر رد کر دیا اور ان پر مسئلے کی اہمیت واضح کی ۔ تاآنکہ وہ بھی مؤقف صدیق رضی اللہ عنہ کے قائل و معترف ہوگئے ۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
(( فواللہ ! ما ھو الا ان شرح اللہ صدر ابی بکر رضی اللہ عنہ فعرفت انہ الحق )) ( حوالہ مذکور )
” اللہ کی قسم ! اصل میں اللہ نے ابوبکر کا سینہ ( جہاد کے لیے ) کھول دیا ، تو میں نے جان لیا کہ وہی ( موقف ابوبکر ) حق ہے ۔ “
اور اس طرح گویا اس امر پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہو گیا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے قولاً یا عملاً انکار ، اسلام سے خروج کا باعث ہے ۔
زکوٰۃ کے معنی : لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کے ایک معنی بڑھوتری اور اضافے کے اور دوسرے معنی پاک و صاف ہونے کے ہیں ۔ شرعی اصطلاح کے مطابق زکوٰۃ میں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بقیہ مال پاک صاف ہو جاتا ہے اور عدم ادائیگی سے اس میں غرباءو مساکین کا حق شامل رہتا ہے جس سے بقیہ مال ناپاک ہو جاتا ہے ۔ جیسے کسی جائز اور حلال چیز میں ناجائز اور حرام چیز مل جائے تو وہ جائز اور حلال چیز کو بھی حرام کر دیتی ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا :
(( ان اللہ یفرض الزکاۃ الا لیطیب ما بقی من اموالم )) ( سنن ابی داود ، الزکاۃ ، باب فی حقوق المال ، ح : 1664 )
” اللہ نے زکوٰۃ اسی لیے فرض کی ہے وہ تمہارے بقیہ مال کو پاک کر دے ۔ “
یہی بات حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر میں بیان ہوئی ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ سورہ توبہ کی آیت ( 35 ) جس میں سونا چاندی جمع کر کے رکھنے پر سخت وعید آئی ہے ، زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی ہے :
(( فلما انزلت جعلھا اللہ طھرا للاموال )) ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب ما ادی زکانہ فلیس بکنز ، ح : 1404 )
” جب وہ آیت نازل ہو گئی تو اللہ نے زکوٰۃ کو مالوں کی پاکیزگی کا ذریعہ بنا دیا ۔ “
قرآن میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے :
(( خُذ مِن اَموَالِہِم صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُم وَتُزَکِّیہِم بِہَا )) ( التوبۃ : 103/9 )
” ( اے پیغمبر ! ) ان کے مالوں سے صدقہ لے کر اس کے ذریعے سے ان کی تطہیر اور ان کا تزکیہ کر دیں ۔ “
اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ و صدقات سے انسان کو طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے ۔ طہارت کس چیز سے ؟ گناہوں سے اور اخلاق رذیلہ سے ۔ مال کی زیادہ محبت انسان کو خود غرض ، ظالم ، متکبر ، بخیل ، بددیانت وغیرہ بناتی ہے جبکہ زکوٰۃ ، مال کی شدتِ محبت کو کم کر کے اسے اعتدال پر لاتی ہے اور انسان میں رحم و کرم ، ہمدردی و اخوت ، ایثار و قربانی اور فضل و احسان کے جذبات پیدا کرتی ہے اور جب انسان اللہ کے حکم پر زکوٰۃ ادا کرتا ہے ، تو اس سے یقینا اس کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں ۔
(( اِنَّ الحَسَنٰتِ یُذہِبنَ السَّیِّاٰتِ )) ( ھود : 114/11 )
” بلاشبہ نیکیاں ، برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ “
زکوٰۃ کے دوسرے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں ۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے بظاہر تو مال میں کمی واقع ہوتی نظر آتی ہے ، لیکن حقیقت میں اس سے اضافہ ہوتا ہے ، بعض دفعہ تو ظاہری اضافہ ہی اللہ تعالیٰ فرما دیتا ہے ، ایسے لوگوں کے کاروبار میں ترقی ہو جاتی ہے ۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو مال میں معنوی برکت ضرور ہو جاتی ہے ۔ معنوی برکت کا مطلب ہے خیر و سعادت کے کاموں کی زیادہ توفیق ملنا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے نیکی کے کام خوب کرواتا ہے ، یہ اپنے تھوڑے سے مال سے مساجد و مدارس تعمیر کرتے یا ان کی تعمیر میں تعاون کرتے ہیں ، معاشرے کے نادار اور بے سہارا افراد کی کفالت اور خبرگیری کرتے ہیں ، جب کہ توفیق خیر سے محروم لوگ ، چاہے وہ کروڑ پتی اور ارب پتی ہوں ، ان سعادتوں اور فضل و احسان کی ان کرم گستریوں سے محروم ہی رہتے ہیں ۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ۔ ( صحیح مسلم ، البر ، باب استحباب العفو والتواضع ، حدیث 2588 ) اس کے مزید دلائل حسب ذیل ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
(( یَمحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُربِی الصَّدَقٰت )) ( البقرہ : 276/2 )
” اللہ تعلیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ “
ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (( وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ )) ( الروم : 39/30 )
” اور جو تم سود پر دیتے ہو تا کہ وہ لوگوں کے مالوں میں بڑھے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو جس سے تمہارا مقصد اللہ کی رضا ہو ، تو یہی لوگ ہیں ( اپنا مال اور ثواب ) دو چند کرنے والے ۔ “
ایک اور مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :
(( مَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَہُم فِی سَبِیلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنبَتَت سَبعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَن یَّشَآئ )) ( البقرہ : 261/2 )
” ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال ، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی سی ہے جو سات بالیاں اگاتا ہے ، ہربالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے ( اس سے بھی زیادہ ) بڑھا دیتا ہے ۔ “
قرآن کریم ان تمام آیات میں انفاق فی سبیل اللہ یعنی زکوٰۃ و صدقات کو مال میں اضافے کا سبب بتلایا گیا ہے ۔ یہ اضافہ ، جیسا کہ پہلے بتلایا جا چکا ہے ، ظاہری اور حقیقی طور پر بھی ہو سکتا ہے ۔ ( جیسا کہ اس کی بہت سی مثالیں ہمارے تجربہ و مشاہدہ کا حصہ ہیں ) اور معنوی طور پر بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بھی بہت سے نمونے دیکھنے میں آتے ہیں ۔ اور قیامت کے دن اجر و ثواب کے اعتبار سے تو یہ اضافہ ہر صورت میں ہر ایک کے لیے ہی ہو گا بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ حلال مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا ہو گا ۔ جیسے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لا یتصدق احد بتمرۃ من کسب طیب ، الا اخذھا بیمینہ ، فیربیھا کما یربی احدکم فلوہ او قلوصہ ، حتی تکون مثل الجبل ، او اعظم )) ( صحیح مسلم ، الزکاۃ ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا ، ح : 1014 )
” جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے ، پھر اسے بڑھاتا ہے جیسے تمہارا آدمی اپنے بچھیرے ( گھوڑی کے بچے ) یا اونٹنی کے بچے کو پالتا ہے ، یہاں تک کہ وہ کھجور ، پہاڑ کی طرح یا اس سے بھی بڑی ہو جاتی ہے ۔ “
سونا ، چاندی اور نقدی کا نصاب : جس کے پاس سونا چاندی ہو اور وہ اس کا حق ( زکوٰۃ ) ادا نہیں کرتا ، تو قیامت کے دن انہیں چوڑی چوڑی سلاخوں یا تختوں میں تبدیل کر کے اور انہیں جہنم کی آگ میں گرم کر کے ان سے ان کے مالکوں کی پیشانیاں ، ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا اور یہ عمل صرف ایک مرتبہ ہی نہیں ہو گا ، بلکہ محشر کے پچاس ہزار سال کے برابر دن میں مسلسل یہ عمل جاری رہے گا ، جب بھی یہ تختے اور سلاخیں ٹھنڈی ہو جائیں گی ، انہیں گرم کیا جاتا اور ان سے انہیں داغا جاتا رہے گا ۔ ( صحیح مسلم ) قرآن کریم میں بھی یہ وعید ان لوگوں کے لیے بیان ہوئی ہے جو سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ۔ ( سورۃ التوبہ : 35, 34/9 )
اور ایک حدیث میں مطلق مال کا ذکر ہے کہ جسے اللہ مال سے نوازے ، پھر وہ اس میں سے زکوٰۃ ادا نہ کرے ، تو قیامت کے دن اس مال کو نہایت خطرناک زہریلے سانپ کی شکل میں بنا کر اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا ، جو اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال اور تیرا خزانہ ہوں ۔ مطلق مال میں سونے چاندی کے علاوہ ، نقدی ، سامان تجارت وغیرہ بھی آ جاتے ہیں ، جو آج کل مال کی معروف صورت ہے ، ان میں زکوٰۃ ضروری ہے ،
ان میں زکوٰۃ عائد ہونے کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں :
* ایک یہ کہ وہ نصاب کو پہنچ جائیں ۔
* دوسری یہ کہ ان پر سال گزر جائے ۔
ان کی ضروری تفصیل حسب ذیل ہے :
چاندی کا نصاب :
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( فاذا کانت لک مائتا درھم وحال علیھا الحول ، ففیھا خمسۃ دراھم )) ( سنن ابی داود ، الزکاۃ ، باب فی زکاۃ السائمۃ ، ح : 1573 )
” جب تیرے پاس دو سو درہم ہو جائیں اور ان پر سال بھی گزر جائے ، تو ان میں پانچ درہم زکوٰۃ ہیں ۔ “
اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لیس فیما دون خمس اواق صدقہ ، ولیس فیما دون خمسِ دود صدقۃ ، ولیس فیما دون خمس اوسق صدقۃ )) ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب ما ادی زکاتہ فلیس بکنز ، ح : 1405 )
” پانچ اوقےے سے کم میں زکوٰۃ نہیں ۔ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق ( تین سو صاع تقریبا 20من غلے ) سے کم میں زکوٰۃ نہیں ۔ “
صحیح بخاری کی حدیث میں اوقےے کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جو چاندی کا ایک سکہ تھا ، ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا تھا ، یوں پانچ اوقےے ، دو سو درہم ہوگئے ۔ ان دونوں حدیثوں سے چاندی کا نصاب دو سو درہم ثابت ہوا ، جس کا وزن ساڑھے باون تولہ ہوا ۔ آج کل کے حساب سے 618 گرام182 ملی گرام ۔
اس میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ ( ڈھائی فیصد ) ہے ۔ یعنی دو سو درہم میں پانچ درہم ۔ آج کل کے حساب سے15 گرام ساڑھے454 ملی گرام ، ( اگر چاندی ہی زکوٰۃ میں دینی ہو ) لیکن اگر زکوٰۃ چاندی کی بجائے نقدی میں دینی ہو ، تو ساڑھے باون تولہ چاندی کی جتنی رقم بنتی ہو ( مثلا اتنی چاندی 6 روپے میں آتی ہو تو ) ڈھائی فیصد کے حساب سے6 ہزار میں ڈیڑھ سو روپے زکوٰۃ بنے گی ۔
یہ کم از کم نصاب ہے یعنی اس سے کم میں زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔ اس سے زیادہ جتنی چاندی ہو گی مذکورہ حساب سے اس کی رقم بنا کر زکوٰۃ ادا کی جائے ۔
سونے کا نصاب :
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ حدیث میں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ولیس علیک شیءیعنی فی الذھب ، حتی تکون لک عشرون دینارا ، فاذا کانت لک عشرون دینارا وحال علیھا الحول ففیھا نصف دینار ، فما زاد فبحساب ذٰلک )) ( سنن ابی داود ، الزکاۃ ، باب فی زکاۃ السائمۃ ، ح : 1573 )
”
اور سونے میں تجھ پر کچھ نہیں ، جب تک کہ وہ 20دینار نہ ہوجائیں ، پس جب وہ 20 دینار ہو جائیں اور ان پر سال گزر جائے تو ان میں نصف دینار زکوٰۃ ہے ، پس جو اس سے زیادہ ہو تو اسی حساب سے زکوٰہ ہوگی ۔ “
اس روایت کی سند پر کچھ گفتگو ہے ، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر بعض محققین نے متابعات و شواہد کی بنیاد پر اسے حسن قرار دیا ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ارواءالغلیل ( 289/3 ) میں بعض احادیث و آثار اور ان کے شواہد بیان کئے ہیں ، جن سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سونے کے نصاب کے لیے مذکورہ حدیث صحیح بنیاد ہے ۔
* ایک دینار کا وزن ہے : 4/25 گرام
* 5 دینار کا وزن : 21/25 گرام
* 20 دینار کا وزن : 85 گرام
یہ سونے کا نصاب ہے ، چاہے ڈلی ہو یا زیورات کی شکل میں ۔ ( الروضۃ الندیۃ ( حاشیہ ) 472/1 بحوالہ ” الاموال فی دولۃ الخلافۃ ” عبدالقدیم زلوم )
اس میں چالیسواں حصہ ( ربع العشر ) زکوٰۃ ہے ، یعنی20 دینار میں نصف دینار ( 2 ماشہ2 رتی ، یا دو گرام 87 ملی گرام ) چالیس دینار میں ایک دینار ۔ دوسرا طریقہ زکوٰۃ نکالنے کا یہ ہے کہ جب سونا ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ ہو تو زکوٰۃ دیتے وقت فی تولہ سونے کی قیمت معلوم کر لی جائے اور جتنی رقم بنے اس میں سے ڈھائی فیصد ( فی ہزار ، 25 روپے ) کے حساب سے زکوٰۃ ادا کر دے ۔
جواہر میں زکوٰۃ نہیں :
جواہر یعنی موتی ، یاقوت ، زمرد ، الماس اور مرجان وغیرہ میں زکوٰۃ نہیں ، جیسے لوہے ، تانبا ، پیتل اور سیسہ وغیرہ میں زکوٰۃ نہیں ۔ البتہ ان کی تجارت سے جو مال حاصل ہوگا ، اس میں شرائط کے مطابق زکوٰۃ ہوگی ۔
نقدی کا نصاب :
آج کل بالعموم لوگوں کے پاس سونا چاندی کی بجائے نقدی کی صورت میں رقم ہوتی ہے ۔ اس صورت میں زکوٰۃ کس طریقے سے نکالی جائے ؟ اس کے لیے علماءنے چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا ہے اور صدیوں سے علماءکے مابین نقدی کے لیے یہی نصاب تسلیم ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس اتنی نقد رقم ایک سال تک فاضل بچت کے طور پر محفوظ رہی ہے ۔ جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہے ، تو اس کو چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالنی چاہئیے ۔ مثلاً آج کل کے حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم کم و بیش تقریباً چھ ہزار روپے بنتی ہے ، اس لیے نقدی کا نصاب چھ ہزار روپے ہوگا ۔ جس شخص کے پاس چھ ہزار روپے ایک سال فالتو پڑے رہے ہوں ، اسے چاہئیے کہ وہ اس کی زکوٰۃ ڈھائی فیصد کے حساب سے25روپے فی ہزار ( 6ہزار کے150 روپے ) زکوٰۃ نکالے ۔ اس سے زیادہ جتنی رقم ہو ، وہ ڈھائی فیصد یا 25روپے فی ہزار کے حساب سے نکالے ۔ 6 ہزار سے کم رقم والے پر زکوٰۃ عائد نہ ہوگی ۔
بعض علماءکے نزدیک رقم کی زکوٰۃ کے لیے سونے کا نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت ہے ۔ اس حساب سے نقد رقم کا نصاب 6 ہزار کی بجائے 45, 46 ہزار روپے ہوگا ۔ اس سے کم رقم پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔
رکاز ( دفینے ) میں خمس ہے :
رکاز کے معنی چھپانے کے ہیں ، انسان کو کوئی چھپا ہوا خزانہ یعنی دفینہ مل جائے ، تو جس وقت ملے ، اسی وقت اس میں سے5 فی صد زکوٰۃ نکال دے ، اس میں زکوٰۃ کی مقدار اس لیے زیادہ ہے کہ یہ بغیر محنت کے حاصل ہو جاتا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( وفی الرکاز الخمس )) ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب فی الرکاز الخمس ، ح : 1499 )
” رکاز ( دفینے ) میں پانچواں حصہ ہے ۔ “
معادن ( کانوں ) کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں ، اس لیے کانوں سے نکلنے والی چیزوں میں زکوٰۃ نہیں ۔ البتہ اس کی آمدنی پر بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور سال گزر جائے ، تو زکوٰۃ ہے ۔
دو نصابوں کو ملا کر نصاب بنانا ؟
اگر ایک شخص کے پاس سونا چاندی دونوں چیزیں ہوں ، لیکن دونوں نصاب سے کم ہوں ( یعنی سونا ساڑھے سات تولے سے کم اور چاندی ساڑھے باون تولہ سے کم ہو ) اس صورت میں اس پر زکوٰۃ عائد ہو گی یا نہیں ؟ ایسے شخص کے بارے میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے ۔
امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحہ کے خیال میں ایسے شخص کو دونوں چیزیں ملا کر اگر نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ نکالنی چاہئیے ۔ اہلحدیث علماءمیں مولانا حافظ محمد عبداللہ صاحب محدث روپڑی رحہ کی رائے بھی یہی ہے ۔ تاہم دوسرے ائمہ کے نزدیک یہ صحیح نہیں ۔ جب تک اپنے اپنے طور پر ہر چیز نصاب کو نہ پہنچ جائے ، اس میں زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔ دو مختلف چیزوں کو ملا کر نصاب بنانے کی صراحت کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔ اس لیے مختلف چیزوں کو ملا کر نصاب بنانا شرعاً صحیح نہیں ، عام علماءاہلحدیث اسی مسلک کو زیادہ صحیح اور راجح سمجھتے ہیں ۔
زیور کی زکوٰۃ :
سونا چاندی کے زیور کی زکوٰۃ میں بھی کچھ اختلاف ہے ۔ بعض علماءاس میں زکوٰۃ کی فرضیت کے قائل نہیں ، جب کہ علماءاہلحدیث کی اکثریت زیور میں زکوٰۃ کی قائل ہے اور احتیاط کے لحاظ سے بھی یہی مسلک زیادہ صحیح ہے ۔ زیور کی زکوٰۃ دونوں طریقوں سے نکالی جا سکتی ہے ۔ زیور میں سے چالیسواں حصہ سونا یا چاندی بطورِ زکوٰۃ نکال دی جائے یا چالیسویں حصے کی قیمت ادا کر دی جائے ، دونوں طرح جائز ہے ۔ تاہم کسی کے پاس اگر حد نصاب ( ساڑھے سات تولہ سونا یا چاندی ساڑھے باون تولہ ) سے کم زیور ہے ، تو اس پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔
مال تجارت کی زکوٰۃ
اموالِ زکوٰۃ کی چوتھی قسم اموالِ تجارت ہیں ۔ یعنی جو سامان بھی تجارت کے لیے ہو اس میں سے زکوٰۃ نکالی جائے ۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
(( ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یامرنا ان نخرج الصدقۃ من الذی نعد للبیع )) ( سنن ابی داود ، الزکاۃ ، باب العروض اذا کانت للتجارۃ ھل فیھا زکاۃ ؟ ح : 1562 )
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم ہر اس سامان میں سے زکوٰۃ نکالیں ، جو تجارت کے لیے تیار کریں ۔ “
یہ روایت سنداً ضعیف ہے ، اس لیے بعض اہل علم نے سامان تجارت میں زکوٰۃ کے عائد ہونے کی نفی کی ہے ، لیکن علماءکی اکثریت نے سامان تجارت کو اموال ہی میں شمار کر کے تجارتی سامان میں بھی زکوٰۃ کا اثبات کیا ہے اور یہی بات راجح ہے ۔
چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” ائمہ اربعہ اور ساری امت کا ( سوائے چند شاذ لوگوں کے ) اس بات پر اتفاق ہے کہ سامانِ تجارت میں زکوٰۃ واجب ہے ۔ خواہ تاجر مقیم ہوں یا مسافر ، ارزانی کے وقت سامان خرید کر نرخوں کے گراں ہونے کا انتظار کرنے والے تاجر ہوں ۔ تجارت کا مال نئے یا پرانے کپڑے ہوں ، یا کھانے پینے کا سامان ۔ ہر قسم کا غلہ ، پھل فروٹ ، سبزی ، گوشت وغیرہ ۔ مٹی ، چینی دھات وغیرہ کے برتن ہوں یا جاندار چیزیں غلام ، گھوڑے ، خچر اور گدھے وغیرہ ۔ گھر میں پلنے والی بکریاں ہوں یا جنگل میں چرنے والے ریوڑ ، غرض تجارت کے ہر قسم کے مال میں زکوٰۃ فرض ہے ۔ علاوہ ازیں شہری اموالِ تجارت بیشتر اموالِ باطنہ ہیں ، جبکہ ( مویشی ) جانوروں کی اکثریت اموالِ ظاہرہ ہیں ۔ “ ( القواعد النورانیہ الفقہیہ ، ص : 89-90 طبع مصر )
مال تجارت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ :
اموالِ تجارت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ سال بسال جتنا تجارتی مال دکان ، مکان یا گودام وغیرہ میں ہو ، اس کی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے ۔ علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو ، اس کو بھی شمار کر لیا جائے ۔ نقد رقم ، کاروبار میں لگا ہوا ( یعنی زیر گردش ) سرمایہ اور سامانِ تجارت کی تخمینی قیمت ، سب ملا کر جتنی رقم ہو ، اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے ۔
تاہم کوئی تجارتی مال اس طرح کا ہے کہ وہ اکٹھا خریدا ، پھر وہ سال یا دو سال فروخت نہیں ہوا ، تو اس مال کی زکوٰۃ اس کے فروخت ہونے پر صرف ایک سال کی ادا کی جائے گی ۔ ورنہ عام مال جو دکان میں فروخت ہونے پر صرف ایک سال کی ادا کی جائے گی ۔ ورنہ عام مال جو دکان میں فروخت ہوتا رہتا ہے اور نیا اسٹاک رہتا ہے ، وہاں چونکہ فرداً فرداً ایک ایک چیز کا حساب مشکل ہے ، اس لیے سال بعد سارے مال کی بہ حیثیت مجموعی قیمت کا اندازہ کر کے زکوٰۃ نکالی جائے ۔
اگر کوئی رقم کسی کاروبار میں منجمد ہوگئی ہو ، جیسا کہ بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے اور وہ رقم دو تین سال یا اس سے زیادہ دیر تک پھنسی رہتی ہے ، یا کسی ایسی پارٹی کے ساتھ آپ کو سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ کئی سال آپ کو رقم وصول نہیں ہوتی تو ایسی ڈوبی ہوئی رقم کی زکوٰۃ سال بہ سال دینی ضروری نہیں ۔ جب رقم وصول ہو جائے ، اس وقت ایک سال کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے ، وہ جب بھی وصول ہو ۔
اسم المقالة : زکوٰۃ کی شرعی حیثیت
تحرير المقالة: جناب حافظ صلاح الدین یوسف
تحرير المقالة: جناب حافظ صلاح الدین یوسف