Pages

Sunday, August 7, 2011

غیبت ....ایک معاشرتی ناسور

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ غیبت و چغل خوری ہمارے معاشرے میں ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے اور معاشرے کی جڑوں کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے ، معاشرے کا بیش تر حصہ بلاتفریق مردوزن کے اس بیماری و اخلاقی برائی میں مبتلا نظر آتا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ عورتوں کو موردالزام ٹھہرایا جاتا تھا کہ یہ غیبت و چغل خوری کرنے ، رائی کا پہاڑ بنانے ، بات کا بتنگڑ بنانے ، ایک کے ساتھ دس لگانے اور اپنی غیبت و چغل خوری کا ماہرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے گھروں میں فساد کروانے اور خاندانوں میں پھوٹ ڈلوانے میں یہ یدطولیٰ رکھتی تھیں ، لیکن اگر ہم اپنے گردوپیش کا بنظر غائر جائزہ لیں تو مرد حضرات بھی اس برے اور قبیح فعل میں عورتوں کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں ، ڈیروں پہ حقہ پینے کے بہانے بیٹھے ہوئے زمیندار ہوں یا گاؤں کے چوہدری کی بیٹھک پر بیٹھے ہوئے حضرات ، دوران سفر بس میں سوار خواتین و حضرات ہوں یا نماز کے بعد مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازی لوگ ، سب کے سب واضح و پوشیدہ انداز یا اشارہ و کنایہ سے غیبت و چغل خوری میں مصروف نظر آئیں گے ۔

اس خطرناک اور تباہ کن مرض میں مبتلا مردوزن جن کے نزدیک غیبت یا چغل خوری کرنا ، کسی کا راز فاش ، کرنا ، کسی کے گھریلو معاملات کو برسرِعام کرنا ، مسلمانوں کے عیوب کا پردہ فاش کرنا کوئی عیب یا گناہ نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کے یہ چلتے پھرتے ریڈیو اسٹیشن ، بظاہر انتہائی شریف اور معصوم نظر آنے والے یہ لوگ پس پردہ جن کے پیش نظر خطرناک اور مذموم مقاصد کار فرما ہوتے ہیں ۔ بظاہر ہمدردی و تعاون کی آڑ میں نہایت عیاری اور چالاکی سے کسی محفل یا مجلس مین بیٹھے مرد ہوں یا گھر میں بیٹھی ہوئی چار عورتیں ، اپنے مسلمان بھائی کا گوشت کھانے ( غیبت کرنے ) سے پہلے روایتی طور پر چند جملے ضرور کہتے نظر آئیں گے ، قسم سے ڈرلگتا ہے کہیں غیبت نہ ہو جائے ، میں یہ بات صرف تیرے ساتھ ہی کر رہا ہوں ( یا کر رہی ہوں ) غیبت و چغل خوری کرنا تو گناہ ہے ایک بات بتاتا ہوں.... تو پھر یہ لوگ ایسے ماہرانہ اور فاضلانہ انداز میں مسلمانوں کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرتے ہیں کہ سامعین بھی ان کی معلومات اور ذہانت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔ العیاذ باللہ ۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ غیبت کیا ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے کیا اضرار و مفاسد ہیں خود پڑھئے ، دوسروں کی اصلاح کیجئے تا کہ اس اخلاقی موذی مرض سے ہم محفوظ رہ سکیں ۔

غیبت کی تعریف

جرجانی کہتے ہیں ۔ کسی انسان میں پائی جانے والی کسی برائی کا اس کی عدم موجودگی میں تذکرہ کرنا غیبت ہے ۔ کفوی کہتے ہیں : کسی کی پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی گفتگو کرنا جسے وہ ناپسند کرے ۔ امام غزالی کہتے ہیں ۔ آدمی کی کسی ایسی بات کا تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے خواہ اس کا تعلق اس کی شخصیت سے ہو یا اس کی ذات سے ، دین و دنیا سے ہو یا مال و اولاد سے ، ماں باپ سے ہو یا زوجہ و خادمہ سے ، حرکات و سکنات سے ہو یا خوشی و غمی سے ، گفتگو سے ہو یا اشارہ و کنایہ سے غیبت ہی شمار ہوگی ۔

غیبت ایک ایسا مرض ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد شعوری اور غیر شعوری طور پر اس میں ملوث نظر آتی ہے ۔ بظاہر خوشنما نظر آنے والے گناہوں کے اس سراب میں کھو کر صراط مستقیم سے لوگ ایسے دور ہٹتے ہیں کہ پھر گناہ و ثواب اور جزا و سزا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے اور جب کوئی ان مبتلا حضرات کو اللہ کا خوف دلا کر اس سے منع کرتا ہے تو چالاکی و عیاری کے پردہ میں چھپا ہوا معصومیت بھرا ان کا جواب یہ ہوتا ہے ۔ لو بھائی اس میں کون سی غیبت والی بات ہے یہ عیب اس میں موجود تو ہے ، جب کہ اسی کا نام غیبت ہے ۔

معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اتدرون ما الغیبۃ صحابہ! کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے تو انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذکرک اخاک بما لیکرہ تیرا اپنے مسلمان بھائی کے متعلق ایسی بات ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے ۔
تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے جو میں ذکر کرتا ہوں تو فرمایا : اگر اس میں موجود بات کو تو کرے گا ” فقد اغتیتہ “ تو تو نے اس کی غیبت کی ، اور اگراس میں موجود نہیں ہے ” فقد بھتہ “ تو تو نے اس پر الزام لگایا ۔ ( رواہ مسلم )

فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کی حقیقت واضح ہو جانے کے بعد اب کسی کو دھوکہ میں نہیں رہنا چاہئیے اور شیطان کے جال اور خود ساختہ باطل شبھات و تاویلات سے دامن چھڑا لینا چاہئیے اسی میں ہی خیر اور عافیت ہے ۔ فھل من مدّکر....!

غیبت کا حکم

غیبت کے عظیم خطرات کے پیش نظر علماءنے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے ، اگر وہ اس سے توبہ نہیں کرتا ۔ ابن حجر الہیثمی کہتے ہیں : کہ بہت سارے صحیح اور واضح دلائل اس کے بڑا گناہ ہونے کی دلیل ہیں ۔ لیکن اس کے مفاسد میں اختلاف ہونے کی وجہ سے اس کے بڑا اور چھوٹا ہونے میں اختلاف ہے ۔ اور صاحب جوامع الکلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مال غصب کرنے اور کسی کو قتل کرنے کی قبیل میں شمار کیا ہے جو بالاجماع کبیرہ گناہ ہیں ، آپ کا فرمان ہے کہ : ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت حرام ہے ۔

اے مسلمانو

غیبت ایسی خطرناک بیماری ہے جو بندے کو ہلاکتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیتی ہے ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کو لکھا اما بعد :
فانی اوصیک بذکر اللہ ، فانہ دواء، وانھاک عن ذکر الناس فانہ داء“
میں تمہیں ذکر الٰہی کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ دوا ہے ، اور لوگوں کے ذکر ( یعنی غیبت ) سے منع کرتا ہوں کیونکہ وہ بیماری ہے ۔


عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ ایک مردہ خچر کے پاس سے گزرے ، تو انہوں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا کہ کون ہے جو اسے پیٹ بھر کر کھائے گا ؟ یہ مردار کھانا اپنے مسلم بھائی کے گوشت کھانے سے بہتر ہے ۔ مسلمان بھائیو! اگر آپ غیبت کے خطرات سے آگاہی چاہتے ہیں تو آئیے فرمودات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں غور و فکر کریں کہ کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برائی کے خطرات اور فسادات کو بیان کیا ہے ۔

ابوداؤد و ترمذی میں صحیح روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ وہ ایسی ایسی ہے

ایک دوسری روایت میں ہے کہ چھوٹے قد کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لقد قلت کلمۃ ، لو مزجت بماءالبحر لمزجتہ
تو نے ایسا کلمہ کہا ہے اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا ذائقہ بھی تبدیل ہو جائے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی نقل اتاری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں

پسند نہیں کرتا کہ میں کسی آدمی کی نقل اتاروں اور اس کے بدلے مجھے اتنا اتنا مال بھی ملے ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

ولا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضا ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکرہتموہ واتقوا اللہ ان اللہ تواب رحیم ( حجرات )

اور جاسوسی نہ کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے ، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ، تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔
تجسس سے مراد کسی کی ٹوہ میں رہنا کہ اس کا کوئی عیب یا خامی معلوم ہو جائے اور اسے معاشرے میں بدنام کیا جائے ، احادیث میں اس کی ممانعت ہے اور اسلام نے اس کو منع قرار دے کر مسلمان کی آزادی و حرمت اور داخلی و خارجی معاملات کا تحفظ کیا ہے ۔ لیکن آج کے دور میں حریت و آزادی کے دعویدار مغربی آزادی کے دلدادہ جس زور و شعور سے حریت و آزادی کا علم لیے نگر نگر اس کی دعوت دیتے پھر رہے ہیں اس سے معاشرے میں سوائے بدامنی و بے سکونی باہم رنجش و کشمکش اور نفرت و تعصب کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔

اسی طرح غیبت یہ ہے کہ کسی کی برائیوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا اگرچہ وہ اسے ناپسند کرتا ہو یہ دونوں اپنی اپنی جگہ جرم ہیں یہ آیت ہمیں یہی دعوت دیتی ہے کہ جاسوسی و غیبت حرام ہے ۔ جس طرح ایک مسلمان اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتا تو کسی کی برائی کرنا بھی ایسے ہی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں جرم مسلمانوں کی مرغوب ترین غذا بن چکے ہیں ۔ اعاذناللہ منہا ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ نے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے غیبت کی مثال اس لیے دی ہے کیونکہ مردار کھانا گندہ اور قبیح فعل ہے ۔ اسی طرح غیبت دین میں حرام ہے اور نفوس کیلئے قبیح ترین چیز ہے ۔ اور وہ شخص جو لوگوں کی غیبت کرتا ہے ، اپنے آپ کو بدترین و صف کا مستحق ٹھہراتا ہے ، اور وہ ایسے ہی ہے جیسے اپنے بھائی کا گوشت کھا رہا ہے ، پس کیا ہی یہ برا وصف ہے ۔

علی بن حسین نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ دوسرے کی غیبت کر رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا غیبت سے بچئے کہ یہ کتا ( صفت ) لوگوں کا سالن ہے ۔


 یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہئیے کہ غیبت کے نقصانات بہت بڑے ہیں جن کا سامنا غیبت خور کو دنیا و آخرت میں کرنا پڑے گا ۔
غیبت کے نقصانات

غیبت صاحب غیبت کیلئے آزمائش

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ غیبت خور اس برے اخلاق سے متصف ہوتا ہے اور سوائے تکلیف و مشقت کے اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اپنے نفسوں کو ذکر الٰہی سے غیبت میں مصروف نہیں رکھو کیونکہ یہ آزمائش ہے ، اور ذکر الٰہی کو لازم پکڑو وہ رحمت ہے ۔

غیبت فساد دین

ہر عاقل پر دینی لحاظ سے اس کے نقصانات واضح ہیں ایک تو غیبت اعلیٰ اخلاق کے منافی ہے اور دوسرا انسان کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ دین اور تقویٰ سے دور ہو جائے ۔
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم آدمی کے دین پر غیبت کے اثرات کینسر ( سرطان ) سے بھی زیادہ شدید ہیں ۔

غیبت منافی ایمان عمل

اے گروہ! جو شخص اپنی زبان سے ایمان لایا ہے ، اور ابھی تک اس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا ، لوگوں کی غیبت نہیں کرو اور نہ ہی ان کے عیوب تلاش کرو ، پس جس نے مسلمانوں کے عیوب تلاش کےے اللہ بھی اس کے عیوب ظاہر کرےگا ، اور اللہ نے جس کے عیوب کو ظاہر کر دیا وہ اپنے گھر میں ہی ذلیل و رسوا ہو جائےگا ۔ ( اپنی موت آپ مر جائے گا )
غیبت قبر میں عذاب کا سبب

قبر میں عذاب آخرت کے نقصانات میں سے ایک ہے اب کیا اس سے بھی کوئی بڑی دلیل ہو سکتی ہے.... ؟
قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عذاب قبر کی ہمیں تین قسمیں بتائی گئیں ہیں ، ایک ثلث عذاب غیبت سے ، ایک ثلث پیشاب کے چھینٹوں سے اور ایک ثلث چغل خوری سے عذاب ہوگا ۔


غیبت یوم قیامت عذاب کا سبب

یہ سب سے بدترین اور سخت جزا ہے غیبت خور کو جو بدلے میں ملے گی اور زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے لوگوں کی سزا کا قصہ ہمارے رونگٹے کھڑے کر دینے اور دلوں پر ہیبت طاری کر دینے کے لیے کافی ہے ۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 ” جب مجھے معراج کرائی گئی ، میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ، میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ تو اس نے بتایا : ھولاءالذین یاکلون لحوم الناس ، ویقعون فی اعراضھم ( احمد ابوداود صحیح البانی ) یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے تھے ۔

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک گندی اور بدبودار ہوا چلی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس ہوا کے متعلق جانتے ہو.... ؟ یہ مومنوں کی غیبت کرنے والوں کی
( غیبت کی ) بدبو ہے ۔ ( احمد ابن ابی الدینا صححہ البانی )
غیبت قیامت کے دن نیکیوں سے ہاتھ دھونے کا سبب

قیامت کا دن جو ہولناکیوں اور وحشتوں سے بھرپور دن ہوگا ، جس کا ایک دن پچاس ہزار سال کا ہوگا ، جب سورج کی شدت و حدت سے زمین تپ کر تانبا بن چکی ہوگی ، انسانیت پریشاں و ہراساں ہوگی ، حتیٰ کہ رب العزت کی مقرب ترین اور پاک باز ہستیاں انبیاءبھی خوف و پریشانی میں ہوں گے ، لوگ ” یفرالمرءمن اخیہ وامہ وابیہ “ کی کیفیت سے دوچار ہوں گے ، جہاں ” لاینفع مال و لابنون “ کا سماں ہوگا ، جب ہر فرد و بشر زبان پر نفسی نفسی کی پکار لئے اپنے اپنے گناہوں کے پسینے میں شرابور حساب و کتاب کے شروع ہونے کے انتظار میں مارے مارے پھر رہے ہوں گے ۔ جہاں انسان ایک ایک نیکی کا محتاج ہو گا تو ذرا اندازہ کریں کہ اگر آپ نے کسی کی غیبت کی ہوگی ، کسی کی عزت پامال کرنے کی کوشش کی ہوگی ، کسی کے عیوب کا پردہ چاک کیا ہوگا ۔

تو تیری زبان سے ڈسے ہوئے یہ لوگ اپنا حساب بے باک کرانے کے لیے دربار الٰہی میں آموجود ہوں گے اور تیری وجہ سے ہونے والی اپنی ذلت و رسوائی کا بدلہ مانگیں گے تو اس وقت ان کو دینے کے لیے سوائے تیری نیکیوں کے اور کوئی چیز نہیں ہو گی جس سے ان کو بدلہ دیا جا سکے اور ان مظلومین کی داد رسی کا کوئی سامان ہوسکے ، کیونکہ حقوق العباد حقدار کی معافی کے بغیر معاف نہیں ہوسکتے ۔
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اس مستعار زندگی کا بہتر استعمال کرے تا کہ اسے دنیا و آخرت میں اس کا فائدہ ہو ۔ اور اس بات کی حرص بھی ہونی چاہئیے کہ زندگانی کا ایک بھی لمحہ ایسے نہ گزرے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو ، لیکن بدقسمتی سے لوگوں کی کثیر تعداد کا مصرف وقت بلکہ محبوب ترین مشغلہ غیبت و چغل خوری کے علاوہ کوئی اور ہے ہی نہیں ، کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ اپنی تمام تر مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی مجلسوں کا رخ کرتے ہیں جن میں لوگوں کا گوشت کھایا جاتا ہے اور ان کی عزتوں کو پامال کیا جاتا ہے اگرچہ ان کو دوچار محلے چھوڑ کر ہی کیوں نہ آنا پڑے ۔

یحییٰ بن معاذ کہتے ہیں کسی بھی مسلمان و مومن کیلئے ہر مسلمان کو اپنے اندر تین اوصاف و خوبیاں رکھنی چاہئیں ۔

1 اگر آپ اپنے بھائی کو نفع نہیں دے سکتے تو نقصان بھی نہ دیں ۔

2 اگر اسے خوشی نہیں دے سکتے تو مغموم بھی نہ کریں ۔

3 اگر اس کی تعریف نہیں کر سکتے تو مذمت بھی نہ کریں ۔


لیکن ہماری اکثریت ان اوصاف سے محروم نظر آتی ہے جن اوصاف سے متصف ہونا چاہئیے وہ تو کہیں نظر نہیں آتے   مگر دوسرے بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ ایک انتہائی اہم اور فائدہ مند نصیحت جو ایاس بن معاویہ نے سفیان بن حسین کو کی ، آئیے سفیان کی زبانی ہی سنتے ہیں ۔
 سفیان کہتے ہیں کہ ایک دن میں ایاس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، ایک آدمی گزرا تو اس کے متعلق میں نے کچھ باتیں کیں تو ایاس نے کہا اسکت خاموس ہو جا ۔ پھر مجھ سے پوچھا کیا تو نے غزوہ روم میں شرکت کی ہے.... ؟ میں نے کہا نہیں ، پھر پوچھا کیا غزوہ ترک میں.... ؟ میں نے کہا نہیں ، تو ایاس نے کہا : ” سلم منک الروم والترک ، ولم یسلم منک اخوک المسلم “ روم و ترک تو تجھ سے سلامت رہے لیکن تیرا مسلمان بھائی تجھ سے نہ بچ سکا ۔ سفیان کہتے ہیں اس دن کے بعد میں نے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی ۔ میمون بن سیاہ اگر کسی مجلس میں ہوتے نہ خود غیبت کرتے اور نہ کسی کو غیبت کرنے دیتے اگر منع کرنے پر بھی وہ نہ رکتا تو محفل سے ہی اٹھ کر چلے جاتے تھے ۔

ہمیں بھی اپنی محافل و مجالس میں غیبت سے بچناچاہئیے اور اگر کوئی کر رہا ہو تو اسے سمجھانا چاہئیے اور اپنے مسلمان بھائی و بہن کا دفاع کرنا چاہئیے کیونکہ اس میں بھی اجر و ثواب ہے ۔


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

 من ذب عن عرض اخیہ بالغیبۃ ، کان حقا علی اللہ ان یعتقہ من النار جس نے بھی اپنے بھائی کی موجودگی میں اس کی عزت کا دفاع کی ، تو اللہ کا یہ ذمہ ہو جاتا ہے کہ اسے آگ سے آزاد کرے ۔ ( احمد ، طبرانی ، صحیح ترغیب الالبانی )