Pages

Friday, October 28, 2011

ذوالحج کے پہلے 10 دن کی فضلیت اور احکام

  ذی الحج کے پہلے دس دِن

ذی الج کے پہلے دس دِن بہت فضلیت والے ہیں ، لیکن ہماری بگڑی ہوئی عادات کا شِکار ہو کر

ہمارے درمیان اپنی اَصلی حالت کھو چُکے ہیں اور دیگر دینی معاملات اور عِبادات کی طرح اِن دِنوں کا حال بھی بے حال کیا جا چُکا ہے ، یہ

دس دِن حج کرنے والے اور نہ کرنے والے کے لئیے بہت فضلیت والے ہیں اور سب کے لئیے ایک جیسا حُکم ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے

فرمایا ہے:::


( وِ یَذکُرُوا اسَّمَ اللَّہِ فِیۤ اَیَّامٍ مَعلُومَاتٍ

اور وہ اللہ کے نام کو یاد کریں معلوم شدہ دِنوں میں


سورت الحج آیت ٢٨

اور فرمایا

( وِ اَذکُرُوا اسمَ اللَّہِ فِیۤ اَیَّامٍ مَعدُُودَاتٍ

اور گنتی کے دِنوں میں اللہ کے نام کو یاد کرو


سورت البقرہ آیت ٢٠٣



'' عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہُما نے معلوم شدہ دِنوں کی تفسیر میں کہا کہ یہ ذوالحج کے پہلے دِس

دِن ہیں اور گنتی کے دِنوں کی تفسیر میں کہا کہ یہ اَیامِ تشریق ہیں


'' صحیح البُخاری ، کتاب العیدین ، باب ، فضل العمل فی اَیام التشریق ،


عبداللہ ابنِ عبَّاس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

::: ( مَا العَملُ فی اَیامِ العَشرِ اَفضلَ مِن العَملِ فی ہذہِ : قالوا : و لا الجِھادُ : قال : و لا الجِھادُ اِلَّا رَجُلٌ خَرجَ یُخاطِرُ بِنَفسِہِ وَ مَالِہِ و لم

یَرجِعُ بشيءٍ

اِن دس دِنوں میں کئیے جانے والوں کاموں ( یعنی نیک کاموں ) سے زیادہ بہتر کام اور کوئی نہیں : صحابہ نے کہا : کیا جِہاد بھی نہیں :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دِیا : جِہاد بھی نہیں ، سوائے اِس کے کہ کوئی اپنا مال اور جان لے کر نکلے اور اُس میں سے کوئی

چیز بھی واپس نہ آئے ) یعنی ، صِرف وہ جِہاد اِن دس دِنوں کے عمل سے زیادہ بہتر ہے جِس میں مُجاہد کی جان اور مال دونوںاللہ کی راہ

میں کام آ جائیں

۔ صحیح البُخاری حدیث ، ٩٦٩ ۔

عبداللہ ابنِ عبَّاس رضی اللہ عنہُما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

::: مِا مِن اَیامٍ العَملُ الصَّالحُ اَحبَ اِلیَ اللَّہِ مِن ھذہِ الاَیامِ العشر : قالوا : ولا الجِھادُ فی سبِیلِ اللَّہِ : قال : و لا الجِھادُ فی سبِیلِ اللَّہِ ، اِلَّا رَجُلٌ خَرجَ

بِنَفسِہِ وَ مَالِہِ و لم یَرجِع مِن ذَلِکَ بشيءٍ

( اِن دس دِنوں میں کئیے جانے والے نیک کام اللہ تعالیٰ کو کِسی بھی اور دِنوں میں کئیے جانے والے نیک کاموں سے زیادہ محبوب ہیں


صحابہ نے کہا : کیا جِہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ

وسلم نے جواب دِیا : جِہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اِس کے کہ کوئی اپنا مال اور جان لے کر

نکلے اور اُس میں سے

کوئی چیز بھی واپس نہ آئے


اَبو داؤد حدیث ٢٤٣٥ ، ابن ماجہ حدیث ١٧٢٧ ۔ اِمام ا لاَلبانی نے صحیح قرار دِیا ۔



  اِن دس دِنوں میں ہی اِسلام کے پانچ اَرکان میں سے ایک کو اَدا کرنے کا وقت ہوتا ہے اور وہ رکن ہے حج


  حج کی فرضیت


اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے

( وَ لِلَّہِ عَلیٰ النَّاسِ حِجّ ُ البَیتِ مَنِ اَستَطاعَ اِلَیہِ سَبِیلاً ، وَ مَن کَفَرَ فَاِنَّ اللَّہَ غَنِيٌ عَنِ العَلٰمِینَ )

اور لوگوں میں سے جِس کی قُدرت ہو اُس پر اللہ کے لئیے ( اللہ کے ) گھر کا حج کرنا فرض ہے ، اور جو انکار کرے گا ، تو اللہ سب جہانوں

سے غنی ہے


سورت آل عمران آیت ٩٧


اور فرمایا

( وَ اََذِّن فی النَّاسِ بِالحَجِ یَاَتُوکَ رِجَالاً وَ عَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍ یاَتِینَ مِن کُلِّ فَجٍ عَمِیقٍ لِّیَشھَدُوا مَنٰفِعَ لَھُم )

اور لوگوں میں حج کی پکار کرو ، تُمہارے پاس پیدل اور کمزور اونٹوں پر لوگ آئیں گے اور ہر وسیع ( کھلے چوڑے ) راستے سے آئیں گے

، تا کہ اپنے فائدے حاصل کریں


سورت حج آیت ٢٧ ۔

لہذا ہر وہ مُسلمان جو حج کے لئیے اللہ کے گھر تک پُہنچنے اور حج کرنے کی طاقت رکھتا ہے ، یعنی مالی اور جسمانی طاقت تو اُس پر حج کرنا فرض ہو جاتا ہے ۔


  حج کی فضلیت


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

  ( مَن حَجَ و لَم یَرفُث و لَم یَفسُق رَجع کیوم ولدتہُ اُمُہُ


جِس نے حج کیا ، اور جنسی معاملات میں ملوث ہونے ، اور گُناہ کرنے سے باز رہا تو وہ اُس دِن کی طرح واپس آئے

گا جِس دِن اُس کی ماں نے اُسے جنم دِیا تھا

صحیح البُخاری حدیث ١٥٢١

( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ '' کون سا کام سب سے زیادہ اَفضل ہے '' تو اُنہوں نے فرمایا

( اللہ ا ور اُس کے رسول پر اِیمان )

پھر پوچھا گیا '' پھر اِس کے عِلاوہ '' تو اُنہوں نے فرمایا

( اللہ کی راہ میں جہاد )

پھر پوچھا گیا '' پھر اِس کے عِلاوہ '' تو اُنہوں نے فرمایا

( قبول شدہ حج )

صحیح البُخاری حدیث ١٥١٩ ۔



  یومِ عرفات


اِن دس بلند رتبہ دِنوں کا نواں دِن وہ ہے جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ، یہ ہی

وہ قیام ہے جِس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کہا ہے ( النسائی حدیث ٣٠١٦) جِس قیام پر اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے فخر

کا اَظہار کرتا ہے

( مُسند اَحمد حدیث ٧٠٨٩)

اور اِس دِن میں ا للہ تعالیٰ دوسرے دِنوں کی نسبت سب سے زیادہ بندوں کی مغفرت کرتا ہے
صحیح مُسلم حدیث ١٣٤٨ ،

جو مُسلمان اِس قیام میں شامل نہیں ہوتے لیکن اِس دِن کا روزہ رکھتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن

لوگوں کو اِس دِن کا روزہ رکھنے کی صُورت میں ایک سال پچھلے اور ایک سال اگلے کے گُناہ معاف ہونے کی خوش خبری دِی ۔

( صحیح مُسلم حدیث ١١٦٢ )



  عید ا لاَضحی


اِن دس دِنوں کا دسواں دِن حج کرنے اور حج نہ کرنے والوں کے لئیے اللہ کی راہ میں جانور قُربان

کرنے کا دِن ہے ،

  اور حج کرنے والوں کے لئیے اپنے اَحرام سے حلال ہو جانے کا دِن ہے

اور سب مسلمانوںکے لئیے عید کا دن ہے
سُنن اَبو داؤد حدیث ٢٤١٩ سُنن النسائی حدیث ٣٠٠٤ ، سُنن الترمذی حدیث ٧٧٣ ۔


، اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اَعمال قبول فرمائے اور ہمارے گُناہ معاف فرمائے ۔
__________________

Wednesday, October 12, 2011

اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور کی قسم اٹھانا حرام ہے

اللہ تعالى كے علاوہ كسى  اورکی  قسم اٹھانا حرام ہے، چاہے وہ باپ كى قسم ہو، يا كسى بڑے سردار اور حكمران كى يا كسى صاحب شرف اور مرتبہ كے شرف كى يا اسى كے علاوہ كسى اور كى؛ اس كى دليل مندرجہ ذيل ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:

" جو بھى قسم اٹھانا چاہے تو وہ اللہ تعالى كى قسم اٹھائے يا پھر خاموش رہے" متفق عليہ.
...
اور ايك دوسرى روايت ميں ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو كوئى بھى قسم اٹھانے والا ہو وہ اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور كى قسم نہ اٹھائے"

اسے امام نسائى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے:

اور ايك روايت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے


" جس نے غير اللہ كى قسم اٹھائى تو اس نے شرك كيا"



دوم:

مسلمان شخص كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ اللہ تعالى اور غير اللہ كو برابر قرار دے؟ مثلا وطن، بادشاہ اور سردار، وعدہ اور عہد كرنے ميں كہ وہ ان كے ليے كام كرنے كا وعدہ كرے، بلكہ وہ يہ كہے:

ميرا وعدہ ہے كہ ميں اپنے ذمہ اللہ وحدہ كى واجبات ادا كرنے كو پورى كوشش كرونگا، پھر اپنے وطن كى خدمت كرونگا اور مسلمانوں كى مدد و معاونت كرونگا، اور سكاؤٹ كے ان قوانين پر عمل كرونگا جو اللہ تعالى كى شريعت كے مخالف نہ ہونگے.

سوم:

انسان پر واجب ہے كہ اس كے اعمال اللہ تعالى كى شريعت كے موافق ہوں لہذا وہ يہ وعدہ نہ كرے كہ وہ حكومتى قوانين يا كسى بشرى گروہ اور جماعت كے قوانين پر مطلقا عمل كرے گا.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنےوالا ہے .

Saturday, October 8, 2011

ذیقعد برکات و تجلیات کا مہینہ

ذیقعد اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ہے۔ یہ بڑا مبارک اور حرمت والا مہینہ ہے اس مہینے میں عرب جنگ کو ترک کر دیتے تھے اور اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے۔ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کا ارشاد ہے کہ ذیقعد کا مہینہ بہت بزرگی والا مہینہ ہے اور اس ماہ کی عبادت بہت افضل ہے۔
ذیقعدہ کا چاند

جب ذیقعد کا چاند دیکھے تو یہ کہے:
اَللّٰہُمّٰ ہَذَا الشَّہرُ اَوَّلُ مِن شَہرِ الحَرَامِ وَ اَوسَطُہَا مِن شَہُورِ الحَجِّ بَیتِکَ الحَرَاٰمِ فَاغفِرلَنَا جَمِیعَ المَعَاصِی وَالاٰثَامِ وَلَا تُوَاخِذنَا بِالنَّواصِی وَالاَقدَامِ یَاذَاالجَلاَلِ وَالاِکرَامِo


پہلی شب


اس مہینے کی پہلی شب کو چاہیے کہ تیس رکعت نفل نماز دو دو رکعت کرکے اس طرح سے پڑھے کہ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورئہ زلزال پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعدایک مرتبہ سورئہ عم یتساءلون پڑھے۔
اس کے علاوہ جو کوئی ذیقعد کی پہلی شب نماز عشاءکے بعد چار رکعت نفل نماز دو دو رکعت کرکے اس طرح سے پڑھے کہ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد تیئس تیئس مرتبہ سورئہ اخلاص پڑھے۔ نماز کے بعد نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور خلوص دل سے توبہ کرے تو انشاءاللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول ہوگی اور اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا۔

نفلی روزہ

 
جو کوئی ذیقعد کے مہینہ میں کسی بھی دن نفلی روزہ رکھے گا تو بفضل باری تعالیٰ اسے عمرے کا ثواب عطا ہوگا اگر کوئی سوموار کوروزہ رکھے تو ثواب عظیم حاصل ہوگا۔

جمعہ کے نوافل


ذیقعد کے مہینے میں چاہیے کہ ہر جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد چار رکعت نفل نماز دو دو رکعت کرکے اس طرح پڑھے کہ ہررکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد اکیس اکیس مرتبہ سورئہ اخلاص پڑھے۔ انشاءاللہ تعالیٰ حج و عمرہ کا ثواب حاصل ہوگا۔

دو رکعت نفل


ذیقعد کے مہینے کی ہر شب کو نماز عشاءکے بعد دورکعت نفل نماز اس طرح سے پڑھے کہ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد تین تین مرتبہ سورئہ اخلاص پڑھے اور نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے۔ انشاءاللہ تعالیٰ ہررات عمرہ کی عبادت کا ثواب حاصل ہوگا۔

ترقی درجات کیلئے


جو کوئی چاہے کہ بارگاہ الٰہی میں اس کا درجہ بلند ہوجائے، اللہ تعالیٰ اس پر اپنا خصوصی فضل وکرم نازل فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ ذیقعدہ کے مہینہ کی نو تاریخ کی شب نماز عشاءکے بعد دو رکعت نفل نماز اس طرح سے پڑھے کہ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد ایک ایک مرتبہ سورئہ مزمل پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد تین مرتبہ سورئہ یٰسین پڑھے۔

جمعرات کی شب


ذیقعدہ کے مہینے میں جو کوئی ہر جمعرات کی شب سو رکعت نفل نماز دو دو رکعت کرکے اس طرح سے پڑھے کہ ہررکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس دس مرتبہ سورئہ اخلاص پڑھے تو بفضل باری تعالیٰ اسے ثواب عظیم حاصل ہوگا۔

آخری دن


جو کوئی ذیقعد کے مہینہ کی آخری تاریخ کو چاشت کے وقت دو رکعت نفل نماز اس طرح سے پڑھے کہ ہررکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد تین سو مرتبہ سورة قدر پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد گیارہ مرتبہ یہ درود پاک پڑھے۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَولَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَّ مَولاَنَا مُحَمَّدٍ مَعدَنِ الجُودِ وَالکَرَمِ وَاَصحَابِہ وَ بَارِک وَسَلِّم۔


اس کے بعد پندرہ مرتبہ سورئہ فاتحہ پڑھے اور سجدے میں جاکر اللہ تعالیٰ سے جو بھی جائز دعا مانگے گا، انشاءاللہ تعالیٰ قبول ہوگی۔

Tuesday, October 4, 2011

قیامت کا علم

قیامت کب قائم ہوگی اس کا علم صرف اللہ تعالی کوہی ہے اوریہ ایسا علم غیب ہے جو اللہ تعالی نے اپنے ساتھ مخصوص رکھا ہے اوراس پر کسی کو بھی مطلع نہیں کیا نہ تو کسی نبی کو اور نہ ہی کسی ولی اورمقرب فرشتوں کو ، حتی کہ انبیاء کے سردار ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا علم نہیں دیا گیا ، انہيں یہ علم نہیں تھا کہ قیامت کب قائم ہوگی ۔  
قرآن مجید کے دلائل :

1 - اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہيں کہ اس کا وقوع کب ہوگا ؟ ، آپ فرما دیجیۓ کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے ، اس کو اس کے وقت پر اللہ تعالی کے سوا کوئي اور ظاہر نہیں کرے گا ، وہ آسمانوں اورزمین میں بڑا بھاری حادثہ ہوگا ، وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی ، وہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیق کرچکے ہیں ، آپ فرما دیجیۓ کہ اس کا علم خاص اللہ تعالی ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ جانتے ہی نہیں } الاعراف ( 187 ) ۔


2 - ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ لوگ آپ سے قیامت کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجیۓ ! کہ اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے آپ کو کیا خبر بہت ممکن ہے کہ قیامت بالکل ہی قریب ہو } الاحزاب ( 63 ) ۔
لوگ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کےوقت کے بارہ میں پوچھا کرتے ہیں تواللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ وہ انہیں کہيں کہ اس کا علم اللہ تعالی کے پاس ہے { آپ کہہ دیجیۓ کہ اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کےپاس ہے } ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اس آیت میں اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتا رہیں نہيں کہ آپ کے پاس قیامت کے بارہ میں کوئی علم نہیں ، اوراگر لوگ ان سے اس کے بارہ میں سوال کریں تو وہ ان کی راہنمائی کریں کہ اس کا علم تو صرف اللہ تعالی کے ہی پاس ہے ۔
دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 527 )


شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :
یہ تو معلوم ہی ہے کہ انما حصر کا صیغہ ہے تواس طرح آیت کا معنی اس طرح ہوگا : قیامت کا علم تو صرف اللہ تعالی کو ہی ہے اس کے علاوہ کوئي اورنہیں جانتا ۔
دیکھیں اضواء البیان ( 6 / 604 )

3 - اورایک مقام پراللہ تبارک وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :


{ لوگ آپ سے قیامت کےوقوع کے وقت کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق ؟ اس کے علم کی انتہاء تو اللہ تعالی کی جانب ہے ، آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کوآگاہ کرنے والے ہیں } النازعات ( 42- 45 ) ۔


شیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اوراس لیے کہ جب قیامت کے علم کے بارہ میں بندوں کےلیے کوئي دینی اورنہ ہی دنیاوی مصلحت تھی ، بلکہ ان کے لیے مصلحت تواسی میں تھی کہ ساری مخلوق سے اس کا علم چھپایاجائے

 اوراسے اللہ تعالی اپنے ہی پاس رکھے تواللہ تعالی نے اس کے بارہ میں فرمایا :
{ اس کے علم کی انتہاء تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے } ا ھـ




4 - اورایک مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :


{ بلاشبہ قیامت کا علم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے اوروہی بارش نازل فرماتا ہے اورماں کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسے بھی وہی جانتا ہے } لقمان ( 34 ) ۔


عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :


 ( غیب کی پانچ کنجياں ہیں
( قیامت کا علم اللہ تعالی ہی کے پاس ہے ، اوروہی بارش نازل فرماتا ہے ، اورجوکچھ ماں کے پیٹ میں ہے اسے بھی وہی جانتا ہے ، اورکسی نفس کو یہ علم نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا ، اورنہ ہی کسی نفس کو یہ علم ہے کہ وہ کونسی جگہ پر مرے گا ، یقینا اللہ تعالی علم رکھنے والا اورخبر دار ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4627 ) ۔


اورعبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہيں کہ یہ پانچ چيزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالی کے علاوہ کوئي اورنہيں جانتا ، اسے نہ تو کوئي مقرب فرشتہ ہی جانتا ہے اور نہ ہی کوئي نبی مرسل اس کا علم رکھتا ہے ، لھذا جو بھی ان اشیاء میں سے کچھ جاننے کادعوی کرے اس نے قرآن مجید کی مخالفت کی وجہ سے کفرکا ارتکاب کررہا ہے ۔
دیکھیں تفسیر القرطبی ( 4 / 82 ) ۔

اورحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
وہ وہ مفاتیح الغیب ہیں جن کا علم اللہ تعالی نے اپنے پاس ہی رکھا ہے اللہ تعالی کے بتائے بغیر اس کا علم کسی کو بھی نہیں ہوسکتا ، نہ تو قیامت کے وقت کا علم کسی نبی مرسل کو ہے اورنہ ہی کسی مقرب فرشتے کو ۔ اھـ
دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 462 )


وہ احاديث جن میں یہ بیان کیا گيا ہے کہ قیامت کا علم اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو نہیں :
1 - وہ حدیث جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے میں ہے کہ :
جبریل علیہ السلام نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا تھا :
( جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ قیامت کے بارہ میں سائل سے زيادہ علم نہیں رکھتا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 8 ) ۔

2 - جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی موت سے ایک ماہ قبل یہ فرماتےہوئے سنا :
( تم مجھ سے قیامت کے بارہ میں سوال کرتے ہو ، اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے ، میں اللہ تعالی کی قسم اٹھا کرکہتا ہوں کہ زمین پر زندہ رہنے والی چيز پر سوسال نہيں آئيں گے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2538 ) ۔


اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ :
اس حدیث کا معنی یہ نہیں کہ سوبرس سے قبل ہی قیامت قائم ہوجائے گی بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اس وقت جو بھی روئے زمین پرپائي جانے والی ہرجاندار چيز سو برس سے زيادہ زندہ نہیں رہے گی اور سو برس کے قبل ہی اسے موت آجائے گی ۔


امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں ابن عمررضي اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی مراد یہ تھی کہ اس سے وہ صدی ختم ہوجائے گی ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2537 ) ۔

تواس حدیث سے یہ احتمال بھی ختم ہوجاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیامت کا علم تھا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل علیہ السلام نے یہ سوال ایک ماہ قبل کیا تھا ۔
لھذا جو شخص بھی یہ خیال رکھے اوراس کا گمان ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے وقوع ہونے کے وقت کا علم تھا وہ جاھل ہے ، کیونکہ اوپر بیان کی گئي قرآنی آیات اوراحادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا رد کررہی ہیں ۔


ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المنار المنیف میں کہتے ہيں :
ہمارے دور میں علم کا دعوی کرنے والے کچھ لوگ سفید اورکھلا جھوٹ بول رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے قائم ہونے کا وقت معلوم تھا ، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبریل علیہ السلام میں تو یہ فرمایا ہے کہ :

( جس سے سوال کیا جارہا ہے اسے اس کے بارہ میں سائل سے زيادہ علم نہیں ) ۔
اپنے آپ کو عالم کہنے والے اس میں تحریف کرکے یہ کہتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ :
میں اور توہم دونوں ہی جانتے ہیں ۔ یہ تو سب سے بڑي جہالت اورسب سےزيادہ قبیح تحریف ہے ، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جسے ایک اعرابی خیال کررہے ہوں اسے یہ کہیں کہ میں اورتو ہم دونوں ہی قیامت کے وقت کو جانتے ہیں ۔


لیکن یہ جاہل کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ وہ جبریل علیہ السلام ہیں ، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے مندرجہ ذیل فرمان میں یہ کہہ رہے ہيں کہ :
( اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جبریل علیہ السلام جس شکل میں میرے پاس آئے میں نے انہیں پہچان لیا لیکن اس( اعرابی کی ) شکل میں نہیں پہچان سکا ) مسند احمد ، شیخ احمد شاکر رحمہ


 اللہ تعالی کہتے ہيں کہ اس کی اسناد صحیح ہے ۔۔۔۔
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دیر بعد یہ علم ہوا کہ یہ جبریل علیہ السلام تھے ،


 جیسا کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :
میں کچھ دیر ٹھرا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے عمر تجھے معلوم ہے کہ یہ سائل کون تھا ؟ ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 8 ) ۔
اوریہ جاہل و محرف کہتا ہے کہ سوال کے وقت ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہوچکا تھا کہ یہ جبریل علیہ السلام ہیں ، لیکن آپ نے اپنے صحابہ کرام کو کچھ دیرے کے بعد بتایا کہ وہ جبریل علیہ السلام تھے ۔
پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
( جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ سائل سے زيادہ علم نہیں رکھتا ) ہر سائل اورہر مسئول کے لیے عام ہے ، اس لیے کہ قیامت کے متعلق ہرسائل اورجس سے سوال کیا جارہا ان کی حالت ایک جیسی ہے ۔ ا ھـ
کچھ کمی و بیشی اوراختصار کے ساتھ ۔
واللہ اعلم .


الشیخ محمد صالح المنجد

کتاب وسنت میں اس کے دلائل بھرے پڑے ہيں کہ قیامت کا علم غیب ہے کسی بھی مخلوق کا اس کا علم نہيں ذیل میں ہم اس کے دلائل پیش کرتے ہیں