قرآن مجید کے دلائل :
1 - اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہيں کہ اس کا وقوع کب ہوگا ؟ ، آپ فرما دیجیۓ کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے ، اس کو اس کے وقت پر اللہ تعالی کے سوا کوئي اور ظاہر نہیں کرے گا ، وہ آسمانوں اورزمین میں بڑا بھاری حادثہ ہوگا ، وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی ، وہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیق کرچکے ہیں ، آپ فرما دیجیۓ کہ اس کا علم خاص اللہ تعالی ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ جانتے ہی نہیں } الاعراف ( 187 ) ۔
2 - ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ لوگ آپ سے قیامت کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجیۓ ! کہ اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے آپ کو کیا خبر بہت ممکن ہے کہ قیامت بالکل ہی قریب ہو } الاحزاب ( 63 ) ۔
لوگ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کےوقت کے بارہ میں پوچھا کرتے ہیں تواللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ وہ انہیں کہيں کہ اس کا علم اللہ تعالی کے پاس ہے { آپ کہہ دیجیۓ کہ اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کےپاس ہے } ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اس آیت میں اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتا رہیں نہيں کہ آپ کے پاس قیامت کے بارہ میں کوئی علم نہیں ، اوراگر لوگ ان سے اس کے بارہ میں سوال کریں تو وہ ان کی راہنمائی کریں کہ اس کا علم تو صرف اللہ تعالی کے ہی پاس ہے ۔
دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 527 )
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :
یہ تو معلوم ہی ہے کہ انما حصر کا صیغہ ہے تواس طرح آیت کا معنی اس طرح ہوگا : قیامت کا علم تو صرف اللہ تعالی کو ہی ہے اس کے علاوہ کوئي اورنہیں جانتا ۔
دیکھیں اضواء البیان ( 6 / 604 )
3 - اورایک مقام پراللہ تبارک وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
{ لوگ آپ سے قیامت کےوقوع کے وقت کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق ؟ اس کے علم کی انتہاء تو اللہ تعالی کی جانب ہے ، آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کوآگاہ کرنے والے ہیں } النازعات ( 42- 45 ) ۔
شیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اوراس لیے کہ جب قیامت کے علم کے بارہ میں بندوں کےلیے کوئي دینی اورنہ ہی دنیاوی مصلحت تھی ، بلکہ ان کے لیے مصلحت تواسی میں تھی کہ ساری مخلوق سے اس کا علم چھپایاجائے
اوراسے اللہ تعالی اپنے ہی پاس رکھے تواللہ تعالی نے اس کے بارہ میں فرمایا :
{ اس کے علم کی انتہاء تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے } ا ھـ
4 - اورایک مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
{ بلاشبہ قیامت کا علم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے اوروہی بارش نازل فرماتا ہے اورماں کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسے بھی وہی جانتا ہے } لقمان ( 34 ) ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( غیب کی پانچ کنجياں ہیں
( قیامت کا علم اللہ تعالی ہی کے پاس ہے ، اوروہی بارش نازل فرماتا ہے ، اورجوکچھ ماں کے پیٹ میں ہے اسے بھی وہی جانتا ہے ، اورکسی نفس کو یہ علم نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا ، اورنہ ہی کسی نفس کو یہ علم ہے کہ وہ کونسی جگہ پر مرے گا ، یقینا اللہ تعالی علم رکھنے والا اورخبر دار ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4627 ) ۔
اورعبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہيں کہ یہ پانچ چيزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالی کے علاوہ کوئي اورنہيں جانتا ، اسے نہ تو کوئي مقرب فرشتہ ہی جانتا ہے اور نہ ہی کوئي نبی مرسل اس کا علم رکھتا ہے ، لھذا جو بھی ان اشیاء میں سے کچھ جاننے کادعوی کرے اس نے قرآن مجید کی مخالفت کی وجہ سے کفرکا ارتکاب کررہا ہے ۔
دیکھیں تفسیر القرطبی ( 4 / 82 ) ۔
اورحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
وہ وہ مفاتیح الغیب ہیں جن کا علم اللہ تعالی نے اپنے پاس ہی رکھا ہے اللہ تعالی کے بتائے بغیر اس کا علم کسی کو بھی نہیں ہوسکتا ، نہ تو قیامت کے وقت کا علم کسی نبی مرسل کو ہے اورنہ ہی کسی مقرب فرشتے کو ۔ اھـ
دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 462 )
وہ احاديث جن میں یہ بیان کیا گيا ہے کہ قیامت کا علم اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو نہیں :
1 - وہ حدیث جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے میں ہے کہ :
جبریل علیہ السلام نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا تھا :
( جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ قیامت کے بارہ میں سائل سے زيادہ علم نہیں رکھتا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 8 ) ۔
2 - جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی موت سے ایک ماہ قبل یہ فرماتےہوئے سنا :
( تم مجھ سے قیامت کے بارہ میں سوال کرتے ہو ، اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے ، میں اللہ تعالی کی قسم اٹھا کرکہتا ہوں کہ زمین پر زندہ رہنے والی چيز پر سوسال نہيں آئيں گے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2538 ) ۔
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ :
اس حدیث کا معنی یہ نہیں کہ سوبرس سے قبل ہی قیامت قائم ہوجائے گی بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اس وقت جو بھی روئے زمین پرپائي جانے والی ہرجاندار چيز سو برس سے زيادہ زندہ نہیں رہے گی اور سو برس کے قبل ہی اسے موت آجائے گی ۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں ابن عمررضي اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی مراد یہ تھی کہ اس سے وہ صدی ختم ہوجائے گی ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2537 ) ۔
تواس حدیث سے یہ احتمال بھی ختم ہوجاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیامت کا علم تھا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل علیہ السلام نے یہ سوال ایک ماہ قبل کیا تھا ۔
لھذا جو شخص بھی یہ خیال رکھے اوراس کا گمان ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے وقوع ہونے کے وقت کا علم تھا وہ جاھل ہے ، کیونکہ اوپر بیان کی گئي قرآنی آیات اوراحادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا رد کررہی ہیں ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المنار المنیف میں کہتے ہيں :
ہمارے دور میں علم کا دعوی کرنے والے کچھ لوگ سفید اورکھلا جھوٹ بول رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے قائم ہونے کا وقت معلوم تھا ، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبریل علیہ السلام میں تو یہ فرمایا ہے کہ :
( جس سے سوال کیا جارہا ہے اسے اس کے بارہ میں سائل سے زيادہ علم نہیں ) ۔
اپنے آپ کو عالم کہنے والے اس میں تحریف کرکے یہ کہتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ :
میں اور توہم دونوں ہی جانتے ہیں ۔ یہ تو سب سے بڑي جہالت اورسب سےزيادہ قبیح تحریف ہے ، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جسے ایک اعرابی خیال کررہے ہوں اسے یہ کہیں کہ میں اورتو ہم دونوں ہی قیامت کے وقت کو جانتے ہیں ۔
لیکن یہ جاہل کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ وہ جبریل علیہ السلام ہیں ، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے مندرجہ ذیل فرمان میں یہ کہہ رہے ہيں کہ :
( اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جبریل علیہ السلام جس شکل میں میرے پاس آئے میں نے انہیں پہچان لیا لیکن اس( اعرابی کی ) شکل میں نہیں پہچان سکا ) مسند احمد ، شیخ احمد شاکر رحمہ
اللہ تعالی کہتے ہيں کہ اس کی اسناد صحیح ہے ۔۔۔۔
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دیر بعد یہ علم ہوا کہ یہ جبریل علیہ السلام تھے ،
جیسا کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :
میں کچھ دیر ٹھرا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے عمر تجھے معلوم ہے کہ یہ سائل کون تھا ؟ ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 8 ) ۔
اوریہ جاہل و محرف کہتا ہے کہ سوال کے وقت ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہوچکا تھا کہ یہ جبریل علیہ السلام ہیں ، لیکن آپ نے اپنے صحابہ کرام کو کچھ دیرے کے بعد بتایا کہ وہ جبریل علیہ السلام تھے ۔
پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
( جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ سائل سے زيادہ علم نہیں رکھتا ) ہر سائل اورہر مسئول کے لیے عام ہے ، اس لیے کہ قیامت کے متعلق ہرسائل اورجس سے سوال کیا جارہا ان کی حالت ایک جیسی ہے ۔ ا ھـ
کچھ کمی و بیشی اوراختصار کے ساتھ ۔
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
کتاب وسنت میں اس کے دلائل بھرے پڑے ہيں کہ قیامت کا علم غیب ہے کسی بھی مخلوق کا اس کا علم نہيں ذیل میں ہم اس کے دلائل پیش کرتے ہیں