Pages

Monday, July 17, 2017

ماہ شوال کي خصوصيات اور فضائل


آپ سب کو معلوم ہے کہ سال کے بارہ مہينے ہيں اور ہر مہينہ کي کچھ نہ کچھ خصوصيات ہيں ، جن کي بنا پر اللہ تعالي نے انہيں دوسرے مہينے سے ممتاز کيا ہے ، يہ مہينہ شوال کا ہے ، شوال ہجر ي سال کا دسواں مہينہ ہے ، اس ماہ کي بہت سي خصوصيات اور فضائل ہيں،

ان ميں سے ايک اہم خصوصيت يہ ہے کہ اس کي پہلي تاريخ يعني يکم شوال کو مسلمانوں کي دو شرعي عيدوں ميں پہلي عيد يعني عيد الفطر کا دن ہونے کا شرف حاصل ہے ، يہي وہ دن ہے جس ميں مسلمان مرد ، عورتيں اور بچے غسل کر کے اچھے کپڑے پہن کر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر اللہ کبر وللہ الحمد کي صدائے دلنواز بلند کرتے اور اللہ جل شانہ کي کبريائي کے گيت گاتے ہوئے عيد گاہ جاتے ہيں ، وہاں دو رکعت عيد کي نماز ادا کرتے اور امام سے خطبہ سنتے ہيں ، پھر ايک دوسرے کو عيد کي مبارک بادياں ديتے اور ”تقبل اللہ منا ومنکم“کہتے دعوتيں کھاتے اورکھلاتے اور ہر طرح سے خوشياں مناتے ہيں۔

يہ دن در حقيقت روزہ دار کے انعام و بخشش کا دن ہے ، رمضان المبارک کا مہينہ در حقيقت ٹرينگ ، تربيت اور امتحان کا مہينہ تھا ، اور عيد کا دن اسي امتحان ميں کاميابي پر انعام لينے اور خوشي و جشن منانے کا دن ہے ، اور آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ طلبہ کو تعليم ، ٹريننگ اور امتحان کے ايام ميں زيادہ خوشي تقسيم انعام اور جشن کا دن ہوتا ہے ، اور يہ دن انہيں بڑا ہي محبوب اور پيارا ہوتا ہے ، امتحان اور تعليم و تربيت کے ايام ميں انہيں کوئي خوشي نہيں ہوتي ، کيونکہ ان ايام ميں انہيں زيادہ سے زيادہ محنت کرني ہوتي ہے ، اور نہيں يہ فکر ہوتي ہے زيادہ سے زيادہ محنت اور جد جہد کر کے اپنے اعلي مقصد کو حاصل کر ليں ، اور منزل مقصود تک پہونچ جائيں ، ليکن کاميابي کے بعد انعام و جشن کے دن تو وہ مارے خوشي کے پھولے نہيں سماتے ، حالانکہ اگر آپ ذرا گہرائي ميں جائيں اور ٹھنڈے دل سے غور کريں تو اس نتيجہ پر پہونچيں گے کہ افاديت اور معنويت کے اعتبار سے تعليم و تربيت اور ٹريننگ و مشق کے ايام کي ہميت انعام و جشن والے دن کي بہ نسبت زيادہ ہے ، اس واسطے کہ خوشي اور جشن تو ايک دن کے لئے ہے ، اگر تربيت و تعليم کے ايام ميں خوب محنت کي ہے اور واقعي اس کي تربيت اور ٹريننگ صحيح طريقے پر ہوئي ہے تو اس کے اثرات دير پا ہوں گے ، اور ان کے ثمرات سے وہ ہميشہ ہوتا رہے گا۔

ہم نے عيد کي خوشياں مناليں اور رمضان کے روزے مکمل کر کے ہم نے يہ سمجھا کہ امتحان بھي کامياب ہوگئے

مگر آئيے !!

ذرا غور کريں۔۔ کہ ايک ماہ کي ٹريننگ کا جو کورس تھا جس ميں ہميں روزوں کا مکلف کيا گيا تھا اور ايمان و اخلاص کے ساتھ روزے کي نيت سے کھانے پینے کو کرنے کو ترک کردينے اور جھوٹ ، غيبت ،گالي گلوج ، جنگ وجدال وغيرہ برائيوں سے اجتناب کرنے کي تاکيد تھي جس ميں نماز تروايح ، تلاوت کلام پاک ، آخري عشرہ ميں شب قدر کي تلاش و شب بيداري ، اعتکاف ، صدقہ و خيرات وغيرہ عبادتوں کے ذريعہ ہمارے اندر تقوي و پرہيز گاري پيدا کرنے ، نيک و صالح بنانے ، اور ہم ميں سال بھر کے لئے ان عبادتوں کا ذوق و شوق پيدا کرنے اور ان کي اہميت کو ہمارے دلوں ميں جاگريں کرنے کي کوشش کي گئي ، اور بتايا گيا کہ روزوں کي فرضيت کا اصل مقصد يہي تقوي شعاري ہے


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
(البقرہ: 183)

 اے لوگوں جو ايمان  لائے ہوتمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہيں جيسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم متقي اور پرہيزگار بن جاؤ ،


اور آپ جانتے ہيں کہ کسي بھي کورس ميں اصل کاميابي يہ ہے کہ اس کا جو مقصد ہے اس کي جو غايت ہو وہ حاصل ہوجائے ، صرف کورس مکمل کرنا اور پھر اس کي تکميل پر جشن منا لينا اصل کاميابي نہيں ہے ، اس ناحيے سے آئيے غور کريں کہ ہم نے رمضان کے روزے رکھ کر کورس پورا کر ليا ، اس کے بعد جشن اور عيد بھي منا لي

مگر ۔۔۔۔ !!!


کيا جو روزوں اوررمضان المبارک کي ديگر عبادتوں کا مقصد تھا وہ ہميں حاصل ہوگيا ، ؟

کيا جيسے ہماري مسجديں رمضان المبارک ميں پانچوں وقت نمازيوں سے بھري رہتي تھيں اسي طرح ابھي بھري رہتي ہيں ، ؟

کيا جيسے رمضان ميں ہم اور ہمارے اہل خانہ نے قرآن کي تلاوت کرتے تھے اسي طرح اب بھي قرآن کي تلاوت ہو رہي ہے ؟

کيا آج بھي تہجد اور نفلي نمازوں کا اہتمام جيسے پہلے تھا اسي طرح ہے ؟

کيا صدقہ وہ خيرات کا جو جذبہ ہمارے دلوں ميں رمضان ميں موجزن تھا وہ اب بھي ہے ، ؟

♡اگر ايسا ہے تو يقينا يہ ہماي بڑي خوش نصيبي کي بات ہے ،♡

کيونکہ ہم نے روزوں کا مقصد اصلي کو پاليا ہے اور ماہ رمضان کي عبادتوں کے حقيقي ثمرات سے بہرا مند ہو رہے


اور اگر ۔۔ !!

رمضان المبارک کو الوداع کہنے کے ساتھ ہم نے نماز ، روزہ ، صدقہ و خيرات ، تلاوت قرآن اور سب بيداري وغيرہ کو بھي الودع کہہ ديا تو اس کا مطلب يہ ہوا کہ اس عظيم الشان ماہ کي برکات و فيوض سے ہم محروم رہ گئے ، اور رمضان کے روزوں و ديگر عبادتوں کا اصل مقصد اس سے ابھي ہم دور ہيں ، اور بھوک و پياس ، تھکاوٹ ، اور شب بيداري کي زحمت کے سوا ہميں کچھ نہيں ملا۔

♡ روزے صرف رمضان کے ساتھ خاص نہيں،بلکہ دوسرے مہينوں ميں بھي روزے ہيں ، رسول اللہ پير اور جمعرات کے روزے رکھتے تھے ، اور فرماتے تھے ان دونوں دنوں ميں بندوں کے اعمال کي پيشي ہوتي ہے ، اور ميں چاہتا ہوں کہ جب ميرے اعمال پيش کئے جائيں تو ميں روزہ کي حالت ميں رہوں ، ہر ماہ تين دن کا روزوں کي بڑي فضيلت ہے ، عاشوراء کے روزے ہيں يوم عرفہ کا روزہ ہے ، شعبان کے روزے ہيں ، رمضان کے روزوں کي فرضيت ميں يہ پيغام اور اشارہ ہے کہ يہ ٹريننگ اس واسطے دي جارہي ہے تاکہ سال بھر ہم غفلت ميں نہ گزارديں ، بلکہ روزے کي روحانيت اور فيوض و برکات کو ہميشہ ياد رکھيں ، اور ہر مہينہ سے کچھ دن روزہ رکھ کر ايمان و تقوي اور اجر وثواب ميں اضافہ کريں ۔

♡ اسي طرح قيام الليل جسے رمضان ميں ترويح اور دوسرے ايام ميں تہجد کہتے ہيں رمضان کے ساتھ خاص نہيں ہے ، بلکہ تہجد اور قيام سال بھر کے لئے ہے ، اسي طرح دعائيں ، ذکر واذکار اور توبہ و استغفار کے لئے بھي پورا سال ہے ، قرآن کا نزول اگر چہ رمضان ميں ہوا مگر اس کي تلاوت کا اجر و ثواب ہر ماہ ميں برابر ہے ، اس کے مطالعہ اور درس و تدريس کي اہميت رمضان اور غير رمضان سب ميں ہے ، قرآن اللہ کي نازل کردہ مقدس کتاب بھي ہے ، اور پوري انسانيت کے لئے قيامت تک کے لئے دستور حيات اور قانون الہي بھي ہے ، اس واسطے رمضان کے بعد اسے غلاف ميں لپيٹ کر رکھ دينا قطعا درست نہيں ، اسے سال بھر پڑھنا چاہئے ، اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہئے ، صدقہ وخيرات کا حکم اور فضيلت اور اہميت سال بھر کے لئے ہے ، اس واسطے جيسے رمضان ميں پوري کوشش ہوتي تھي کہ کوئي غريب و مسکين ہمارے پاس سے خالي ہاتھ نہ جائے اسي طرح ہميں سال بھڑ صدقہ و خيرات کرنا چاہئے ۔


ماہ شوال کي ايک دوسري خصوصيت

يہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد اگر کوئي اس ماہ ميں چھ روزے رکھ لے تواسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا ،

حضرت ابو ايوب انصاري سے روايت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا: ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْر ِ

(صحيح مسلم:3/ 169،كتاب الصيام باب استحباب صوم ستة أيام من شوال اتباعا لرمضان)

 جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اس نے گويا ہميشہ روزے رکھے،يعني اس کو پورے سال روزے رکھنے کا ثواب مل جائے گا ،


اس سے معلوم ہوا کہ شوال کے چھ روزے مسنون ہيں ، اور ان کي بڑي فضيلت ہے ۔

شوال کے ان روزوں کو عيد کے بعد ايک ساتھ بھي رکھ سکتے ہيں اور متفرق طريقے پر بھي ، اور عيد کے دن کو چھوڑ کر شروع سے لے کر آخري شوال تک کسي بھي وقت روزہ رکھ سکتے ہيں ، کيونکہ ان احاديث ميں اس طرح کي کوئي قيد نہيں ہے کہ انہيں مسلسل رکھے جائيں يا عيد کے فوارا ان کا اہتمام کيا جائے ،بلکہ

ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّال " ہے يعني پھر شوال کے چھ روزے رکھے اور يہ ان تمام صورتوں کو عام ہے ، البتہ عيد کا دن مسلمانوں کے تہوار اور خوشي و مسرت کا دن ہے ان کے خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے کا دن ہے اس لئے اس دن روزہ رکھنا حرام ہے ،

حضرت ابو سعيد خدري رضی اللہ عنہ سے روايت ہے:

نَهَى النَّبِيُّ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَالنَّحْر

(صحيح البخاري:3/55،كتاب الصوم باب صوم يوم الفطر،صحيح مسلم:3/152،کتاب الصيام باب النهى عن صوم يوم الفطر ويوم الأضحى)

رسول اللہ ﷺنے عيد الفطراور عيدقربان کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمايا

ايک روايت ميں ہے

وَلاَ صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى

(صحيح البخاري:3/56،كتاب الصوم باب الصوم يوم النحر ،صحيح مسلم:3/152، کتاب صلاة المسافرىن وقصرها باب الأوقات التى نهى عن الصلاة فىها)

رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے فرمايا: دو دن ميں روزہ نہيں ہے ، عيد الفطر کے دن اور عيد الاضحي کے دن ۔

Thursday, June 15, 2017

ریان جنت کا دروازہ

  جنت میں بعض مخصوص اعمالِ صالحہ کے اعتبار سے آٹھ دروازے ہیں جو شخص دنیا میں خلوص نیت سے ان میں جس عملِ صالح کا بھی خوگر ہوگا وہ جنت میں اسی عمل کے دروازے سے جائے گا
۔ ریان جنت کا وہ دروازہ ہے جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ : أَ يْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَيَقُوْمُوْنَ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقْ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ.

 بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب الريان للصائمين، 2 : 671، رقم :  1797

’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا :  روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘


ریان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں محدّث ملا علی قاری فرماتے ہیں :  یا تو وہ بنفسہ ریان ہے کیونکہ اس کی طرف کثیر نہریں جاری ہیں اور اس کے قریب تازہ اور سر سبز و شاداب پھل پھول بکثرت ہیں۔ یا قیامت کے دن اس کے ذریعے سے لوگوں کی پیاس مٹے گی اور ترو تازگی و نظافت چہرے پر ہمیشہ رہے گی۔

 ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح فی مشکاة المصابيح، 4 : 230

Friday, June 2, 2017

"وقفِ عثمان بن عفّان" کی کہانی جس کا کنواں 1400 برس سے جاری


"العربیہ ڈاٹ نیٹ" کی ٹیم نے مدینہ منورہ میں واقع "بئرِ رومہ" کا دورہ کیا جو "بئرِ عثمان" کے نام سے مشہور ہے۔ 1400 برس پہلے دامادِ رسول اور خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس کنوئیں کو خرید کر قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے واسطے وقف کر دیا تھا۔
اس کنوئیں کے پانی سے آج بھی ملحقہ باغِ عثمان کو سیراب کیا جاتا ہے۔ یہ باغ سعودی وزارت زراعت کے زیرِ نگرانی ہے جس کی وجہ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود زائرین کو اس مقام میں داخل ہونے میں دشواری پیش آتی ہے۔

رومہ کنویں کی کہانی


"بئرِ رومہ" ایک صحابی کی ملکیت میں تھا جن کا نام "رومہ الغفاری" (رضی اللہ عنہ) تھا۔ وہ اس کنوئیں کا پانی فروخت کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول صلى الله عليه وسلم نے اُن سے فرمایا کہ " کیا تم اس کنوئیں کو جنت کے چشمے کے بدلے فروخت کرو گے"۔ انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ میرے پاس اس کے سوا کوئی کنواں ہے نہیں لہذا میں ایسا نہیں کر سکتا۔
اس پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے 35 ہزار درہم کے عوض اس کنوئیں کو خرید لیا۔ اس کے بعد اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا کہ اگر میں اس کنوئیں کو خرید لوں تو کیا میرے لیے بھی جنت کے چشمے کی وہ ہی پیش کش ہو گی جو آپ نے رومہ کو فرمائی تھی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا "ہاں".. اس پر حضرت عثمان نے کہا "میں اس کو مسلمانوں کے واسطے خرید چکا ہوں"۔

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نام سے وقف

اس طرح کی بہت سے باتیں مشہور ہیں کہ کئی لوگوں نے مدینہ منورہ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نام سے مختلف چیزوں کو وقف کر رکھا ہے جن میں ایک ہوٹل اور ایک بینک اکاؤنٹ شامل ہے۔
اس حوالے سے سیرت نبوی اور مدینہ منورہ کے آثاریات کے محقق عبداللہ کابر نے واضح کیا کہ صحابی ِ رسول عثمان بن عفان کے لیے وقف کی نسبت میں معلومات کا خلط ملط ہے۔
کابر کے مطابق حضرت عثمان نے "بئرِ رومہ" کو تمام مسلمانوں کے واسطے روزِ قیامت تک وقف کر دیا۔
بینک میں حضرت عثمان بن عفان کے نام سے اکاؤنٹ کے حوالے سے کابر نے واضح کیا کہ مسجد نبوی شریف کی مشرقی سمت حضرت عثمان کا ایک گھر موجود ہے۔ اس گھر کے پڑوس میں ایک سرائے بھی تھی جو "رباط العجم" کے نام سے معروف تھی۔ اس وقف کے مالکان نے یہ پسند کیا کہ اسے "وقف سیدنا عثمان بن عفان" کا نام دے دیا جائے کیوں کہ یہ سرائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے پڑوس میں تھی۔

کابر نے مزید بتایا کہ " جب سعودی دور میں دوسری توسیع ہوئی تو اس دوران حرمِ نبوی کی مشرقی سمت یہ عمارتیں ختم کر دی گئیں۔ اس موقع پر زرِ تلافی کا بینک میں وقفِ عثمان بن عفان کے نام سے اندراج کیا گیا۔ بینک کے ملازمین یہ گمان کر بیٹھے کہ مذکورہ سرائے کے زرِ تلافی کے طور پر اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی کروڑوں کی رقم وقف عثمان (بئرِ رومہ) کے واسطے ہے"۔
عبداللہ کابر نے مزید بتایا کہ کنواں اب بھی موجود ہے اور وہاں سے ابھی تک میٹھا پانی حاصل ہوتا ہے۔ اس کے گرد کھجوروں کا باغ اور ایک فارم بھی ہے۔



سائن بورڈ پر بنیادی نوعیت کی معلومات

"العربیہ ڈاٹ نیٹ" کی ٹیم کے دورے کے دوران یہ بات پھر سے سامنے آئی کہ بئرِ عثمان ایک اہم زرعی علاقے میں واقع ہے۔ یہ بے توجہی کا شکار ہے جب کہ اس کے گرد علاقے کو متعدد شعبوں میں کام میں لایا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی اس کنوئیں کو ماضی کی حالت پر واپس لا کر ایک اہم سیاحتی مقام بنایا جا سکتا ہے۔
وزارت زراعت نے اس مقام کی بندش کی ہوئی ہے اور کنوئیں کے قریب اس مشہور مقام کے حوالے سے کوئی معلومات دستیاب نہیں سوائے شاہراہ عام پر نصب ایک سائن بورڈ کے جس پر بنیادی نوعیت کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مذکورہ مقام کو مدینہ منورہ کے زائرین کے سامنے سیاحتی مقام کے طور پر پیش کیا جائے اور اس جگہ کو اقتصادی ، سیاحتی ، زرعی اور مذہبی تناظر میں پھر سے زندگی بخشی جائے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ ـ محمد الحربی

Wednesday, May 31, 2017

رمضان اور روزہ دار کا اخلاق

اسلام جیسی عظیم نعمت کی نوازش پر تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہےساری کی ساری بادشاہی اسی کی ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، ان پر افضل ترین درود و سلام ہوں۔

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اسی بارے میں ارشادِ ربانی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو[71] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی
الأحزاب: 70، 71

اسلام میں نماز ، روزہ، زکاۃ ، حج وغیرہ دیگر عبادات فرض ہیں جنکے بہت بڑے بڑے مقاصد ہیں، جو سارے کے سارے تہذیبِ نفس ، تزکیہ قلب، طہارتِ اعضاء اور انسان کو بلند اخلاقی اقدار کی جانب لے جاتے ہیں۔
ان عبادات میں رمضان المبارک کی عظیم الشان عبادات بھی شامل ہیں، چنانچہ رمضان المبارک میں روزے، قیام اللیل ، افطاری کروانے سے ایک مسلمان کی ایسے انداز سے تربیت ہوتی ہے جن کے ذریعے وہ اخلاقیات کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے، چنانچہ اللہ عز وجل نے فرمایا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے (اور اس کا مقصد یہ ہے) کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو 
البقرة: 183

اور حقیقتِ تقوی، قول و فعل اور چال چلن کو اخلاقِ حسنہ اور اچھی صفات کے لبادہ میں پیش کرنے کا نام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، اگر گناہ ہو جائے تو نیکی ضرور کرو یہ نیکی اس گناہ کو مٹا دے گی، اور لوگوں سے اچھے اخلاق کیساتھ پیش آؤ)

انسان کی کامیابی ہر وقت اور ہر جگہ اچھے اخلاق، اچھے کام اور اچھے گفتار میں پنہاں ہے، اسی لئے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آ پ سے جنت میں سب سے زیادہ داخل کرنے والے اعمال کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: (اللہ کا ڈر، اور اچھا اخلاق) پھر آپ سے جہنم میں سب سے زیادہ داخل کرنے والی اشیاء میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: (زبان اور شرمگاہ) ترمذی نے روایت کیا اور کہا: یہ "حسن صحیح ہے"

چنانچہ اسلام اپنے ماننے والوں سے اخلاقِ حسنہ کا مطالبہ کرتا ہے، کہ اسکے سارے معاملات اچھی صفات سے مزین ہوں، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کامل ترین ایمان کا حامل مؤمن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے، تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کیلئے بہتر ہو) ترمذی نے روایت کیا ، اور کہا :"یہ حسن صحیح ہے"
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (مؤمن اپنے اچھے اخلاق کے باعث نفلی روزے اور نفلی قیام کرنے والے شخص کا درجہ پا لیتا ہے) ابو داود نے اسے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا۔
مخلوقات میں کامل ترین اور افضل ترین شخصیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جنکی اللہ تعالی نے یوں تعریف بیان کی 
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ اور بیشک آپ انتہائی عظیم اخلاق کے مالک ہیں 
[القلم: 4]

اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوب ترین شخصیت اور قیامت کے دن آپکے قریب ترین مقام پانے والے خوش نصیب بھی یہی لوگ ہونگے چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے محبوب ترین اور قیامت کے دن میرے قریب تر وہ لوگ ہیں جو اچھے اخلاق کے مالک ہیں) ترمذی نے اسے روایت کیا اور کہا: "یہ حدیث حسن ہے"

عبادات کیلئے اللہ تعالی سے بلند ترین اخلاقِ حسنہ اور صفاتِ جمیلہ کی توفیق مانگو، پھر انہی عبادات سے مکمل طور پر ذوقِ سلیم بھی حاصل کرو، اور اپنی زندگی کو پیار و محبت کے رنگوں سے بھرنے کیلئے ہر اچھے کام اور اچھی بات لینے کی کوشش کرو، جب یہ کام کرنے میں کامیاب ہوجاؤ گے تو تمہاری زندگیوں میں محبت و مودّت سرایت کر جائے گی، آپس میں ملنے جلنے کا معیاِر بلند ہوجائے گا، زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط اصلاح کے بعد بہترین ہو جائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے انہی بلند اخلاقی اقدار کو مسلمانوں پر واجب کیا ہے جبکہ قرآن نے انہی اقدار کو فرض قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا: وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا اور لوگوں کیلئے اچھی بات کہو 
[البقرة: 83]

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! فلاں خاتون کا بہت زیادہ نفلی نماز ، روزوں اور صدقہ خیرات کے ساتھ ذکر کیا جاتاہے لیکن وہ اپنے پڑوسی کو زبان سے تکلیف دیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ جہنمی ہے)۔ پھرا س نے کہا: یا رسول اللہ! ایک دوسری خاتون کا بہت کم نفلی نماز ، روزہ اور صدقہ کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، وہ صدقہ میں تھوڑی سی پنیر دے دیتی ہے ، لیکن اپنے ہمسائے کو زبان سے تکلیف نہیں دیتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ جنتی ہے) احمد نے اور امام بخاری نے "ادب المفرد" میں روایت کیا ہے۔

اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ داروں کو ان اہداف ِ عبادات کے منافی امور سے دور رہنے کی ترغیب دلائی، چنانچہ فرمایا: (جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو بےہودہ ، اور بے شرمی کی باتیں مت کرے ، پھر بھی اگر کوئی اسے گالی گلوچ دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو یہ کہہ دے: "میں روزہ دار ہوں")

جی ہاں مسلمانو! فحاشی عبادت گزار، اور نیکو کار لوگوں کا شیوا نہیں، ایسے ہی بلا وجہ سختی عباد الرحمن کی صفات میں سے نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے غلط باتیں اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اسکے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں)
صحابہ کرام نے ان عظیم مقاصد کو سمجھتے ہوئے انہیں اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنایااور ان پر عمل بھی کیا۔
جابر کہتے ہیں: "جب تم روزہ رکھو تو تمہارے ساتھ کان، آنکھ ، اور زبان کا جھوٹ اور حرام کاموں سے روزہ ہونا چاہئے، پڑوسی کو تکلیف مت دو، اپنے آپ کو پرسکون اور صاحبِ وقار بناؤ، تمہارےروزے کا دن دیگر ایام سے یکسر مختلف ہو "
خوش قسمت وہی ہے جو رحمن کی عبادت کرتا ہے، اچھے اخلاق کا مالک ہے، اور آگ سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر اچھے اخلاق اور کام کی توفیق دے ۔

اخلاقِ حسنہ ، ان صفاتِ سلوک کا نام ہے جنہیں اسلام نے ضروری قرار دیا ہے، اور پھر ان پر ثوابِ عظیم بھی عنائت کیا، دوسرے لفظوں میں اسکا مطلب یہ ہے کہ: انسان ہر اچھے قول و فعل کو اپنائے، یعنی: فضیلت والے کاموں سے مزین ہو اور برے کاموں سے اپنے آپ کو بچائے۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی ماہیت کو اپنے ان الفاظ میں کھول کر رکھ دیا: "نیکی ہی اچھا اخلاق ہے"
"البِرّ" یعنی نیکی: ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے، جو اچھے قول و فعل، چال چلن اور منہج سے تعلق رکھے۔

اللہ تعالی نے ہمیں ایک بہت ہی عظیم کام کا حکم دیا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا ہے: یا اللہ! ہمارے حبیب ، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ، ہمارے نبی سیدنا محمد پر درود و سلام بھیج ، یا اللہ! ان پر انکی آل پر اور انکے تمام صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔

یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما۔
یا اللہ! ہم سب کو اس مبارک مہینے میں جہنم کی آگ سے آزاد فرما، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو معاف فرما، یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، اور تمام مسلمانوں کی توبہ قبول فرما۔
یا اللہ ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عنائت فرما، ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچا۔

یا اللہ! مسلمانوں کو امن وامان نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو امن وامان نصیب فرما،یا اللہ! سب میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! ان میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا حیی یا قیوم! یا اللہ! انکے دکھ ، درد تکلیف سب دور فرما۔

یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا نصیب فرما، یا تمام مقروض لوگوں کے قرضے ختم فرما۔
یا اللہ، یا حیی یا قیوم! ہمارے حکمران کی حفاظت فرما، اور اسے ہر اچھے کام کی توفیق دے۔


اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو، ہماری آخری بات یہی ہے کہ تمام تعریفات اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔

میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کےتمام گناہوں اور خطاؤں کی بخشش چاہتا ہوں،تم بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو،یقینا وہ توبہ و استغفار کرنے والوں کے معاف کرنے والاہے۔

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ
خطبہ جمعہ بعنوان "رمضان اور روزہ دار کا اخلاق

Monday, May 29, 2017

ماہِ رمضان المبارک تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ


رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وبرکات کا سیلاب آتا ہے اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں، مگر ہم لوگ اس مبارک مہینے کی قدرومنزلت سے واقف نہیں، کیونکہ ہماری ساری فکر اور جدوجہد مادّیت اور دنیاوی کاروبار کے لیے ہے، اس مبارک مہینے کی قدردانی وہ لوگ کرتے ہیں جن کی فکر آخرت کے لیے اور جن کا محور مابعد الموت ہو۔ آپ حضرات نے یہ حدیث شریف سنی ہوگی، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وبَلِّغْنَا رَمَضَانَ، (شعب الایمان۳/۳۷۵، تخصیص شہر رجب بالذکر) ترجمہ: اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجیے، یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردیجیے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے۔
آپ غور فرمائیں کہ رمضان المبارک آنے سے دو ماہ پہلے ہی رمضان کا انتظار اوراشتیاق ہورہا ہے، اوراس کے حاصل ہونے کی دعا کی جارہی ہے، یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس کے دل میں رمضان کی صحیح قدروقیمت ہو۔
رمضان کے معنی
”رمضان“ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”جھُلسادینے والا“ اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتے ہیں اورمعاف فرمادیتے ہیں، اس لیے اس مہینے کو ”رمضان“ کہتے ہیں۔ (شرح ابی داؤد للعینی۵/۲۷۳)
رمضان رحمت کا خاص مہینہ
اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لیے عطا فرمایا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے، روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، تو رمضان المبارک میں آ دمی اللہ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیادور شروع ہوجائے، جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعداس کی سروس اور صفائی کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سروس کے لیے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا۔
روزے کا مقصد
روزے کی ریاضت کا بھی خاص مقصد اور موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اورایمانی وروحانی تقاضوں کی تابعداری وفرماں برداری کا خوگر بنایاجائے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالی جائے اور چوں کہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے، اگرچہ روزوں کی مدت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، قرآنِ کریم میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (سورة البقرہ آیت ۱۸۳) ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے (روزوں کا یہ حکم تم کو اس لیے دیا گیا ہے) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
کیوں کہ یہ بات یقینی ہے کہ نفس انسانی انسان کو گناہ، نافرمانی اور حیوانی تقاضوں میں اسی وقت مبتلاکرتا ہے جب کہ وہ سیراور چھکاہوا ہو، اس کے برخلاف اگر بھوکا ہوتو وہ مضمحل پڑا رہتا ہے اور پھر اس کو معصیت کی نہیں سوجھتی، روزے کا مقصد یہی ہے کہ نفس کو بھوکا رکھ کر مادّی وشہوانی تقاضوں کو بروئے کار لانے سے اس کو روکا جائے تاکہ گناہ پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سُسْت پڑجائے اور یہی ”تقویٰ“ ہے۔
اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ عالم بالا کی پاکیزہ مخلوق (فرشتے) نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں اورنہ بیوی رکھتے ہیں، جبکہ روزہ (صبح صادق سے غروب آفتاب تک) انہی تین چیزوں (کھانا، پینا اور جماع) سے رکنے کا نام ہے، تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کا حکم دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم ان تینوں چیزوں سے پرہیز کرکے ہماری پاکیزہ مخلوق کی مشابہت اختیار کروگے تو ہماری اس پاکیزہ مخلوق کی پاکیزہ صفت بھی تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی اور وہ صفت ہے: لاَیَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوٴْمَرُوْنَ۔ (سورئہ تحریم) ترجمہ: وہ (فرشتے) خداکی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیاجاتا ہے اس کو فوراً بجالاتے ہیں۔ (بیان القرآن) اور اسی کاحاصل ”تقویٰ“ ہے۔
تقریباً اسی بات کو اس حدیث شریف میں بھی فرمایاگیاہے جو ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لِکُلِّ شَیْءٍ زَکوٰةٌ وَزَکوٰةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔ (ابن ماجہ ص۱۲۵) ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے اور بدن کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ”روزہ“ ہے۔
بہرحال روزے کا مقصد تقویٰ ہے، اسی تقویٰ کے حصول کے لیے اس آخری امت پر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکھا گیا اور یہ زمانہ اِس دور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت وتربیت کے مقصد کے لیے بالکل مناسب اورنہایت معتدل مدت اور وقت ہے۔ پھر اس کے لیے مہینہ وہ مقرر کیاگیا جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (شبِ قدر) ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور موزوں زمانہ ہوسکتاتھا، اسی کے ساتھ ساتھ اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیاگیا جس کو ”تراویح“ کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس مبارک مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور ان دونوں عبادتوں کے احادیث شریفہ میں بہت زیادہ فضائل ارشاد فرمائے گئے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ وَمَنْ قَامَ رَمضََانَ اِیْمَانًا وَّ احتِسَابًا غُفِرَ لَہ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ (صحیح بخاری ۱/۲۷۰، صحیح مسلم۱/۲۵۹) ترجمہ: جو شخص ماہِ رمضان کے روزے رکھے بحالت ایمان اور بامید ثواب تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جو شخص ماہِ رمضان میں کھڑاہو یعنی نوافل (تراویح وتہجد وغیرہ) پڑھے بحالت ایمان اور بامید ثواب اس کے بھی گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
تقویٰ کے حصول میں معاون چیزیں
لیکن صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ماہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیاجائے، اصل مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے، گزشتہ گیارہ مہینوں میں جو گناہ ہوئے ان کو معاف کراکر آئندہ گیارہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے استحضار اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا داعیہ اور جذبہ دل میں پیدا کیا جائے، جس کو ”تقویٰ“ کہا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک کی صحیح روح اوراس کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئے گا اور چلا جائے گا اور اس سے صحیح طور پر ہم فائدہ نہیں اٹھاپائیں گے، بلکہ جس طرح ہم پہلے خالی تھے ویسے ہی خالی رہ جائیں گے، اس لیے چند ایسی چیزوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن پر عمل کرکے ہمیں روزے کا مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(۱) عبادت کی مقدار میں اضافہ
رمضان المبارک کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عبادت کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے، دوسرے ایام میں جن نوافل کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ان کو اس مبارک ماہ میں پڑھنے کی کوشش کریں، مثلاً: مغرب کے بعد سنتوں سے الگ یا کم از کم سنتوں کے ساتھ چھ (۶) رکعت اوّابین پڑھیں۔ (جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ اوّابین افطار کی نذر ہوجاتی ہیں) عشاء کی نماز سے چند منٹ پہلے آکر چار رکعت یادو رکعت نفل پڑھیں۔ سحری کھانے کے لیے اٹھنا ہی ہے تو چند منٹ پہلے اٹھ کر کم از کم چار رکعت تہجد پڑھ لیں۔ اسی طرح اشراق کی نماز اور اگراشراق کے وقت نیند کا غلبہ ہوتو چاشت کی چند رکعتیں تو پڑھ ہی لیں۔ ظہر کے بعد دو سنتوں کے ساتھ دو رکعت نفل اور عصر سے پہلے چار رکعت نفل پڑھ لیں۔ کیوں کہ نماز کا خاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا رشتہ جوڑتی ہے اوراس کے ساتھ تعلق قائم کراتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، جیساکہ حضرت ابوہریرہ سے مروی حدیث شریف میں ہے: اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّہ وَہُوَ سَاجِدٌ (مسلم شریف حدیث ۱۱۱۱، باب ما یقال فی الرکوع والسجود) یعنی بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتاہے، تو گویا نماز کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم تحفہ عطا کیاہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین!
(۲) تلاوتِ قرآنِ کریم کی کثرت
دوسرا کام یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنا ہے، کیوں کہ رمضان المبارک کے مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت اور تعلق ہے، اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا، ارشادِ مبارک ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ، (سورئہ بقرہ آیت ۱۸۵) خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری شریف۱/۳، حدیث۶) تمام بزرگانِ دین کی زندگیوں میں یوں تو قرآنِ کریم میں اشتغال بہت زیادہ نظر آتاہے، لیکن رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی تلاوت کے معمول میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس مبارک مہینے میں ایک قرآنِ کریم دن میں، ایک رات میں اور ایک تراویح میں، اس طرح اکسٹھ (۶۱) قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ ماضی کے ہمارے تمام اکابر (حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا شاہ عبدالرحیم رائپوری، شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا یحییٰ کاندھلوی، مولانا محمد الیاس کاندھلوی، شاہ عبدالقادر رائپوری، شیخ الحدیث مولانا زکریا مہاجر مدنی، فقیہ الامت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہی، مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی، مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی، فدائے ملت مولانا سیداسعدمدنی وغیرہم) کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کریم کا معمول دیدنی ہوتا تھا۔ لہٰذا ہم کو بھی اس مبارک ماہ میں عام دنوں کے مقابلے میں تلاوت کی مقدار زیادہ کرنی ہے، عام آدمی کو بھی روزانہ کم از کم تین پارے پڑھنے چاہئیں، تاکہ پورے مہینے میں کم از کم تین قرآنِ کریم ختم ہوجائیں۔
(۳) تراویح میں قرآنِ کریم صحیح پڑھنے اور سننے کا اہتمام
اس مبارک مہینے میں ہرموٴمن کو اس بات کی بھی فکر کرنی ضروری ہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید صحیح اور صاف صاف پڑھا جائے، جلدی جلدی اور حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھنے سے پرہیز کیا جائے، کیوں کہ اس طرح قرآنِ کریم پڑھنا اللہ کے کلام کی عظمت کے خلاف ہے، نیز پڑھنے والے کو خود قرآنِ کریم بددعا دیتا ہے۔ (احیاء العلوم عن انس۱/۲۷۴، فی ذمّ تلاوة الغافلین) اس طرح قرآن کریم پڑھنے والا اور سننے والے سب گنہگار ہوتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ حافظ صاحب نہایت تیزگامی کے ساتھ حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھتے چلے جارہے ہیں، ایک سانس میں سورئہ فاتحہ کو ختم کردیا جاتا ہے ، صحیح طریقے سے رکوع، سجدہ اور تشہد ادا نہیں ہورہا ہے، چالیس پینتالیس منٹ میں پوری نماز ختم، اب گھنٹوں مجلسوں میں بیٹھ کر گپ شپ ہورہا ہے اورحافظ صاحب وسامعین میں سے کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے قرآنِ کریم کی توہین میں کتنا حصہ لیا اور رمضان کی مبارک ساعتوں میں کتنی بے برکتی اور قرآن کریم کی کتنی بددعا لی؟ خدا را اس صورتِ حال سے بچئے اور اس مبارک مہینے میں برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کو اپنے اوپر بند نہ کیجیے اور صاف صحیح قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کرکے دارین کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔
(۴) استغفار کی کثرت
چوتھا کام یہ کرنا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہے، حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کی پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ”آمین“ فرمایا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پوچھنے پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل امین علیہ الصلاة والسلام میرے سامنے آئے تھے اورجب میں نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو انھوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، الیٰ آخر الحدیث (مستدرک حاکم ۴/۱۷۰، کتاب البر والصلة، الترغیب والترہیب ۲/۵۶)
ظاہر ہے کہ اس شخص کی ہلاکت میں کیا شبہ ہے جس کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام بددعا کریں اورحضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہیں، اس لیے اس مبارک مہینے میں نہایت کثرت کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرے۔
(۵) دعا کا اہتمام
رمضان المبارک کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں کا اہتمام بھی لازم ہے، بہت سی روایات میں روزے دار کی دعا کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ثَلٰثَةٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُہُمْ اَلصَّائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ، الحدیث۔ (ترمذی شریف ۲/۲۰۰، حدیث ۳۵۹۸، مسند احمد حدیث ۹۷۴۳) ترجمہ: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) ایک روزے دار کی افظار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم کی بددعاء، اس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھالیتے ہیں اورآسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اورارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو(کسی مصلحت سے) کچھ دیر ہوجائے۔
بہرحال یہ مانگنے کا مہینہ ہے، اس لیے جتنا ہوسکے دعا کا اہتمام کیا جائے، اپنے لیے، اپنے اعزہ واحباب اور رشتے داروں کے لیے، اپنے متعلقین کے لیے، ملک وملت کے لیے اور عالم اسلام کے لیے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(۶) صدقات کی کثرت
رمضان المبارک میں نفلی صدقات بھی زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا دریا پورے سال ہی موجزن رہتا تھا، لیکن ماہِ رمضان المبارک میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت ایسی ہوتی تھی جیسے جھونکے مارتی ہوئی ہوائیں چلتی ہیں (بخاری شریف ۱/۳) جو شخص بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اس کو ضرور نوازتے۔ لہٰذا ہم کو بھی اس بابرکت مہینے میں اس سنت پر عمل کرتے ہوئے صدقات کی کثرت کرنی چاہیے۔
(۷) کھانے کی مقدار میں کمی
ساتویں چیز جس کالحاظ رمضان المبارک کے مقصد کو حاصل کرنے میں معاون ہے ”کھانے کی مقدار میں کمی کرنا“ ہے، کیوں کہ روزے کا مقصد قوتِ شہوانیہ وبہیمیہ کا کم کرنا اور قوتِ ملکیہ ونورانیہ کا بڑھانا ہے، جب کہ زیادہ کھانے سے یہ غرض فوت ہوجاتی ہے، بقول شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افظار کے وقت تلافیٴ مافات میں (کہ پورے دن بھوکا رہا)اور سحر کے وقت حفظ ماتقدم میں (کہ پورے دن بھوکا رہناہے) اتنی زیادہ مقدار میں کھالیتے ہیں کہ بغیر رمضان کے بھی اتنی مقدار کھانے کی نوبت نہیں آتی جس کی وجہ سے کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں، حقیقتاً ہم لوگ صرف کھانے کے اوقات بدلتے ہیں یعنی افظار میں، تراویح کے بعد اور پھر سحری میں، اس کے علاوہ کچھ بھی کمی نہیں کرتے، بلکہ مختلف قسم کی زیادتی ہی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے قوتِ شہوانیہ و بہیمیہ کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہے اورمقصد کے خلاف ہوجاتاہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا مَلَأ اٰدَمِیٌّ وِعَاءً شَرَّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ اٰدَمَ اُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہ فَاِنْ کَانَ لاَ مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہ وَثُلُثٌ لِنَفسِہ۔ (ترمذی شریف ۲/۶۰) یعنی اللہ تعالیٰ کو کسی برتن کا بھرنا اتنا ناپسند نہیں جتنا پیٹ کا بھرنا ناپسند ہے،ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے کمرسیدھی رہے، اگر زیادہ ہی کھانا ہے تو ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے رکھے۔ البتہ اتنا کم نہ کھائے کہ عبادات کے انجام دینے میں اور دوسرے دینی کاموں میں خلل واقع ہو۔
(۸) گناہوں سے پرہیز
رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے، یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ گئے اور فحش وگندی فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَةٌ فِیْ اَن یَّدَعَ طَعَامَہ وَشَرَابَہ۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۵) ترجمہ: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے، اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔ (معارف الحدیث۴/۰۰۰۰)
ایک اور حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ صِیَامِہ اِلَّا الْجُوْعُ وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ قِیَامِہ اِلَّا السَّہْرُ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث ۱۶۹۰۔ سنن نسائی حدیث ۳۳۳۳) ترجمہ: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر گناہوں (غیبت وریا وغیرہ) سے نہ بچے تو روزہ، تراویح اور تہجد وغیرہ سب بیکار ہے۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَالَمْ یَخْرِقْہَا۔ (نسائی شریف حدیث ۲۲۳۳، مسند احمد حدیث ۱۶۹۰) ترجمہ: روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ یعنی روزہ آدمی کے لیے شیطان سے، جہنم سے اور اللہ کے عذاب سے حفاظت کا ذریعہ ہے، جب تک گناہوں (جھوٹ وغیبت وغیرہ) کا ارتکاب کرکے روزے کو خراب نہ کرے۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ایک حدیث شریف میں ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی شخص بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ کرنے کی کوشش کرے تو روزے دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ یعنی میں ایسی لغویات میں پڑکر روزے کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۴، حدیث ۱۸۹۴، صحیح مسلم حدیث ۱۱۵۱)
ان تمام احادیث شریفہ کا مدعا یہ ہے کہ روزے کے مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے معصیات ومنکرات سے پرہیز نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر تقوے کی سعادت سے متمتع نہیں ہوسکتا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین!

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7‏-8 ، جلد: 99 ‏، رمضان