اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ
1۔ ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَيْبَ ج فِيْهِ ج هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَo
(البقرۃ، 2 : 2)
’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘
2۔ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی ج وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
(البقرۃ، 2 : 189)
’’اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘
3۔ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یٰٓـاُولِی الْاَلْبَابِo
(البقرۃ، 2 : 197)
’’اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو بے شک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو‘‘
4۔ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَo
(البقرۃ، 2 : 203)
’’اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تم سب کو اسی کے پاس جمع کیا جائے گا‘‘
5۔ یٰٓـایُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo
(البقرۃ، 2 : 278)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو‘‘
6۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo
(آل عمران، 3 : 102)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو‘‘
7۔ وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَo
(آل عمران، 3 : 133)
’’اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘
8۔ ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِيْنَo
(آل عمران، 3 : 138)
’’یہ قرآن لوگوں کے لیے واضح بیان ہے اور ہدایت ہے اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے‘‘
9۔ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo
(آل عمران، 3 : 186)
’’اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ اختیار کیے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں سے ہے‘‘
10۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
(آل عمران، 3 : 200)
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو‘‘
11۔ وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص وَاتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِo
(المائدۃ، 5 : 2)
’’اور نیکی اور پرہیزگاری ( کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے‘‘
12۔ وَاتَّقُوا اللهَ ط وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo
(المائدۃ، 5 : 11)
’’اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے‘‘
14۔ لَيْسَ عَلَی الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ط وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo
(المائدۃ، 5 : 93)
’’ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اس (حرام) میں کوئی گناہ نہیں جو وہ (حکمِ حرمت اترنے سے پہلے) کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ (بقیہ معاملات میں) بچتے رہے اور (دیگر اَحکامِ اِلٰہی پر) ایمان لائے اور اَعمالِ صالحہ پر عمل پیرا رہے، پھر (اَحکامِ حرمت کے آجانے کے بعد بھی ان سب حرام اَشیاء سے) پرہیز کرتے رہے اور (اُن کی حرمت پر صدقِ دل سے) ایمان لائے، پھر صاحبانِ تقویٰ ہوئے اور (بالآخر) صاحبانِ اِحسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکوکار بندے) بن گئے، اور اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘
15۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَo
(الأعراف، 7 : 201)
’’بے شک جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی ہے، جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خیال بھی چھو لیتا ہے (تو وہ اللہ کے امر و نہی اور شیطان کے دجل و عداوت کو) یاد کرنے لگتے ہیں سو اسی وقت ان کی (بصیرت کی) آنکھیں کھل جاتی ہیں‘‘
16۔ اِنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَھْوٌ ط وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا یُؤْتِکُمْ اُجُوْرَکُمْ وَلَا یَسْئَلْکُمْ اَمْوَالَکُمْo
(محمد، 47 : 36)
’’بس دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے، اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو وہ تمہیں تمہارے (اعمال پر کامل) ثواب عطا فرمائے گا اور تم سے تمہارے مال طلب نہیں کرے گا‘‘
17۔ اِنَّ الَّذِيْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ اُولٰٓئِکَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰی ط لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِيْمٌo
(الحجرات، 49 : 3)
’’بے شک جو لوگ رسول اللہ ( ﷺ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے‘‘
18۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰـکُمْ ط اِنَّ اللهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌo
(الحجرات، 49 : 13)
’’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بے شک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والاہے‘‘
19۔ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَ اتَّقٰیo وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْیُسْرٰیo
(اللیل، 92 : 5۔ 7)
’’پس جس نے (اپنا مال اللہ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور اس نے (اِنفاق و تقویٰ کے ذریعے) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کی تصدیق کی تو ہم عنقریب اسے آسانی (یعنی رضائے الٰہی) کے لیے سہولت فراہم کر دیں گے‘‘
20۔ وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَیo الَّذِيْ یُؤْتِيْ مَالَهٗ یَتَزَکّٰی
(اللیل، 92 : 17، 18)
’’اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیز گار شخص کو بچا لیا جائے گا جو اپنا مال (اللہ کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے‘‘
اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ
1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قِيْلَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنْ أَکْرَمُ النَّاسِ؟ قَالَ : أَتْقَاهُمْ۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأنبیاء، باب : قول الله تعالی {وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا}، 3 / 1224، الرقم : 3175، وفي کتاب : المناقب، باب : قول الله تعالی {یا أیها الناس إنا خلقناکم من ذکر وأنثی}، 3 / 1287، الرقم : 3301، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل، باب : ومن فضائل یوسف ں، 4 / 1846، الرقم : 2378، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 347، الرقم : 31919، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 431، الرقم : 9564۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے دریافت کیا : یا رسول اللہ! لوگوں میں سب سے معزز کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : باب : اتقوا النار ولو بشق تمرۃ، 2 / 513، الرقم : 1351، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ، 2 / 703، الرقم : 1016، والنسائي في السنن، کتاب : الزکاۃ، باب : القلیل في الصدقۃ، 5 / 74، الرقم : 2552، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2 / 351، الرقم : 9807، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 259، الرقم : 18330، والدارمي في السنن، 1 / 478، الرقم : 1657۔
’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جہنم سے بچو خواہ کھجور کا ایک چھلکا (بطور صدقہ) دے کر۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَبُوْیَعْلَی، وَالْبَيْهَقِيُّ۔
4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الزهد والرقائق، 4 / 2277، الرقم : 2965، وأبو یعلی في المسند، 2 / 85، الرقم : 737، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 297، الرقم : 10370، والدورقي في مسند السعد، 1 / 49، الرقم : 18، والمنذري في الترغیب والترهیب، 3 / 295، الرقم : 4137۔
’’میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو، مستغنیٰ ہو اور گوشہ نشین ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابو یعلی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ کَانَ یَقُوْلُ : اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْهُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ مَاجَه۔
5 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : التعوذ من عمل ومن شر ما لم یعمل، 4 / 2087، الرقم : 2721، والترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 73، 5 / 522، الرقم : 3489، وابن ماجه في السنن، کتاب : الدعائ، باب : دعاء رسول الله ﷺ ، 2 / 1260، الرقم : 3832، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 24، الرقم : 29192، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 416، الرقم : 3950۔
’’حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی اور غنا کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه یَقُوْلُ : سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَخْطُبُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ : اتَّقُوا اللهَ رَبَّکُمْ وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَهْرَکُمْ وَأَدُّوْا زَکَاةَ أَمْوَالِکُمْ وَأَطِيْعُوْا ذَا أَمْرِکُمْ تَدْخُلُوْا جَنَّةَ رَبِّکُمْ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، أبواب : الجمعۃ، باب : 434، 2 / 516، الرقم : 616، وابن عبد البر في جامع العلوم والحکم، 1 / 262، والمقدسي في فضائل الأعمال، 1 / 15، الرقم : 40، والنووي في ریاض الصالحین : 34۔
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا : آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا : اپنے رب اللہ سے ڈرو، پانچ نمازیں پڑھو، رمضان شریف کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ دو، اپنے امراء کا حکم مانو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جائو گے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
8۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أُسَافِرَ فَأَوْصِنِي قَالَ : عَلَيْکَ بِتَقْوَی اللهِ وَالتَّکْبِيْرِ عَلَی کُلِّ شَرَفٍ فَلَمَّا أَنْ وَلَّی الرَّجُلُ قَالَ : اَللّٰهُمَّ اطْوِ لَهُ الْأَرْضَ وَهَوِّنْ عَلَيْهِ السَّفَرَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ مَاجَه۔ وَ قَالَ أَبُوْ عِيْسَی هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
8 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 46، 5 / 500، الرقم : 3445، وابن ماجه في السنن، کتاب : الجهاد، باب : فضل الحرس والکبیر في سبیل الله، 2 / 926، الرقم : 2771، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 534، الرقم : 33623، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 325، الرقم : 8293، وابن حبان في الصحیح، 6 / 410، الرقم : 2692۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں سفر پر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تقویٰ اختیار کرو اور ہر بلندی پر تکبیر کہو۔ جب وہ شخص واپس جانے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اے اللہ! اس کی دوری کو مختصر کر دے اور اس کے لیے سفر کو آسان فرما دے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔
9۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أُرِيْدُ سَفَرًا فَزَوِّدْنِي قَالَ : زَوَّدَکَ اللهُ التَّقْوَی۔ قَالَ : زِدْنِي۔ قَالَ : وَغَفَرَ ذَنْبَکَ قَالَ : زِدْنِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي قَالَ : وَیَسَّرَ لَکَ الْخَيْرَ حَيْثُمَا کُنْتَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
9 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 45، 5 / 500، الرقم : 3444، والدارمي في السنن، 2 / 372، الرقم : 2671، والحاکم في المستدرک، 2 / 107، الرقم : 2477۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوکر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں سفر کرنا چاہتا ہوں مجھے زاد راہ عنایت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تجھے تقویٰ کا زاد راہ عطا فرمائے۔ اس نے عرض کیا : حضور! زیادہ کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تیرے گناہ بخشے۔ اس نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اور زیادہ کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بھلائی کو آسان کر دے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا، اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔
10۔ عَنْ سَمُرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : اَلْحَسَبُ الْمَالُ وَالْکَرَمُ التَّقْوَی۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وابْنُ مَاجَه، وَأَحْمَدُ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
10 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ الحجرات، 5 / 390، الرقم : 3271، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : الورع والتقوی، 2 / 1410، الرقم : 4219، وأحمد بن حنبل فيالمسند، 5 / 10، الرقم : 20114، والطبراني في المعجم الکبیر، 7 / 219، الرقم : 6912، 6913، والبیهقي في السنن الکبری، 7 / 135، الرقم : 13554۔
’’حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شرافت مال (سے) ہے اور عزت تقویٰ (سے) ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے، اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
11۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : سُئِلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ أَکْثَرِ مَا یُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّةَ فَقَالَ : تَقْوَی اللهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ۔ وَسُئِلَ عَنْ أَکْثَرِ مَا یُدْخِلُ النَّاسَ النَّارَ فَقَالَ : اَلْفَمُ وَالْفَرْجُ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
11 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : البر والصلۃ، باب : ما جاء في حسن الخلق، 4 / 363، الرقم : 2004، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 442، الرقم : 9694، وابن حبان في الصحیح، 2 / 224، الرقم : 476، والطیالسي في المسند، 1 / 324، الرقم : 2474، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 137، الرقم : 1050۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سے اعمال ہیں جو لوگوں کو بکثرت جنت میں لے جائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا خوف (تقویٰ) اور اچھے اخلاق ۔ پھر آپ ﷺ سے اُن چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا جو زیادہ لوگوں کو جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : منہ (زبان) اور شرمگاہ۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، اور احمد نے روایت کیا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔
12۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اتَّقِ اللهَ حَيْثُمَا کُنْتَ وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَالدَّارِمِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
12 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : البر والصلۃ، باب : ما جاء في معاشرۃ الناس، حسن الخلق، 4 / 355، الرقم : 1987، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 153، الرقم : 21392، والدارمي في السنن، 2 / 415، الرقم : 2791، والطبراني عن معاذ في المعجم الکبیر، 20 / 145، الرقم : 297، 298، والبیهقي في شعب الإیمان، 6 / 245، الرقم : 8026۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرو گناہ کے بعد نیکی کرو وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
13۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه رَفَعَهُ قَالَ : إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ کُلَّهَا تُکَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُوْلُ : اتَّقِ اللهَ فِيْنَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِکَ فَإِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَأَحْمَدُ۔
13 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزهد، باب : ما جاء في حفظ اللسان، 4 / 605، الرقم : 2407، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 95، الرقم : 11927، وأبو یعلی في المسند، 2 / 403، الرقم : 1185، والطیالسي في المسند، 1 / 293، الرقم : 2209، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 302، الرقم : 979۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا : جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء جھک کر زبان سے کہتے ہیں : ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر کیونکہ ہم تجھ سے متعلق ہیں اگر تو سیدھی رہے گی ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
14۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا عَقْلَ کَالتَّدْبِيْرِ وَلَا وَرَعَ کَالْکَفِّ وَلَا حَسَبَ کَحُسْنِ الْخُلُقِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه، وَابْنُ حِبَّانَ۔
14 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : الورع والتقوی، 2 / 1410، الرقم : 4218، وابن حبان في الصحیح، 2 / 76، الرقم : 361، وأبونعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 167، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 39، الرقم : 837، والهیثمي في موارد الظمآن، 1 / 52، الرقم : 94۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تدبیر سے بڑھ کر عقل مندی نہیں۔ معاصی سے اجتناب کرنے سے بڑھ کر کوئی تقویٰ نہیں۔ حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی حسب نسب نہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
15۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : الإِسْلَامُ عَلَانِیَةٌ، وَالْإِيْمَانُ فِي القَلْبِ ثُمَّ یُشِيْرُ إِلَی صَدْرِهِ وَیَقُوْلُ : التَّقْوَی هَاهُنَا التَّقْوَی هَاهُنَا۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ، وَأَبُوْ یَعْلَی۔
15 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 159، الرقم : 30319، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 134، الرقم : 12404، وأبو یعلی في المسند، 5 / 301، الرقم : 2923، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 115، الرقم : 393، وابن عبد البر في جامع العلوم والحکم، 1 / 29۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسلام ظاہری اعمال کا نام ہے، جبکہ ایمان دل میں ہوتا ہے، پھر آپ ﷺ نے اپنے سینۂ اقدس کی طرف اشارہ فرمایا اور فرمایا : تقویٰ یہاں ہے، تقوی یہاں ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، احمد اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔
16۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : إِنْ کَانَ النَّبِيُّ ﷺ لَیُصِيْبُ التَّمْرَةَ فَیَقُوْلُ : لَوْلَا أَنِّي أَخْشَی أَنَّهَا مِنَ الصَّدَقَةِ لَأَکَلْتُهَا۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
16 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 184، الرقم : 12936، والشوکاني في نیل الأوطار، 5 / 323، وابن الجوزی في الوفا بأحوال المصطفی ﷺ : 552۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ (کبھی راہ پر اور کبھی بستر پر پڑی) کھجور پاتے تو فرماتے : اگر یہ اندیشہ اور خطرہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی ہوگی تو میں ضرور اس کو کھا لیتا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
17۔ عَنْ دُرَّةَ قَالَتْ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنْ أَتْقَی النَّاسِ ِللهِ عزوجل قَالَ : آمَرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَأَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَوْصَلُهُمْ لِلرَّحْمِ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
17 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 306۔
’’حضرت درہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! لوگوں میں سے سب سے زیادہ صاحب تقویٰ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو ان سب سے بڑھ کر نیکی کا حکم دینے والا، برائی سے روکنے والا اور صلہ رحمی کرنے والا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
18۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلْوَرَعُ سَيِّدُ الْعَمَلِ۔
رَوَاهُ الْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ۔
18 : أخرجه الحکیم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 281، والدیلمي في مسند الشهاب، 4 / 437، الرقم : 7271، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 5 / 395۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تقویٰ عمل کا سردار ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔
19۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : فَضْلُ الْعِلْمِ أَفْضَلُ مِنَ الْعِبَادَةِ وَمِلَاکُ الدِّيْنِ الْوَرَعُ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
19 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 11 / 38، الرقم : 10969، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 59، الرقم : 40، والهیثمي في مسند الحارث، 1 / 321۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : علم کی فضیلت عبادت سے زیادہ ہے اور دین کی اصل تقویٰ ہے۔‘‘
20۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه، قَالَ : کَانَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ یَتْلُوْ عَلَيَّ هَذِهِ الآیَةَ : {وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاo وَّیَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا یَحْتَسِبُ} [الطلاق، 65 : 2، 3]۔ فَمَا زَالَ یَقُوْلُهَا وَیُعِيْدُهَا عَلَيَّ۔ رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ۔
20 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 166۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضورنبی اکرم ﷺ مجھے بار بار قرآن کی درج ذیل آیت سنایا کرتے : {اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا}۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ
1۔ قَالَ سَيِّدُنَا عَليٌّ رضي الله عنه : التَّقْوَی غایَةٌ لا یَهلِکُ مَنِ اتَّبَعَهَا، وَلا یَندَمُ مَنْ عَمِلَ بِهَا : لأنّ بِالتَّقوَی فَازَ الفَائزُوْنَ، وَبِالْمَعْصِیَةِ خَسِرَ الْخَاسِروْنَ۔
1 : أخرجه الهندي في کنز العمال، 16 / 188، الرقم : 44216۔
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کی اتباع کرنے والا شخص ہلاک نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پر عمل کرنے والا نادم ہوتا ہے۔ کیوں کہ تقویٰ ہی کے ذریعے کامیاب لوگوں نے کامیابی حاصل کی اور معصیت کے ذریعے خسارہ اٹھانے والوں نے خسارہ اٹھایا۔‘‘
2۔ قال سیدنا عليٌّ رضي الله عنه : التُّقی رئیسُ الأخلاقِ۔
2 : أخرجه الشریف الرضي في نهج البلاغۃ : 752، الرقم : 395۔
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تقویٰ اخلاق کا سردار ہے۔‘‘
3۔ قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه : سادۃ الناس في الدنیا الأسخیاء، وسادۃ الناس في الآخرۃ الأتقیاء۔
3 : القشیري في الرسالۃ : 107۔
’’امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دنیا میں لوگوں کے سردار سخی ہوتے ہیں اور آخرت میں لوگوں کے سردار متقی ہوں گے۔‘‘
5۔ قال أبو عبیدۃ بن الجراح رضي الله عنه : ما من الناس من أحمر ولا أسود، حر ولا عبد، عجمي ولا فصیح، أعلم أنه أفضل مني بتقوی إلا أحببت أن أکون في مسلاخه۔
5 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 101۔
’’حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کوئی گورا ہو یا کالا، آزاد ہو یا غلام، عربی ہو یا عجمی جس کے متعلق مجھے علم ہو کہ وہ تقویٰ میں مجھ سے زیادہ ہونے کی وجہ سے افضل ہے تو میری یہ خواہش ہو گی کہ میں اس جیساہوتا۔‘‘
6۔ قال أبو الدرداء رضي الله عنه : تمام التقوی أن یتقي الله العبد حتی یتقیه في مثقال ذرۃ، حتی یترک بعض ما یری أنه حلال، خشیۃ أن یکون حراما۔
6 : أخرجه ابن المبارک في الزهد : 452، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 47 / 161، والبیهقي في الزهد الکبیر، 2 / 324، الرقم : 870۔
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تقوی کا کمال یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے یہاں تک کہ ایک رائی کے برابر برے عمل میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرے یہاں تک بعض حلال چیزوں کو بھی اس ڈر سے چھوڑ دے مبادا وہ حرام ہوں ۔‘‘
7۔ قال بعض الصحابۃ : کنا ندع سبعین بابًا من الحلال مخافۃ أن نقع في باب من الحرام۔
7 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 17۔
’’بعض صحابہ نے فرمایا : ہم حلال کے ستر باب اس خوف سے چھوڑ دیتے تھے کہ مبادا حرام کے کسی ایک باب میں مبتلا نہ ہو جائیں۔‘‘
8۔ عن أبي عبد الله یعني الجسري أن رجلا انطلق إلی أبي الدرداء فسلّم علیه فقال : أوصني فإني غاز فقال له : اتق الله کأنک تراه حتی تلقاه وعد نفسک في الأموات ولا تعدها في الأحیاء وإیاک ودعوۃ المظلوم۔
8 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 207۔
’’حضرت عبد اللہ جسری بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، انہیں سلام کیا اور عرض کیا : مجھے کوئی وصیت فرمائیں کیونکہ میں غزوہ کے لیے جا رہا ہوں : آپ نے اسے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے یوں ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو یہاں تک کہ تم اس سے جا ملو، اور اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرو اور زندوں میں شمار نہ کرو، اور مظلوم کی بدعا سے بچتے رہو۔‘‘
9۔ قال عامر بن عبد قیس رَحِمَهُ الله : آیۃ في کتاب الله أحب إلي من الدنیا جمعا أن أعطاها، وجعلني الله من المتقین۔
9 : أخرجه ابن المبارک في الزهد : 452۔
’’حضرت عامر بن عبد قیس رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کتاب اللہ کی ایک آیت مجھے اس چیز سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ مجھے تمام دنیا عطا کر دی جائے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اہل تقویٰ میں سے بنائے۔‘‘
10۔ عن عبد الله بن عامر رَحِمَهُ الله قال : رأیت عمر بن الخطاب رضي الله عنه أخذ تبنۃ من الأرض فقال : لیتني هذه التبنۃ، لیتني لم أک شیئا، لیت أمي لم تلدني، لیتني کنت نسیاً منسیا۔
10 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 98، الرقم : 34480۔
’’عبد اللہ بن عامر رَحِمَهُ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے زمین سے تنکا اٹھا کر کہا : اے کاش میں یہ تنکا ہوتا۔ اے کاش میں پیدا نہ کیا جاتا، اے کاش میری ماں مجھے جنم ہی نہ دیتی۔ اے کاش میں کچھ نہ ہوتا، اے کاش میں بھلا دیا گیا ہوتا۔‘‘
11۔ قال حاتم بن علوان الأصم رحمه الله : من ادعی ثلاثاً بغیر ثلاث فهو کذاب، من ادعی خشیۃ الله تعالی من غیر ورع عن محارمه فهو کذاب، ومن ادعی حب الجنۃ من غیر إنفاق ماله في طاعۃ الله فهو کذاب، ومن ادعی محبۃ النبي ﷺ من غیر محبۃ الفقر فهو کذاب۔
11 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 8 / 75۔
’’حضرت حاتم بن علوان الأصم رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس نے تین چیزوں کے بغیر تین چیزوں کا دعویٰ کیا ہے وہ کذاب ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے پرہیز کئے بغیر خوفِ خدا کا دعویٰ کیا وہ کذاب ہے۔ جس نے اپنا مال اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کئے بغیر جنت کی محبت کا دعویٰ کیا وہ کذاب ہے اور جس نے فقر سے محبت کئے بغیر حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کا دعویٰ کیا وہ کذاب ہے۔‘‘
12۔ قال ابن المبارک الصوري رَحِمَهُ الله : اتق الله تقوی لا تطلع نفسک علی تقوی الله تجد به غیرک وتسلط الآفۃ علی قلبک۔
12 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 9 / 298۔
’’ابن المبارک الصوری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرو کہ تم اپنے نفس کو بھی اللہ کے تقوی پر مطلع نہ کرو کہیں تمہارے دل پر آفت نہ آ پڑے۔‘‘
13۔ قال النصر آباذي رَحِمَهُ الله : التقوی أن یتقي العبد ما سواه تعالی۔
13 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 105۔
’’شیخ نصر آباذی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے بچے ۔‘‘
14۔ قال أبو بکر محمد الروذباري رَحِمَهُ الله : التقوی مجانبۃ ما یبعدک عن الله تعالی۔
14 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 106۔
’’شیخ ابو عبد اللہ روذباری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تقویٰ یہ ہے کہ تو ان تمام چیزوں سے اجتناب کرے جو تجھے اللہ تعالیٰ سے دور رکھیں۔‘‘
15۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : أَقلُّ ما یَلْزَمُ الفقیرُ فِي فقرِه أَربعةَ أشیائَ : علمٌ یسوسه، وورعٌ یحجزه، ویقینٌ یحمله، وذکرٌ یؤنسه۔
15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 276۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ فقیر کے لئے فقر میں کم از کم چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے : 1۔ علم جو اس کی تدبیر کرے، 2۔ پرہیز گاری جو اسے برے کاموں سے روکے، 3۔ یقین جو اسے عمل کرنے پر اکسائے۔ 4۔ ذکر جس سے اسے انس محسوس ہو۔‘‘
16۔ قال أبو عثمان رَحِمَهُ الله : صدق الخوف هو الورع عن الآثام ظاهراً وباطناً۔
16 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 127۔
’’حضرت ابو عثمان رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : سچا خوف یہ ہے کہ ظاہری اور باطنی طور پر گناہوں سے پرہیز کیا جائے۔‘‘
17۔ قال الجریري رَحِمَهُ الله : من لم یحکّم بینه وبین الله التقوی والمراقبۃ لم یصل إلی الکشف والمشاهدۃ۔
17 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 105۔
’’امام جریری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس شخص کے اور اللہ کے درمیان تقویٰ اور مراقبہ مؤثر نہیں وہ شخص کشف اور مشاہدہ تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘