Pages

Wednesday, October 31, 2012

ہمارا ایمان اتنا کمزور کیوں؟


کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ آج کا مسلمان اتنا پریشان اور مصیبتوں میں‌پھنسا ہوا کیوں ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ آج کا مسلمان خسارے میں کیوں ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ آج کا مسلمان بیماریوں میں‌ مبتلا کیوں ہے ؟ کبھی سوچا ہے ہم نے کہ مسلمانوں کا ایمان اتنا کمزور کیوں ہے؟

ہمار
ایمان اس لیے اتناکمزور ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں‌کہ اللہ تعالی ہی لائق عبادت ہے پھر بھی ہم اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔
کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں‌ہر وقت دیکھ رہا ہے پھر اُس کے ڈر سے ہم گناہ کرنا نہیں چھوڑتے۔

کیونکہ ہم جانتے ہیں کیونکہ ہم سچے انسان سے زیادہ جھوٹے انسان کی بات پر یقین رکھتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں‌کہ ہمیں‌ایک دن موت آنی ہے پھر بھی ہم فحاشیوں میں مبتلا ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمیں رَب کے پاس لوٹ کر جانا ہے پھر بھی ہم نیک اعمال نہیں کرتے۔

ہمارا ایمان اس لیے اتنا کمزور ہے کیونکہ ہم حقیقت جانتے ہوئے بھی سچائی سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ہماری مدد نہیں کر سکتا پھر بھی ہم دوسروں‌سے مدد مانگتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ اولاد اللہ تعالی کی ہی دین ہے پھر بھی ہم  مزاروں اور درباروں میں‌جا کر اولاد
کے لیے منتیں مانگتے ہیں۔

ہم جانتےہیں کہ موت ہمیں‌ایک دن آنی ہے پھر بھی ہم آخرت کی تیاری نہیں‌کرتے۔‌

ہم جانتے ہیں کہ رَب کی ذات ہی رازق ہے اور رزق دینےکا وعدہ ہے اُس کا اپنے بندوں سے پھر بھی ہم رزق کی تلاش میں پریشان رہتے ہیں۔

ہمارا ایمان اس لیے اتنا کمزور ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں‌کہ تمام خزانے اللہ کے پاس ہیں وہ جسے چاہے عطا کر دے ہھر بھی ہم ناشُکری کرتے ہیں۔

کیونکہ ہم جانتے ہیں‌ کہ دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے
پھر بھی  نعوذباللہ ہم نے کئی داتا بنا رکھے ہیں۔

کیونکہ ہم قرآن پاک کی تلاوت سے زیادہ شرکیہ کلام /شاعری پڑھنے اور شیئر کرنے کو ترجیح دیتےہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم سے ناراض‌ہے پھر بھی ہم دنیا کی رنگینیوں میں‌ کھوئے ہوئے ہیں۔

ہم جانتے ہیں‌کہ اللہ ہم سے ناراض‌ ہے ہم اُس کو منانے کی بجائے دنیا کو خوش کرنے میں‌ لگے ہوئے ہیں۔

ہمارا ایمان اس لیے اتنا کمزور ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں‌ کہ اللہ تعالی کو جھوٹوں سے نفرت ہے پھر بھی ہم ہر بات پر جھوٹ بولتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے پھر بھی اسی دنیا کے
پیچھےبھاگ رہے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ زندگی ہمیں دوبارہ نہ ملے گی پھر بھی ہم بُرائی کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔

کیونکہ ہمیں‌ اچھائی سے زیادہ بُرائی کرنے میں‌ لطف آتا ہےاس لیے ہم بھٹکتے ہی جا رہے ہیں۔

ہمارا ایمان اس لیے اتنا کمزور ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں‌کہ اللہ تعالی کی پناہ ہی سب سے محفوظ پناہ ہے پھر بھی ہم اُس کی پیدا کردہ مخلوق سے پناہ مانگتے ہیں۔

کیونکہ ہم کلمہ پڑھنے کے بعد بھی اُس کلمے کا صحیح مطلب سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری رسول ہیں مگر اُن کی کہی ہوئی باتوں کی پیروی نہیں‌‌کرتے۔

ہمارا ایمان اس لیے اتنا کمزور ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں‌ کہ معافی مانگنےسے اللہ تعالی ہمیں معاف کر دے گا پھر بھی ہم  رحیم ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

Sunday, October 21, 2012

يوم عرفہ کے فضائل



الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً

یوم عرفہ انتہائی برکت وفضیلت والے ایام میں سے ہے گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کا دن ہے دعاوں کی قبولیت کا خاص دن ہے الله تعالی فرشتوں کے سامنے أہل عرفات پر فخر کرتے ہیں اسی دن میں الله تعالی نے دین اسلام کی تکمیل فرمائی اور اپنی نعمت کو مکمل فرمایا اس یوم مبارک کے بعض فضائل درج ذیل ہیں
1 = عرفہ کے دن دین اسلام کی تکمیل اورالله تعالی کی نعتموں کا اتمام ہوا
قال تعالی : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ . آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطےاسلام کو دین ۔ یہ آیت مبارکہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی . نزلت هذه الآية يوم الجمعة يوم عرفة بعد العصر في حجة الوداع والنبي صلى الله عليه وسلم واقف بعرفات على ناقته العضباء فكادت عضد الناقة تندق من ثقلها فبركت. تفسير معالم التنزيل​ للبغوي . صحیحین میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ایک یھودی نے عمربن خطاب سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آيت ہم یھودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے عمر رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے کہا : اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا.توعمر رضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے ۔ عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رجلاً من اليهود قال له: يا أمير المؤمنين آية في كتابكم تقرؤونها لو علينا معشر اليهود نزلتْ لاتّخذنَا ذلك اليوم عيداً قال: أيَّةُ آيةٍ؟ قال: اليومَ أكملتُ لكم دينَكُم وأتممتُ عليكم نعمتي ورضيتُ لكم الإِسلام ديناً فقال عمر: قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم وهو قائم بعرفة يوم الجمعة أشار عمر إلى أن ذلك اليوم كان عيداً لنا. تفسير معالم التنزيل​ للبغوي ۔ یہ آیت ۱۰ ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی جبکہ میدان عرفات میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد اتقیاء وابرار رضی اللہ عنہم کا مجمع کثیر تھا۔ اس کے بعد صرف اکیاسی روز حضور صلى الله عليه وسلم اس دنیا میں جلوہ افروز رہے
2 = یوم عرفہ کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے
صحیح مسلم وغیره میں حضرت أبوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کےبارہ میں فرمایا : یہ گزرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے .عن أبي قتادة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال صيام يوم عرفة إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده قال وفي الباب عن أبي سعيد قال أبو عيسى حديث أبي قتادة حديث حسن وقد استحب أهل العلم صيام يوم عرفة إلا بعرفة . یہ روزہ حاجی کے لیے رکھنا مستحب نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ررزہ ترک کیا تھا اوریہ بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے لھذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے . امام نووي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ : گناہوں سے مراد صغائر ہیں اگر صغائر نہ ہوں تو كبائر میں تخفیف کی امید ہے اگر كبائر نہ ہوں تو پهر درجات بلند ہوں گے . ملاعلی قاری رحمہ الله مرقات میں ذکر کیا کہ إمام الحرمين نے فرمایا کہ صغائر معاف ہوں گے ، اور قاضي عياض نے نے فرمایا کہ یہی أهل السنة والجماعة کا مذہب ہے ، اور كبائر صرف توبہ سے ہی معاف ہوں گے ، یا الله تعالی کی رحمت سے معاف ہوں گے . انتهى . سوال : حدیث میں ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا ذکر ہے حالانکہ اس سال کے گناه تو بنده نے نہیں کیئے تو پهر معافی کیسے ؟
جواب : مطلب یہ ہے کہ الله تعالی اس کی گناہوں سے حفاظت فرمائیں گے ، یہ بهی کہا گیا کہ الله تعالی اس کو اپنی رحمت سے اتنا ثواب عطا کریں گے کہ اگر اس سے گناه سرزد بهی ہوجائے تو وه گذشتہ سال کی طرح آئنده سال کا بهی کفاره بن جائے گا
3 = عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے یہ عید کا دن ہے
عن عقبة بن عامر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة (أي اليوم التاسع من ذي الحجة) ويوم النحر (أي اليوم العاشر من ذي الحجة) وأيام التشريق (أي اليوم الحادي عشر والثاني عشر والثالث عشر) عيدنا أهل الإسلام وهي أيام أكل وشرب . أخرجه الترمذي والإمام أحمد وأبو داود والنساني وابن خزيمة والبيهقي والحاكم وغیرهم وقال أبو عيسى وحديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح
یعنی یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں . قال الشوكاني في النيل : ظاهر حديث أبي قتادة مرفوعا : صوم عرفة يكفر سنتين ماضية ومستقبلة رواه الجماعة إلا البخاري والترمذي أنه يستحب صوم عرفة مطلقا وظاهر حديث عقبة بن عامريعني المذكور في هذا الباب أنه يكره صومه مطلقا وظاهر حديث أبي هريرة قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم عرفة بعرفات رواه أحمد وابن ماجه أنه لا يجوز صومه بعرفات فيجمع بين الأحاديث بأن صوم هذا اليوم مستحب لكل أحد مكروه لمن كان بعرفات حاجا . والحكمة في ذلك أنه ربما كان مؤديا إلى الضعف عن الدعاء والذكر يوم عرفة هنالك والقيام بأعمال الحج وقيل : الحكمة أنه يوم عيد لأهل الموقف لاجتماعهم فيه ويؤيده حديث عقبة بن عامر انتهى كلام الشوكاني محصلا
4 = یہ ایسا دن ہے جس کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے
اورعظیم الشان اورمرتبہ والی ذات عظیم الشان چيز کے ساتھ ہی قسم اٹھاتی ہے ، اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے ( وشاهد ومشهود . البروج ۳ ) قسم ہے اُس دن کی جو حاضر ہوتا ہے اور اُس کی کہ جس کے پاس حاضر ہوتے ہیں . روایات میں آیا کہ "شاہد" جمعہ کا دن ہے اور "مشہود" عرفہ کا دن اس کے علاوہ شاہد ومشہود کی تفسیر میں اقوال بہت ہیں۔ لیکن اوفق بالروایات یہی قول ہے۔ واللہ اعلم ۔ ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : یوم موعود قیامت کا دن اور یوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے . رواه الترمذي . وقيل غير ذلك لكن هذا أحسن ما قيل وَالسَّمَاء ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ أي يوم القيامة وَشَاهِدٍ يوم الجمعة وَمَشْهُودٍ يوم عرفة هذا هو أحسن ما قيل في ذلك. وقال الطبري بعد ذکر مختلف الاقوال : والصواب من القول في ذلك عندنا أن يقال إن الله أقسم بشاهد شهد ومشهود شهد ولم يخبرنا مع إقسامه بذلك أي شاهد وأي مشهود أراد وكل الذي ذكرنا أن العلماء قالوا هو المعني مما يستحق أن يقال له شاهد ومشهود
5 = اوریہی دن الوتر بھی ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں قسم اٹھائی ہے
والشفع والوتر قسم ہے جفت اورطاق کی . شفع و وتر سے کیا مراد ہے ؟ اس میں اختلاف ہے لیکن حضرت جابر کی مرفوع روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ الوتر سے مراد یوم عرفہ ہے اور شفع سے مراد يوم النحر یعنی عیدالاضحی ہے . وهو أثبت شيء في تفسيرهما. عن جابر مرفوعاً من أن الوتر يوم عرفة والشفع يوم النحر . أخرجه الإمام أحمد والنسائي والبزار والحاكم وصححه . والله أعلم
6 = یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اولاد آدم سے عھد میثاق لیا تھا
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اوران سے آمنے سامنے بات کرتے ہوۓ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیون نہیں ہم سب گواہ بنتے ہیں ، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس محض بے خـبر تھے یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ الاعراف ( ۱۷۲، ۱۷۳ ) مسند احمد ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ لہذا معلوم ہوا کہ یہ کتنا ہی عظیم دن ہے کہ اس میں بڑا عظیم عھدو میثاق لیا گیا
7 = اس دن میدان عرفات میں وقوف کرنےوالوں کوگناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی ملتی ہے
صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے حديث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا ہے اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہوۓ کہتے ہیں میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوۓ آۓ ہیں . إن الله تعالى يباهي ملائكته عشية عرفة بأهل عرفة يقول: انظروا إلى عبادي أتوني شعثا غبرا .رواه الطبراني. یہ حدیث صحیح ہے
8 = یوم عرفہ حرمت والے مہینوں کے أيام میں سے ہے
قال الله عز وجل (إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ) [سورة التوبة : 39]. والأشهر الحرم هي ذو القعدة وذو الحجة ومحرم ورجب ويوم عرفه من أيام ذي الحجة
9 = یوم عرفہ أشهر حج أيام میں سے ہے
قال الله عز وجل (الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ) سورة البقرة : 197 وأشهر الحج هي شوال ذو القعدة ذو الحجة
10 = یوم عرفہ أيام معلومات میں سے ہے جن کی الله تعالی نے قرآن میں تعریف کی ہے
قال الله عز وجل (لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ) [سورة الحج:28]. قال ابن عباس رضي الله عنهما : الأيام المعلومات عشر ذي الحجة
11 = یوم عرفہ ان أيام میں سے ہے جن کی الله تعالی نے قسم اٹهائی ہے
جو ان ایام کے شرف وفضل کی دلیل ہے قال الله عز وجل وَلَيَالٍ عَشْرٍ [سورة الفجر:2]. قال ابن عباس رضي الله عنهما إنها عشر ذي الحجة قال ابن كثير وهو الصحيح
12 = یوم عرفہ میں الله تعالی بہت زیاده بندوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة. رواه مسلم في الصحيح
13 = یوم عرفہ میں الله تعالی فرشتوں کے سامنے میدان عرفات میں موجود لوگوں پر فخر کرتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء . رواه أحمد
14 = یوم عرفہ ہی حج کا رکن اعظم ہے قال النبي صلى الله عليه وسلم: (الحج عرفة) متفق عليه
15 = یوم عرفہ کی دعا کی انتہائی عظیم ومقبول دعا ہے
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم عرفہ کے دن یہ دعا بکثرت پڑهتے تهے لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال خير الدعاء دعاء يوم عرفة وخير ما قلت أنا والنبيون من قبلي لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . أخرجه الترمذي . وأخرجه أيضا من حديثه أحمد بإسناد رجاله ثقات ، ولفظه كان أكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . قال ابن عبد البر رحمه الله وفي ذلك دليل على فضل يوم عرفة على غيره .

والله تعالى أعلم هذا ما تيسر جمعه سائلا الله أن يتقبل منا ومن المسلمين أعمالهم وأن يجعلها خالصة لوجهه الكريم وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم تسليما كثيراً

Wednesday, October 17, 2012

عشره ذی الحجہ کے فضائل واعمال



اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کو بے شمار خصوصیات عطاء فرمائی ہیں من جملہ ان کے ایک یہ بهی ہے کہ اپنے خصوصی فضل وکرم سے نیکی واطاعت کے لیے کچھ خاص اوقات مقرَر فرما دیے ہیں جن میں اعمالِ صالحہ کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور باری تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ بطورِ خاص متوجہ ہوتی ہے تاکہ لوگ اس میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کر کے اپنے رب کا قرب حاصل کر سکیں خوش قسمت اور سعادت مند ہیں وہ لوگ جو ایسے لمحات واوقات کی قدر کر کے ان سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں اور لاپرواہی وسستی اور غفلت وکوتاہی کی بجائے خوب محنت کرتے ہیں اور اپنی آخرت کے لیئے زاد راه جمع کرتے ہیں الله تعالی کی یہ سنت ہے کہ اس نے اپنی مخلوق میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح کچھ مہینوں کوکچھ مہینوں پرکچھ دنوں کو کچھ دنوں پر کچھ راتوں کو کچھ راتوں پر اور کچھ وقتوں کو کچھ وقتوں پرفضیلت اور بزرگی عطا فرمائی ہے رب العالمین کی جانب سے نیکیوں کی یہ خصوصی لمحات اسلئے عطا کیئے گئے تاکہ اس کے بندے نیکیوں کے اس موسم کو غنیمت جانیں اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرکے اجر عظیم حاصل کرلیں ان اشرف واعلیٰ اوقات میں عشره ذی الحجہ بھی شامل ہے قرآن اور سنت رسول میں ذی الحجہ کے پہلے دس ایام کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے نیکیوں خاص موسم کو اگر ہم آج کل کی زبان نیکیوں کا "سیل" کہیں تو بے جا نہیں لہذا ایک عقل مند انسان کے لیئے ضروری ہے کہ ان دنوں کو ضائع نہ کرے اور اپنے لیئے آخرت کی زاد راه تیار کرے اس سفر کے لیئے سامان جمع کرے جو انتہائی طویل ترین اور سخت ترین اور مشکل ترین ہے ایسا سفر جس پر سب نے جانا ہے چاہے کوئی اس کی تیاری کرے یا نہ کرے

ذوا الحجہ حرمت وعزت والا مہینہ

قمری سال کے آخری مہینہ کا نام ذی الحجہ ہے یہ مہینہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس کو اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی تخلیق ہی کے وقت سے محترم بنا رکھا ہے ذو الحجة کا مہینہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ہے جس کا ذکرقرآن میں ہوا ہے اور اس مہینہ کا یہ نام اس لیئے رکها گیا کیونکہ اس میں اسلام کا عظیم رکن حج ادا کیا جاتا ہے اور الله تعالی کے ارشاد کے مطابق یہ حرمت والے مہینے چار ہیں یعنی ذو القعدة اور ذو الحجة اور محرم اور رجب جیساکہ بخاري ومسلم کی حدیث سے ثابت ہے . عن أبي بكرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهراً منها أربعة حرم ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان. رواه البخاري ومسلم في صحيحيهما

عشره ذوا الحجہ کی فضیلت قرآن کی روشنی میں

1 = قرآن كريم کی بعض آیات میں ذو الحجہ کی پہلے دس دنوں کی فضیلت کی طرف اشاره کیا گیا ہے الله تعالیٰ نے ان دس دنوں کی قسم کھائی ہےاور اللہ عزوجل کا کسی شے کی قسم کھانا اس کی عظمت وفضیلت کی واضح دلیل ہے اس لیے کہ جو ذات خود عظیم ہو وہ عظمت والی چیز ہی کی قسم کھاتی ہے ارشادِ ربانی ہے (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ) قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی . اکثرمفسرین کا قول ہے کہ ان دس راتوں سے مراد ذو الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں اور بہت سارے سلف وخلف کا یہی قول ہے .حافظ ابن کثیررحمه اللهنے بھی اپنی تفسیر میں اسی کو صحیح کہا ہے قال ابن كثير رحمه الله: المراد بها عشر ذي الحجة كما قاله ابن عباس وابن الزبير ومجاهد وغيرهم ورواه الإمام البخاري . قال البغوي رحمه الله في تفسيره روي عن ابن عباس: أنها العشر الأوَل من ذي الحجة. وهو قول مجاهد وقتادة والضحاك والسدي والكلبي. قال الإمام الطبري رحمه الله في تفسيره وقوله"وَلَيَالٍ عَشْرٍ"هي ليالي عشر ذي الحجة لإجماع الحُجة من أهل التأويل عليه . وأكد ذلك ابن كثير في تفسيره لهذه الآية بقوله : والليالي العشر المراد بها عشر ذي الحجة كما قاله ابن عباسٍ وابن الزبير ومُجاهد وغير واحدٍ من السلف والخلف.مفسرین کی ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ ذي الحجة کے دس دنوں کی فضیلت قرآن سے صريحاً ثابت ہے
2 = ذي الحجة کے اِن دس دنوں کو قرآن نے ان کی عظيم فضلیت بناء پر"الأيام المعلومات" کہا ہے قرآن مجید میں جن اَیام معلُومات میں ذکر الله کا بیان خصوصیت سے کیا گیا ہے جمہور اہل علم کے نزدیک وہ یہی دس دن ہیں قال تعالی : وَيَذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىۤ أَيَّامٍ مَّعْلُومَـٰتٍ الخ (الحج:۲۸) يعني عشر ذي الحجة في قول أكثر المفسرين . تفسير معالم التنزيل . ترجمہ . اور پڑھیں اللہ کا نام کئ دن جو معلوم ہیں ذبح پر چوپایوں مواشی کے جو اللہ نے دیے ہیں اُن کو سو کھاؤ اُس میں سے اور کِھلاؤ برے حال کے محتاج کو . ایام معلومات سے بعض کے نزدیک ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور بعض کے نزدیک تین دن تک قربانی کے مراد ہیں بہرحال ان ایام میں ذکر اللہ کی بڑی فضیلت آئی ہے اسی ذکر کے تحت میں خصوصیت کے ساتھ یہ بھی داخل ہے کہ قربانی کےجانوروں کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لیا جائے اور بسم اللہ اللہ اکبر کہا جائے ان دِنوں میں بہترین عمل یہ ہی ہے اللہ کے نام پر ذبح کرنا۔ تفسیر عثمانی
ابن عمر اورابن عباس رضي اللہ تعالى عنہما نے بھی ایامِ معلومات سے ذو الحجہ کے دس دن ہی مراد لیے ہیں. وقال ابن عباس "الأيام المعلومات" هي أيام العشر ويوم النحر وأيام التشريق. تفسير المحرِرُ الوجيز ​لابن عطية

عشره ذی الحجہ کی فضیلت احادیث کی روشنی میں

1 = حضور صلى اللہ عليہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: دنیا کے افضل ترین دن ایام العشر (یعنی ذوالحجہ کے دس دن) ہیں. دریافت کیا گیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ کے ایام بھی ان کی مثل نہیں؟ فرمایا:جہاد فی سبیل اللہ میں بھی ان کی مثل نہیں سوائے اس شخص کے جس کا چہرہ مٹی میں لتھڑ جائے (یعنی وہ شہید ہو جائے). أخرج البزار بسند حسن وأبو يعلى بسند صحيح كما قال المنذري في الترغيب والترهيب عن جابر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:أفضل أيام الدنيا العشر (يعني عشر ذي الحجة) قيل: ولا مثلهن في سبيل الله؟ قال: ولا مثلهن في سبيل الله إلا رجل عفر وجهه بالتراب. ورواه ابن حبان في صحيحه
2 = حضرت ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کوسب سے زيادہ محبوب ہیں صحابہ نے عرض کیا اللہ تعالی کے راستے میں جھاد بھی نہيں؟ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اورجھاد فی سبیل اللہ بھی نہيں لیکن وہ شخص جواپنا مال اورجان لے کر نکلے اورکچھ بھی واپس نہ لائے .(یعنی الله کے راستے وہ شہید ہو جائے). ما من أيام العمل الصالح فيها أحب إلى الله من هذه الأيام ـ يعني أيام العشر ـ قالوا يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله ؟ قال ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله ثم لم يرجع من ذلك بشيء . رواه البخاري عن ابن عباس رضي الله عنهما . تو معلوم ہوا کہ ذوالحجہ کے پہلے دس ایام میں کیا گیا نیک عمل دیگر دنوں میں کیے گئے نیک اعمال سے اللہ تبارک وتعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے۔ یعنی ان دس دنوں میں ہرنیک عمل ان کے علاوہ دیگر دنوں کی بہ نسبت أفضل ومحبوب ہے . اس کے علاوہ دوسری نصوص اس پردلالت کرتی ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن باقی سال کے سب ایام سے بہتر اورافضل ہيں اوراس میں کسی بھی قسم کا کوئي استثناء نہيں حتی کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی نہيں لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دس راتیں ان ایام سے بہتر اورافضل ہیں کیونکہ ان میں لیلۃ القدر شامل ہے اورلیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے

عشره ذی الحجہ کی کچھ خصوصیات

1 = الله سبحانه وتعالى نے ان کی قسم اٹهائی ہے جو کہ ان کے شرف وفضل وعظمت پر دلیل ہے اور الله تعالی اپنی عظیم مخلوقات کے ساتھ ہی قسم اٹهاتے ہیں جیسے زمین وآسمان اور سورج وچاند اور ستاروں وغیره اور عظیم اوقات مثلا فجر وعصر اور دن ورات وغیره اور عظیم مقامات مثلا مکہ مکرمہ اور کوه طور وغیره کی قسم اٹهائی ہے اور یہ بهی یاد رہے کہ الله تعالی کو اختیار ہے کہ اپنے مخلوقات میں کسی قسم اٹهائے لیکن مخلوق کو سوائے الله تعالی کی ذات کے کسی اور کی قسم کهانا جائز نہیں
2 = الله سبحانه وتعالى نے ان کو "الأيام المعلومات" کہا ہے اور ان میں خصوصی طور پر ذکر کا حکم دیا ہے
3 = ان دس ایام میں کیا گیا نیک عمل دیگر دنوں میں کیے گئے نیک اعمال سے اللہ تبارک وتعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے اور خصوصی طور پر ان ایام میں ذکر الله کی کثرت کا حکم دیا گیا . عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه أنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشر فأكثروا فيهن من التكبير والتهليل والتحميد . رواه أحمد
4 = يوم التروية بهی ان دس دنوں میں ہے اور وه ذي الحجه کی آٹهویں تاریخ ہے جس میں حج کے اعمال شروع ہوجاتے ہیں
5 = يوم عرفه بهی ان دس دنوں میں ہے اور وه ایک عظيم فضائل وبرکات کا دن ہے گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے آزادی کا دن ہے اور حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ہی ہے یہ دن انتہائی شرف وفضیلت کا حامل ہے بلکہ اگر عشر ذی الحجہ میں سوائے یومِ عرفہ کے اور کوئی قابل ذکر یا اہم شے نہ بھی ہوتی تو یہی اس کی فضیلت کے لیے کافی تھا . يوم عرفه کی فضیلت میں کئی احادیث مروی ہیں حضرت عائشہ رضی الله عنها سے روایت ہے کہ نبي صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس قدر عرفہ کے دن لوگوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہے اس سے زیادہ کسی اور دن آزاد نہیں کرتا ۔ عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يَعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي الْمَلَائِكَةَ فَيَقُولُ : مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ ؟.أخرجه مسلم والحاكم في المستدرك وقال هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه .
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ شیطان یومِ عرفہ کے علاوہ کسی اور دن میں اتنا چھوٹا حقیر وذلیل اور غضبناک نہیں دیکها گیا ۔ یہ محض اس لیے ہے کہ اس دن میں وہ اللہ کی رحمت کے نزول اور انسانوں کے بڑے گناہوں کی معافی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ البتہ بدر کے دن شیطان نے اس سے بھی بڑی چیز دیکھی تھی عرض کیا گیا یارسول اللہ! یومِ بدر اس نے کیا دیکھا ؟ فرمایا جبرئیل کو جو فرشتوں کی صفیں ترتیب دے رہے تھے۔
أخرج مالك في الموطأ من مراسيل طلحة بن عبيد الله من كريز أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ما رئي الشيطان يوما هو فيه أصغر ولا أحقر ولا أدحر ولا أغيظ منه في يوم عرفة وما ذلك إلا لما رأى من تنزل الرحمة وتجاوز الله عن الذنوب العظام إلا ما رأى يوم بدر .(لأنهُ رَأى النَّصر المُبين) قيل : وما رأى يوم بدر يا رسول الله ؟ فقال : أما أنه رأى جبريل يَزَعُ الملائكة هكذا .أي تَصُفُّهُم وتُرَتِّبُهُم يُقدم ويُؤخر وإذا حَضر الملائكة حضر النصْرُ معهم
6 = اسی عشرہ میں عظیم عبادات جمع ہوتی ہیں: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ ظاہری طو ر پر عشر ذی الحجہ کے امتیاز کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادات جمع ہوجاتی ہیں ‘ یعنی نماز ، روزہ ، صدقہ اور حج ان کے علاوہ دیگر ایام میں ایسا نہیں ہوتا
7 = ليلة الجَمع ان ایام میں ہے اور وه مزدلفہ کی رات ہے عرفات میں وقوف کے بعد جس میں حجاج دسویں ذي الحجة رات گزارتے ہیں
8 = اسلام کا پانچواں عظیم الشان رکن وبنیاد یعنی حج بهی ان ایام میں ادا کیا جاتا ہے
9 = يوم النحر بهی ان ایام میں ہے اور وه دسویں ذي الحجه کا دن ہے جس کو حدیث میں أعظم أيام الدُنيا کہا گیا بعض علماء کے نزدیک یومِ نحر پورے سال میں سب سے افضل ہے . عن عبد الله بن قُرْط عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال إن أعظم الأيام عند الله تبارك وتعالى يومُ النحر ثم يوم القَرِّ . رواه أبو داود .اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے عظمت والا دن یومِ نحر (دس ذی الحجہ) ہے پھر یوم القر (یعنی اس سے اگلا گیارہ ذی الحجہ کا دن) ہے۔ القَرِّ قَرار (ٹھہرنے) سے ہے کیونکہ اس میں لوگ منیٰ میں قیام کرتے ہیں لہذا اس وجہ سے اسے یومُ القَرِّ کہا گیا
10 = شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله نے فرمایا کہ ذي الحجه کے پہلے دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے أفضل ہیں اور رمضان کی آخری دس راتیں ذي الحجه کی دس راتوں سے افضل ہیں
11 = قوله تعالى: وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ (سورة الأعراف الآية ۱۴۲) اور وعدہ کیا ہم نےموسٰی سے تیس رات کا اور پورا کیا ان کو اور دس سے پس پوری ہو گئ مدت تیرے رب کی چالیس راتیں اور کہا موسٰی نے اپنے بھائی ہارون سےکہ میرا خلیفہ رہ میری قوم میں اور اصلاح کرتے رہنا اور مت چلنا مفسدوں کی راہ .
جب بنی اسرائیل کو طرح طرح کی پریشانیوں سے اطمینان نصیب ہوا تو انہوں نے موسٰی علیہ السلام سے درخواست کی کہ اب ہمارے لئے کوئی آسمانی شریعت لائیے جس پر ہم دلجمعی کے ساتھ عمل کر کے دکھلائیں۔ موسٰی علیہ السلام نے ان کا معروضہ بارگاہ الہٰی میں پیش کر دیا۔ خدا تعالیٰ نے ان سے کم از کم تیس دن اور زائد از زائد چالیس دن کا وعدہ فرمایا کہ جب اتنی مدت تم پے بہ پے روزے رکھو گے اور کوہ طور پر معتکف رہو گے تو تم کو تورات شریف عنایت کی جائے گی۔ اس طرح یکم ذی القعدہ سے شروع ہو کر ۱۰ ذی الحجہ کو پورا ہوا جیسا کہ اکثر سلف سے منقول ہے۔ واللہ اعلم۔ موضح القرآن میں ہے کہ حق تعالیٰ نے وعدہ دیا حضرت موسٰی علیہ السلام کو کہ پہاڑ پر تیس رات خلوت کرو کہ تمہاری قوم کو "تورات" دوں اس مدت میں انہوں نے ایک دن مسواک کی فرشتوں کو ان کے منہ کی بو سے خوشی تھی وہ جاتی رہی اس کے بدلے دس رات اور بڑھا کر مدت پوری کی. تفسیر عثمانی
حافظ ابن کثیر رحمه الله بهی فرماتے ہیں کہ : اکثر علماء کے نزدیک ثلاثين سے ذو القعده کے تیس دن اور عشر سے ذي الحجه کے دس دن مراد ہیں
فالأكثرون على أن الثلاثين هي (ذو القعدة) والعشر عشر ذي الحجة روي عن ابن عباس وغيره فعلى هذا يكون قد كمل الميقات يوم النحر وحصل فيه التكليم لموسى عليه السلام وفيه أكمل الله الدين لمحمد صلى الله عليه وسلم كما قال تعالى: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا تفسير القرآن العظيم لابن كثير

عشرذی الحجہ میں خاص طاعات وعبادات

حج وعمرہ کی ادائیگی = عشرذی الحجہ میں کیے جانے والے تمام اعمالِ صالحہ میں سے افضل عمل حج بیت اللہ اور عمرہ کی ادائیگی ہے حضورصلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال العُمرةُ إلى العُمرةِ كفارةٌ لما بينهما رواه البُخاري. اور حدیث میں ہے حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں۔ حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جو سنت نبوی کے مطابق کیا جائے جس میں ریاکاری نمود و نمائش وشہوت کی بات اور کسی قسم کی معصیت و نافرمانی نہ کی جائے بلکہ نیکی اور بھلائی کے کام زیادہ سے زیادہ کیے جائیں
ذکر الله ودعا وتلاوت کی کثرت = لقوله تبارك وتعالى وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ . ذو الحجہ کے ان پرانوار ایام میں ذکرالٰہی اور تکبیر وتحمید کا بھی کثرت سے اہتمام کرنا چاہیے۔ سیدنا عبد الله بن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ : ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشر فأكثروا فيهن من التكبير والتهليل والتحميد .ان دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں کہ جس میں کیا گیا عمل الله تعالیٰ کے ہاں ان سے زیادہ عظیم اور محبوب ہو پس تم ان دنوں میں تہلیل (لا الٰه الا اللہ) تکبیر (اللہ اکبر) اور تحمید (الحمد للہ) کی کثرت کرو۔ مسند احمد. ابن عمر اور ابوہریره رضي الله عنهما عشره ذی الحجہ کے دوران بازار میں نکلتے تو تکبیرات کہتے اور انہیں سن کر لوگ بھی تکبیرات کہتے۔ سیدنا عمر فاروق رضي الله عنه منیٰ میں اپنے خیمے میں تکبیرات کہتے اور مسجد والے لوگ ان کی آواز سن کر اس میں شریک ہو جاتے۔ اس طرح منیٰ میں سیدنا ابن عمر نمازوں کے بعد اپنے بستر پر اپنے خیمے میں اپنی مجلس میں اور چلتے ہوئے تکبیرات میں مشغول رہتے۔ لہٰذا ان تمام ایام میں زیادہ سے زیادہ بآوازِ بلند تکبیرات کہنی چاہئیں اسی طرح دعا بهی بکثرت کرنی چائیے کیونکہ ان مبارک لمحات قبولیت دعا کی زیاده امید ہے .قال الإمام البخاري رحمه الله: كان ابن عمر وأبو هريرة رضي الله عنهما يخرجان إلى السوق في أيام العشر يكبران ويكبر الناس بتكبيرهما . وقال أيضا: وكان عمر يكبر في قبته بمنى فيسمعه أهل المسجد فيكبرون ويكبر أهل السوق حتى ترتج منى تكبيرا . وكان ابن عمر رضي الله عنهما : يكبر بمنى تلك الأيام وخلف الصلوات وعلى فراشه وفي فسطاطه ومجلسه وممشاه تلك الأيام جميعا. والمستحب: الجهر بالتكبير للرجال لفعل عمر وابنه وأبي هريرة. والنساء يكبرن ولكن تخفض الصوت لما جاء في حديث عطية ... حتى نخرج الحُيَّض فيكن خلف الناس فيكبرن بتكبيرهم ويدعنَّ بدعائهم.. رواه البخاري ومسلم
فرض نماز اور نوافل = نماز بھی جلیل القدر اور افضل ترین عبادات میں شامل ہے۔ لہٰذا ہرمسلمان کو بروقت اور باجماعت نماز ادا کر کے اس پر محافظت اور ہمیشگی کرنی چاہیے۔ عشر ذی الحجہ میں فرض نمازوں پر خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ کثرت سے نوافل بھی ادا کرنے چاہئیں
روزہ رکھنا = روزہ بھی نیک اعمال میں شامل ہے بلکہ افضل ترین عمل ہے۔ اس کی عظمت شان اور علو مرتبت کی وجہ سے اللہ جل شانہ نے اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے کہ وہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے عشر ذی الحجہ کے دیگر ایام میں سے ۹ ذی الحجہ (یومِ عرفہ) کے روزے کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے اور اس کی فضیلت بیان فرمائی کہ یومِ عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے الله سے امید ہے کہ یہ ایک سال گذشتہ کے اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہوگا ۔ لہٰذا ۹ ذو الحجہ کا روزہ رکھنا سنت ہے کیونکہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اس کی ترغیب دلائی ہے اورخود بهی آپ نے روزه رکها جیسا کہ مسند احمد وأبو داود ونسائي کی روایت سے ثابت ہے عن هنيدة بن خالد عن امرأته عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة ويوم عاشوراء وثلاثة أيام من كل شهر. رواه الإمام احمد و أبو داود والنسائي .
اور مذاہب اربعہ کے کبار علماء نے ذوالحجه کے پہلے نو ایام کے روزوں کو مستحب قراردیا اورحنفی ومالكی وشافعی وحنبلی فقهاء کا ان روزوں کے مستحب ہونے پر اتفاق ہے بلکہ امام نووی رحمه الله نے تو فرمایا کہ ذی الحجہ کے یہ روزے انتہائی درجے میں مستحب ہیں.
اور علامہ ابن حزم ظاہری نے بهی ان روزوں کو مستحب قرار دیا ہے ان فقهاء کرام کی عبارات درج ذیل ہیں
قال في المبسوط : الصوم فی هذه الایام مندوب الیه . وقال في الفتاوى الهندية : ويستحب صوم تسعة أيام من أول ذي الحجة . وقال في مواهب الجليل : يستحب يعني صيامها استحبابا شديدا لا سيما التاسع منها وهو يوم عرفة.وقال في إحياء علوم الدين : اعلم أن استحباب الصوم يتأكد في الأيام الفاضلة .. ..وذكر والعشر الأول من ذي الحجة .وقال في روضة الطالبين : ومن المسنون صوم عشر ذي الحجة غير العيد . وقال في المقنع : ويستحب صوم عشر ذي الحجة . وقال ابن حزم : ونستحب صيام أيام العشر من ذي الحجة قبل النحر. وقال القرطبي: وصومها مستحب استحبابا شديدا لا سيما التاسع وهو يوم عرفة . وقال النووي : فليس في صوم هذه التسعة كراهية بل هي مستحبة استحبابا شديدا لا سيما التاسع منها وهو يوم عرفة .

حاصل کلام

جو اوقات ولمحات خصوصی اہمیت وفضیلت کے حامل ہوں تو ان کی قدر کرنا ضروری ہے اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیکی واطاعت کی ان بابرکت ایام کا استقبال سچی توبہ ورجوع الی الله سے کرے اور ان ایامِ فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا پختہ عزم کرے اور اپنی آخرت کے لیئے بڑھ چڑھ کر نیک اعمال کرے اور یہ بهی ضروری ہے کہ ان مبارک لمحات میں ہرقسم کی معصیت اور نافرمانی سے اجتناب کرے کیونکہ مبارک لمحات ومقامات میں جس طرح نیکی کا اجر وثواب بہت بڑھ جاتا ہے اسی طرح گناه ومعاصی کی شدت وسزا بهی سخت ہوجاتی ہے
الله تعالیٰ راقم الحروف سمیت جمیع اهل اسلام کو ان مبارک ومختصر لمحات واوقات سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہرقسم کی ظاہری وباطنی گناہوں سے محفوظ رکهے . آمين بحرمة خاتم المرسلين

Saturday, October 13, 2012

Etiquette of returning Salam

If one were to be greeted in full with the Islamic greeting As Salamu Alaikum Wa Rahmathullahi Wa Barakathuhu, it is important to reply in full with Wa Alaikum Salam Wa Rahmathullahi Wa Barakathuhu.
Allah commands us to respond to greetings in a better way or at least in a similar manner.

And when you are greeted with a greeting, greet [in return] with one better than it or [at least] return it [in a like manner]. Indeed, Allah is ever, over all things, an Accountant. [Al Quran 4:86]

Adam AS greeted the Angels with Salam. The Angels replied with one better than it. We, followers of Prophet PBUH, should adopt and return greetings as the Angels did.

Narrated Abu Huraira RA:
The Prophet PBUH said, “Allah created Adam, making him 60 cubits tall. When He created him, He said to him, “Go and greet that group of angels, and listen to their reply, for it will be your greeting (salutation) and the greeting (salutations of your offspring.” So, Adam said (to the angels), As-Salamu Alaikum (i.e. Peace be upon you). The angels said, “As-salamu Alaika wa Rahmatu-l-lahi” (i.e. Peace and Allah’s Mercy be upon you). Thus the angels added to Adam’s salutation the expression, ‘Wa Rahmatu-l-lahi,’ Any person who will enter Paradise will resemble Adam (in appearance and figure). People have been decreasing in stature since Adam’s creation.
 [Sahih Bukhari Volume 4, Book 55, Number 543]

Additionally, Prophet PBUH told us that returning greetings is obligatory. If we did not reply in full, we would have not fulfilled in our obligation in returning the greetings in full.

Abu Hurayrah RA said: “I heard the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) say: ‘The rights of a Muslim over his fellow Muslim are five: returning greetings, visiting the sick, attending funerals, accepting invitations, and saying Yarhamuk Allah (may Allah have mercy on you) when he sneezes.’” 
[Saheeh al-Bukhaari (1164) and Saheeh Muslim (4022)]

Prophet PBUH said ” Greetings and prayers should not be limited”  
[Narrated: Abu Huraira Abu Dawud 793]

In addition to returning the greetings, if one were to pray for mercy and blessings for that person, it will be more rewarding.

Narrated Imran ibn Husayn RA: A man came to the Prophet (peace_be_upon_him) and said: Peace be upon you! He responded to his salutation. He then sat down. The Prophet (peace_be_upon_him) said: Ten. Another man came and said: Peace and Allah’s mercy be upon you! He responded to his salutation when he sat down. He said: Twenty. Another man came and said: Peace and Allah’s mercy and blessings be upon you! He responded to him and said when he sat down: and blessings be upon you! He responded to him and said when he sat down: Thirty. 
[Abu Dawud Book 41, Number 5176]



PBUH – Peace & Blessings be Upon Him

RA – Radhi Allahu Anhu – May Allah be pleased with them