الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً
یوم
عرفہ انتہائی برکت وفضیلت والے ایام میں سے ہے گناہوں کی بخشش اور جہنم سے
آزادی کا دن ہے دعاوں کی قبولیت کا خاص دن ہے الله تعالی فرشتوں کے سامنے
أہل عرفات پر فخر کرتے ہیں اسی دن میں الله تعالی نے دین اسلام کی تکمیل
فرمائی اور اپنی نعمت کو مکمل فرمایا اس یوم مبارک کے بعض فضائل درج ذیل
ہیں
1 = عرفہ کے دن دین اسلام کی تکمیل اورالله تعالی کی نعتموں کا اتمام ہوا
قال تعالی : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ . آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطےاسلام کو دین ۔ یہ آیت مبارکہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی . نزلت هذه الآية يوم الجمعة يوم عرفة بعد العصر في حجة الوداع والنبي صلى الله عليه وسلم واقف بعرفات على ناقته العضباء فكادت عضد الناقة تندق من ثقلها فبركت. تفسير معالم التنزيل للبغوي . صحیحین میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ایک یھودی نے عمربن خطاب سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آيت ہم یھودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے عمر رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے کہا : اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا.توعمر رضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے ۔ عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رجلاً من اليهود قال له: يا أمير المؤمنين آية في كتابكم تقرؤونها لو علينا معشر اليهود نزلتْ لاتّخذنَا ذلك اليوم عيداً قال: أيَّةُ آيةٍ؟ قال: اليومَ أكملتُ لكم دينَكُم وأتممتُ عليكم نعمتي ورضيتُ لكم الإِسلام ديناً فقال عمر: قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم وهو قائم بعرفة يوم الجمعة أشار عمر إلى أن ذلك اليوم كان عيداً لنا. تفسير معالم التنزيل للبغوي ۔ یہ آیت ۱۰ ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی جبکہ میدان عرفات میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد اتقیاء وابرار رضی اللہ عنہم کا مجمع کثیر تھا۔ اس کے بعد صرف اکیاسی روز حضور صلى الله عليه وسلم اس دنیا میں جلوہ افروز رہے
2 = یوم عرفہ کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے
صحیح مسلم وغیره میں حضرت أبوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کےبارہ میں فرمایا : یہ گزرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے .عن أبي قتادة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال صيام يوم عرفة إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده قال وفي الباب عن أبي سعيد قال أبو عيسى حديث أبي قتادة حديث حسن وقد استحب أهل العلم صيام يوم عرفة إلا بعرفة . یہ روزہ حاجی کے لیے رکھنا مستحب نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ررزہ ترک کیا تھا اوریہ بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے لھذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے . امام نووي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ : گناہوں سے مراد صغائر ہیں اگر صغائر نہ ہوں تو كبائر میں تخفیف کی امید ہے اگر كبائر نہ ہوں تو پهر درجات بلند ہوں گے . ملاعلی قاری رحمہ الله مرقات میں ذکر کیا کہ إمام الحرمين نے فرمایا کہ صغائر معاف ہوں گے ، اور قاضي عياض نے نے فرمایا کہ یہی أهل السنة والجماعة کا مذہب ہے ، اور كبائر صرف توبہ سے ہی معاف ہوں گے ، یا الله تعالی کی رحمت سے معاف ہوں گے . انتهى . سوال : حدیث میں ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا ذکر ہے حالانکہ اس سال کے گناه تو بنده نے نہیں کیئے تو پهر معافی کیسے ؟
جواب : مطلب یہ ہے کہ الله تعالی اس کی گناہوں سے حفاظت فرمائیں گے ، یہ بهی کہا گیا کہ الله تعالی اس کو اپنی رحمت سے اتنا ثواب عطا کریں گے کہ اگر اس سے گناه سرزد بهی ہوجائے تو وه گذشتہ سال کی طرح آئنده سال کا بهی کفاره بن جائے گا
3 = عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے یہ عید کا دن ہے
عن عقبة بن عامر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة (أي اليوم التاسع من ذي الحجة) ويوم النحر (أي اليوم العاشر من ذي الحجة) وأيام التشريق (أي اليوم الحادي عشر والثاني عشر والثالث عشر) عيدنا أهل الإسلام وهي أيام أكل وشرب . أخرجه الترمذي والإمام أحمد وأبو داود والنساني وابن خزيمة والبيهقي والحاكم وغیرهم وقال أبو عيسى وحديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح
یعنی یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں . قال الشوكاني في النيل : ظاهر حديث أبي قتادة مرفوعا : صوم عرفة يكفر سنتين ماضية ومستقبلة رواه الجماعة إلا البخاري والترمذي أنه يستحب صوم عرفة مطلقا وظاهر حديث عقبة بن عامريعني المذكور في هذا الباب أنه يكره صومه مطلقا وظاهر حديث أبي هريرة قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم عرفة بعرفات رواه أحمد وابن ماجه أنه لا يجوز صومه بعرفات فيجمع بين الأحاديث بأن صوم هذا اليوم مستحب لكل أحد مكروه لمن كان بعرفات حاجا . والحكمة في ذلك أنه ربما كان مؤديا إلى الضعف عن الدعاء والذكر يوم عرفة هنالك والقيام بأعمال الحج وقيل : الحكمة أنه يوم عيد لأهل الموقف لاجتماعهم فيه ويؤيده حديث عقبة بن عامر انتهى كلام الشوكاني محصلا
4 = یہ ایسا دن ہے جس کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے
اورعظیم الشان اورمرتبہ والی ذات عظیم الشان چيز کے ساتھ ہی قسم اٹھاتی ہے ، اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے ( وشاهد ومشهود . البروج ۳ ) قسم ہے اُس دن کی جو حاضر ہوتا ہے اور اُس کی کہ جس کے پاس حاضر ہوتے ہیں . روایات میں آیا کہ "شاہد" جمعہ کا دن ہے اور "مشہود" عرفہ کا دن اس کے علاوہ شاہد ومشہود کی تفسیر میں اقوال بہت ہیں۔ لیکن اوفق بالروایات یہی قول ہے۔ واللہ اعلم ۔ ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : یوم موعود قیامت کا دن اور یوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے . رواه الترمذي . وقيل غير ذلك لكن هذا أحسن ما قيل وَالسَّمَاء ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ أي يوم القيامة وَشَاهِدٍ يوم الجمعة وَمَشْهُودٍ يوم عرفة هذا هو أحسن ما قيل في ذلك. وقال الطبري بعد ذکر مختلف الاقوال : والصواب من القول في ذلك عندنا أن يقال إن الله أقسم بشاهد شهد ومشهود شهد ولم يخبرنا مع إقسامه بذلك أي شاهد وأي مشهود أراد وكل الذي ذكرنا أن العلماء قالوا هو المعني مما يستحق أن يقال له شاهد ومشهود
5 = اوریہی دن الوتر بھی ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں قسم اٹھائی ہے
والشفع والوتر قسم ہے جفت اورطاق کی . شفع و وتر سے کیا مراد ہے ؟ اس میں اختلاف ہے لیکن حضرت جابر کی مرفوع روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ الوتر سے مراد یوم عرفہ ہے اور شفع سے مراد يوم النحر یعنی عیدالاضحی ہے . وهو أثبت شيء في تفسيرهما. عن جابر مرفوعاً من أن الوتر يوم عرفة والشفع يوم النحر . أخرجه الإمام أحمد والنسائي والبزار والحاكم وصححه . والله أعلم
6 = یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اولاد آدم سے عھد میثاق لیا تھا
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اوران سے آمنے سامنے بات کرتے ہوۓ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیون نہیں ہم سب گواہ بنتے ہیں ، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس محض بے خـبر تھے یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ الاعراف ( ۱۷۲، ۱۷۳ ) مسند احمد ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ لہذا معلوم ہوا کہ یہ کتنا ہی عظیم دن ہے کہ اس میں بڑا عظیم عھدو میثاق لیا گیا
7 = اس دن میدان عرفات میں وقوف کرنےوالوں کوگناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی ملتی ہے
صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے حديث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا ہے اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہوۓ کہتے ہیں میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوۓ آۓ ہیں . إن الله تعالى يباهي ملائكته عشية عرفة بأهل عرفة يقول: انظروا إلى عبادي أتوني شعثا غبرا .رواه الطبراني. یہ حدیث صحیح ہے
8 = یوم عرفہ حرمت والے مہینوں کے أيام میں سے ہے
قال الله عز وجل (إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ) [سورة التوبة : 39]. والأشهر الحرم هي ذو القعدة وذو الحجة ومحرم ورجب ويوم عرفه من أيام ذي الحجة
9 = یوم عرفہ أشهر حج أيام میں سے ہے
قال الله عز وجل (الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ) سورة البقرة : 197 وأشهر الحج هي شوال ذو القعدة ذو الحجة
10 = یوم عرفہ أيام معلومات میں سے ہے جن کی الله تعالی نے قرآن میں تعریف کی ہے
قال الله عز وجل (لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ) [سورة الحج:28]. قال ابن عباس رضي الله عنهما : الأيام المعلومات عشر ذي الحجة
11 = یوم عرفہ ان أيام میں سے ہے جن کی الله تعالی نے قسم اٹهائی ہے
جو ان ایام کے شرف وفضل کی دلیل ہے قال الله عز وجل وَلَيَالٍ عَشْرٍ [سورة الفجر:2]. قال ابن عباس رضي الله عنهما إنها عشر ذي الحجة قال ابن كثير وهو الصحيح
12 = یوم عرفہ میں الله تعالی بہت زیاده بندوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة. رواه مسلم في الصحيح
13 = یوم عرفہ میں الله تعالی فرشتوں کے سامنے میدان عرفات میں موجود لوگوں پر فخر کرتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء . رواه أحمد
14 = یوم عرفہ ہی حج کا رکن اعظم ہے قال النبي صلى الله عليه وسلم: (الحج عرفة) متفق عليه
15 = یوم عرفہ کی دعا کی انتہائی عظیم ومقبول دعا ہے
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم عرفہ کے دن یہ دعا بکثرت پڑهتے تهے لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال خير الدعاء دعاء يوم عرفة وخير ما قلت أنا والنبيون من قبلي لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . أخرجه الترمذي . وأخرجه أيضا من حديثه أحمد بإسناد رجاله ثقات ، ولفظه كان أكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . قال ابن عبد البر رحمه الله وفي ذلك دليل على فضل يوم عرفة على غيره .
1 = عرفہ کے دن دین اسلام کی تکمیل اورالله تعالی کی نعتموں کا اتمام ہوا
قال تعالی : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ . آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطےاسلام کو دین ۔ یہ آیت مبارکہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی . نزلت هذه الآية يوم الجمعة يوم عرفة بعد العصر في حجة الوداع والنبي صلى الله عليه وسلم واقف بعرفات على ناقته العضباء فكادت عضد الناقة تندق من ثقلها فبركت. تفسير معالم التنزيل للبغوي . صحیحین میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ایک یھودی نے عمربن خطاب سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آيت ہم یھودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے عمر رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے کہا : اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا.توعمر رضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے ۔ عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رجلاً من اليهود قال له: يا أمير المؤمنين آية في كتابكم تقرؤونها لو علينا معشر اليهود نزلتْ لاتّخذنَا ذلك اليوم عيداً قال: أيَّةُ آيةٍ؟ قال: اليومَ أكملتُ لكم دينَكُم وأتممتُ عليكم نعمتي ورضيتُ لكم الإِسلام ديناً فقال عمر: قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم وهو قائم بعرفة يوم الجمعة أشار عمر إلى أن ذلك اليوم كان عيداً لنا. تفسير معالم التنزيل للبغوي ۔ یہ آیت ۱۰ ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی جبکہ میدان عرفات میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد اتقیاء وابرار رضی اللہ عنہم کا مجمع کثیر تھا۔ اس کے بعد صرف اکیاسی روز حضور صلى الله عليه وسلم اس دنیا میں جلوہ افروز رہے
2 = یوم عرفہ کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے
صحیح مسلم وغیره میں حضرت أبوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کےبارہ میں فرمایا : یہ گزرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے .عن أبي قتادة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال صيام يوم عرفة إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده قال وفي الباب عن أبي سعيد قال أبو عيسى حديث أبي قتادة حديث حسن وقد استحب أهل العلم صيام يوم عرفة إلا بعرفة . یہ روزہ حاجی کے لیے رکھنا مستحب نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ررزہ ترک کیا تھا اوریہ بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے لھذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے . امام نووي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ : گناہوں سے مراد صغائر ہیں اگر صغائر نہ ہوں تو كبائر میں تخفیف کی امید ہے اگر كبائر نہ ہوں تو پهر درجات بلند ہوں گے . ملاعلی قاری رحمہ الله مرقات میں ذکر کیا کہ إمام الحرمين نے فرمایا کہ صغائر معاف ہوں گے ، اور قاضي عياض نے نے فرمایا کہ یہی أهل السنة والجماعة کا مذہب ہے ، اور كبائر صرف توبہ سے ہی معاف ہوں گے ، یا الله تعالی کی رحمت سے معاف ہوں گے . انتهى . سوال : حدیث میں ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا ذکر ہے حالانکہ اس سال کے گناه تو بنده نے نہیں کیئے تو پهر معافی کیسے ؟
جواب : مطلب یہ ہے کہ الله تعالی اس کی گناہوں سے حفاظت فرمائیں گے ، یہ بهی کہا گیا کہ الله تعالی اس کو اپنی رحمت سے اتنا ثواب عطا کریں گے کہ اگر اس سے گناه سرزد بهی ہوجائے تو وه گذشتہ سال کی طرح آئنده سال کا بهی کفاره بن جائے گا
3 = عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے یہ عید کا دن ہے
عن عقبة بن عامر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة (أي اليوم التاسع من ذي الحجة) ويوم النحر (أي اليوم العاشر من ذي الحجة) وأيام التشريق (أي اليوم الحادي عشر والثاني عشر والثالث عشر) عيدنا أهل الإسلام وهي أيام أكل وشرب . أخرجه الترمذي والإمام أحمد وأبو داود والنساني وابن خزيمة والبيهقي والحاكم وغیرهم وقال أبو عيسى وحديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح
یعنی یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں . قال الشوكاني في النيل : ظاهر حديث أبي قتادة مرفوعا : صوم عرفة يكفر سنتين ماضية ومستقبلة رواه الجماعة إلا البخاري والترمذي أنه يستحب صوم عرفة مطلقا وظاهر حديث عقبة بن عامريعني المذكور في هذا الباب أنه يكره صومه مطلقا وظاهر حديث أبي هريرة قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم عرفة بعرفات رواه أحمد وابن ماجه أنه لا يجوز صومه بعرفات فيجمع بين الأحاديث بأن صوم هذا اليوم مستحب لكل أحد مكروه لمن كان بعرفات حاجا . والحكمة في ذلك أنه ربما كان مؤديا إلى الضعف عن الدعاء والذكر يوم عرفة هنالك والقيام بأعمال الحج وقيل : الحكمة أنه يوم عيد لأهل الموقف لاجتماعهم فيه ويؤيده حديث عقبة بن عامر انتهى كلام الشوكاني محصلا
4 = یہ ایسا دن ہے جس کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے
اورعظیم الشان اورمرتبہ والی ذات عظیم الشان چيز کے ساتھ ہی قسم اٹھاتی ہے ، اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے ( وشاهد ومشهود . البروج ۳ ) قسم ہے اُس دن کی جو حاضر ہوتا ہے اور اُس کی کہ جس کے پاس حاضر ہوتے ہیں . روایات میں آیا کہ "شاہد" جمعہ کا دن ہے اور "مشہود" عرفہ کا دن اس کے علاوہ شاہد ومشہود کی تفسیر میں اقوال بہت ہیں۔ لیکن اوفق بالروایات یہی قول ہے۔ واللہ اعلم ۔ ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : یوم موعود قیامت کا دن اور یوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے . رواه الترمذي . وقيل غير ذلك لكن هذا أحسن ما قيل وَالسَّمَاء ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ أي يوم القيامة وَشَاهِدٍ يوم الجمعة وَمَشْهُودٍ يوم عرفة هذا هو أحسن ما قيل في ذلك. وقال الطبري بعد ذکر مختلف الاقوال : والصواب من القول في ذلك عندنا أن يقال إن الله أقسم بشاهد شهد ومشهود شهد ولم يخبرنا مع إقسامه بذلك أي شاهد وأي مشهود أراد وكل الذي ذكرنا أن العلماء قالوا هو المعني مما يستحق أن يقال له شاهد ومشهود
5 = اوریہی دن الوتر بھی ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں قسم اٹھائی ہے
والشفع والوتر قسم ہے جفت اورطاق کی . شفع و وتر سے کیا مراد ہے ؟ اس میں اختلاف ہے لیکن حضرت جابر کی مرفوع روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ الوتر سے مراد یوم عرفہ ہے اور شفع سے مراد يوم النحر یعنی عیدالاضحی ہے . وهو أثبت شيء في تفسيرهما. عن جابر مرفوعاً من أن الوتر يوم عرفة والشفع يوم النحر . أخرجه الإمام أحمد والنسائي والبزار والحاكم وصححه . والله أعلم
6 = یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اولاد آدم سے عھد میثاق لیا تھا
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اوران سے آمنے سامنے بات کرتے ہوۓ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیون نہیں ہم سب گواہ بنتے ہیں ، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس محض بے خـبر تھے یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ الاعراف ( ۱۷۲، ۱۷۳ ) مسند احمد ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ لہذا معلوم ہوا کہ یہ کتنا ہی عظیم دن ہے کہ اس میں بڑا عظیم عھدو میثاق لیا گیا
7 = اس دن میدان عرفات میں وقوف کرنےوالوں کوگناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی ملتی ہے
صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے حديث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا ہے اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہوۓ کہتے ہیں میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوۓ آۓ ہیں . إن الله تعالى يباهي ملائكته عشية عرفة بأهل عرفة يقول: انظروا إلى عبادي أتوني شعثا غبرا .رواه الطبراني. یہ حدیث صحیح ہے
8 = یوم عرفہ حرمت والے مہینوں کے أيام میں سے ہے
قال الله عز وجل (إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ) [سورة التوبة : 39]. والأشهر الحرم هي ذو القعدة وذو الحجة ومحرم ورجب ويوم عرفه من أيام ذي الحجة
9 = یوم عرفہ أشهر حج أيام میں سے ہے
قال الله عز وجل (الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ) سورة البقرة : 197 وأشهر الحج هي شوال ذو القعدة ذو الحجة
10 = یوم عرفہ أيام معلومات میں سے ہے جن کی الله تعالی نے قرآن میں تعریف کی ہے
قال الله عز وجل (لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ) [سورة الحج:28]. قال ابن عباس رضي الله عنهما : الأيام المعلومات عشر ذي الحجة
11 = یوم عرفہ ان أيام میں سے ہے جن کی الله تعالی نے قسم اٹهائی ہے
جو ان ایام کے شرف وفضل کی دلیل ہے قال الله عز وجل وَلَيَالٍ عَشْرٍ [سورة الفجر:2]. قال ابن عباس رضي الله عنهما إنها عشر ذي الحجة قال ابن كثير وهو الصحيح
12 = یوم عرفہ میں الله تعالی بہت زیاده بندوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة. رواه مسلم في الصحيح
13 = یوم عرفہ میں الله تعالی فرشتوں کے سامنے میدان عرفات میں موجود لوگوں پر فخر کرتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء . رواه أحمد
14 = یوم عرفہ ہی حج کا رکن اعظم ہے قال النبي صلى الله عليه وسلم: (الحج عرفة) متفق عليه
15 = یوم عرفہ کی دعا کی انتہائی عظیم ومقبول دعا ہے
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم عرفہ کے دن یہ دعا بکثرت پڑهتے تهے لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال خير الدعاء دعاء يوم عرفة وخير ما قلت أنا والنبيون من قبلي لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . أخرجه الترمذي . وأخرجه أيضا من حديثه أحمد بإسناد رجاله ثقات ، ولفظه كان أكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . قال ابن عبد البر رحمه الله وفي ذلك دليل على فضل يوم عرفة على غيره .
والله
تعالى أعلم هذا ما تيسر جمعه سائلا الله أن يتقبل منا ومن المسلمين
أعمالهم وأن يجعلها خالصة لوجهه الكريم وصلى الله على نبينا محمد وآله
وصحبه وسلم تسليما كثيراً