اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کو بہت سے خصائص و فضائل کی وجہ سے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں ایک ممتاز مقام عطا کیا ہے جیسے:
یہ اس مہینے کی چند خصوصیات اور فضیلتیں ہیں۔ اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کیسے اس کا استقبا ل کریں؟ کیا
ویسے ہی جیسے ہر مہینے کا استقبال ہم اللہ کی نافرمانیوں اور غفلت کیشیوں
سے کرتے ہیں؟ یا اس انداز سے کہ ہم اس کی خصوصیات اورفضائل سے بہرہ وَر
ہوسکیں؟ اور جنت میں داخلے کے اور جہنم سے آزادی کے مستحق ہوسکیں؟
رمضان المبارک کے خصوصی اَعمال و وظائف
1۔روزہ:
ان میں سب سے اہم عمل، روزہ رکھناہے، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
ایک دوسری روایت میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
یہ فضیلت اور اجر ِعظیم صرف کھانا پینا
چھوڑ دینے سے حاصل نہیں ہوجائے گا، بلکہ اس کا مستحق صرف وہ روزے دار ہوگا
جو صحیح معنوں میں روزوں کے تقاضے بھی پورے کرے گا۔ جیسے جھوٹ سے، غیبت
سے، بدگوئی اور گالی گلوچ سے، دھوکہ فریب دینے سے اور اس قسم کی تمام بے
ہودگیوں اور بدعملیوں سے بھی اجتناب کرے گا۔ اس لئے کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے:
اور فرمایا:
یعنی جس طرح ڈھال کے ذریعے سے انسان دشمن کے وار سے اپنا بچائو کرتا
ہے۔ اسی طرح جو روزے دار روزے کی ڈھال سے اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے
بچے گا۔ گویا اس کے لئے ہی یہ روزہ جہنم سے بچائو کے لئے ڈھال ثابت ہوگا۔
اس لئے جب ایک مسلمان روزہ رکھے، تو اس کے کانوں کا بھی روزہ ہو، اس کی
آنکھ کا بھی روزہ ہو، اس کی زبان کا بھی روزہ ہو اور اسی طرح اس کے دیگر
اعضاء و جوارح کا بھی روزہ ہو۔ یعنی اس کا کوئی بھی عضو اور جز اللہ کی
نافرمانی میں استعمال نہ ہو اور اس کی روزے کی حالت اور غیر روزے کی حالت
ایک جیسی نہ ہو بلکہ ان دونوں حالتوں اور دنوں میں فرق و امتیاز واضح اور
نمایاں ہو۔
2۔قیام اللّیل:
دوسرا عمل قیام اللیل ہے۔ یعنی راتوں کو اللہ کی عبادت اور اس کی بارگاہ
میں عجز و نیاز کا اظہار کرنا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن
(رحمن کے بندوں) کی جو صفات بیان فرمائی ہیں، ان میں ایک یہ ہے:
اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
راتوں کا قیام نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی مستقل معمول تھا، صحابہ کرامؓ او رتابعین
عظامؒ بھی اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور ہر دور کے اہل علم و صلاح اور
اصحاب ِزہد و تقویٰ کا یہ امتیاز رہا ہے۔ خصوصا ً رمضان المبارک میں اس کی
بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ رات کا یہ تیسرا آخری پہر اس لئے بھی بڑی اہمیت
رکھتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ ہرروز آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اہل دنیا سے خطاب کرکے کہتا ہے: ’’کون ہے جو مجھ سے مانگے، تو میں اس کی
دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے، تو میں اسکو عطا کروں؟ کون ہے
جو مجھ سے مغفرت طلب کرے، تو میں اسے بخش دوں؟‘‘
3۔صدقہ و خیرات:
تیسرا عمل صدقہ و خیرات کرنا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے میں صدقہ و خیرات کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔
صدقہ و خیرات کا مطلب ہے، اللہ کی رضا جوئی کے لئے فقراء و مساکین، یتامی و
بیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا اَفراد کی ضروریات پر خرچ کرنا
اور ان کی خبرگیری کرنا۔ بے لباسوں کو لباس پہنانا، بھوکوں کو غلہ فراہم
کرنا، بیماروں کا علاج معالجہ کرنا، یتیموں اور بیواؤوں کی سرپرستی کرنا،
معذوروں کا سہارا بننا، مقروضوں کو قرض کے بوجھ سے نجات دلا دینا اور اس
طرح کے دیگر افراد کے ساتھ تعاون و ہمدردی کرنا۔
سلف صالحین میں کھانا کھلانے کا ذوق و جذبہ بڑا عام تھا، اور یہ سلسلہ
بھوکوں اور تنگ دستوں کو ہی کھلانے تک محدود نہ تھا، بلکہ دوست احباب اور
نیک لوگوں کی دعوت کرنے کا بھی شوقِ فراواں تھا، اس لئے کہ اس سے آپس میں
پیار و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور نیک لوگوں کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں جن
سے گھرو ں میں خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے۔
4۔ روزے کھلوانا:
ایک عمل روزے کھلوانا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
5۔ کثرتِ تلاوت:
قرآنِ کریم کا نزول رمضانُ المبارک میں ہوا، اس لئے قرآنِ کریم کا نہایت
گہرا تعلق رمضان المبارک سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہِ مبارک میں نبی
اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ کریم کا دور فرمایا کرتے
تھے اور صحابہ و تابعین رح بھی اس ماہ میں کثرت سے قرآنِ کریم کی تلاوت کا
اہتمام کرتے تھے، ان میں سے کوئی دس دن میں، کوئی سات دن اور کوئی تین دن
میں قرآن ختم کر لیا کرتا تھا اور بعض کی بابت آتا ہے کہ وہ اس سے بھی کم
مدت میں قرآن ختم کر لیتے تھے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ
تاہم حدیث کے عموم کو ملحوظ رکھنا اور کسی بھی وقت یا جگہ کو اس سے
مستثنیٰ نہ کرنا ،زیادہ صحیح ہے، توجہ اور اہتمام سے روزانہ دس پاروں کی
تلاوت بھی کافی ہے، باقی اوقات میں انسان دوسری عبادات کااہتمام کرسکتا ہے
یا قرآنِ کریم کے مطالب و معانی کے سمجھنے میں صرف کرسکتا ہے۔ کیونکہ جس
طرح تلاوت مستحب و مطلوب ہے، اسی طرح قرآن میں تدبر کرنا اور اس کے مطالب و
معانی کو سمجھنا بھی پسندیدہ اور امر مؤکد ہے۔
6۔تلاوتِ قرآن میں خوف و بکاء کی مطلوبیت:
قرآنِ
کریم کو پڑھتے اور سنتے وقت انسان پر خوف اور رِقت کی کیفیت بھی طاری ہونی
چاہئے او ریہ اسی وقت ممکن ہے جب پڑھنے اور سننے والے مطالب و معانی سے
بھی واقف ہوں۔ اسی لئے قرآن کو شعروں کی سی تیزی اور روانی سے پڑھنے کی
ممانعت ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کو محض تاریخ و قصص کی کتاب نہ سمجھا
جائے بلکہ اسے کتاب ِہدایت سمجھ کر پڑھا جائے، آیات ِوعد و وعید اور
اِنذار و تبشیر پر غور کیا جائے، جہاں اللہ کی رحمت و مغفرت اور اس کی
بشارتوں اور نعمتوں کا بیان ہے وہاں اللہ سے ان کا سوال کیا جائے اور جہاں
اس کے اِنذار و تخویف اور عذاب و وعید کا تذکرہ ہو، وہاں ان سے پناہ مانگی
جائے۔ ہمارے اَسلاف اس طرح غور و تدبر سے قرآن پڑھتے تو ان پر بعض دفعہ
ایسی کیفیت اور رِقت طاری ہوتی کہ بار بار وہ ان آیتوں کی تلاوت کرتے اور
خوب بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑاتے۔اگر سننے والے بھی غور و تدبر سے سنیں تو ان
پربھی یہی کیفیت طاری ہوتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس طرح غور و تدبر سے قرآن پڑھتے اور اس سے اثر پذیر ہوتے کہ
جن سورتوں میں قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہے آپ فرماتے ہیں کہ انہوں نے
مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کردیا ہے:
اللہ کے خوف سے ڈرنا اور رونا، اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
’’سات آدمیوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا،
ان میں ایک وہ شخص ہوگا جس کی آنکھوں سے تنہائی میں اللہ کے ذکر اور اس کی
عظمت و ہیبت کے تصور سے آنسو جاری ہوجائیں…
ایک واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیان فرمایاکہ
بہرحال اللہ کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنے کی سعی کرنی چاہئے اور اس
کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تلاوت غور و تدبر سے کی جائے
اور اس کے معانی و مطالب کو سمجھا جائے اور اللہ کی عظمت و جلالت کو قلب و
ذہن میں مستحضر کیا جائے۔
7۔اِعتکاف:
رمضان کی ایک خصوصی عبادت اعتکاف ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کا بھی خصوصی اہتمام
فرماتے تھے۔ رمضان کے آخری دس دن، رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور
دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرما دیتے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنی پابندی سے اعتکاف
فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعتکاف نہ بیٹھ سکے، تو آپ نے شوال کے آخری دس
دن اعتکاف فرمایا: (صحیح بخاری) اور جس سال آپ کی وفات ہوئی، اس سال آپ نے
رمضان میں دس دن کی بجائے ۲۰ دن اعتکاف فرمایا: (صحیح بخاری، الاعتکاف،
رقم:۲۰۴۴)
اِعتکاف کے معنی ہیں ’’جھک کر یکسوئی سے بیٹھ رہنا‘‘
اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ کے گھر میں یکسو ہو
کر بیٹھ جاتاہے۔ا س کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ اللہ مجھ سے
راضی ہوجائے۔ چنانچہ وہ اس گوشہ ٔ خلوت میں بیٹھ کر توبہ و استغفار کرتا
ہے۔ نوافل پڑھتا ہے، ذکر و تلاوت کرتا ہے۔دعا و التجا کرتا ہے اور یہ سارے
ہی کام عبادات ہیں۔ اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ ٔ عبادات ہے۔اس موقع
پر اعتکاف کے ضروری مسائل بھی سمجھ لینے مناسب ہیں:
اس لئے عورتوں کا گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج بے اصل اور قرآن و حدیث
کی تصریحات کے خلاف ہے۔ تاہم چونکہ یہ نفلی عبادت ہے، بنابریں جب تک کسی
مسجد میں عورتوں کے لئے الگ مستقل جگہ نہ ہو، جہاں مردوں کی آمدورفت کا
سلسلہ بالکل نہ ہو، اس وقت تک عورتوں کو مسجدوں میں اعتکاف نہیں بیٹھنا
چاہئے۔
ایک فقہی اصول ہے
اس لئے جب تک کسی مسجد میں عورت کی عزت و آبرو محفوظ نہ ہو، وہاں اس کے لئے اعتکاف بیٹھنا مناسب نہیں۔
لیلۃ القدر کی تلاش
لیلۃ القدرجس کی یہ فضیلت ہے کہ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یہ بھی
رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اور
اسے مخفی رکھنے میں بھی یہی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک مؤمن اس کی فضیلت
حاصل کرنے کے لئے پانچوں راتوں میں اللہ کی خوب عبادت کرے۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی
فضیلت میں بیان فرمایا ہے:
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے تلاش کرنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ فرمایا:
یعنی ان طاق راتوں میں خوب اللہ کی عبادت کرو ، تاکہ تم لیلۃ القدر کی فضیلت پاسکو۔
لیلۃ القدر کی خصوصی دعا
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا، اگر مجھے معلوم ہو
جائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے، تو میں کیا پڑھوں؟ آپ ؐ نے فرمایا: یہ دعا
پڑھو:
آخری عشرے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معمول
یہ بات واضح ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کیا جاتا ہے اور اسی
عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدربھی ہے، جس کی تلاش و جستجو
میں ان راتوں کو قیام کرنے اور ذکر و عبادت میں رات گزارنے کی تاکید ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس عشرۂ اخیر میں عبادت کے لئے خود بھی کمر کس لیتے
اور اپنے گھروالوں کو بھی حکم دیتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
اس محنت اور کوشش سے مراد، ذکر و عبادت کی محنت اور کوشش ہے۔ اس لئے
ہمیں بھی ان آخری دس دنوں میں اللہ کو راضی کرنے کیلئے ذکر و عبادت اور
توبہ و استغفار کا خوب خوب اہتمام کرنا چاہئے۔
رمضان المبارک میں عمرہ کرنا
رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک عورت سے فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر فجر کی نماز پڑھ کر اپنے مصلیٰ پر تشریف رکھتے یہاں تک کہ سورج خوب چڑھ آتا۔
یہ فضیلت عام ہے، رمضان اور غیر رمضان دونوں حالت میں مذکورہ دو
رکعتوں کی وہ فضیلت ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے۔ اسے اعمالِ رمضان میں
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عام دنوں میں تو ہر مسلمان کے لئے اس فضیلت کا
حاصل کرنا مشکل ہے۔ تاہم رمضان میں، جب کہ نیکی کرنے کا جذبہ زیادہ قوی اور
ثواب کمانے کا شوق فراواں ہوتا ہے، اس لئے رمضان میں تو یہ فضیلت حاصل
کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے.
کثرتِ دعا کی ضرورت
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے اَحکام و مسائل کے درمیان دعا کی ترغیب بیان فرمائی ہے:
اس سے علماء اور مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ اس انداز بیان سے اللہ
تعالیٰ کی یہ منشا معلوم ہوتی ہے کہ رمضان المبارک میں دعائوں کا بھی خصوصی
اہتمام کیا جائے، کیونکہ روزہ ایک تو اخلاصِ عمل کا بہترین نمونہ ہے،
دوسرے، روزے کی حالت میں انسان نیکیاں بھی زیادہ سے زیادہ کرتا ہے، راتوں
کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتا اور توبہ و استغفار بھی کرتا ہے اور یہ سارے
عمل انسان کو اللہ کے قریب کرنے والے ہیں۔
اس لئے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی خوب کی جائیں، خصوصاً
افطاری کے وقت اور رات کے آخری پہر میں، جب اللہ تعالیٰ خود آسمانِ دنیا پر
نزول فرما کر لوگوں سے کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعائیں قبول
کروں گا۔ تاہم قبولیت ِدعا کے لئے ضروری ہے کہ دعا کے آداب و شرائط کا بھی
اہتمام کیا جائے جیسے:
اس سلسلے میں چند ارشادات ملاحظہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
ایک اور حدیث میں فرمایا:
ایک اور حدیث میں فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، پراگندہ حال،
گردوغبار میں اَٹا ہوا اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتا اور کہتا
ہے:
مذکورہ احادیث سے ان آداب و شرائط کی
وضاحت ہوجاتی ہے جو اس عنوان کے آغاز میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان آداب و
شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعا کی جائے تو یقینا وہ دعا قبول ہوتی ہے یا اس
کے عوض کچھ اور فوائد انسان کو حاصل ہوجاتے ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
ایک دوسرے کے حق میں غائبانہ دعا کی فضیلت
انسان کو صرف اپنے لئے ہی دعا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اپنے دوست احباب اور
خویش و اقارب کے حق میں پرخلوص دعائیں کرنی چاہئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
بددعا دینے سے اجتناب کیا جائے!
انسان فطرۃً کمزور اور جلد باز ہے، اس لئے جب وہ کسی سے تنگ آجاتا ہے تو
فورا ً بددعائیں دینی شروع کر دیتا ہے حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اور اپنے آپ
کو بھی بددعائیں دینے سے گریز نہیں کرتا۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
مظلوم کی آہ سے بچو!
یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان، دوسرے مسلمان بلکہ کسی بھی انسان پر ظلم نہ
کرے۔ اس لئے کہ مظلوم کی بددعا فوراً عرش پرپہنچتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
حق تلفیوں کا ازالہ اور گناہوں سے اجتناب کریں!
یہ مہینہ توبہ و استغفار اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے۔ یعنی اس
میں ایک مسلمان کثرت سے توبہ و استغفار کرتاہے، اور توبہ و استغفار سے حقوق
اللہ میں روا رکھی گئی کوتاہیاں تو شاید اللہ معاف فرما دے لیکن حقوق
ُالعباد سے متعلق کوتاہیاں اس وقت تک معاف نہیں ہوں گی، جب تک دنیا میں ان
کا اِزالہ نہ کر لیا جائے۔مثلا کسی کا حق غصب کیا ہے تو اسے واپس کیا جائے۔
کسی کو سب و شتم یا الزام و بہتان کا نشانہ بنایا ہے تو اس سے معافی مانگ
کر اسے راضی کیا جائے، کسی کی زمین یا کوئی اور جائیداد ہتھیائی ہے تو وہ
اسے لوٹا دے۔ جب تک ایک مسلمان اس طرح تلافی اور اِزالہ نہیںکرے گا، ا س کی
توبہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح وہ کسی اور معاملے میں اللہ کی
نافرمانیوں کاارتکاب کر رہا ہے۔ مثلاً رشوت لیتا ہے، سود کھاتا ہے، حرام
اور ناجائز چیزوں کا کاروبار کرتا ہے، یا کاروبار میں جھوٹ اور دھوکے سے
کام لیتا ہے، تو جب تک ان گناہوں اور حرکتوں سے بھی انسان باز نہیں آئے گا
،اس کی توبہ بے معنی اور مذاق ہے
اپنے دلوں کوباہمی بغض و عناد سے پاک کریں!
اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم آپس میں
اپنے دِلوں کو ایک د وسرے کی بابت بغض و عناد سے پاک کریں، قطع رحمی سے
اجتناب کریں اور اگر ایک دوسرے سے دنیوی معاملات کی وجہ سے بول چال بند کی
ہوئی ہے تو آپس میں تعلقات بحال کریں۔ ورنہ یہ قطع رحمی، ترکِ تعلق اور
باہمی بغض و عناد بھی مغفرتِ الٰہی سے محرومی کاباعث بن سکتا ہے۔ حدیث میں
آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
اس حدیث سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ آپس میں بغض و عناد اور ترک
ِتعلق کتنا بڑا جرم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین دن سے زیادہ بول چال
بند رکھنے اور تعلق ترک کئے رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث
میں فرمایا:
اسی طرح قطع رحمی کا جرم ہے یعنی رشتے داروں سے رشتے ناطے توڑ لینا،
ان سے بدسلوکی کرنا اور ان سے تعلق قائم نہ رکھنا۔ ایسے شخص کے بارے میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام اعمال سے بچائے جو جنت میں جانے سے رکاوٹ
بن سکتے ہیں اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق سے نوازے جو ہمیں رحمت و مغفرت
الٰہی کا مستحق بنا دیں۔ آمین !