Pages

Friday, July 19, 2013

زکاة : اہمیت اور مسائل

 زکاة کی تعریف :
عربی زبان میں لفظ ” زکاة “ پاکیزگی ، بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، اور شریعت میں” زکاة “ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصے کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ، اور اسے ”زکاة “ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیہءنفس ہوتا ہے اور اس کامال پاک اور بابرکت ہو جاتا ہے
یاد رہے کہ ” زکاة “ کیلئے قرآن وسنت میں ” صدقہ “کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے ، جیسا کہ فرمان الہی ہے : ” خُذ مِن اَموَالِہِم صَدَقَةً تُطَہِّرُہُم وَتُزَکِّیہِم بِہَا “ [التوبة : 103]یعنی ” ( اے پیغمبر ) آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجئے ، جس کے ذریعے آپ ان کو پاک صاف کردیں گے “ اس آیت سے معلوم ہوا کہ زکاة انسان کے اخلاق وکردار کی پاکیزگی کا بڑا ذریعہ ہے
زکاة کی اہمیت :
(1) زکاة دین اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر دین اسلام قائم ہے ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : ” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، اور نماز قائم کرنا اور زکاة ادا کرنا “[ متفق علیہ]
(2) زکاة اللہ تعالی کی رحمت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے ، فرمان الہی ہے : ترجمہ ” اور میری رحمت تو ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ، پس میں اپنی رحمت ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو ( گناہ اور شرک سے ) بچے رہتے ہیں اور زکاة ادا کرتے ہیں“ -         [ الاعراف : 165]
(3)زکاة دینی بھائی چارے کی شروط میں سے ایک شرط ہے ، فرمان الہی ہے : ترجمہ ” پس اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکاة دیتے رہیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں“           [ التوبة : 11]
(4) مسلم معاشرے میں جن عادات کو عام ہونا چاہئیے ان میں سے ایک زکاة ہے ، فرمان الہی ہے :ترجمہ ” مومن مردو عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مدد گار ومعاون اور) دوست ہیں ، وہ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے اور زکاة ادا کرتے ہیں “ [ التوبة : 71]
(5) جنت الفردوس کے وارث بننے والے مومنوں کی جو صفات اللہ نے بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک زکاةاداکرنا بھی ہے ، فرمان الہی ہے : ” وَالَّذِینَ ہُم لِلزَّکَاةِ فَاعِلُونَ “ [ المؤمنون : 4] ، یعنی ” اور جو زکاة ادا کرنے والے ہیں“
(6) حضرت ابو ایوب رضى الله عنه سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  سے کہا : مجھے ایسا عمل بتائیے جسے کرنے سے میں جنت میں چلا جاؤں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :” اللہ ہی کی عبادت کرتے رہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ، اور فرض نماز پابندی سے ادا کرتے رہو ، اور زکاة ادا کرتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو“ [ متفق علیہ ]
(7) زکاة کی ادائیگی سے مال بڑھتا اور بابرکت ہو جاتا ہے اورآفتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے ، فرمان الہی ہے :
ترجمہ‘ ” اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں اضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا ، اور جو تم زکاة دوگے اللہ کی خوشنودی پانے کی خاطر ، تو ایسے لوگ ہی کئی گنا زیادہ پانے والے ہیں“ [ الروم :39]
زکاة کے فوائد :
(1) اللہ تعالی نے رزق کی تقسیم اپنے ہاتھ میں رکھی ہے ، جسے چاہے زیادہ دے اور جسے چاہے تھوڑا دے ، لیکن مالدار کو اللہ تعالی نے زکاة دینے ، صدقہ کرنے اور خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ، تاکہ جسے اللہ نے تھوڑا دیا ہے اسے بغیر سوال کے ملتا رہے اور اس کی ضروریات پوری ہوتی رہیں ، اور فقیرکو اللہ تعالی نے سوال نہ کرنے کاحکم دیا ہے تاکہ اس کے اندر صبرو شکر جیسی صفات حمیدہ پیدا ہوں ، اس طرح معاشرے کے یہ دونوں فرد اللہ کے اجروثواب کے مستحق ہوتے ہیں، مالدار خرچ کرکے اور فقیر صبروشکر کرکے
(2) اسلام کے مالیاتی نظام کی ایک خوبی یہ ہے کہ ا گر پورے اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کیا جائے تو دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں منحصر ہونے کی بجائے معاشرے کے تمام افراد میں گردش کرتی رہتی ہے ،اور اس کے برعکس دیگر مالیاتی نظاموں میں یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے چند افراد تو عیش وعشرت سے زندگی بسر کرتے ہیں اور انھیں کے قرب وجوار میں رہنے والے دوسرے لوگ غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں ، اور یہ بہت بڑا ظلم ہے ، چنانچہ معاشرے میں مالیاتی توازن برقرار رکھنے کیلئے ا وراس معاشرتی ظلم کا سد باب کرنے کیلئے اللہ تعالی نے زکاة کو فرض کیا اور صدقات اور انفاق کی طرف ترغیب دلائی تاکہ معاشرے کے تمام افراد مال ودولت سے مستفید ہوتے رہیں
(3) زکاة کی ادائیگی سے مالدار اور فقیر کے درمیان محبت پیدا ہوتی ہے ،اور یوں معاشرہ بغض، نفرت او رخود غرضی جیسی بیماریوں سے پاک ہو جاتا ہے ، زکاة دینے والے میں سخاوت ، شفقت اور ہمدردی اور زکاة لینے والے میں احسانمندی ، تواضع اور انکساری جیسی صفات حمیدہ پیدا ہو جاتی ہیں ، گویا نظامِ زکاة معاشرے میں اخلاقی قدروں کو پروان چڑھاتا ہے
(4) تاریخ شاہد ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں جب زکاة کو حکومتی سطح پر جمع اور پھراسے فقراءمیں تقسیم کیا جاتا تھا تو ایک وقت ایسا بھی آیا جب تلاش کرنے کے باوجود بھی معاشرے میں فقراءنہیں ملتے تھے ، چنانچہ زکاة کو بیت المال میں جمع کرادیا جاتا تھا اورپھر اسے مسلمانوں کے مفادات عامہ میں خرچ کر دیا جاتا ، اس سے ثابت ہوا کہ اسلامی نظامِ زکاة سے معاشرے میں غربت ختم ہوتی ہے بشرطیکہ اسے پورے اخلاص اور مکمل دیانتداری کے ساتھ نافذ کیا جائے
(5) مالدار لوگ اگر زکاة ادا نہ کریں تو معاشرے میں موجود فقراءاحساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں ، اور ان کے دلوں میں مالداروں کے خلاف شدید عداوت پیدا ہو جائے ، او رپھر وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے چوری اور ڈاکہ زنی جیسے جرائم کا ارتکاب شروع کردیں ، اور یوں معاشرہ بد امنی اور لا قانونیت کی بھیانک تصویر بن جائے ، گویا اسلامی نظامِ زکاة ان اخلاقی جرائم کا سد باب کرتااور معاشرے کو امن وسکون کی ضمانت فراہم کرتا ہے
(6) مال اللہ تعالی کی نعمت ہے جس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے ، اور اس کی واحد شکل یہی ہے کہ اس کی زکاة ادا کی جائے ، اور یہ بات معلوم ہے کہ جب اللہ کی نعمتوں پر شکریہ ادا کیا جائے تو اللہ کی عنایات میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ، فرمان الہی ہے :  لئن شكرتم لأزيدنكم (ابراهيم :7)، یعنی ” اگر تم شکر ادا کروگے تو میں ضرور بالضرور تمھیں اورزیادہ دوں گا “ 
زکاة نہ دینے والے کا انجام:
جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے کہ زکاة فرض ہے اور اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے ، چنانچہ جو شخص اس کی فرضیت سے انکار کرتا ہو وہ یقینا کافر اور واجب القتل ہے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے خلیفہ بننے کے بعد جن لوگوں نے زکاة دینے سے انکار کردیا تھا ، آپ نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے فرمایا تھا: ” وَاللّٰہِ لو منعوني عقالا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعها  [ البخاری ] یعنی ”اللہ کی قسم ! اگروہ لوگ مجھ سے ایک رسی بھی روک لیں گے جسے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا کرتے تھے ،تو میں ان سے جنگ کروں گا“ اور جو شخص زکاة کی فرضیت کا قائل تو ہو لیکن اسے ادا نہ کرتا ہو تو اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اس کے متعلق مندرجہ ذیل آیت اور حدیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :
ارشادِ باری تعالی ہے : ترجمہ : ”…. حو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیئے ، جس دن اس خزانے کو آتشِ دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی ، ( اور ان سے کہا جائے گا ) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا ، پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو“         [ التوبة : 35]
اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے: ترجمہ ” اللہ نے جس کو مال سے نوازا اور پھر اس نے زکاة ادا نہیں کی ، قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہونگے ، یہ سانپ اس کے گلے کا طوق ہوگا اور اس کے جبڑے کو پکڑ کر کہے گا : میں ہوں تیرا مال ،میںہوں تیرا خزانہ “         [ صحیح البخاری ]
جن چیزوں میں زکاة فرض ہے :
اسلام میں جن چیزوں پر زکاة فرض ہے وہ اور ان کے متعلقہ مسائل درج ذیل ہیں :

(1) سونا/ چاندی اور نقدی پیسے

سونا /چاندی میں زکاة فرض ہے بشرطیکہ ان کی مقدار مقررہ نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور اس کی ملکیت پر ایک سال گذر چکا ہو یاد رہے کہ سونے کا نصاب 85 گرام جبکہ چاندی کا نصاب 595 گرام ہے ، اس طرح اگر سونا 85 گرام سے اور چاندی 595 گرام سے کم ہو تو زکاة فرض نہیں ہو گی ، اور اگر یہ دونوں اپنے مقررہ وزن کے برابر یا یا اس سے زیادہ تو ہوں لیکن ان پر سال نہ گذرا ہو تو تب بھی زکاة فرض نہیں ہو گی ، مذکورہ دونوں شرطیں اگر موجود ہوں تو سونے چاندی کی زکاة نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ان کا وزن دیکھ لیا جائے ،پھر مارکیٹ کے موجودہ ریٹ کے مطابق اس وزن کی قیمت کی تحدید کر لیں ، پھر اس کا اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ زکاة کی نیت سے ادا کردیں
مسئلہ (1) : کسی شخص کے پاس سال کے شروع میں تو سونے / چاندی کاپورا نصاب موجود تھا لیکن سال پورا ہونے سے پہلے پہلے وہ اس میں سے کچھ مقدار کو بیچ کر خرچ کر لیتا ہے اور یوں ان کا وزن نصاب سے کم ہو جاتا ہے تو اس پر زکاة فرض نہیں ہوگی ، اور اگر دورانِ سال مزید سونا / چاندی خریدنے کی وجہ سے ان کا وزن نصاب سے زیادہ ہو جاتاہے تو زکاة کی ادائیگی کے وقت بعد میں خریدے گئے سونے / چاندی کا وزن بھی شمار کرنا ہوگا
مسئلہ (2) :سونا / چاندی چاہے ڈھیلے کی شکل میں ہو یا زیورات کی شکل میں ، دونوں صورتوں میں زکاة فرض ہوگی ، حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت رسول اللہا کے پاس آئی، اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے ، آپ ا نے پوچھا کیا تم ان کی زکاة دیتی ہو ؟ اس نے کہا نہیں ، تو آپ ا نے فرمایا : کیا تمھیں یہ بات پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی تمھیں ان دونوں کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے ؟ تو اس نے انھیں زمین پر پھینک دیا اور کہا : یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے ہیں [ ابو داؤد والنسائی بسند صحیح ]
مسئلہ (3) : کاغذی کرنسی چاہے ریال ہو یا دینار ، روپیہ ہو یا ڈالر وہ بھی سوناچاندی کے حکم میں آتی ہے ، لہذا جس شخص کے پاس سونا / چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ کرنسی موجود ہو اور اس پر سال گذر چکا ہو تو اس میں زکاة فرض ہوگی ، اور اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہوگا کہ سال کے آخر میں جب زکاة ادا کرنی ہو اس وقت دیکھ لیا جائے کہ 85 گرام سوناکی قیمت کتنی ہے ، پھر جتنی کرنسی سال بھر رہی ہو وہ بھی دیکھ لی جائے ، اگر وہ 85 گرام سوناکی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس کا اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ بطور زکاة ادا کر دیں
مسئلہ (4) : ایک شخص کے پاس سال کے شروع میں تو کاغذی کرنسی سونے / چاندی کے نصاب کے برابر تھی ، لیکن دورانِ سال اس میں اور اضافہ ہوتا رہا ، تو سال کے اختتام پر جتنی کرنسی موجود ہو سب کی سب شمار کرکے ٹوٹل مبلغ کا اڑھائی فیصد بطور زکاة ادا کردیں ، جو رقوم دورانِ سال آئی تھیں ان کی زکاة پیشگی ادا ہو جائے گی
مسئلہ (5) : تنخواہ دار انسان اپنی ماہانہ بچت کی زکاة کس طرح ادا کرے ؟ اس کی دو صورتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ ہر ماہ اتنی بچت ہوتی ہے کہ وہ سونے / چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر ہے تو اس صورت میں ہر ماہ کی بچی ہوئی تنخواہ پر جیسے جیسے سال پوراہوتا جائے اس کی زکاة نکالتا جائے ، اور اگر پہلے ماہ کی زکاة ادا کرتے وقت باقی گیارہ ماہ کی زکاة بھی پیشگی ادا کرنا چاہے تو بھی درست ہو گا اور دوسری صورت یہ ہے کہ ہر ماہ کی بچت تونصاب کے برابر نہیں البتہ دو تین ماہ کی بچت کو ملا لیا جائے تو وہ نصابِ زکاة کے برابر ہو جاتی ہے ، تو اس صورت میں سال کے اختتام پر اس کے پاس جتنی بچت موجود ہو اس کا اڑھائی فیصد بطور زکاة ادا کردے
مسئلہ (6) : ہیروں اور جواہرات پر زکاة فرض نہیں ہے ، الا یہ کہ ان سے تجارت کی جارہی ہو تو اس صورت میں دیگر تجارتی سامان کے ساتھ ان کی زکاة بھی ادا کرنی ہوگی
مسئلہ (7) : قرض کی زکاة ، اس کی دو صورتیں ہیں : ایک تو یہ کہ مقروض قرضہ تسلیم کرتا ہے اور اسے جلد یا بہ دیر واپس کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے ، یامقروض تو قرضے سے انکاری ہو لیکن عدالت میں کیس کرکے اس سے قرضہ واپس لینے کا یقین ہو تو اس صورت میں قرض کی رقم کی زکاة قرض خواہ کو ادا کرنی ہوگی ، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ سال کے اختتام پر جب موجودہ مال کا حساب کیا جا رہا ہو اس کے ساتھ قرض کی رقم کو بھی ملا لیا جائے اور ٹوٹل مبلغ کا اڑھائی فیصد بطور زکاة ادا کردیا جائے ، اور دوسری صورت یہ ہے کہ مقروض قرضے سے انکاری ہو اور عدالت کے ذریعے اسے واپس لینے کا امکان بھی نہ ہو ، یا وہ قرضے کو تسلیم تو کرتا ہو لیکن ہر آئے دن واپسی کا وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرتا ہو ، یا اس کے حالات ہی ایسے ہوں کہ وہ قرضہ واپس کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا تو ایسی صورت میں قرض کی رقم پر زکاة فرض نہیں ہوگی ، ہاں جب مقروض قرضہ واپس کردے تو گذشتہ ایک سال کی زکاة ادا کردی جائے
مسئلہ (8) : ایک شخص کے پاس زکاة کا نصاب تو موجود ہے ، چاہے سونا / چاندی کی شکل میں یا نقدی کرنسی کی شکل میں یا کسی اور شکل میں ، لیکن وہ خود دوسروں کا مقروض ہے ، اور اگر زکاة ادا کرتا ہے تو مزید بوجھ تلے دب جانے کا اندیشہ ہے تو ایسی حالت میں اس پر زکاة فرض نہیں ہوگی ، ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے بعد بھی اس کے پاس زکاة کے نصاب کے برابر مال موجود ہے اور اس پر سال گذر چکا ہے تو اس کا اڑھائی فیصد زکاة کی نیت سے ادا کرنا ضروری ہوگا
مسئلہ (9) :کمپنی کے حصص ( شیئرز) اگر تجارتی مقصد سے خریدے گئے ہیں اور ان پر سال گذر چکا ہے تو ان کی زکاة ادا کرنا لازمی ہوگا ، اگر خود کمپنی تمام پارٹنرز کے حصص کی زکاة ادا کردیتی ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ ہر پارٹنر اپنے اپنے حصص کی زکاة ادا کرنے کا پابند ہوگا
مسئلہ (10) : زکاة خالص سونے / چاندی پر فرض ہوتی ہے ، لہذا ملاوٹ کو وزن میں شمار نہیں کیا جائے گا ،اس طرح اگر ملاوٹ کا وزن نکال کر خالص سونے / چاندی کا وزن مقررہ نصاب سے کم ہو جاتا ہے تو اس پر زکاة فرض نہیں ہوگی

(2) تجارتی سامان :

دوسری چیز جس پر زکاة فرض ہوتی ہے وہ ہے ” تجارتی سامان“، اور اس سے مراد وہ تمام اشیاءہیں جنھیں تجارت کی نیت سے خریدا جائے ، چاہے مقامی مارکیٹ سے یا باہر سے درآمد کرکے ، اس طرح وہ تمام چیزیں اس حکم سے نکل جاتی ہیں جنھیں کسی نے اپنے ذاتی استعمال کیلئے خریدا ہو ، مثلا گھر ، گاڑی اور زمین وغیرہ ، تو ایسی اشیاءپر زکاة فرض نہیں ، اور اسی طرح صنعتی مشینری، آلات ، سٹورز اور ان میںپڑی الماریاں ، دفاتر اور ان کے لوازمات پر بھی زکاة فرض نہیں کیونکہ ایسی تمام اشیاءایک جگہ برقرار رہتی ہیں اور انھیں بیچ کر تجارت کرنا مقصود نہیں ہوتا
تجارتی سامان کی زکاة نکالنے کا طریقہ : سال کے اختتام پر تاجر ( چاہے فرد ہو یا کمپنی ) کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام تجارتی سامان کی مارکیٹ کے موجودہ ریٹ کے مطابق قیمت لگائے ، پھر اس کے پاس سال بھر جو نقدی کرنسی رہی ہو اسے اس میں شامل کرلے ، اسی طرح اس کا جو قرضہ قابل واپسی ہو اسے بھی حساب میں شامل کرلیا جائے ، اور اگر وہ خود مقروض ہو تو قرضے کی رقم نکال کر باقی تمام رقم کا اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ بطورِ زکاة ادا کردے ، مثلا
تجارتی سامان کی قیمت ہے : /100000 روپیہ
بنک بیلینس یا نقدی رقم جو سال بھر رہی: 50000 روپیہ
قرضہ جو قابل واپسی ہے : /70000 روپیہ
ٹوٹل: /220000 روپیہ
قرضہ جو قرض خواہوں کو واپس کرنا ہے : /60000 روپیہ
باقی :/160000روپیہ
اب باقی رقم کا اڑھائی فیصد جو کہ 4000 روپے ہے ، بطورِ زکاة ادا کردے ۔
مسئلہ :صنعتی آلات اور مشینری کی اصل قیمت پر تو زکاة فرض نہیں ، البتہ ان کی آمدنی اگر زکاة کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تو اس سے زکاة نکالنا ضروری ہوگا، اور یہی حکم کرائے پر دیے ہوئے مکانوں ، دوکانوں اور گاڑیوں وغیرہ کا ہوگا کہ ان کی اصل قیمت پر زکاة نہیں ، کرائے پر ہوگی بشرطیکہ کرایہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تواس کا اڑہائی فیصد ادا کرنا ہوگا ، البتہ ان اشیاءپر ادا کیا جانے والا ٹیکس اور ان کی دیکھ بھال پر آنے والے دیگر اخراجات ان چیزوں کی آمدنی سے نکال لیے جائیں ، اور اس طرح اگر مالک کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تو وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے جائز اخراجات بھی آمدنی سے نکال لے ، پھر جو رقم باقی ہو اس سے زکاة ادا کردے

(3) حیوانات :

جن مویشیوں پر زکاة فرض ہے ، وہ یہ ہیں : اونٹ ، گائے / بھینس ، او ربھیڑ بکریاں ، ارشادنبوی ہے : ترجمہ ” جس شخص کے پاس اونٹ یا گائے یا بکریاں ہیں اور اس نے ان کی زکاة ادا نہیں کی تو قیامت کے دن انھیں بہت بڑا او ر بہت موٹا کرکے لایا جائے گا ، پھر وہ اسے اپنے ٹاپوں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے ، جب سب اس کے اوپر سے گذر جائیں گے تو پہلے کو پھر لوٹایا جائے گا ، اور لوگوں کا فیصلہ ہونے تک اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا “ [البخاری]
مویشیوں میں زکاة کی فرضیت کیلئے چار شرطیں ہیں : ایک یہ کہ وہ اپنے مقررہ نصاب کو پہنچ جائیں ، یاد رہے کہ اونٹوں کا کم ازکم نصاب پانچ ، گائے / بھینس کا تیس اور بھیڑ بکریوں کا چالیس ہے ، دوسری شرط یہ کہ ان کی ملکیت پر سال گذر جائے ، تیسری یہ کہ سال کا اکثر حصہ یہ مویشی چرتے رہے ہوں اور مالک کو سال بھر یا سال کا بیشتر حصہ ان کی خوراک خریدنا نہ پڑی ہو ، اور چوتھی شرط یہ کہ یہ جانور کھیتی باڑی یا بوجھ برداری کیلئے نہ ہوں اور یہاں یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ مویشیوں کو اگر تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہو تو ان کی زکاة دوسرے سامانِ تجارت کی زکاة کی طرح نکالی جائے گی ، چنانچہ ان کی قیمت کا اعتبار ہوگا نہ کہ تعداد کا ۔
تنبیہ : مویشیوں کے نصاب کی دیگر تفاصیل حدیث اور فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں

(4) زرعی پیداوار:

فرمان الہی ہے :ترجمہ : ” اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے ، اور ہم نے تمھارے لئے زمین سے جن چیزوں کو نکالا ہے ، ان میں سے خرچ کرو“ [البقرة:267 ] اس آیت سے ثابت ہوا کہ زمینی پیداوار مثلا گیہوں، جَو ،چاول ، کھجور ، انگور اور زیتون وغیرہ ، پر زکاة فرض ہے اور اس بات پر پوری امت کا اجماع ہے ۔
زرعی پیداوار کا نصابِ زکاة :فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : ترجمہ : ” پانچ وسق سے کم میں زکاة نہیں“[متفق علیہ ] پانچ وسق کی مقدار موجودہ حساب کے اعتبار سے 653 کیلو گرام ہے ، اس طرح زرعی پیداوار اگر مذکورہ وزن سے کم ہو تو اس پر زکاة فرض نہیں ہوگی۔
زرعی پیداوار کا کتنا حصہ زکاة میں دیا جائے ؟ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : ترجمہ : ” جس کو بارش اور چشموں کے پانی نے سیراب کیا ہو یا وہ خود بخود زمینی پانی سے سیراب ہوا ہو، اس میں دسواںحصہ ہے ، اور جس کو آلات کے ذریعے یا محنت کرکے سیراب کیا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے“ [ البخاری ] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو پیداوار بارشی پانی یا نہری پانی یا چشموں کے پانی سے حاصل ہوئی ہو اس کا دسواں حصہ اور جسے مشینوں کے ذریعے سیراب کرکے حاصل کیا گیا ہو اس کابیسواں حصہ بطورِ زکاة ادا کرنا ہوگا
مسئلہ (1) :زرعی پیداوار پر سال گذرنا ضروری نہیں بلکہ وہ جیسے ہی حاصل ہوگی اس کی زکاة فورا ادا کرنی ہوگی ، فرمان الہی ہے : ”وَآتُوا حَقَّہُ یَومَ حَصَادِہ“ [ الانعام : 141 ] ترجمہ : ” اس کا حق اس کی کٹائی کے دن ادا کردو“۔
مسئلہ (2) : تازہ استعمال ہونے والے پھلوں اور سبزیوں پر زکاة نہیں ہے : الّا یہ کہ ان کی تجارت کی جائے ، تجارت کی صورت میں ان کی قیمت اگر نصاب ِ زکاة کو پہنچ جائے اور وہ سال بھر اس کے پاس رہے تو اس کا اڑھائی فیصد ادا کرنا ہوگا

مصارفِ زکاة :

یعنی کون لوگ زکاة لینے کے مستحق ہیں ؟ فرمانِ الہی ہے :  إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل فريضة من الله والله عليم حكيم [التوبة : 60] ترجمہ : ” صدقے صرف فقیروں ، مسکینوں اور ان کے وصول کرنے والوں کیلئے ہیں ، اور ان کیلئے جن کی تالیفِ قلب مقصود ہو ، اور گردنیں چھڑانے میں ، اور قرض داروں کیلئے ، اور اللہ کی راہ میں ، اور مسافر کیلئے ، یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے“ ۔
 اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاة لینے کے مستحق یہی آٹھ ہیں ، ان کو چھوڑ کر کسی اور مصرف پر زکاة خرچ نہیں کی جا سکتی ، البتہ یہ ضروری نہیں کہ زکاة کی رقم ان آٹھوں پر خرچ کی جائے بلکہ ان میں سے جو زیادہ مناسب اور زیادہ ضرورتمند ہو اس پر اسے خرچ کردیا جائے ۔
(1) و(2) : فقراءاور مساکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ضرورتمند ہوں او رجن کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ جس سے وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کر سکیں ، انھیں زکاة کی رقم سے اتنا پیسہ دیا جائے جو زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ان کی ضروریات کیلئے کافی ہو ۔
(2) :”العاملین علیہا “سے مراد زکاة اکٹھی کرنے والے اور اسے مستحقین میں تقسیم کرنے والے لوگ ہیں ، انھیں زکاة کی رقم سے ان کے کام کے بقدر تنخواہ یا وظیفہ دیا جاسکتا ہے خواہ وہ مالدار کیوں نہ ہوں ۔
(4) ” المؤلفة قلوبہم “ سے مراد کمزور ایمان والے نو مسلم لوگ ہیں ، یا ایسے لوگ جن کے مسلمان ہونے کی امید ہو ، یا ایسے کفار جن کو مال دینے سے توقع ہو کہ وہ اپنے قبیلے یا علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے۔
(5) ” وفی الرقاب “ سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کو ان کے آقاؤں سے چھڑا کر آزاد کر دینا -
(6) مقروض جو قرض واپس کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے زکاة کی رقم دی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس نے قرضہ جائز مقصد کیلئے لیا ہو ، اسی طرح وہ لوگ جن پر چٹی پڑ جائے ، یا ان کا کاروبار شدید خسارے کا شکار ہو گیا ہو تو انھیں بھی زکاة دی جا سکتی ہے ۔
(7) ” فی سبیل اللہ“ سے مراد جہاد اور دیگر تمام دینی مقاصد ہیں جو اللہ کی رضا کے موجب بنتے ہیں ، مثلا دینی مدارس کی تعمیر ، ان میں زیرِ تعلیم طلبہ اور ہسپتال وغیرہ میں زکاة کی رقم خرچ کی جا سکتی ہے ۔
(8) وہ مسافر جس کا سفر جائز مقصد کیلئے ہو اور اس کا زادِ راہ دورانِ سفر ختم ہو جائے اور وہ سفری ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پیسے کا محتاج ہو اسے بھی بقدر ضرورت زکاة دی جا سکتی ہے ۔
تنبیہ (1): مذکورہ مستحقینِ زکاة اگر اپنے قریبی رشتہ داروں میں مل جائیں تو انھیں زکاة دینے سے دوگنا اجر ملتا ہے۔
تنبیہ ( 2) : اپنے بیوى بچوں اور والدین کو زکاة نہیں دی جا سکتی ،ہاں بہن بھائی اگر ضرورتمند ہوں تو انھیں زکاة دینے سے دوگنا اجر ملے گا ، اسی طرح دولتمند اور کمانے والے تندرست اور فاسق وفاجر اور آلِ رسول ا کو بھی زکاة نہیں دی جا سکتی ۔