بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (1) مَلِكِ النَّاسِ (2) إِلَهِ النَّاسِ (3) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (5) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (6)
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (1) مَلِكِ النَّاسِ (2) إِلَهِ النَّاسِ (3) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (5) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (6)
کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں۔(یعنی) لوگوں کے حقیقی بادشاہ کی ۔لوگوں کے معبود برحق کی ۔ (شیطان) وسوسہ انداز کی برائی سے جو (خدا کا نام سن کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے ۔ (خواہ وہ) جنات سے (ہو) یا انسانوں میں سے ۔
تفسیر ابن كثیر
خالق، پرورش کنندہ، مالک، حکمران، معبود حقیقی اور پناہ دہندہ٭٭
اس میں اللہ تعالٰی
عزوجل کی تین صفتیں بیان ہؤی ہیں، پالنے اور پرورش کرنے کی، مالک اور شہنشاہ ہونے
کی ، معبود اور لائق عبادت ہونے کی تمام چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اسی کی
ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں مشغول ہیں، پس وہ حکم دیتا ہے کہ ان پاک اور
برت رصفات والے اللہ کی پناہ میں آ جائے جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو، شیطان جو
انسان پر مقرر ہے اس کے وسوسوں سے وہی بچانے والا ہے، شیطان ہر انسان کے ساتھ ہے۔
برائیوں اور بدکاریوں کو وب زینت دار کر کے لوگوں کے سامنے وہ پیش کرتا رہتا ہے اور
بہکانے میں راہ راست سے ہٹانے میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ اس کے شر سے وہی محفوظ رہ
سکتا ہے جسے اللہ بچا لے۔ صحیح حدیث شری میں ہے تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان
ہے لوگوں نے کہا کیا آپ کے ساتھ بھی آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ تعالٰی نے اس پر
میری مدد فرمائی ہے پس میں سلامت رہتا ہوں وہ مجیھ صرف نیکی اور اچھائی کی بات ہی
کہتا ہے۔ بخاری مسلم کی اور حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبانی ایک
واقعہ منقول ہے جس میں بیان ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں تھے تو ام
المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا آپ کے پاس رات کے وقت آئیں جب واپس جانے
لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دے کر ٹھہرایا اور فرمایا سنو!میرے
ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حی (رضی اللہ تعالٰی عنہا) ہیں انہوں نے کہا سبحان اللہ یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فرمان کی ضرورت ہی کیا تھی؟ آپ نے فرمایا انس ان
کے خون کے جاری ہنے کی جگہ شیطان گھومتا پھرتا رہتا ہے، مجیھ خیال ہوا کہ کہیں
تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے، حافظ ابویعلی موصلی رحمتہ اللہ نے ایک
حدیث وارد کی ہے جس میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شیطان اپنا ہاتھ
انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تب تو اس کا ہاتھ ہٹ جاتا
ہے اور اگر یہ ذکر اللہ بھول جاتا ہے تو وہ اس کے دل پر پورا قبضہ کر لیتا ہے، یہی
وسواس الحناس ہے، یہ حدیث غریب ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ایک صحابی آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے
تھے گدھے نے ٹھوکر کھائی تو ان کے منہ سے نکلا شیطان برباد ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا یوں نہ کہو اس سے شیطان پھول کر بڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں
نے اپنی قوت سے گرا دیا اور جب تم بسم اللہ کہو تو و گھٹ جاتا ہے یہاں تک مکھی کے
برابر ہو جاتا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ سے شیطان پست اور مغلوب ہو جاتا ہے
اور اس کے چھوڑ دینے سے وہ بڑا ہو جاتا ہے اور غالب آ جاتا ہے، مسند احمد میں ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم میں سے کؤی مسجد میں ہوتا ہے اس کے
پاس شیطان آتا ہے اور اسے تھپکتا اور بہلاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے جانور کو بہلاتا
ہو پھر اگر وہ خاموش رہا تو وہ ناک میں نکیل یا منہ میں لگام چڑھا دیتا ہے ، حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰعنہ نے یہ حدیث بیان فرما کر فرمایا تم خود اسے دیکھتے ہو
نکیل والا تو وہ ہے جو ایک طرف جھکا کھڑا ہوا اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو اور لگام
والا وہ ہے جو منہ کھولے ہوئے ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو، حضرت ابن عباس رضی
اللہ تعالیٰ عنہا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں شیطان ابن آدم کے دل پر چنگل مارے
ہوئے ہے جہاں یہ بھولا اور غفلت کی کہ اس نے وسوسے ڈالنے شروع کئے اور جہاں اس نے
ذکر اللہ کیا اور یہ پیچھے ہٹا، سلیمان فرماتے ہیں مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ
شیطان راحت و رنج کے وقت انسان کے دل میں سوراخ کرنا چاہتا ہے یعنی اسے بہکانا
چاہتا ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرے تو یہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ
تعالٰی عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ شیطان برائی سکھاتا ہے جاں انسان نے اسکی مان لی
پھر ہٹ جاتا ہے، پھر فرمایا جو وسوسے ڈالتا ہے لوگوں کے سینے میں، لفظ ناس جو انسان
کے معنی میں ہے اس کا اطلاق جنوں پر بھی بطور غلبہ کے آ جاتا ہے۔ قرآن میں اور جگہ
ہے برجال من الجن کہا گیا ہے تو جنات کو لفظ ناس میں داخل کر لینے میں کؤی قباحت
نہیں، غرض یہ ہے کہ شیطان جنتا کے اور انسان کے سینے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ اس
کے بعد کے جملے من الجنتہ والناس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن کے سینوں میں شیطان
وسوسے ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ وسواس
ڈالنے والا خواہ کوئی جن ہو خواہ کوئی انسان جیسے اور جگہ ہے وکذالک جعلنا لکلک نبی
وعداواً شیاطین الانس والجن یوحئی بعضھم الی بعض زخروف القول غرور یعنی اسی طرح ہم
نے ہر نبی کے دشمنی انسانی اور جناتی شیطان بنائے ہیں ایک دوسرے کے کان میں دھوکے
کی باتیں بنا سنور کر ڈالتے رہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی
عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آیا اور بیٹھ
گیا، آپ نے فرمایا نماز بھی پڑھی؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت
ادا کر لو۔ میں اٹھا اور دو رکعت پڑھ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا اے ابوذر اللہ
تعالیٰ کی پناہ مانگو انسان شیطانوں اور جن شیطانوں سے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں، میں نے کہا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسی چیز ہے، آپ نے ارشاد فرمایا بہترین چیز
ہے ، جو چاہے کم کرے جو چاہے اس عمل کو زیادہ کرے، میں نے پوچھا روزہ؟ فرمایا کافی
ہونے والا فرض ہے اور اللہ کے پاس اجر و ثواب لا انتہا ہے۔ میں نے پھر پوچھا صدقہ؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت ہی بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر کے بدلہ دیا
جائے گا۔ میں نے پھر عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا
باوجود مال کی کمی کے صدقہ کرنا یا چپکے سیچ ھپا کر کسی مسکین فقیر کے ساتھ سلوک
کرنا، میں نے سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نبی کون تھے؟ آپ نے
فرمایا حضرت آدم علیہ السلام، میں نے پوچھا کیا وہ نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا ہاں وہ نبی تھے اور وہ بھی وہ جن سے اللہ تعالٰی نے بات چیت کی، میں نے
کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول کتنے ہوئے؟
فرمایا تین سو کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت اور کبھی فرمایا تین سو پندرہ، میں نے کہا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ان سب سے بڑی عظمت والی
آیت کونسی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آیت الکرسی اللہ لا الہ الا
ھو الحی القیوم الخ، یہ حدیث نسائی میں بھی ہے اور ابو حاتم بن حبان کی صحیح ابن
حبان میں تو دوسری سند سے دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث بہت بڑی ہے، فا اللہ اعلم،
مسند احمد کی ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے دل میں تو
ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کا زبان سے نکالنا مجھ پر آسمان سے گر پڑنے سے بھی
زیادہ برا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ ہی کے
لئے حمد و ثناء ہے جس نے شیطان کے مکر و فریب کو وسوسے میں ہی لوٹا دیا، یہ حدیث
ابو داؤد اور نسائی میں بھی ہے۔