سب تعریفیں اسی عظیم الشان ذات کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا اور اسے رنگ برنگي مخلوق سے سجایا۔ دن کی روشنی اور اس میں قسم قسم کی زندگي کی رعنائیاں، پھولوں کے رنگ و بناوٹ اور خوشبوئیں، سبزہ زار،باغات اور لہلہاتے کھیت، گیت گاتے پرندے، طرح طرح کےجانور،بل کھاتی ندیاں، آبشاریں اورجھرنوں بہتا پانی، مرغزار وں اور برف زاروں کے نظارے اور تتلیاں، ہواؤں کی گردش، گھٹائیں، گرجتےبادل ، کڑکتی بجلیاں، بارشیں، دریا ، سمندر، پہاڑ، درخت، رنگارنگ مخلوق اور نجانے کیا کچھ۔ رات کی تاریکی کا پردہ اور سکون ، قندیلوں کے مانندخوبصورت ٹمٹماتےستارے اور ان کی راہ دکھلاتی حسین روشنی اور دل میں طلاطم برپا کرتی ٹھنڈی مسحور کن چاندنی۔ یہ ساری چیزیں بامقصد اور کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت میں لگی ہوئيں اور اس کو راحت پہنچا رہیں ہیں۔یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر اگر کھلے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو یہ بلاشرکت غیرے
بس اپنے خالق و مالک ہی کےکامل علم وحکمت ،بےمثال عظمت و قدرت اوربےنیاز وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں۔
دیکھیے کہ اللہ تبارک تعالی کی تخلیق کردہ کائنات اور اس کی ہرہر چیزبامعنی ،بامقصد اورخدا کے متعین کردہ اپنےکام میں مصروف نظر آتی ہے۔ اور یہ تخلیق فضول ہرگز نہیں جیسا کہ اللہ رب العالمین نے خود فرمایا ہے
:
سورة ص
( 38 )
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ
{27}
ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں کردیاہے۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسےکافروں کے لیے بر بادی ہے جہنم کی آگ سے۔
انہی چیزوں کی پیدائش میں بے شمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جوان میں غور و فکر کرتے ہیں اور وہ یہ پکار اٹھتے ہیں
کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
پروردگاریہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب!ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے
سورة آل عمران
( 3 )
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ {190} الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
{191}
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوشمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اُٹھتے، بیٹھتے، اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کویاد کرتے ہیں اورآسمان و زمین کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں۔(وہ بے اختیا ر بول اُٹھتے ہیں) “پروردگاریہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تُو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب!ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔”اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب اللہ کی پیدا کردہ یہ اتنی ساری چیزیں انسان کے فائدے کے کام اور اس کی خدمت میں لگي ہوئی ہیں، اورجہاں سب کچھ ہی بامقصد ہے تو آخر اس عظیم مخلوق یعنی حضرت انسان کی تخلیق بے مقصد کیسے ہو سکتی ہے؟
آخر اس اشرف المخلوقات کے پیدا کیے جانے کا کیا مقصد ہے ؟
یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ہم آج تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جو اگر ہم لوگوں سے پوچھیں تو کوئي بڑا خوش نصیب ہی ہو گا جس نے اپنی زندگي کا شعوری مقصد وہ رکھا ہو جس کے لیے حقیقتا ہمارے رب نے ہمیں پیدا کیا ہے۔
دیکھیے کہ انسان بھی اپنی سمجھ کے مطابق بامعنی کام ہی کرتا ہے اور بامقصد چیز ہی بناتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو چیز جب تک اپنا مقصد پورا کرے کارآمدہے اور جب اپنی تخلیق کا مقصد پورا نہ کرے تو بے کار۔ یہ باتیں ہی سمجھنے کےلیے ہمیں اللہ نے سماعت و بصارت کی قوتیں ، عقل و فہم اور سوچنے سمجھنے والے دل عطا فرمائے ہیں۔اب اپنی تخلیق پرغور کیجیے تو عقل سلیم یہ چند باتیں ضرور پوچھے گي جن کے جواب ہم ذیل میں قرآن سے تلاش کر رہے ہیں۔
پہلی بات: مقصد وجود
ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟
ہمیں خدا نے یہ زندگي کیوں دی ہےاورہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ہمیں زندگي کا کیا مقصد رکھنا چاہیے اورآیاہم اپنی تخلیق کا مقصد پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟
آئیے قرآن کھولتے ہیں
جواب ملاحظہ ہو
سورة الذاريات
(51 )
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ {56} مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ {57} إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ
{58}
میں نے جِن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اورنہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۔ اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست ۔
تو قرآن سے جواب یہ ملا کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت ہی ہمارامقصد تخلیق ہے۔
رزق کا حصول اور اس کی دوڑ دھوپ ہماری پیدا کیے جانے کا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ تمام چیزیں ضروریات ہیں اور ہمیں ان کے حصول کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور جو رزق دیتا ہے، پرورش کرتا ہے اور ہماری زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہےاسی کی عبادت وپرستش اور اطاعت و بندگی کی جائے۔
قرآن حکیم میں اللہ کی تخلیق و نشانیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد
کتنے ہی مقامات پر یہ کہا گیا
ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ
کہ یہ اور یہ کام کرنے والا ہی تمہارا رب ہے
اور وہی سچا معبود ہے۔ اللہ کے خالق اور رازق ہونے کو توحید کی دلیل کے طور پر قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے
:
سورة الروم
( 30 )
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَلِكُم مِّن شَيْءٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
{40}
اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟ پاک ہے وہ اور بہت بالاوبرتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
تو کسی دوسرے کو شریک کیے بغیر اپنے خالق ، مالک، رب ،رازق اور حقیقی معبود کی بندگي ہی ہماری پیدا کیے جانے کا مقصد ہے۔اور ہمارےانسان ہونے کے مقام کی حقیقی عزت ورفعت اور شرف اسی میں ہے کہ ہم بس اپنے رب ہی کی بندگی کریں
۔ ورنہ ہمارا جسمانی وجود توایک وقت مقرر تک زندہ رہے گا لیکن ہمارا حقیقی وجود اپنا مقصد پورا نہ کرنے کی بنا پر بے کار ہوجائے گا اورجسمانی موت سے بہت پہلے ہی جیتے جی مر جائے گا۔اس طرح اللہ کی نشانیوں پر توجہ نہ کر کے توحید سے غافل رہنے اور اپنے رب کی بندگی کایہ مقصد پورا نہ کرنے پر ہماری زندگي حقیقی علم کی روشنی سے محروم ہو کراندھیروں میں بھٹکتی ایسی حیوانی زندگی رہ جائے گي کہ جس کا مقصد پیٹ کے پیچھے ہی دوڑتے رہنا، کھانا پینا، افزائش نسل اور آسائشوں کی تلاش کے علاوہ اور کچھ نہ رہ جائےگا، دیکھیے کہ ایسے غافل لوگوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے
سورة الأعراف
( 7 )
۔۔۔لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
{179}
ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جوغافل ہیں۔
یعنی اللہ سے غافل لوگوں کا دیکھنا، سننا اور سوچنا بالکل حیوانوں کے جیسا ہے انہیں جانوروں کی طرح وہ سب کچھ سنائی دیتا،نظر آتا اور سجھائی دیتاہے جس کاتعلق لذت کام ودہن سے ہو لیکن ایک خدا ہی کی نشانیوں کی طرف انہیں کوئي توجہ نہیں ہوتی۔چیزوں کے ظاہری پہلو پر ہی سوچتے ہیں مگرجس حقیقت کی طرف یہ چیزیں نشاندہی کرتی ہیں اس طرف ان لوگوں کا کوئي خیال نہیں جاتا
۔جانور کے لیے تو ایسا دیکھنا ، سننا اور سوچنا قابل مذمت نہیں ہے کیونکہ وہ تو اسی کا مکلف ہے لیکن صاحب عقل و شعور انسان جب حیوانوں کی طرح کا رویہ اختیار کرتا ہےتو وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہے کیونکہ اسے تو یہ صلاحیتیں اسی لیے دی گئیں اورپیدا ہی اس لیے کیا گیا کہ آفاق و انفس کی نشانیوں میں غور و فکر کر کےوہ اپنے خالق و مالک کو پہچان سکے گا،
اس کے بھیجے پیغامات سے نصیحت حاصل کرے گااور اسی کی بندگی کرے گا
توہم نے جاناکہ اللہ کی بندگی و اطاعت کیے بغیر انسانی زندگی بے کار و بے مقصد ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ بندگی کا کیا مطلب ہے۔اصل میں( لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ) اللہ سے بندگي کا عہد ہی ہے اوربندگي کا پورا مفہوم ہماری پوری زندگی اور اس کے ہر ہر عمل اور ہر ہر گوشے و پہلو پر محیط ہے
۔اللہ ہی کے لیے نماز، روزہ، زکواۃ، حج بھی بندگی کے راستے ہیں، اللہ ہی سے امید اور خوف رکھنا بھی بندگی ہے، اللہ ہی سےدعامانگنا، اللہ کے احکامات بجا لانا اوراللہ ہی کےدیے نظام زندگي کی پیروی کرنا بھی اللہ کی بندگی ہے۔
معاملہ اہم ہے اس لیے اب ذرا تفصیل سے غور کرتے ہیں
۔یوں سمجھ لیجیے کہ کسی نمازکے وقت جو زندگی کے سانس اللہ نے بخشے ہیں وہ اسی لیے ہیں کہ اللہ کے سامنے جھکا جائے۔
اور ایک نماز سے دوسری نماز تک زندگي کی چند گھڑیاں عطا ہونے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگلی نماز پر اللہ کے سامنے سجدہء شکر بجا لایا جائے اور اسی سے مدد واستعانت کے لیے ہاتھ پھیلایا جائے
۔رمضان مبارک اگر اللہ زندگی میں نصیب فرماتا ہے تو زندگی کے اس مہینے میں مومن کی زندگی کا ایک بڑامقصد نماز و روزہ کا اہتمام ہو گا۔
اللہ نے اگر مال دیا ہے تو جان لیجیے کہ اسی لیے عطا کیا ہے اس سے زکواۃ اور صدقات دیے جائیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔
صاحب استطاعت ہیں تو یہ استطاعت اللہ نے حج ہی کے لیے دی ہے۔خدا نے طاقت دی ہے، وقت دیا ہے، صلاحیت دی ہے، مال دیا ہے، اقتدار دیا ہے،علم دیا ہے غرض جو بھی نعمت عطا کی ہے تو اسی لیے کہ خدا ہی کی بخشی نعمت کو کسی طرح اللہ کے کسی کام میں کھپا دیا جائے
۔ملازمت، تجارت یا روزی کمانے کے لیے جو بھی حلال کام کرتے ہیں اس میں اللہ کے احکامات کے مطابق اسی کوراضی کرنے کے لیے دیانت داری، حلال کھانا،خیانت نہ کرنا اورخلق خدا پرظلم نہ کرنا ہی اللہ کی بندگی ہے۔صاحب اقتدار و حیثیت ہیں تو نماز، روزہ، زکواۃ کے ساتھ ساتھ اپنے فیصلوں کو اللہ کے فیصلوں کے ماتحت کرنا بھی اللہ کی اطاعت و بندگی ہے۔انسانوں کےعقائد و معاملات کی اصلاح ہو،عبادات ہوں، توحید کا ابلاغ ہو،
قرآن و سنت کی دعوت ہو، جہاد و قتال ہو، اللہ کے احکامات، قوانین اور فیصلوں کی اطاعت ونفاذہو یا حکومت الہیہ کے قیام کی جدوجہد ہو یہ سب اللہ ہی کی بندگی کی صورتیں ہے
۔یعنی عقیدہ و عمل، انفرادی و اجتماعی زندگی، معاشی و معاشرتی،معاملاتی اور حکومتی زندگي، غرض حیات انسانی کا کوئی ایک بھی گوشہ نہیں ہے جواس عہد کے بندھن سے آزاد ہو اور جہاں ہم اللہ کی بندگی و اطاعت کر کے اپنی پیدائش کا مقصد پورا نہ کر سکتے ہوں۔اور کلمہء طیبہ کی صورت میں کیا گیا یہ عہد اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب کہ زندگی کے تمام ہی معاملات میں اللہ کی بندگی کی جائے۔
ایسا نہ ہو کہ مسجد میں تو اللہ ہی کی بندگي ہو اور کاروبار میں جھوٹ،دھوکہ دہی اور ظلم کی بندگي۔ روزوں کا اہتمام تو بہت اچھا ہو لیکن جیب خیانت اورسود کی بندی ہو،یا پھر ایک طرف تو خلق خدا کی گردن پر ظلم کی چھری رکھ کر ان کا خون نچوڑا جا رہا ہواور دوسری طرف زکواۃ اور صدقات بھی دیے جا رہے ہوں
۔یا یہ اعلان کیا جا رہا ہو کہ اسلام تو انفرادی معاملہ ہے ہم نماز روزہ تو کرتے ہیں لیکن عدالتی فیصلوں اور حکومتی قانون کےساتھ اللہ کی بندگي کا کیا لینا دینا؟
اللہ کی بندگي و عبادت اگر پوری طرح کرنی ہے اور اپنا مقصد پیدائش پورا کرنا ہے اورزندگي کی اس آزمائش کی بھٹی سے کامیابی سے نکلنا ہے تو اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا پڑے گا
۔ادخلو فی السلم کافۃ
۔یعنی اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے پہلو اور ہر گوشے کو اللہ ہی کی بندگی کے ماتحت کرنا، اپنے سارے کاموں میں بس اللہ ہی کی خوشنودی و رضا کومقصود رکھنا اوربندگی کے طریقوں کےلیے اللہ کے بہترین بندے اوررسول محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی کرنا۔ جو انسان بھی اس کرہء ارض پرکبھی بسے ہیں،آج موجود ہیں،
یا آئندہ پیدا کیے جائیں گے ان کے پیدا کیے جانے کا مقصد بخدا اس کےسوا اور کچھ بھی نہیں کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی بندگي کریں۔اور اسی مقصد کے پورا کرنے میں دائمی راحتوں کا حصول اور سچی کامیابیاں ہیں ورنہ انتہائي خوفناک انجام والی ناکامیاں۔
دوسری بات: دنیا کی زندگی محض آزمائش ہے
اس ضمن میں دوسری بات یہ کہ روئے زمین پر زندگی کا یہ ہنگامہ ، یہ مال و اولاد، یہ رونقیں اور چکاچوند، اچھے برے حالات، یہ سب ایک ابتلاءو آزمائش کے سامان کے سوا اور کچھ بھی نہیں
۔اورہماری پیدائش کا ایک مقصد یہ امتحان لینا ہے کہ کون اللہ کی دی ہوئی سماعت و بصارت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اللہ اور اس کے رسولوں علیھم السلام پر ایمان لاتا ہے اور اعمال صالحہ کرتا ہے
اوراس طرح اپنے آپ کو اشرف المخلوقات اوراللہ کا حقیقی نائب ثابت کرتا ہے۔کچھ آیات ملاحظہ ہوں
سورة الملك
( 67 )
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
{2}
جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزماکر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والاہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی
سورة الإنسان
(76 )
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا {2} إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا {3} إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَا وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا
{4}
ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔ کفر کرنے والوں کے لیے ہم نے زنجیریں اور طوق او ر بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔
سورة الكهف
( 18 )
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا {7} وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا
{8}
واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایاہے تا کہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آخر کار اِس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔
سورة الأنبياء
( 21 )
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
{35}
ہر جاندار کو مَوت کامزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔
سورة الأنفال
( 8 )
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ
{28}
اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کےلیے بہت کچھ ہے۔
اس آزمائش میں کامیابی کا راستہ
اورزندگی کی اس کڑی آزمائش میں پورا اترنے کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اللہ کے بھیجے انبیاء اوررسولوں علیھم السلام کی اتباع وپیروی۔ یہی وہ بات ہے جس پر ہماری کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہے اوریہ بات انسان کو زمین پر بھیجتے وقت ہی اس امتحان میں کامیابی کے ایک رہنما اصول کے طور پر ابتدا ہی میں بتلا دی گئی تھی
سورة طه
( 20 )
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى {123} وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى {124} قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا {125} قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى
{126}
فرمایا "تم دونوں (فریق، یعنی انسان اورشیطان) یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دُوسرے کے دشمن رہو گے۔اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مُبتلا ہو گا۔اور جو میرے "ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے"_____وہ کہے گا "پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا"؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا " ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو ، جبکہ وہ تیرے پاس آئیں تھی، تُو نے بھُلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھُلایا جا رہا ہے"اللہ کے بھیجے سارے انبیاء اوررسولوں علیھم السلام نے ایک ہی دین وطریقہ زندگی اسلام یعنی ایک ہی اللہ کی بندگي کی طرف دعوت دی اور اس دین کی بنیاد یعنی توحید و رسالت اور آخرت کی تعلیمات میں کبھی کوئي فرق نہ آیا۔ سارے ہی انبیاء اوررسولوں علیھم السلام نے اپنی دعوت کا آغاز اسلام کی بنیاد اور
کائنات کی سب سے بڑی حقیقت و سچ یعنی لا الہ الا اللہ سے کیا اور ان سب کے پیروکار توحید و رسالت و آخرت پر ایما ن رکھنے والے مسلم ہی تھے۔ اس توحید کے جواب میں ہر دور میں باطل اورشرک کی صورتیں مختلف رہیں
لیکن کلمہء توحید ہمیشہ لا الہ الا اللہ ہی رہا۔یوں اللہ کا جاری کردہ پسندیدہ دین ہمیشہ سے اسلام ہی رہا اور بس یہی کامیابی کی زندگی گزارنے کا اللہ کے ہاں قابل قبول راستہ ٹھہرا
سورة آل عمران
( 3 )
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۔۔۔
{19}
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اِس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقےاُن لوگوں نے اختیار کیے جنہیں کتاب دی گئي تھی، اُن کے اِس طرزِعمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ اُنہوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔سورة آل عمران
( 3 )
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
{85}
اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہےاُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔اور قرآن عظیم الشان میں کسی کے ہدایت یافتہ ہونے کی ایک نشانی بھی یہی بتلائی گئي
کہ فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلاَمِ
پس جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے
۔توسارے انبیاءعلیہم السلام اور ان کے پیروکار اصل میں اسلام ہی کے پیرو کار تھے اور اسی راستے پر چل کر ان کو کامیابی ملی اورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد قیامت تک آنے والے کسی بھی انسان کو اگر اللہ کی بندگی کر کے اگر اپنے پیدا کیے جانے کامقصد پورا کرنا اور کامیابی حاصل کرنا ہے تواللہ کی اس بندگی کے لیےخدا کے ہاں مقبول راستہ اسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں جسے خدا نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل کر دیا۔
بہترین مقصد زندگی
ہم نے جانا کہ اللہ کی بندگي کا صحیح اور اللہ کے ہاں قابل قبول راستہ اسلام ہی ہے اب آئيے بندگیء رب کے راستے یعنی اسلام پر عمل کرتے ہوئے زندگی کے ایک اعلی ترین مقصد کے بارے میں جانتے ہیں۔ جس بات کا ہم تذکرہ کرنے چلے ہیں قرآن عظیم کے مطابق یہ انسانی زبان سے نکلنے والی سب سے اچھی بات ہے اور وہ سبب ہے جس کے لیے اللہ نے اپنے جلیل القدرپیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور یہ وہ مقصد ہے جوساری انسانیت کےچنے ہوئے بہترین لوگوں کا مقصد زندگی رہا ہے۔اوریہ راستہ اور یہ مقصد دعوت الی اللہ یعنی انسانیت کو اللہ کی طرف بلانا ہے
سورة فصلت
(41)
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
{33}
اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔سورة القصص
( 28 )
۔۔۔وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ {87} وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۔۔۔
{88}
اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکارو۔ اُس کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے۔ سورة النحل
( 16 )
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۔۔۔
{125}
اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔
ہاں یہی اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصدِ وجود اور افضلیت کا سبب ہے۔کہ جس قرآن و سنت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارےدرمیان چھوڑ کر ہم پر اتمام حجت کر گئے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت اوراللہ کے اس پیغام کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں تک پہنچانا ہے۔اوریہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
بلغواعنی ولوایۃ
مجھ سے آگے پہنچاؤ بھلے وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔
اور اس طرح ہمیں انسانیت کو اللہ کی طرف بلانا ہے،دنیا والوں پرحق کی گواہی و شہادت کا فریضہ انجام دینا ہے، نیکی کا حکم دینا ہےاور برائی سے روکنا ہے کہ اللہ کا راستہ اختیار کرنا ہی ساری انسانیت کے لیے کامیابی اور فلاح کاراستہ ہے۔اور دعوت الی اللہ ہی اسلام پر عمل پیرا ہو کر بندگي ءرب میں ہماری حیات کا بلند ترین نصب العین ہو سکتا ہے
سورة البقرة
( 2 )
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۔۔۔
{143}
اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک "اُمتِ وَسَط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔سورة آل عمران
( 3 )
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ ۔۔۔
{110}
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کی لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔سورة آل عمران
( 3 )
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
{104}
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ہمیں اللہ نے بس اپنی بندگی کے سوا کسی اور مقصد کےلیے پیدانہیں کیا ہے۔اور ہماراخدا کی بندگي کرنا ہمارے اپنے ہی لیے مفید ہے وگرنہ اللہ اس سے بے نیاز ہے۔ ہم بندگی کریں تو اس کی رفعت و شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمارےکفر کرنے سے اس کی بادشاہی و شوکت میں کوئی فرق آتا ہے۔وہ بہت ہی ارفع واعلی و بے نیازہستی ہے جس کی حکومت و اقتدار بلکہ اس کے سارے کام اس کے اپنے ہی بل بوتے اور طاقت پر چل رہے ہیں اورکسی کی بندگی یا مدد کے محتاج نہیں
۔ہمارا ایک ہی اللہ کے آگے دل و دماغ و جی جان سے سر تسلیم خم کر دینا ہماری اپنی ہی بھلائی ہے اورہماری ہی سلامتی و فلاح کی ضمانت ہے
۔اسی ایک اللہ کے در پہ جھک جانا ہمیں دوسرے لاتعداد دروں پر جھکنے کی ذلت سے بچا سکتا ہے
آئیےاپنے پیدا کیے جانے کے مقصد کو پہچانتے ہیں اوراپنی پوری زندگی میں دیگرساری بندگياں ترک کرکےکلی طورپر بس اللہ ہی کی بندگي کاراستہ اختیار کرتے ہیں۔جو رزق اور جو نعمتیں اللہ نے ہمارے لیے مقدر فرمائی ہیں وہ تو بہر حال اللہ ہمیں دے کر ہی رہے گا پھردنیا ہی کے پیچھے دوڑنے کا کیا فائدہ۔
آئیےاپنے لیے زندگي کا بہترین مصرف منتخب کرتے ہیں، اپنی زبان سےبہترین بات نکالتے اور اپنے قلم سے بہترین بات لکھتے ہیں، خود بھی اللہ ہی کی بندگی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اللہ ہی کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں، اور اس طرح انسانیت کواللہ کی طرف بلاتے ہیں
اور اپنے تک پہنچے ہوئے حق کی شہادت دیتے ہیں کہ یہی اللہ کی بندگی میں جینے کا بہترین راستہ اورزندگي کا اعلی ترین مقصد ہو سکتا ہے ۔
آئيے اللہ سے ایک عظیم میثاق باندھتے ہیں
سورة الأنعام
( 6 )
قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {162} لاَ شَرِيكَ لَهُ ۔۔۔
{163}
کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔آئےا ہر دوسری بندگی سے منہ موڑتے ہیں اور اللہ کی بندگي کےاس وعدے کی روح کو پہچانتے ہیں جو ہم ہر نماز ہیں کئی بار اپنے رب سے کرتے ہیں
ایاک نعبد و ایا ک نستعین
اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
آئیےاللہ ہی کی بندگی کرنے کےاپنے اس عہد کو وفا کرتے ہیں جس کا اقرارکر کے ہم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
نہیں کوئی معبود اللہ کے سوا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
’’بہترین کلام اللہ کا کلام ( قرآن کریم ) ہے اور بہترین ھدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ھوا دین ہے ۔،،
Wednesday, July 27, 2011
Wednesday, July 20, 2011
ریاکاری ایک مذموم عمل ہے
ریاکاری یعنی دکھلاوا ایک انتہائی مذموم عمل ہے- یہ گناہ اور اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے- لفظ ریا "زویۃ" سے ماخوذ ہے جس کا معنی آنکھوں سے دیکھنے کا ہے- اس کی صورت یوں ہوتی ہس کہ انسان نیکی کا کوئی عمل کرتے وقت یہ ارادہ کرے کہ لوگ مجھے یہ عمل کرتے ہوئے دیکھ لین اور میری تعریف کریں
ریا دو قسم کی ہے:
ایک ریا منافقین کی ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے اور نام لیتے ہیں- مگر ان کے دلوں میں کفر پوشیدہ ہوتا ہے- یہ ریا اور طرز عمل، توحید کے منافی اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے
-
دوسری ریا کی صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان نیکی کا کوئی کام کرتے ہوئے دکھلاوے کی نیت کرے کہ لوگ اسے یہ عمل کرتے دیکھیں اور اس کی تعریف کریں- یہ پوشیدہ شرک ہے اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے-
اللہ تعالی فرماتا ہے: قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
( الکھف 18/110)
"(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں سے کہ دیجیے کہ میں تو تم جیسا ایک انسان ہوں، البتہ میری طرح وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا ایک ہی معبود ہے- پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھرائے"
اس آیت میں ہر قسم کے شرک کی ممانعت ہے- ریاکاری بھی شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے- اسی لیے علماء نے اس آیت سے ریا کے مسائل پر استدلال کیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
" انا اغنی الشرکاء عن الشرک، من عمل عملا اشرک معی فیہ غیری ترکتہ وشرکہ"
(صحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب الریاء ح:2985)
میں تمام شرکاء سے برھ کر شرک سے مستغنی ہوں- جو شحص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو شریک کرے تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں
یہ حدیث دلیل ہے کہ ریا والا عمل اللہ تعالی کے ہاں مقبول نہیں بلکہ وہ عمل کرنے والے کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے
جب کسی عبادت میں ابتداہ ریا شامل ہو (یعنی وہ عبادت محض ریا اور دکھلاوے کے لیے کی جائے) تو وہ ساری عبادت باطل ہوجاتی ہے اور وہ عمل کرنے والا دکھلاوے کی وجہ سے گناہگار اور شرک خفی کا مرتکب ہوتا ہے-
البتہ اگر اصل عمل (عبادت) محض اللہ تعالی کے لیے ہی ہو مگر عمل کرنے والا اس میں کسی قدر ریا کو شامل کردے مثلا
اللہ کے لیے نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کے دکھلاوے کے لیے نماز کا رکوع طویل کردے اور تسبیحات کی تعداد زیادہ کردے اور ایسا کرنے سے وہ آدمی گناہگار ہوگا اور اس کی اتنی عبادت ضایع ہوجائے گی جتنی اس نے ریا کے لیے کی جبکہ مالی عبادت میں ریا شامل ہونے سے ساری کی ساری عبادت اکارت ہوجاتی ہے
اشرک معی فیہ عیری ۔ ۔ ۔ ۔ } " جو شخص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو بھی شامل کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ اپنے کسی عمل صالح میں اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی خوشنودی کا خواہشمند بھی ہو تو اللہ تعالی ایسے شرک سے مستغنی ہے- وہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے حو محض اسی کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے-
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" الا احبرکم بما ھو اخوف علیکم عندی من المسیح الدّجال؟ قالو: بلی یا رسول اللہ! الشرک الحفی یقوم الرّجل فیصلی فیزیّن لما یرای من نظر رجل"
( سنن ابن ماجہ، الزھد، باب الریاء والسمعۃ، ح: 4204)
کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہ؟ صحابہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: وہ ہے "شرک خفی" کہ کوئی شحص نماز کے لیےکھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے
مسیح دجال کا معاملہ تو واضح ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بین فرمادیا ہے (اور اس سے بچنا آسان ہے) لیکن ریا عام طور پر دل میں اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ یہ انسان کو آہستہ آہستہ اللہ تعالی کی بجائے لوگوں کی طرح متوجہ کردیتی ہے (اور اس سے بچنا انتہائی مشکل ہے)- اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتنہ دجال سے زیادہ خوفناک اور شرک خفی قرار دیا ہے
اقتباس: کتاب التوحید
از: صالح بن عبدالعزیز بن محمد بن ابریہیم آل شیخ
ریا دو قسم کی ہے:
ایک ریا منافقین کی ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے اور نام لیتے ہیں- مگر ان کے دلوں میں کفر پوشیدہ ہوتا ہے- یہ ریا اور طرز عمل، توحید کے منافی اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے
-
دوسری ریا کی صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان نیکی کا کوئی کام کرتے ہوئے دکھلاوے کی نیت کرے کہ لوگ اسے یہ عمل کرتے دیکھیں اور اس کی تعریف کریں- یہ پوشیدہ شرک ہے اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے-
اللہ تعالی فرماتا ہے: قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
( الکھف 18/110)
"(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں سے کہ دیجیے کہ میں تو تم جیسا ایک انسان ہوں، البتہ میری طرح وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا ایک ہی معبود ہے- پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھرائے"
اس آیت میں ہر قسم کے شرک کی ممانعت ہے- ریاکاری بھی شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے- اسی لیے علماء نے اس آیت سے ریا کے مسائل پر استدلال کیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
" انا اغنی الشرکاء عن الشرک، من عمل عملا اشرک معی فیہ غیری ترکتہ وشرکہ"
(صحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب الریاء ح:2985)
میں تمام شرکاء سے برھ کر شرک سے مستغنی ہوں- جو شحص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو شریک کرے تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں
یہ حدیث دلیل ہے کہ ریا والا عمل اللہ تعالی کے ہاں مقبول نہیں بلکہ وہ عمل کرنے والے کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے
جب کسی عبادت میں ابتداہ ریا شامل ہو (یعنی وہ عبادت محض ریا اور دکھلاوے کے لیے کی جائے) تو وہ ساری عبادت باطل ہوجاتی ہے اور وہ عمل کرنے والا دکھلاوے کی وجہ سے گناہگار اور شرک خفی کا مرتکب ہوتا ہے-
البتہ اگر اصل عمل (عبادت) محض اللہ تعالی کے لیے ہی ہو مگر عمل کرنے والا اس میں کسی قدر ریا کو شامل کردے مثلا
اللہ کے لیے نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کے دکھلاوے کے لیے نماز کا رکوع طویل کردے اور تسبیحات کی تعداد زیادہ کردے اور ایسا کرنے سے وہ آدمی گناہگار ہوگا اور اس کی اتنی عبادت ضایع ہوجائے گی جتنی اس نے ریا کے لیے کی جبکہ مالی عبادت میں ریا شامل ہونے سے ساری کی ساری عبادت اکارت ہوجاتی ہے
اشرک معی فیہ عیری ۔ ۔ ۔ ۔ } " جو شخص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو بھی شامل کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ اپنے کسی عمل صالح میں اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی خوشنودی کا خواہشمند بھی ہو تو اللہ تعالی ایسے شرک سے مستغنی ہے- وہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے حو محض اسی کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے-
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" الا احبرکم بما ھو اخوف علیکم عندی من المسیح الدّجال؟ قالو: بلی یا رسول اللہ! الشرک الحفی یقوم الرّجل فیصلی فیزیّن لما یرای من نظر رجل"
( سنن ابن ماجہ، الزھد، باب الریاء والسمعۃ، ح: 4204)
کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہ؟ صحابہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: وہ ہے "شرک خفی" کہ کوئی شحص نماز کے لیےکھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے
مسیح دجال کا معاملہ تو واضح ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بین فرمادیا ہے (اور اس سے بچنا آسان ہے) لیکن ریا عام طور پر دل میں اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ یہ انسان کو آہستہ آہستہ اللہ تعالی کی بجائے لوگوں کی طرح متوجہ کردیتی ہے (اور اس سے بچنا انتہائی مشکل ہے)- اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتنہ دجال سے زیادہ خوفناک اور شرک خفی قرار دیا ہے
اقتباس: کتاب التوحید
از: صالح بن عبدالعزیز بن محمد بن ابریہیم آل شیخ
Tuesday, July 12, 2011
قرآن میں 3 قسم کے احکامات
بیان 1: ایسےاحکام جنہیں قرآن ہی میں مزید واضح کر دیا گیا
بیت اللہ کی زیارت کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
تم میں سے جو شخص حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ اٹھانا چاہے، وہ حسب مقدور قربانی ادا کرے۔ اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے ایام میں اور سات گھر پہنچ کر رکھے اور اس طرح سے دس پورے کر لے۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر مسجد الحرام کے پاس نہ ہوں۔
(البقرۃ 2:196)
ہم نے موسی کو تیس راتوں کے لئے طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اس پر اضافہ کر دیا۔ اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت چالیس دن ہو گئی۔ (الاعراف 7:142)
اللہ تعالی کے اس فرمان میں چالیس راتوں سے یا تو یہی مراد ہے جس پر ہم بات کر رہے ہیں کہ تیس اور دس، چالیس ہوتے ہیں اور یا پھر اس کا مقصد معنی کو مزید واضح کر دینا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے:
تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن سکو۔ چند مقرر دنوں کے یہ روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی تعداد پوری کر لے۔
(البقرہ 2:183-184)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول دینے والی ہیں۔ اس لئے اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ اس میں پورے مہینے کے روزے رکھے اور اگر کوئی مریض یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لے۔
(البقرہ 2:185)
اللہ تعالی نے انسان پر روزے فرض کئے اور یہ متعین کر دیا کہ روزے ایک مہینے کے لئے رکھنا ہوں گے۔ ایک مہینہ، دو لگاتار چاند کے نظر آنے کی درمیانی مدت کو کہتے ہیں جو کہ تیس یا انتیس دن ہو سکتی ہے۔ ان دونوں آیات میں بیان کردہ قانون میں اوپر والی دونوں آیات کی طرح جو ہدایت پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ پورے عدد کو صحیح طور پر بیان کر دیا جائے۔
ان آیات کی قرین قیاس تفسیر یہ ہے کہ سات اور تین کے عدد کو بیان کر دیا جائے، اور تیس اور دس کے عدد کو بیان کر دیا جائے۔ اس طرح لوگ صحیح طور پر مجموعی عدد کو جان لیں جیسا کہ وہ رمضان کے مہینے کے بارے میں اس بات کو جانتے ہیں۔
بیان 2: ایسے احکام جنہیں واضح کرنے کی ضرورت نہیں
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
جب تم نماز کے لئے اٹھو تو منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو، سروں پر مسح کر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لو۔ اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ۔
(المائدہ 5:6)
حالت جنابت میں نماز کے قریب نہ جاؤ سوائے اس کے کہ راستے سے گزرنا ہو۔
(النسا 4:43 )
ان آیات کے ذریعے اللہ تعالی نے وضو کی ایک جامع تعریف بیان کر دی ہے جس کے ذریعے ہم وضو کو استنجا اور غسل سے الگ ایک حکم کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ منہ اور ہاتھوں کو کم از کم ایک مرتبہ دھونا ضروری ہے۔ اس حکم میں یہ واضح نہیں تھا کہ کیا انہیں ایک سے زیادہ مرتبہ بھی دھویا جا سکتا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس بات کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ وضو میں ایک بار دھونے کا حکم دیا لیکن آپ نے خود ان اعضا تین مرتبہ دھویا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ دھونا تو ضروری ہے اور تین مرتبہ دھونے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اسی طرح سنت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ استنجا کرنے کے لئے تین پتھر درکار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ وضو اور غسل سے کیا مراد ہے؟ آپ نے یہ بھی بتا دیا کہ ٹخنوں اور کہنیوں کو دھونا ضروری ہے۔ قرآن مجید کے متن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹخنوں کو پاؤں دھونے اور کہنیوں کو ہاتھ دھونے کے حکم میں شامل کیا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے (اس کی وضاحت بھی فرمائی اور یہ بھی) فرما دیا: "ان دھلی ایڑیوں کو آگ کا عذاب دیا جائے گا۔" اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پاؤں کو دھونا چاہیے نہ کہ ان کا مسح کرنا چاہیے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے اس کے ترکے کا چھٹا حصہ ہے اور اگر اس کی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی وارث ہوں تو ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے۔ اور اگر میت کے بہن بھائی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حقدار ہو گی۔
(النسا 4:11 )
تمہاری بیویوں نے جو کچھ ترکہ چھوڑا ہے، تمہارے لئے اس کا نصف حصہ ہے اگر وہ بے اولاد ہوں۔ اولاد ہونے کی صورت میں تم چوتھائی حصے کے حق دار ہو جبکہ میت کی کی گئی وصیت پوری کر دی گئی ہو اور اس پر واجب الادا قرض ادا کر دیا گیا ہو۔ وہ (بیویاں) تمہارے ترکے سے چوتھائی حصے کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصہ آٹھواں ہو گا اگر وصیت جو تم نے کی تھی، پوری کر دی جائے یا قرض جو تم نے چھوڑا تھا ادا کر دیا جائے۔ اگر وہ مرد و عورت بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا بہن ہو، تو بھائی یا بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکے کے تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے جبکہ میت کی طرف سے کی گئی وصیت پوری کر دی جائے اور میت پر واجب الادا قرض ادا کر دیا جائے بشرطیکہ کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔
(النسا 4:12 )
قرآن مجید کے ان واضح احکامات کے بعد دیگر تفصیلات غیر ضروری ہیں۔ اللہ تعالی نے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ ترکے کی تقسیم سے قبل وصیت پوری کی جائے اور قرض ادا کئے جائیں۔ یہ بات حدیث سے پتہ چلتی ہے کہ وصیت ترکے کے ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
بیان 3: ایسے احکام جن کی وضاحت سنت کے ذریعے کی گئی
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ الصَّلاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَوْقُوتاً-
بے شک نماز مومنین پر مقررہ اوقات میں فرض ہے۔۔
(النسا 4:103 )
وَاقِيمُوا الصَّلاۃ وَآتُوا الزَّكَاۃ ۔
نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔
(البقرۃ2:43 )
وَاتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَا لِلَّہ ۔
اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کرو۔
(البقرۃ2:196 )
یہ احکام نازل کرنے کے بعد اللہ تعالی نے اپنے رسول کی زبان سے نمازوں کی تعداد، اوقات اور ادائیگی، زکوۃ کی رقم اور اوقات، حج اور عمرہ کا طریقہ اور ان اعمال کی ادائیگی کب ضروری ہے اور کب نہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اس معاملے میں اتفاق بھی رکھتی ہیں اور کچھ اختلاف بھی۔ اسی طرز کی اور مثالیں قرآن اور حدیث میں موجود ہیں۔
نوٹ:
احادیث میں بسا اوقات بظاہر اختلاف نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حدیث روایت کرنے والے دو افراد بسا اوقات حدیث کا پس منظر بیان نہیں کر پاتے یا پھر دونوں احادیث مختلف مواقع سے متعلق ہوتی ہیں یا پھر کسی ایک صاحب غلط فہمی کی بنیاد پر بات کو کسی اور طرح بیان کر دیتے ہیں۔ احادیث کو جمع کرنے اور اس کے پس منظر سے واقفیت حاصل کرنے سے یہ تعارض دور ہو جاتا ہے۔
بیان 4: سنت میں بیان کردہ احکام
البیان میں وہ تمام احکام بھی شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حدیث میں بیان فرما دیے اگرچہ یہ احکامات قرآن میں بیان نہ ہوئے ہوں۔ جیسا کہ ہم نے اپنی اس کتاب میں بیان کیا کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر اپنے جس احسان کا ذکر کیا ہے کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اس بات کی دلیل ہے کہ حکمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں اللہ تعالی کا جو حکم بیان کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دین میں اس کی اہمیت کیا ہے؟ قرآن میں اللہ تعالی نے آپ کے جو فرائض بیان کئے ہیں وہ ان اقسام پر مشتمل ہیں:
• پہلی قسم تو ان احکام پر مشتمل ہے جو کتاب اللہ میں اتنی وضاحت سے بیان کر دیے گئے ہیں کہ وحی کے نزول کے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
• دوسری قسم کے احکام وہ ہیں جن میں اللہ تعالی کی طرف سے ہم پر حکم کو اجمالاً فرض کر دیا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے پوری جامعیت کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے یہ (تفصیلات) بیان کر دی ہیں کہ کوئی حکم کس طرح فرض ہے؟ کس پر فرض ہے؟ اس میں سے کب کسی حکم پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے یا نہیں؟
• تیسری قسم ان احکام پر مشتمل ہے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کے ذریعے متعین فرمائے۔ یہ احکام کتاب اللہ میں موجود نہیں ہیں۔
ان میں سے ہر قسم اللہ کے قانون کا بیان ہے۔
جو شخص اللہ تعالی کی کتاب، قرآن میں بیان کردہ احکامات پر عمل کرنے کو اپنے لئے مانتا ہے، اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنے کو بھی قبول کرے کیونکہ اس کا حکم کتاب اللہ میں موجود ہے۔ جو شخص بھی یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اللہ تعالی ہی کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں، اسے یہ بھی ماننا چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اطاعت بھی خدا نے ہی ہم پر لازم کی ہے۔
جو فرائض اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت میں بیان ہوئے، انہیں مان لینا اس بات کو قبول کر لینا ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہی ہے۔ جو کچھ وہ قبول کر رہا ہے اس میں اگر فروعی نوعیت کے کچھ اختلافات بھی ہوں جیسے حلال و حرام یا فرائض اور حدود میں اختلاف۔ کسی بات کا حکم دیا یا کسی کو سزا دی جیسا کہ اس نے قرآن میں فرمایا ہے، یعنی
اس (اللہ) سے یہ سوال نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس نے کچھ کیوں کیا لیکن (اس کےان بندوں) سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔"
اقتباس: کتاب الرسالاۃ
تالیف: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ
تالیف: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ
Monday, July 11, 2011
گناہوں کو دھوڈالنے والے اعمال
بے شک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں
(سورۃھود:آیۃ114
تم جہاں بھی ہو اللہ تعالی سے ڈرو،گناہ کے بعد نیکی کرلو،بے شک نیکی گناہ کو ختم کردیتی ہے۔
(احمد ، ترمذی،دارمی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا تو اس کے جسم سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں حتی کہ اس کے ناخونوں کے نیچے سےبھی نکل جاتے ہیں۔
(مسلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
جو شخص ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمد اللہ، 33 مرتبہ اللہ اکبر کہتا ہے،پھر سو کی گنتی پوری کرتے ہوئے ایک دفعہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ پڑھتا ہے اس کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کی طرح ہوں۔
(مسلم)
ایک عمرہ دوسرے عمرے تک درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
(بخاری و مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
بے شک اللہ تعالی اپنے ہاتھ کو رات کے وقت پھیلاتے ہیں، تاکہ دن کو گناہ کرنے والا معافی کے لیے لوٹ آئے اور دن کو پھیلاتے ہیں کہ رات کو گناہ کرنے والا معافی کے لیے لوٹ آئے اور دن کو پھلاتے ہیں کہ رات کو گناہ کرنے والا معافی کے لیے لوٹ آئے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ سورج معرب سے طلوع ہو جائے۔
(مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجا اللہ تعالی اس کے دس گناہ معاف فرمائے گا۔
(مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھجنے سے دکھ اور غم دور اور گناہوں کی بخشش ہوجا ئے گی۔
(ترمذی)
جو کوئی دن میں سو مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ کہے اس کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔(بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
جس نے وضو کیا اور اچھے طریقے سے کیا پھر جمعہ پڑھنے کے لیے آیا اور کان لگا کر خطبہ سنا اور خاموش رہا اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے درمیانی مدت اور مذید 3دن کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
(مسلم)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا جبکہ آپ بخار میں مبتلا تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا اور عرض کی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )کو تو شدید بخار ہے فرمایا
مجھے اس قدر بخار ہوتا ہے،جتنا کہ تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔ میں نے کہا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے دو اجر ہیں۔آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہاں پھر فرمایا کوئی ایسا مسلمان نہیں جس کو تکلیف یا بیماری نہیں ہو۔مگر اللہ تعالی اس کے عوض اس کے گناہ گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے سوکھے پتے گرادیتا ہے۔
(مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی بھی عیادت کے لیے تشریت لے جاتے یہ کلمات ادا فرماتے
لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (اللہ نے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے یعنی ہر بیماری گناہوں کو دھوڈالنے والی ہے
۔(بشرتکہ عقیدہ صحیح ہو
(بخاری)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے سے اللہ تعالی گناہ مٹا دیتا ہے۔
(سورۃ ال عمران:آیۃ31)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص سے کوئی گناہ ہوجائے پھر دو رکعت نماز توبہ پڑہے پھر اللہ تعالی سے معافی طلب کرے تو اللہ تعالی اس کو بخش دیتا ہے۔
(ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ گناہ کو بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔
(ترمذی)
پانچوں نمازیں ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک درمیانی مدت کے گناہوں کو مٹا دینے والے ہیں جبکہ بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔
(مسلم)
جس شخص نے اپنے گھر میں وضو کیا پھر وہ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جاکر اللہ کے فرائض میں سے کوئی فریضہ ادا کرے تو اس کے ہر قدم پر گناہ معاف اور درجہ بلند ہوگا
(مسلم)
جو شخص کھانا کھانے کے بعد دعا پڑھتا ہے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
(ترمذی)
اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازے پر نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو کیا اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گا، صحابہ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ فرمایا یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے اللہ تعالی ان کے ذریعے سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
(بخاری و مسلم)
جو کوئی ایک دن میں یہ کلمہ سو(100)بار کہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تو یہ اس کے دس گردنوں کے آزاد کرنے کے برابر ہوگا، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، اس سے سو گناہ مٹادیے جائیں گے اور یہ کلمہ اس کے لیے اس دن شام تک شیطان سے بچانے کا ذریعہ رہے گا۔
(بخاری و مسلم)
صدقہ و خیرات کرنے سے بھی اللہ تعالی تمہارے گناہ مٹادیں گے
(سورۃ البقرہ: آیۃ 271)
توبہ اور نیک اعمال کرنے سے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کر دیتا ہے۔
(سورۃ الفرقان:آیۃ70)
مسلمان کو جو بھی تھکان، بیماری، فکر ، غم، اور تکلیف پہنچتی ہے حتی کہ کانٹا چبتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے بشرتکہ مومن صبر کرے۔
(ترمذی)
جو مسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اچھی طرح وضو کرے اچھے طریقے سے خشوع اور رکوع کرے تو یہ نماز اس کے ما قبل کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔
(مسلم)
نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھ کر ذکر و اذکار کرنے سے بھی اللہ تعالی گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں اپنے مقربین فرشتوں سے ان مجالس کا حال دریافت فرماتے ہیں پھر فرشتوں کو گواہ بنا کر ان کے گناہ معاف فرمادیتے ہیں۔
(بخاری و مسلم)
جب امام سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے، تو تم اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُکہو اس لئے کہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے سے مل جائے اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
(بخاری)
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے سے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
(سورۃ الاحزاب:70،71)
جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے، رات کو قیام کیا اور شب قدر میں عبادت کی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
(بخاری)
عرفہ کا ایک روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
(مسلم)
عاشورہ کا روزہ رکھنے سے ایک سال گزرے ہوئے کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
(مسلم)
(سورۃھود:آیۃ114
تم جہاں بھی ہو اللہ تعالی سے ڈرو،گناہ کے بعد نیکی کرلو،بے شک نیکی گناہ کو ختم کردیتی ہے۔
(احمد ، ترمذی،دارمی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا تو اس کے جسم سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں حتی کہ اس کے ناخونوں کے نیچے سےبھی نکل جاتے ہیں۔
(مسلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
جو شخص ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمد اللہ، 33 مرتبہ اللہ اکبر کہتا ہے،پھر سو کی گنتی پوری کرتے ہوئے ایک دفعہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ پڑھتا ہے اس کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کی طرح ہوں۔
(مسلم)
ایک عمرہ دوسرے عمرے تک درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
(بخاری و مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
بے شک اللہ تعالی اپنے ہاتھ کو رات کے وقت پھیلاتے ہیں، تاکہ دن کو گناہ کرنے والا معافی کے لیے لوٹ آئے اور دن کو پھیلاتے ہیں کہ رات کو گناہ کرنے والا معافی کے لیے لوٹ آئے اور دن کو پھلاتے ہیں کہ رات کو گناہ کرنے والا معافی کے لیے لوٹ آئے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ سورج معرب سے طلوع ہو جائے۔
(مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجا اللہ تعالی اس کے دس گناہ معاف فرمائے گا۔
(مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھجنے سے دکھ اور غم دور اور گناہوں کی بخشش ہوجا ئے گی۔
(ترمذی)
جو کوئی دن میں سو مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ کہے اس کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔(بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
جس نے وضو کیا اور اچھے طریقے سے کیا پھر جمعہ پڑھنے کے لیے آیا اور کان لگا کر خطبہ سنا اور خاموش رہا اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے درمیانی مدت اور مذید 3دن کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
(مسلم)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا جبکہ آپ بخار میں مبتلا تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا اور عرض کی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )کو تو شدید بخار ہے فرمایا
مجھے اس قدر بخار ہوتا ہے،جتنا کہ تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔ میں نے کہا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے دو اجر ہیں۔آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہاں پھر فرمایا کوئی ایسا مسلمان نہیں جس کو تکلیف یا بیماری نہیں ہو۔مگر اللہ تعالی اس کے عوض اس کے گناہ گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے سوکھے پتے گرادیتا ہے۔
(مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی بھی عیادت کے لیے تشریت لے جاتے یہ کلمات ادا فرماتے
لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (اللہ نے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے یعنی ہر بیماری گناہوں کو دھوڈالنے والی ہے
۔(بشرتکہ عقیدہ صحیح ہو
(بخاری)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے سے اللہ تعالی گناہ مٹا دیتا ہے۔
(سورۃ ال عمران:آیۃ31)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص سے کوئی گناہ ہوجائے پھر دو رکعت نماز توبہ پڑہے پھر اللہ تعالی سے معافی طلب کرے تو اللہ تعالی اس کو بخش دیتا ہے۔
(ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ گناہ کو بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔
(ترمذی)
پانچوں نمازیں ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک درمیانی مدت کے گناہوں کو مٹا دینے والے ہیں جبکہ بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔
(مسلم)
جس شخص نے اپنے گھر میں وضو کیا پھر وہ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جاکر اللہ کے فرائض میں سے کوئی فریضہ ادا کرے تو اس کے ہر قدم پر گناہ معاف اور درجہ بلند ہوگا
(مسلم)
جو شخص کھانا کھانے کے بعد دعا پڑھتا ہے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
(ترمذی)
اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازے پر نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو کیا اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گا، صحابہ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ فرمایا یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے اللہ تعالی ان کے ذریعے سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
(بخاری و مسلم)
جو کوئی ایک دن میں یہ کلمہ سو(100)بار کہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تو یہ اس کے دس گردنوں کے آزاد کرنے کے برابر ہوگا، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، اس سے سو گناہ مٹادیے جائیں گے اور یہ کلمہ اس کے لیے اس دن شام تک شیطان سے بچانے کا ذریعہ رہے گا۔
(بخاری و مسلم)
صدقہ و خیرات کرنے سے بھی اللہ تعالی تمہارے گناہ مٹادیں گے
(سورۃ البقرہ: آیۃ 271)
توبہ اور نیک اعمال کرنے سے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کر دیتا ہے۔
(سورۃ الفرقان:آیۃ70)
مسلمان کو جو بھی تھکان، بیماری، فکر ، غم، اور تکلیف پہنچتی ہے حتی کہ کانٹا چبتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے بشرتکہ مومن صبر کرے۔
(ترمذی)
جو مسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اچھی طرح وضو کرے اچھے طریقے سے خشوع اور رکوع کرے تو یہ نماز اس کے ما قبل کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔
(مسلم)
نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھ کر ذکر و اذکار کرنے سے بھی اللہ تعالی گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں اپنے مقربین فرشتوں سے ان مجالس کا حال دریافت فرماتے ہیں پھر فرشتوں کو گواہ بنا کر ان کے گناہ معاف فرمادیتے ہیں۔
(بخاری و مسلم)
جب امام سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے، تو تم اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُکہو اس لئے کہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے سے مل جائے اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
(بخاری)
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے سے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
(سورۃ الاحزاب:70،71)
جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے، رات کو قیام کیا اور شب قدر میں عبادت کی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
(بخاری)
عرفہ کا ایک روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
(مسلم)
عاشورہ کا روزہ رکھنے سے ایک سال گزرے ہوئے کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
(مسلم)
Thursday, July 7, 2011
اچھے یا برے اعمال انسان کے اپنے لئے ہیں
مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا ﴿017:015﴾
[جالندھری] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے لئے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے
تفسیر ابن كثیر
جس نے راہ راست اختیار کی حق کی اتباع کی نبوت کی مانی اس کے اپنے حق میں اچھائی ہے اور جو حق سے ہٹا صحیح راہ سے پھرا اس کا وبال اسی پر ہے کوئی کسی کے گناہ میں پکڑا نہ جائے گا ہر ایک کا عمل اسی کے ساتھ ہے ۔ کوئی نہ ہو گا جو دوسرے کا بوجھ بٹائے
اور جگہ قرآن میں ہے آیت (ولیحملن اثقالہم واثقالا مع اثقالہم) اور آیت میں ہے (ومن اوزار الذین یضلونہم بغیر علم) یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ یہ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انہوں نے بہکا رکھا تھا ۔
لہذا ان دونوں مضمونوں میں کوئی نفی کا پہلو نہ سمجھا جائے اس لیے کہ گمراہ کرنے والوں پر ان کے گمراہ کرنے کا بوجھ ہے نہ کہ ان کے بوجھ ہلکے کئے جائیں گے اور ان پر لادے جائیں گے ہمارا عادل اللہ ایسا نہیں کرتا ۔
پھر اپنی ایک اور رحمت بیان فرماتا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچنے سے پہلے کسی امت کو عذاب نہیں کرتا ۔ چنانچہ سورہ تبارک میں ہے کہ دوزخیوں سے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟
وہ جواب دیں گے بیشک آئے تھے لیکن ہم نے انہیں سچا نہ جانا انہیں جھٹلا دیا اور صاف کہہ دیا کہ تم تو یونہی بہک رہے ہو ، سرے سے یہ بات ہی ان ہونی ہے کہ اللہ کسی پر کچھ اتارے ۔
اسی طرح جب یہ لوگ جہنم کی طرف کشاں کشاں پہنچائے جا رہے ہوں گے ، اس وقت بھی داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟
جو تمہارے رب کی آیتیں تمہارے سامنے پڑھتے ہوں اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں ؟
یہ جواب دیں گے کہ ہاں یقینا آئے لیکن کلمہ عذاب کافروں پر ٹھیک اترا ۔
اور آیت میں ہے کہ کفار جہنم میں پڑے چیخ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہمیں اس سے نکال تو ہم اپنے قدیم کرتوت چھوڑ کر اب نیک اعمال کریں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تمہیں اتنی لمبی عمر نہیں دی تھی تم اگر نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے اور میں نے تم میں اپنے رسول بھی بھیجے تھے جنہوں نے خوب اگاہ کر دیا تھا اب تو عذاب برداشت کرو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔
الغرض اور بھی بہت سی آیتوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی بغیر رسول بھیجے کسی کو جہنم میں نہیں بھیجتا ۔
صحیح بخاری میں آیت (ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین) کی تفسیر میں ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں جنت دوزخ کا کلام ہے ۔ پھر ہے کہ جنت کے بارے میں اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا اور وہ جہنم کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا جو اس میں ڈال دی جائے گی جہنم کہتی رہے گی کہ کیا ابھی اور زیادہ ہے ؟
اس کے بابت علما کی ایک جماعت نے بہت کچھ کلام کیا ہے دراصل یہ جنت کے بارے میں ہے اس لئے کہ وہ دار فضل ہے اور جہنم دار عدل ہے اس میں بغیر عذر توڑے بغیر حجت ظاہر کئے کوئی داخل نہ کیا جائے گا ۔ اس لئے حفاظ حدیث کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ راوی کو اس میں الٹا یاد رہ گیا
اور اس کی دلیل بخاری مسلم کی وہ روایت ہے جس میں اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ دوزخ پر نہ ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اس میں اپنا قدم رکھ دے گا اس وقت وہ کہے گی بس بس اور اس وقت بھر جائے گی اور چاورں طرف سے سمٹ جائے گی ۔ اللہ تعالٰی کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ ہاں جنت کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا ۔
باقی رہا یہ مسلہ کہ کافروں کے جو نابالغ چھوٹے بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اور جو دیوانے لوگ ہیں اور نیم بہرے اور جو ایسے زمانے میں گزرے ہیں جس وقت زمین پر کوئی رسول یا دین کی صحیح تعلیم نہیں ہوتی اور انہیں دعوت اسلام نہیں پہنچتی اور جو بالکل بڈھے حواس باختہ ہوں ان کے لئے کیا حکم ہے ؟
اس بارے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے ۔ ان کے بارے میں جو حدیثیں ہیں وہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں پھر ائمہ کا کلام بھی مختصرا ذکر کروں گا ، اللہ تعالٰی مدد کرے ۔
پہلی حدیث مسند احمد میں ہے چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالٰی سے گفتگو کریں گے
ایک تو بالکل بہرا آدمی جو کچھ بھی نہیں سنتا
اور دوسرا بالکل احمق پاگل آدمی جو کچھ بھی نہیں جانتا ،
تیسرا بالکل بڈھا پھوس آدمی جس کے حواس درست نہیں ،
چوتھے وہ لوگ جو ایسے زمانوں میں گزرے ہیں جن میں کوئی پیغمبر یا اس کی تعلیم موجود نہ تھی ۔
بہرا تو کہے گا اسلام آیا لیکن میرے کان میں کوئی آواز نہیں پہنچی ،
دیوانہ کہے گا کہ اسلام آیا لیکن میری حالت تو یہ تھی کہ بچے مجھ پر مینگنیاں پھینک رہے تھے
اور بالکل بڈھے بےحواس آدمی کہیں گے کہ اسلام آیا لیکن میرے ہوش حواس ہی درست نہ تھے جو میں سمجھ کر سکتا
رسولوں کے زمانوں کا اور ان کی تعلیم کو موجود نہ پانے والوں کا قول ہو گا کہ نہ رسول آئے نہ میں نے حق پایا پھر میں کیسے عمل کرتا ؟
اللہ تعالٰی ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ اچھا جاؤ جہنم میں کود جاؤ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ فرماں برداری کر لیں اور جہنم میں کود پڑیں تو جہنم کی آگ ان پر ٹھنڈک اور سلامتی ہو جائے گی ۔
اور روایت میں ہے کہ جو کود پڑیں گے ان پر تو سلامتی اور ٹھنڈک ہو جائے گی اور جو رکیں گے انہیں حکم عدولی کے باعث گھسیٹ کی جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔
ابن جریر میں اس حدیث کے بیان کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں کلام اللہ کی آیت (وماکنا معذبین) الخ پڑھ لو دوسری حدیث ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ابو حمزہ مشرکوں کے بچوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟
آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ گنہگار نہیں جو دوزخ میں عذاب کئے جائیں اور نیکوکار بھی نہیں جو جنت میں بدلہ دئے جائیں
تیسری حدیث ابو یعلی میں ہے کہ ان چاورں کے عذر سن کر جناب باری فرمائے گا کہ اوروں کے پاس تو میں اپنے رسول بھیجتا تھا لیکن تم سے میں آپ کہتا ہوں کہ جاؤ اس جہنم میں چلے جاؤ جہنم میں سے بھی فرمان باری سے ایک گردن اونچی ہو گی اس فرمان کو سنتے ہی وہ لوگ جو نیک طبع ہیں فورا دوڑ کر اس میں کود پڑیں گے اور جو باطن ہیں وہ کہیں گے اللہ پاک ہم اسی سے بچنے کے لئے تو یہ عذر معذرت کر رہے تھے
اللہ فرمائے گا جب تم خود میری نہیں مانتے تو میرے رسولوں کی کیا مانتے اب تمہارے لئے فیصلہ یہی ہے کہ تم جہنمی ہو اور ان فرمانبرداروں سے کہا جائے گا کہ تم بیشک جنتی ہو تم نے اطاعت کر لی
۔
چوتھی حدیث مسند حافظ ابو یعلی موسلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہے ۔
پھر مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ، تو کہا گیا یا رسول اللہ انہوں نے کوئی عمل تو نہیں کیا آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ انہیں بخوبی جانتا ہے ۔
پانچویں حدیث ۔ حافظ ابوبکر احمد بن عمر بن عبدالخالق بزار رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اہل جاہلیت اپنے بوجھ اپنی کمروں پر لادے ہوئے آئیں گے اور اللہ کے سامنے عذر کریں گے کہ نہ ہمارے پاس تیرے رسول پہنچے نہ ہمیں تیرا کوئی حکم پہنچا اگر ایسا ہوتا تو ہم جی کھول کر مان لیتے
اللہ تعالٰی فرمائے گا اچھا اب اگر حکم کروں تو مان لو گے ؟
وہ کہیں گے ہاں ہاں بیشک بلا چون و چرا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا اچھا جاؤ جہنم کے پاس جا کر اس میں داخل ہو جاؤ یہ چلیں گے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اب جو اس کا جوش اور اس کی آواز اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو واپس آ جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہمیں اس سے تو بچا لے ۔
اللہ تعالٰی فرمائے گا دیکھو تو اقرار کر چکے ہو کہ میری فرمانبرداری کرو گے پھر یہ نافرمانی کیوں ؟
وہ کہیں گے اچھا اب اسے مان لیں گے اور کر گزریں گے چنانچہ ان سے مضبوط عہد و پیمان لئے جائیں گے ، پھر یہی حکم ہو گا یہ جائیں گے اور پھر خوفزدہ ہو کر واپس لوٹیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہم تو ڈر گئے ہم سے تو اس فرمان پر کار بند نہیں ہوا جاتا ۔
اب جناب باری فرمائے گا تم نافرمانی کر چکے اب جاؤ ذلت کے ساتھ جہنمی بن جاؤ ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر پہلی مرتبہ ہی یہ بحکم الہٰی اس میں کود جاتے تو آتش دوزخ ان پر سرد پڑ جاتی اور ان کا ایک رواں بھی نہ جلاتی ۔
امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس حدیث کا متن معروف نہیں ایوب سے صرف عباد ہی روایت کرتے ہیں اور عباد سے صرف ریحان بن سعید روایت کرتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں اسے ابن حبان نے ثفہ بتلایا ہے ۔ یحیی بن معین اور نسائی کہتے ہیں ان میں کوئی ڈر خوف کی بات نہیں ۔ ابو داؤد نے ان سے روایت نہیں کی ۔ ابو حاتم کہتے ہیں یہ شیخ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ۔ ان کی حدیثیں لکھائی جاتی ہیں اور ان سے دلیل نہیں لی جاتی ۔
چھٹی حدیث ۔ امام محمد بن یحیٰی ذہلی رحمۃ اللہ علیہ روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خالی زمانے والے اور مجنون اور بچے اللہ کے سامنے آئیں گے ایک کہے گا میرے پاس تیری کتاب پہنچی ہی نہیں ،
مجنوں کہے گا میں بھلائی برائی کی تمیز ہی نہیں رکھتا ۔
بچہ کہے گا میں نے سمجھ بوجھ کا بلوغت کا زمانہ پایا ہی نہیں
۔ اسی وقت ان کے سامنے آگ شعلے مارنے لگے گی ۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا اسے ہٹا دو تو جو لوگ آئندہ نیکی کرنے والے تھے وہ تو اطاعت گزار ہو جائیں گے اور جو اس عذر کے ہٹ جانے کے بعد بھی نافرمانی کرنے والے تھے وہ رک جائیں گے
تو اللہ تعالٰی فرمائے گا جب تم میری ہی براہ راست نہیں مانتے تو میرے پیغمبروں کی کیا مانتے ؟
ساتویں حدیث ۔ انہی تین شخصوں کے بارے میں اوپر والی احادیث کی طرح اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس میں سے ایسے شعلے بلند ہوں گے کہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ تو ساری دنیا کو جلا کر بھسم کر دیں گے دوڑتے ہوئے واپس لوٹ آئیں گے پھر دوبارہ یہی ہو گا اللہ عز و جل فرمائے گا ۔
تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہارے اعمال کی خبر تھی میں نے علم ہوتے ہوئے تمہیں پیدا کیا تھا اسی علم کے مطابق تم ہو ۔ اے جہنم انہیں دبوچ لے چنانچہ اسی وقت آگ انہیں لقمہ بنا لے گی
۔
آٹھویں حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت ان کے اپنے قول سمیت پہلے بیان ہو چکی ہے ۔ بخاری و مسلم میں آپ ہی سے مروی ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہر بچہ دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ” ۔
جیسے کہ بکری کے صحیح سالم بچے کے کان کاٹ دیا کرتے ہیں ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر وہ بچپن میں ہی مر جائے تو؟
آپ نے فرمایا اللہ کو ان کے اعمال کی صحیح اور پوری خبر تھی ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ مسلمان بچوں کی کفالت جنت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سپرد ہے ۔
صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد یکسو مخلص بنایا ہے ۔ ایک روایت میں اس کے ساتھ ہی مسلمان کا لظف بھی ہے ۔
نویں حدیث حافظ ابوبکر یرقانی اپنی کتاب المستخرج علی البخاری میں روایت لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے لوگوں نے باآواز بلند دریافت کیا کہ مشرکوں کے بچے بھی ؟
آپ نے فرمایا ہاں مشرکوں کے بچے بھی ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ مشرکوں کے بچے اہل جنت کے خادم بنائے جائیں گے ۔
دسویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں کون کون جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا نبی اور شہید بچے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے ۔
علماء میں سے بعض کا مسلک تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں ہم توقف کرتے ہیں ، خاموش ہیں ان کی بھی گزر چکی ۔ بعض کہتے ہیں یہ جنتی ہیں ان کی دلیل معراج والی وہ حدیث ہے
جو صحیح بخاری شریف میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خواب میں ایک شیخ کو ایک جنتی درخت تلے دیکھا ، جن کے پاس بہت سے بچے تھے ۔ سوال پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے پاس یہ بچے مسلمانوں کی اور مشرکوں کی اولاد ہیں ،
لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی اولاد بھی ؟
آپ نے فرمایا ہاں مشرکین کی اولاد بھی۔ بعض علماء فرماتے ہیں یہ دوزخی ہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہیں ۔ بعض علماء کہتے ہیں ان کا امتحان قیامت کے میدانوں میں ہو جائے گا ۔ اطاعت گزار جنت میں جائیں گے ، اللہ اپنے سابق علم کا اظہار کر کے پھر انہیں جنت میں پہنچائے گا
اور بعض بوجہ اپنی نافرمانی کے جو اس امتحان کے وقت ان سے سرزد ہو گی اور اللہ تعالٰی اپنے پہلا علم آشکارا کر دے گا ۔ اس وقت انہیں جہنم کا حکم ہو گا ۔ اس مذہب سے تمام احادیث اور مختلف دلیلوں میں جمع ہو جاتی ہے اور پہلے کی حدیثیں جو ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں اس معنی کی کئی ایک ہیں ۔ شیخ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری رحمۃاللہ علیہ نے یہی مذہب اہل سنت والجماعت کا نقل فرمایا ہے ۔
اور اسی کی تائید امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاعتقاد میں کی ہے ۔ اور بھی بہت سے محققین علماء اور پرکھ والے حافظوں نے یہی فرمایا ہے ۔ شیخ ابو عمر بن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ عزی نے امتحان کی بعض روایتیں بیان کر کے لکھا ہے اس بارے کی حدیثیں قوی نہیں ہیں اور ان سے جحت ثابت نہیں ہوتی اور اہل علم کا انکار کرتے ہیں اس لئے کہ آخرت دار جزا ہے ، دار عمل نہیں ہے اور نہ دار امتحان ہے ۔ اور جہنم میں جانے کا حکم بھی تو انسانی طاقت سے باہر کا حکم ہے اور اللہ کی یہ عادت نہیں ۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا جواب بھی سن لیئجے ، اس بارے جو حدیثیں ہیں ، ان میں سے بعض تو بالکل صحیح ہیں ۔
جیسے کہ ائمہ علماء نے تصریح کی ہے ۔ بعض حسن ہیں اور بعض ضعیف بھی ہیں لیکن وہ بوجہ صحیح اور حسن احادیث کے قوی ہو جاتی ہیں ۔ اور جب یہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حدیثیں حجت و دلیل کے قابل ہو گئیں اب رہا امام صاحب کا یہ فرمان کہ آخرت دار عمل اور دار امتحان نہیں وہ دار جزا ہے ۔
یہ بیشک صحیح ہے لیکن اس سے اس کی نفی کیسے ہو گئی کہ قیامت کے مختلف میدانوں کی پیشیوں میں جنت دوزخ میں داخلے سے پہلے کوئی حکم احکام نہ دئے جائیں گے ۔ شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ نے تو مذہب اہلسنت والجماعت کے عقائد میں بچوں کے امتحان کو داخل کیا ہے ۔
مزید بارں آیت قرآن آیت (یوم یکشف عن ساق) اس کی کھلی دلیل ہے کہ منافق و مومن کی تمیز کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کا حکم ہو گا ۔ صحاح کی احادیث میں ہے کہ مومن تو سجدہ کر لیں گے اور منافق الٹے منہ پیٹھ کے بل گر پڑیں گے ۔
بخاری و مسلم میں اس شخص کا قصہ بھی ہے جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا کہ وہ اللہ سے وعدے وعید کرے گا سوا اس سوال کے اور کوئی سوال نہ کرے گا اس کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنے قول قرار سے پھر جائے گا اور ایک اور سوال کر بیٹھے گا وغیرہ ۔
آخرت میں اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ ابن آدم تو بڑا ہی عہد شکن ہے اچھا جا ، جنت میں چلا جا ۔ پھر امام صاحب کا یہ فرمانا کہ انہیں ان کی طاقت سے خارج بات کا یعنی جہنم میں کود پڑنے کا حکم کیسے ہو گیا ؟
اللہ تعالٰی کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ یہ بھی صحت حدیث میں کوئی روک پیدا نہیں کر سکتا ۔ خود امام صاحب اور تمام مسلمان مانتے ہیں کہ پل صراط پر سے گزرنے کا حکم سب کو ہو گا جو جہنم کی پیٹھ پر ہو گا اور تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا ۔ مومن اس پر سے اپنی نیکیوں کے اندازے سے گزر جائیں گے ۔ بعض مثل بجلی کے، بعض مثل ہوا کے ، بعض مثل گھوڑوں کے بعض مثل اونٹوں کے ، بعض مثل بھاگنے والوں کے ، بعض مثل پیدل جانے والوں کے ، بعض گھٹنوں کے بل سرک سرک کر ، بعض کٹ کٹ کر ، جہنم میں پڑیں گے ۔ پس جب یہ چیز وہاں ہے تو انہیں جہنم میں کود پڑنے کا حکم تو اس سے کوئی نہیں بلکہ یہ اس سے بڑا اور بہت بھاری ہے ۔
اور سنئے حدیث میں ہے کہ دجال کے ساتھ آگ اور باغ ہو گا ۔ شارع علیہ السلام نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جسے آگ دیکھ رہے ہیں اس میں سے پیئیں وہ ان کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کی چیز ہے
۔ پس یہ اس واقعہ کی صاف نظیر ہے ۔ اور لیجئے بنو اسرائیل نے جب گو سالہ پرستی کی اس کی سزا میں اللہ نے حکم دیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ایک ابر نے آ کر انہیں ڈھانپ لیا اب جو تلوار چلی تو صبح ہی صبح ابر پھٹنے سے پہلے ان میں سے ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے تھے ۔
بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کیا کیا یہ حکم اس حکم سے کم تھا ؟
کیا اس کا عمل نفس پر گراں نہیں ؟
پھر تو اس کی نسبت بھی کہہ دینا چاہیے تھے کہ اللہ کسی نفس کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ ان تمام بحثوں کے صاف ہونے کے بعد اب سنئے ۔
مشرکین کے بچپن میں مرے ہوئے بچوں کی بابت بھی بہت سے اقوال ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ سب جنتی ہیں، ان کی دلیل وہی معراج میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس مشرکوں اور مسلمانوں کے بچوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنا ہے اور دلیل ان کی مسند کی وہ روایت ہے جو پہلے گزر چکی
کہ آپ نے فرمایا بچے جنت میں ہیں ۔ ہاں امتحان ہونے کی جو حدیثیں گزریں وہ ان میں سے خصوص ہیں ۔ پس جن کی نسبت رب العالمین کو معلوم ہے کہ وہ مطیع اور فرمانبردار ہیں ان کی روحیں عالم برزخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہیں اور مسلمانوں کے بچوں کی روحیں بھی ۔ اور جن کی نسبت اللہ تعالٰی جانتا ہے کہ وہ قبول کرنے والی نہیں ، ان کا امر اللہ کے سپرد ہے وہ قیامت کے دن جہنمی ہوں گے ۔
جیسے کہ احادیث امتحان سے ظاہر ہے ۔ امام اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے اہل سنت سے نقل کیا ہے اب کوئی تو کہتا ہے کہ یہ مستقل طور پر جنتی ہیں کوئی کہتا ہے یہ اہل جنت کے خادم ہیں ۔ گو ایسی حدیث داؤد طیالسی میں ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکوں کے بچے بھی اپنے باپ دادوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے جیسے کہ مسند وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپ دادوں کے تابعدار ہیں
۔ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا بھی کہ باوجود بےعمل ہونے کے ؟
آپ نے فرمایا وہ کیا عمل کرنے والے تھے ، اسے اللہ تعالٰی بخوبی جانتا ہے ۔
ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں ۔ ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں نے کہا مشرکوں کی اولاد ؟
آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں کہا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی عمل کیا ہو ؟
آپ نے فرمایا وہ کیا کرتے یہ اللہ کے علم میں ہے ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو میں ان کا رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا بھی تجھے سنا دوں ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے روایت لائے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو بچوں کی نسبت سوال کیا جو جاہلیت کم زمانے میں فوت ہوئے تھے آپ نے فرمایا وہ دونوں دوزخ میں ہیں جب آپ نے دیکھا کہ بات انہیں بھاری پڑی ہے تو آپ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تم خود ان سے بےزار ہو جاتیں ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے پوچھا اچھا جو بچہ آپ سے ہوا تھا ؟
آپ نے فرمایا سنو مومن اور ان کی اولاد جنتی ہے اور مشرک اور ان کی اولاد جہنمی ہے ۔
پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (والذین امنوا واتبعہم ذریتہم بایمان الحقنابہم ذریتہم) جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اتباع کی ایمان کے ساتھ کی ۔ ہم ان کی اولاد انہی کے ساتھ ملا دیں گے یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد میں محمد بن عثمان راوی مجہول الحال ہیں اور ان کے شیخ زاذان نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہیں پایا واللہ اعلم
۔
ابو داؤد میں حدیث ہے زندہ درگور کرنے والی اور زندہ درگور کردہ شدہ دوزخی ہیں ۔ ابو داؤد میں یہ سند حسن مروی ہے حضرت سلمہ بن قیس اشجعی رشی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں میں اپنے بھائی کو لئے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ماں جاہلیت کے زمانے میں مر گئی ہیں ، وہ صلہ رحمی کرنے والی اور مہمان نواز تھیں ، ہماری ایک نابالغ بہن انہوں نے زندہ دفن کر دی تھی ۔
آپ نے فرمایا ایسا کرنے والی اور جس کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے دونوں دوزخی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو پالے اور اسے قبول کر لے ۔
تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے بارے میں توقف کرنا چاہیے کوئی فیصلہ کن بات یکطرفہ نہ کہنی چاہئے ۔ ان کا اعتماد آپ کے اس فرمان پر ہے کہ ان کے اعمال کا صحیح اور پورا علم اللہ تعالٰی کو ہے ۔
بخاری میں ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں جب آپ سے سوال ہوا تو آب نے انہی لفظوں میں جواب دیا تھا ۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ یہ اعراف میں رکھے جائیں گے ۔ اس قول کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ جنتی ہیں اس لئے کہ اعراف کوئی رہنے سہنے کی جگہ نہیں یہاں والے بالآخر جنت میں ہی جائیں گے ۔
جیسے کہ سورہ اعراف کی تفسیر میں ہم اس کی تفسیر کر آئے ہیں ، واللہ اعلم
۔ یہ تو تھا اختلاف مشرکوں کی اولاد کے بارے میں لیکن مومنوں کی نابالغ اولاد کے بارے میں تو علما کا بلااختلاف یہی قول ہے کہ وہ جنتی ہیں ۔
جیسے کہ حضرت امام احمد کا قول ہے اور یہی لوگوں میں مشہور بھی ہے اور انشاء اللہ عز و جل ہمیں بھی یہی امید ہے ۔ لیکن بعض علماء سے منقول ہے کہ وہ ان کے بارے میں توقف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سب بچے اللہ کی مرضی اور اس کی چاہت کے ماتحت ہیں ۔
اہل فقہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے ۔ موطا امام مالک کی ابواب القدر کی احادیث میں بھی کچھ اسی جیسا ہے گو امام مالک کا کوئی فیصلہ اس میں نہیں ۔ لیکن بعض متاخرین کا قول ہے کہ مسلمان بچے تو جنتی ہیں اور مشرکوں کے بچے مشیت الہٰی کے ماتحت ہیں ۔ ابن عبد البر نے اس بات کو اسی وضاحت سے بیان کیا ہے لیکن یہ قول غریب ہے ۔ کتاب التذکرہ میں امام قرطبی رحمۃاللہ علیہ نے بھی یہی فرمایا ہے واللہ اعلم
۔
اس بارے میں ان بزرگوں نے ایک حدیث یہ بھی وارد کی ہے کہ انصاریوں کے ایک بچے کے جنازے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا تو ماں عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا اس بچے کو مرحبا ہو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کا کوئی کام کیا نہ اس زمانے کو پہنچا تو آپ نے فرمایا اس کے سوا کچھ اور بھی اے عائشہ ؟
سنو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے ۔ اسی طرح اس نے جہنم کو پیدا کیا ہے اور اس میں جلنے والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پیٹھ میں ہیں
۔ مسلم اور سنن کی یہ حدیث ہے چونکہ یہ مسئلہ صحیح دلیل بغیر ثابت نہیں ہو سکتا اور لوگ اپنی بےعلمی کے باعث بغیر ثبوت شارع کے اس میں کلام کرنے لگے ہیں ۔ اس لئے علماء کی ایک جماعت نے اس میں کلام کرنا ہی نا پسند رکھا ہے ۔ ابن عباس ، قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق اور محمد بن حنفیہ وغیرہ کا مذہب یہی ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو منبر پر خطبے میں فرمایا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس امت کا کام ٹھیک ٹھاک رہے گا جب تک کہ یہ بچوں کے بارے میں اور تقدیر کے بارے میں کچھ کلام نہ کریں گے
(ابن حبان) امام ابن حبان کہتے ہیں مراد اس سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں کلام نہ کرنا ہے ۔ اور کتابوں میں یہ روایت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اپنے قول سے موقوفاً مروی ہے ۔
[جالندھری] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے لئے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے
تفسیر ابن كثیر
جس نے راہ راست اختیار کی حق کی اتباع کی نبوت کی مانی اس کے اپنے حق میں اچھائی ہے اور جو حق سے ہٹا صحیح راہ سے پھرا اس کا وبال اسی پر ہے کوئی کسی کے گناہ میں پکڑا نہ جائے گا ہر ایک کا عمل اسی کے ساتھ ہے ۔ کوئی نہ ہو گا جو دوسرے کا بوجھ بٹائے
اور جگہ قرآن میں ہے آیت (ولیحملن اثقالہم واثقالا مع اثقالہم) اور آیت میں ہے (ومن اوزار الذین یضلونہم بغیر علم) یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ یہ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انہوں نے بہکا رکھا تھا ۔
لہذا ان دونوں مضمونوں میں کوئی نفی کا پہلو نہ سمجھا جائے اس لیے کہ گمراہ کرنے والوں پر ان کے گمراہ کرنے کا بوجھ ہے نہ کہ ان کے بوجھ ہلکے کئے جائیں گے اور ان پر لادے جائیں گے ہمارا عادل اللہ ایسا نہیں کرتا ۔
پھر اپنی ایک اور رحمت بیان فرماتا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچنے سے پہلے کسی امت کو عذاب نہیں کرتا ۔ چنانچہ سورہ تبارک میں ہے کہ دوزخیوں سے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟
وہ جواب دیں گے بیشک آئے تھے لیکن ہم نے انہیں سچا نہ جانا انہیں جھٹلا دیا اور صاف کہہ دیا کہ تم تو یونہی بہک رہے ہو ، سرے سے یہ بات ہی ان ہونی ہے کہ اللہ کسی پر کچھ اتارے ۔
اسی طرح جب یہ لوگ جہنم کی طرف کشاں کشاں پہنچائے جا رہے ہوں گے ، اس وقت بھی داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟
جو تمہارے رب کی آیتیں تمہارے سامنے پڑھتے ہوں اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں ؟
یہ جواب دیں گے کہ ہاں یقینا آئے لیکن کلمہ عذاب کافروں پر ٹھیک اترا ۔
اور آیت میں ہے کہ کفار جہنم میں پڑے چیخ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہمیں اس سے نکال تو ہم اپنے قدیم کرتوت چھوڑ کر اب نیک اعمال کریں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تمہیں اتنی لمبی عمر نہیں دی تھی تم اگر نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے اور میں نے تم میں اپنے رسول بھی بھیجے تھے جنہوں نے خوب اگاہ کر دیا تھا اب تو عذاب برداشت کرو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔
الغرض اور بھی بہت سی آیتوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی بغیر رسول بھیجے کسی کو جہنم میں نہیں بھیجتا ۔
صحیح بخاری میں آیت (ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین) کی تفسیر میں ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں جنت دوزخ کا کلام ہے ۔ پھر ہے کہ جنت کے بارے میں اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا اور وہ جہنم کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا جو اس میں ڈال دی جائے گی جہنم کہتی رہے گی کہ کیا ابھی اور زیادہ ہے ؟
اس کے بابت علما کی ایک جماعت نے بہت کچھ کلام کیا ہے دراصل یہ جنت کے بارے میں ہے اس لئے کہ وہ دار فضل ہے اور جہنم دار عدل ہے اس میں بغیر عذر توڑے بغیر حجت ظاہر کئے کوئی داخل نہ کیا جائے گا ۔ اس لئے حفاظ حدیث کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ راوی کو اس میں الٹا یاد رہ گیا
اور اس کی دلیل بخاری مسلم کی وہ روایت ہے جس میں اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ دوزخ پر نہ ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اس میں اپنا قدم رکھ دے گا اس وقت وہ کہے گی بس بس اور اس وقت بھر جائے گی اور چاورں طرف سے سمٹ جائے گی ۔ اللہ تعالٰی کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ ہاں جنت کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا ۔
باقی رہا یہ مسلہ کہ کافروں کے جو نابالغ چھوٹے بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اور جو دیوانے لوگ ہیں اور نیم بہرے اور جو ایسے زمانے میں گزرے ہیں جس وقت زمین پر کوئی رسول یا دین کی صحیح تعلیم نہیں ہوتی اور انہیں دعوت اسلام نہیں پہنچتی اور جو بالکل بڈھے حواس باختہ ہوں ان کے لئے کیا حکم ہے ؟
اس بارے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے ۔ ان کے بارے میں جو حدیثیں ہیں وہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں پھر ائمہ کا کلام بھی مختصرا ذکر کروں گا ، اللہ تعالٰی مدد کرے ۔
پہلی حدیث مسند احمد میں ہے چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالٰی سے گفتگو کریں گے
ایک تو بالکل بہرا آدمی جو کچھ بھی نہیں سنتا
اور دوسرا بالکل احمق پاگل آدمی جو کچھ بھی نہیں جانتا ،
تیسرا بالکل بڈھا پھوس آدمی جس کے حواس درست نہیں ،
چوتھے وہ لوگ جو ایسے زمانوں میں گزرے ہیں جن میں کوئی پیغمبر یا اس کی تعلیم موجود نہ تھی ۔
بہرا تو کہے گا اسلام آیا لیکن میرے کان میں کوئی آواز نہیں پہنچی ،
دیوانہ کہے گا کہ اسلام آیا لیکن میری حالت تو یہ تھی کہ بچے مجھ پر مینگنیاں پھینک رہے تھے
اور بالکل بڈھے بےحواس آدمی کہیں گے کہ اسلام آیا لیکن میرے ہوش حواس ہی درست نہ تھے جو میں سمجھ کر سکتا
رسولوں کے زمانوں کا اور ان کی تعلیم کو موجود نہ پانے والوں کا قول ہو گا کہ نہ رسول آئے نہ میں نے حق پایا پھر میں کیسے عمل کرتا ؟
اللہ تعالٰی ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ اچھا جاؤ جہنم میں کود جاؤ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ فرماں برداری کر لیں اور جہنم میں کود پڑیں تو جہنم کی آگ ان پر ٹھنڈک اور سلامتی ہو جائے گی ۔
اور روایت میں ہے کہ جو کود پڑیں گے ان پر تو سلامتی اور ٹھنڈک ہو جائے گی اور جو رکیں گے انہیں حکم عدولی کے باعث گھسیٹ کی جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔
ابن جریر میں اس حدیث کے بیان کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں کلام اللہ کی آیت (وماکنا معذبین) الخ پڑھ لو دوسری حدیث ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ابو حمزہ مشرکوں کے بچوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟
آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ گنہگار نہیں جو دوزخ میں عذاب کئے جائیں اور نیکوکار بھی نہیں جو جنت میں بدلہ دئے جائیں
تیسری حدیث ابو یعلی میں ہے کہ ان چاورں کے عذر سن کر جناب باری فرمائے گا کہ اوروں کے پاس تو میں اپنے رسول بھیجتا تھا لیکن تم سے میں آپ کہتا ہوں کہ جاؤ اس جہنم میں چلے جاؤ جہنم میں سے بھی فرمان باری سے ایک گردن اونچی ہو گی اس فرمان کو سنتے ہی وہ لوگ جو نیک طبع ہیں فورا دوڑ کر اس میں کود پڑیں گے اور جو باطن ہیں وہ کہیں گے اللہ پاک ہم اسی سے بچنے کے لئے تو یہ عذر معذرت کر رہے تھے
اللہ فرمائے گا جب تم خود میری نہیں مانتے تو میرے رسولوں کی کیا مانتے اب تمہارے لئے فیصلہ یہی ہے کہ تم جہنمی ہو اور ان فرمانبرداروں سے کہا جائے گا کہ تم بیشک جنتی ہو تم نے اطاعت کر لی
۔
چوتھی حدیث مسند حافظ ابو یعلی موسلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہے ۔
پھر مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ، تو کہا گیا یا رسول اللہ انہوں نے کوئی عمل تو نہیں کیا آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ انہیں بخوبی جانتا ہے ۔
پانچویں حدیث ۔ حافظ ابوبکر احمد بن عمر بن عبدالخالق بزار رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اہل جاہلیت اپنے بوجھ اپنی کمروں پر لادے ہوئے آئیں گے اور اللہ کے سامنے عذر کریں گے کہ نہ ہمارے پاس تیرے رسول پہنچے نہ ہمیں تیرا کوئی حکم پہنچا اگر ایسا ہوتا تو ہم جی کھول کر مان لیتے
اللہ تعالٰی فرمائے گا اچھا اب اگر حکم کروں تو مان لو گے ؟
وہ کہیں گے ہاں ہاں بیشک بلا چون و چرا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا اچھا جاؤ جہنم کے پاس جا کر اس میں داخل ہو جاؤ یہ چلیں گے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اب جو اس کا جوش اور اس کی آواز اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو واپس آ جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہمیں اس سے تو بچا لے ۔
اللہ تعالٰی فرمائے گا دیکھو تو اقرار کر چکے ہو کہ میری فرمانبرداری کرو گے پھر یہ نافرمانی کیوں ؟
وہ کہیں گے اچھا اب اسے مان لیں گے اور کر گزریں گے چنانچہ ان سے مضبوط عہد و پیمان لئے جائیں گے ، پھر یہی حکم ہو گا یہ جائیں گے اور پھر خوفزدہ ہو کر واپس لوٹیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہم تو ڈر گئے ہم سے تو اس فرمان پر کار بند نہیں ہوا جاتا ۔
اب جناب باری فرمائے گا تم نافرمانی کر چکے اب جاؤ ذلت کے ساتھ جہنمی بن جاؤ ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر پہلی مرتبہ ہی یہ بحکم الہٰی اس میں کود جاتے تو آتش دوزخ ان پر سرد پڑ جاتی اور ان کا ایک رواں بھی نہ جلاتی ۔
امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس حدیث کا متن معروف نہیں ایوب سے صرف عباد ہی روایت کرتے ہیں اور عباد سے صرف ریحان بن سعید روایت کرتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں اسے ابن حبان نے ثفہ بتلایا ہے ۔ یحیی بن معین اور نسائی کہتے ہیں ان میں کوئی ڈر خوف کی بات نہیں ۔ ابو داؤد نے ان سے روایت نہیں کی ۔ ابو حاتم کہتے ہیں یہ شیخ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ۔ ان کی حدیثیں لکھائی جاتی ہیں اور ان سے دلیل نہیں لی جاتی ۔
چھٹی حدیث ۔ امام محمد بن یحیٰی ذہلی رحمۃ اللہ علیہ روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خالی زمانے والے اور مجنون اور بچے اللہ کے سامنے آئیں گے ایک کہے گا میرے پاس تیری کتاب پہنچی ہی نہیں ،
مجنوں کہے گا میں بھلائی برائی کی تمیز ہی نہیں رکھتا ۔
بچہ کہے گا میں نے سمجھ بوجھ کا بلوغت کا زمانہ پایا ہی نہیں
۔ اسی وقت ان کے سامنے آگ شعلے مارنے لگے گی ۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا اسے ہٹا دو تو جو لوگ آئندہ نیکی کرنے والے تھے وہ تو اطاعت گزار ہو جائیں گے اور جو اس عذر کے ہٹ جانے کے بعد بھی نافرمانی کرنے والے تھے وہ رک جائیں گے
تو اللہ تعالٰی فرمائے گا جب تم میری ہی براہ راست نہیں مانتے تو میرے پیغمبروں کی کیا مانتے ؟
ساتویں حدیث ۔ انہی تین شخصوں کے بارے میں اوپر والی احادیث کی طرح اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس میں سے ایسے شعلے بلند ہوں گے کہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ تو ساری دنیا کو جلا کر بھسم کر دیں گے دوڑتے ہوئے واپس لوٹ آئیں گے پھر دوبارہ یہی ہو گا اللہ عز و جل فرمائے گا ۔
تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہارے اعمال کی خبر تھی میں نے علم ہوتے ہوئے تمہیں پیدا کیا تھا اسی علم کے مطابق تم ہو ۔ اے جہنم انہیں دبوچ لے چنانچہ اسی وقت آگ انہیں لقمہ بنا لے گی
۔
آٹھویں حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت ان کے اپنے قول سمیت پہلے بیان ہو چکی ہے ۔ بخاری و مسلم میں آپ ہی سے مروی ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہر بچہ دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ” ۔
جیسے کہ بکری کے صحیح سالم بچے کے کان کاٹ دیا کرتے ہیں ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر وہ بچپن میں ہی مر جائے تو؟
آپ نے فرمایا اللہ کو ان کے اعمال کی صحیح اور پوری خبر تھی ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ مسلمان بچوں کی کفالت جنت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سپرد ہے ۔
صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد یکسو مخلص بنایا ہے ۔ ایک روایت میں اس کے ساتھ ہی مسلمان کا لظف بھی ہے ۔
نویں حدیث حافظ ابوبکر یرقانی اپنی کتاب المستخرج علی البخاری میں روایت لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے لوگوں نے باآواز بلند دریافت کیا کہ مشرکوں کے بچے بھی ؟
آپ نے فرمایا ہاں مشرکوں کے بچے بھی ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ مشرکوں کے بچے اہل جنت کے خادم بنائے جائیں گے ۔
دسویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں کون کون جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا نبی اور شہید بچے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے ۔
علماء میں سے بعض کا مسلک تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں ہم توقف کرتے ہیں ، خاموش ہیں ان کی بھی گزر چکی ۔ بعض کہتے ہیں یہ جنتی ہیں ان کی دلیل معراج والی وہ حدیث ہے
جو صحیح بخاری شریف میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خواب میں ایک شیخ کو ایک جنتی درخت تلے دیکھا ، جن کے پاس بہت سے بچے تھے ۔ سوال پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے پاس یہ بچے مسلمانوں کی اور مشرکوں کی اولاد ہیں ،
لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی اولاد بھی ؟
آپ نے فرمایا ہاں مشرکین کی اولاد بھی۔ بعض علماء فرماتے ہیں یہ دوزخی ہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہیں ۔ بعض علماء کہتے ہیں ان کا امتحان قیامت کے میدانوں میں ہو جائے گا ۔ اطاعت گزار جنت میں جائیں گے ، اللہ اپنے سابق علم کا اظہار کر کے پھر انہیں جنت میں پہنچائے گا
اور بعض بوجہ اپنی نافرمانی کے جو اس امتحان کے وقت ان سے سرزد ہو گی اور اللہ تعالٰی اپنے پہلا علم آشکارا کر دے گا ۔ اس وقت انہیں جہنم کا حکم ہو گا ۔ اس مذہب سے تمام احادیث اور مختلف دلیلوں میں جمع ہو جاتی ہے اور پہلے کی حدیثیں جو ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں اس معنی کی کئی ایک ہیں ۔ شیخ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری رحمۃاللہ علیہ نے یہی مذہب اہل سنت والجماعت کا نقل فرمایا ہے ۔
اور اسی کی تائید امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاعتقاد میں کی ہے ۔ اور بھی بہت سے محققین علماء اور پرکھ والے حافظوں نے یہی فرمایا ہے ۔ شیخ ابو عمر بن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ عزی نے امتحان کی بعض روایتیں بیان کر کے لکھا ہے اس بارے کی حدیثیں قوی نہیں ہیں اور ان سے جحت ثابت نہیں ہوتی اور اہل علم کا انکار کرتے ہیں اس لئے کہ آخرت دار جزا ہے ، دار عمل نہیں ہے اور نہ دار امتحان ہے ۔ اور جہنم میں جانے کا حکم بھی تو انسانی طاقت سے باہر کا حکم ہے اور اللہ کی یہ عادت نہیں ۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا جواب بھی سن لیئجے ، اس بارے جو حدیثیں ہیں ، ان میں سے بعض تو بالکل صحیح ہیں ۔
جیسے کہ ائمہ علماء نے تصریح کی ہے ۔ بعض حسن ہیں اور بعض ضعیف بھی ہیں لیکن وہ بوجہ صحیح اور حسن احادیث کے قوی ہو جاتی ہیں ۔ اور جب یہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حدیثیں حجت و دلیل کے قابل ہو گئیں اب رہا امام صاحب کا یہ فرمان کہ آخرت دار عمل اور دار امتحان نہیں وہ دار جزا ہے ۔
یہ بیشک صحیح ہے لیکن اس سے اس کی نفی کیسے ہو گئی کہ قیامت کے مختلف میدانوں کی پیشیوں میں جنت دوزخ میں داخلے سے پہلے کوئی حکم احکام نہ دئے جائیں گے ۔ شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ نے تو مذہب اہلسنت والجماعت کے عقائد میں بچوں کے امتحان کو داخل کیا ہے ۔
مزید بارں آیت قرآن آیت (یوم یکشف عن ساق) اس کی کھلی دلیل ہے کہ منافق و مومن کی تمیز کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کا حکم ہو گا ۔ صحاح کی احادیث میں ہے کہ مومن تو سجدہ کر لیں گے اور منافق الٹے منہ پیٹھ کے بل گر پڑیں گے ۔
بخاری و مسلم میں اس شخص کا قصہ بھی ہے جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا کہ وہ اللہ سے وعدے وعید کرے گا سوا اس سوال کے اور کوئی سوال نہ کرے گا اس کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنے قول قرار سے پھر جائے گا اور ایک اور سوال کر بیٹھے گا وغیرہ ۔
آخرت میں اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ ابن آدم تو بڑا ہی عہد شکن ہے اچھا جا ، جنت میں چلا جا ۔ پھر امام صاحب کا یہ فرمانا کہ انہیں ان کی طاقت سے خارج بات کا یعنی جہنم میں کود پڑنے کا حکم کیسے ہو گیا ؟
اللہ تعالٰی کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ یہ بھی صحت حدیث میں کوئی روک پیدا نہیں کر سکتا ۔ خود امام صاحب اور تمام مسلمان مانتے ہیں کہ پل صراط پر سے گزرنے کا حکم سب کو ہو گا جو جہنم کی پیٹھ پر ہو گا اور تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا ۔ مومن اس پر سے اپنی نیکیوں کے اندازے سے گزر جائیں گے ۔ بعض مثل بجلی کے، بعض مثل ہوا کے ، بعض مثل گھوڑوں کے بعض مثل اونٹوں کے ، بعض مثل بھاگنے والوں کے ، بعض مثل پیدل جانے والوں کے ، بعض گھٹنوں کے بل سرک سرک کر ، بعض کٹ کٹ کر ، جہنم میں پڑیں گے ۔ پس جب یہ چیز وہاں ہے تو انہیں جہنم میں کود پڑنے کا حکم تو اس سے کوئی نہیں بلکہ یہ اس سے بڑا اور بہت بھاری ہے ۔
اور سنئے حدیث میں ہے کہ دجال کے ساتھ آگ اور باغ ہو گا ۔ شارع علیہ السلام نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جسے آگ دیکھ رہے ہیں اس میں سے پیئیں وہ ان کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کی چیز ہے
۔ پس یہ اس واقعہ کی صاف نظیر ہے ۔ اور لیجئے بنو اسرائیل نے جب گو سالہ پرستی کی اس کی سزا میں اللہ نے حکم دیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ایک ابر نے آ کر انہیں ڈھانپ لیا اب جو تلوار چلی تو صبح ہی صبح ابر پھٹنے سے پہلے ان میں سے ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے تھے ۔
بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کیا کیا یہ حکم اس حکم سے کم تھا ؟
کیا اس کا عمل نفس پر گراں نہیں ؟
پھر تو اس کی نسبت بھی کہہ دینا چاہیے تھے کہ اللہ کسی نفس کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ ان تمام بحثوں کے صاف ہونے کے بعد اب سنئے ۔
مشرکین کے بچپن میں مرے ہوئے بچوں کی بابت بھی بہت سے اقوال ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ سب جنتی ہیں، ان کی دلیل وہی معراج میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس مشرکوں اور مسلمانوں کے بچوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنا ہے اور دلیل ان کی مسند کی وہ روایت ہے جو پہلے گزر چکی
کہ آپ نے فرمایا بچے جنت میں ہیں ۔ ہاں امتحان ہونے کی جو حدیثیں گزریں وہ ان میں سے خصوص ہیں ۔ پس جن کی نسبت رب العالمین کو معلوم ہے کہ وہ مطیع اور فرمانبردار ہیں ان کی روحیں عالم برزخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہیں اور مسلمانوں کے بچوں کی روحیں بھی ۔ اور جن کی نسبت اللہ تعالٰی جانتا ہے کہ وہ قبول کرنے والی نہیں ، ان کا امر اللہ کے سپرد ہے وہ قیامت کے دن جہنمی ہوں گے ۔
جیسے کہ احادیث امتحان سے ظاہر ہے ۔ امام اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے اہل سنت سے نقل کیا ہے اب کوئی تو کہتا ہے کہ یہ مستقل طور پر جنتی ہیں کوئی کہتا ہے یہ اہل جنت کے خادم ہیں ۔ گو ایسی حدیث داؤد طیالسی میں ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکوں کے بچے بھی اپنے باپ دادوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے جیسے کہ مسند وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپ دادوں کے تابعدار ہیں
۔ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا بھی کہ باوجود بےعمل ہونے کے ؟
آپ نے فرمایا وہ کیا عمل کرنے والے تھے ، اسے اللہ تعالٰی بخوبی جانتا ہے ۔
ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں ۔ ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں نے کہا مشرکوں کی اولاد ؟
آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں کہا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی عمل کیا ہو ؟
آپ نے فرمایا وہ کیا کرتے یہ اللہ کے علم میں ہے ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو میں ان کا رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا بھی تجھے سنا دوں ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے روایت لائے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو بچوں کی نسبت سوال کیا جو جاہلیت کم زمانے میں فوت ہوئے تھے آپ نے فرمایا وہ دونوں دوزخ میں ہیں جب آپ نے دیکھا کہ بات انہیں بھاری پڑی ہے تو آپ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تم خود ان سے بےزار ہو جاتیں ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے پوچھا اچھا جو بچہ آپ سے ہوا تھا ؟
آپ نے فرمایا سنو مومن اور ان کی اولاد جنتی ہے اور مشرک اور ان کی اولاد جہنمی ہے ۔
پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (والذین امنوا واتبعہم ذریتہم بایمان الحقنابہم ذریتہم) جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اتباع کی ایمان کے ساتھ کی ۔ ہم ان کی اولاد انہی کے ساتھ ملا دیں گے یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد میں محمد بن عثمان راوی مجہول الحال ہیں اور ان کے شیخ زاذان نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہیں پایا واللہ اعلم
۔
ابو داؤد میں حدیث ہے زندہ درگور کرنے والی اور زندہ درگور کردہ شدہ دوزخی ہیں ۔ ابو داؤد میں یہ سند حسن مروی ہے حضرت سلمہ بن قیس اشجعی رشی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں میں اپنے بھائی کو لئے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ماں جاہلیت کے زمانے میں مر گئی ہیں ، وہ صلہ رحمی کرنے والی اور مہمان نواز تھیں ، ہماری ایک نابالغ بہن انہوں نے زندہ دفن کر دی تھی ۔
آپ نے فرمایا ایسا کرنے والی اور جس کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے دونوں دوزخی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو پالے اور اسے قبول کر لے ۔
تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے بارے میں توقف کرنا چاہیے کوئی فیصلہ کن بات یکطرفہ نہ کہنی چاہئے ۔ ان کا اعتماد آپ کے اس فرمان پر ہے کہ ان کے اعمال کا صحیح اور پورا علم اللہ تعالٰی کو ہے ۔
بخاری میں ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں جب آپ سے سوال ہوا تو آب نے انہی لفظوں میں جواب دیا تھا ۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ یہ اعراف میں رکھے جائیں گے ۔ اس قول کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ جنتی ہیں اس لئے کہ اعراف کوئی رہنے سہنے کی جگہ نہیں یہاں والے بالآخر جنت میں ہی جائیں گے ۔
جیسے کہ سورہ اعراف کی تفسیر میں ہم اس کی تفسیر کر آئے ہیں ، واللہ اعلم
۔ یہ تو تھا اختلاف مشرکوں کی اولاد کے بارے میں لیکن مومنوں کی نابالغ اولاد کے بارے میں تو علما کا بلااختلاف یہی قول ہے کہ وہ جنتی ہیں ۔
جیسے کہ حضرت امام احمد کا قول ہے اور یہی لوگوں میں مشہور بھی ہے اور انشاء اللہ عز و جل ہمیں بھی یہی امید ہے ۔ لیکن بعض علماء سے منقول ہے کہ وہ ان کے بارے میں توقف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سب بچے اللہ کی مرضی اور اس کی چاہت کے ماتحت ہیں ۔
اہل فقہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے ۔ موطا امام مالک کی ابواب القدر کی احادیث میں بھی کچھ اسی جیسا ہے گو امام مالک کا کوئی فیصلہ اس میں نہیں ۔ لیکن بعض متاخرین کا قول ہے کہ مسلمان بچے تو جنتی ہیں اور مشرکوں کے بچے مشیت الہٰی کے ماتحت ہیں ۔ ابن عبد البر نے اس بات کو اسی وضاحت سے بیان کیا ہے لیکن یہ قول غریب ہے ۔ کتاب التذکرہ میں امام قرطبی رحمۃاللہ علیہ نے بھی یہی فرمایا ہے واللہ اعلم
۔
اس بارے میں ان بزرگوں نے ایک حدیث یہ بھی وارد کی ہے کہ انصاریوں کے ایک بچے کے جنازے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا تو ماں عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا اس بچے کو مرحبا ہو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کا کوئی کام کیا نہ اس زمانے کو پہنچا تو آپ نے فرمایا اس کے سوا کچھ اور بھی اے عائشہ ؟
سنو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے ۔ اسی طرح اس نے جہنم کو پیدا کیا ہے اور اس میں جلنے والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پیٹھ میں ہیں
۔ مسلم اور سنن کی یہ حدیث ہے چونکہ یہ مسئلہ صحیح دلیل بغیر ثابت نہیں ہو سکتا اور لوگ اپنی بےعلمی کے باعث بغیر ثبوت شارع کے اس میں کلام کرنے لگے ہیں ۔ اس لئے علماء کی ایک جماعت نے اس میں کلام کرنا ہی نا پسند رکھا ہے ۔ ابن عباس ، قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق اور محمد بن حنفیہ وغیرہ کا مذہب یہی ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو منبر پر خطبے میں فرمایا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس امت کا کام ٹھیک ٹھاک رہے گا جب تک کہ یہ بچوں کے بارے میں اور تقدیر کے بارے میں کچھ کلام نہ کریں گے
(ابن حبان) امام ابن حبان کہتے ہیں مراد اس سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں کلام نہ کرنا ہے ۔ اور کتابوں میں یہ روایت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اپنے قول سے موقوفاً مروی ہے ۔
Wednesday, July 6, 2011
روضئہ رسول عہد بعہد تاریخی جائزہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج جہاں آرام فرما ہیں،وہاں سوا چودہ سو سال قبل آپ کی
زوجہٴ محترمہ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہٴ مبارک تھا۔
اس کی لمبائی تقریباً ۱۶ فٹ اور چوڑائی ۱۲ فٹ تھی۔ آج کے کمروں کی لمبائی چوڑائی بھی عموماً یہی ہوتی ہے۔
فرق یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں ایسے کمرے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں، جن کے ساتھ غسل خانہ ، باورچی خانہ اورکھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور مہمانوں کے لیے الگ جگہیں بھی ہوتی ہیں۔ آئندہ سطور پڑھتے وقت یہ خیال رہے کہ مدینے میں قبلے کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ رسول کریم اکی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ ،آپ کی زوجہٴ محترمہ حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے ساتھ،اس کے شمال کی سمت میں تھا۔ان دونوں حجروں کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے۔ اب یہ دونوں گنبد خضرا کے سائے تلے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے مشرق اور اس سے متصل، رسول کریم اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری زوجہٴ محترمہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ تھا۔ مسجد نبوی کی تعمیر سے فارغ ہوتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انے ان دونوں کو بیک وقت اور ایک ہی طرز پر تعمیر کرایا تھا۔ محل وقوع کو مزید سمجھنے کے لیے یاد رہے کہ مسجد نبوی کے مشرق میں جنّت البقیع ہے۔حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے جنوب، یعنی قبلے کی سمت اور حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے سے گز بھر آگے، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ تھا۔ پچھلے چودہ سو برسوں کے دوران جب اربوں کلمہ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبراطہر کے سامنے کھڑے ہوکر، گداز دل اور تر آنکھوں سے، آپ پر درود و سلام بھیجتے رہے ہیں تو ان میں سے بیش تر کو یہ علم نہ ہوگا کہ وہ جہاں کھڑے ہیں، وہ جگہ چالیس برس سے زیادہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا
کی رہائش گاہ کا ایک حصہ رہی ہے۔ حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجروں کے درمیان ایک انتہائی تنگ گلی تھی، جس میں ایک وقت میں ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا۔ حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اپنے اپنے حجروں میں بیٹھی ہوئی ایک دوسرے سے باتیں کرلیا کرتی تھیں۔ حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
میں سے حضرت سودہ
رضی اللہ تعالی عنہا
، حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے علاوہ صرف ایک اور حجرے کا صحیح محل وقوع معلوم ہے۔ اس میں آپ کی پانچویں بیوی حضرت زینب بنتِ خزیمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
صرف چند ماہ رہیں۔ جب ا ن کا انتقال ہوگیا تو آپ انے حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
سے شادی کی، جو اگلے چھپّن برس یہاں رہائش پزیر رہیں۔ ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
میں سے حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا انتقال سب سے آخر میں ہوا۔ حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے بعد، شمال کی جانب، پانچ مزید حجرات تقریباً ایک قطار میں، وقتاً فوقتاً بنتے گئے، جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پانچ دیگر ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
کی رہائش گاہیں تھیں۔ بالائی سطور سے یہ نقشہ سامنے آتا ہے کہ مسجد نبوی کے مشرق میں، قبلے یا جنوب کی سمت، سب سے پہلا حجرہ حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا،اس کے نیچے یا شمال میں، دو دو حجروں کی دو قطاریں تھیں۔ پہلی قطار میں مغرب، یا مسجد نبوی کی جانب پہلا حجرہ حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا، جو حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے تقریباً سامنے تھا، دوسرا حضرت سودہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا، جو حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے سے متصل، مشرق یعنی جنت البقیع کی جانب تھا، دوسری قطار میں، مغرب یعنی مسجد نبوی کی جانب پہلا حجرہ حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت علی
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا، جو حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے متصل تھا اور اس کا دروازہ بھی حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کی طرح، مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے ساتھ دوسرا حجرہ حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا، جو حضرت سودہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے مشرق یا جنّت البقیع کی جانب تھا۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ زمین کا وہ خوش نصیب ٹکڑا جسے آج گنبدِ خضرا نے ڈھانپ رکھا ہے، سوا چودہ صدیوں پہلے، حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
، حضرت سودہ
رضی اللہ تعالی عنہا
، حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
، حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجروں اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے ایک حصے کی جگہ تھا ۔حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے نیچے یا شمال کے رخ پراس طرح کے پانچ اور حجرے تھے، جو دوسری ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
کی رہائش گاہیں تھیں۔ یہ تھے دو دو سو مربع فٹ کے وہ نو حجرے جن میں اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دس سال یہاں گزارے۔ یہ تھیں وہ اقامت گاہیں، جن میں آپ سوئے، اٹھے، بیٹھے، محو گفتگو اور سجدہ ریز ہوئے۔ ان میں سے بعض میں آپ پر وحی اتری اور ان میں سے ایک میں آپ دنیا سے رخصت ہوئے اور اب آرام فرما ہیں۔
جب کوئی زائر مسجدِ نبوی میں، ریاض الجنّہ کے قریب، جنوب کی جانب جالیوں کی وسطی جالی میں نصب، تین گول دائروں میں سے پہلے گول دائرے کے بالمقابل کھڑا ہوتا ہے تو اس کے اور رسول کریم اکے درمیان، ظاہری طور پر صرف چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس جانب کی جالیوں کے پیچھے، سب سے پہلے حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کا ایک حصہ ہے اور پھر گز بھر چوڑی وہ گلی جو کبھی حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجروں کے درمیان ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ ہے، جس میں جنوب مغرب یا قبلے اور ریاض الجنّہ کی اطراف سے پہلی قبر رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔ اس سے ذرا نیچے یا شمال کی جانب پہلے آپ کے خسر اور خلیفہٴ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ
اور اس کے بعد ذرا نیچے آپ کے دوسرے خسر اور خلیفہٴ دوم، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی قبریں ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مغرب یعنی مسجد نبوی کی طرف، پاؤں مشرق یا جنت البقیع کی طرف اور چہرہٴ انور کا رخ قبلے یا جنوب کی طرف ہے۔ تدفین کے وقت یہی ترتیب آپ کے ان دو اصحاب کی رکھی گئی جو زندگی میں بھی آپ کے ساتھی تھے اور اب بھی آپ کے ساتھ آرام فرما ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے (اور بعض روایات کے مطابق کندھے) کے سامنے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کا سر، اور حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے سینے (اور بعض روایات کے مطابق کندھے) کے سامنے حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کا سر ہے۔ یہ تینوں قبریں تقریباً مربع شکل کی ایک مہر بند چار دیواری میں ہیں
جو کبھی حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ تھا، اس چار دیواری کے گرد ایک ”پانچ دیواری“ ہے۔ اس پانچ دیواروں والے کمرے کو ہی آج کل ”حجرہ شریفہ“ کہا جاتا ہے۔ یہ ”پانچ دیواری“ بھی مہر بند ہے اور اس کے اوپر سبز غلاف چڑھا ہوا ہے۔ اس ”پانچ دیواری“ کی تفصیلات اگلی سطور میں دی گئی ہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا ضروری ہے کہ تین گول دائروں والی جالی کے اندر سے زائر کو جو نظر آتا ہے، وہ اس ”پانچ دیواری“ کا جنوبی یا قبلے کے رخ والا حصہ ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکے وصال کے تقریباً اسّی برس بعد، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں مدینے کے گورنر حضرت عمر بن عبدالعزیزرضی اللہ تعالی عنہ کو مسجد نبوی کی مزید توسیع کا حکم دیاگیا۔ مسجدِ نبوی کا رقبہ، جس میں پہلی توسیع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری توسیع خلیفہٴ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور تیسری توسیع خلیفہٴ سوم حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کرائی تھی، اب اسلامی مملکت کے محیّر العقل پھیلاؤ اور مسلمانوں کی آبادی میں کثرت کے باعث یہ چھوٹا پڑ گیا تھا۔یہ بات تقریباً ۹۱ھ (مطابق (۷۱۰ء) کی ہورہی ہے۔ اس وقت تک تمام ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
وفات پاچکی تھیں۔ خلیفہ کی ہدایت پر حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے علاوہ باقی تمام حجرات گرا کر، ان کی زمین مسجد نبوی کی توسیع کے لیے استعمال کی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ جس روز یہ تقریباً سو سال قدیم حجرے گرائے گئے، اس دن مدینے میں ہر آنکھ اشک بار تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے اور مدتوں کہتے رہے کہ یہ حجرے جوں کے توں رہنے چاہیے تھے،تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہوتا کہ ان کے آقا اور مولا نے اپنی زندگی کے آخری دس برس فقیرانہ شان سے گزارے، حالاں کہ فتح خیبر کے بعد اگر آپ اچاہتے تو اپنے، اپنی بیٹی اور بیویوں کے لیے پختہ وسیع اور آرام دہ مکانات بنوا سکتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمتہ اللہ
نے حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کی چار دیواری کی ازسرنو تعمیر کی اور اس کے بعد، اس کے گرد، تقریباً سات میٹر، یا ساڑھے سات گز، اونچی ایک بیرونی دیوار کا بھی اضافہ کیا۔ تعمیر نو اور توسیع کے دوران جب یہ حجرے گرائے گئے تو مدینے کی ایک بھیگی رات میں جو کچھ بیتی، وہ ایک معاصر عبداللہ بن محمد بن عقیل کی زبانی سنیے
:
”اس رات مدینے میں بارش ہورہی تھی۔ میرا معمول تھا کہ رات کے آخری پہر مسجدِ نبوی میں حاضری دیتا۔ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا اور پھر نماز فجر تک مسجدِ نبوی میں رہتا۔ اس رات بھی میں حسب معمول نکلا۔ ابھی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان تک پہنچا تھا (جو جنت البقیع کے بالکل پاس تھا) کہ اچانک ایسی خوش بو آئی جو میں نے کبھی محسوس نہ کی تھی۔ مسجدِ نبوی پہنچا تو دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی کوٹھڑی کی ایک دیوار (مشرقی دیوار جو جنت البقیع کی جانب ہے) گری ہوئی ہے۔ میں اندر گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں درود وسلام پیش کیا۔ ابھی وہیں تھا کہ مدینے کے گورنر حضرت عمر بن عبدالعزیزآ گے۔ ان کے حکم پر کوٹھڑی کو ایک بڑے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ علی الصباح مستری کو کوٹھڑی کے اندر جانے کے لیے کہا گیا۔ اس نے کہا کہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی چلے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزآ گے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے ساتھ دو اور حضرات بھی تیار ہوگئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزآ گے نے یہ دیکھا تو کہا کہ ہمیں اس مقدس مقام کے مکینوں کے سکون میں خلل اندازی سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے صرف اپنے آزاد کردہ غلام مزاحم کو اندر جانے کے لیے کہا۔ جس نے بعد میں بتایا کہ پہلی قبر دوسری دو قبروں کے مقابلے میں تھوڑی سی نیچی تھی۔“
اس واقعے کے کم از کم ۳۵ برس قبل، حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہا
کے ایک پوتے نے جب اپنی پھوپھی حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کی زندگی میں یہ تینوں قبریں دیکھیں تو وہ سطح زمین سے نہ بہت بلند تھیں اور نہ زمین کے ساتھ لگی تھیں۔ تینوں پر سرخ مٹی نظر آرہی تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمتہ اللہ کے ایک اور ہم عصر کا بیان ہے کہ انہوں نے جب یہ تینوں قبریں دیکھیں تو وہ سطح زمین سے تقریباً چار انچ اوپر تھیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمتہ اللہ نے حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے گرد جو چار دیواری کھنچوائی،اس میں سیاہ رنگ کے ویسے ہی پتھر استعمال کیے گئے، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں ہیں۔ اس کی تصدیق صدیوں بعد ان لوگوں نے کی، جنہیں مرمّت کے دوران یہ مہر بند چوکور کمرہ دیکھنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس چار دیواری کے گرد ”پانچ دیواری“ بنوانے کا ایک مقصد یہ تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخری آرام گاہ کا طرزِ تعمیر اللہ کے گھر کے طرزِ تعمیر سے مختلف رہے جو چار دیواروں پر مشتمل ہے۔ اس پانچ دیواری کا نقشہ کچھ یوں ہے کہ جب آپ تین گول دائروں والی جالی کے سامنے کھڑے ہوں تو جالیوں کے درمیان میں سے آپ کو جو نظر آتا ہے، وہ حضرت عمر بن رحمتہ اللہ کی بنوائی ہوئی بیرونی دیوار کا جنوبی حصہ ہے، جو ساڑھے آٹھ میٹر لمبا اور خط مستقیم میں ہے۔ جالیوں میں سے آپ کو عربی تحریر سے مزیّن جو سبز کپڑا اندر نظر آئے گا، وہ حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمتہ اللہ کی بنوائی ہوئی بیرونی دیوار کے جنوبی حصے پر چڑھا ہوا ہے، نہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرے کی دیوار پر۔مشرق میں، یا جنّت البقیع کی جانب، بیرونی دیوار (جو ظاہر ہے کہ سبز جالیوں کے اندر ہے) خط مستقیم میں نہیں، بلکہ دو حصوں میں ہے۔ جنوب (یا قبلے کی جانب) سے شمال کو جاتے ہوئے، بیرونی دیوار کا ایک حصہ، جو تقریباً چھے میٹر لمبا ہے، خط مستقیم میں ہے، لیکن آگے جاکر اس دیوار کا دوسرا حصہ وتر کا زاویہ بناتا ہوا شمال مغرب کی سمت مڑ جاتا ہے۔
اس دوسرے حصے کی لمبائی تقریباً سات میٹر ہے۔ اسی طرح مغرب یا ریاض الجنّہ کی جانب بھی بیرونی دیوار خط مستقیم میں نہیں۔ ریاض الجنّہ میں جنوب سے شمال کو جاتے ہوئے، سبز جالیوں میں تین ستونوں کے نام نظر آئیں گے جو بالترتیب ”السّریر“ ”الحرس“ اور ”الوفود“ ہیں۔ السّریر سے الوفود کو جاتے ہوئے، سبز جالیوں کے اندر، بیرونی دیوار کا ایک حصہ، جو تقریباً آٹھ میٹر لمبا ہے، خط مستقیم میں ہے، لیکن آگے جاکر اسی دیوار کا دوسرا حصہ، جس کی لمبائی چھ میٹر ہے، وتر کا زاویہ بناتے ہوئے، شمال مشرق کی طرف مڑ جاتا ہے اور پھر شمال میں اپنے بالمقابل دیوار سے مل جاتا ہے۔ اس طرح بیرونی دیوار کی مجموعی لمبائی ساڑھے پینتیس میٹر ہے۔ قبلے یعنی جنوب کی جانب ساڑھے آٹھ میٹر لمبی دیوار خط مستقیم میں ہے۔ مشرق اور مغرب کی سمت یہ دیوار دو حصوں میں منقسم ہے۔ جنوب سے شمال کو جاتے ہوئے ان دیواروں کا ایک حصہ خط مستقیم میں اور دوسرا وتر کا زاویہ لیے ہوئے ہے۔ شمال کی سمت مشرقی اور مغربی دیواروں کا نقطہٴ اتصال ہے اور کوئی دیوار نہیں۔ ان پانچ دیواروں کے گرد وہ گوشہ اورسبز جالی ہے جو ہر زائر کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتی ہے۔
اس کی لمبائی جنوب یا قبلے کی سمت سے شمال تک تقریباً سولہ میٹر اور مشرق سے مغرب (ریاض الجنّہ) تک تقریباً پندرہ میٹر ہے۔ اس جالی میں چار دروازے ہیں جو شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں ہیں۔ مشرقی دروازے کے علاوہ باقی تینوں دروازے بند رکھے جاتے ہیں۔مشرقی دروازہ بھی اسی وقت کھولا جاتا ہے،جب کسی خصوصی مہمان یا وفد کو اندر لے جانا ہو۔ یہ خصوصی مہمان سبز جالی کے اندر داخل ہوجاتے ہیں، لیکن اس مہر بند بیرونی ”پانچ دیواری“ کے اندر نہیں جاسکتے،
جس کی اولین تعمیر حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمتہ اللہ نے سوا تیرہ صدی قبل کرائی تھی اور ظاہر ہے کہ اس اندرونی مہر بند ”چار دیواری“ کے اندر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جس میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرما ہیں۔ اس مقدس اور قدیم چار دیواری کے اوپر ایک چھوٹا گنبد اور اس چھوٹے گنبد کے اوپر وہ بڑا سبز گنبد ہے جو۱۲۵۳ھ (مطابق ۱۸۳۷ء) سے اپنے رنگ کی نسبت سے، دنیا بھر میں ”گنبدِ خضرا“ کے نام سے مشہور ہے۔ ان دونوں گنبدوں میں، قبلے یعنی جنوب کی جانب، ایک دوسرے کے متوازی، ایک ایک سوراخ اس طرح رکھا گیا ہے کہ جب سورج کی کرنیں گنبدِ خضرا کے سوراخ پر پڑتی ہیں، تو وہ اندرونی گنبد کے متوازی سوراخ سے ہوتی ہوئی روضہٴ اقدس میں بھی پہنچتی ہیں اور جب تیز بارش ہوتی ہے، تو وہ بھی اس طرح روضے میں پہنچتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی
رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے باہر شمال کی سمت میں واقع کھلی جگہ میں نمازِتہجد ادا کی ہے۔ یہاں ایک محراب ہے جو ”محرابِ تہجد“ کہلاتی ہے لیکن سبز جالیوں سے نظر نہیںآ تی۔ اس کے آگے آج ایک پتلا سا چبوترہ بنا ہوا ہے جس کے سامنے پیتل کی ایک دیدہ زیب منقش جالی نصب ہے۔ چبوترے پر ایک لمبی اور اونچی الماری ہے جس میں قرآن کے سیکڑوں نسخے رکھے ہیں۔ اس پیتل کی جالی کے سامنے وہ گزرگاہ ہے جو مشرق کی سمت باب جبریل اور مغرب کی سمت ریاض الجنّہ کی طرف جاتی ہے۔ اگر آپ باب جبریل سے مسجدِ نبوی میں داخل ہوں، جو ہر زائر کی ترجیح ہوتی ہے، چند گز بعد آپ کے بائیں جانب پیتل کی منقش جالی اور دائیں جانب قالینوں سے مزیّن ایک بڑا سا چبوترہ ہے،
جسے اکثر زائرین غلطی سے ”اہل صفّہ“ کا چبوترہ سمجھ کر، اس پر جگہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ اصحاب رضی اللہ تعالی عنہ صفّہ کے قیام کا وہ مقام جہاں دور رسالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساٹھ ستّر اصحاب رضی اللہ تعالی عنہ بیک وقت قیام کرتے تھے، یہ نہیں ہے۔ ”اہل صفّہ“ کی جگہ موجودہ چبوترے سے خاصی آگے مغرب کی جانب تھی۔ اگر آپ ”اسطوانہٴ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا“ سے شمال کی سمت یعنی قبلے کے مخالف رخ چلیں تو پانچواں ستون آج جہاں ہے، وہاں ۷ ھ سے پہلے اصحابِ صفّہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چبوترہ اور سائبان ہوتا تھا۔ ۷ ھ سے قبل مسجد نبوی کی شمال مغربی حد بھی یہیں تک تھی۔ موجودہ چبوترہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکے وصال کے تقریباً ساڑھے پانچ صدیوں بعد، بالفاظ دیگر آج سے تقریباً ساڑھے آٹھ سوسال قبل، مصر اور شام کے حکمراں سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللہ نے ۵۵۷ھ (مطابق۱۱۶۲ء) میں اس سنگین واقعے کے بعد بنوایا، جس کا ذکر اگلی سطور میں ہے۔ یہ چبوترہ مسجد نبوی کے خادموں اور محافظوں کے بیٹھنے کے لیے بنوایا گیا تھا اور اب یہاں زائرین کی نشست ہوتی ہے۔
مذکورہ بالاسنہ یعنی ۵۵۷ھ میں، وہ افسوس ناک اور سنگین واقعہ پیش آیا جب مراکش کے دو عیسائیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکے جسد اطہر کو نکالنے کی ناپاک اور ناکام کوشش کی۔ اس کا ذکر مدینے کی مشہور اور مختصر تاریخ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علّامہ نور الدین ابو الحسن سمہودیرحمتہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ”ایک رات، نمازِ تہجّد کے بعد، سلطان نور الدین زنگیرحمتہ اللہ نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔ سلطان ہڑبڑا کر اٹھا، وضو کیا، نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوبارہ وہی خواب دیکھا۔ اٹھا وضو کیا۔ نفل پڑھے اور سوگیا۔ تیسری بار وہی خواب دیکھا۔اب اس کی نیند اڑ گئی۔اس نے رات کو ہی اپنے مشیر جمال الدین موصلی کو بلاکر پورا واقعہ سنایا۔ مشیر نے کہا: ”سلطان یہ خواب تین بار دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟
اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینے روانہ ہوجائیں۔“ اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینے کے لیے کوچ کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا۔ سلطان نے روضہٴ رسول پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا۔اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا، لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔سلطان نے حاضرین سے پوچھا: ”کیا مدینے کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟“ جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا: ”کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟“ اس بار حاضرین نے کہا: ”سوائے دو آدمیوں کے“۔
راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔ سلطان نے پوچھا: ”وہ کون ہیں؟
اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے؟“ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔سلطان نے کہا: ”سبحان اللہ“ اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا: ”الحمدللہ، ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔“ جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی، تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا : ”تم کون ہو؟“ یہاں کیوں آئے ہو؟“
انہوں نے کہا، ”ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔“ سلطان نے سختی سے کہا: ”کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟“
اب وہ چپ رہے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا: ”یہ کہاں رہ رہے ہیں؟“ بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں (جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا) سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں، اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا: ”کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟“
ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ عیسائی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم اکا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے، انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا، وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کردیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے، جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آگیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔ سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللہ نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے۔ روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے، تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ ۵۵۷ھ (مطابق ۱۱۶۲ء) کا ہے۔
تین صدیوں بعد ۸۸۱ھ (مطابق۷۶،۱۴۷۷ء) میں، حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کی چار دیواری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کی بنوائی ہوئی ”پانچ دیواری“ دونوں کی ازسرنو تعمیر کی ضرورت پڑ گئی۔ تاریخِ مدینہ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علامہ سمہودی کو تعمیر نو کے اس کام میں رضا کارانہ طور پر حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں: ۱۴ شعبان ۸۸۱ھ (مطابق ۲ دسمبر ۷۶،۱۴۷۷ء) کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چناں چہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں پچھلی طرف (یعنی شمالی سمت سے جو قبلے کے مخالف سمت ہے) سے داخل ہوا۔خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اللہا اورآپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ میں تعمیر نو کے کام میں مشغول ہوگیا
جو (سات ہفتوں میں) سات شوال ۸۸۱ھ (مطابق۲۳ جنوری۱۴۷۷ء) کو مکمل ہوا۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔ آج کل بعض لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی شبیہ دکھاتے ہیں یا اس کی طباعت، اشاعت اور تشہیر کرتے ہیں۔ ان تصویروں پر کچھ لکھا نہیں ہوتا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ پچھلی صدی میں لیا ہوا فوٹو ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ صدیوں قبل کے کسی مصور کی نقاشی کا شکار ہے۔ بات افراد تک محدود نہیں بلکہ بعض اوقات اخبارات بھی، پوری نیک نیتی سے، یہ تصاویر چھاپ دیتے ہیں۔
عقیدت مند مسلمان یہ تصاویر احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں دیدہ زیب فریموں میں لگا کر کسی اونچی یا مرکزی جگہ پر رکھا، یا لٹکایا جاتا ہے۔ بعض عقیدت مند، جن میں بعض بہت تعلیم یافتہ اشخاص بھی شامل ہوتے ہیں، ان تصاویر کا عقیدت سے بوسہ لیتے ہیں، انہیں آنکھوں سے لگاتے اور سر پر رکھتے ہیں۔ اب تک یہ کام خاموشی سے اور محدود پیمانے پر ہوتا رہا۔ انٹرنیٹ کے بعد ان تصاویر کی تشہیر و اشاعت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوسکتا ہے اور اب اگر کوئی چاہے تو یہ کروڑوں گھروں میں ایک ساتھ ایک لمحے میں پہنچ سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ زیادہ تر اس نوجوان نسل کے زیر استعمال ہے جسے ان حقائق کا علم نہیں جو اس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ نوجوان ان تصاویر پر آسانی سے یقین کرلیں گے۔
ان جعلی تصاویر یا نقاشی کے شاہکاروں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر سطح زمین سے کافی اونچی دکھائی دیتی ہے۔ اس پر ایک چادر تنی ہوئی ہے۔ اور سرہانے عمامہ نظر آتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جن مہر بند دیواروں کے اندر کوئی انسان پانچ صدیوں سے داخل نہ ہوا ہو، وہاں کسی قبر کا فوٹو کیسے لیا جاسکتا ہے؟
علاوہ ازیں کیمرے کی ایجاد ۱۸۲۰ء سے ۱۸۳۰ء کے عشرے میں دو فرانسیسی موجدوں نے کی، گویا کیمرہ ایجاد ہوئے ابھی پوری دو صدیاں بھی نہیں گزریں۔ جہاں تک مصوری کا تعلق ہے تو اولاً نقاشی کے ان شاہکاروں پر نہ مصور کا نام درج ہوتا ہے اور نہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی شبیہ ہے۔ ثانیا خواہ پہلی صدی ہجری ہو یا نویں صدی ہجری، ان قبروں کو جب بھی دیکھا گیا، وہ سطح زمین سے بلند تھیں، نہ پکی تھیں، نہ ان کے گرد کوئی کٹہرا تھا، نہ ان کے اوپر کوئی چادر تھی اور نہ ان کے سرہانے کوئی عمامہ تھا۔
اکیسویں صدی عیسویں میں، جہاں ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے سچائی کا علم ہو، وہاں اس کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ جھوٹ کو رد کرے۔ غلط فہمی دور کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی غلط بیانی۔ اگر فہم یا بیان کی ان غلطیوں کا تعلق اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہو تو ہر مسلمان کا، انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے، یہ دہرا فرض بنتا ہے کہ وہ سچ کا بلا تاخیر اظہار کرے اور اس کی حسب توفیق تشہیر و اشاعت کرے۔
زوجہٴ محترمہ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہٴ مبارک تھا۔
اس کی لمبائی تقریباً ۱۶ فٹ اور چوڑائی ۱۲ فٹ تھی۔ آج کے کمروں کی لمبائی چوڑائی بھی عموماً یہی ہوتی ہے۔
فرق یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں ایسے کمرے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں، جن کے ساتھ غسل خانہ ، باورچی خانہ اورکھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور مہمانوں کے لیے الگ جگہیں بھی ہوتی ہیں۔ آئندہ سطور پڑھتے وقت یہ خیال رہے کہ مدینے میں قبلے کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ رسول کریم اکی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ ،آپ کی زوجہٴ محترمہ حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے ساتھ،اس کے شمال کی سمت میں تھا۔ان دونوں حجروں کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے۔ اب یہ دونوں گنبد خضرا کے سائے تلے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے مشرق اور اس سے متصل، رسول کریم اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری زوجہٴ محترمہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ تھا۔ مسجد نبوی کی تعمیر سے فارغ ہوتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انے ان دونوں کو بیک وقت اور ایک ہی طرز پر تعمیر کرایا تھا۔ محل وقوع کو مزید سمجھنے کے لیے یاد رہے کہ مسجد نبوی کے مشرق میں جنّت البقیع ہے۔حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے جنوب، یعنی قبلے کی سمت اور حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے سے گز بھر آگے، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ تھا۔ پچھلے چودہ سو برسوں کے دوران جب اربوں کلمہ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبراطہر کے سامنے کھڑے ہوکر، گداز دل اور تر آنکھوں سے، آپ پر درود و سلام بھیجتے رہے ہیں تو ان میں سے بیش تر کو یہ علم نہ ہوگا کہ وہ جہاں کھڑے ہیں، وہ جگہ چالیس برس سے زیادہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا
کی رہائش گاہ کا ایک حصہ رہی ہے۔ حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجروں کے درمیان ایک انتہائی تنگ گلی تھی، جس میں ایک وقت میں ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا۔ حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اپنے اپنے حجروں میں بیٹھی ہوئی ایک دوسرے سے باتیں کرلیا کرتی تھیں۔ حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
میں سے حضرت سودہ
رضی اللہ تعالی عنہا
، حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے علاوہ صرف ایک اور حجرے کا صحیح محل وقوع معلوم ہے۔ اس میں آپ کی پانچویں بیوی حضرت زینب بنتِ خزیمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
صرف چند ماہ رہیں۔ جب ا ن کا انتقال ہوگیا تو آپ انے حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
سے شادی کی، جو اگلے چھپّن برس یہاں رہائش پزیر رہیں۔ ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
میں سے حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا انتقال سب سے آخر میں ہوا۔ حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے بعد، شمال کی جانب، پانچ مزید حجرات تقریباً ایک قطار میں، وقتاً فوقتاً بنتے گئے، جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پانچ دیگر ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
کی رہائش گاہیں تھیں۔ بالائی سطور سے یہ نقشہ سامنے آتا ہے کہ مسجد نبوی کے مشرق میں، قبلے یا جنوب کی سمت، سب سے پہلا حجرہ حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا،اس کے نیچے یا شمال میں، دو دو حجروں کی دو قطاریں تھیں۔ پہلی قطار میں مغرب، یا مسجد نبوی کی جانب پہلا حجرہ حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا، جو حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے تقریباً سامنے تھا، دوسرا حضرت سودہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا، جو حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے سے متصل، مشرق یعنی جنت البقیع کی جانب تھا، دوسری قطار میں، مغرب یعنی مسجد نبوی کی جانب پہلا حجرہ حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت علی
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا، جو حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے متصل تھا اور اس کا دروازہ بھی حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کی طرح، مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے ساتھ دوسرا حجرہ حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا تھا، جو حضرت سودہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے مشرق یا جنّت البقیع کی جانب تھا۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ زمین کا وہ خوش نصیب ٹکڑا جسے آج گنبدِ خضرا نے ڈھانپ رکھا ہے، سوا چودہ صدیوں پہلے، حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
، حضرت سودہ
رضی اللہ تعالی عنہا
، حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
، حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجروں اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے ایک حصے کی جگہ تھا ۔حضرت امّ سلمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے نیچے یا شمال کے رخ پراس طرح کے پانچ اور حجرے تھے، جو دوسری ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
کی رہائش گاہیں تھیں۔ یہ تھے دو دو سو مربع فٹ کے وہ نو حجرے جن میں اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دس سال یہاں گزارے۔ یہ تھیں وہ اقامت گاہیں، جن میں آپ سوئے، اٹھے، بیٹھے، محو گفتگو اور سجدہ ریز ہوئے۔ ان میں سے بعض میں آپ پر وحی اتری اور ان میں سے ایک میں آپ دنیا سے رخصت ہوئے اور اب آرام فرما ہیں۔
جب کوئی زائر مسجدِ نبوی میں، ریاض الجنّہ کے قریب، جنوب کی جانب جالیوں کی وسطی جالی میں نصب، تین گول دائروں میں سے پہلے گول دائرے کے بالمقابل کھڑا ہوتا ہے تو اس کے اور رسول کریم اکے درمیان، ظاہری طور پر صرف چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس جانب کی جالیوں کے پیچھے، سب سے پہلے حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کا ایک حصہ ہے اور پھر گز بھر چوڑی وہ گلی جو کبھی حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
اور حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجروں کے درمیان ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ ہے، جس میں جنوب مغرب یا قبلے اور ریاض الجنّہ کی اطراف سے پہلی قبر رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔ اس سے ذرا نیچے یا شمال کی جانب پہلے آپ کے خسر اور خلیفہٴ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ
اور اس کے بعد ذرا نیچے آپ کے دوسرے خسر اور خلیفہٴ دوم، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی قبریں ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مغرب یعنی مسجد نبوی کی طرف، پاؤں مشرق یا جنت البقیع کی طرف اور چہرہٴ انور کا رخ قبلے یا جنوب کی طرف ہے۔ تدفین کے وقت یہی ترتیب آپ کے ان دو اصحاب کی رکھی گئی جو زندگی میں بھی آپ کے ساتھی تھے اور اب بھی آپ کے ساتھ آرام فرما ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے (اور بعض روایات کے مطابق کندھے) کے سامنے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کا سر، اور حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے سینے (اور بعض روایات کے مطابق کندھے) کے سامنے حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کا سر ہے۔ یہ تینوں قبریں تقریباً مربع شکل کی ایک مہر بند چار دیواری میں ہیں
جو کبھی حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کا حجرہ تھا، اس چار دیواری کے گرد ایک ”پانچ دیواری“ ہے۔ اس پانچ دیواروں والے کمرے کو ہی آج کل ”حجرہ شریفہ“ کہا جاتا ہے۔ یہ ”پانچ دیواری“ بھی مہر بند ہے اور اس کے اوپر سبز غلاف چڑھا ہوا ہے۔ اس ”پانچ دیواری“ کی تفصیلات اگلی سطور میں دی گئی ہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا ضروری ہے کہ تین گول دائروں والی جالی کے اندر سے زائر کو جو نظر آتا ہے، وہ اس ”پانچ دیواری“ کا جنوبی یا قبلے کے رخ والا حصہ ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکے وصال کے تقریباً اسّی برس بعد، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں مدینے کے گورنر حضرت عمر بن عبدالعزیزرضی اللہ تعالی عنہ کو مسجد نبوی کی مزید توسیع کا حکم دیاگیا۔ مسجدِ نبوی کا رقبہ، جس میں پہلی توسیع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری توسیع خلیفہٴ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور تیسری توسیع خلیفہٴ سوم حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کرائی تھی، اب اسلامی مملکت کے محیّر العقل پھیلاؤ اور مسلمانوں کی آبادی میں کثرت کے باعث یہ چھوٹا پڑ گیا تھا۔یہ بات تقریباً ۹۱ھ (مطابق (۷۱۰ء) کی ہورہی ہے۔ اس وقت تک تمام ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالی عنہا
وفات پاچکی تھیں۔ خلیفہ کی ہدایت پر حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے علاوہ باقی تمام حجرات گرا کر، ان کی زمین مسجد نبوی کی توسیع کے لیے استعمال کی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ جس روز یہ تقریباً سو سال قدیم حجرے گرائے گئے، اس دن مدینے میں ہر آنکھ اشک بار تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے اور مدتوں کہتے رہے کہ یہ حجرے جوں کے توں رہنے چاہیے تھے،تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہوتا کہ ان کے آقا اور مولا نے اپنی زندگی کے آخری دس برس فقیرانہ شان سے گزارے، حالاں کہ فتح خیبر کے بعد اگر آپ اچاہتے تو اپنے، اپنی بیٹی اور بیویوں کے لیے پختہ وسیع اور آرام دہ مکانات بنوا سکتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمتہ اللہ
نے حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کی چار دیواری کی ازسرنو تعمیر کی اور اس کے بعد، اس کے گرد، تقریباً سات میٹر، یا ساڑھے سات گز، اونچی ایک بیرونی دیوار کا بھی اضافہ کیا۔ تعمیر نو اور توسیع کے دوران جب یہ حجرے گرائے گئے تو مدینے کی ایک بھیگی رات میں جو کچھ بیتی، وہ ایک معاصر عبداللہ بن محمد بن عقیل کی زبانی سنیے
:
”اس رات مدینے میں بارش ہورہی تھی۔ میرا معمول تھا کہ رات کے آخری پہر مسجدِ نبوی میں حاضری دیتا۔ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا اور پھر نماز فجر تک مسجدِ نبوی میں رہتا۔ اس رات بھی میں حسب معمول نکلا۔ ابھی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان تک پہنچا تھا (جو جنت البقیع کے بالکل پاس تھا) کہ اچانک ایسی خوش بو آئی جو میں نے کبھی محسوس نہ کی تھی۔ مسجدِ نبوی پہنچا تو دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی کوٹھڑی کی ایک دیوار (مشرقی دیوار جو جنت البقیع کی جانب ہے) گری ہوئی ہے۔ میں اندر گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں درود وسلام پیش کیا۔ ابھی وہیں تھا کہ مدینے کے گورنر حضرت عمر بن عبدالعزیزآ گے۔ ان کے حکم پر کوٹھڑی کو ایک بڑے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ علی الصباح مستری کو کوٹھڑی کے اندر جانے کے لیے کہا گیا۔ اس نے کہا کہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی چلے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزآ گے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے ساتھ دو اور حضرات بھی تیار ہوگئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزآ گے نے یہ دیکھا تو کہا کہ ہمیں اس مقدس مقام کے مکینوں کے سکون میں خلل اندازی سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے صرف اپنے آزاد کردہ غلام مزاحم کو اندر جانے کے لیے کہا۔ جس نے بعد میں بتایا کہ پہلی قبر دوسری دو قبروں کے مقابلے میں تھوڑی سی نیچی تھی۔“
اس واقعے کے کم از کم ۳۵ برس قبل، حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہا
کے ایک پوتے نے جب اپنی پھوپھی حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کی زندگی میں یہ تینوں قبریں دیکھیں تو وہ سطح زمین سے نہ بہت بلند تھیں اور نہ زمین کے ساتھ لگی تھیں۔ تینوں پر سرخ مٹی نظر آرہی تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمتہ اللہ کے ایک اور ہم عصر کا بیان ہے کہ انہوں نے جب یہ تینوں قبریں دیکھیں تو وہ سطح زمین سے تقریباً چار انچ اوپر تھیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمتہ اللہ نے حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے گرد جو چار دیواری کھنچوائی،اس میں سیاہ رنگ کے ویسے ہی پتھر استعمال کیے گئے، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں ہیں۔ اس کی تصدیق صدیوں بعد ان لوگوں نے کی، جنہیں مرمّت کے دوران یہ مہر بند چوکور کمرہ دیکھنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس چار دیواری کے گرد ”پانچ دیواری“ بنوانے کا ایک مقصد یہ تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخری آرام گاہ کا طرزِ تعمیر اللہ کے گھر کے طرزِ تعمیر سے مختلف رہے جو چار دیواروں پر مشتمل ہے۔ اس پانچ دیواری کا نقشہ کچھ یوں ہے کہ جب آپ تین گول دائروں والی جالی کے سامنے کھڑے ہوں تو جالیوں کے درمیان میں سے آپ کو جو نظر آتا ہے، وہ حضرت عمر بن رحمتہ اللہ کی بنوائی ہوئی بیرونی دیوار کا جنوبی حصہ ہے، جو ساڑھے آٹھ میٹر لمبا اور خط مستقیم میں ہے۔ جالیوں میں سے آپ کو عربی تحریر سے مزیّن جو سبز کپڑا اندر نظر آئے گا، وہ حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمتہ اللہ کی بنوائی ہوئی بیرونی دیوار کے جنوبی حصے پر چڑھا ہوا ہے، نہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرے کی دیوار پر۔مشرق میں، یا جنّت البقیع کی جانب، بیرونی دیوار (جو ظاہر ہے کہ سبز جالیوں کے اندر ہے) خط مستقیم میں نہیں، بلکہ دو حصوں میں ہے۔ جنوب (یا قبلے کی جانب) سے شمال کو جاتے ہوئے، بیرونی دیوار کا ایک حصہ، جو تقریباً چھے میٹر لمبا ہے، خط مستقیم میں ہے، لیکن آگے جاکر اس دیوار کا دوسرا حصہ وتر کا زاویہ بناتا ہوا شمال مغرب کی سمت مڑ جاتا ہے۔
اس دوسرے حصے کی لمبائی تقریباً سات میٹر ہے۔ اسی طرح مغرب یا ریاض الجنّہ کی جانب بھی بیرونی دیوار خط مستقیم میں نہیں۔ ریاض الجنّہ میں جنوب سے شمال کو جاتے ہوئے، سبز جالیوں میں تین ستونوں کے نام نظر آئیں گے جو بالترتیب ”السّریر“ ”الحرس“ اور ”الوفود“ ہیں۔ السّریر سے الوفود کو جاتے ہوئے، سبز جالیوں کے اندر، بیرونی دیوار کا ایک حصہ، جو تقریباً آٹھ میٹر لمبا ہے، خط مستقیم میں ہے، لیکن آگے جاکر اسی دیوار کا دوسرا حصہ، جس کی لمبائی چھ میٹر ہے، وتر کا زاویہ بناتے ہوئے، شمال مشرق کی طرف مڑ جاتا ہے اور پھر شمال میں اپنے بالمقابل دیوار سے مل جاتا ہے۔ اس طرح بیرونی دیوار کی مجموعی لمبائی ساڑھے پینتیس میٹر ہے۔ قبلے یعنی جنوب کی جانب ساڑھے آٹھ میٹر لمبی دیوار خط مستقیم میں ہے۔ مشرق اور مغرب کی سمت یہ دیوار دو حصوں میں منقسم ہے۔ جنوب سے شمال کو جاتے ہوئے ان دیواروں کا ایک حصہ خط مستقیم میں اور دوسرا وتر کا زاویہ لیے ہوئے ہے۔ شمال کی سمت مشرقی اور مغربی دیواروں کا نقطہٴ اتصال ہے اور کوئی دیوار نہیں۔ ان پانچ دیواروں کے گرد وہ گوشہ اورسبز جالی ہے جو ہر زائر کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتی ہے۔
اس کی لمبائی جنوب یا قبلے کی سمت سے شمال تک تقریباً سولہ میٹر اور مشرق سے مغرب (ریاض الجنّہ) تک تقریباً پندرہ میٹر ہے۔ اس جالی میں چار دروازے ہیں جو شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں ہیں۔ مشرقی دروازے کے علاوہ باقی تینوں دروازے بند رکھے جاتے ہیں۔مشرقی دروازہ بھی اسی وقت کھولا جاتا ہے،جب کسی خصوصی مہمان یا وفد کو اندر لے جانا ہو۔ یہ خصوصی مہمان سبز جالی کے اندر داخل ہوجاتے ہیں، لیکن اس مہر بند بیرونی ”پانچ دیواری“ کے اندر نہیں جاسکتے،
جس کی اولین تعمیر حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمتہ اللہ نے سوا تیرہ صدی قبل کرائی تھی اور ظاہر ہے کہ اس اندرونی مہر بند ”چار دیواری“ کے اندر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جس میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرما ہیں۔ اس مقدس اور قدیم چار دیواری کے اوپر ایک چھوٹا گنبد اور اس چھوٹے گنبد کے اوپر وہ بڑا سبز گنبد ہے جو۱۲۵۳ھ (مطابق ۱۸۳۷ء) سے اپنے رنگ کی نسبت سے، دنیا بھر میں ”گنبدِ خضرا“ کے نام سے مشہور ہے۔ ان دونوں گنبدوں میں، قبلے یعنی جنوب کی جانب، ایک دوسرے کے متوازی، ایک ایک سوراخ اس طرح رکھا گیا ہے کہ جب سورج کی کرنیں گنبدِ خضرا کے سوراخ پر پڑتی ہیں، تو وہ اندرونی گنبد کے متوازی سوراخ سے ہوتی ہوئی روضہٴ اقدس میں بھی پہنچتی ہیں اور جب تیز بارش ہوتی ہے، تو وہ بھی اس طرح روضے میں پہنچتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی
رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کے باہر شمال کی سمت میں واقع کھلی جگہ میں نمازِتہجد ادا کی ہے۔ یہاں ایک محراب ہے جو ”محرابِ تہجد“ کہلاتی ہے لیکن سبز جالیوں سے نظر نہیںآ تی۔ اس کے آگے آج ایک پتلا سا چبوترہ بنا ہوا ہے جس کے سامنے پیتل کی ایک دیدہ زیب منقش جالی نصب ہے۔ چبوترے پر ایک لمبی اور اونچی الماری ہے جس میں قرآن کے سیکڑوں نسخے رکھے ہیں۔ اس پیتل کی جالی کے سامنے وہ گزرگاہ ہے جو مشرق کی سمت باب جبریل اور مغرب کی سمت ریاض الجنّہ کی طرف جاتی ہے۔ اگر آپ باب جبریل سے مسجدِ نبوی میں داخل ہوں، جو ہر زائر کی ترجیح ہوتی ہے، چند گز بعد آپ کے بائیں جانب پیتل کی منقش جالی اور دائیں جانب قالینوں سے مزیّن ایک بڑا سا چبوترہ ہے،
جسے اکثر زائرین غلطی سے ”اہل صفّہ“ کا چبوترہ سمجھ کر، اس پر جگہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ اصحاب رضی اللہ تعالی عنہ صفّہ کے قیام کا وہ مقام جہاں دور رسالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساٹھ ستّر اصحاب رضی اللہ تعالی عنہ بیک وقت قیام کرتے تھے، یہ نہیں ہے۔ ”اہل صفّہ“ کی جگہ موجودہ چبوترے سے خاصی آگے مغرب کی جانب تھی۔ اگر آپ ”اسطوانہٴ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا“ سے شمال کی سمت یعنی قبلے کے مخالف رخ چلیں تو پانچواں ستون آج جہاں ہے، وہاں ۷ ھ سے پہلے اصحابِ صفّہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چبوترہ اور سائبان ہوتا تھا۔ ۷ ھ سے قبل مسجد نبوی کی شمال مغربی حد بھی یہیں تک تھی۔ موجودہ چبوترہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکے وصال کے تقریباً ساڑھے پانچ صدیوں بعد، بالفاظ دیگر آج سے تقریباً ساڑھے آٹھ سوسال قبل، مصر اور شام کے حکمراں سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللہ نے ۵۵۷ھ (مطابق۱۱۶۲ء) میں اس سنگین واقعے کے بعد بنوایا، جس کا ذکر اگلی سطور میں ہے۔ یہ چبوترہ مسجد نبوی کے خادموں اور محافظوں کے بیٹھنے کے لیے بنوایا گیا تھا اور اب یہاں زائرین کی نشست ہوتی ہے۔
مذکورہ بالاسنہ یعنی ۵۵۷ھ میں، وہ افسوس ناک اور سنگین واقعہ پیش آیا جب مراکش کے دو عیسائیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکے جسد اطہر کو نکالنے کی ناپاک اور ناکام کوشش کی۔ اس کا ذکر مدینے کی مشہور اور مختصر تاریخ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علّامہ نور الدین ابو الحسن سمہودیرحمتہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ”ایک رات، نمازِ تہجّد کے بعد، سلطان نور الدین زنگیرحمتہ اللہ نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔ سلطان ہڑبڑا کر اٹھا، وضو کیا، نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوبارہ وہی خواب دیکھا۔ اٹھا وضو کیا۔ نفل پڑھے اور سوگیا۔ تیسری بار وہی خواب دیکھا۔اب اس کی نیند اڑ گئی۔اس نے رات کو ہی اپنے مشیر جمال الدین موصلی کو بلاکر پورا واقعہ سنایا۔ مشیر نے کہا: ”سلطان یہ خواب تین بار دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟
اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینے روانہ ہوجائیں۔“ اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینے کے لیے کوچ کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا۔ سلطان نے روضہٴ رسول پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا۔اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا، لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔سلطان نے حاضرین سے پوچھا: ”کیا مدینے کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟“ جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا: ”کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟“ اس بار حاضرین نے کہا: ”سوائے دو آدمیوں کے“۔
راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔ سلطان نے پوچھا: ”وہ کون ہیں؟
اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے؟“ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔سلطان نے کہا: ”سبحان اللہ“ اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا: ”الحمدللہ، ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔“ جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی، تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا : ”تم کون ہو؟“ یہاں کیوں آئے ہو؟“
انہوں نے کہا، ”ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔“ سلطان نے سختی سے کہا: ”کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟“
اب وہ چپ رہے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا: ”یہ کہاں رہ رہے ہیں؟“ بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں (جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا) سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں، اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا: ”کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟“
ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ عیسائی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم اکا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے، انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا، وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کردیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے، جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آگیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔ سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللہ نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے۔ روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے، تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ ۵۵۷ھ (مطابق ۱۱۶۲ء) کا ہے۔
تین صدیوں بعد ۸۸۱ھ (مطابق۷۶،۱۴۷۷ء) میں، حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا
کے حجرے کی چار دیواری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کی بنوائی ہوئی ”پانچ دیواری“ دونوں کی ازسرنو تعمیر کی ضرورت پڑ گئی۔ تاریخِ مدینہ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علامہ سمہودی کو تعمیر نو کے اس کام میں رضا کارانہ طور پر حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں: ۱۴ شعبان ۸۸۱ھ (مطابق ۲ دسمبر ۷۶،۱۴۷۷ء) کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چناں چہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں پچھلی طرف (یعنی شمالی سمت سے جو قبلے کے مخالف سمت ہے) سے داخل ہوا۔خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اللہا اورآپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ میں تعمیر نو کے کام میں مشغول ہوگیا
جو (سات ہفتوں میں) سات شوال ۸۸۱ھ (مطابق۲۳ جنوری۱۴۷۷ء) کو مکمل ہوا۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔ آج کل بعض لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی شبیہ دکھاتے ہیں یا اس کی طباعت، اشاعت اور تشہیر کرتے ہیں۔ ان تصویروں پر کچھ لکھا نہیں ہوتا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ پچھلی صدی میں لیا ہوا فوٹو ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ صدیوں قبل کے کسی مصور کی نقاشی کا شکار ہے۔ بات افراد تک محدود نہیں بلکہ بعض اوقات اخبارات بھی، پوری نیک نیتی سے، یہ تصاویر چھاپ دیتے ہیں۔
عقیدت مند مسلمان یہ تصاویر احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں دیدہ زیب فریموں میں لگا کر کسی اونچی یا مرکزی جگہ پر رکھا، یا لٹکایا جاتا ہے۔ بعض عقیدت مند، جن میں بعض بہت تعلیم یافتہ اشخاص بھی شامل ہوتے ہیں، ان تصاویر کا عقیدت سے بوسہ لیتے ہیں، انہیں آنکھوں سے لگاتے اور سر پر رکھتے ہیں۔ اب تک یہ کام خاموشی سے اور محدود پیمانے پر ہوتا رہا۔ انٹرنیٹ کے بعد ان تصاویر کی تشہیر و اشاعت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوسکتا ہے اور اب اگر کوئی چاہے تو یہ کروڑوں گھروں میں ایک ساتھ ایک لمحے میں پہنچ سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ زیادہ تر اس نوجوان نسل کے زیر استعمال ہے جسے ان حقائق کا علم نہیں جو اس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ نوجوان ان تصاویر پر آسانی سے یقین کرلیں گے۔
ان جعلی تصاویر یا نقاشی کے شاہکاروں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر سطح زمین سے کافی اونچی دکھائی دیتی ہے۔ اس پر ایک چادر تنی ہوئی ہے۔ اور سرہانے عمامہ نظر آتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جن مہر بند دیواروں کے اندر کوئی انسان پانچ صدیوں سے داخل نہ ہوا ہو، وہاں کسی قبر کا فوٹو کیسے لیا جاسکتا ہے؟
علاوہ ازیں کیمرے کی ایجاد ۱۸۲۰ء سے ۱۸۳۰ء کے عشرے میں دو فرانسیسی موجدوں نے کی، گویا کیمرہ ایجاد ہوئے ابھی پوری دو صدیاں بھی نہیں گزریں۔ جہاں تک مصوری کا تعلق ہے تو اولاً نقاشی کے ان شاہکاروں پر نہ مصور کا نام درج ہوتا ہے اور نہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی شبیہ ہے۔ ثانیا خواہ پہلی صدی ہجری ہو یا نویں صدی ہجری، ان قبروں کو جب بھی دیکھا گیا، وہ سطح زمین سے بلند تھیں، نہ پکی تھیں، نہ ان کے گرد کوئی کٹہرا تھا، نہ ان کے اوپر کوئی چادر تھی اور نہ ان کے سرہانے کوئی عمامہ تھا۔
اکیسویں صدی عیسویں میں، جہاں ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے سچائی کا علم ہو، وہاں اس کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ جھوٹ کو رد کرے۔ غلط فہمی دور کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی غلط بیانی۔ اگر فہم یا بیان کی ان غلطیوں کا تعلق اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہو تو ہر مسلمان کا، انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے، یہ دہرا فرض بنتا ہے کہ وہ سچ کا بلا تاخیر اظہار کرے اور اس کی حسب توفیق تشہیر و اشاعت کرے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)