Pages

Sunday, July 3, 2011

ماہِ شعبان کے روزے، مسنون عمل!

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ماہِ شعبان کے کسی خاص دن کو مقرر کئے بغیر اس میں بکثرت نفلی روزے رکھتے تھے۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے

 کہ "نبی صلی اللہ علیہ و سلم (نفلی) روزے اس کثرت سے رکھتے کہ ہم کہتے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی دن کا روزہ نہیں چھوڑیں گے اور کبھی مسلسل روزے نہ رکھتے تو ہم سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی (نفلی) روزہ نہیں رکھیں گے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی بھی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے رمضان کے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو شعبان سے زیادہ کسی ماہ کے روزے (نفلی) رکھتے نہیں دیکھا" (بخاری، مسلم)۔

اس موضوع کی احادیث صحاح و سنن میں بکثرت ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہہ سے بھی مروی ہے کہ

 "نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے روزے کبھی بھی پورے نہیں رکھے" ایسی ہی دوسری احادیث کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حسبِ موقع اور حسبِ فرصت کبھی مسلسل روزے رکھتے چلے جاتے اور کبھی مسلسل چھوڑتے ہی چلے جاتے جبکہ ہر ماہ کے ایامِ بیض یعنی چاند کی 13، 14، 15 تاریخ کے اور ہر ہفتہ میں پیر اور جمعرات کے روزے بھی رکھا کرتے تھے۔

ماہِ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے تو ماہِ محرم کے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں وارد ہے البتہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محرم سے بھی زیادہ شعبان کے روزے رکھے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

 کہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ماہِ محرم کے روزوں کا شعبان کے روزوں سے افضل ہونا بعد میں بتایا گیا ہو اور عمر کے آخری حصہ میں اس بات کا علم ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بکثرت روزے نہ رکھ سکے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اتفاق سے ماہِ محرم میں سفر اور مرض وغیرہ کے عذر کی وجہ سے اس کے روزوں کی کثرت نہ فرما سکے ہوں۔

 علامہ یمانی امیر صنعانی رحمۃ اللہ علیہ نے سبل السلام میں لکھا ہے "اس بات کا جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ ماہِ محرم کے روزوں کی فضیلت حرمت والے مہینوں میں سب سے زیادہ ہو، یعنی عام مہینوں‌ کی نسبت سے تو شعبان کے روزے افضل ہوں مگر حرمت والے 4 مہینے، ذوالقعدہ، ذوالحجۃ، محرم اور رجب اس سے مستثنٰی ہوں کیونکہ ان 4 مہینوں کی فضیلت ماہِ رمضان کے سوا دوسرے عام مہینوں سے ویسے ہی زیادہ ہے۔ پھر ان فضیلت والے مہینوں‌ میں سے بھی محرم کے روزے زیادہ فضیلت والے ہوں"۔

 نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ماہِ شعبان کے اکثر روزے رکھنے کی متعدد وجوہ بیان کی گئی ہیں، حتٰی کہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں، علامہ یمانی رحمۃ اللہ علیہ نے سبل السلام میں اور دیگر شارحین نے اپنی اپنی کتب میں بعض روایات بھی نقل کی ہیں، جن میں اس کا سبب بھی مذکور ہے مگر وہ چونکہ ضعیف روایات ہیں لہٰذا ان سے قطع نظر اس سلسلے میں صحیح ترین حدیث وہ ہے جو کہ ابو داؤد و نسائی اور صحیح ابنِ خذیمہ میں ہے جس میں

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! "میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ماہِ شعبان جتنے (نفلی) روزے کسی دوسرے مہینے کے رکھتے نہیں‌ دیکھا" تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "یہ ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ یہ مہینہ وہ ہے کہ جس میں لوگوں کے اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور میں‌ یہ چاہتا ہوں‌ کہ میرا یہ عمل ایسی صورت میں اٹھایا جائے کہ میں‌ روزے کی حالت میں ہوں" (فتح الباری و سبل السلام)

ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک توجیہ یہ بھی منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما ماہِ رمضان میں قضاء ہونے والے روزے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے موجود ہونے کی وجہ سے مؤخر کرتی رہتیں، حتٰی کہ شعبان آجاتا تو وہ اپنے قضاء شدہ روزے رکھتیں، ساتھ ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی نفلی روزے رکھ لیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہر سنت مبنی بر حکمت اور کسی نہ کسی برائی کو دور کرنے والی ہے۔

ماہِ شعبان کے روزے مطلق ہیں نہ خاص 15 شعبان کا روزہ کیونکہ خاص 15 شعبان کے بارے میں پائی جانے والی روایت ضعیف ہے۔ یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ 15 شعبان کے بعد نفلی روزے نہیں رکھنے چاہیئیں، جیسا کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے "جب نصف شعبان ہو جائے تو بعد میں‌ روزے نہ رکھو یہاں تک کہ ماہِ رمضان داخل نہ ہو جائے" (صحیح ابو داؤد)

"المرقاۃ" میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کے بقول، اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ شعبان کے روزے چاہے کتنے ہی فضیلت والے کیوں نہ ہوں، مگر ہیں تو نفلی جبکہ آگے رمضان المبارک کے فرض روزوں کا مہینہ ہے، لہٰذا اس کی تیاری کے لئے قوت جمع کی جائے تا کہ کہیں آدمی کمزوری و ضعف کا شکار نہ ہو جائے اور کہیں اُس مہینہ کے فرض روزوں میں قضاء کی نوبت نہ آجائے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں "شعبان میں کثرتِ صیام کی فضیلت یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کثرتِ صیام کی سنت اور نصفِ ثانی کے روزوں کی ممانعت میں کوئی تعارض و تضاد نہیں اور ان دونوں باتوں میں مطابقت پیدا کرنا ممکن ہے کہ یہ ممانعت ان لوگوں کے لئے ہے جو عموماً سال بھر کے دوران روزے رکھنے کے عادی نہ ہوں اور کسی وجہ سے شعبان کے نصفِ ثانی میں شروع کر دیں جبکہ ہر ماہ میں‌ جو شخص ایامِ بیض، ہر ہفتہ میں‌ پیر و جمعرات یا ہر دوسرے دن کا روزہ یعنی صومِ داؤدی رکھنے کا عادی ہو، اسے ان ایام میں روزے رکھنے کی بھی ممانعت نہیں‌ ہوگی لہٰذا دونوں طرح کی احادیث کا تعارض ختم ہو گیا"۔

اسی طرح ہی ماہِ رمضان سے ایا یا دو دن قبل روزہ رکھنے کی بھی ممانعت ہے (دیکھئے: بخاری، مسلم و ابی داؤد) ان 2 یا صرف ایک روزے کی ممانعت بھی اُن لوگوں کے لئے ہے جو رمضان المبارک کی "سلامی" کا روزہ شمجھ کر رکھیں اور سال بھر کے عادی روزہ دار کا چونکہ ایسی باتوں یا "سلامیوں" سے ککوئی علاقہ نہیں ہوتا، لہٰذا اس کی بات ہی الگ ہے اور خاص شعبان کی آخری تاریخ کا روزہ محض اس شک کی بنا پر رکھنا کہ شاید چاند ہو گیا ہو مگر کسی وجہ سے نظر نہ آسکا ہو لہٰذا ہم اُس دن کا روزہ رکھ لیتے ہیں، اس بات کی بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت تردید فرمائی ہے۔ شک کے دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے اور بعض صحیح احادیث کی رو سے شک کے دن کا روزہ رکھنا نہ صرف ممنوع بلکہ حرام ہے۔

(مضمون: محمد منیر قمر، بشکریہ روشنی )